فلک شیر

محفلین
میری نظروں میں ہے خس خانہ عالم جو بھی
سب تری نیم نگاہی کے اشارے تک ہے

پہلے ہم ناز اٹھاتے تھے بہت اس دل کے
لیکن اب اس کی کفالت بھی گزارے تک ہے​
 

فلک شیر

محفلین
لازم ہے کہ جاگے کبھی بچے کی طرح
یہ شہر کسی خواب سے ڈر کیوں نہیں جاتا

ملبے سے نکل آتا ہے آسیب کی مانند
لوگوں کی طرح خوف بھی مر کیوں نہیں جاتا

ملبوس سے کیوں منتِ یکجائی ہے تابش
میں ٹوٹ چکا ہوں تو بکھر کیوں نہیں جاتا​
 
کہیں لالی بھری تھالی نہ گر جائے سمندر میں
چلا ہے شام کا سورج کہاں آہستہ آہستہ


مکیں جب نیند کے سائے میں سستانے لگیں تابش
سفر کرتے ہیں بستی کے مکاں آہستہ آہستہ
آہستہ آہستہ کی تکرار مزہ دے گئی
قتیل شفائی کی یک غزل بھی شاید اسی ردیف میں ہے
ہو رہی ہے محبت تازہ دم آہستہ آہستہ
آگے یاد نہیں
 

فلک شیر

محفلین
سسک رہی ہے اگر بات لفظ کے نیچے
تو ایسا کرتے ہیں پتھر ہٹا کے دیکھتے ہیں

کسی کی راہ میں پتے بچھا رہا ہے کوئی
شجر کی اوٹ سے جھونکےہوا کے دیکھتے ہیں​
 
پیش آتے ہیں کچھ ایسے اپنی حیرانی سے ہم
آئینے کو دیکھتے ہیں خندہ پیشانی سے ہم

دل میں اک گوشہ ہمارے واسطے رکھ چھوڑنا
کیا خبر کب تنگ آ جائیں جہانبانی سے ہم

رات کو جب یاد آئے تیری خوشبوئے قبا
تیرے قصے چھیڑتے ہیں رات کی رانی سے ہم​
نغمگی اور رچاؤ کے کیا کہنے لطف آ گیا :)
 

فلک شیر

محفلین
کبھی نیندیں کبھی آنکھوں میں پانی بھیج دیتا ہے
وہ خود آتا نہیں اپنی نشانی بھیج دیتا ہے

بناتا ہے وہ کاغذ پر شجر اور بعد ازاں ان کو
مری جانب برائے باغبانی بھیج دیتا ہے
 

فلک شیر

محفلین
یہ پیڑ بھی عجب ہیں ہنستے نہیں کبھی
پھولوں کو ضبط کرتے ہیں جذبات کی طرح

شہروں سے تنگ اور ہم آہنگ بھی بہت
بالکل یہ کنجِ دل ہے مضافات کی طرح​
 

فلک شیر

محفلین
جبینِ شوق سے سجدے ٹپکنے والے تھے
سو ہم نے اپنے ہی قدموں کو بارگاہ کیا

اور اب نگاہ میں جس کو چھپائے پھرتا ہوں
اسی چراغ نے ہی آئینہ سیاہ کیا​
 

فلک شیر

محفلین
آنکھ لگتے ہی مری نیند اڑانے لگ جاتے ہیں
خواب چڑیوں کی طرح شور مچانے لگ جاتے ہیں

یہ بھی ممکن ہے کوئی روکنے والا نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے یہاں مجھ کو زمانے لگ جائیں

دیکھ اے حسنِ فراواں ! یہ بہت ممکن ہے
میرا دل تک نہ لگے تیرے خزانے لگ جائیں

کارِ دنیا بھی عجب ہے کہ مرے گھر والے
دن نکلتے ہی مری خیر منانے لگ جائیں​
 

فلک شیر

محفلین
دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتا تھا
میں اپنے ہاتھ کا تتلی پہ سایہ کرتا تھا

اگر میں پوچھتا بادل کدھر کو جاتے ہیں
جواب میں کوئی آنسو بہایا کرتا تھا

یہ چاند ضعف ہے جس کی زباں نہیں کھلتی
کبھی یہ چاند کہانی سنایا کرتا تھا

میں اپنی ٹوٹتی آواز گانٹھنے کے لئے
کہیں سے لفظ کا پیوند لایا کرتا تھا

عجیب حسرتِ پرواز مجھ میں ہوتی تھی
میں کاپیوں میں پرندے بنایا کرتا تھا

تلاشِ رزق میں بھٹکے ہوئے پرندوں کو
میں جیب خرچ سے دانہ کھلایا کرتا تھا

ہمارے گھر کے قریب ایک جھیل ہوتی تھی
اور اس میں شام کو سورج نہایا کرتا تھا

یہ زندگی تو مجھے تیرے پاس لے آئی
یہ راستہ تو کہیں اور جایا کرتا تھا​
 
Top