فلک شیر

محفلین
عباس تابش آج کی غزل کے نمائندہ شعراء میں سے ہیں۔آج ہی محمداحمد بھائی نے ان کے ایک مصاحبہ کا ربط ارسال کیا، تو سوچا کہ سال بھر قبل جو عباس تابش کی کلیات "عشق آباد" ڈھونڈی تھی، کیونکہ مدت سے شائع نہ ہوئی تھی ،اب اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئےتابش کے کلام میں سے پسندیدہ اشعار کو اکٹھا کیوں نہ کر دیا جائے۔ یہ اشعار مجھے کیوں پسند ہیں، بلکہ عباس تابش خود مجھے کیوں پسند ہے، اس کا جواب کسی اور مجلس کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ، سر دست تو یہ اشعار ، نظمیں یا خال خال مکمل غزل ہی ملاحظہ فرمائیے۔
سب سے پہلے حمدہے۔
حمدیہ
نہ صدا کا سمت کشا ہوں میں
نہ ورق پہ میرا وجود ہے
مرے حرف میں وہ چمک نہیں جو ترے خیال کی چھب میں ہے
مرا انگ کیا مرا ڈھنگ کیا
سرِ خامہ روح کادُود ہے
یہی میرا رازِ شہود ہے
میں شکست خوردہ خیال ہون مجھے آیتوں کی کمک ملے
مجھے آگہی کی چمک ملے
مجھے درسِ عبرت شوق دے
مری انگلیوں کو پکڑ کے حرفِ جنوں پہ رکھ

رہِ خواندگاں پہ مری کجی مری گمرہی کو بھی ڈال دے
نہ قلم پکڑنے کا ڈھنگ ہے نہ ورق ہے میری بساط میں
مرا منہ چڑاتی ہے لوحِ گل
ابھی وہ ورق نہیں سامنے ترا پاک نام کہاں لکھوں
کہ سپیدی صفحہ صاف کی مری آنکھوں میں ہے بھری ہوئی
جہاں کوئی سطر ہے خواب کی نہ خرام موجہِ اشک ہے
مجھے خوابِ خوش سے نواز دے کہ یہ چشمِ وا بھی عذاب ہے
میں تہی نوا
میں تہی ثنا
میں لکھوں گا کیا؟
مگر اے خدا مری پوٹلی میں جو تیرے دھیان کی جوت ہے
یہی رت جگا مرا مال ہے
یہی مال مرا کمال ہے

عباس تابش
 
آخری تدوین:

فلک شیر

محفلین
ثبت کر اور کوئی مہر مرے ہونٹوں پر
قفلِ ابجد سے نہیں بند ہوا باب مرا

جس قدر آئی فراخی مرے دل میں تابش
اتنا ہی تنگ ہوا حلقہ احباب مرا
 

فلک شیر

محفلین
پہلے تو چوپال میں اپنا جسم چٹختا رہا تھا
چل نکل جب بات سفر کی پھیل گئی اعصاب میں چپ


اب تو ہم یوں رہتے ہیں اس ہجر بھرے ویرانے میں
جیسے آنکھ میں آنسو گم ہو جیسے حرف کتاب میں چپ
 

فلک شیر

محفلین
کہیں لالی بھری تھالی نہ گر جائے سمندر میں
چلا ہے شام کا سورج کہاں آہستہ آہستہ


مکیں جب نیند کے سائے میں سستانے لگیں تابش
سفر کرتے ہیں بستی کے مکاں آہستہ آہستہ
 

فلک شیر

محفلین
قیدی بھی ہیں اس شان کے آزاد تمہارے
زنجیر کبھی زلف سے بھاری نہیں رکھتے


مصروف ہیں کچھ اتنے کہ ہم کارِ محبت
آغاز تو کر لیتے ہیں جاری نہیں رکھتے
 

فلک شیر

محفلین
ادھوری نظم

اندھیری شام کے ساتھی
ادھوری نظم سے زور آزما ہیں
برسرِ کاغذ بچھڑنے کو
سنو.......تم سے دلِ محزوں کی باتیں کہنے والوں کا
یہی انجام ہوتا ہے
کہیں سطرِ شکستہ کی طرح ہیں چار شانے چت
کہیں حرفِ تمنا کی طرح دل میں ترازو ہیں
سنو......ان نیل چشموں سخت جانوں بے زبانوں پر
جو گزرے گی سو گزرے گی
مگر میں اک ادھوری نظم کے ہیجان میں کھویا
تمہیں آواز دیتا ہوں
کہ تنہا آدمی تخلیق سے عاری ہوا کرتا ہے
جانِ من!
سنو......میرے قریب آؤ
کہ مجھ کو آج رات اک ادھوری نظم پوری کر کے سونا ہے!
 
Top