فلک شیر

محفلین
لفظوں سے چھاؤں وضع کی سطرون کو سائباں کیا
جیسے بھی ہو سکا بسر وقتِ زوالِ جاں کیا

دل کو کسی کا سامنا کرنے کی تاب ہی نہ تھی
اچھا کیا کہ آنکھ نے آنسو کو درمیاں کیا​
 

فلک شیر

محفلین
جب انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں
گلی کے لوگ مرے دل پہ چلنے لگتے ہیں

میں اس لیے بھی پرندوں سے دور بھاگتا ہوں
کہ ان میں رہ کے مرے پر نکلنے لگتے ہیں

کبھی کبھی کسی بچے کی روح آتی ہے
کبھی کبھی مرے گھر گیند اچھلنے لگتے ہیں

عجیب پیڑ ہیں ان کو حیا نہیں آتی
ہمارے سامنے کپڑے بدلنے لگتے ہیں

وہ ہاتھ ہاتھ میں آنے کی دیر ہوتی ہے
ستارے اور کسی رخ پہ چلنے لگتے ہیں

جب آسمان پہ تابش دھنک ابھرتی ہے
ہم اپنے ساتھ چھتوں پر ٹہلنے لگتے ہیں
 

فلک شیر

محفلین
جہانِ مرگِ صدا میں اک اور سلسلہ ختم ہو گیا ہے
کلامِ خدا یعنی خدا کا ہم سے مکالمہ ختم ہو گیاہے

نہ تتلیوں جیسی دوپہر ہے نہ اب وہ سورج گلاب جیسا
جسے محبت کہا گیا وہ مغالطہ ختم ہو گیاہے

اب اس لیے بھی ہمیں محبت کو طول دینا پڑے گا تابش
کسی نے پوچھا تو کیا کہیں گے کہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے​
 
آخری تدوین:
عباس تابش آج کی غزل کے نمائندہ شعراء میں سے ہیں۔آج ہی محمداحمد بھائی نے ان کے ایک مصاحبہ کا ربط ارسال کیا، تو سوچا کہ سال بھر قبل جو عباس تابش کی کلیات لاہور سے خریدی تھی، تو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پسندیدہ اشعار کو اکٹھا کیوں نہ کر دیا جائے۔ یہ اشعار مجھے کیوں پسند ہیں، بلکہ عباس تابش خود مجھے کیوں پسند ہے، اس کا جواب کسی اور مجلس کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ، سر دست تو یہ اشعار ، نظمیں یا خال خال مکمل غزل ہی ملاحظہ فرمائیے۔
سب سے پہلے حمدہے۔
حمدیہ
نہ صدا کا سمت کشا ہوں میں
نہ ورق پہ میرا وجود ہے
مرے حرف میں وہ چمک نہیں جو ترے خیال کی چھب میں ہے
مرا انگ کیا مرا ڈھنگ کیا
سرِ خامہ روح کادُود ہے
یہی میرا رازِ شہود ہے
میں شکست خوردہ خیال ہون مجھے آیتوں کی کمک ملے
مجھے آگہی کی چمک ملے
مجھے درسِ عبرت شوق دے
مری انگلیوں کو پکڑ کے حرفِ جنوں پہ رکھ

رہِ خواندگاں پہ مری کجی مری گمرہی کو بھی ڈال دے
نہ قلم پکڑنے کا ڈھنگ ہے نہ ورق ہے میری بساط میں
مرا منہ چڑاتی ہے لوحِ گل
ابھی وہ ورق نہیں سامنے ترا پاک نام کہاں لکھوں
کہ سپیدی صفحہ صاف کی مری آنکھوں میں ہے بھری ہوئی
جہاں کوئی سطر ہے خواب کی نہ خرام موجہِ اشک ہے
مجھے خوابِ خوش سے نواز دے کہ یہ چشمِ وا بھی عذاب ہے
میں تہی نوا
میں تہی ثنا
میں لکھوں گا کیا؟
مگر اے خدا مری پوٹلی میں جو تیرے دھیان کی جوت ہے
یہی رت جگا مرا مال ہے
یہی مال مرا کمال ہے

عباس تابش
بہت اعلی کلام جناب، شراکت کے لیے شکریہ
 

فلک شیر

محفلین
کیا کہیے کس حال میں جھونکوں کے منہ چومتے
گلیوں گلیوں گھومتے دن گزرا بیکار کا

مجھ ایسے آوارگاں لائے اپنے کام میں
بے چینی کی شام میں اِک چکر بازار کا​
 

فلک شیر

محفلین
عجب طرح کے لوگ ہیں کہ ٹھیک توڑتے نہیں
مگر یہ مجھ کو ڈھونڈتے ہیں کرچیوں کی طرح

مکاں کے پائیں باغ میں سبھا جمی تھی یاد کی
میں رات دیر تک رہا گئے ہوؤں کے درمیاں​
 

فلک شیر

محفلین
ترے ساحل پہ پیاسا مر رہا ہوں میں
سمندر! تیرا پانی کیا کروں میں

کوئی انجام دے آغاز جیسا
کہانی سی کہانی کیا کروں میں
 

فلک شیر

محفلین
شاخِ گریہ پہ بھی کھل اُٹھیں ترے عارض و لب
ہم غزل زاد اگر تیرا قصیدہ لکھیں

شاہ زادے! ترا کردار بدل دیں سارا
ہم اگر پانچویں درویش کا قصہ لکھیں​
 
Top