امریکہ ٹوٹ رہا ہے؟

علی خان

محفلین
اور اسلام میں خان صاحب آپ والے قرض کا تو کوئی کنسِپٹ ہی نہیں ہے۔ ہاں البتہ قرض حَسنا بالکل ہے۔ اور اسمیں یہ نہیں ہے۔ کہ پیسے کی ویلیوں زیادہ یا کم ہونے سے قرض کی مقدار کم یا زیادہ ہوگی۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے بس اصل زر ہی واپس کیا جائے گا۔

اگر کوئی شخص کسی خاص ضرورت کی وجہ سے قرض مانگتا ہے تو قرض دے کر اس کی مدد کرنا باعثِ اجروثواب ہے، جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ ضرورت کے وقت قرض مانگنا جائز ہے اور اگر کوئی شخص قرض کا طالب ہو تو اس کو قرض دینا مستحب ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ نے قرض دے کر کسی کی مدد کرنے میں دنیا وآخرت کے بہترین بدلہ کی بشارت دی ہے ، لیکن قرض دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے فائدہ کے لیے کوئی شرط نہ لگائے، مثلاً میں تمہیں قرض دیتا ہوں بشرطیکہ تم میرا فلاں کام کردو؛ البتہ قرض لیتے اور دیتے وقت ان احکام کی پابندی کریں جو سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۸۲ میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیے ہیں، یہ آیت قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے، اور اس میں قرض کے احکامات ذکر کیے گئے ہیں۔ قرآن وحدیث میں متعدد جگہوں پر محتاج لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون (الحج ۷۷)
بھلائی کے کام کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاوٴ۔
تَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ (المائدہ ۲) اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔
# رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی کوئی بھی دنیاوی پریشانی دور کی ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ جس نے کسی پریشان حال آدمی کے لیے آسانی کا سامان فراہم کیا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیاو آخرت میں سہولت کا فیصلہ فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندہ کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔ (مسلم)
# رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرضہ دیتا ہے تو ایک بار صدقہ ہوتا ہے۔ (نسائی ، ابن ماجہ)
# رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میں میں نے جنت کے دروازہ پر صدقہ کا بدلہ ۱۰ گنا اور قرضہ دینے کا بدلہ ۱۸ گنا لکھا ہوا دیکھا۔ میں نے کہا اے جبرئیل! قرض صدقہ سے بڑھ کر کیوں ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ سائل مانگتا ہے جبکہ اس کے پاس کچھ مال موجود بھی ہو، اور قرضدار ضرورت کے وقت ہی سوال کرتا ہے۔ ( ابن ماجہ)
# حضرت ابودرداء فرماتے ہیں کہ میں کسی مسلمان کو ۲ دینار قرض دوں، یہ میرے نزدیک صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے․․․․ (کیونکہ قرض کی رقم واپس آنے کے بعد اسے دوبارہ صدقہ کیا جاسکتا ہے یا اسے بطور قرض کسی کو دیا جاسکتا ہے، نیز اس میں واقعی محتاج کی ضرورت پوری ہوتی ہے)۔ (السنن الکبری للبیہقی)
لنک:
 

علی خان

محفلین

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِ وَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن.
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم عطا فرماکر اور اسے اشرف المخلوقات قراردے کر دنیا میں بھیجا۔ عقل کی ہدایت اور نگہبانی کے لیے اس کو شریعت کی روشنی سے نوازا تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت کرے اور ایک نیک و صالح اور منصفانہ معاشرہ کی تعمیر کا کام انجام دے۔ اسی مقصد کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزِ اول سے انبیاء ورسل دنیا میں بھیجے اور یہ سلسلہ خاتم الانبیاء حضور اکرم اپر ختم ہوا، جن کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے لیے رسول بناکر بھیجا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت واطاعت کا مکلف بناکر، اس روئے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا؛ تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی شریعت پر عمل کرے اور ایک منصفانہ سماج کی تشکیل کے لیے کوشاں رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یقینا جسمانی ومالی دونوں طرح کی قربانی درکار ہوتی ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران: ۹۲) جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پاوٴگے۔ اسی مالی تعاون کے ضمن میں آج قرضِ حسن ہمارا موضوع ہے ۔ قرض کے معنی کی تفصیل بعد میں آرہی ہے، جبکہ حسن کے معنی بہتر، خوبصورت اور اچھے کے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی چھ آیات میں بارہ مقامات پر قرض کا ذکر فرمایا ہے اور ہر آیت میں قرض کو حسن کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿کِتَابٌ اُحْکِمَتْ آیَاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ (سورہٴ ہود ۱) یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں، ایک حکیم با خبر کی طرف سے سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا ہر ہر لفظ اپنے اندر متعدد مفاہیم رکھتا ہے ، ان مفاہیم کو قرنِ اول سے مفسرین قلم بند کررہے ہیں اور یہ سلسلہ کل قیامت تک جاری رہے گا، ان شاء اللہ۔
پہلے قرض کے معنی سمجھیں: قرض کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں، یعنی اپنے مال میں سے کچھ مال کاٹ کر اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کا کئی گنا بدلہ عطا فرمائے گا۔ محتاج لوگوں کی مدد کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جو مال غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کو دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گنا اضافہ فرماتا ہے، کبھی ظاہری طور پر ، کبھی معنوی وروحانی طور پر اس میں برکت ڈال دیتا ہے، اور آخرت میں تو یقینا اس میں حیران کن اضافہ ہوگا۔
قرضِ حسن سے متعلق آیات قرآنیہ :
(۱) مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضَاعِفَہُ لَہُ اَضْعَافاً کَثِیْرَةً وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ (البقرة۲۴۵)
کون شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اُسے کئی گنا بڑھاکر واپس کرے، مال کا گھٹانا اور بڑھانا سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے ،اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کرجانا ہے۔
(۲) وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً لَاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَلَاُدْخِلَنَّکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ (المائدة ۱۲)
اور تم اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دیتے رہے، تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں تم سے دور کردوں گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔
(۳) مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضَاعِفَہُ لَہُ وَلَہُ اَجْرٌ کَرِیْمٌ (الحدید ۱۱)
کون شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اسے بڑھاکر واپس کرے۔ اور اس کے لیے بہترین اجر ہے۔
(۴) اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَاَقْرَضُوا اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً یُضَاعَفُ لَہُمْ وَلَہُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ (الحدید ۱۸)
مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں، اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دیاہے،ان کو یقیناکئی گنابڑھاکر دیا جائے گا، اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔
(۵) اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً یُّضَاعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ (التغابن ۱۷)
اگر تم اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دو تو وہ تمہیں کئی گنابڑھاکر دے گا، اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ بڑا قدردان اور بردبار ہے۔
(۶) وَاَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ہُوَ خَیْراً وَّاَعْظَمُ اَجْراً (المزمل ۲۰)
اور اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دو، جو کچھ نیک اعمال تم اپنے لیے آگے بھیجو گے، اسے اللہ کے ہاں موجود پاوٴگے، وہی زیادہ بہتر ہے، اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔
قرضِ حسن سے کیا مراد ہے ؟
قرآنِ کریم میں استعمال ہوئی اس اصطلاح (قرضِ حسن) سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا، یتیموں اور بیواوٴں کی کفالت کرنا، مقروضین کے قرضوں کی ادائیگی کرنا ، نیز اپنے بچوں پر خرچ کرنا مراد ہے؛ غرضیکہ انسانیت کے کام آنے والی تمام شکلیں اس میں داخل ہیں، جیسا کہ مفسرین نے اپنی تفسیروں میں تحریر فرمایا ہے۔ اسی طرح قرضِ حسن میں یہ شکل بھی داخل ہے کہ کسی پریشان حال شخص کو اس نیت کے ساتھ قرض دیا جائے کہ اگر وہ اپنی پریشانیوں کی وجہ سے واپس نہ کرسکا تو اس سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

اللّہ نے بندوں کی ضرورت میں خرچ کرنے کو قرضِ حسن سے کیوں تعبیر کیا ؟
اللہ تعالیٰ نے محتاج بندوں کی ضرورتوں میں خرچ کرنے کو اللہ تعالیٰ کو قرض دینا قرار دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے ، وہ نہ صرف مال ودولت اور ساری ضرورتوں کا پیدا کرنے والا ہے ، بلکہ وہ تو پوری کائنات کا خالق، مالک اور رازق ہے،ہم سب اسی کے خزانے سے کھا پی رہے رہیں، تاکہ ہم بڑھ چڑھ کر انسانوں کے کام آئیں ، یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کی کفالت کریں، غریب محتاجوں کے لیے روٹی کپڑا اور مکان کے انتظام کے ساتھ ان کی دینی وعصری تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ایک دوسرے سے مسابقت کریں، تاکہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ، دونوں جہاں میں اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے اور اپنے مہمان خانہ جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
حضرت ابو الدحداح کا واقعہ:
حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ جب قرضِ حسن سے متعلق آیت قرآن کریم میں نازل ہوئی تو حضرت ابو الدحداح انصاری حضور اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرماتا ہے۔ آپ ا نے فرمایا: ہاں۔ وہ عرض کرنے لگے: اپنا دست مبارک مجھے پکڑا دیجیے (تاکہ میں آپ اکے دست مبارک پر ایک عہد کروں)۔ حضور اکرم ا نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ حضرت ابو الدحداح انصاری نے معاہدہ کے طور پر حضور اکرم ا کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اپنا باغ اپنے اللہ کو قرض دے دیا۔ ان کے باغ میں کھجور کے ۶۰۰ درخت تھے، اور اسی باغ میں ان کے بیوی بچے رہتے تھے۔ یہاں سے اٹھ کر اپنے باغ گئے اور اپنی بیوی ام الدحداح سے آواز دے کر کہاکہ چلو اس باغ سے نکل چلو، یہ باغ میں نے اپنے رب کو دیدیا۔ (تفسیر ابن کثیر)
یہ ہے وہ قیمتی سودا جو حضرت ابوالدحداح نے کیا، ان کے پاس دو باغ تھے، ان میں سے ایک باغ بہت قیمتی تھاجس میں کھجور کے ۶۰۰ درخت تھے، جس کو وہ خود بھی بہت پسند کرتے تھے اور اسی میں وہ اور ان کے بچے رہتے تھے، لیکن مذکورہ آیت کے نزول کے بعد یہ قیمتی باغ ضرورت مند لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کو قرض دے دیا۔ ایسے ہی لوگوں کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ارشاد فرمایاہے: ﴿یُوٴثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَةٌ﴾ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، چاہے خود ان کو کتنی ہی سخت حاجت ہو (الحشر ۹)۔
قرآن میں قرضِ حسن کے مختلف بدلے :
۱) فَیُضَاعِفَہُ لَہُ اَضْعَافاً کَثِیْرَةً / فَیُضَاعِفَہُ لَہُ / یُضَاعَفُ لَہُمْ / یُضَاعِفْہُ لَکُمْ
دنیا میں بہترین بدلہ۔
۲) وَلَہُ اَجْرٌ کَرِیْمٌ / وَلَہُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ دنیا وآخرت میں بہترین بدلہ۔
۳) تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ہُوَ خَیْراً وَّاَعْظَمَ اَجْراً آخرت میں عظیم بدلہ۔
۴) لَاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَيِّئَاتِکُمْ / وَیَغْفِرْ لَکُم گناہوں کی معافی۔
۵) وَلَاُدْخِلَنَّکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ جنت میں داخلہ۔
اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے والوں کی مثالیں:
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرضِ حسن سے مراد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے بندوں کی مدد کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کے چند فضائل تحریر ہیں:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَن یَّشَاءُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (سورہٴ البقرہ ۲۶۱)
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بڑھاکردے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَتَثْبِیْتاً مِّنْ اَنْفُسِہِمْ کَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَآتَتْ اُکُلَہَا ضِعْفَیْنِ فَاِنْ لَمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (البقرہ ۲۶۵)
ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو، اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
جس قدر خلوص کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کریں گے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر وثواب زیادہ ہوگا۔ ایک روپیہ بھی اگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کسی محتاج کو دیا جائے گا، تو اللہ تعالیٰ ۷۰۰ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب دے گا۔ مذکورہ بالا آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات ذکر کی گئی ہیں: وسیع اور علیم۔ یعنی اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ جتنے اجر کا عمل مستحق ہے وہ ہی دے، بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ دے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے کہ جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے اور جس جذبہ سے کیا جاتا ہے، اس سے بے خبر نہیں ہے بلکہ اس کا اجر ضرور دے گا۔
جاری ہے۔
 

علی خان

محفلین
قرضِ حسن اور انفاق فی سبیل اللّٰہ کس کو دیں؟
جن حضرات کو قرض حسن اور صدقات دئے جاسکتے ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں :
غریب رشتہ دار، یتیم، بیوہ، فقیر، مسکین، سائل، قرضدار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو، اور وہ مسافر جو حالت سفر میں تنگدست ہوگیا ہو، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
آتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلَ وَالسَّائِلِیْنَ (البقرہ ۱۷۷)
جو مال سے محبت کرنے کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے۔
وَفِیْ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات ۱۹)
ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کا حق ہے۔
قرض حسن اور انفاق فی سبیل اللّٰہ میں پسندیدہ چیزیں خرچ کریں:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران ۹۲)
جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پاوٴگے۔
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ (البقرة ۲۶۷)
اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو۔
جب ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہ حضور اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے محبوب چیز کے خرچ کرنے کا ذکر فرمایا ہے، اور مجھے ساری چیزوں میں اپنا باغ (بَیرحَاء )سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اس کو اللہ کے لیے صدقہ کرتا ہوں اور اس کے اجروثواب کی اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں۔ حضور اکرم ا نے فرمایا : اے طلحہ ! تم نے بہت ہی نفع کا سودا کیا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا باغ جو اتنی بڑی مالیت کا ہے وہ صدقہ ہے اور اگر میں اس کی طاقت رکھتا کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو تو ایسا ہی کرتا، مگر یہ ایسی چیز نہیں ہے جو مخفی رہ سکے۔ ( تفسیر ابن کثیر)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق بھی رسول اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ مجھے اپنے تمام مال میں سب سے زیادہ پسندیدہ مال خیبر کی زمین کا حصہ ہے، میں اُسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ آپ انے فرمایا : اسے وقف کردو! اصل روک لو، اور پھل وغیرہ اللہ کی راہ میں دے دو۔ (بخاری ، مسلم)
حضرت محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت زید بن حارثہ کے پاس ایک گھوڑا تھا جو ان کو اپنی ساری چیزوں میں سب سے زیادہ محبوب تھا۔ (اُس زمانہ میں گھوڑے کی حیثیت تقریباً وہی تھی جو اِس زمانہ میں گاڑی کی ہے) وہ اس کو لے کر حضور اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ صدقہ ہے، حضور اکرم ا نے قبول فرمالیا اور لے کر ان کے صاحبزادہ حضرت اسامہ کو دیدیا۔ حضرت زید کے چہرہ پر کچھ گرانی کے آثار ظاہر ہوئے (کہ گھر میں ہی رہا ، باپ کے بجائے بیٹے کا ہوگیا) حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول کرلیا، اب میں چاہے اس کو تمہارے بیٹے کو دوں یا کسی اور رشتہ دار کو یا اجنبی کو۔
# غرضیکہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعدصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اپنی اپنی محبوب چیزیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیں، جن کو نبی اکرم ا نے ضرورت مند لوگوں کے درمیان تقسیم کیں۔
﴿وضاحت: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت خود حضور اکرم ا نے فرمائی تھی، اور ان کا ایمان اور توکل کامل تھا ، لہٰذا ان کے لیے اپنی پسندیدہ چیزوں کا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا بہت آسان تھا، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات تاریخی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ جنگ خیبر کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق کا اپنا سارا سامان اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا، حضرت عثمان غنی کا ہر ضرورت کے وقت اپنے مال کے وافر حصہ کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خرچ کرنا، وغیرہ وغیرہ ۔
آج ہم ایمان وعمل کے اعتبار سے کمزور ہیں اور اگر ہم ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾کا مصداق بظاہر نہیں بن سکتے ہیں تو کم از کم ﴿یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْپر عمل کرکے اپنی روزی صرف حلال طریقہ سے حاصل کرنے پر اکتفاء کریں اور اسی حلال رزق میں سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ضرورت مند لوگوں پر خرچ کریں۔
اللّٰہ کے راستے میں اعلانیہ بھی قرضِ حسن اور صدقات دئے جا سکتے ہیں:
قرض حسن اور صدقات میں اصل پوشیدگی مطلوب ہے یعنی چپکے سے کسی محتاج کی مدد کرنا، جیساکہ حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا :
تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ بہت محبت کرتا ہے․․․․ ان میں سے ایک شخص وہ بھی ہے جو کسی شخص کی اس طرح مدد کرے کہ اللہ تعالیٰ اور سائل کے علاوہ کسی کو خبر تک نہ ہو۔ (ترمذی ، نسائی)
نیز رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سات لوگ اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اس طرح صدقہ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ (بخاری، مسلم)
اس کے باوجود کہ انفاق فی سبیل اللہ میں شریعت اسلامیہ نے چھپ کر دینے کی خصوصی تعلیمات دی ہیں، لیکن بعض مواقع پر اعلانیہ خرچ کرنے میں بھی مصلحت ہوتی ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے، جن میں سے بعض آیات یہ ہیں:
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلانِیَةً۔۔۔۔۔۔۔ (البقرة۴ ۲۷)
جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپ کر اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس اجر ہے۔ اور نہ انہیں خوف ہے اور نہ غمگینی۔
وَاَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَّعَلانِیَةً ․․․․․ اُوْلَئِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ(الرعد ۲۲)
جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپ کر اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں․․․․ ان ہی کے لیے عاقبت کا گھر ہے۔
وَاَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَّعَلانِیَةً یَرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُورَ (الفاطر ۲۹)
جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے چھپ کر اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں،وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں؛ جو کبھی خسارہ میں نہیں ہوگی۔
ان مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ ہم اعلانیہ بھی اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مدد کرسکتے ہیں، جبکہ دیگر آیات واحادیث میں چھپ کر اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب ملتی ہے․․․․․․․ علماء کرام نے ان آیات واحادیث کے ظاہری اختلاف کے درمیان کچھ اس طرح تطبیق دی ہے کہ زکوٰة کی ادائیگی اعلانیہ ہونی چاہیے، تاکہ اس سے دوسروں کو بھی رغبت ملے ، اور زکوٰة کی ادائیگی سے متعلق دوسروں کے شک وشبہات بھی دور ہوجائیں۔ لیکن صدقات اور قرض حسن کی عموماً ادائیگی چھپ کر ہی ہونی چاہیے۔
مگر اس حکمت بالغہ کے باوجود نبی اکرم ا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بے شمار مرتبہ زکوٰة کے علاوہ دیگر صدقات بھی اعلانیہ جمع کیے گئے ہیں۔ نیز اعلانیہ خرچ کرنے سے بچنے کی اصل حکمت یہ ہے کہ ریا اور شہرت مطلوب نہ ہوجائے، کیونکہ ریا،شہرت اور دکھاوا اعمال کی بربادی کے اسباب میں سے ہیں۔ لہٰذا خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے غریب، محتاج، یتیم اور بیواوٴں کی مدد کے لیے اگر کسی پروگرام میں اعلانیہ قرض حسن دیا جائے، تو ان شاء اللہ یہ دکھاوے میں نہیں آئے گا؛کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو کام بھی کھلم کھلا کیا جائے وہ ریا ہی ہو، بلکہ دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کے پروگرام منعقد ہونے چاہییں ،جیساکہ نبی اکرم ا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں جنگوں کے موقعوں پر اعلانیہ صدقات جمع کیے جاتے تھے۔ اگر صدقات اور قرض حسن میں اللہ جل شانہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا اصل مطلوب ومقصود ہو توکسی مصلحت سے اس کا اعلان بھی کیا جائے تو وہ ان شاء اللہ ریا میں داخل نہیں ہوگا ۔
قرض حسن یا انفاق فی سبیل اللّٰہ کو ضائع کرنے والے اسباب:
۱) اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول مطلوب نہ ہو۔
۲) ریا یعنی شہرت مطلوب ہو۔
۳) احسان جتانا مقصود ہو۔
۴) قرض حسن یا صدقہ دے کر لینے والے کو طعنہ وغیرہ دے کر تکلیف پہونچائی جائے۔
لہٰذا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کسی کی مدد کی جائے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ والْاَذَی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہُ رِئَاءَ النَّاسِ (البقرة۴ ۲۶)
اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتاکر اور ایذا پہنچاکر برباد نہ کرو، جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے۔
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَا اَنْفَقُوا مَنًّا ولَا اَذًی (البقرة۲۶۲)
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہوں گے۔
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللهِ(البقرہ ۲۶۵)
ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی سے خرچ کرتے ہیں۔
تنگ دستی اور حاجت کے وقت میں بھی اللّہ کی راہ میں خرچ کریں:
قرض حسن یا صدقات کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم بڑی رقم ہی خرچ کریں یا اسی وقت لوگوں کی مدد کریں جب ہمارے پاس دنیاوی مسائل بالکل ہی نہ ہوں بلکہ تنگ دستی کے ایام میں بھی حسب استطاعت لوگوں کی مدد کرنے میں ہمیں کوشاں رہنا چاہیے، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ (آل عمران۱۳۴)
جو محض خوشحالی میں ہی نہیں بلکہ تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں․․․․․ ان کے رب کی طرف سے اس کے بدلہ میں گناہوں کی معافی ہے اور ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔
آتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلَ وَالسَّائِلِیْنَ (البقرہ ۱۷۷)
جو مال سے محبت کرنے کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے۔
مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ مال کی محبت سے مراد مال کی ضرورت ہے۔ یعنی ہمیں مال کی ضرورت ہے، اس کے باوجود ہم دوسروں کی مدد کے لیے کوشاں ہیں ۔
نبی اکرم ﷺ سے سب سے بہتر صدقہ کے متعلق سوال کیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس حال میں بھی خرچ کرو کہ تم صحیح سالم ہو اور زندگی کی توقع بھی ہو، اپنے غریب ہوجانے کا ڈر اور اپنے مالدار ہونے کی تمنا بھی ہو۔ یعنی تم اپنی ضرورتوں کے ساتھ دوسروں کی ضرورتوں کوپورا کرنے کی فکریں کرو۔ (بخاری، مسلم)
قرض حسن یا انفاق فی سبیل اللّٰہ سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی:
رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں ہوتی ہے۔ (مسلم)
کسی کی مدد کرنے سے بظاہر مال میں کمی تو واقع ہوتی ہے، لیکن درحقیقت اس سے مال میں کمی نہیں ہوتی ہے ،بلکہ آخرت میں بدلہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دنیا میں بھی عطا فرماتا ہے، جیسا کہ قرآن کی آیات اور نبی اکرم ا کے ارشادات میں تفصیل سے مذکور ہے۔
انفاق فی سبیل اللّٰہ کے فضائل:
رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرے اوپر تین دن گزر جائیں اس حال میں کہ میرے پاس اس میں سے کچھ بھی باقی رہے، سوائے اس کے کہ کوئی چیز قرض کی ادائیگی کے لیے رکھ لی جائے۔ (بخاری، مسلم)
رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: روزانہ صبح کے وقت ۲ فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ ایک دعا کرتا ہے : اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما۔ دوسرا دعا کرتا ہے : اے اللہ! مال کو روک کر رکھنے والے کے مال کو برباد کر۔ (بخاری، مسلم)
رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ (بخاری)
رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ ( بخاری،مسلم)
رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت کپڑا پہنائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے سبز لباس پہنائے گا۔ جوشخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی ایسی شراب پلائے گا، جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔ ( ابوداوٴد، ترمذی)
رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: تمہیں اپنے کمزوروں کے طفیل سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (بخاری)
رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: اگر تمہارا خادم تمہارے لیے کھانا بناکر لائے تو اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاوٴ یا اس کھانے میں سے کچھ دیدو، اس لیے کہ آگ کی تپش اور دھوئیں کی تکلیف تو اس نے برداشت کی ہے۔ (ابن ماجہ)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ کچھ مانگنے کے لیے میرے پاس آئی۔ میرے پاس ایک کھجور کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا،جو میں نے اس عورت کو دے دی، اس عورت نے وہ کھجور دونوں بیٹیوں کو تقسیم کردی اور خود نہیں کھائی۔ نبی اکرم ا کے تشریف لانے پر میں نے اس واقعہ کا ذکرکیا، تو آپ ا نے ارشاد فرمایا: جس شخص کا بیٹیوں کی وجہ سے امتحان لیا جائے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم کی آگ سے آڑ بنیں گی ( بخاری،مسلم)۔
# معلوم ہوا کہ تمام نبیوں کے سردار حضور اکرم اکی خواہش ہے کہ ہم اپنے مال ودولت کی ایک مقدار محتاج، غریب، مسکین، یتیم اوربیواعورتوں پر خرچ کریں۔
عام قرض کا بیان:
اب تک اُس قرض کا ذکر کیا گیا جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قرض حسن سے تعبیر کیا ہے جس سے مراد اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ کے بندوں کی مدد کرنا ہے۔ اب تھوڑی وضاحت عام قرض کے متعلق بھی تحریر کررہا ہوں:
اگر کوئی شخص کسی خاص ضرورت کی وجہ سے قرض مانگتا ہے تو قرض دے کر اس کی مدد کرنا باعثِ اجروثواب ہے، جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ ضرورت کے وقت قرض مانگنا جائز ہے اور اگر کوئی شخص قرض کا طالب ہو تو اس کو قرض دینا مستحب ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ نے قرض دے کر کسی کی مدد کرنے میں دنیا وآخرت کے بہترین بدلہ کی بشارت دی ہے ، لیکن قرض دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے فائدہ کے لیے کوئی شرط نہ لگائے، مثلاً میں تمہیں قرض دیتا ہوں بشرطیکہ تم میرا فلاں کام کردو؛ البتہ قرض لیتے اور دیتے وقت ان احکام کی پابندی کریں جو سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۸۲ میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیے ہیں، یہ آیت قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے، اور اس میں قرض کے احکامات ذکر کیے گئے ہیں۔ قرآن وحدیث میں متعدد جگہوں پر محتاج لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون (الحج ۷۷)
بھلائی کے کام کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاوٴ۔
تَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ (المائدہ ۲) اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔
# رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی کوئی بھی دنیاوی پریشانی دور کی ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ جس نے کسی پریشان حال آدمی کے لیے آسانی کا سامان فراہم کیا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیاو آخرت میں سہولت کا فیصلہ فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندہ کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔ (مسلم)
# رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرضہ دیتا ہے تو ایک بار صدقہ ہوتا ہے۔ (نسائی ، ابن ماجہ)
# رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میں میں نے جنت کے دروازہ پر صدقہ کا بدلہ ۱۰ گنا اور قرضہ دینے کا بدلہ ۱۸ گنا لکھا ہوا دیکھا۔ میں نے کہا اے جبرئیل! قرض صدقہ سے بڑھ کر کیوں ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ سائل مانگتا ہے جبکہ اس کے پاس کچھ مال موجود بھی ہو، اور قرضدار ضرورت کے وقت ہی سوال کرتا ہے۔ ( ابن ماجہ)
# حضرت ابودرداء فرماتے ہیں کہ میں کسی مسلمان کو ۲ دینار قرض دوں، یہ میرے نزدیک صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے․․․․ (کیونکہ قرض کی رقم واپس آنے کے بعد اسے دوبارہ صدقہ کیا جاسکتا ہے یا اسے بطور قرض کسی کو دیا جاسکتا ہے، نیز اس میں واقعی محتاج کی ضرورت پوری ہوتی ہے)۔ (السنن الکبری للبیہقی)
خلاصہ بحث:
اللہ تعالیٰ نے مال ودولت کو انسان کی ایسی دنیاوی ضرورت بنائی ہے کہ عموماً اس کے بغیر انسان کی زندگی دوبھر رہتی ہے۔ مال ودولت کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو جائز کوششیں کرنے کا مکلف تو بنایا ہے مگرانسان کی جد وجہد اور دوڑ دھوپ کے باوجود اس کی عطااللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھی ہے، چاہے تو وہ کسی کے رزق میں کشادگی کردے اور چاہے تو کسی کے رزق میں تمام دنیاوی اسباب کے باوجود تنگی پیدا کردے۔
مال ودولت کے حصول کے لیے انسان کو خالق ِکائنات نے یوں ہی آزاد نہیں چھوڑ دیا کہ جیسے چاہو کماوٴ ، کھاوٴ؛ بلکہ اس کے اصول وضوابط بنائے تاکہ اس دنیاوی زندگی کا نظام بھی صحیح چل سکے اور اس کے مطابق آخرت میں جزا وسزا کا فیصلہ ہوسکے۔ انہیں اصول وضوابط کو شریعت کہا جاتا ہے جس میں انسان کو یہ رہنمائی بھی دی جاتی ہے کہ مال کس طرح کمایا جائے اور کہاں کہاں خرچ کیا جائے۔
اپنے اور بال وبچوں کے اخراجات کے بعد شرائط پائے جانے پر مال ودولت میں زکوٰة کی ادائیگی فرض کی گئی ہے۔ اسلام نے زکوٰة کے علاوہ بھی مختلف شکلوں سے محتاج لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ جس معاشرہ میں ہم رہ رہے ہیں اس میں ایک دوسرے کے رنج وغم میں شریک ہو سکیں۔ انہیں شکلوں میں سے ایک شکل قرض حسن بھی ہے کہ ہم غریبوں اور محتاجوں کی مدد کریں، یتیموں اور بیواوٴں کی کفالت کریں، مقروضین کے قرضوں کی ادائیگی کریں اور آپس میں ایک دوسرے کو ضرورت کے وقت قرض دیں، تاکہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ہمارے مال میں اضافہ کرے اور آخرت میں بھی اس کا اجر وثواب دے۔
عزیز بھائیو! اس فانی دنیاوی زندگی کا اصل مطلوب ومقصود اخروی زندگی میں کامیابی حاصل کرنا ہے، جہاں ہمیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے، موت کو بھی وہاں موت آجائیگی ، اور جہاں کی کامیابی ہمیشہ کی کامیابی وکامرانی ہے۔ لہٰذا ہم :
۱) اللہ تعالیٰ کے احکامات نبی اکرم اکے طریقہ پر بجا لائیں۔
۲) صرف حلال رزق پر اکتفاء کریں، خواہ بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔
۳) حتی الامکان مشتبہ چیزوں سے بچیں۔
۴) زکوٰة کے واجب ہونے کی صورت میں زکوٰة کی ادائیگی کریں۔
۵) اپنے اور بال بچوں کے اخراجات کے ساتھ وقتاً فوقتاً قرض حسن اور مختلف صدقات کے ذریعہ محتاج لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔
۶) اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ کل قیامت کے دن ہمارے قدم ہمارے پروردگار کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتے جب تک کہ ہم مال کے متعلق سوالات کا جواب نہ دے دیں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟
* * *
 

علی خان

محفلین
اب خان صاحب ایک اسلامی ملک اس پر عمل نہیں کرتا تو اس میں دین اسلام کا کوئی قصور نہیں ۔ یہ تو اُن حکمرانوں اور رعایا کا قصور ہے۔ کیونکہ اسلام نے تو سب کچھ واضح کر دیا ہے۔ اب باقی رہتا عمل کرنا یا نہ کرنا۔ اور پھر اسکے لئے جزاء اور سزا کا ایک سسٹم موجود ہے۔ اور وہ برحق ہے انشاء اللہ ذرے ذرے کا حساب ہوگا۔ آپ بھی وہا ں ہی ہونگے اور ہم بھی وہاں ہونگے دیکھ لیں گے کہ حساب ہوتا ہے یا نہیں۔:D
 
شمشاد بھائی۔
روزانہ آدھ گھنٹے کے قریب ملتا ہے۔ ایک ایک کرکے سب نکات پر اپنے خیالات کا اظہار کروں گا۔ بہت سے سوالات ابھی جواب طلب ہیں۔ آپ کی دعا شامل حال رہی تو مناسب جوابات۔ انشاء اللہ۔
 
کیا امریکہ اپنے پیسے میں سے زکوۃ دیتا ہے؟
کیا امریکہ اپنے پیسے سے 20 فیصد اللہ کا حصہ دیتا ہے؟

زکواۃ، ٹیکس کا دوسرا نام ہے، جو حکومت وقت کو دیا جاتا ہے۔ یہی اللہ تعالی کا حق ہے، کیا امریکہ اوسطاً 20 فی صد ٹیکس دیتا ہے؟؟ آپ اس سوال کا جواب خود سے ڈھونڈئے۔
 

علی خان

محفلین
زکواۃ، ٹیکس کا دوسرا نام ہے، جو حکومت وقت کو دیا جاتا ہے۔ یہی اللہ تعالی کا حق ہے، کیا امریکہ اوسطاً 20 فی صد ٹیکس دیتا ہے؟؟ آپ اس سوال کا جواب خود سے ڈھونڈئے۔

چلیں آپ ہی بتا دیں۔ کہ اسلام میں یہ کہاں پر لکھا ہے۔ کہ زکواۃ اور ٹیکس ایک ہی چیز کے 2 نام ہیں۔
اور اسکے علادہ کوشش کریں کہ باقی سوالات کے بھی جوابات دیں دے۔ مگر منطق سے نہیں۔ حوالوں سے ثابت کریں۔ اور مجھے یہ بتانے کی بھی کوشش نہ کریں۔ کہ فلاں ملک اسطرح سے نہیں کر رہا ہے۔ اُسکے لئے میں اُوپر جواب دے چکا ہوں۔ مجھے یہ صرف یہ بتا دیں۔ کہ اسلام اِسکے متعلق کیا کہتا ہے۔ ابھی کہنے اور لاگو کرنے میں بہت فرق ہے۔
کہنا اللہ اور اسکے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا، ہےاور رہے گا۔ اور عمل کرنا ہمارا۔ ہماری بات امریکہ پر ہو رہی ہے۔ تو مجھے یہ بتا دیں ۔ کہ امریکہ کنِ کنِ اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہے۔ اور وہ صد بہ صد اسلامی طریقے کو استعمال کرتے ہوئے اُن پر عمل کر رہا ہے۔
 

علی خان

محفلین
اور کیا IMF یا World Bank اور اسطرح کے دوسرے عالمی معاشی اداروں سے امریکہ جو قرض لیتا ہے۔ یا لے رہا ہے۔کیا اُس پر وہ سود کی ادائیگی نہیں کرتا ہے۔ کیا یہ بھی آپ کے خیال میں اسلامی ہے۔;)
اب پتا نہیں آپ والا اسلام کونسا ہے۔اب یہ مت کہنا کہ اِن اداروں سے تو پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک بھی قرض لیتے ہیں۔ کیونکہ ہم مانتے ہیں کہ ہمارا بینکنگ سسٹم ٹھیک نہیں ہے۔ مگر آپ تو امریکہ کا سارا سسٹم اسلامی کہہ کر نہیں تھکتے ہیں۔ اب اسمیں مجھے اسلامی سسٹم کی وضاحت کردیں۔ :D کیا اسلام میں سود لینا اور دینا جائز ہے۔
اور ان عالمی اداروں سے جو ممالک قرض لیتے ہیں وہ بھی کچھ ٹرمز پر دی جاتی ہیں۔ اب آپ مجھے یہ بتا دیں کہ اسلام میں ٹرمز پر قرض لینا یا دینا جائز ہے یا نہیں؟ :lol:
 
آج زیادہ تر مسلمانوں کے نزدیک سود کا تصور یہ ہے کہ اگر روپیہ پیسا ادھار دیا جائے اور اس پر منافع کمایا جائے تو یہ منافع یا اس کا ترجمہ سود حرام ہے۔ مجھے اندازہ نہیں ہے کہ اس سوچ کی بنیاد کیا ہے۔ شائید اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کو ایک انفرادی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ اسلامی اصول یعنی اللہ تعالی کے فرمان کردہ اصول، ایک معاشرے یا ریاست یا پھر ریاستوں کے درمیان آپسی تجارت پر بھی اسی طرح عائید ہوتے ہیں جس طرح ایک فرد پر۔ کسی ملک ، بنک ، ادارے یا کمپنی کے لئے مال ، روپے ، پیسے پر منافع لینا کسی طور غلط نہیں۔

کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ پاکستان، ایران سے کہے کہ پاکستان ایران کا سارے کا روپیہ اگلے 5 ہزار سال کے لئے قرض لینا چاہتا ہے اور اس پر کوئی منافع ادا نہیں کرے گا؟؟؟ یہ ایک ایکسٹریم مثال ہے، ہم سارے کے سارے کو تقسیم کرتے کرتے ایک بلین ڈالر کی مساوی رقم تک آجاتے ہیں۔ پاکستان ایران سے ایک بلین ڈالر قرض لے کر اس سے تجارت، یا صنعت لگا کر 2 بلین کمائے اور پھر جواب میں ایران کو کچھ بھی ادا نا کرے تو ایران ضرور کہے گا کہ ایران کو ایسا قرضہ دینے کا فائیدہ کیا؟

گویا یہ ضروری ہے کہ ادھار لئے ہوئی رقم پر کچھ نا کچھ منافع ضرور ادا کیا جائے۔ تو اس منافع میں حرام کیا ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان اس بارے میں بہت ہی صاف ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ تم کو کسی بھی طریقے سے منافع، نفع، آمدنی ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ تعالی کا حق ہے۔ اب اگر کوئی شخص اس نفع میں سے اللہ تعالی کا حصہ کھا جائے تو اس کو منافع خوری، یا سود خوری یا پھر کے نام سے پکارا جائے گا اور یہ 'سود خوری' حرام قرار پائے گی۔
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا --
وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں یا وہ لوگ جو منافع خور ہیں
سورۃ انفال آیت 41
8:41
اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں بطور غنیمت ملے خواہ کوئی چیز ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ الله اور اس کے رسول کا ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اگر تمہیں الله پر یقین ہے اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتاری جس دن دونوں جماعتیں ملیں اور الله ہر چیز پر قادر ہے

غنیمت اور منافع میں فرق ہے۔

بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یہ پانچواں حصہ کھا جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جو نفع یا غنیمت کا پانچواں حصہ کھا جاتے ہیں وہ سود کھا جانے والے کہلاتے ہیں، کیوں کہ ان لوگوں نے اللہ کا حصہ ادا نہیں کیا اس لئے سارا سود، ساری غنیمت یا سارا نفع ان کے لئے حرام ہوگیا۔
یہ کیا قرانی ایت ہے؟ اسکا کیا ریفرنس ہے
"بوٹی" یا غنیمت اور "پرافٹ" یا نفع دونوں الگ چیزیں ہیں

سورۃ البقرۃ ، آیت 275

جو لوگ کھاتے ہیں سُود، نہیں اُٹھیں گے وہ (روزِ قیامت) مگر جیسے اٹھتا ہے وہ شخص جسے باؤلا کر دیا ہو شیطان نے چھوکر۔ یہ (حال) اس لیے ہوگا کہ وہ کہتے ہیں آخر تجارت بھی تو سود ہی کی مانند ہے۔ حالانکہ حلال کیا ہے اللہ نے تجارت کو اور حرام کردیا ہے سود کو۔ لہٰذا جس کو پہنچ گئی نصیحت اس کے رب کی طرف سے اور وہ باز آگیا (سود خوری سے) تو اس کا ہے وہ جو پہلے لے چُکا وہ۔ اور معاملہ اس کا اللہ کے حوالے اور جس نے پھر لیا (سود) تو ایسے ہی لوگ ہیں جہنمی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
بات بلکل واضح ہے۔ سود حرام اور تجارت حلال ہے جس میں نفع ہے

اب دیکھنا یہ ہے کیا بنک اپنی دی ہوئی رقم پر منافع دیتا ہے تو آیا یہ سارے کا سارا منافع سود ہے؟؟؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسا منافع سود ہے لیکن یہ لوگ قرآن حکیم سے کوئی ثبوت نہیں فراہم کرپاتے۔ جبکہ ایک صاف اور واضح امر یہ ہے کہ کسی بھی تجارت کے لئے مزدور، عمارت، منتظم اور رقم درکار ہے۔ یہ رقم ادھار بھی ہو سکتی ہے اور اس پر ہونے والا منافع کا حقدار رقم ادھار دینے والا بھی ہوگا۔ جس جس کو منافع ہو، اس کو اللہ کا حق یعنی منافع کا پانچواں حصہ ادا کرنا لازمی ہے۔ یہ حق حکومت وصول کرے گی اور اس طرح نظام حکومت کے لئے درکار رقم سے حکومتی کام ہونگے۔

ان نکات کو سامنے رکھیں تو واضح تصویر سامنے آتی ہے۔ جس کے مطابق جدید مالیاتی نظام کو سمجھا جاسکتا ہے۔۔
بلک سود یا سود کی امیزش ہے۔
منافع کبھی بھی ایک فکس ریٹ پر نہیں ہوتا۔ نفع اور نقصان دونوں کا احتمال ہے تجارت میں۔ سود میں نہیں بلکہ سود خور ایک فکس ریٹ پر سود وصول کرتا ہے

میرا خیال ہے کہ اپ بات کو موڑ توڑ کر حلال کو حرام کرنا چاہتے ہیں
 
چلیں آپ ہی بتا دیں۔ کہ اسلام میں یہ کہاں پر لکھا ہے۔ کہ زکواۃ اور ٹیکس ایک ہی چیز کے 2 نام ہیں۔
اور اسکے علادہ کوشش کریں کہ باقی سوالات کے بھی جوابات دیں دے۔ مگر منطق سے نہیں۔ حوالوں سے ثابت کریں۔ اور مجھے یہ بتانے کی بھی کوشش نہ کریں۔ کہ فلاں ملک اسطرح سے نہیں کر رہا ہے۔ اُسکے لئے میں اُوپر جواب دے چکا ہوں۔ مجھے یہ صرف یہ بتا دیں۔ کہ اسلام اِسکے متعلق کیا کہتا ہے۔ ابھی کہنے اور لاگو کرنے میں بہت فرق ہے۔
کہنا اللہ اور اسکے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا، ہےاور رہے گا۔ اور عمل کرنا ہمارا۔ ہماری بات امریکہ پر ہو رہی ہے۔ تو مجھے یہ بتا دیں ۔ کہ امریکہ کنِ کنِ اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہے۔ اور وہ صد بہ صد اسلامی طریقے کو استعمال کرتے ہوئے اُن پر عمل کر رہا ہے۔

امریکہ کے آئین کے اصول اور اللہ تعالی کے فرمان قران کے اصول ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں۔ ثبوت کے لئے میں پہلے ریفرنس فراہم کرچکا ہوں۔ پڑھنے کی تکلیف کرلیجئے۔ اگر زکواۃ حکومت کو ادا کیا جانے والا ٹیکس نہیں تھا تو پھر حضرت عمر نے زکواۃ نا ادا کرنے والوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیوں کیا تھا۔ ہر بندے کو الگ الگ ادا کرنے دیتے اللہ کا حصہ؟ اگر حکومت وقت کو زکواۃ ادا نہیں کرنی تو پھر کس طرح ادا کریں گے ۔ کے ٹو پر چڑھ کر اوپر اچھال کر کہ اللہ رکھ لے جو تجھے چاہئیے؟ اور اگر حکومت وقت کو ادا نہیں کریں گے تو پھر سڑکیں کیسے بنیں گی؟ انفراسٹرکچر کیسے بنے گا۔ جس اسکول اور یونیورسٹٰ سے آپ نے تعلیم حاصل کی وہ کیسے بنے گی؟ آیت بھی واضح ہے اور منطق بھی واضح۔ ٹیکس ، جس کو آپ چاہے زکواۃ کہیں ، صدقات کہیں یا کوئی بھی دوسرا نام دے دیں۔ باہمی کامیابی کے لئے آپس کا لازمی چندہ کہیں۔ ایک ضروری حقیقت ہے۔ البتہ بھائی لوگ اس سے جان چھڑانے کے لئے طرح طرح کی کہانیاں لے آتے ہیں۔

اسلام منافع یا نفع یا ٍغنیمت کے پانچویں حصے کو اللہ کا حق قرار دیتاہے۔ جو مرکزی حکومت کا حق ہے ، جس طرح رسول اکرم ایک مرکزی حکومت کے اعلی ترین عہدیدار تھے ، اسی طرح۔ اس حکومت پر فرض ہے کہ اس کو حکم کردہ شعبعں میں بانٹے۔ دیکھئے

8:41
اور جان لو کہ جو بطوِر غنیمت (منافع یا نفع) ملے تم کو کوئی چیز تو ہے اللہ کے لیے اُس کا پانچواں حصّہ اور رسول کے لیے اور قرابت داروں کے لیے اور یتیموں کے لیے اور مسکینوں کے لیے اور مسافروں کے لیے، اگر تم رکھتے ہو ایمان اللہ پر اور اس (نصرت) پر جو نازل کی تھی ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے دن جس دم ٹکرائی تھیں دو فوجیں۔ اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
 
غنیمت اور منافع میں فرق ہے۔


یہ کیا قرانی ایت ہے؟ اسکا کیا ریفرنس ہے
"بوٹی" یا غنیمت اور "پرافٹ" یا نفع دونوں الگ چیزیں ہیں


بات بلکل واضح ہے۔ سود حرام اور تجارت حلال ہے جس میں نفع ہے


بلک سود یا سود کی امیزش ہے۔
منافع کبھی بھی ایک فکس ریٹ پر نہیں ہوتا۔ نفع اور نقصان دونوں کا احتمال ہے تجارت میں۔ سود میں نہیں بلکہ سود خور ایک فکس ریٹ پر سود وصول کرتا ہے

میرا خیال ہے کہ اپ بات کو موڑ توڑ کر حلال کو حرام کرنا چاہتے ہیں

ریفرنس اس آیت کا پہلے بھی موجود ہے اور مزید حاضر ہے۔ یہ سورۃ انفال کی ایت نمبر 41 ہے۔ اگر کوئی جواب دیجئے تو صرف اور صرف قرآن سے عطا فرمائیے۔ کسی غیر اللہ کی ذاتی خواہشات کی تعبیر سے نہیں۔

کرنسی کے مد و جزر اور کرنسی کی قیمت میں کمی کی وجہ سے فکسڈ ریٹ ممکن ہی نہیں ہے۔ منافع جو بھی ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ کا حق ہے۔ یہی پانچواں حصہ ربا یا بڑھوتری ہے ، جو اس کو کھا جائے وہ سود خوری کا مجرم ہے۔ منافع فکسڈ ریٹ پر ہو وہ ایسا ہی ہے جیسے تنخواہ فکسڈ ریٹ پر ہو۔ کسی کاربار کی ملازمت اس کاروبار کا حق دار یا حصہ دار نہیں بنا دیتی ۔ اسی طرح اس کاروبار سے جسم کے کام کے بدلے تنخواہ کی جگہ ، دولت لگا کر اس کی فکسڈ آمدنی حاصل کرنے سے اللہ تعالی کا کوئی فرمان منع نہیں کرتا۔ یہ کچھ لوگوں کی اپنی ذاتی خواہشوں کی تعبیریں ہیں۔ ورنہ دلیل میں کوئی آئت فراہم کیجئے کہ سرمایہ کو کام پر نہیں لگایا جاسکتا؟

8:41
وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ جو بطوِ غنیمت(نفع یا منافع) ملے تم کو کوئی چیز تو ہے اللہ کے لیے اُس کا پانچواں حصّہ اور رسول کے لیے ہے اور قرابت داروں کے لیے اور یتیموں کے لیے اور مسکینوں کے لیے اور مسافروں کے لیے، اگر تم رکھتے ہو ایمان اللہ پر اور اس (نصرت) پر جو نازل کی تھی ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے دن جس دم ٹکرائی تھیں دو فوجیں۔ اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے
 
اور کیا IMF یا World Bank اور اسطرح کے دوسرے عالمی معاشی اداروں سے امریکہ جو قرض لیتا ہے۔ یا لے رہا ہے۔کیا اُس پر وہ سود کی ادائیگی نہیں کرتا ہے۔ کیا یہ بھی آپ کے خیال میں اسلامی ہے۔;)
اب پتا نہیں آپ والا اسلام کونسا ہے۔اب یہ مت کہنا کہ اِن اداروں سے تو پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک بھی قرض لیتے ہیں۔ کیونکہ ہم مانتے ہیں کہ ہمارا بینکنگ سسٹم ٹھیک نہیں ہے۔ مگر آپ تو امریکہ کا سارا سسٹم اسلامی کہہ کر نہیں تھکتے ہیں۔ اب اسمیں مجھے اسلامی سسٹم کی وضاحت کردیں۔ :D کیا اسلام میں سود لینا اور دینا جائز ہے۔
اور ان عالمی اداروں سے جو ممالک قرض لیتے ہیں وہ بھی کچھ ٹرمز پر دی جاتی ہیں۔ اب آپ مجھے یہ بتا دیں کہ اسلام میں ٹرمز پر قرض لینا یا دینا جائز ہے یا نہیں؟ :lol:

سرمایہ بطور قرضہ لے کر اس پر منافع ادا کرنا کس طور پر منع ہے ۔ اس آیت کا ریفرنس فراہم کیجئے جو سرمایہ بطور ادھار لے کر اس پر منافع کی ادائیگی سے منع کرتی ہو۔
 
نفع اور غنیمت میں فرق پتہ نہیں پڑتا اپ کو
وار بوٹی اور پرافٹ کو امریکی انگلش میں کیا ایک ہی کو کہتے ہیں
 
ذرا سا غور سے پڑھیں۔ یہ وار بوٹی نہیں ہے۔

وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ
اور جان لو کہ کس بھی شے سے کوئی بھی نفع ہو تو ۔۔۔۔ یہاں صاف صاف لکھا ہے کہ کسی بھی شے سے تم کو غنم یعنی منافع یا نفع ہو۔
یہاں یہ نہیں لکھا کہ کسی بھی شے سے تم کو وار بوٹی ہاتھ آئے۔ کیوں کہ وار بوٹی صرف جنگ سے ہاتھ آتی ہے۔ کسی بھی شے سے صرف نفع ہو سکتا ہے۔ تھوڑا سا پڑھ لو بھائی۔ کہ
غَنِمْتُم

کے معانی نفع ہی ہیں۔قرآن اعلی ترین قانونی زبان میں لکھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس متن کو زبردست کہتے ہیں۔ اور اللہ تعالی اس کو عربیاً یعنی ڈیٹیلڈ، یعنی ہر طرح سے معرب یعنی ہر طرح سے اپنے تفسیر آپ کرنے والا۔۔

کچھ لوگ اپنی ذاتی خواہشوں کی پیروی میں اپنی آمدنی پر اللہ کا حق ادا کرنے سے بچنے کے لئے -- مال غنیمت کو صرف جنگ سے مربوط کرتے رہے۔ اور اپنے دوسرے منافعوں پر اللہ کا حق ادا کرنے سے بھاگتے رہے۔ کیا ایسے لوگوں کی پیروی کرکے ٹیکس بچانا اچھی بات ہے۔ ٹیکس نہیں ہوگا تو ملک کیسے چلے گا؟ سڑکیں کیسے بنیں گی؟ اسکول کیسے بنیں گے؟ کوڑا کیسے اٹھایا جائے گا؟؟
 

قیصرانی

لائبریرین
ضروری نوٹ، وار بوٹی سے مراد جنگ سے حاصل ہونے والا مالِ غنیمت ہے۔ اسے کوچہ ملنگاں سے نہ ملائیں :)
 

علی خان

محفلین
سرمایہ بطور قرضہ لے کر اس پر منافع ادا کرنا کس طور پر منع ہے ۔ اس آیت کا ریفرنس فراہم کیجئے جو سرمایہ بطور ادھار لے کر اس پر منافع کی ادائیگی سے منع کرتی ہو۔
خان صاحب میں نے فیکس سود کی بات بھی کی ہے۔ ذرا اُسکی وضاحت بھی کر دیں۔:D
 

علی خان

محفلین
مولانامحمد انور محمد قاسم سلفی (کویت)
سود کی تعریف
سود کو عربی زبان میں ” ربا“کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔ مثلاً کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100روپئے قرض دئے ، تو اس سے یہ شرط کرلی کہ وہ 100 روپے کے 120روپے لے گا ، مہلت کے عوض یہ جو 20روپے زیادہ لیے گئے ہیں ، یہ سود ہے “۔
سود کی حرمت
اللہ تعالی کا فرمان ہے :”اے ایمان والو ! اﷲ سے ڈرو اور جو سود لوگوں کے پاس باقی رہ گیا ہے اگر ایمان والے ہو تو اسے چھوڑ دو ، اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اﷲ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے خبر دار ہوجاو …. “ ( البقرہ :275)
نیز فرمان باری ہے : ” اے ایمان والو ! کئی گنا بڑھا کر سود نہ کھاو ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاو ، اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے ، اور اﷲ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے“۔ ( آل عمران
icon_sad.gif
132-131)
حجة الوداع کے موقع پر، جس میں تقریباً سارے صحابہ کرام عرب کے چپے چپے سے امنڈ آئے تھے ، اس میں بھی خصوصیت کے ساتھ آپ انے تجارتی اور مہاجنی ہر طرح کے سود کی حرمت کا اعلان فرمایا :”سن لو ! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاوں تلے روند دی گئی ، …. اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا ، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے ۔ اب یہ سارا سود ختم ہے “۔( بخاری )
حضرت عبد اﷲ بن حنظلہ رضى الله عنه کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”سود کا ایک ریال ، جسے انسان جانتے بوجھتے کھاتا ہے ، وہ 36 مرتبہ زنا کاری سے بھی بدتر ہے “۔ ( صحیح : مسنداحمد ، طبرانی )
سیدنا عبد اﷲ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:” سود کے 73 دروازے ہیں ، ان کا سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ جیسے کوئی آدمی اپنی ماں کے ساتھ نکاح کرے ، سب سے بدترین سود کسی مسلمان کی عزت سے کھلواڑ کرنا ہے “۔ (صحیح :مستدرک حاکم ، بیہقی )
سیدنا جابر کہتے ہیں : رسول اﷲ صلى الله عليه وسلم نے سود کھانے والے ، اور اسے کھلانے والے ، اور اس (دستاویز)کے لکھنے والے ،اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت بھیجی ہے اور پھر فرمایا کہ یہ تمام کے تمام گناہ میں برابر کے شریک ہیں ۔“( مسلم ۸۹۵۱)
سیدنا عبد اﷲ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:” جس گاوں میں زنا اور سود رواج پاگیا ، تو وہاں کے باشندوں نے اپنے اوپر اﷲ کے عذاب کو حلال کرلیا ۔“ ( صحیح ،المستدرک للحاکم)
سود بڑھتا نہیں گھٹتا ہے
سود کو بڑھتا اور پروان چڑھتا سمجھنا ، سود کھانے والوں کی خام خیالی ہے ، جب کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد کریم انے اس کے کم ہونے اور تباہ وبرباد ہونے کی پیشین گوئی فرمائی ہے ۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
ترجمہ :”اﷲ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے ، اور اﷲ کسی ناشکرے (سود خور) اور گناہ گار کو دوست نہیں رکھتا بے شک جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کئے اور نماز قائم کی، اور زکاة ادا کی ،ان کا اجر ان کے رب کے پاس ثابت ہے ، اور ان پر نہ خوف طاری ہوگا ، اور نہ انہیں کوئی غم لاحق ہوگا “۔( البقرہ :277-276)
”یَمحَقُ اﷲُ الرِّبَا“کی تفسیر کرتے ہوئے سیدناعبد اﷲ بن عباس فرماتے ہیں : ”محق“ ( گھٹانا ) یہ ہے کہ اﷲ سود خور بندے کا نہ حج قبول کرتا ہے ، نہ صدقہ ، نہ جہاد ، اور نہ صلہ رحمی ۔( یعنی اس کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی ) ۔ ( تقسیر قرطبی :۲/۴۳۲)
سیدنا ا بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”جس شخص نے سودکے ذریعہ زیادہ (مال ) حاصل کیا ، اس کا انجام کمی پر ہی ہوگا “۔(صحیح ، ابن ماجہ )
ایک اور روایت میں ہے : ”سود اگرچہ بظاہر زیادہ نظر آتا ہے لیکن اس کا انجام کمی اور قلت ہے “۔(مستدرک حاکم )
دنیا دار انسان سود کو نفع بخش اور زکاة کو مال میں کمی کرنے والا سمجھتا ہے، جبکہ حقیقت بالکل برعکس ہے، ایسے خام خیال افراد کی ہدایت کےلئے ،سود کے مقابلے میں اﷲ تعالیٰ نے زکاة کا نظام پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مال کو بڑھانا ہو تو اسے رب کی بارگاہ میں زکاةاور صدقات کی شکل میں پیش کرو:
”اور تم لوگ جو سود دیتے ہو ، تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہوجائے تو وہ اﷲ کے نزدیک نہیں بڑھتا ، اور تم لوگ جو زکاة دیتے ہو اﷲ کی رضا حاصل کرنے کےلئے،ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں“۔ (الروم :39)
سود کھانے والوں کی حالت زار
قیامت کے دن سود خور ایک خاص کیفیت سے دوچار ہونگے ، جس سے لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ یہ دنیا میں سود کھاتے تھے ۔ ارشاد باری ہے :ترجمہ :”جو لوگ سود کھاتے ہیں ، وہ اپنی قبروں سے ایسے اٹھیں گے ، جس طرح وہ آدمی جسے شیطان اپنے اثر سے دیوانہ بنا دیتا ہے ، یہ ( سزا انہیں ) اس لیے ملی کہ وہ کہا کرتے تھے کہ خرید وفروخت بھی توسود ہی کی مانند ہے ، حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے خرید وفروخت کو حلال کیا ہے ، اور سود کو حرام قرار دیا ہے ، پس جس کے پاس اس کے رب کی نصیحت پہنچ گئی ، اور وہ (سود لینے سے ) باز آگیا ، تو ماضی میں جو لے چکا ہے وہ اس کا ہے ، اور اس کا معاملہ اﷲ کے حوالے ہے ، اور جو اس کے بعد لے گا ، تو وہی لوگ جہنمی ہوں گے ، اس میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے “۔ ( البقرہ :275)
سیدنا عوف بن مالک ص سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”تم ان گناہوں سے بچو جو ( بغیر توبہ کے ) بخشے نہیں جاتے :۱) خیانت : جس نے کسی چیز میں خیانت کی، اس چیز کے ساتھ اسے قیامت کے دن حاضر کیا جائے گا ۔ ۲) سود خوری : اسلئے کہ جو شخص سود کھائے گا قیامت کے دن پاگل شخص کی طرح جھومتے ہوئے اٹھے گا پھر آپ انے یہ آیت تلاوت فرمائی :
ترجمہ : ”جو لوگ سود کھاتے ہیں ، وہ اپنی قبروں سے ایسے اٹھیں گے ، جس طرح وہ آدمی جسے شیطان اپنے اثر سے دیوانہ بنا دیتا ہے“۔ ( ترغیب وترہیب )
سود خوری ایک ایسا سنگین جرم ہے کہ عالم برزخ اور قبر میں بھی عذاب کا باعث ہوگا ، اور آخرت میں بھی موجب سزا ہوگا ۔سیدنا سمرہ بن جندب صکہتے ہیں کہ رسول اﷲ ا نے فرمایا:” رات میں میرے پاس دو فرشتے(حضرت جبریل ں اورحضرت میکائیل ں)آئے ، وہ مجھے اٹھا کر پاک سرزمین کی طرف لے گئے ،آپ نے کئی چیزیں ملاحظہ فرمائیں ،جن میں ایک چیز یہ بھی تھی کہ آپ ا نے ایک خون کا دریا دیکھا ، جس میں ایک آدمی (تیر رہا ) ہے ، اس نہر کے ایک کنارے ایک آدمی کھڑا ہے ، اس کے پاس پتھروں کا ایک ڈھیر ہے ، خون کے دریا میں جو آدمی ہے ، وہ کوشش کرتا ہے کہ اس دریا سے باہر نکل جائے ، جب وہ کنارے کے قریب آتا ہے، تو کنارے پر کھڑا شخص اس کے منہ میں زور سے پتھر دے مارتا ہے ، پھر وہ شخص خون کے دریا کے وسط میں چلا جاتا ہے ،پھر وہ کوشش کرتا ہے کہ باہر نکل جائے ، لیکن کنارے پر کھڑا شخص اس کے منہ پر پھر زور سے ایک پتھر مارتا ہے ۔ اس کے ساتھ مسلسل یہی سلوک ہورہا ہے ۔ رسول اﷲا فرماتے ہیں : میں نے ان دونوں سے پوچھا :”اس آدمی کو یہ سزا کیوں مل رہی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : یہ سود خور ہے ، سودی کاروبار کیا کرتا تھا، اس لیے اس کو یہ سزا مل رہی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا :” جو سزا آپ نے اس کو ملتے دیکھی ، وہ اسے قیامت تک ملتی رہے گی“ ۔(بخاری)
سود کی بعض قسمیں
سود ایک چیز کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ دے کر فروخت کرناہے ۔ فقہاءنے اس کا قاعدہ کلیہ یہ بتایا ہے کہ وہ تمام اجناس، جن میں ” ناپ ، وزن اور خوراک “ تینوں صفات میں سے کوئی دو صفتیں پائی جائیں ، ان کا آپس میں لین دین یا خرید وفروخت کسی ایک کو زیادہ کرکے جائز نہیں۔ جن چیزوں میں یہ تینوں صفات معدوم ہوں ، یا ان کی جنس مختلف ہو ، تو پھر کسی کی زیادتی سود نہیں ہوگی ، جیسا کہ سیدنا عبادہ بن صامت صسے مروی ہے کہ رسول اکرم انے فرمایا :
” سونا سونے کے بدلے ،چاندی چاندی کے بدلے ، گیہوں گیہوں کے بدلے ، جو جو کے بدلے اور کھجور کھجور کے بدلے ، برابر بیچنا جائز ہے ، لیکن ان میں سے کسی ایک کو گھٹا بڑھا کر بیچنا یا دینا سود ہے “۔ ( مسلم ، احمد )
اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز جتنی دی جائے اتنی ہی واپس لینی چاہئے ،جتنا سونا یا چاندی دی ہو ، یا جتنا روپیہ دیا ہو، اتنا ہی واپس لینا چاہئے ،اصل مال پر کچھ زائد رقم کا لینا ، چاہے وہ رقم کم ہو یا زیادہ ، سود ہے ۔
مہاجنی سود :وہ یہ کہ لوگ اپنی ذاتی ضرورت کےلئے سرمایہ دار افراد سے قرضے لیتے ، اور انہیںان کی دی ہوئی رقم پرماہانہ مشروط سود کے ساتھ واپس کرتے ہیں ۔
بینک کا سود : کچھ لوگ بینکوں سے تجارت یا زراعت کےلئے قرضے حاصل کرتے ہیں اور مقررہ میعاد پر متعین شرح سود کے ساتھ واپس کرتے ہیں۔
فکس ڈپازٹ :کچھ لوگ سودی بینکوں میں روپیہ کچھ مدت ( مثلاً پانچ یا دس سال ) کےليے جمع (Deposit ) کردیتے ہیں ، جو انہیں %12 یا %15 فیصد سود دیتے ہیں ، اس مخصوص مدت کے اختتام پر ان کی رقم دگنی یا تگنی ہو کر ملتی ہے ۔ یہ سب سود ہے۔لیکن اگر کوئی شخص اپنی رقم ایسی بینک میں جمع (Deposit ) کرتا ہے جو سودی نہیں ، یا اسلامی بینک ہیں ، اور وہ اسے متعین فیصد سود کے بجائے نفع اور نقصان کی شراکت پر فائدہ یا نقصان دیتا ہے تو اس طرح کی بینکوں سے ملنے والی زائد رقم سود متصور نہیں ہوگی ۔
لائف انشورنس :یہ ہے کہ کمپنی اپنے کسی معتمد ڈاکٹر سے کسی شخص کا طبّی معائنہ کراتی ہے ، اور وہ ڈاکٹر کمپنی کو اس شخص کی صحت کے متعلق رپورٹ پیش کرتا ہے کہ اس شخص کی صحت سے امید ہے کہ وہ بیس سال تک زندہ رہے ،اس پر کمپنی اس شخص سے دس یا پندرہ سال کے لیے معاہدہ کرتی ہے کہ مثلاً : وہ شخص دس سال تک ماہانہ قسطوں میں انشورنس کمپنی کودس لاکھ روپیہ ادا کرے گا ، دس سال پورے ہونے کے بعد کمپنی اسے پچیس لاکھ دے گی ۔ اگر وہ شخص دو سال میں ہی فو ت ہوجاتا ہے تو کمپنی کو لازمی طور پر اپنے اس گاہک(Client) کے ورثاءکو پچیس لاکھ روپیے ادا کرنے ہوں گے ۔ اگرگاہک (Client)نے کمپنی کو دو ڈھائی سال تک قسطوں میں رقم ادا کیا ، لیکن پھر کسی سبب سے اس نے قسطیں مکمل نہیں کیں ، تو کمپنی اسے ایک پیسہ بھی ادا نہیں کرتی ، بلکہ اسکی جمع کردہ ساری رقم بھی ڈوب جاتی ہے۔
لائف انشورنس میں بے شمار خامیاں اور خرابیاں ہیں ، مندرجہ ذیل چند اہم اسباب کی وجہ سے اکثر علماءنے اس کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے :
-1 یہ اﷲ پر بندے کے توکل کے خلاف ہے ۔
-2اس میں بسا اوقات یا تو کمپنی کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے یا کلینٹ کو ، اور اسلام میں خود نقصان اٹھانا یا دوسروں کو نقصان پہنچاناجائز نہیں۔
-3بسا اوقات ورثاءکے دل میں مال کی حرص پیدا ہوجاتی ہے ، کئی واقعات میں ورثاءنے ہی کلینٹ کا قتل کردیا اور کمپنی سے انشورنس کی رقم ہتھیالی ۔
غیر منقولہ مرہون چیز سے استفادہ : عام لوگوں میں سود کی جو قسمیں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی آدمی کسی غریب کو کچھ رقم بطور قرض دیتا ہے ، اور رہن میں اس کا گھر رکھ لیتا ہے ، پھر اس میں یا تو خود رہتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھاتا ہے یا کسی کو کرایہ پر دے کر اس کا کرایہ خود کھاتا ہے ، اس طرح کے کاروبار میں صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور دینی مزاج رکھنے والے لوگ تک بھی ملوث پائے جاتے ہیں۔
کمیٹی وغیرہ کا سود:عام لوگوں میں رائج سود کی قسموں میں سے یہ بھی ایک قسم ہے کہ دس آدمی مل کر ہر ماہ دس دس ہزار جمع کرتے ہیں ، اور پھر اس ایک لاکھ روپئے کی بولی لگتی ہے ، کوئی کہتا ہے : میں اسے نو ّے ہزار میں لوں گا ۔ دوسرا کہتا ہے ، میں اسے اسّی ہزار میں لوں گا ، تیسرا کہتا ہے کہ میں اسے ستّر ہزار میں لوں گا ۔ غرضیکہ جو سب سے زیادہ کم بولی لگاتا ہے ، اسے اتنی رقم دے دی جاتی ہے ، باقی ماندہ تیس یا چالیس ہزار روپئے تمام لوگ آپس میں بانٹ لیتے ہیں ، اور جس نے بولی کی رقم لی ہے اسے پورے ایک لاکھ روپئے ہی بھرنے پڑتے ہیں ۔ یہ بھی سود کی ایک اہم قسم ہے ، اسے کہیں” کمیٹی” اور کہیں” چیٹی” وغیرہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔
ان کے علاوہ کئی ایسے راستے اور طریقے ہیں جو کہ سود تک لے جاتے ہیں

جاری ہے۔
 

علی خان

محفلین
بینکوں سے لین دین
آج ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر بینکوں سے
واسطہ پڑہی جاتا ہے بالخصوص وہ لوگ جو کسبِ معاش کے لیے بیرون ملک رہتے ہیں ، انہیں اپنی رقوم بھیجنے کے لیے بینکوں سے تعلق لازمی وضروری ہے ، اس لیے کہ بینکوں کے سوا دوسرے جو بھی ذرائع ہیں ہمارے ملکی قانون کی نگاہ میں جرم ہیں ، علاوہ ازیں ان ذرائع سے بھیجی ہوئی رقم کے گھر پہنچنے تک انسان پریشانی کا شکار رہتا ہے ، نیز اگر یہ طریقہ اطمینان بخش بھی ہو لیکن اس سرمایہ سے انسان کوئی جائیداد ، گھر یا پراپرٹی خریدتا ہے تو انکم ٹیکس کا محکمہ اسے اپنا شکار بنا لیتا ہے کہ اس کے پاس اس جائیداد کو خریدنے کے لیے روپیہ کہاں سے آیا ؟ اس طرح آدمی قانون اور انکم ٹیکس محکمہ کے چنگل میں ایسے پھنس جاتا ہے کہ الامان والحفیظ ۔
ایسے حالات میں علماءنے مسلمانوں کو اس بات کی اجازت عطا فرمائی ہے کہ وہ بوقت ضرورت سودی بینکوں کے ذریعے اپنی رقوم منتقل کرسکتے ہیں ۔ شیخ الاسلام علامہ عبد العزیز بن عبداﷲبن باز رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :
”اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر حاضر میں انہی بینکوں کے ذریعے رقوم منتقل کرنا عام ضروریات میں سے ہے ، اسی طرح سود کی شرط کے بغیر محض حفاظت کے لیے رقوم رکھنے میں کوئی حرج نہیں“۔( فتاویٰ اسلامیہ: 2/ 525)
اگر اس طرح کوئی شخص بینک میں کرنٹ اکاونٹ کا کھاتہ کھولتا ہے ، جس پر اسے سود نہ ملتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
اضطراری کیفیت کا حکم
رسول اﷲصلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے :” لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب ہر کوئی سود کھانے والا ہوگا، اگر سود نہ کھائے تو اس کا غبار اسے ضرور پہنچ کر رہے گا“۔ (نسائی ،کتاب البیوع ، باب اجتناب الشبہات فی الکسب )
اور آج کا دور بالکل ایسا ہی دور ہے ، پوری دنیا اور اسی طرح مسلمانوں کے رگ وریشے میں بھی سود کچھ اس طرح سرایت کرگیا ہے کہ جس سے ہر شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر ہورہا ہے ، ایک مسلمان اگر پوری نیک نیتی سے سود سے کلیتاً بچناچاہے بھی تواسے کئی مقامات پر الجھنیں پیش آتی ہیں ، مثلاً: آج کل اگرکوئی شخص گاڑی ، سکوٹر ،کار ، بس یا ٹرک خریدنا چاہے تو اسے لازمًا اس کی انشورنس کرانا پڑے گا ۔ اسی طرح جو تاجر پیشہ افراد بینک سے تعلق نہ رکھیںاور بینک سے ایل سی(Letter Of Credit ) یا اعتماد نامہ حاصل نہ کریں تو وہ نہ مال درآمد کرسکتے ہیں اور نہ بر آمد ۔
ایسے حالات کے متعلق عرض ہے کہ اس قسم کے سود کو ختم کرنا یا اس کی متبادل راہ تلاش کرنا اسلامی حکومتوں کا کام ہے ، اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو ہر مسلمان انفرادی طور پرجہاں تک سودسے بچ سکتا ہے بچے ، اور جہاں وہ مجبور ہے اﷲ تعالیٰ معاف فرمادے گا، اس لیے کہ شریعت کا اصول ہے کہ مواخذہ اس حد تک ہے جہاں انسان کا اختیار ہے ،جہاںاضطرار ہے وہاں مواخذہ نہیں ہوگا۔ ان شاءاﷲ
شیئرمارکیٹ کا حکم
آج کا دور شیئر مارکیٹنگ کا دور ہے ، وہ اس طرح کہ نامور کمپنیاں لوگوں میں اپنی کمپنیوں کے حصے فروخت کرتی ہےں جو شخص کسی کمپنی کا شیئر خریدتا ہے وہ اس کمپنی کا شیئر ہولڈر بن جاتا ہے ، سال میں کمپنی اپنے نفع یا نقصان کے حساب سے اپنے شیئر ہولڈروں میں نفع یا نقصان تقسیم کرتی ہے ، جب کمپنی فائدے میں ہو تو اس کے شیئر کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے ، جب کمپنی گھاٹے میں ہو تو اس کے شیئر کی قیمت گرجاتی ہے ، اور اس کے شیئر ہولڈروں کو بسا اوقات ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔
شیئر مارکیٹ میں سرمایہ لگانے کے متعلق علماءمختلف الخیال ہیں ، کچھ اسے اس لیے جائز قرار دیتے ہیں کہ اس میں کوئی متعین سود نہیں ملتا ، اور نفع اور نقصان ،دونوں کا احتمال ہے ، اس لیے جائز ہے ۔ بعض علماءکا یہ خیال ہے کہ دور حاضر میں شیئر مارکیٹ ، سٹّے کا ایک عظیم کاروبار بن چکا ہے ، اس میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ درمیان کے دلال ، لوگوں کا سرمایہ لیکر رفو چکر ہوجاتے ہیں ، اور بے چارے عوام کی خون پسینے کی گاڑھی کمائی منٹوں میں برباد ہوجاتی ہے ، اور شیئر مارکیٹ میں اس طرح کی ڈوبی ہوئی رقم کی بازیابی کا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے ۔ دوسرا یہ کہ اکثر کمپنیاں کیا کاروبار کرتی ہیں ، اس کی بھی شیئرز ہولڈرس کو کوئی خبر نہیں ہوتی ، کئی کمپنیاں حرام اشیاءکی تجارت کا بھی کاروبار کرتی ہیں، اور اس سے حاصل ہونے والے فائدے کو اپنے حصہ داروں میں تقسیم کرتی ہیں ۔تیسرا سبب یہ کہ کئی کمپنیاں اپنے شیئرز ہولڈرس کو کمپنی کے نفع نقصان کے متعلق دھوکے میں رکھتی ہیں ، مثلا ًکمپنی اگر گھاٹے میں چل رہی ہو تو وہ اس طرح کی معلومات فراہم کرتی ہیں کہ کمپنی چل نہیں بلکہ دوڑ رہی ہے ، جس وقت کمپنی کا جنازہ اٹھ رہا ہوتا ہے اس وقت اس کے حصے داروں کو پتہ چلتا ہے کہ ہماری زندگی بھر کی کمائی شیئر قزاقوں کی نذر ہوگئی ، ان میں سے بعض صدمے سے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں اور بعض قبرستان۔ ان تمام اندیشوں کے باوجود کچھ علماءنے مندرجہ ذیل شروط کے ساتھ کمپنیوں کے شیئر خریدنے کی اجازت دی ہے کہ:
-1 کمپنی حلال اشیاءکا کاروبار کرتی ہو ۔
-2سود سے اس کاکوئی تعلق نہ ہو۔
-3 سودی بینکوں کے شیئرز کی خریداری سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔
اگر ان چیزوں کا خیال رکھا جائے تو پھر ایسی کمپنیوں کے شیئرز خریدنے میں حرج نہیں ہے ۔
سود کی تباہ کاریاں
-1سود خور ، اﷲ کی رحمت سے دور،اور وہ اﷲ اور اس کے رسول اسے حالت جنگ میں رہتا ہے ۔
-2اﷲ تعالیٰ نے کسی بھی کبیرہ گناہ کے مرتکب کو وہ دھمکی نہیں دی اور اس عذاب کا وعدہ نہیں کیا جو سود خور کےلئے کیا ہے ۔
-3سود ایک اجتماعی جرم ہے ، وہ جس معاشرے میں رواج پاجائے گا اسے تباہ وبرباد کردے گا اور اس کی (اقتصادی ) بنیادوں کو منہدم کردے گا ، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جن غریب ممالک نے عالمی بینکوں سے سے قرض لیا ہے وہ سود در سود ادا کرتے کرتے تباہ ہو گئے ، لیکن قرض بدستور برقرار ہے.
-4سود کھانے والے شخص کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی ، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ” حرام کا ایک لقمہ کھانے کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ بندے کی چالیس دن کی عبادت قبول نہیں فرماتا“۔( ترمذی )
نیز ارشادنبوی صلى الله عليه وسلم ہے :”اگر کوئی شخص ایسا لباس پہنتا ہے جس میں نو ریال تو حلال کے ہیں اور ایک ریال حرام کا ہے تو یہ لباس جب تک اسکے جسم پر رہے گا اﷲ تعالیٰ اس کی کسی عبادت کو قبول نہیں فرماتا “۔ ( ابن ماجہ)
-5 اﷲ تعالیٰ کبھی کبھی کافر اور مشرک کی دعا بھی قبول کرلیتا ہے ،لیکن اس کی بارگاہ میں سود خور کی دعا تک قبول نہیں ہوتی۔
 
Top