امریکہ ٹوٹ رہا ہے؟

علی خان

محفلین
(1) سود وربا کی تعریف تو مجھے کتاب وسنت میں کہیں نہیں ملی البتہ اس کے ناجائز اور حرام ہونے پر دلالت کرنے والی نصوص کتاب وسنت میں بکثرت موجود ہیں ۔ ہاں اس کی اقسام کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا فرمان «ثَلاَ ثَهٌ وَّسَبَعُوْنَ بَابًا»سنن ابن ماجه ابواب التجارات-باب التغليظ في الربو ’’سود کے تہتر (۷۳) درجے ہیں ان کا معمولی یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے نکاح کرے اور سب سے بڑا سود مسلمان کی عزت تباہ کرنا ہے‘‘
(2) ایک چیز کی بیع نقد سو میں اور ادھار سوا سو میں ہو تو نقد سو درست اور اُدھار سوا سو سود ہے ابوداود میں رسول اللہﷺ کا فرمان ہے :
«مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِیْ بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْ کَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا»سنن ابى داؤد كتاب البيوع-باب فى من باع بيعتين فى بيعة

’’جو شخص ایک بیع میں دو سودے کرے تو اس کے لیے کم تر قیمت والا سودا ہے یا سود ہے‘‘
(3) قسطوں پر خریدی ہوئی چیز کی قیمت جو قسطوں میں ادا کرنی ہے نقد والی ہے تو درست اور جائز ۔ اور اگر قسطوں میں ادا کی جانے والی قیمت نقد قیمت سے زائد ہو تو سود وحرام ہے دلیل پہلے لکھ چکا ہوں ابوداود والی حدیث :
«مَن بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِیْ بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْ کَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا» ’’جو ایک بیع میں دو بیع کرتا ہے پس اس کے لیے دونوں سے کم ہے یا پھر سود ہے‘‘
(4) سرکاری یا غیر سرکاری ملازمین جس کام پر ملازمت کر رہے ہیں اگر وہ کام شرعاً درست اور جائز ہے تو ان کی ملازمت وتنخواہ بھی جائز اور درست ہے اور اگر وہ کام شرعا درست اور جائز نہیں تو ان کی ملازمت وتنخواہ بھی جائز اور درست نہیں۔
رہا سودی بنکوں میں اکائونٹ تو وہ جائز نہیں خواہ سیونگ ہو خواہ کرنٹ ۔ سیونگ کا ناجائز ہونا تو واضح ہے کہ وہ سودلینے دینے پر مشتمل ہے اور سود لینا دینا حرام ہے اور کرنٹ اس لیے ناجائز ہے کہ اس میں رقم جمع کرانے والا سودی کاروبار میں زبردست تعاون کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ وَٱلتَّقۡوَىٰۖ وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ﴾--مائدة2

’’اور مددگاری کرو اوپر بھلائی کے اور پرہیزگاری کے اور مت مددگاری کرو اوپر گناہ کے اور ظلم کے‘‘ کرنٹ والے کی رقم بنک والے دوسروں کو دے کر ان سے سود وصول کریں گے لہٰذا یہ کرنٹ والا ان کا معاون ٹھہرا جبکہ گناہ کے کاموں میں تعاون کرنے سے اللہ تعالیٰ منع فرما رہے ہیں۔
وباللہ التوفیق
 
ربا کی تعریف بالکل درست لکھی ہے لیکن اس سے قانون سازی اپنی مرضی کی ، کی گئی ہے۔ سود خور وہ ہے جو منافع میں سے اللہ کاحق کھاجائے نا کہ منافع ہی نا لے؟؟؟
 

علی خان

محفلین
خان صاحب میں اور آپ عالم نہیں ہیں۔ یہ جو کچھ لکھا گیا ہے۔ یہ سب ایک عالم کی تحاریر ہیں۔ ان پر اعتراز کرنے والا بھی عالم ہونا چاہئے۔ میرے اور تمھارے جیسا نہیں۔
 

علی خان

محفلین
خان صاحب میرے خیال سے یہ ہے اپکا 20٪ والا ٍٹیکس کا نظام جو اسلامی ہے۔

Main article: Rate schedule (federal income tax In the United States, the dollar amounts of the Federal income tax standard deduction and personal exemptions for the taxpayer and dependents are adjusted annually to account for inflation. This results in yearly changes to the personal income tax brackets even when the Federal income tax rates remain unchanged.​
6dx0cm.png
The Federal income tax brackets for 2011 are as follows​
jtl8ox.png
Two higher tax brackets (36% and 39.6%) were added in 1993, and then taxes in all brackets were lowered in 2001 through 2003 as follows​
2884cus.png
 
خان صاحب میں اور آپ عالم نہیں ہیں۔ یہ جو کچھ لکھا گیا ہے۔ یہ سب ایک عالم کی تحاریر ہیں۔ ان پر اعتراز کرنے والا بھی عالم ہونا چاہئے۔ میرے اور تمھارے جیسا نہیں۔
بھائی آپ اپنے عالم کو لے آئیے۔ بات یہیں تک پہنچے گی کہ امریکہ اللہ تعالی کے فراہم کردہ اصولوں پر چل رہا ہے اور دیگر اقوام اپنے من مانے بندوں کے اصولوں پر۔ کبھی عالموں کے بہانے، کبھی حدیثوں کے بہانے۔ ماننے کا ایک بہانہ ہوتا ہے اور نا ماننے کے سو بہانے ۔ قرآن حکیم کے الفاظ واضح ، روشن اور درست ہیں۔ لغۃ القریش آج بھی عام ہے ۔ آپ کو عالموں کی ضرورت ہوگی ۔ مسلمان کو قرآن کے واضح اور روشن احکام کو سمجھنے کے لئے کسی تیسری پارٹی ضرورت نہیں ۔ اس لئے کہ اللہ تعالی سورۃ القمر میں چار بار گواہی دیتا ہے کہ

54:17 ، 22، 32، 40 ، وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ
اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے

جو لوگ اللہ تعالی کی 4 گواہیوں کے بعد بھی نہیں مانتے اور خود صاف اور روشن دلیلوں کو سننے کے بعد، اپنے مذہب کے عالموں کے پاس دوڑتے ہیں کہ اس کا کیا جواب ہونا چاہئے ۔ اب تو 20 فی صد ٹیکس لگا ہی لگا۔ کسی طور بچا لو۔۔۔۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالی نے بتا دیا ہے کہ

39:69 وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور الکتاب (قران) رکھ دی جاوے گی اور نبی اور گواہ لائے جاویں گے او ان کا فیصلہ کیا جاوے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا
 

علی خان

محفلین
میرے سوالوں کا ابھی تک کوئی بھی جواب مکمل ریفرنس کے ساتھ نہیں دیا ہے۔ میرے تمام سوالات ابھی تک وہی کے وہی ہیں۔ اور اسکے علاوہ اپکے امریکہ والی 20٪ فیصد کی کہانی بھی میں نے اُوپر بیان کر دی ہے۔ :D اب اس کے لئے بھی کوئی سر- پیر بنا ہی دیں۔
 
میرے سوالوں کا ابھی تک کوئی بھی جواب مکمل ریفرنس کے ساتھ نہیں دیا ہے۔ میرے تمام سوالات ابھی تک وہی کے وہی ہیں۔ اور اسکے علاوہ اپکے امریکہ والی 20٪ فیصد کی کہانی بھی میں نے اُوپر بیان کر دی ہے۔ :D اب اس کے لئے بھی کوئی سر- پیر بنا ہی دیں۔

آپ کے سب سوالوں کا جواب ایک ایک کرکے مل جائے گا۔ آرام آرام سے دیکھئے۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ جب آپ ایک انگلی امریکہ کی طرف اٹھاتے ہیں تو 3 انگلیاں آپ کی طرف ہوتی ہیں۔ پاکستان میں آمدنی کے سب سے بڑے ہیڈ زراعت پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ کیوں؟
اس لئے کہ پاکستانی اپنا ٹیکس دنیا کی سب سے روشن اور با دلیل کتاب کے مطابق ادا ہی نہیں کرنا چاہتے۔ پاکستانی اپنے آپ سے بھی دھوکہ کرتے ہیں۔ کیوں؟ یہ سمجھتے ہیں کہ ادھر ادھر ڈھائی فی صد زکواۃ ادا کرکے بچ جائیں گے۔ لیکن 20 فی صد اوسط زکواۃ ادا نہیں کریں گے تو ان کے مالی حالات ایسے ہی رہیں گے جیسے آج ہیں۔ اس لئے کہ دولت کی گردش کے بغیر کوئی ملک غربت ہی میں گھرا رہے گا۔ یہ اللہ تعالی سے خیانت اور اپنے آپ کو دھوکہ ہوا۔

جب اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اللہ کا حق فصل کٹنے پر ادا کردو تو کیا وجہ ہے کہ سارا پاکستان یہ حق ادا ہی نا کرے؟؟؟؟
سورۃ الانعام آیت 141
6:141
اور اسی نے وہ باغ پیدا کیے جو چھتو ں پر چڑھائے جاتے ہیں او رجو نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت او رکھیتی جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیے جو ایک دوسرے سے مشابہاور جدا جدا بھی ہیں ان کے پھل کھاؤ جب وہ پھل لائیں اور جس دن اسے کاٹو اس کا حق ادا کرو اور بے جا خرچ نہ کرو بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

1۔ پاکستانہ کا ہر کمانے والا 20 فی صد ٹیکس یا زکواۃ ادا نہیں کرتا
2۔ پاکستان فصل کٹنے پر ٹٰیکس ادا نہیں کرتا۔
3۔ پاکستان ہ کا ہر کمانے والا مع زرعی آمدنی سے کمانے والا ، ٹیکس حکومت وقت کا حق نہیں سمجھتا

جبکہ امریکہ کا ہر کمانے والا 20 فیصد سے زائید ٹیکس یا زکواۃ حکومت وقت کو ادا کرتا ہے

امریکہ کا ٹیکس ریٹ کا ٹیکس ادا کرنے والوں کا باوزن اوسط weighted average نکال لیں اور اس میں 4 فی صد سے 10 فی صد ریاست کا ٹیکس جمع کرلیں۔ سیلز ٹیکس اس کے علاوہ ہے یہ 20 فی صد سے کہیں زائید بنتا ہے۔ جی؟ اب آپ کہیں گے کہ یہ تو 20 فیصد سے زائید ہو گیا۔۔۔۔ جی اس کا بھی جواب ہے ۔

اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی کیا حد ہے؟ یعنی مرکزی حکومت کو ٹیکس دینے کی کیا حد ہے؟
سورۃ البقرۃ ، آیت 219
2:219
آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے، اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں ) کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں: جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)، اسی طرح اﷲ تمہارے لئے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو

محترم بھائی۔ میرا مقصد، آپ کو ان نکات سے اختلاج یا سٹریس میں مبتلا کردینا نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ کم از کم ایک نکتے ۔۔۔ زکواۃ یا ٹیکس کی ادائیگی پر پاکستانی قوانین یا پریکٹس کے اصول اور امریکی قوانین یا پریکٹس کے اصول واضح ہیں۔ مجھے امریکی ٹیکس کا بنیادی اصول قرآن کے اصولوں کے زیادہ نزدیک لگتا ہے۔ اگر آپ ڈھائی فیصد اثاثے پر اپنی مرضی سے کسی فرد کو ٹیکس یا زکواۃ کی ادائیگی کے حق میں ہیں ۔ تو آپ کے پاس دو مشکلیں ہیں ۔ آپ حکومت وقت کی جگہ اپنی مرضی کے لوگوں کو ٹیکس دینے کا اصول کس طرح قرآن سے ثابت کریں گے؟ اس طرح کی مدد، معیشیت کو بڑھانے میں کس طرح ممدد اور معاون ہو سکتی ہے؟ تعمیری کاموں کے لئے رقم کہاں سے آئے گی۔ فلاحی پروگرام کیسے چلیں گے؟ صحت، تعلیم، سڑکیں ، یونیورسٹیا، اسکول کیسے بنیں گے؟ِ
اور ڈھائی فی صد کے لئے کیا جواز لے کر آئیں گے؟ سارے قرآن میں ڈھائی فیصد کی کوئی بنیاد نہیں ملتی۔


اگر آپ اس نکتے کے واضح فرق کو یہیں تک چھوڑ دینے پر تیار ہوجائیں تو آپ کے سوالات اور دوسرے بھائیوں کے سوالات کی طرف چلیں؟؟؟؟ تاکہ مزید نکات پر فرق نمایاں ہوتے جائیں۔
 
اب خان صاحب ایک اسلامی ملک اس پر عمل نہیں کرتا تو اس میں دین اسلام کا کوئی قصور نہیں ۔ یہ تو اُن حکمرانوں اور رعایا کا قصور ہے۔ کیونکہ اسلام نے تو سب کچھ واضح کر دیا ہے۔ اب باقی رہتا عمل کرنا یا نہ کرنا۔ اور پھر اسکے لئے جزاء اور سزا کا ایک سسٹم موجود ہے۔ اور وہ برحق ہے انشاء اللہ ذرے ذرے کا حساب ہوگا۔ آپ بھی وہا ں ہی ہونگے اور ہم بھی وہاں ہونگے دیکھ لیں گے کہ حساب ہوتا ہے یا نہیں۔:D

یہ سب سے اہم نکتہ ہے کہ جب آپ ایک ملک کو اسلامی ملک قرار دیتے ہیں اور دوسرے ملک کو کافر پھر آپ یہ بھی شرط لگا دیتے ہیں کہ یہ اسلامی ملک بھی آپ کے اسلام کی تعریف پر پورا نہیں اترتا تو پھر ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے آئین و قوانین کے اصولوں کو اللہ کے فرمان کے اصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے۔ اگر آپ کا اسلام قرآن و سنت کے بعد کسی شریعت، کسی طریقت ، کسی روایت، کسی فقہ پر انحصار کرتا ہے تو یہ سب کچھ تمام کے تمام ممالک ریجیکٹ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میرا سوال وہیں کا وہیں ہے کہ امریکہ کے قوانین اور آئین میں کون سا ایسا قانون ہے جو اللہ تعالی کے حکم کے خلاف ہے۔

ٹیکس یا زکواۃ امریکہ قرآن کے اصولوں کے قریب ترین ادا کرتا ہے۔ پاکستان زرعی آمدنی پر ٹیکس کھا جاتا ہے اور باقی آمدنی پر بھی اللہ کا حق کم از کم 20 فی صد ادا نہیں کرتا۔ باقی نکات جیسے جیسے بات بڑھتی ہے۔ سامنے آتے جائیں گے۔
 

علی خان

محفلین
یہ سب سے اہم نکتہ ہے کہ جب آپ ایک ملک کو اسلامی ملک قرار دیتے ہیں اور دوسرے ملک کو کافر پھر آپ یہ بھی شرط لگا دیتے ہیں کہ یہ اسلامی ملک بھی آپ کے اسلام کی تعریف پر پورا نہیں اترتا تو پھر ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے آئین و قوانین کے اصولوں کو اللہ کے فرمان کے اصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے۔ اگر آپ کا اسلام قرآن و سنت کے بعد کسی شریعت، کسی طریقت ، کسی روایت، کسی فقہ پر انحصار کرتا ہے تو یہ سب کچھ تمام کے تمام ممالک ریجیکٹ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میرا سوال وہیں کا وہیں ہے کہ امریکہ کے قوانین اور آئین میں کون سا ایسا قانون ہے جو اللہ تعالی کے حکم کے خلاف ہے۔

ٹیکس یا زکواۃ امریکہ قرآن کے اصولوں کے قریب ترین ادا کرتا ہے۔ پاکستان زرعی آمدنی پر ٹیکس کھا جاتا ہے اور باقی آمدنی پر بھی اللہ کا حق کم از کم 20 فی صد ادا نہیں کرتا۔ باقی نکات جیسے جیسے بات بڑھتی ہے۔ سامنے آتے جائیں گے۔
خان صاحب۔ مجھے پاکستان کی پٹی نہ ہی پڑھائیں تو اچھا ہے۔ میں نے آپ سے پہلے بھی کہا ہے۔ کہ اپنے دوغلی باتیں کسی ملک کی پالیسی میں مت چھپائیں۔ مجھے یہ بتائیں کہ اسلام کیا کہتا ہے۔ بس
اور اسکے علاوہ میں نے اس ریڈ ٹیکسٹ کا بھی جواب واضح انداز میں اُوپر کی پوسٹوں میں دے دیا ہے۔ اب آپ دن کو رات کہتے ہیں۔ اسکا کوئی بھی جواب نہیں ہے۔ مگر اتنا جواب ہے۔ کہ ہر قسم کا سود حرام ہے۔ اب اسکے لئے آپ جس قسم کا بھی جواز پیش کردیں۔ حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا ہے۔ :D
 
مولانامحمد انور محمد قاسم سلفی (کویت)
سود کی تعریف
سود کو عربی زبان میں ” ربا“کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔
اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔ مثلاً کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100روپئے قرض دئے ، تو اس سے یہ شرط کرلی کہ وہ 100 روپے کے 120روپے لے گا ، مہلت کے عوض یہ جو 20روپے زیادہ لیے گئے ہیں ، یہ سود ہے “۔

ربا کی تعریف آپ نے سرخ رنگ کی عبارت سے کی۔ یعنی زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا، اور بلندی کی طرف جانا۔

جبکہ نیلی عبارت کسی کی اپنی مرضی اور ذآاتی خواہشوں کی تعبیر ہے۔

سورۃ انفال، آیت 41 کے مطابق، اللہ کا حق کسی بھی شے سے ہونے والے نفع یا ٍغنم کا پانچواں حصہ یعنی 20 فی صد ہے۔ یہ وہ بڑھوتری ہے جو ربا یا سود ہے۔ یہ 20 فی صد بڑھوتری اللہ کا حق ہے، اس بیس فی صد بڑھوتری کو کھا جانا -- سود خوری، یا
يَأْكُلُونَ الرِّبَا
یعنی بڑھوتری میں اللہ کے اس حق کو کھا جانا سود خوری ہے۔ نا کہ کسی بھی قسم کا منافع لینا سود خوری ہوا؟

کیا آپ اپنا سارا اثاثہ مجھ کو 1000 سال کے لئے بناء کسی منافع کے ادھار دینے پر تیار ہوجائیں گے۔ ساری اسلامی دنیا میں ایک بندہ بھی اس کام کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ بلکہ 100 سال یا 10 سال کے لئے بھی تیار نہیں ہوگا۔ کیوں ؟؟؟ اس لئے کہ اس رقم سے میں اور میری نسلیں اس رقم سے کاروبار کریں گے اس میں اضافہ کریں گے اور مزے کریں گے۔

لیکن اگر میرا کوئی کاروبار کئی سالوں سے چل رہا ہے تو کوئی بھی شخص میرے کسی موجودہ کاروباری ماڈل میں اپنی رقم لگانے کے لئے تیار ہوجائے گا اور اس کاروبار سے منافع کا تقاضا بھی کرے گا۔ یہ بالکل ایک فطرتی امر ہے۔ کیا ایسا منافع ناجائز ہے؟ بالکل نہیں ۔۔ کیا اس منافع میں سے 20 فی صد بڑھوتری اللہ کا حق ہے؟؟ بالکل ہے۔۔ تو اگر کوئی اللہ تعالی کا یہ حق حکومت وقت کو نہیں ادا کرے تو کیا وہ ایک نیک کام کررہا ہے؟؟؟ بالکل نہیں۔ ایسے شخص کو جو اس 20 فیصد بڑھوتری کو کھا جائے کیا کہیں گے ؟؟؟؟ منافع خور، سود خور، یا
يَأْكُلُونَ الرِّبَا
کے مرتکب ہونے والوں میں شمار ہونے والا؟؟؟ جی بالکل۔

جو رقمیں اس مد میں بطور ٹیکس دی جائیں گی وہ رقمیں کس کو ادا کی جائیں گی؟
جو لوگ اس زکواٰۃ ، صدقات ، اللہ کے حق کو جمع کرنے کے عمل پر معمور ہیں ان کا بھی اس میں حصہ ہے۔ اگر لوگ آپس میں مل کر ایک گروپ یا حکومت اس کام کے لئے متعین کردیتےہیں تو پھر حکومت ہی ان عاملین میں سے ہے جو 20 فی صد یا زائید بڑھوتری کی رقم کو وصول کر اس کو پہلے سے بتائی ہوئی مدوں میں خرچ کرے گی۔ اس کے لئے دیکھئے۔ سورۃ توبہ آیت 60

9:60
بیشک صدقات (زکوٰۃ یا ٹیکس) غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

کیا پاکستان یا کسی بھی نام نہاد اسلامی ملک میں بڑھوتی پر ٹیکس کا نظام موجود ہے؟؟؟ امریکہ میں ہے۔
کیا کسی بھی اسلامی ملک میں غریبوں اور محتاجوں کے لئے فلاحی نظام موجود ہے؟؟؟؟ امریکہ میں ہے
کیا کسی بھی اسلامی ملک میں زکواۃ یا ٹیکس یا صدقات یا اللہ کا حق 20 فی صد مرکزی حکومت کو ادا کیا جاتا ہے؟؟؟ امریکہ میں کیا جاتا ہے
کیا اسلامی ممالک میں غلاموں کو آزاد کیا جاتا ہے؟؟؟ امریکہ میں غلامی کروانا ، غیر قانونی ہے۔
کیا اسلامی ممالک 20 فی صد ٹیکس وصول کر اس کو اپنی نظریات ریاست --- جو قرآن کے اصولوں کے مطابق قوانین رکھتی ہو۔۔۔۔ کے دفاع پر خرچ کرتے ہیں؟؟؟ امریکہ اس نظریاتی ریاست کے دفاع پر اگلے 10 ممالک سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔
کیا اسلامی ممالک ،
وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ
یعنی آپس کے مشورے سے فیصلے کئے جانے کے نظام کی باقی دنیا کے دلوں میں الفت پھیلانے کا کام کرتے ہیں؟؟؟؟ نہیں ۔۔۔ اسلامی ممالک فرد واحد کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ باپ کے بعد بیٹا مالک بن جاتا ہے۔ جبکہ امریکہ ساری دینا میں
آپس کے مشورے سے فیصلے کئے جانے کے نظام
یعنی جمہوریت کی باقی دنیا کے دلوں میں الفت پھیلانے کا کام سب سے زیادہ کرتا ہے۔

کیا اسلامی ممالک میں مسافروں (ہجرت کرنے والوں) کی بہبود کا کوئی نظام پایا جاتا ہے۔ زیادہ تر مسلم ممالک ہجرت کرکے آنے والوں کو غلاموں کا درجہ دیتے ہیں ۔ سعودی عرب، قطر ، کویت، متحدہ عرب امارات ، ہجرت کرکے آنے والوں کو کسی قسم کی ملکیت، کاروبار، مکان ، دکان یا شہریت کا حق نہیں دیتے۔

کیا اسلامی ممالک میں مساوات ہے؟؟ زیادہ تر اسلامی ممالک میں مساوات بالکل نہیں ۔ بلکہ ووٹ دینے کا حق تک موجود نہیں۔

 
ٹھیک ہے کہ آپ کی پسند کا اسلام کسی ملک میں پایا نہیں جاتا۔ ہم اس مطلق اسلام کی بات نہیں کررہے ہیں جو لوگوں کے تصورات میں ہے۔ ہم بات کررہے ہیں ریاستی نظام کی اور یہ دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جو لوگ اپنے اسلامی ملک کے نشے میں سرشار ہیں ان کے ممالک میں کتنا اسلام پایا جاتا ہے۔ آپ اپنے طور پر سب سے بہترین اسلامی ملک کا تعین کرلیجئے۔ ہم اس کا مقابلہ امریکہ کے آئین اور قوانین سے قرآن کی آیات کی روشنی میں کرلیں گے۔ سادہ اور سمپل۔ اب اگر آپ کو کوئی بھی ملک اسلامی نا ملے تو پھر میرا سوال اتنا ہی رہ جائے گا کہ اندھوں کی اس نگری میں کانا کون ہے؟؟؟ :biggrin:
 

ساجد

محفلین
”امریکہ ٹوٹ رہا ہے“۔ لیکن کیوں اور کیسے؟
سب سے پہلے تو میں اپنے ذاتی خیال کا اظہار کر دوں کہ امریکہ کو میں ٹوٹتے ہوئے نہیں دیکھ رہا۔ امریکیوں کے پاس ابھی تک امریکہ سے ہٹ کر سوچنے کا کوئی آپشن بھی نہیں ہے۔ اور اگر کوئی ریاست علیحدہ ہوتی بھی ہے تو وہ خود مختار ہو گی لیکن آزاد نہیں رہے گی امریکی کنفیڈریشن کا حصہ۔ بہر حال ابھی تک ایسے بھی امکانات نہیں ہیں۔
اب سول سامنے آتا ہے کہ اگر امریکہ ٹوٹ نہیں رہا تو ریاستوں کی طرف سے علیحدگی کی تحاریک جمع کروانے کا کیا مقصد ؟۔ اس کا جواب لینے سے قبل آپ کو ایک اور سوال کا جواب دینا ہو گا کہ 4 دن قبل امریکیوں نے ہی اوبامہ کو جتایا ہے اور پوری الیکشن مہم میں کسی ریاست کی طرف سے بھی اوبامہ سے ایسا مطالبہ نہیں کیا گیا کہ وہ جیتنے کی صورت میں کسی ریاست کی خود اختیاریت کو وعدہ کریں۔ پھر اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ اوبامہ کی جیت کی خبر آتے ہی علیحدگی کی بات ہونے لگی اور وجہ یہ بیان کی گئی کہ امریکی لوگ اوبامہ کے دوبارہ برسراقتدار آنے پر نا خوش ہیں۔ ہیں نا زبردست حیرانی کی بات؟؟؟۔
حیران مت ہوں۔ اگر آپ امریکی سیاست میں دلچسپی رکھتے رہے ہیں تو جانتے ہوں گے کہ امریکی سیاست اور فیصلہ سازی میں یہودیوں کا کتنا بڑا اور اہم کردار ہے۔ امریکہ اپنے برے بڑے اور اہم فیصلے انہی با اثر یہودیوں کے مشورے سے کرتا ہے اور ان یہودیوں کی وفاداریاں اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ تبھی آپ دیکھتے ہیں کہ بین الاقوامی فورمز پر امریکہ کا جھکاؤ غیر منصفانہ طور پراسرائیل کی طرف رہتا ہے ۔ حتی کہ اب امریکی عوام میں بھی یہ احساس جاگزیں ہو چکا ہے کہ 9-11 کا ڈرامہ بھی انہی اسرائیل نواز یہودیوں کی ڈائریکشن پر کیا گیا اور اس کے بعد مسلم ممالک کے خلاف ایک باقاعدہ منظم جنگ شروع کر دی گئی جس کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا۔ لیکن ان جنگوں کا بوجھ اب امریکہ کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ہلا رہا ہے اور اس نے ان سے پاؤں نکالنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اوبامہ نے اپنے پہلے دور حکومت میں ایسے اقدامات کئے ہیں کہ ان جنگوں کو اب بتدریج ختم کیا جائے اور موجودہ مدت میں اس پر مزید تیزی سے عمل ہونے کی توقع ہے۔ باخبر لوگ جانتے ہیں کہ اوبامہ کے اس فیصلے پر یہ با اثر یہودی ناخوش ہیں ۔ ان کا ہدف یہ تھا کہ عراق اور افغانستان کے بعد امریکہ ایران پر حملہ کرے یا کم از کم افغانستان میں اپنی موجودگی کے دوران اسرائیل کو ایسا کرنے کا موقع دے تا کہ ایران اپنی سرحدوں پر امریکی دباؤ کے باعث مزاحمت نہ کرے۔ دوسرا ہدف پاکستان بھی تھا کہ اس کے بعض علاقوں میں شورش اس قدر بڑھا دی جائے کہ اس کے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا کر دیا جائے اور اسی کی بنیاد پر اس کے ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ قرار دے کر ان پر بین الاقوامی اداروں کو استعمال کرتے ہوئے قبضہ کر لیا جائے۔ لیکن 11 سالہ افغان جنگ کے عرصہ مین چین اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ امریکہ کے لئے اس خطے میں من مرضی کرنے کے مواقع خاصے محدود ہو گئے ہیں اورا سے اپنے اہداف پر بار بار نظر ثانی کرنا پڑ رہی ہے۔
اگرچہ الیکشن سے قبل اوبامہ نے بھی امریکی یہودیوں کے سامنے اسرائیل کے ساتھ وفاداری کی قسمین کھائیں اور انہین بار بار یقین دلایا کہ ان (اوبامہ) کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔وہ اسرائیل کے دل و جان سے وفادار ہیں اور اسرائیل کے ”دفاع کے حق“ کے پیروکار ہیں لیکن امریکی یہودی اوبامہ کو ”مشکوک“ سمجھتے ہیں ۔ کیوں کہ وہ اوبامہ کے جنگوں سے ہاتھ کھینچنے کے فیصلے کو مسلم حمایت قرار دیتے ہیں جبکہ اوبامہ کے مخا لف امیدوار مٹ رومنی امریکی یہودیوں کے پسندیدہ تھے ۔ کیونکہ وہ مسلم ممالک کے خلاف اوبامہ کی نسبت کافی سخت رویہ رکھتے ہیں اور اسی بنا پر انہیں اسرائیل کی زیادہ حمایت حاصل ہے۔ لیکن الیکشن میں امریکی عوام نے امن کا راستہ اختیار کیا اور اوبامہ کی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کر دیا۔ یوں اوبامہ دوسری بار صدرِ امریکہ منتخب ہو گئے۔
اوبامہ کا دوبارہ صدر منتخب ہونا امریکی یہودیوں کی اکثریت اور اسرائیل کے لئے بے چینی کا سبب بنا ۔ اب وہ امریکی عوام کے فیصلے کو تو چیلنج نہیں کر سکتے تھے لیکن حسبِ عادت ایسے اقدامات ضرور کر رہے ہیں جس سے اوبامہ کو فیصلہ سازی کے دوران ایک مخصوص دباؤ میں رکھا جائے تا کہ وہ اسرائیلی مفادات سے ہٹ کر سوچنے کی ہمت نہ کر سکیں۔ ریاستوں کی علیحدگی کا یہ شوشہ انہی با اثر یہودیوں کا کارنامہ ہے ۔ جس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اوبامہ اپنی جیت کے بعد اسرائیلی ’اہمیت‘ کو بھول نہ جائیں ۔ ان کو دکھا دیا گیا ہے کہ اسرائیلی شہ پر یہودی امریکہ میں کیا کچھ کر سکتے ہیں ۔ ریاستوں کی آزادی کے مطالبے والا یہ شوشہ کافی حد تک دم توڑ چکا ہے اور ایک ڈیڑھ ہفتے میں اس کی بازگشت بھی سنائی نہ دے گی ۔ اور سب سے اہم یہ کہ اس شوشے کے دوران ہی اسرائیل نے مڈل ایسٹ میں اپنی کارروائیوں میں تیزی دکھائی۔ سوڈان پر جارحیت کی ، حماس کے لیڈروں کو قتل کیا اور اب فلسطینیوں کی خونزیزی کر رہا ہے۔ اگرچہ ہر امریکی حکومت اسرائیل کی وفادار ہی ہوتی ہے لیکن اوبامہ چونکہ اسرائیلی اعداد و شمار کو غلط ثابت کرتے ہوئے صدر بنے ہیں اس لئے انہیں ریاستوں کی آزادی سے خوف دلانا اسرائیلی سیاست کا لازمہ تھا ۔ اوبامہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت پر اسرائیل کے ”دفاع کے حق“ کی بات کر رہے ہیں ، جو اس بلیک میلنگ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ تو اب یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ دیگر معاملات میں بھی اسرائیل امریکی عوام کی امن کی خواہش کی پامالی کرے گا۔ اور اوبامہ کی مزاحمت پر دیگر ہتھکنڈے بھی استعمال کر سکتا ہے
 

علی خان

محفلین
کیا آپ اپنا سارا اثاثہ مجھ کو 1000 سال کے لئے بناء کسی منافع کے ادھار دینے پر تیار ہوجائیں گے۔ ساری اسلامی دنیا میں ایک بندہ بھی اس کام کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ بلکہ 100 سال یا 10 سال کے لئے بھی تیار نہیں ہوگا۔ کیوں ؟؟؟ اس لئے کہ اس رقم سے میں اور میری نسلیں اس رقم سے کاروبار کریں گے اس میں اضافہ کریں گے اور مزے کریں گے۔

اس بات پر مجھے ہنسی آگئی ہے۔ اے اللہ کے بندے ۔ اسلام میں سود یا منافع والے قرض کا کوئی کنسیفٹ ہی نہیں ہے۔ اگر ہے۔ تو قرض حسنہَ کا ہے بس۔ اور میرے خیال میں ٖقرض حسنہ کا مطلب ہی یہی ہے۔ کہ کوئی اللہ تعالیٰ کو قرض دے۔ اور اسکا بدلہ بھی اللہ تعالٰی ہی اُسکو ادا کرے گا۔ جب یہ معاملہ سود کا ہے۔ اور سود سے جڑا تمام کام ہی ممنوع ہے۔ حرام قرار دیا جا چکا ہے۔ تو پھر کیونکر امریکہ ہو یا دوسرا نام نہاد اسلامی ملک یہ تمام ممالک ہی غلط راہ پر ہیں۔ انکا سسٹم ہی غلط ہے۔ اب آپ غلط کام میں تھوڑی اور زیادہ کی گردان چھوڑیں۔ بس میں اتنا کہنا چاہونگا۔ کہ حرام ، حرام ہے۔ خواہ وہ کم ہو یا زیادہ کیا سمجھے ;)۔
اور جناب میں نے ریڈ کلر میں دوسرے پوسٹوں میں بھی میں نے کچھ اپکے لئے ہائی لائٹ کیا ہوا ہے۔:D

اور کیا ہی ہے اپکے ٪20 والا اسلامی نظام۔
6dx0cm.png
 

علی خان

محفلین
خان صاحب ان 2 پوسٹوں میں اپکے تمام سوالوں کے جوابات بمعہ ریفرنس کے موجود ہیں۔ اسمیں آپکے وہ 20 فیصد والے زکواۃ یا اللہ تعالیٰ کے حصے کی بھی بات کی گئی ہے۔اور اسکے علاوہ تمام زرعی اجناس ،سونے چاندی، شہد، بارانی اور نہری پانی سے سیراب ہونے والی زمینوں پر زکواۃ یا آپکے الفاظ میں ٹیکس پر مفصل معلومات موجود ہیں۔​
اب ان معلومات کو غور سے پڑہیں۔ اور امریکہ بہادر کے معاشی نظام کا ان سے موازنہ کریں۔ اور محفل کے تمام دوستوں کے یہ بتائیں، کہ ان میں کہاں اور کن کن پر امریکی سسٹم عمل پیرا ہے۔​
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فرمان باری تعالیٰ ہے :۔ (ترجمہ) ''جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانہ جیسی ہے جو 7 بالیاں اگاتا ہے، ہر بالی میں 100 دانے ہوں اور​
اللہ (ربّ ا لعزّت )جس کے لئے چاہتے ہیں اس سے بھی زیادہ بڑھادیتے ہیں'' (١)​
(مزید معلومات کےلئے پڑھیئے ترجمہ و تفسیر (الروم 30 :آیت39))​
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے :۔ ''جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہیں پھر اسے بڑھاتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنے جانور کے بچے کو( کھلا پلاکر )بڑھاتا ہے یہاں تک کہ وہ صدقہ بڑھ کر پہاڑ یا اس سے بھی زیادہ بڑا ہوجاتاہے ''(٢) زکوٰۃ کا حکم عالمگیر(پوری دنیا میں پھےلاہوا) ہے جو پہلی تمام شریعتوں میں بھی موجود تھا۔​
(پڑھئے ترجمہ و تفسیر الانبیاء 21 : آیت 73، مریم 19 : آیت 30-31 اور55، البقرہ 2 : آیت 43، المائدہ 5 : آیت 5 -12)​
١۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :۔ ''(اے ابن آدم) تم (میرے ضرورت مند بندوں پر) خرچ کرو ، میں (خزانہ غیب) سے تمہیں دیتا رہوں گا۔'' (٣)​
٢۔ ''صبح 2 فرشتے آسمان سے اُترتے ہیں ، اُن میں سے ایک یہ دعا مانگتا ہے'' : ''یا اللہ خرچ کرنے والے کو بہترین بدلہ عطا فرمائیے''۔ ''جبکہ دوسرا یہ دعا مانگتا ہے'' :''یا اللہ خرچ نہ کرنے والے کا مال تباہ و برباد کردےجئے''۔(٤)​
٣۔ ''(اللہ کی راہ میں کشادہ دلی سے) خرچ کرو اور گن گن کر مت رکھو ، اگر تم گن گن کر اور حساب کر کے خرچ کروگے تو وہ (اللہ) بھی تمہیں حساب ہی سے دیں گے۔ اس لئے جتنی توفیق ہو فراخدلی سے خرچ کرتے رہو۔'' (٥)​
٤۔ ''زکوٰۃ کی ادائیگی سے بقیہ مال پاک ہوجاتا ہے''۔ (٦)​
مال کی زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر سخت ترین سزا
فرمان الہٰی ہے :۔ (ترجمہ) ''جو لوگ اللہ (تعالیٰ) کے فضل سے عطا کئیے ہوئے مال میں بخل کرتے ہیں (زکوٰۃ ادا نہیں کرتے)، وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے بلکہ یہ ان کے حق میں بدتر ہے، یہ مال جس میں یہ بخل کرتے ہیں قیامت کے دن ان کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا''۔(٧)​
(مزید معلومات کے لئے پڑھیئے :۔ ترجمہ و تفسیر (توبہ 9 : آیات 34-35))​
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔ ''جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ، لیکن اُس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی تو قیامت کے دن وہ دولت اُس کے لئے گنجے سانپ کی شکل میں بنا دی جائے گی جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں گے (یہ دونوں نشانیاں سخت زہریلے سانپ کی ہیں) وہ سانپ اُس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، پھر وہ سانپ اُس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کھینچے گا اور کہے گا : ''میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔'' (٨)​
زکوٰۃ کے علاوہ دیگر صدقات
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اسلام کا مطالبہ صرف زکوٰۃ ہی پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ صاحب استطاعت کو ہر ضرورت کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہئے۔ قرآن مجید میں اسی لئے متعدد مقامات پر ''زکوٰۃ'' کے بجائے ''انفاق '' (خرچ) کا لفظ استعمال ہوا ہے جو عام ہے اور اس میں زکوٰۃ اور دیگر صدقات دونوں شامل ہیں۔ ''متقین'' (پرہیزگاروں) کی صفات میں زکوٰۃ ادا کرنا بھی بیان ہوا ہے۔​
فرمان الٰہی ہے:۔ (ترجمہ)''اور وہ ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے انفاق (خرچ) کرتے ہیں'' (٩)​
غربت کا بہترین علاج
غریب اور نادار لوگوں کے بارے میں جو احکام بیان ہوئے ہیں، اگر مسلمان اُن پر صحیح معنوں میں عمل کریں تو ایک اسلامی معاشرہ میں غربت ، ناداری اور گداگری کے خاتمہ کی یہ سب سے بہترین تدبیر ہے۔ اس لئے کہ ہر خاندان میں جتنے بھی یتیم ، بیوائیں ، معذور ، بیمار اور بے سہارا یا کثیر العیال قسم کے افراد ہوتے ہیں ، وہ خاندان کے دوسرے افراد کے علم میں ہوتے ہیں۔ اگر ہر خاندان کے امیر لوگ اپنے خاندان کے مذکورہ افراد کی خبر گیری اور کفالت کریں ، جیسا کہ اسلام کی تعلیم ہے ، تو ہر ضرورت مند کی ضروریات نہایت خاموشی اور آبرومندانہ طریقہ سے پوری ہوسکتی ہیں ، اس سے کسی شخص کو ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے گی اور اسلامی ملکوں میں گداگری ازخودختم ہوجائیگی ان شاء اللہ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔:۔ '' صدقہ دینے کی ابتدا اپنے رشتہ داروں سے کرو''۔ (١٠)​
قبل از وقت بھی زکوٰۃ کا ادا کرنا جائز ہے
زکوٰۃ اگرچہ اپنے وقت پر (یعنی سال گزرنے کے بعد) ہی واجب ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شدید ضرورت ہو تو پیشگی زکوٰۃ بھی دی جاسکتی ہے اور اِس کی زیادہ سے زیادہ حد 2 سال ہے یعنی 2 سال کی زکوٰۃ پیشگی دینی جائز ہے اِس سے زیادہ نہیں کیونکہ جس واقعہ سے پیشگی زکوٰۃ دینے کا جواز ثابت ہوتا ہے ، وہ عباس رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے۔ اُن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک موقع پر 2 سال کی زکوٰۃ پیشگی وصول فرما لی تھی۔(١١)​
چاندی پر زکوٰۃ
فرمان الہٰی ہے :۔ (ترجمہ) ''جس سونے اور چاندی کی زکوٰۃ ادا نہ کی جائے وہ کنز (برا خزانہ) ہے اور کنز جمع کرنے والوں کی سزا جہنم ہے'' (١٢) مزید تفصیل کے لئے پڑھیئے :۔ ترجمہ و تفسیر (الھمزہ 104 : آیات 1-9))​
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ''جب تمہارے پاس 200 درہم ہوجائیں اور اُن پر سال بھی گزر جائے، تو اُن میں 5 درہم ( یعنی 2.5%)زکوٰۃ واجب ہے۔'' (١٣)​
چاندی کا نصاب زکوٰۃ200 درہم ہے، جس کا وزن ساڑھے باون (52.5) تولہ ہے۔ آج کل کے حساب سے 612 گرام بنتا ہے۔ یعنی جس کے پاس کم از کم 612​
گرا م چاندی یا اس کے برابر رقم موجود ہو تو اسے زکوٰۃ ادا کرنی چاہئیے ۔​
اس میں زکوٰۃ چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد 2.5 %) ہے۔ یعنی 200 درہم میں 5 درہم۔ اگر چاندی ہی زکوٰۃ میں دینی ہو تو لیکن اگر زکوٰۃ چاندی کی بجائے نقدی کی صورت میں دینی ہو تو ساڑھے باون (52.5) تولہ چاندی کی جتنی رقم بنتی ہو (مثلاً اتنی چاندی 6 ہزار روپے میں آتی ہو تو) ڈھائی فیصد(2.5 %) کے حساب سے 6 ہزار میں 150 روپے زکوٰۃ بنے گی۔ یہ کم از کم نصاب ہے یعنی اِس سے کم میں زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی۔ اِس سے زیادہ جتنی چاندی ہوگی مذکورہ حساب سے اُس کی رقم بنا کر زکوٰۃ ادا کی جائے۔​
سونے پر زکوٰۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ''اور سونے میں تم پر اس وقت تک کوئی زکوٰۃ نہیں ہے، جب تک کہ وہ 20 دینار نہ ہوجائیں ، پس جب وہ 20 دینار ہوجائیں اور اُن پر سال بھی گزر جائے تو اُن میں نصف دینار زکوٰۃ ہے ، پس جو اُس سے زیادہ ہو تو اسی حساب سے زکوٰۃ ہوگی۔'' (١٤)1 دینار کا وزن : 4.25 گرام (4 گرام 250 ملی گرام) ہے۔
یہ سونے کا نصاب ہے۔ چاہے ڈلی ہو یا زیورات کی شکل میں ۔ اس میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ ہے ، یعنی 20 دینار میں نصف دینار (یعنی 2.5% ڈھائی فیصد) 40 دینار میں ایک دینار۔ دوسرا طریقہ زکوٰۃ نکالنے کا یہ ہے کہ جب سونا ساڑھے سات (7.5) تولہ یا اس سے زیادہ ہو تو زکوٰۃ دیتے وقت فی تولہ سونے کی قیمت معلوم کرلی جائے اور جتنی رقم بنے اُس میں سے ڈھائی فیصد (2.5 %) یعنی (فی ہزار ، 25 روپے) کے حساب سے زکوٰۃ ادا کر دے۔​
مردو ں کے سونے کے استعمال کے بارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرمان ہے:۔'' میری امت کے مردوں پر ریشم اور سونا پہننا حرام ہے البتہ عورتوں کے لئے جائز ہے ''۔(١٥)سفید سونے (White Gold)پر زکوٰۃ
سفید سونا(White Gold)جب زکوٰۃ کے نصاب کے برابر ہوجائے اور اس پر سال بھی گزر چکا ہو تو اس سے اسی طرح زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے جس طرح عام سونے زکوٰۃ اداکرنا فرض ہے ۔(١٦)پلاٹینیم (PLATINUM) پر زکوٰۃ
پلاٹینیم (PLATINUM) یہ ایک ایسی دھات ہے جو سونے کی زردی کو سفید میں بدلنے میں بلیچر(BLEACHER) کا کام کرتی ہے لہذٰا سفید سونا اور چیز ہے اور پلاٹینیم دھات اور چیز ہے۔پلاٹینیم چونکہ سونا نہیں ہے اس لئے اس پر زکوٰۃ بھی نہیں ہے۔ البتہ اگر اسے خریدو فروخت کی غرض سے حاصل کیا گیا ہو تو یہ مال تجارت میں شامل ہوگی۔ اس وقت اس پر اسی طرح سال گزرنے پر زکوٰۃ فرض ہوگی جس طرح مال تجار ت پر فرض ہوتی ہے ۔(١٧)​
نوٹ:۔ سونے اور چاندی کی زکوٰۃ ادا کرتے وقت اسی دن کی قیمت کا اعتبار کیا جائیگا جس دن زکوٰۃ ادا کی جارہی ہوگی اسی طرح اسی شہر کی قیمت کا اعتبارکیا جائیگا جس شہر میں آپ زکوٰۃ ادا کررہے ہوں اور وہ قیمت آپ اخبارات وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں ۔ نقدی (CASH) پر زکوٰۃ
آج کل بالعموم لوگوں کے پاس سونا چاندی کی بجائے نقدی کی صورت میں رقم ہوتی ہے۔ اُس صورت میں زکوٰۃ کس طریقہ سے نکالی جائے ؟ اِس کے لئے علما نے چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا ہے۔ جس کے پاس اتنی نقد رقم ایک سال تک فاضل بچت کے طور پر محفوظ رہی ہے۔ جو ساڑھے باون (52.5) تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی ہو تو اُس کو چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد (2.5 %) کے حساب سے زکوٰۃ نکالنی چاہئے۔ مثلاً آج کل کے حساب سے ساڑھے باون (52.5) تولہ چاندی کی رقم کم و بیش تقریباً 6 ہزار روپے بنتی ہے ، اس لئے نقدی کا نصاب 6 ہزار روپے کا ہوگا۔ جس شخص کے پاس 6 ہزار روپے ایک سال تک پڑے رہیں تو اُسے چاہئے کہ وہ اِس کی زکوٰۃ ڈھائی فیصد (2.5 %) کے حساب سے 25 روپے فی ہزار (6 ہزار پر 150 روپے) زکوٰۃ نکالے۔ اِس سے زیادہ جتنی رقم ہو ، وہ ڈھائی فیصد یا 25 روپے فی ہزار کے حساب سے مزید نکالے۔ 6 ہزار سے کم رقم پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی۔​
جواہرات ، شیئرز اور بیمہ وغیرہ پر زکوٰۃ
جواہرات پر زکوٰۃ : جواہر یعنی ہیرا ، موتی ، یاقوت، زمرد ، الماس اور مرجان وغیرہ پر اسی طرح زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ جیسے لوہا ، تانبا ، پیتل اور سیسہ وغیرہ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے اس لئے کہ یہ مال نامی (افزائش پذیر) نہیں ہے اور زکوٰۃ کے لئے مال نامی ہونا ضروری ہے ۔ اگر تجارت کی نیت سے ہیرے یا جواہرات وغیرہ خریدے گئے ہوں تو ان پر تجارتی مال کے اعتبار سے زکوٰۃ واجب ہوگی ۔ (١٨)شئیرز : شئیرز کا کاروبار حرام ہے اس لئے اس سے نکالی گئی زکوٰۃ کا نکالنے والے کو کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ کیونکہ زکوٰۃ حلال آمدنی سے نکالی جاتی ہے۔ بیمہ کی رقم پر زکوٰۃ:۔ بیمہ سودی نظام ہونے کی وجہ سے شرعاً حرام ہے اس لئے میں اس پر بھی کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔ چونکہ زکوٰۃ باقی مال کو پاک کرنے کے لئے دی جاتی​
ہے اور یہ کبھی بھی پاک نہیں ہوسکتا۔شرعی وقف پر زکوٰۃ:۔ کوئی چیز اﷲ کے راستہ میں وقف کردی گئی ہو (مثلاًجائیداد ، مکان وغیرہ اگر دینی اور فلاحی کام کے لئے وقف ہو) تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے ۔​
اس لئے کسی کو اس میں مکمل ملکیت حاصل نہیں ہوتی ہے اور زکوٰۃ کے لئے مکمل ملکیت حاصل ہونا شرط ہے۔بیت المال کی رقم پر زکوٰۃ:۔ بیت المال کی رقم چونکہ کسی ایک شخص کی ملکیت نہیں ہوتی یہ پوری قوم کا مشترک مال ہوتا ہے اور زکوٰۃ کے لئے کسی شخص کی ملکیت میں ہونا ضروری ہے۔اس لئے اس پر بھی زکوٰۃ نہیں ہے۔حرام کمائی سے حاصل شدہ مال پر زکوٰۃ
حرام طریقہ سے حاصل کیا ہوا مال مثلاً ڈاکہ ،چوری، فریب، رشوت، سود ، دھوکہ،شراب ، ہیرون ،بھنگ ،چرس وغیرہ سے حاصل شدہ مال پر زکوٰ ۃ نہیں ہے ۔اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ خود پاک ہیں اورپاک مال ہی کو قبول کرتے ہیں ۔(١٩)عورت کے حق مہر سے زکوٰۃعورت کا حق مہر ادا کرنا ضروری ہے اسی لئے کہ یہ شوہر پر قرض ہوتا ہے جس طرح قرض ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہوتا ہے ا لاّ یہ کہ عورت معاف کردے۔عورت کے حق مہر کی رقم زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزرچکا ہو تو ڈھائی فیصد2.5% کے علاج سے اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔​
تجارتی مال پر زکوٰۃ
جو سامان بھی تجارت کے لئے ہو اُس میں سے زکوٰۃ نکالی جائے۔ ''رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم ہر اُس سامان میں سے زکوٰۃ ادا کریں ، جو تجارت کیلئے ہے ۔'' (٢٠)​
تجارتی مال میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ : سال بہ سال جتنا تجارتی مال دکان ، مکان یا گودام وغیرہ میں ہو ، اُس کی قیمت کا اندازہ کر لیا جائے۔ علاوہ ازیں جتنی رقم گردش میں ہو اور جو رقم موجود ہو ، اُس کو بھی شمار کرلیا جائے۔ نقد رقم ، کاروبار میں لگا ہوا (یعنی زیر گردش) سرمایہ اور سامان تجارت کی تخمینی قیمت ، سب ملاکرجتنی رقم ہو ، اُس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے۔ یعنی تجارتی مال کی قیمت ایک لاکھ روپے ہے تو اس میں سے ڈھائی فیصد کے حساب سے 2500 روپے زکوٰۃ نکالی جائے۔​
جاری ہے۔
 

علی خان

محفلین
مشترکہ کاروبار پر زکوٰۃ
اگر چند افراد کا مشترکہ کاروبار ہوتو ہرشخص کو اپنے نفع سے زکوٰۃ نکالنی ہوگی بشرطیکہ کے وہ نصاب کو پہنچ جائیں۔​
رہائشی یا کرایہ کہ مکان پر زکوٰۃ
رہائشی مکان : ذاتی رہائشی مکان (جس میں خود وہ رہتا ہو) پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔ (٢١)​
کرایہ کا مکان : کرایہ والے مکان کی آمدنی پر زکوٰۃہے۔ نہ کہ اس مکان کی لاگت پر یعنی اگر مکان کا ماہانہ کرایہ 2 ہزار روپے آتا ہے تو یہ سالانہ 24 ہزار روپے ہوا تو اس 24​
ہزار روپے سے ڈھائی فیصد کے حساب سے 6 سو روپے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔​
گھریلو استعمال میں آنے والی گاڑی پر زکوٰۃ​
جس طرح رہائشی مکان پر کوئی زکوٰۃ نہیں اسی طرح گھریلو استعمال میں آنے والی گاڑی اور دیگر ذاتی استعمال کی چیزوں مثلاًکار،فرنےچر، فرےج، حفاظتی ہتھیار وغیرہ خواہ کتنی ہی قیمت کے ہو ں ان پر پر بھی کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔(٢٢)​
فیکٹری پر زکوٰۃ
فیکٹری ، کارخانہ کے آلات مشینری اور بلڈنگ پر کوئی زکوٰ ۃ نہیں ہے اس لئے کہ یہ مال تجارت نہیں بلکہ آلہ تجارت ہیں ۔جبکہ زکوٰۃ مال تجارت پر فرض ہوتی ہے۔ البتہ فیکٹری یا کارخانہ سے جو مال تیار ہوتا ہے۔ خواہ وہ خام مال ہو یا تیار مال ہو اس کی قیمت پر ڈھائی فیصد (2.5 %) کے حساب سے زکوٰۃ ہوگی۔(٢٣)​
زرعی پیداوار پر زکوٰۃ
فرمان الہٰی ہے :۔ (ترجمہ)''اے ایمان والو، اپنی پاکیزہ (حلال)کمائی میں سے خرچ کرو اور اُن چیزوں سے بھی خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالیہیں۔''(٢٤)​
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ''اِس پیداوار میں جسے آسمان (یعنی بارش) یا (قدرتی) چشمے سیراب کریں یا وہ زمین نمی والی ہو (یعنی نہر اور دریا کے ساتھ ہونے کی و جہ سے اِس میں اتنی نمی رہتی ہو کہ اُسے پانی دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے) تو اس میں زکوٰۃ عشر ( پیداروار کا دسواں حصہ ) ہے اور جسے ٹیوب ویل وغیرہ سے سیراب کیا جائے تو اس میں زکوٰۃ نصف عشر (پیداوار کا بیسواں حصہ) ہے۔''(٢٥)​
نوٹ: زمین کی پیداوار کی زکوٰۃ (یعنی عشر یا نصف عشر ) کی ادائیگی فصل کاٹنے کے موقع پر ضروری ہے۔​
فرمان ا لہٰی ہے :۔ (ترجمہ) ''اور فصل کاٹنے کے موقع پر اس کا حق (زکوٰۃ) ادا کردو'' (٢٦) اگر سال میں 2 فصلیں ہوں گی تو زکوٰۃ بھی 2 مرتبہ ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ اس میں سال گزرنے کی شرط سے نہیں ہے بلکہ فصل کا ہونا شرط ہے جب بھی فصل ہو۔ زمینی پیداوار کی زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کا انجام جاننے کے لئے پڑھئے ے القلم68:آیت17-33)​
زمینی پیداوار پر زکوٰۃ اس وقت فرض ہوتی جب غلہ یا کھجور کی مقدار20من ہوجائے اس سے کم پر زکوٰۃ نہیں ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے۔۔''جب تک غلہ یا کھجور کی مقدار پانچ وسق (20 من)تک نہ ہوجائے تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ۔(٢٧)​
زمینی پیداوار سے عشر یا نصف عشر ادا کرنے کے بعد اگر پیداوار کو فروخت کیا جائے اور بقیہ آمدنی زکوٰۃ کے نصاب ساڑھے 52تولہ چاندی کے برابر ہو اور اس پر سال بھی​
گزرچکاہوتو اس پر زکوٰۃ فرض ہے وگرنہ فرض نہیں ۔​
شہد پر زکوٰۃ
شہد کی پیداوار پر عشر (دسواں حصہ) زکوٰۃ فرض ہے ۔​
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے شہد (کے تاجر) سے عشر(دسواں حصہ) بطور زکوٰۃ وصول فرمایا تھا۔(٢٨)​
رکاز (دفن شدہ خزانہ ) دریافت ہونے پر زکوٰۃ​
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے :۔''رکاز(دفن شدہ خزانہ) ملنے پر بیس فیصد زکوٰۃ فرض ہے۔(٢٩)​
(خان صاحب آپ والا 20 فیصد دفن شدہ خزانے پر ہے۔ نہ کہ ہر چیز پر ہے)
مصارفِ زکوٰۃ کا بیان
زکوٰۃ کے مستحق کون کون لوگ ہیں ؟​
قرآن مجید (التوبہ9 :آیت 60) میں زکوٰۃ کے مصارف 8 ہیں​
١۔ فقرا ء ٢۔ مساکین ٣۔ عاملین زکوٰۃ​
٤۔ تالیف قلب (دل جوئی) کے لئے کسی کو کچھ دینا۔ جیسے کوئی نہایت بااثر غیر مسلم شخص ہے، اگر اس کی دل جوئی کا اہتمام کردیا جائے اور یہ امید ہو کہ یہ شخص وہاں پر آباد مسلمانوں کی حفاظت کے لئے مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے، اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لئے ایسے شخص کو زکٰوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، چاہے وہ مال دار ہی ہو۔ اسی طرح وہ نو مسلم اور ضعیف الایمان افراد بھی اسی حکم میں آتے ہیں (جن کی اگر دلجوئی اور مالی مدد نہ کی جائے، تو ان کے اسلام سے منحرف ہوجانے کا خطرہ ہوگا)۔​
٥۔ گردن چھڑانا : گردن چھڑانے سے مراد غلاموں کو آزاد کرنا ہے، غلامی کا رواج تو اب ختم ہوگیا ہے تاہم بعض حالات میں اس سے ملتی جلتی صورت یہ پیدا ہوسکتی ہے کہ کوئی مسلمان اگر دشمن کے ہاں گرفتار ہوجائے تو زکوٰۃ کی مد سے اس کا فدیہ ادا کرکے اس کو چھڑایا جاسکتا ہے، اسی نوعیت کی کوئی اور صورت پیدا ہوجائے تو وہاں زکوٰۃ سے مدد کی جاسکتی ہے۔​
٦۔ غارمین : (جو غریب کم آمدنی کی و جہ سے مقروض ہو)​
٧۔ فی سبیل اللہ : (''اللہ کی راہ میں '' یہ لفظ عام ہے۔ تمام وہ نیکی کے کام جن میں اللہ کی رضا ہو)۔​
٨۔ ابن السبیل (مسافر) : (مسافر کے لئے بعض دفعہ دیارِ غیر میں اس کے پاس کچھ نہیں رہتا (گو اپنے وطن اوراپنے گھر میں اس کے پاس سب کچھ ہو)۔​
خاوند اور زیر پرورش بچوں پر زکوٰۃ خرچ کرنا
چونکہ بیوی اور بچوں کی کفالت مرد کی ذمہ داری ہے۔اگر مرد غریب اور عورت مالدار ہو تو وہ عورت اپنی زکوٰۃ اپنے غریب شوہر اور زیر کفالت بچوں پر خرچ کرسکتی ہے۔جیسا کہ عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا میرا شوہر غریب ہے کیا میں اپنی زکوٰۃ اپنے شوہر اور زیر کفالت بچوں پر خرچ کرسکتی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔''ان پر خرچ کرنے سے تجھے دہرا اجر ملے گا۔(١)قرابت (صلہ رحمی) کا (٢) زکوٰۃ کی ادائیگی کا۔(٣٠)​
زکوٰۃ کا خود تشخیصی طریقہ کار کی ایک مثال (Proforma)

(A) قابل زکوٰۃ اثاثوں کی مالیت​
سونا موجود مع زیورات (نگینہ اور کھوٹ نکال کر) ........... 24,210​
زمین (جو فروخت کرنے کی نیت سے خریدی ہو) ........... 110,000​
مکان (زمین اور مکان کی قیمت علاوہ رہائش) ................. 200,000​
نقد رقم ...................................................... 30,000​
بینک میں جمع ................................................ 120,000​
ادھار یا قرض دیئے ........................................... 40,000​
غیر ملکی کرنسی (آج کے ریٹ سے) ............................. 600​
متفرق انوسمنٹ ................................................ 9000​
امانت رکھوائی ................................................... 3,000B.C​
(کمیٹی) میں جمع شدہ رقم (اقساط) …............................... 125,000​
فلیٹ بک کرایا (جو اقساط اب تک ادا کر دی ہیں) ................ 20,000​
کاروبار میں شراکت .............................................. 300,000​
خام مال کی مالیت ................................................. 40,000​
تیار مال کا اسٹاک ................................................. 75,000​
پارٹیوں کا بقایا ................................................... 130,000​
کُل اثاثے ..................................................... 1,226,810​
( B ) رقومات جو قابل زکوٰۃ اثاثوں میں سے کم کرنی ہیں​
کاروباری قرضہ جو ادا کرنا ہے ................................... 420,000​
دوسرے قرضہ جو دینے ہیں (ذاتی) ............................. 110,000​
بیوی کا مہر جو بھی دینا ہے ......................................... 5,100B.C​
(کمیٹی) کے بقایا (اگر کمیٹی مل چکی ہو تو) .......................... 70,000​
ملازمین کی تنخواہیں جو دینی ہیں .................................... 10,000​
ٹیکس جو دینا ہے ................................................. 7,100​
بل ادا کرنے ہیں مع گزشتہ سالوں کی وہ رقوم جو ادا نہیں کی گئی….3,000​
کُل قرضہ جات ................................................ 625,200​
کُل اثاثے (A).......................................... 12,26,810​
منہا قرضہ جات (Liabilities) ( B )........................ 625,200​
قابل زکوٰۃ رقم (A-B)................................... 601,610​
601,610 کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ جو دینی ہے .... 15,040 روپے​
حوالہ جات
(١) بقرہ 2 : آیت 261​
(٢) بخاری ۔عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1320​
(٣) حدیث قدسی بخاری ۔عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر2342​
(٤) بخاری۔عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر 1351​
(٥) بخاری۔عن اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہا حدیث نمبر2408​
(٦) بخاری ۔عن عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہماحدیث نمبر1315​
(٧) اٰل عمران 3 : آیت 80​
(٨) بخاری۔عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1314​
(٩) البقرہ 2 : آیت 3​
(١٠) بخاری۔عن انس رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1369​
(١١) مفہوم حدیث بخاری ۔ عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1376​
(١٢) التوبہ 9 : آیات 34-35​
(١٣) ابو داؤد۔عن علی رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1558​
(١٤) ابوداؤد۔عن علی رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1558​
(١٥) ترمذی۔عن ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1568​
(١٦) فتاویٰ ہندیہ جلد 1صفحہ 179​
(١٧) فتاویٰ ہندیہ جلد 1صفحہ نمبر 179​
(١٨) فتاویٰ شامی جلد 2صفحہ 273​
(١٩) بخاری ۔عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1320​
(٢٠) ابوداؤد سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1548​
(٢١) مفہوم حدیث بخاری ۔ عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1371​
(٢٢) مفہوم حدیث بخاری ۔ عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1371​
(٢٣) الفقہ لاسلامی وادلتہ۔جلد دوئم صفحہ 864​
(٢٤) البقرہ 2 : آیت 267​
(٢٥) بخاری۔عن عبداﷲ بن عمررضی اللہ عنہما حدیث نمبر1389​
(٢٦) الانعام 6 : آیت 141​
(٢٧) نسائی۔عن ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ حدیث نمبر2487​
(٢٨) ابن ما جہ عن عبداﷲ بن عمرورضی اللہ عنہ حدیث نمبر1824​
(٢٩) بخاری ۔عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1404​
(٣٠) بخاری ۔عن زینب رضی اللہ عنہا حدیث نمبر1374​
 

علی خان

محفلین
عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانے

عہدِ نبوی ﷺ کے عربی تجارتی پیمانے
ایک اوقیہ = 40 درھم
ایک اوقیہ = 1/12 رطل
ایک رطل = 12 اوقیہ
دس درہم = 7 مثقال
ایک نواۃ = 5 درھم
ایک شیعرہ = 1/8 درھم
ایک دانق = 1/6 درہم
ایک درہم = 8 شیعرہ
ایک درہم = 6 دانق

عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانے کا جدید متبادل

ایک درہم = 1/8 اونس = 3٫543گرام
ایک دینار = 3٫5 ماشہ
ایک رطل = 5 شامی پونڈ = 15٫75 مصری اونس
ایک اوقیہ = ڈیڑھ اونس

جدید متبادل پیمانے

ایک اونس = 28٫35 گرام
ایک پونڈ = 16 اونس = 453٫6 گرام
ایک اوقیہ = 40 درھم
ایک اوقیہ = 40 درھم

عہدِ نبوی ﷺ کے رومی پیمانہ

سونے کا مثقال = 16 ماشہ
سونے کا مثقال = چاندی کی 15 سونے کا مثقال
چاندی کا درہم = 1/4 مثقال
چاندی کا 2 درہم = 1/2 مثقال
چاندی کا 4 درہم = 1 مثقال
تانبہ کے دینار(اسّاریون) = 1/16 دینار
تانبہ کے دینار(پستون) = 1/4 دینار
تانبہ کے دینار(قدرنتس) = 1/2 دینار

عہدِ نبوی ﷺ کے رومی، عبرانی، یونانی و فارسی پیمانہ

پیجس (یونانی) = 1 گز
پرسایا باع (یونانی) = 6 انچ
غلوہ (یونانی) = 200 گز
سکونس (یونانی) = 30 غلوہ
لطیرہ (یونانی) = 8 انچ
درہم (یونانی) = نیم مثقال
میطرس (یونانی) = بت
خینکس (یونانی) = 2 سعا
صامد (یونانی) = ایک بیگھا = نصف ایکڑ
میل (رومی) = 1618 گز
شاپش (عبرانی) = تہائی 1/3
اردب (فارسی) = 24 سیر

عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانہ پیمائش

اصبع = ایک انگل = 3/4 انچ
تومح = 4 انگل = 3 انچ
زارت = 4 ضرب 4 ضرب 4 انگل = 9 انچ
اَمَّہ = ایک ہاتھ = 18 انچ
قانِہ = سرکنڈہ = 3 گز

عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانہ اوزان

جیرہ = جیرہ = 6 رتی = 1/20 مثقال
روبع = چوتھائی مثقال = پونے 3 ماشہ
باقع = نصف مثقال = ساڑھے 7 ماشہ
شاقل = مثقال = سوا تولہ
مانہ = منا = ساڑھے 62 تولہ
کِکّار = قنطار = 47 سیر معہ سیر کا 7/8 واں حصّہ

عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانہ گنجائش

لوج = 6 چھٹانک
قاب = ڈیڑھ سیر
عومر = 2 سیر معہ سیر کا 7/10 واں حصّہ
سعا = 9 سیر = 6 قاب
ایفہ = 27 سیر = 3 سعا
اومر = 270 سیر = 10ایفہ
لاتک = 1350 سیر = 50 اومر

عہدِ نبوی ﷺ کے پیمانہ گنجائش مائع

لوج = 6 چھٹانک
ہین = ساڑھی 4 سیر = 12 لوج
بت = 27 سیر = 6 ہین
کرّ = 270 سیر = 10 بت
 
آپ کی بات سے مجھے کوئی انکار نہیں ۔ امریکہ قرآن کے اصولوں پر عمل کرتا ہے اور آپ کتب روایات کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔ یہ بات صاف اور واضح ہے۔
 

علی خان

محفلین
ہاں جی بالکل ٹھیک کہا آپ نے کیونکہ امریکہ اپکے حکم پر عمل کرتا ہے۔ اور آپ تو قرآنی مسلمان ہیں۔ جو کچھ آپ مانتے ہیں۔ تو سمجھوں وہ امریکہ بھی مانے گا۔ :p
 
خان صاحب۔ مجھے پاکستان کی پٹی نہ ہی پڑھائیں تو اچھا ہے۔ میں نے آپ سے پہلے بھی کہا ہے۔ کہ اپنے دوغلی باتیں کسی ملک کی پالیسی میں مت چھپائیں۔ مجھے یہ بتائیں کہ اسلام کیا کہتا ہے۔ بس
:D

کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ملک نہیں ہے یا پاکستان میں مسلمان نہیں بستے ؟؟؟ تو پھر سارا شور و غوغا کس بات کا ہے؟ اسلام کچھ اور کہتا ہے اور پاکستان کچھ اور؟؟؟؟ تو پھر کس ملک میں آپ والا اسلامی نظام ہے؟؟؟
 
Top