امریکہ ٹوٹ رہا ہے؟

arifkarim

معطل
جبکہ امریکہ جن اصولوں پر کاربند ہے وہ اصول قرآن کے اصولوں کے مطابق ہیں۔
قرآن پاک کے کونسے اصول کے تحت حضرت امریکہ صیہونی ریاست ہائے اسرائیل کی پچھلے 60 سال سے پشت پناہی کر رہا ہے ؟ اپنی عسکری اور اقتصادی طاقت کے بل بوتے پر اپنے سے کمزور اقوام جیسے کوریا، ویتنام، عراق و افغانستان کو لٹانا کونسے قرآنی اصول کی فرمانہ برداری ہے؟ نہتے شہریوں پر ایٹم بم برسانا، انپر جدید کمیائی ہتھیار ٹیسٹ کرنا، دوسرے ممالک میں لوٹ مار کی غرض سے یکے بعد دیگرے یلغار کرنا اور بے قصور اقوام کیخلاف معاشی و تجارتی بائکاٹ کرنا اور کروانا کونسا قرآنی اصول ہے؟
میں یہاں آپکی قرآنی تاویلیں سننے نہیں آیا۔ میں یہاں صرف یہ کہنے آیا ہوں کہ ہر دنیاوی طاقت ایک بدمست ہاتھی کی طرح ہے۔ ہر بدمست جب کسی کو کچلتا ہے تو اچھے برے کی تمیز نہیں کرتا۔ اسکا مقصد سب کو کچلنا ہوتا ہے۔ اور آپکا چہیتا امریکہ بھی یہی کر رہاہے۔ اسمیں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ اپنی ابتداء سے لیکر ابتک آپکا حضرت امریکہ مسلسل ایک کے بعد دوسری جنگ میں مصروف ہے۔ کبھی اپنے لئے تو کبھی اپنے اتحادیوں کیلئے۔ اس بدمست جنگجو ہاتھی کو آپ قرآنی اصولوں پر چلنے والا ملک کہتے ہیں جہاں امیر اور غریب میں فرق سب سے زیادہ ہے، جہاں 40 ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں، جہاں دنیا میں سب سے زیادہ فحاشی ہے، جہاں سب سے زیادہ قیدی اور جرائم ہیں، جہاں سب سے زیادہ شراب نوشی، منشیات کا استعمال اور کم سن بچوں کیساتھ جنسی زیادتیاں ہو رہی ہیں؟ جہاں عوام پاگلوں کی طرح اس مادی دنیا کے پیچھے بھاگ رہی ہے؟ جس قوم کا بیرونی اور اندرونی قرضہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے؟ لاحول ولا قوۃ!
 

ساجد

محفلین
آپ کا فراہم کردہ زکواۃ یا ٹیکس کا نظام سرکار ، قرآن کے احکامات کو مکمل طور پر رد کرتا ہے اور اس کو روایات کا جامہ پہناتا ہے۔
ہاہا ہا ہا چلیں خان صاحب آپ اب بھی اپنی راگ گا رہیں ہے۔ میں نے تو اپکو وضاحت صاف الفاظ میں کر دی ہے۔ اب یہ 20 فیصد والا فارمولا آپکا اپنا ہے۔ اور ابھی آپ اسکو ہم پر رائج کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ ناممکن ہے۔ کیونکہ دین اسلام نے ہر چیز پر زکواۃ کی اپنی حد مقرر کر دی ہے۔ اور اسکی وضاحت بھی صاف الفاظ میں کر دی ہے۔ اور وہی وضاحت میں نے صاف صاف الفاظ میں اپکو کر دی ہے۔ مگر اب آپ نے میں نہ مانوں ہار والا گردان شروع کر دیا ہے۔
خان بمقابلہ خان
فَبِأَيِّ آَلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
:)
 

علی خان

محفلین
مگر خان صاحب آپ تو قرآن کے مسلمان ہیں نہ (پرویزی) تو زکواۃ کے علادہ ان دوسرے مسلوں کو بھی قرآن سے ثابت کریں۔ اگر ثابت نہیں کر سکتے ہیں۔ تو پھر تمام مسلمان ان پر عمل پیرا کیوں ہیں۔ کیوں نماز پڑہتے ہیں۔ کیوں صبح سے شام تک روزے رکھتے ہیں اور اس طرح کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو اپکو لاجواب کر دیں گی۔

باقی جسکو آپ تاریخی حوالے کہہ رہیں ہیں میرے خیال میں یہ ایک جاہل ہی اسطرح کہہ سکتا ہے۔ کیونکہ یہ تمام سورۃ ہی اُس وقت اور اُسی تناظر میں نازل ہوئی ہے۔ اور ہاں یہ بھی سچ ہے کہ قرآن تمام وقتوں کے لئے ہے۔ لیکن آپ دماع سے کام لیں تو ما لِ غنیمت اور مدفون خزانہ ایک ہی طرح کی چیزیں ہیں۔ مطلب ایک طرح کا انعام تو اس پر اللہ تعالٰی نے پانچواں حصہ اپنے لئے مقرر کیا ہے۔
خان صاحب میں اب تم سے کیا کہوں۔ اللہ ہی تم سے سمجھیں۔ جو سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی اپنی غلط بات کو صحیح کہنے پر پوری زور لگا رہے ہوں۔ خان صاحب آپ نے ثابت کرنا ہے۔ کہ ہاں 20 فیصد زکواۃ ہر چیز پر ہے۔ اور یہ آپ نے قرآن مجید میں سے واضح آیات میں سے ثابت کرنا ہے۔ اور پھر اُسکے بعد میرے اِن دوسرے سوالوں کو بھی اِسی طرح سے ثابت کرنا ہے۔ اُمید ہے آپ ادھر اُدھر کی باتوں سے پرہیز کریں گے۔ اور صرف واضح قرآنی آیات اور مکمل ریفرینس کے ساتھ بات کریں گے۔ نہ کہ اس سے پہلی والی پوسٹ میں جس طرح کی باتیں کی ہیں۔ :D
 

یوسف-2

محفلین
1864.gif

روزنامہ جنگ کراچی، صفحہ آخر، 27 نومبر 2012ء
 
آپ نے بہت سارے سوالات پوچھے ہیں جو سوال نمبر 1 سے سوال نمبر 9 تک ہیں۔ یقین کیجئے میں اس لسٹ میں دس بیس نہیں ، سینکڑوں ، ہزاروں مزید سوال شامل کرسکتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ مقصد کیا ہے؟ کیا ان سوالات کی مدد سے ملک و قوم چلانے والی کوئی بات مرتب ہوتی ہے؟ نہیں ۔۔
یہ سوالات تو ایک فرد کی ذاتی پریکٹس کے بارے میں ہیں۔ میں مشرق کی طرف منہہ کرکے نماز پڑھتا ہوں اور آپ شائید مغرب کی طرف۔ اس سے ریاستی نظام پر کیا فرق پڑتا ہے؟
گدھا اگر کوئی کھاتا ہے تو کیا اس سے ملک کی معیشیت پر فرق پڑے گا؟ اتفاق سے قرآن حکیم حلال کی کیٹٰگری میں گدھے کو شامل نہیں کرتا۔ آپ کے لئے خبر ہوگی میرے لئے نہیں۔
آپ کے روزہ کھولنے کے وقت سے ملک کی معیشیت پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے؟ یہی حال آپ کے دیگر پرائیویٹ نوعیت کےسوالات کا ہے۔
کیا ان سوالات کا مقصد قرآن حکیم کے معیشیت کے مرتب کردہ اصولوں کو رد کردینا ہے؟؟؟ اور اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والی کتب کی مدد سے قرآن حکیم کے اصولوں کو ایک طرف رکھ دینا ہے۔ اگر ایسا کرنا ہے تو کیجئے۔ خوب کیجئے۔
اس میں کوئی شک ہے کہ آج کے پاکستانیوں کی سوچ اور سوچنے کا انداز ان ہی کتب کی مدد سے بنایا گیا ہے؟ لیکن اس سوچ نے کیا دیا؟ ڈھائی فی صد زکواۃ کی معیشیت؟؟؟، اللہ تعالی کے حکم کے خلاف؟؟؟ جس سے سارے پاکستان میں دولت کی گردش بہت کم ہے۔ جس کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے بہت کم ہیں۔ جس کی وجہ سے بندے ڈگریاں لے کر گھوم رہے ہیں اور نوکری نہیں ملتی ۔ جس سے بھتہ خوری ، ڈاکہ زنی، ایک گھر میں دس دس کنبے رہ رہے ہیں۔ بہت سے لڑکے اور لڑکیاں شادی سے محروم ہیں یا شادی کرکے معاشی پریشانیوں کی وجہ سے گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ پھر یہی لڑکیاں طوائف اور لڑکے ڈاکو بنتے ہیں۔ معاشرے میں دولت کی گردش کی کمی ان تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟؟ وہ جس نے قرآن کے نظام کے خلاف، منافع کے وقت پر 20 فی صد اوسطاً ٹیکس گورنمنٹ کو ادا کرنے کی جگہ سالانہ اثاثے پر ڈھائی فی صد ٹیکس اپنے مرضی کے لوگوں کو ادا کرنے کا نظام بنا کر اور اس نظام کی سوچ دے کر لوگوں کو بھٹکایا اور ایک شیطانی نظام بنایا۔

آپ نے آیات کے ترجمے پر اعتراض کیا ہے۔ تو درست ترجمہ حاضر ہے۔
وَاعْلَمُواْ
۔
أَنَّمَا
۔
غَنِمْتُم -
۔ تم کو جو بھی نفع یا منافع ہو
مِّن
شَيْءٍ
۔ کسی بھی شے سے
فَأَنَّ
لِلّهِ خم
سَهُ
۔ تو پھر اللہ کا حق پانچواں حصہ ہے۔

سر جی آپ
وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ
کا درست ترجمہ کردیجئے۔ اس میں جنگ کا یا جنگ کے مال غنیمت کا لفظ کہاں ہے؟؟؟ غنم کے معانی جنگ کا مال غنیمت ہے یا فائیدہ ، نفع اور منافع ہے؟؟؟

یہ دیکھئے کہ قرآن حکیم کے فراہم کردہ اصولوں پر چلنے والی قومیں کس طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور انسانی ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتب پر چلنے والی قومیں تباہی کے کس غار میں جاچکی ہیں یا جارہی ہیں۔ اب آپ سے استدعا ہے کہ رکاز اور مدفون خزانے والی آیات عطا فرمائیے۔ مجھ سے جو بھی بات کیجئے وہ صرف اور صرف قرآن حکیم کے حوالے سے کیجئے۔ بحیثیت مسلمان آپ کے اور میرے درمیان صرف اور صرف قرآن حکیم ہی کامن پروٹوکول ہے نا کہ کوئی بعد کی دوسری کتاب۔
 
براک اوبامہ امریکہ میں ٹیکس کو واپس وہیں لانا چاہتے ہیں جو امریکی قانون کا حصہ رہا ہے۔ کم کمانے والے کے لئے کم اور زیادہ کمانے والے کے لئے زیادہ۔ جبکہ ری پبلکن نے بش کے دور میں امیروں پر ٹیکس یہ وجہ دے کر کم کردیا تھا کہ امیر لوگ اس طرح زیادہ ملازمتیں دے سکیں گے ۔ لیکن پچھلے 12 سالوں میں امیر لوگوں نے کم ٹیکس تو دیا لیکن ملازمتیں نہیں دیں۔ اس طرح کوئی 43 لاکھ افراد ملازمتوں سے محروم ہیں۔

براک اوبامہ ٹیکس کا وہ نظام اور حساب اور شرح واپس لانا چاہتے ہیں جو بل کلنٹن کے زمانے میں تھا، یہ ان کے دوبارہ جیتنے کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔ ری پبلکن یہ جانتے ہیں کہ ایک تو اس سے امیر لوگوں کی آمدنی پر ٹیکس بڑھ جائے گا۔ دوسرے حکومت زیادہ ٹیکس وصول ہونے کی وجہ سے نت نئے پراجیکٹ شروع کرسکے گی ، جس کی وجہ سے ملازمتیں بڑھیں گی۔ اس طرح آنے والی خوش حالی سے اس بات کا امکان مزید بڑھ جائے گا کہ 2016 میں پھر ڈیمو کریٹ صدر منتخب ہو ری پبلکن پالیسیوں نے ماضی قریب میں امریکہ کے امیروں کو امیر تر کیا ہے اور امریکی معیشیت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ان پالیسیوں پر بنے ہوئے قوانین یا تو اس سال ختم ہورہے ہیں یا پھر ڈیمو کریٹ ان قوانین کو ختم کررہے ہیں۔ جس کے معانی ہیں کہ آئندہ چار سال میں امریکی معیشیت بہتر ہوگی اور ملازمتوں میں اضافہ ہوگا۔ جس کے فوائید نا صرف امریکہ کے لئے بلکہ ساری دنیا کے لئے بہتر اور دور اثر ہوں گے۔

اسی طرح پاکستان میں بھی زرعی آمدنی پر اوسطاً 20 فی صد ٹیکس لگا کر ملکی معیشیت کو بہتر، نت نئے پراجیکٹ شروع کرکے ملازمتوں کی فراہمی، معاشرے میں امن و امان ، ڈاکہ زنی اور بھتہ خوری کی کمی، احساس محرومی کو کم، عورتوں کی آبرو باختگی کو کم اور دفاعی پراجیکٹس پر مزید رقوم لگا کر ایک بہتر پاکستان کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔
 
مگر خان صاحب آپ تو قرآن کے مسلمان ہیں نہ (پرویزی) تو زکواۃ کے علادہ ان دوسرے مسلوں کو بھی قرآن سے ثابت کریں۔ اگر ثابت نہیں کر سکتے ہیں۔ تو پھر تمام مسلمان ان پر عمل پیرا کیوں ہیں۔ کیوں نماز پڑہتے ہیں۔ کیوں صبح سے شام تک روزے رکھتے ہیں اور اس طرح کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو اپکو لاجواب کر دیں گی۔

اور ہاں یہ بھی سچ ہے کہ قرآن تمام وقتوں کے لئے ہے۔ لیکن آپ دماع سے کام لیں تو ما لِ غنیمت اور مدفون خزانہ ایک ہی طرح کی چیزیں ہیں۔ مطلب ایک طرح کا انعام تو اس پر اللہ تعالٰی نے پانچواں حصہ اپنے لئے مقرر کیا ہے۔
۔ خان صاحب آپ نے ثابت کرنا ہے۔ کہ ہاں 20 فیصد زکواۃ ہر چیز پر ہے۔ اور یہ آپ نے قرآن مجید میں سے واضح آیات میں سے ثابت کرنا ہے۔ اور پھر اُسکے بعد میرے اِن دوسرے سوالوں کو بھی اِسی طرح سے ثابت کرنا ہے۔ اُمید ہے آپ ادھر اُدھر کی باتوں سے پرہیز کریں گے۔ اور صرف واضح قرآنی آیات اور مکمل ریفرینس کے ساتھ بات کریں گے۔ ۔ :D

میں مسلمان ہوں، اس قرآن کا مسلمان جو اللہ تعالی کا کلام ہے اور رسول اکرم کی زبان مبارک سے ادا ہوا۔

آپ کے بیان کردہ سارے مسائیل ایک انسان کے انفرادی مسائیل ہیں۔ جو صرف اس کو فائیدہ یا نقصان دے سکتے ہیں۔ قرآن حکیم ان تمام سوالات کے بہت ہی صاف جوابات فراہم کرتا ہے۔ ان ذاتی سوالات کے جوابات کسی الگ دھاگے میں ۔ آپ جذباتی نا ہوں، بہت سارے سوالات نشر کرنے سے آپ کا موقف بہت نہیں ہوتا :) ۔ ایک موضوع پر نظر رکھیں۔ کسی بھی شے سے نفع ہونے پر پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے۔ یہ سورۃ انفال کی آیت نمبر 41 میں آپ کو صاف صاف ملتا ہے۔ اس میں آپ کو کیا شکایت ہے؟ کیا یہ قرآن حکیم کا ریفرنس نہیں ہے؟
 

علی خان

محفلین
اس میں کوئی شک ہے کہ آج کے پاکستانیوں کی سوچ اور سوچنے کا انداز ان ہی کتب کی مدد سے بنایا گیا ہے؟ لیکن اس سوچ نے کیا دیا؟ ڈھائی فی صد زکواۃ کی معیشیت؟؟؟، اللہ تعالی کے حکم کے خلاف؟؟؟ جس سے سارے پاکستان میں دولت کی گردش بہت کم ہے۔ جس کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے بہت کم ہیں۔ جس کی وجہ سے بندے ڈگریاں لے کر گھوم رہے ہیں اور نوکری نہیں ملتی ۔ جس سے بھتہ خوری ، ڈاکہ زنی، ایک گھر میں دس دس کنبے رہ رہے ہیں۔ بہت سے لڑکے اور لڑکیاں شادی سے محروم ہیں یا شادی کرکے معاشی پریشانیوں کی وجہ سے گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ پھر یہی لڑکیاں طوائف اور لڑکے ڈاکو بنتے ہیں۔ معاشرے میں دولت کی گردش کی کمی ان تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟؟ وہ جس نے قرآن کے نظام کے خلاف، منافع کے وقت پر 20 فی صد اوسطاً ٹیکس گورنمنٹ کو ادا کرنے کی جگہ سالانہ اثاثے پر ڈھائی فی صد ٹیکس اپنے مرضی کے لوگوں کو ادا کرنے کا نظام بنا کر اور اس نظام کی سوچ دے کر لوگوں کو بھٹکایا اور ایک شیطانی نظام بنایا۔

تو کیا خان صاحب امریکہ میں طوائفیں نہیں ہوتی ہیں:zabardast1:۔ کیا وہاں اتنی ایڈوانس ٹیکنالوجی کے باوجود منظم وارداتیں نہیں ہوتی ہے۔ یہاں تو شادی سے محروم ہیں مگر وہ بھی کچھ پرسنٹ ہونگی۔ مگر آپ کے ہاں تو بچے بھی بغیر شادی کے پیدا ہو رہیں ہیں۔ اور تو اور لڑکے لڑکوں سے اور لڑکیاں لڑکیوں سے شادی کر سکتی ہیں۔ یار کیا کبھی جانور بھی ایسا کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ یہاں تو دولت کی کمی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ مگر امریکہ جو اتنی دولت اور وسائل سے مالامال ہے۔ وہاں پر کیوں پھر تمام ممالک سے زیادہ بے راہ روی، بے حیائی اور چوری و ڈکھیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ ویسے خان صاحب اپکے ان تمام پوسٹوں سے میں نے اتنا اندازہ لگایا ہے۔ کہ آپ باتیں بہت اچھی کرتی ہیں۔ :headphone:
 

علی خان

محفلین
میں مسلمان ہوں، اس قرآن کا مسلمان جو اللہ تعالی کا کلام ہے اور رسول اکرم کی زبان مبارک سے ادا ہوا۔

آپ کے بیان کردہ سارے مسائیل ایک انسان کے انفرادی مسائیل ہیں۔ جو صرف اس کو فائیدہ یا نقصان دے سکتے ہیں۔ قرآن حکیم ان تمام سوالات کے بہت ہی صاف جوابات فراہم کرتا ہے۔ ان ذاتی سوالات کے جوابات کسی الگ دھاگے میں ۔ آپ جذباتی نا ہوں، بہت سارے سوالات نشر کرنے سے آپ کا موقف بہت نہیں ہوتا :) ۔ ایک موضوع پر نظر رکھیں۔ کسی بھی شے سے نفع ہونے پر پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے۔ یہ سورۃ انفال کی آیت نمبر 41 میں آپ کو صاف صاف ملتا ہے۔ اس میں آپ کو کیا شکایت ہے؟ کیا یہ قرآن حکیم کا ریفرنس نہیں ہے؟

خان صاحب شک کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ کہ قرآن میں پانچویں حصے کی بات کی گئی ہے۔ مگر جناب وہ میں اپکو پہلے بھی سمجھا چکا ہوں کہ وہ اُس وقت کی مناسبت کے لئے دی گئی تھی۔ اور اس سے کہیں پر بھی ثابت نہیں ہوتا ہے۔ کہ زکواۃ اتنا ہی ہر چیز پر لوگو ہوگا۔ یہ بات مال غنیمت کے لئے تھی اور یہ اب بھی ہے۔
 
پاکستان میں بدامنی، غربت، آفت، قیامت، بھتہ گیری ، قتل ، آبرو باختگی امریکی سے زیادہ ہے۔ یہاں چھپتا زیادہ ہے تو سامنے آجاتا ہے۔ وہاں چھپتا کم ہے اس لئے سامنے نہیں آتا۔
 
خان صاحب شک کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ کہ قرآن میں پانچویں حصے کی بات کی گئی ہے۔ مگر جناب وہ میں اپکو پہلے بھی سمجھا چکا ہوں کہ وہ اُس وقت کی مناسبت کے لئے دی گئی تھی۔ اور اس سے کہیں پر بھی ثابت نہیں ہوتا ہے۔ کہ زکواۃ اتنا ہی ہر چیز پر لوگوں ہوگا۔ یہ بات مال غنیمت کے لئے تھی اور یہ اب بھی ہے۔

مال غنیمت کسی بھی شے یا چیز سے ؟؟؟؟؟؟ کیا معانی ہوئے اس کے؟ ہر شے میں صرف جنگ کا مال کیسے آگیا۔

ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھتے چلئے کہ انفال کے معانی کیا ہوتے ہیں؟؟؟
 

علی خان

محفلین
مال غنیمت جنگ میں حاصل شدہ مال کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ میرے خیال سے اتنے بچے نہیں ہیں آپ۔
 

علی خان

محفلین
پاکستان میں بدامنی، غربت، آفت، قیامت، بھتہ گیری ، قتل ، آبرو باختگی امریکی سے زیادہ ہے۔ یہاں چھپتا زیادہ ہے تو سامنے آجاتا ہے۔ وہاں چھپتا کم ہے اس لئے سامنے نہیں آتا۔
اچھا یہ تو مجھے آج پتہ چلا۔ یہ تو بہت بُری بات ہے۔ اس طرح نہیں ہونا چاہئے۔ :heehee:
 

شمشاد

لائبریرین
پاکستان میں بدامنی، غربت، آفت، قیامت، بھتہ گیری ، قتل ، آبرو باختگی امریکی سے زیادہ ہے۔ یہاں چھپتا زیادہ ہے تو سامنے آجاتا ہے۔ وہاں چھپتا کم ہے اس لئے سامنے نہیں آتا۔
پاکستان میں چھپے یا نہ چھپے، پھر بھی آپس میں ماں، بہن اور بیٹی کے رشتوں کا احترام ضرور کیا جاتا ہے۔

حالانکہ میڈیا ایسی خبریں چُن چُن کر اور اچھال اچھال کر بتاتا ہے، پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ کم چھپتا ہے۔
 
خان صاحب شک کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ کہ قرآن میں پانچویں حصے کی بات کی گئی ہے۔ مگر جناب وہ میں اپکو پہلے بھی سمجھا چکا ہوں کہ وہ اُس وقت کی مناسبت کے لئے دی گئی تھی۔ اور اس سے کہیں پر بھی ثابت نہیں ہوتا ہے۔ کہ زکواۃ اتنا ہی ہر چیز پر لوگو ہوگا۔ یہ بات مال غنیمت کے لئے تھی اور یہ اب بھی ہے۔

شکریہ کہ آپ نے مانا کہ قرآن میں کسی بھی شے سے ہونے والے نفع کے پانچویں حصے کو اللہ کا حق قرآر دیا گیا ہے۔۔۔ آپ کو اللہ کے فرمان قرآن میں مزید کوئی شرح اللہ کے حق کی ملتی ہے؟ میرے علم میں نہیں۔ پلیز مدد فرمائیے لیکن ریفرنس صرف قرآن حکیم کا ہو۔ تاکہ میرے اور دیگر ساتھیوں کے علم میں اضافہ ہو۔

پھر آپ نے اس کو مان کر ۔۔۔ مگر یا لیکن ۔۔۔ کہہ کر ماننے سے انکار کردیا کہ قرآن کا فراہم کردہ یہ اصول صرف اس وقت کے لئے تھا۔ کہ یہ بات تو صرف جنگ کے مال غنیمت کے لئے تھی۔ چلئے صاحب تو وہ آیت بتائیے جس میں اللہ تعالی نے زکواۃ کی شرح بتائی ہو ، بیس فی صد کے علاوہ۔۔۔ تاکہ مجھے سمجھنے میں آسانی ہو۔

اس کے بعد کچھ لوگ نبی اکرم سے منسوب کرکے مزید کتب سے مدد لیتے ہیں کہ ۔ جی زکواۃ کا نظام اور شرح کسی اور طرح کی ہوگی۔۔

میں بھی آپ کو یہی بتانے کی کوشش کررہا ہوں کہ -- جو آپ خود ہی نہیں سمجھتے ۔۔۔ وہ آپ مجھے سمجھارہے ہیں۔ آپ کی اتنی بڑی قوم ہے جو ان سب اصولوں کو رد کرکے بیٹھی ہوئی ہے ، تمام مسلم ممالک ٹیکس پر ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ڈھائی فی صد میں ان کا کوئی کام نہیں بنتا۔ کیوں؟؟

میں آپ کو یہ نہیں کہہ رہا کہ ۔۔۔۔ آپ میری بات مانیں ۔۔۔ اور آپ کی بات کو میں سمجھتا بھی خوب ہوں۔ بات یہ ہے کہ دو عدد حقیقتیں ہیں۔ ایک خالص قرآنی اصول اور ایک قرآن کے ساتھ دیگر کتب کا ملا جلا اصول۔ امریکہ کے آئین و قوانین کے اصول لیجئے اور ان کا موازنہ خالص قرآن کے اصولوں سے کیجئے آپ بہت ہی بڑی مماثلت پائیں گے ۔ یہ اتفاق نہیں ہے ۔ اس کا اعتراف فاؤنڈنگ فادرز کرچکے ہیں۔ اس زمانے میں معیشیت ، قانون اور سوشل انجینئرنگ کی کتب موجود نہیں تھیں۔ اسلامی ایمپائر سب سے بڑی ایمپائر تھی۔ لہذا ضروری تھا کہ اس کے قوانین کے پیچھے موجود اصولوں کی کتاب کا مطالعہ کیا جائے اور اس سے مدد لی جائے۔ امریکہ کے 33 فاؤنڈنگ فادرز میں سے کم از کم چار نے قرآن حکیم پڑھا، سمجھا اور اپنے خطوط میں اس کے حوالے دئے ان کے قرآن حکیم کے ترجموں کے نسخے آج بھی امریکہ کی اعلی ترین لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔ تھامس جیفرسن کا قرآن حکیم کا جارج سیل کے ترجمے کا نسخہ مکمل گارڈ کے ساتھ لائبریری آف کانگریس سے امریکی کیپیٹال میں اس پر مسلم نمائندوں کے قسم اٹھانے کے لئے لایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ امریکہ کے فاؤنڈنگ فادرز جان آدم ، بنجامن فرینکلن، رجرڈ ہنری لی، جیمز میڈیسن اور جان لاک کے قرآن کے نسخے آج بھی محفوظ ہیں ، ان لوگوں نے اپنے مراسلات مین قرآن کے اصولوں کے حوالے دئے تھے وہ مراسلات بھی موجود ہیں۔ قرآن حکیم سے قونین اخذ کرنے کی بنیاد پر امریکی سپریم کورٹ کے لیفٹ فریز پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شبہیہ ( تصویر نہیں )، وقت کے ایک بڑے قانون عطا کرنے والے کی حیثیت سے آج بھی موجود ہے۔

کہنے کا مقصد اتنا ہے کہ امریکی قوانین کے اصول اور فرمان الہی قرآن کے اصول آپ کے سامنے ہیں۔
آپ کے قوانین قرآن حکیم کے ساتھ ساتھ دوسری کتب سے ملا جلا کر بنتے ہیں۔ یہ دو حقیقتیں ہیں۔

آپ سمجھتے ہیں کہ آپ درست ہیں ۔ آپ سمجھتے رہیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اور ہو بھی نہیں سکتا۔

لیکن ترقی وہ ملک کررہا ہے جس کے قوانین ، صرف قران کے فراہم کردہ اصولوں کے مطابق ہیں۔
وہ ممالک ترقی نہیں کررہے جس کے قوانین ۔ قرآن اور دوسری کتب سے ملا جلا کر بنائے گئے اصولوں کے مطابق ہیں۔

کونسی درست ہے اور کونسی غلط اس کا فیصلہ وقت اور نتائج دونوں کرچکے ہیں۔ اگر آپ ان دو حقیقتوں کا فرق سمجھتے ہیں تو ہمارا یہ نکتہ مکمل ہو گیا۔ اس لئے کہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی کہ نا امریکہ اپنے اصول (قوانین نہیں) تبدیل کرے گا اور ناہی نام نہاد مسلمان قومیں اپنے (قرآن اورروایات کے تڑکے پر مبنی) اصول بدلیں گی۔ ہماری بحث صرف ان دوحقیقتوں کو سمجھنے کے لئے ہے۔ اگر ہم یہ نکتہ سمجھ چکے ہیں تو آگے اگلے نکتے پر چلیں؟؟؟؟

اگر ہاں تو آگے چلتے ہیں ۔۔ اب آپ مزید اعتراض کریں کہ کس امریکی قانون کے اصول کو آپ قرآن کے خلاف سمجھتے ہیں؟
 

علی خان

محفلین
شکریہ کہ آپ نے مانا کہ قرآن میں کسی بھی شے سے ہونے والے نفع کے پانچویں حصے کو اللہ کا حق قرآر دیا گیا ہے۔۔۔ آپ کو اللہ کے فرمان قرآن میں مزید کوئی شرح اللہ کے حق کی ملتی ہے؟ میرے علم میں نہیں۔ پلیز مدد فرمائیے لیکن ریفرنس صرف قرآن حکیم کا ہو۔ تاکہ میرے اور دیگر ساتھیوں کے علم میں اضافہ ہو۔
خان صاحب۔آب آپ نے کھلی انکھوں سے بھی خواب دیکھنےشروع کر دیئے۔ میں نے کسی بھی شے پر ہونے والے نفع پر پانچویں کی حصے پر آپ سے کبھی اتفاق نہیں کیا ہے۔ ہاں صرف جنگ بدر میں مالِ غنیمت کے متعلق آیات میں اپکی بات سے اتفاق کیا ہے۔ اس لئے میری بات کو بدلنے کی کوشش مت کریں۔ اور مجھے ثابت کریں۔ کہ کہا ں پر زکواۃ پر واضح آیت موجود ہے۔ اور اگر اسکے متعلق آیت ہے۔ تو پھردوسرے اسلام ارکان کے متعلق کیوں واضح آیات نہیں ہے۔
اور یہ جو تم امریکی نظام کی گردان کرتے ہوں۔ تو خان صاحب یہ کیا ہے۔ کیا یہ اپکی نظر میں سب سے نزدیک ہے۔ کیا ہم اندھے ہیں۔ یا بچے ہیں۔
6dx0cm.png

اور اسکے علاوہ بھی کہیں سے بھی کچھ مستند لنکس شیئر کردیں۔ جو آپکی بات مکمل ریفرینس کے ساتھ واضح کردیں۔ جب تک آپ یہ نہیں کرتے۔ آگے کی تو سوچیں بھی مت۔ اور آپ یہ دوسرے ممالک کی بات چھوڑیں بس اپنی امریکہ کو ثابت کریں۔:bighug:
 

علی خان

محفلین
باقی ایک مرتبہ پھر " کہ اپکے کہنے کے مطابق کہ اسمیں بانچواں حصہ اللہ کا ہے۔ تو وہ تو مالِ غنیمت کے لئے کہا گیا تھا۔ اور اس سورۃ اور اسمیں اس آیت سے وہ واضح بھی ہے۔ اب آپ یہ بتادیں۔ کہ اُس سے یہ کسطرح یہ ثابت ہوتا ہے۔ کہ پانچواں حصہ (زکواۃ) ہر چیز پر ہے
 

Fawad -

محفلین
ہر دنیاوی طاقت ایک بدمست ہاتھی کی طرح ہے۔ ہر بدمست جب کسی کو کچلتا ہے تو اچھے برے کی تمیز نہیں کرتا۔ اسکا مقصد سب کو کچلنا ہوتا ہے۔ اور آپکا چہیتا امریکہ بھی یہی کر رہاہے۔ اسمیں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ اپنی ابتداء سے لیکر ابتک آپکا حضرت امریکہ مسلسل ایک کے بعد دوسری جنگ میں مصروف ہے۔ کبھی اپنے لئے تو کبھی اپنے اتحادیوں کیلئے۔ اس بدمست جنگجو ہاتھی کو آپ قرآنی اصولوں پر چلنے والا ملک کہتے ہیں جہاں امیر اور غریب میں فرق سب سے زیادہ ہے، جہاں 40 ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں، جہاں دنیا میں سب سے زیادہ فحاشی ہے، جہاں سب سے زیادہ قیدی اور جرائم ہیں، جہاں سب سے زیادہ شراب نوشی، منشیات کا استعمال اور کم سن بچوں کیساتھ جنسی زیادتیاں ہو رہی ہیں؟ جہاں عوام پاگلوں کی طرح اس مادی دنیا کے پیچھے بھاگ رہی ہے؟ جس قوم کا بیرونی اور اندرونی قرضہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے؟ لاحول ولا قوۃ!


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



ميں آپ کی بات کا جواب صدر اوبامہ کے ايک حاليہ بيان کی روشنی ميں دوں گا جو انھوں نے اقوام متحدہ ميں اپنی ايک تقرير کے دوران ديا تھا۔

"جو امريکہ پر اس بنياد پر تنقيد کرتے رہے ہيں کہ امريکہ اکيلا ہی دنيا بھر ميں اقدامات اٹھاتا رہتا ہے، اب وہ خاموش تماشائ بن کر اس انتظار ميں کھڑے رہنے کے مجاز نہيں ہيں کہ امريکہ تن تنہا دنيا کے مسائل حل کر دے گا۔ ہم نے الفاظ اور عملی اقدامات کے ذريعے دنيا سے روابط قائم کرنے کے ايک نئے دور کا آغاز کر ديا ہے۔ اب يہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس ضمن ميں اپنا کردار ادا کريں۔"

صدر اوبامہ کے الفاظ زمينی حقائق اور دنيا کے اہم ترين مسائل کے ضمن ميں ايک حقيقت پسندانہ تجزيہ ہے۔ يہ ايک غير حقيقی اور غير فطری بات ہے کہ دنيا بھر کے تمام تر مسائل کے ليے امريکہ ہی کو مورد الزام قرار ديا جائے۔ اسی طرح يہ سوچ بھی غلط ہے کہ خطے کے ديگر فريقين اور اہم کرداروں کی ذمہ داريوں کو نظرانداز کر کے امريکہ سے ہی يہ توقع رکھی جائے کہ تمام تر مسائل حل کرنے ميں امريکی حکومت فيصلہ کن کردار ادا کرے۔ يہ بھی ياد رہے کہ بہت سے عالمی مسائل کئ دہائيوں پر محيط ہيں اور بعض ايشوز ايسے بھی ہيں جن ميں براہراست فريق امريکی مداخلت کے حق ميں ہی نہيں ہيں۔ کشمير کا مسلہ بھی اسی کيٹيگری ميں آتا ہے۔

ماضی بعيد ميں مختلف اقوام کی دنيا ميں حيثيت اور اثر رسوخ کا دارومدار جنگوں اور معرکوں کے نتيجے ميں پيدا ہونے والے حالات اور نتائج کے تناظر ميں ہوتا تھا جبکہ جديد دور ميں کسی بھی قوم کی برتری کا انحصار سائنس اور ٹيکنالوجی کے ميدان ميں کاميابی، کاروبار اور معاش کے مواقعوں اور نت نئے امکانات کی دستيابی پر مرکوز ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ يا کسی اور ملک کے ليے "سپر پاور" کی اصطلاح اس بنيادی اصول کی مرہون منت ہوتی ہے کہ عام انسانوں کے معيار زندگی ميں بہتری لانے کے لیے کتنے تخليقی ذرائع اور مواقعے مہيا کيے گئے ہيں۔

آج کے جديد دور ميں جنگيں اور فسادات اجتماعی انسانی ترقی اور کاميابی کی راہ ميں رکاوٹ ہيں۔

آپ امريکہ پر الزامات کی بوچھاڑ کر کے اس بات پر بضد ہيں کہ امريکہ ہی دنيا ميں تمام جنگوں کا ذمہ دار ہے۔ گويا کہ دنيا بھر ميں تشدد ہمارے مفاد ميں ہے۔ يہ دعوی اس لحاظ سے خاصہ دلچسپ ہے کہ جس تھريڈ ميں آپ گفتگو کر رہے ہيں اس کا تو عنوان ہی اس دعوے پر مبنی ہے کہ امريکہ ممکنہ طور شکست وريخت کا شکار ہے۔ اگر آپ کا دعوی درست ہے تو پھر بيک وقت يہ دعوی نہيں کيا جا سکتا کہ ہم ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہيں اور اپنے تسلط کو بڑھانے اور اپنے مفادات کو تقويت دينے کے ليے جنگوں کو فروغ بھی د يے چلے جا رہے ہيں۔

آپ دنيا ميں امريکہ کے مثبت کردار کو يکسر فراموش کر رہے ہيں جس ميں دنيا کے بے شمار ممالک کے ليے مستقل بنيادوں پر امدادی پيکج اور تعميری منصوبوں ميں مدد بھی شامل ہے۔ تکنيکی مہارت، طب، تعليم اور زراعت کے ميدانوں ميں معجزانہ ترقی کے علاوہ ہر شعبہ زندگی ميں امريکی ترقی سے دنيا بھر کے لاکھوں لوگوں کی زندگيوں ميں بہتری کا عمل جاری رہتا ہے۔

يہ امر بھی غور طلب ہے کہ جن امريکی شہريوں کو بحثيت مجموعی ہدف تنقيد بنا رہے ہيں، يہ وہی ٹيکس دہنگان ہيں جنھوں نے امريکہ کو دنيا بھر ميں انسانی بنيادوں پر مدد فراہم کرنے والے ممالک ميں سرفہرست لانے ميں کليدی کردار ادا کيا ہے۔


کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی عوام جو دنيا بھر کے عوام کی بہتری کے ليے سالانہ کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے وہ اپنی حکومت کو محنت سے کمائ ہوئ دولت اس بنياد پر خرچ کرنے کی اجازت دے گي کہ اس امداد کے ذريعے دنيا بھر ميں جنگوں اور فسادات کا سلسلہ دانستہ جاری رکھا جائے؟ تنقيد برائے تنقيد اپنی جگہ ليکن کيا اس دعوے ميں منطق اور فہم کا کوئ پہلو بھی ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[URL='http://www.state.gov']www.state.go[/URL][URL='http://www.state.gov']v[/URL]

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

عاطف بٹ

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



ميں آپ کی بات کا جواب صدر اوبامہ کے ايک حاليہ بيان کی روشنی ميں دوں گا جو انھوں نے اقوام متحدہ ميں اپنی ايک تقرير کے دوران ديا تھا۔

"جو امريکہ پر اس بنياد پر تنقيد کرتے رہے ہيں کہ امريکہ اکيلا ہی دنيا بھر ميں اقدامات اٹھاتا رہتا ہے، اب وہ خاموش تماشائ بن کر اس انتظار ميں کھڑے رہنے کے مجاز نہيں ہيں کہ امريکہ تن تنہا دنيا کے مسائل حل کر دے گا۔ ہم نے الفاظ اور عملی اقدامات کے ذريعے دنيا سے روابط قائم کرنے کے ايک نئے دور کا آغاز کر ديا ہے۔ اب يہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس ضمن ميں اپنا کردار ادا کريں۔"

صدر اوبامہ کے الفاظ زمينی حقائق اور دنيا کے اہم ترين مسائل کے ضمن ميں ايک حقيقت پسندانہ تجزيہ ہے۔ يہ ايک غير حقيقی اور غير فطری بات ہے کہ دنيا بھر کے تمام تر مسائل کے ليے امريکہ ہی کو مورد الزام قرار ديا جائے۔ اسی طرح يہ سوچ بھی غلط ہے کہ خطے کے ديگر فريقين اور اہم کرداروں کی ذمہ داريوں کو نظرانداز کر کے امريکہ سے ہی يہ توقع رکھی جائے کہ تمام تر مسائل حل کرنے ميں امريکی حکومت فيصلہ کن کردار ادا کرے۔ يہ بھی ياد رہے کہ بہت سے عالمی مسائل کئ دہائيوں پر محيط ہيں اور بعض ايشوز ايسے بھی ہيں جن ميں براہراست فريق امريکی مداخلت کے حق ميں ہی نہيں ہيں۔ کشمير کا مسلہ بھی اسی کيٹيگری ميں آتا ہے۔

ماضی بعيد ميں مختلف اقوام کی دنيا ميں حيثيت اور اثر رسوخ کا دارومدار جنگوں اور معرکوں کے نتيجے ميں پيدا ہونے والے حالات اور نتائج کے تناظر ميں ہوتا تھا جبکہ جديد دور ميں کسی بھی قوم کی برتری کا انحصار سائنس اور ٹيکنالوجی کے ميدان ميں کاميابی، کاروبار اور معاش کے مواقعوں اور نت نئے امکانات کی دستيابی پر مرکوز ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ يا کسی اور ملک کے ليے "سپر پاور" کی اصطلاح اس بنيادی اصول کی مرہون منت ہوتی ہے کہ عام انسانوں کے معيار زندگی ميں بہتری لانے کے لیے کتنے تخليقی ذرائع اور مواقعے مہيا کيے گئے ہيں۔

آج کے جديد دور ميں جنگيں اور فسادات اجتماعی انسانی ترقی اور کاميابی کی راہ ميں رکاوٹ ہيں۔

آپ امريکہ پر الزامات کی بوچھاڑ کر کے اس بات پر بضد ہيں کہ امريکہ ہی دنيا ميں تمام جنگوں کا ذمہ دار ہے۔ گويا کہ دنيا بھر ميں تشدد ہمارے مفاد ميں ہے۔ يہ دعوی اس لحاظ سے خاصہ دلچسپ ہے کہ جس تھريڈ ميں آپ گفتگو کر رہے ہيں اس کا تو عنوان ہی اس دعوے پر مبنی ہے کہ امريکہ ممکنہ طور شکست وريخت کا شکار ہے۔ اگر آپ کا دعوی درست ہے تو پھر بيک وقت يہ دعوی نہيں کيا جا سکتا کہ ہم ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہيں اور اپنے تسلط کو بڑھانے اور اپنے مفادات کو تقويت دينے کے ليے جنگوں کو فروغ بھی د يے چلے جا رہے ہيں۔

آپ دنيا ميں امريکہ کے مثبت کردار کو يکسر فراموش کر رہے ہيں جس ميں دنيا کے بے شمار ممالک کے ليے مستقل بنيادوں پر امدادی پيکج اور تعميری منصوبوں ميں مدد بھی شامل ہے۔ تکنيکی مہارت، طب، تعليم اور زراعت کے ميدانوں ميں معجزانہ ترقی کے علاوہ ہر شعبہ زندگی ميں امريکی ترقی سے دنيا بھر کے لاکھوں لوگوں کی زندگيوں ميں بہتری کا عمل جاری رہتا ہے۔

يہ امر بھی غور طلب ہے کہ جن امريکی شہريوں کو بحثيت مجموعی ہدف تنقيد بنا رہے ہيں، يہ وہی ٹيکس دہنگان ہيں جنھوں نے امريکہ کو دنيا بھر ميں انسانی بنيادوں پر مدد فراہم کرنے والے ممالک ميں سرفہرست لانے ميں کليدی کردار ادا کيا ہے۔


کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی عوام جو دنيا بھر کے عوام کی بہتری کے ليے سالانہ کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے وہ اپنی حکومت کو محنت سے کمائ ہوئ دولت اس بنياد پر خرچ کرنے کی اجازت دے گي کہ اس امداد کے ذريعے دنيا بھر ميں جنگوں اور فسادات کا سلسلہ دانستہ جاری رکھا جائے؟ تنقيد برائے تنقيد اپنی جگہ ليکن کيا اس دعوے ميں منطق اور فہم کا کوئ پہلو بھی ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
فواد یار، ویسے تمہیں خود بھی پتہ ہوتا ہے کہ تم یہ سب کچھ جھوٹ لکھ رہے ہو مگر خدا کی قسم تم کتنے شاندار اداکار ہو یار، مجال ہے جو ذرا بھی ہنسی نکلے تمہاری یہ سب لکھتے ہوئے۔ یہ جو باتیں تم نے لکھی ہیں ان کے بہت عمدہ جوابات ہیں میرے پاس مگر میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ہے اور پھر وہ سب پڑھ کر میرے بھائی کا سینہ بھی جلے گا جو میں ہرگز نہیں چاہتا۔ جیتا رہ فواد میرے بچے اور دونوں ہاتھوں سے امریکہ کو لوٹتا رہ! :applause: بلکہ تیرے ہاتھ کم پڑجائیں یا تھک جائیں تو مجھ کو حکم کرنا، تیرا بھائی اتنا گیا گزرا بھی نہیں کہ ڈالر اکٹھے کرنے میں بھائی کی مدد نہ کرسکے۔ :p
 
Top