الگ الگ نظر آئے چمن چمن یارو!
جدا جدا لگے مجھ کو وطن وطن یارو!

ہیں دو ہی کان ، دو آنکھیں ، دو ہاتھ ، دو پاؤں
مگر جدا نظر آئیں بدن بدن یارو!
یہ آفتاب کی روشن شعاعیں ہیں تسلیم
مگر الگ ہیں جو دیکھو کرن کرن یارو!
شکار تو سبھی کرتے ہیں ان غزالوں کا
ہیں مختلف سبھی باہم ہرن ہرن یارو!
اسامہ سرسری ملتے ہیں لوگ تو ہر روز
یقیں کرو ہیں جدا یہ ملن ملن یارو!
 

الف عین

لائبریرین
کرتب بازی تو ماشاء اللہ خوب دکھائی ہے اسامہ نے۔ لیکن ذرا سوچو کہ ہر قافیہ کا دو بار استعمال معنی خیز نہیں۔ وطن وطن؟ اگر مراد ہر وطن ہے ہے تو ٹھیک ہے، ویسے وطن ایک ہی ہوتا ہے، ملک الگ الگ ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح ملن ملن قافیہ بھی بے معنی لگتا ہے۔ اور ہرن تو مکمل شعر میں مفہوم سے عاری لگتے ہیں۔ اس مصرع میں باہم، اور سبھی کے الفاظ کے بغیر ہی مفہوم ادا ہو جاتا ہے، لیکن مفہوم اگر ہو تو!!!
 
کرتب بازی تو ماشاء اللہ خوب دکھائی ہے اسامہ نے۔ لیکن ذرا سوچو کہ ہر قافیہ کا دو بار استعمال معنی خیز نہیں۔ وطن وطن؟ اگر مراد ہر وطن ہے ہے تو ٹھیک ہے، ویسے وطن ایک ہی ہوتا ہے، ملک الگ الگ ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح ملن ملن قافیہ بھی بے معنی لگتا ہے۔ اور ہرن تو مکمل شعر میں مفہوم سے عاری لگتے ہیں۔ اس مصرع میں باہم، اور سبھی کے الفاظ کے بغیر ہی مفہوم ادا ہو جاتا ہے، لیکن مفہوم اگر ہو تو!!!
جزاکم اللہ خیرا استاد محترم آپ نے اپنے قیمتی اوقات میں سے وقت نکال کر میری اس بے ربط تک بندی پر توجہ فرمائی۔
آپ کے ارشادات کی روشنی میں تصحیح کی کوشش کرتا ہوں۔
 
استاد محترم کی اصلاح کے بعد:
کلی کلی مرے دل کی دکھا رہی ہے مجھے
محبتوں کے جہاں کے چمن چمن یارو!

ہیں دو ہی کان ، دو آنکھیں ، دو ہاتھ ، دو پاؤں
مگر جدا نظر آئیں بدن بدن یارو!

یہ آفتاب کی روشن شعاعیں ہیں تسلیم
مگر الگ ہیں جو دیکھو کرن کرن یارو!

نگر نگر ہیں پھرے ہم تلاش میں ان کی
ہمارے ہر طرف اب ہیں وطن وطن یارو!


غزالی مشک و خرام و نگاہ سے ان کی
پلک جھپک رہے رک کر ہرن ہرن یارو!

اسامہ! عشقِ حقیقی کہاں ، مجازی کہاں
یقیں کرو ہیں جدا یہ ملن ملن یارو!
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
جب الفاظ دہرائے جاتے ہین، تو اس کا مطلب ہے کہ ’ہر‘ جس کے ساتھ واحد کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔ جن اشعار کو میں قبول کر چکا ہوں، اس میں محض یہی غلطی ہے، نظر آئے‘ اور ‘الگ ہے‘ سے درست ہو جاتے ہیں۔ پہلے شعر میں صیغے درست کرنے کے بعد شعر تو درست ہو جاتا ہے، لیکن باقی نئے اشعار میں اب بھی بات بنتی نظر نہیں آتی!!
 
استاد محترم کی دوسری اصلاح کے بعد:

کلی کلی مرے دل کی دکھا رہی ہے مجھے
محبتوں کے جہاں کا چمن چمن یارو!


ہیں دو ہی کان ، دو آنکھیں ، دو ہاتھ ، دو پاؤں
مگر جدا نظر آئے بدن بدن یارو!

یہ آفتاب کی روشن شعاعیں ہیں تسلیم
مگر الگ ہے جو دیکھو کرن کرن یارو!

ہر ایک ملک میں ہم نے بنایا گھر اپنا
پھرے تلاش میں ان کی وطن وطن یارو!


غزالی مشک و خرام و نگاہ سے ان کی
پلک جھپک رہا رک کر ہرن ہرن یارو!

اسامہ! عشقِ حقیقی کہاں ، مجازی کہاں
یقیں کرو ہے جدا یہ ملن ملن یارو!
 

انتہا

محفلین
میر تقی میر فرماتے ہیں
عالم عالم عشق و جنوں ہے دنیا دنیا تہمت ہے
دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے
مرزا غالب
کرتا ہوں جمع پھر سے جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کیے ہوئے
 
میر تقی میر فرماتے ہیں
عالم عالم عشق و جنوں ہے دنیا دنیا تہمت ہے
دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے
مرزا غالب
کرتا ہوں جمع پھر سے جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کیے ہوئے

میر کے شعر میں الفاظ ساتھ دے رہے ہیں۔ اسامہ کی غزل میں اکثر جگہ الفاظ کی تکرار نبھ نہیں رہی۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
باقی جگہ تو قبول کی جا سکتی ہے تکرار، لیکن مکن ملن تو کسی طرح گلے سے نہیں اترتا!!
 
Top