کاشفی

محفلین
غزل
(ساغر نظامی)
اللہ اللہ یہ میکدے کا نظام
مقتدی ہے کوئی نہ کوئی امام

جام پر لب ہے، لب پر تیرا نام
روز و شب، شام و صبح، صبح و شام

ہے یہ دنیائے عاشقی کا نظام
مرگ آغاز، زندگی انجام

دلِ نازک امینِ سوزِ تمام
عشق فطرت کا آتشیں پیغام

ہے مآلِ جفا، وفا انجام
عشق آزاد اور حُسن غلام

ماسِوا کا بھلا یہاں کیا کام
کعبہء عشق میں ہے حُسن امام

ان کا جلوہ نشاطِ مستی و کیف
موج در موج، اور جام بہ جام

گردشِ روزگار بھی ہے شہید
صرف میں ہی نہیں قتیلِ خرام

جس پہ قربان کُل جہانِ نیاز
ہاں ذرا مُسکرا کے پھر وہ سلام

میں خود اپنے خیال سے آزاد
تو اسیرِ غمِ حلال و حرام

اب کہاں نورِ قشقہء رنگیں
اب کہاں جلوہ ہائے ماہِ تمام

زندہ رہنا ہے اِک جہادِ عظیم
خودکشی ہجر میں ہے جذبہء خام

مر کے بھی ہم دکھائے دیتے ہیں
پھر نہ دینا ہمیں کوئی الزام

مرگیا بُتکدے میں ساغر آج
وہ مُرید تبسّمِ اصنام
 

طارق شاہ

محفلین
جس پہ قربان ، کُل جہانِ نیاز
ہاں ذرا مُسکرا کے پھر وہ سلام


کیا ہی کہنے ، جی
بہت ہی خُوب ، تشکّر شیئر کرنے کا کشفی صاحب!
بہت خوش رہیں :):)

جام پر لب ہے، لب پر تیرا نام
بالا مصرع دیکھ لیں
شاید یوں ہو ، کہ : "جام پر لب ہے، لب پہ تیرا نام"
 

کاشفی

محفلین
جس پہ قربان ، کُل جہانِ نیاز
ہاں ذرا مُسکرا کے پھر وہ سلام


کیا ہی کہنے ، جی
بہت ہی خُوب ، تشکّر شیئر کرنے کا کشفی صاحب!
بہت خوش رہیں :):)

جام پر لب ہے، لب پر تیرا نام
بالا مصرع دیکھ لیں
شاید یوں ہو ، کہ : "جام پر لب ہے، لب پہ تیرا نام"
بہت شکریہ طارق شاہ صاحب!
بالکل ایسا ہی ہے جیسا آپ نے فرمایا ہے۔۔
"ر" "پ" کے ساتھ مل کر ٹیپو ہوگیا تھا۔۔۔اس کے لیئے معذرت۔
جام پر لب ہے، لب پہ تیرا نام
روز و شب، شام و صبح، صبح و شام
 
Top