القاعدہ اور طالبان عراق افغانستان اور پاکستان کے بعد اب یمن میں‌!

dxbgraphics

محفلین
جناب عالی عراق سے ہتھیار نہیں ملے لیکن پھر بھی امریکہ عراق کی شلوار میں پیر گھسائے بیٹھا ہے نکالتا کیوں نہیں
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

جناب عالی عراق سے ہتھیار نہیں ملے لیکن پھر بھی امریکہ عراق کی شلوار میں پیر گھسائے بیٹھا ہے نکالتا کیوں نہیں

عراق ميں امريکی افواج کی موجودگی کے حوالے سے آپ نے جو سوال کيا ہے اس ضمن ميں امريکی حکومت نے متعدد بار يہ واضح کيا ہے کہ امريکی افواج کا عراق ميں غير معينہ مدت تک رہنے کا کوئ ارادہ نہيں ہے۔ امريکی اور عراقی حکومتوں کے مابين امريکی برگيڈز کی عراق سے واپسی کا ٹائم ٹيبل طے پا چکا ہے۔ اگست 31 2010 تک امريکی افواج کا عراق ميں "کامبيٹ مشن" ختم ہو جائے گا اور اس کے بعد يہ ذمہ داری عراق کی سيکورٹی فورسز کے حوالے کر دی جائے گی۔ اس تاريخ کے بعد امريکی افواج کی عراق ميں موجودگی کے تين مقاصد ہوں گے جس ميں اولين ترجيح عراقی سيکورٹی فورسز کو تربيت اور سازوسامان کی فراہمی کو دی جائے گی۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف اہم مشنز ميں معاونت اور اہم سول اور فوجی ٹارگٹس کو تحفظ فراہم کيا جائے گا۔ صدر اوبامہ "اسٹيٹس آف فورسز" معاہدے کے تحت سال 2011 کے اختتام تک تمام امريکی افواج کی عراق سے واپسی کے عزم پر قائم ہيں۔

اس ضمن ميں حال ہی ميں امريکی فوجيوں سے اپنے خطاب ميں انھوں کہا کہ

"ميں يہ بالکل واضح کر دينا چاہتا ہوں کہ اگست 31 2010 تک ہمارا عراق ميں کامبيٹ مشن ختم ہو جائے گا"۔

"ہم نے اپنی افواج صدام حسين کی حکومت ختم کرنے کے ليے عراق بجھوائ تھيں اور آپ نے يہ مشن مکمل کر ليا ہے۔ ہم نے اپنی افواج کوعراق ميں رکھنے کا فيصلہ ايک خود مختار حکومت کے قيام کے مقصد کو حاصل کرنے کے ليئے کيا۔ اور آپ نے يہ مقصد حاصل کر ليا ہے۔ ہم عراقی عوام کو ايک سخت جدوجہد کے بعد ايک بہتر زندگی گزارنے کا موقع فراہم کر کے جائيں گے، اور يہ آپ لوگوں کی کاميابی ہے۔ آپ نے اس امکان کا موقع فراہم کيا ہے"۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

arifkarim

معطل
اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف اہم مشنز ميں معاونت اور اہم سول اور فوجی ٹارگٹس کو تحفظ فراہم کيا جائے گا۔
ایک تو ہر ملک پر چڑھ دوڑتے ہیں اور جب لوگ دفاع کریں‌تو انکو دہشت گرد کہہ کر انہی کے لوگوں کو انکے خلاف تربیت دیتے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ :)
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ایک تو ہر ملک پر چڑھ دوڑتے ہیں اور جب لوگ دفاع کریں‌تو انکو دہشت گرد کہہ کر انہی کے لوگوں کو انکے خلاف تربیت دیتے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ :)

آپکے کا کہنا ہے کہ عراق ميں تشدد کی کاروائياں "غير ملکی جارحيت" کے خلاف مسلح جدوجہد ہے۔ اگر يہ بات درست ہوتی تو يہ "جدوجہد" صرف مسلح افواج کے خلاف ہوتی، ليکن ايسا نہيں ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ دہشت گردی کی زيادہ تر کاروائياں دانستہ طور پر معصوم اور بے گناہ شہريوں پر مرکوز ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ عراقيوں کی اکثريت ان گروپوں کی حمايت نہيں کرتی۔

اس وقت عراق امدادی تنظيموں کے خلاف سب سے زيادہ پرتشدد کاروائيوں کے ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں صرف 2007 ميں ايسی تنظيموں پر 51 حملے کيے گئے۔

دنيا بھر ميں امدادی تنظيموں پر براہراست حملہ اس ملک کی آبادی پر حملہ تصور کيا جاتا ہے کيونکہ يہ تنظيميں کسی مسلح کاروائ ميں ملوث نہيں ہوتيں بلکہ مقامی لوگوں کی مدد کر رہی ہوتی ہيں۔ انتہا پسند گروپوں کی جانب سے جاری يہ کاروائياں کسی جارح فوج کے خلاف مقدس جدوجہد کا حصہ نہيں بلکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليے ہے۔

الغزل نامی بازار ميں ذہنی معذور لڑکيوں کے ذريعے 100 سے بے گناہ عراقی شہريوں کا قتل اورعراقی عوام کے خلاف دہشت گردی کی ايسی ہی سينکڑوں کاروائياں کس "مسلح فوج" کے خلاف ہيں؟

اعداد وشمار سے يہ واضح ہے کہ ان انتہا پسند گروپوں کی دانستہ حکمت عملی يہی ہے کہ عام شہريوں پر تشدد کی کاروائيوں کے ذريعے اپنے اثر ورسوخ ميں اضافہ کيا جائے۔

پچھلے چند ہفتوں اور مہينوں کے دوران بازاروں، مذہبی اجتماعات اور درس گاہوں ميں خودکش حملے کے واقعات عراق کو آزاد کرانے کی جدوجہد کا حصہ ہيں؟ ايسے سينکڑوں واقعات ريکارڈ پر موجود ہيں۔

اپنی تمام تر کمزوريوں، خاميوں اور مسائل کے باوجود اس وقت عراق ميں کئ ملين ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے والی حکومت موجود ہے جو تمام تر مشکلات کے باوجود عراق کا نظام چلا رہی ہے۔ يہ حکومتی نظام تمام تر چيلنجز کے باوجود صدام کے دور حکومت سے بہتر ہے۔ عراق کا مستقبل اسی حکومتی ڈھانچے کی کاميابی سے وابستہ ہے جس ميں يقينی طور پر بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ان دہشت گرد گروپوں کی کاروائياں اس حکومتی نظام کو کمزور کر رہی ہيں تاکہ اپنا نظام قائم کر سکيں۔

يہاں ميں آپ کو گزشتہ چند برسوں کے حوالے سے کچھ ويب لنکس دے رہا ہوں جن سے آپ کو يہ اندازہ ہو جائے گا کہ ان "مزاحمتی گروپوں" کا اصل ہدف کون ہے۔


http://www.cnn.com/2003/WORLD/meast/08/19/sprj.irq.main/index.html

http://www.cnn.com/2008/WORLD/meast/08/08/iraq.main/

http://www.pbs.org/newshour/updates/middle_east/jan-june08/iraq_06-17.html

http://www.outsidethebeltway.com/archives/2008/07/at_least_53_dead_in_suicide_bombing_attacks


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

arifkarim

معطل
آپکے کا کہنا ہے کہ عراق ميں تشدد کی کاروائياں "غير ملکی جارحيت" کے خلاف مسلح جدوجہد ہے۔ اگر يہ بات درست ہوتی تو يہ "جدوجہد" صرف مسلح افواج کے خلاف ہوتی، ليکن ايسا نہيں ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ دہشت گردی کی زيادہ تر کاروائياں دانستہ طور پر معصوم اور بے گناہ شہريوں پر مرکوز ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ عراقيوں کی اکثريت ان گروپوں کی حمايت نہيں کرتی۔

اس وقت عراق امدادی تنظيموں کے خلاف سب سے زيادہ پرتشدد کاروائيوں کے ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں صرف 2007 ميں ايسی تنظيموں پر 51 حملے کيے گئے۔

دنيا بھر ميں امدادی تنظيموں پر براہراست حملہ اس ملک کی آبادی پر حملہ تصور کيا جاتا ہے کيونکہ يہ تنظيميں کسی مسلح کاروائ ميں ملوث نہيں ہوتيں بلکہ مقامی لوگوں کی مدد کر رہی ہوتی ہيں۔ انتہا پسند گروپوں کی جانب سے جاری يہ کاروائياں کسی جارح فوج کے خلاف مقدس جدوجہد کا حصہ نہيں بلکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليے ہے۔

الغزل نامی بازار ميں ذہنی معذور لڑکيوں کے ذريعے 100 سے بے گناہ عراقی شہريوں کا قتل اورعراقی عوام کے خلاف دہشت گردی کی ايسی ہی سينکڑوں کاروائياں کس "مسلح فوج" کے خلاف ہيں؟

اعداد وشمار سے يہ واضح ہے کہ ان انتہا پسند گروپوں کی دانستہ حکمت عملی يہی ہے کہ عام شہريوں پر تشدد کی کاروائيوں کے ذريعے اپنے اثر ورسوخ ميں اضافہ کيا جائے۔

پچھلے چند ہفتوں اور مہينوں کے دوران بازاروں، مذہبی اجتماعات اور درس گاہوں ميں خودکش حملے کے واقعات عراق کو آزاد کرانے کی جدوجہد کا حصہ ہيں؟ ايسے سينکڑوں واقعات ريکارڈ پر موجود ہيں۔

اپنی تمام تر کمزوريوں، خاميوں اور مسائل کے باوجود اس وقت عراق ميں کئ ملين ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے والی حکومت موجود ہے جو تمام تر مشکلات کے باوجود عراق کا نظام چلا رہی ہے۔ يہ حکومتی نظام تمام تر چيلنجز کے باوجود صدام کے دور حکومت سے بہتر ہے۔ عراق کا مستقبل اسی حکومتی ڈھانچے کی کاميابی سے وابستہ ہے جس ميں يقينی طور پر بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ان دہشت گرد گروپوں کی کاروائياں اس حکومتی نظام کو کمزور کر رہی ہيں تاکہ اپنا نظام قائم کر سکيں۔

يہاں ميں آپ کو گزشتہ چند برسوں کے حوالے سے کچھ ويب لنکس دے رہا ہوں جن سے آپ کو يہ اندازہ ہو جائے گا کہ ان "مزاحمتی گروپوں" کا اصل ہدف کون ہے۔


http://www.cnn.com/2003/world/meast/08/19/sprj.irq.main/index.html

http://www.cnn.com/2008/world/meast/08/08/iraq.main/

http://www.pbs.org/newshour/updates/middle_east/jan-june08/iraq_06-17.html

http://www.outsidethebeltway.com/archives/2008/07/at_least_53_dead_in_suicide_bombing_attacks


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

اسکول سے پڑھے لکھوں‌ کیلئے مندرجہ بالا بیان تسلی بخش ہوتا ہے۔ البتہ تحقیقاتی ٹیم ایسے سیاسی بنایات تسلیم نہیں‌کرتی۔ آپکا کہنا ہے کہ یہ اسلامی جہادی تشدد آمیز گروپس اتحادی املاک کے علاوہ عراقی شہریوں کو زیادہ نشانہ بناتے ہیں۔ اسکی دو وجوہات بنتی ہیں۔ یا تو یہ سی آئی اے کے کور ایجنٹس ایسا کام کرتے ہیں تاکہ امریکی فوج کی موجودگی کو طوالت دی جائے یا پھر یہ مزاحمتی گروپس اپنی قوم کیساتھ غداری کرنے والوں کو سزا کے طور پر بموں سے اڑاتے ہیں۔
دونوں صورتوں میں اس قسم کے افعال نا انصافی و ہٹ دھرمی سے جنم لیتے ہیں۔ اگر بالفرض چین یا روس امریکہ پر قابض ہوجائے اور مزاحمت کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے تو کیا آپ تسلیم کر لیں‌گے؟
 

سویدا

محفلین
انتہا پسندی کو فروغ دینے والا بھی امریکہ ہے اور ان کی پشت پناہی بھی امریکہ ہی کررہا ہے
آپ کریں‌تو فروغ امن اور وہ کریں‌تو دہشت گردی
 

سویدا

محفلین
امریکہ کے نزدیک امن اسی کا نام ہے کہ اس کی بادشاہت قائم ہوجائے
امریکی پالیسیوں‌پر عمل ہو
جن ملکوں میں‌امن تھا اب وہاں‌دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر خانہ جنگی پیدا کردی گئی
ضابطے کے رسمی الفاظ سیاسی تعبیرات امداد کے ریکارڈ تو بیشک پر ہیں‌لیکن زمینی حقائق ان تمام باتوں‌کے برعکس ہے
عراق افغانستان پاکستان ان ممالک میں‌امریکہ نے امداد کی لیکن امن کہاں‌ہے
آپ امدادی پیکج کے ریکارڈ تو پیش کررہے ہیں‌لیکن معصوم انسانی جانوں کی ہلاکت کا کوئی ریکارڈ یا فائل مرتب نہیں‌کیا
جن دہشت گردوں‌کو امریکہ نےپالا پوسا پشت پناہی کی اور آج بھی کررہا ہے ان کے خاتمے کے نام پر معصوم عوام کو ہلاکت اور تباہی کے دہانے پر پہنچادیا
اب طالبان ہو یا القاعدہ یا بلیک واٹر سب ظاہری نام ہے اخباری اور میڈیائی بیانات ہیں‌
 

ظفری

لائبریرین
اس قسم کے تبصرے اور کوسنے کسی بھی قوم کی اخلاقی ، معاشی اور اجتماعی زندگی کی بدحالی کا عکس ہوتے ہیں ۔ کچھ نئے اراکین نے پھر سے وہی پرانے کوسنے اور اعتراضات آنسوؤں میں پرو پرو کر پھر یہاں پوسٹ کردینے شروع کردیئے ہیں ۔ جن کا اس سے پہلے بھی جواب دیا جاچکا ہے ۔ وہ اراکین تو اپنا بوریا بسترا سمیٹ کر روپوش ہوگئے ہیں جنہوں نے یہ رونا رویا تھا ۔ مگر اب دوبارہ وہی پرانا راگ الاپنا شروع ہوگیا ہے ۔ حالانکہ ساجد بھائی نے کہا بھی تھا کوئی دہائی اور واویلا مچانے سے پہلے پرانے ٹاپکس پر جا کر مختلف موضوعات پر جاکر سب کے تبصرے پڑھ لیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ یہ رونے اور کوسنے کا وقت نہیں بلکہ اپنی اصلاح کا وقت ہے ۔ ایک پرانی پوسٹ دوبارہ یہاں پیش کردیتا ہوں ۔ تاکہ پرانی کہانی دھرانے سے بچا جائے اور کسی مثبت حکمتِ عملی کی طرف بڑھا جائے ۔

( گذشتہ سے پیوستہ )
اس وقت مسلمان کسی قسم کی مزاحمت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ اب اگر طاقت نہیں ہے تو کوشش کی جائے کہ تصادم کی فضا نہ پیدا ہو ۔ آپ حالات میں خرابی پیدا نہ ہونے دیں ۔ آپ ہر قیمت پر امن خریدیں ۔ تاکہ اپنے اندر طاقت اور قوت پیدا کرسکیں ۔ بصورتِ دیگر یہ تو ایسا ہوگا کہ جرم ِ ضیعفی کی سزا مرگِ مفاجات ۔ اگر طاقت نہیں ہے تو پھر آپ خودکشی کریں گے ۔
اس وقت امریکہ سپر پاور ہے اور سپر پاورز ظاہر ہے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیئے نکلیں گے ۔ اپنی برتری کو قائم رکھنے کے لیئے جہاں ان کو ذرائع اور وسائل میسر آئیں گے وہ ان ذرائع اور وسائل تک رسائی حاصل کریں گے ۔ مستقبل میں ان کے مقابلے میں کوئی طاقت اگر سامنے آسکتی ہے تو اس کا راستہ روکنے کے لیئے اقدامات کریں گے ۔ دنیا میں ‌کوئی بین الاقوامی قوت کسی اخلاقی اصول کی پابند نہیں ہوتی ۔ یہ دنیا میں تمام سپر پاور کا طریقہ رہا ہے ۔ یعنی جب دنیا میں کسی قوم کو کسی بڑے پیمانے پر طاقت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ اسی قسم کے رویئے اختیار کرتی ہے ۔ چلیں اپنے ملک کو ہی لے لیں کہ جب یہاں کسی کو طاقت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ کیا کرتا ہے ۔ ؟ اخلاقی حدود کی پابندی کرتا ہے ۔ ؟ یہ دیکھتا ہے کہ دستور میں کیا لکھا ہوا ہے۔ ؟ کیا یہ دیکھتا ہے کہ قانون میں کیا لکھا ہے ۔ ؟ وہ صرف اپنی طاقت کا استعمال کرتا ہے ۔ اور اس وقت یہی حیثیت عالمگیر طور پر امریکہ کو حاصل ہے ۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال اور مختلف زاویوں سے انفرادی ، ذاتی اور احمقانہ نظریات کی بھرمار سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میری قوم کی غلط رہنمائی کی جا رہی ہے ۔ اس کو ایسی آگ میں جھونکا جا رہا ہے جس سے بچ کر نکلنے کے کوئی امکانات نہیں ‌ہیں ۔ اس وقت اس قوم کو کسی قسم کی رہنمائی دی جارہی ہے ۔ یہی کہ ایک طوفان ہے جو امنڈا چلا آرہا ہے اس کے مقابلے میں جاؤ اور اپنے آپ کو فنا کردو ۔ اس وقت ہماری یہ ضرورت ہے کہ ہم اپنی تعمیر کریں ۔ امن کا وقفہ حاصل کریں جن جگہوں پر ہمارے ساتھ زیادتی ہورہی ہے ۔ وہاں صبر سے کام لیں اور یہ کوشش کریں کہ جو چیز ممکن ہے وہ حاصل کرلیں ۔ دیکھیں انصاف دنیا میں صرف طاقت کے ذریعے ہی حاصل ہوتا ہے ۔ البتہ آپ کے لیئے کچھ امکانات بھی ہوتے ہیں ۔ تو ممکن کے حصول کے لیئے آپ اگر تیار ہوجائیں تو آپ کو امن میسر آجائے گا اور امن میسر آجائے تو پھر اپنی پوری قوت جو آپ ان کاموں میں صرف کررہے ہیں وہ اپنی تعمیر میں صرف کریں گے ۔ جب آپ اپنی تعمیر کرکے اس پوزیشن میں آجائیں گے ۔ کہ آپ دنیا کی کسی بڑی طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں گے تو پھر انصاف حاصل کر لیجیئے گا ۔ انصاف دنیا میں کسی نے ایسے کبھی نہیں دیا ہے ۔ اور میں عرض کرتا ہوں کہ جب مسلمان سپر پاور تھے ۔ تو ان سے بھی انصاف حاصل کرنے کے لیئے یہی کچھ کرنا پڑتا تھا ۔ اس قسم کی یہ رہنمائی ایک خاص طرح کی خطابت ہے جو مخصوص لوگوں نے اختیار کی ہوئی ہے ۔

دنیا میں چونکہ امریکہ کی حکومت قائم ہے اس لیئے جس جس جگہ ان کے کوئی مادی مفادات وابستہ ہیں ، یا ایسے وسائل ہیں جو ان کی حکومت کی بقاء میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں وہ اس پر ضرور قبضہ کرنا چاہیں گے ۔ اور وہ روٹس ، جہاں سے وہ چل کر اپنے ان ہدف تک پہنچ سکتے ہیں ۔ ان سب پر وہ اپنا قبضہ کرنا چاہیں گے اور جو کچھ ان کے لیئے ممکن ہوسکے گا وہ کریں گے ۔ وہ اپنی برتری اور تفوع کو برقرار رکھنا چاہیں گے ۔ کیونکہ اس کے بغیر دنیا کی چھوٹی اقوام بھی بعض اوقات اٹھ کھڑی ہوتیں ہیں اور مسائل پیدا کردیتیں ہیں ۔ اور مستقبل میں اگر کوئی طاقت ابھر رہی ہے تو وہ اس کا بھی گھیراؤ کریں گے ۔ اور تاریخ میں یہی سب کچھ ہر سپر پاور نے کیا ہے ۔ رومنوں نے بھی یہی کیا ، ایرانیوں نے بھی یہی کیا ، ہم مسلمانوں کو طاقت حاصل ہوئی تو ہم نے بھی یہی کچھ کیا ، برطانیہ عظمی نے بھی یہی کیا اور اب امریکہ بھی یہی کچھ کررہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آپ اس وقت کیا کریں گے ۔ ؟ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں امن کے سوا ہماری کیا ضرورت ہوسکتی ہے ۔ !

مزاحمتوں کی بات چلی ہے تو میں آپ کو بتاؤں کہ پچھلے دو سو سالوں میں مزاحمت کی کون سی تحریکیں کامیاب ہوئیں ہیں ۔ ؟ مسلمانوں میں جو مزاحمتوں کی جو تحریکیں اٹھیں ۔ اس میں آپ نے جہاد بھی کیا ، آپ کے بڑے صالحین جہاد کرنے کے لیئے اٹھے ۔ تاریخ پر ایک نظر ڈال کر دیکھئے کہ کہاں کامیابی ہوئی ۔ اصل میں دنیا کے اندر میدان جنگ میں کامیابی کی اپنی ایک سائنس ہے ۔ اور اسی کے مطابق کامیابی ہوگی ۔ ٹیپو سلطان کو کامیابی ہوئی ، بخت خان کو جنگِ آزادی میں کامیابی ہوئی ۔ ؟ سید احمد شہید کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ مہدی سوڈانی کو کامیابی ہوئی ۔ انور پاشا کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ امام شامل کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ ملا عمر کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ صدام حیسن کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ کارگل میں آپ کو کامیابی ہوئی ۔ ؟ جنگِ رمضان میں مصر کو کامیابی ہوئی ۔؟
آج آپ کا مقابلہ جن لوگوں سے ہے ذرا ان سے اپنی نسبت اور تناسب کا موازانہ تو کجیئے ۔ صفر اور لاکھ ہے ۔ ہے کیا آپ کے پاس ۔ ؟ نہ آپ کے پاس ٹیکنالوجی ہے ، نہ آپ کے پاس علوم ہے ، نہ آپ کے پاس کوئی پس منظر ہے ، نہ آپ کی اقتصادی حالت اس قابل ہے ۔ جنگ کیا کوئی کھیل ہے کہ کوئی قوم آج جنگ کا فیصلہ کر لے ۔ ہمارے پاس آج رہنمائی اور جنگ کا کیا طریقہ ہے کہ آپ یہاں ایک بم چلا دیں ، وہاں ایک خودکش حملہ کردیں ، معصوم لوگوں کے پرخچے اڑادیں ۔ گھر جاتی ہوئی ، راہ چلتی ہوئی عورتوں کو قتل کردیں ۔ یہ تو ایک بدترین ظلم ہے ۔ آپ کو جہاد کرنا ہے تو اس کے لیئے تو آپ کو طاقت چاہیئے ۔ وہ ہوگی تو ہوگا ، ورنہ نہیں ہوگا ۔ اس وقت ہمیں اپنے لیئے امن کا وقفہ حاصل کرنا ہے ۔ جس کے دوران ہم اپنی ارسرِنو تعمیر کرسکیں ۔ قومیں مہینوں یا سالوں میں نہیں بن جاتیں ۔ اس کے لیئے صدی بھی لگ سکتی ہے ۔ پانچ سو سال قبل جب ہمارا زوال شروع ہوا تھا اگر یہی حکمتِ عملی اس وقت اختیار کر لی جاتی تو اج صورتحال قدرے مختلف ہوتی ۔ جب تک ہمیں امن کا زمانہ میسر نہیں آئے گا ہم کبھی بھی اپنی تعمیر اور ترقی کی راہ پا نہیں سکتے ۔ لہذا کسی کی طاقت اور ظلم کا رونا رونے کے بجائے ، ہمیں اپنی کوتاہیوں ، کمزوریوں کا ازالہ کرنا پڑے گا ۔ ورنہ آج کوئی ہمارے سر پر مسلط ہے ۔ کل کوئی اور آجائے گا کیونکہ ایک بھٹکی اور انتشار میں گھری قوم کی اپنی کوئی منزل نہیں ہوتی ۔

اپنی کوتاہیوں ، کمزوریوں ، نااہلیوں اور جہالت پر پردہ ڈال کر کسی کو عورتوں جیسے کوسنے دینے کے بجائے ہمیں چاہیئے کہ ہم پہلے اپنی اصلاح کریں ۔ ہم اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کریں جو کسی قوم کو عزت اور عظمت سے جینے میں معاون ہوتی ہے ۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو کوئی بات نہیں لگے رہیئے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر امام مہدی اور حضرت عیسی ٌ کا انتظار کرتے رہیئے ۔
 

arifkarim

معطل
اس وقت مسلمان کسی قسم کی مزاحمت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ اب اگر طاقت نہیں ہے تو کوشش کی جائے کہ تصادم کی فضا نہ پیدا ہو ۔ آپ حالات میں خرابی پیدا نہ ہونے دیں ۔ آپ ہر قیمت پر امن خریدیں ۔ تاکہ اپنے اندر طاقت اور قوت پیدا کرسکیں ۔ بصورتِ دیگر یہ تو ایسا ہوگا کہ جرم ِ ضیعفی کی سزا مرگِ مفاجات ۔ اگر طاقت نہیں ہے تو پھر آپ خودکشی کریں گے ۔
امریکہ جن وسائل سے دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔ اسمیں زیادہ تر مسلمان ممالک پر ناجائز قبضوں سے حاصل ہونے والے قدرتی وسائل ہیں۔ گو کہ فواد صاحب کے گرافس اس بات کو اسپورٹ نہیں‌کرتے۔ بہرحال حقیقت کبھی بھی عوام کے سامنے نہیں‌لائی جاتی۔ جو لوگ امریکہ کی دجالی قوتوں سے مفاہمت کی باتیں‌کرتے ہیں۔ وہ خود اپنی ہار کا اقرار کر چکے ہیں!
 

dxbgraphics

محفلین
"ہم نے اپنی افواج صدام حسين کی حکومت ختم کرنے کے ليے عراق بجھوائ تھيں اور آپ نے يہ مشن مکمل کر ليا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

پہلے تو ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے کہ عراق میں خطرناک کیمیائی ہتھیار ہیں اب اچانک ٹائٹل چینج ہوگیا۔ کیا کھلی منافقت نہیں ہے :laughing:
 

arifkarim

معطل
پہلے تو ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے کہ عراق میں خطرناک کیمیائی ہتھیار ہیں اب اچانک ٹائٹل چینج ہوگیا۔ کیا کھلی منافقت نہیں ہے :laughing:

نہیں بھائی۔ یہ انکی معمول کی سیاست ہے۔ یہ لوگ کویت، افغانستان، عراق، پاکستان، بوسنیا اور یمن میں ایسی ہی حرکتیں کر رہے ہیں۔ :)
 

ساجد

محفلین
عراق ميں امريکی افواج کی موجودگی کے حوالے سے آپ نے جو سوال کيا ہے اس ضمن ميں امريکی حکومت نے متعدد بار يہ واضح کيا ہے کہ امريکی افواج کا عراق ميں غير معينہ مدت تک رہنے کا کوئ ارادہ نہيں ہے۔ امريکی اور عراقی حکومتوں کے مابين امريکی برگيڈز کی عراق سے واپسی کا ٹائم ٹيبل طے پا چکا ہے۔ اگست 31 2010 تک امريکی افواج کا عراق ميں "کامبيٹ مشن" ختم ہو جائے گا اور اس کے بعد يہ ذمہ داری عراق کی سيکورٹی فورسز کے حوالے کر دی جائے گی۔ اس تاريخ کے بعد امريکی افواج کی عراق ميں موجودگی کے تين مقاصد ہوں گے جس ميں اولين ترجيح عراقی سيکورٹی فورسز کو تربيت اور سازوسامان کی فراہمی کو دی جائے گی۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف اہم مشنز ميں معاونت اور اہم سول اور فوجی ٹارگٹس کو تحفظ فراہم کيا جائے گا۔ صدر اوبامہ "اسٹيٹس آف فورسز" معاہدے کے تحت سال 2011 کے اختتام تک تمام امريکی افواج کی عراق سے واپسی کے عزم پر قائم ہيں۔

اس ضمن ميں حال ہی ميں امريکی فوجيوں سے اپنے خطاب ميں انھوں کہا کہ

"ميں يہ بالکل واضح کر دينا چاہتا ہوں کہ اگست 31 2010 تک ہمارا عراق ميں کامبيٹ مشن ختم ہو جائے گا"۔

"ہم نے اپنی افواج صدام حسين کی حکومت ختم کرنے کے ليے عراق بجھوائ تھيں اور آپ نے يہ مشن مکمل کر ليا ہے۔ ہم نے اپنی افواج کوعراق ميں رکھنے کا فيصلہ ايک خود مختار حکومت کے قيام کے مقصد کو حاصل کرنے کے ليئے کيا۔ اور آپ نے يہ مقصد حاصل کر ليا ہے۔ ہم عراقی عوام کو ايک سخت جدوجہد کے بعد ايک بہتر زندگی گزارنے کا موقع فراہم کر کے جائيں گے، اور يہ آپ لوگوں کی کاميابی ہے۔ آپ نے اس امکان کا موقع فراہم کيا ہے"۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے​
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امریکہ جن وسائل سے دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔ اسمیں زیادہ تر مسلمان ممالک پر ناجائز قبضوں سے حاصل ہونے والے قدرتی وسائل ہیں۔

امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے عمومی تاثر اور نظريات کی بنياد پر يک طرفہ سوچ کا اظہار يقينی طور پر سہل ہے۔ اگر امريکہ کی عراق اور افغانستان ميں فوجی مداخلت وسائل اور اہم کاروباری روٹس پر قبضے کی پاليسی کا نتيجہ ہے تو سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ان "نئے خزانوں" کے "مثبت" اثرات کيوں منظرعام پر نہيں آئے؟

کيا آپ ديانت داری کے ساتھ يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ آج امريکہ افغانستان اور عراق سے لوٹے ہوئے وسائل کی بدولت معاشی ترقی کے عروج پر ہے؟

حقيقت يہ ہے کہ آج کے دور ميں کسی بھی ملک کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ دور دراز کے علاقوں کے وسائل پر زبردستی قبضہ کر کے ترقی کے زينے طے کرے۔ يہ سوچ اور پاليسی تاريخی ادوار ميں يقينی طور پر اہم رہی ہے ليکن موجودہ دور ميں ہر ملک کو معاشرتی، سياسی اور معاشی فرنٹ پر جنگ کی قيمت چکانا پڑتی ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ سميت کسی بھی ملک کے ليے جنگ کا آپشن پسنديدہ نہيں ہوتا۔

صدر اوبامہ نے امريکی فوجيوں سے اپنے حاليہ خطاب ميں جنگ کے حوالے سے درپيش چيلنجز اور منفی اثرات کے حوالے سے ہی اظہار خيال کيا تھا۔

" میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فوجی طاقت کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہیئے اور ہمیشہ یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارے افعال کے طویل المدت نتائج کیا ہوں گے۔ ہمیں جنگ لڑتے ہوئے اب آٹھ برس ہو چکے ہیں، اور ہمیں انسانی زندگی اور وسائل کی شکل میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے ۔ ہمیں عظیم کساد بازاری کے بعد پہلی بار جس بد ترین اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امریکی عوام کی توجہ ہماری اپنی معیشت کی تعمیرِ نو پر، اور ملک میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے پر ہے ۔

ہم ان جنگوں پر اٹھنے والے اخراجات کو آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتے۔

جب میں نے اپنا منصب سنبھالا تو عراق اور افغانستان کی جنگوں میں اٹھنے والے اخراجات ایک کھرب ڈالر تک پہنچ چکے تھے ۔ افغانستان میں ہمارے نئے لائحہ عمل سے امکان ہے اس سال فوج پر ہمارے لگ بھگ 30 ارب ڈالر خرچ ہوں گے

اگر میں یہ نہ سمجھتا کہ افغانستان میں امریکہ کی سلامتی اور امریکہ کے لوگوں کی حفاظت داؤ پر لگی ہوئی ہے، تو میں بخوشی اپنے ہر فوجی کی کل ہی واپسی کا حکم دے دیتا"

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

arifkarim

معطل
ہمیں عظیم کساد بازاری کے بعد پہلی بار جس بد ترین اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امریکی عوام کی توجہ ہماری اپنی معیشت کی تعمیرِ نو پر، اور ملک میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے پر ہے
جبھی تیس ہزار فوجیوں کو روز گار کیلئے افغانستان روانہ کر دیا، اوبامہ جی نے۔ :)
 

dxbgraphics

محفلین
امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے عمومی تاثر اور نظريات کی بنياد پر يک طرفہ سوچ کا اظہار يقينی طور پر سہل ہے
خود امریکہ بغیر اپنی عوام کی مرضی کے فری میسنری کا آلہ کار بنتے ہوئے دنیا میں قتل غارت کر رہا ہے وہ تو کسی بھی روشن خیال کو نظر نہیں‌آتا۔
آپ کی یک طرف پالیسی کے تحت ہمارے بے غیرت حکمرانوں کو بھی ننگا ہونے پڑے گا ایئر پورٹ میں یہ بھی کسی روشن خیال کو نظر نہیں آتا۔
پاکستان کی بجائے بھارت سے کاروباری منصوبے کیئے جارہے ہیں یہ بھی کسی روشن خیال کو نظر نہیں آئے گا۔
پاکستان صف اول کا اتحادی ہونے کے باوجود اس کی عوام کو برہنہ سیکیورٹی پراسس سے گذرنا یہ منافقت بھی کسی روشن خیال کو نظر نہیں آئے گی۔
کہنے کو بہت کچھ ہے ۔۔۔۔ بس وقت کی کمی ہے

کيا آپ ديانت داری کے ساتھ يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ آج امريکہ افغانستان اور عراق سے لوٹے ہوئے وسائل کی بدولت معاشی ترقی کے عروج پر ہے؟

امریکی بینک تو دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ بزنس کمیونٹی ٹیکسز سے تنگ آچکی ہے۔ تو پھر جنگی بجٹ یقینا اسی وسائل کی مد سے پورا کیا جارہا ہے۔ اب جب کہ امریکہ کی معاشی ترقی نیچے آنی شروع ہوگئی تو کساد بازاری اور جنگ کے ذریعے دنیا میں بدامنی جنگ اور دہشت گردی کے نام پر من مانی کرتا پھر رہا ہے۔
اگرامریکہ کی معاشی ترقی عروج پر نہیں ہے لیکن 2001 سے پہلے پاکستان معاشی ترقی کی طرف گامزن تھا جو کہ امریکہ کے ناپاک قدم پڑنے سے دن بدن کمزور ہورہی ہے۔

ليکن موجودہ دور ميں ہر ملک کو معاشرتی، سياسی اور معاشی فرنٹ پر جنگ کی قيمت چکانا پڑتی ہے
لیکن امریکہ کی جنگ کی قیمت صرف اور صرف پاکستان کو چکانا پڑ رہی ہے۔ ہماری معیشت امریکہ کی جنگ کی قیمت میں تباہ و برباد ہوگئی ہے۔

صدر اوبامہ نے امريکی فوجيوں سے اپنے حاليہ خطاب ميں جنگ کے حوالے سے درپيش چيلنجز اور منفی اثرات کے حوالے سے ہی اظہار خيال کيا تھا
منافقت ہے ۔ اگر نفی اثرات کا احساس ہوتا تو تیس ہزار مزید فوج بھیجنے کی بجائے باقی کو بلوالیتا ۔

ہمیں انسانی زندگی اور وسائل کی شکل میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے
جو کہ آنے کا اصل مقصد ہے۔ صرف اور صرف پاکستانیوں کی اور افغانیوں کی زندگی

اگر میں یہ نہ سمجھتا کہ افغانستان میں امریکہ کی سلامتی اور امریکہ کے لوگوں کی حفاظت داؤ پر لگی ہوئی ہے، تو میں بخوشی اپنے ہر فوجی کی کل ہی واپسی کا حکم دے دیتا
جب اپنے ملک کی سیکیورٹی اتنی ٹائٹ کر دی ہے تو اب کیا بچا ہے نکلو عراق و افغانستان سے اپنے فوجیوں کو بے کار مرنے سے بچاو۔ پھر کہیں بھی رہنے کا جواز ہی نہیں بنتا ۔ اپنی سرحدوں اور اندر کو مضبوط بناو باہر سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔
لیکن پھر فری میسنز کے ٹاسک کیسے پورے ہونگے۔ یہود و صیہون کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے ۔ اصل مقصد اسلام دشمنی ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

آپ کی یک طرف پالیسی کے تحت ہمارے بے غیرت حکمرانوں کو بھی ننگا ہونے پڑے گا ایئر پورٹ میں یہ بھی کسی روشن خیال کو نظر نہیں آتا۔
پاکستان صف اول کا اتحادی ہونے کے باوجود اس کی عوام کو برہنہ سیکیورٹی پراسس سے گذرنا یہ منافقت بھی کسی روشن خیال کو نظر نہیں آئے گی۔


آپ جن جذبات کا اظہار کر رہے ہيں ان کی بنياد مبہم اور غلط اخباری شہ سرخياں اور بعض افراد کی جانب سے ميڈيا پر کيے جانے والے يک طرفہ تبصرے ہيں۔

ٹی – ايس – اے نے ائرپورٹ سيکورٹی کے حوالے سے جو اصل بيان جاری کيا تھا وہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.tsa.gov/press/happenings/010310_statement.shtm

يہ بالکل واضح ہے کہ امريکی حکام کا مقصد اور ان کا ارادہ تمام مسافروں کے تحفظ کو يقينی بنانا ہے اس بات سے قطع نظر کہ ان کا مذہب يا شہريت کيا ہے، اور اس ميں پاکستانی مسافر بھی شامل ہيں۔ ميں يہ نشاندہی بھی کرنا چاہوں گا کہ اس بيان ميں پاکستان سميت کسی ملک کا نام شامل نہيں ہے۔ اصل ايشو تمام ممکنہ وسائل اور اينٹيلی جينس کو بروئے کار لا کر جرم کو روکنا ہے نا کہ کسی مخصوص ملک کے شہريوں کو نشانہ بنانا۔ سيکورٹی کے حوالے سے نئے قواعد وضوابط کا مقصد دہشت گردی کے اس ممکنہ خطرے سے نبرد آزما ہونا ہے جو محض خام خيالی نہيں بلکہ ايک واضح حقيقت ہے جسے نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔

يہ نقطہ قابل توجہ ہے کہ جب کوئ دہشت گرد اپنے مذموم ارادے کی تکميل کے لیے جہاز ميں سوار ہوتا ہے تو وہ مذہب يا شہريت کی بنياد پر اپنے ٹارگٹ کا انتخاب نہيں کرتا۔ اس تناظر ميں دہشت گردی کی کاروائ کو روکنے کے ليے جو بھی قواعد وضوابط طے کيے جائيں گے اس کا براہ راست فائدہ جہاز ميں موجود تمام مسافروں کو ہو گا جن ميں پاکستانی اور مسلمان بھی شامل ہوں گے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

سویدا

محفلین
آپ نے فرمایا :
’’آپ جن جذبات کا اظہار کر رہے ہيں ان کی بنياد مبہم اور غلط اخباری شہ سرخياں اور بعض افراد کی جانب سے ميڈيا پر کيے جانے والے يک طرفہ تبصرے ہيں۔‘‘


اخبارات اورالیکٹرونک میڈیا پر جو چودہ ممالک کے نام بتائے گئے وہ کیا تھے پھر ؟

ایک طرف آپ میڈیا کی پھیلائی گئی خود ساختہ ویڈیوز پر مبنی پروپیگنڈوں‌کو اپنے مضبوط دلائل مانتے ہیں‌
دوسری طرف غلط اخباری شہ سرخیاں‌
کیا یہ کھلا تضاد نہیں‌ہے
 

dxbgraphics

محفلین
آپ جن جذبات کا اظہار کر رہے ہيں ان کی بنياد مبہم اور غلط اخباری شہ سرخياں اور بعض افراد کی جانب سے ميڈيا پر کيے جانے والے يک طرفہ تبصرے ہيں۔

ٹی – ايس – اے نے ائرپورٹ سيکورٹی کے حوالے سے جو اصل بيان جاری کيا تھا وہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.tsa.gov/press/happenings/010310_statement.shtm

يہ بالکل واضح ہے کہ امريکی حکام کا مقصد اور ان کا ارادہ تمام مسافروں کے تحفظ کو يقينی بنانا ہے اس بات سے قطع نظر کہ ان کا مذہب يا شہريت کيا ہے، اور اس ميں پاکستانی مسافر بھی شامل ہيں۔ ميں يہ نشاندہی بھی کرنا چاہوں گا کہ اس بيان ميں پاکستان سميت کسی ملک کا نام شامل نہيں ہے۔ اصل ايشو تمام ممکنہ وسائل اور اينٹيلی جينس کو بروئے کار لا کر جرم کو روکنا ہے نا کہ کسی مخصوص ملک کے شہريوں کو نشانہ بنانا۔ سيکورٹی کے حوالے سے نئے قواعد وضوابط کا مقصد دہشت گردی کے اس ممکنہ خطرے سے نبرد آزما ہونا ہے جو محض خام خيالی نہيں بلکہ ايک واضح حقيقت ہے جسے نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔

يہ نقطہ قابل توجہ ہے کہ جب کوئ دہشت گرد اپنے مذموم ارادے کی تکميل کے لیے جہاز ميں سوار ہوتا ہے تو وہ مذہب يا شہريت کی بنياد پر اپنے ٹارگٹ کا انتخاب نہيں کرتا۔ اس تناظر ميں دہشت گردی کی کاروائ کو روکنے کے ليے جو بھی قواعد وضوابط طے کيے جائيں گے اس کا براہ راست فائدہ جہاز ميں موجود تمام مسافروں کو ہو گا جن ميں پاکستانی اور مسلمان بھی شامل ہوں گے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

اگر یہ محظ اخباری شہ سرخیاں ہیں تو چودہ ممالک کی بجائے اس میں تمام فلائٹس سے آنے والے مسافروں کو بھی اس سیکیورٹی پروسیس سے گزرنا پڑتا ۔ اور امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی پاکستان اس کی فہرست میں اول ہے۔
یہ صرف اور صرف منافقت ہے۔
کیوں کہ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے مسافروں کو اتنی حد تک کلیئر کرتے ہیں کہ ان کو جیب سے چابیاں، بیلٹ تک اتار کر سکینر سے گزارا جاتا ہے۔ باوجود اس کے ایسی روش صرف اور صرف فری میسنز کی خواہشات کی تکمیل ہے
 
Top