الوداعی تقریب الف سے اردو ، عین سے عالم

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
الف سے اردو اور عین سے عالم کہیں یا الف سے اردو اور عین سے علم بردار ، دونوں کا مطلب اعجاز عبید ہوتا ہے۔ دنیائے ویب میں اردو شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کون ہے جو الف عین کے مخفف اور مشہور نام سے واقف نہیں۔ اعجاز بھائی نہ صرف اردو محفل کے تاسیسی اراکین میں شامل ہیں بلکہ محفل کے قیام سے لے کر تادمِ تحریر کسی تعطل کے بغیر اس کے ساتھ منسلک چلے آتے ہیں۔ ان بیس سالوں میں آپ نے کئی سطحوں پر اردو کی بے لوث خدمت کی ہے ۔ شعر و ادب کے زمروں میں آپ کی مسلسل سرپرستی اور بے غرض رہنمائی کے باعث آپ کو بابائے محفل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اکثر و بیشتر محفل کی رونق انہی زمروں کے وجہ سے رہی ہے۔ پچیس تیس برس پہلے جب انٹرنیٹ کا انقلاب شروع ہوا اور انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں نے دنیائے ویب میں اپنا مقام بنانے کی تگ و دو شروع کی تو اعجاز عبید اردو کو ڈیجیٹل دنیا میں آگے لانے والوں محسنین میں سے ایک تھے۔ سن ۲۰۰۰ میں اردو یونیکوڈ کی ابتدا کے بعد یاہو اردو گروپ سے لے کر اردو ویب کے قیام تک آپ ڈیجیٹل اردو کی ترویج و ترقی کی ابتدائی سرگرمیوں میں شامل تھے۔ ایک اردو کیبورڈ کی تشکیل بھی آپ کی ان کاوشوں کا مظہر ہے۔
اردو ویب کے قیام کے بعد سے شعر و ادب کے زمروں میں آپ کی ان تھک اور بے غرض کوششیں کسی سے مخفی نہیں۔ گزشتہ بیس سالوں میں اصلاحِ سخن کے زمرے میں آپ کی رہنمائی سے درجنوں شعرا نے براہِ راست اور دنیا بھر میں بے شمار نو آموز شعرا نے بالواسطہ طور پر استفادہ کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ اردو کے پہلے آنلائن جریدے سمت کا اجرا اور (اردو ڈیجیٹل لائبریری کے توسط سے) برقی کتب اور ای بک کی اشاعت اور مفت فراہمی بھی آپ کی شاندار خدمات کا حصہ رہی ہیں۔ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ الف عین اردو شعر و ادب کی دیرینہ روایات اور تہذیب کے روشن چراغوں میں سے ایک چراغ ہیں اور آپ بہت دیر سے بزمِ سخن میں کسی صلے کی تمنا کیے بغیر روشنی پھیلا رہے ہیں۔
میں نے ایک جگہ پہلے بھی لکھا تھا کہ اردو دنیا مردہ پرست دنیا ہے۔ اپنے کسی محسن کے گزرجانے کے بعد ان کے نام کی تقاریب منانا اور خراجِ تحسین پیش کرنا تو عام ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ انہیں ان کی زندگی ہی میں سراہا جائے اور ان کی مساعی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے کام اور ذات کی کماحقہ ستائش کی جائے۔ اردو محفل کے اختتام پر میں تمام شرکائے بزمِ سخن کی توجہ اس طرف دلانا چاہوں گا کہ وہ حسبِ مقدور استادِ محترم الف عین کو خراجِ تحسین پیش کریں۔ بیشک ان کی سرپرستی اور رہنمائی ہم سب کے لیے باعثِ اعزاز رہی ہے۔ اللہ کریم اردو کے اس محسن کو ڈیجیٹل عہد میں ان کی بے لوث خدمات اور بے غرض مساعی کا اجرِ خیر عطا فرمائے۔ انہیں سلامت رکھے ،صحت و تندرستی قائم رکھے اور ان کے وقت اور کوششوں میں برکت عطا فرمائے۔ آمین!

الف عین
 
آخری تدوین:
جناب محترم اعجاز عبید صاحب یا الف عین سے پہلا تعارف دو ہزار پانچ میں ہوا جب میری کسی کاوش پر انہوں نے اظہار خیال کیا تھا ۔ ابتدائی طور پر انہیں اعجاز بھائی کہتا تھا ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ احترام بڑھتا گیا اور بھائی سے والد اور استاد کے مقام تک کب پہنچے علم ہی نہیں ہو سکا ۔ کبھی ہم اردو محفل پر کہانی لکھنے کا کھیل کھیلتے تھے تو انہیں بھی شریک کرتے گو کہ کبھی مزاح کی تخلیق کی کوشش میں وہ ہمارے مقام پر اترے نہیں لیکن پھر بھی ان کا ساتھ ہمیشہ ہمارے لیئے ایک مربی ، شجر سایہ دار اور مجسم احترام اور محبت بھرا ہی رہا ۔ ہندوستان کے رہنے والے ہیں تو بھئی ہمارے دادا کے ملک کے ہوئے (جب ہمارے دادا پیدا ہوئے تب پاکستان بھی ہندوستان ہی تھا تو اس رشتے سے) دوسرے کبھی میں نے نہیں دیکھا کہ انہوں نے کسی بھی موضوع پر پاکستان یا نظریہ پاکستان کی تذلیل ، تضحیک یا ہندوستان پاکستان کی آپس میں تقارن کرنے کی یا ایسا کوئی بیان دینے کی جو دونوں ملکوں کے کسی بھی گروہ کو ناگوار گزرے یا برا محسوس ہو حالانکہ یہ بیماری بہت سے پاکستانیوں اور ہندوستانیوں میں موجود ہے اور بہت بار دیکھا گیا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی جب کہیں ایسی جگہ ہو جو نفوذ والی ہو یا طاقت والی ہو اور اس میں دوسرے ملک کے لوگوں سے تعامل ہو تو کہیں ناں کہیں اپنے ملک کی پخ مارتے ہوئے یا دوسرے کو نیچا کرتے ہوئے یا رادی یا غیر ارادی طور پر ملک مذہب کے حق میں بولتے ہوئے وہ سرخ خط عبور ہو جاتا ہے جو تضحیک کا سبب بنتا ہے یا کم از کم دوسرے کو کسمسانے پر مجبور ضرور کرتا ہے لیکن اس مرض، جرثومے یا آلودگی سے اعجاز عبید صاحب کی شخصیت کو میں نے ہمیشہ پاک ہی پایا ۔ ہند کی تقسیم کا دکھ ایک طرح سے دیکھا جائے تو منسلکہ انسانی المیئے کی وجہ سے ہند و پاک دونوں ملکوں کے اجتماعی شعور کا جیسے حصہ بن چکا ہے اور اس سے بہت سے نظریئے یا جذبات وابستہ ہو چکے ہیں حالانکہ جھوٹے دونوں جانب سے کوئی بھی نہیں ہیں ۔جہاں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ، اجتماعی نقل مکانی اور جسمانی ، ذہنی ، جنسی ، نفسیاتی تشدد کا سامنا ہوا وہیں لاکھوں ہندوؤں اور سکھوں کو بھی اس تقسیم کے دوران ان ہی عوامل کا سامنا کرنا پڑا ۔ بیٹیاں ان کی بھی ویسے ہی بے توقیر ہوئی ہیں جیسے ہماری ہوئی ہیں ۔ اس اجتماعی صدمے سے نکلتے نکلتے پچھتر سال گزر گئے اور ابھی پچھتر اور لگ جائیں گے پھر بھی نہیں نکل پائیں گے جب تک ہم معاف کرنا اور مرہم رکھنا نہیں سیکھیں گے ۔ دشمن دشمن کی بجائے ہمسائے ہمسائے بن کر نہیں رہنا سیکھیں گے ۔ لیکن کیا کیجئے اس کے لئے بڑا دل اور خود احتسابی والا ظرف چاہیئے جو دونوں طرف کے بڑوں چھوٹوں کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا ۔ وہ ظرف جس کی زندہ مثال استاد محترم اعجاز عبید صاحب رہے ہیں اور اسی کی تعلیم دیتے ادب کے ذریعے اب تک اپنے رسالے سمت کے ذریعے فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش میں عمر گزار دی ۔ اگر اردو ویب پر محبتوں کے سفیر کا کوئی تمغہ یا مقام ہوتا تو اس کے بلامقابلہ حق دار صرف اور صرف جناب اعجاز عبید ہی ہوتے -اللہ انہیں اور ان کی رہ نمائی کو ہماری زندگیوں میں ہم سے دور نہ کرے ۔ جزاہ اللہ جزاء حسنا فی الدنیا والآخرۃ ۔
 

جاسمن

لائبریرین
ظہیر بھائی!
اردو محفل سے جاتے ہوئے استادِ محترم کی کاوشوں کو سراہنا اور اپنی عقیدت کا اظہار ایک ایسا فرض تھا کہ جو اردو محفل اور اردو سے محبت رکھنے والوں پہ قرض تھا اور ماشاءاللہ آپ نے بہت احسن طریقے سے ادا کیا۔ اتنے خوبصورت اور جامع انداز سے آپ ہی لکھ سکتے تھے۔
زبردست پہ ڈھیروں زبریں۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
جناب محترم اعجاز عبید صاحب یا الف عین سے پہلا تعارف دو ہزار پانچ میں ہوا جب میری کسی کاوش پر انہوں نے اظہار خیال کیا تھا ۔ ابتدائی طور پر انہیں اعجاز بھائی کہتا تھا ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ احترام بڑھتا گیا اور بھائی سے والد اور استاد کے مقام تک کب پہنچے علم ہی نہیں ہو سکا ۔ کبھی ہم اردو محفل پر کہانی لکھنے کا کھیل کھیلتے تھے تو انہیں بھی شریک کرتے گو کہ کبھی مزاح کی تخلیق کی کوشش میں وہ ہمارے مقام پر اترے نہیں لیکن پھر بھی ان کا ساتھ ہمیشہ ہمارے لیئے ایک مربی ، شجر سایہ دار اور مجسم احترام اور محبت بھرا ہی رہا ۔ ہندوستان کے رہنے والے ہیں تو بھئی ہمارے دادا کے ملک کے ہوئے (جب ہمارے دادا پیدا ہوئے تب پاکستان بھی ہندوستان ہی تھا تو اس رشتے سے) دوسرے کبھی میں نے نہیں دیکھا کہ انہوں نے کسی بھی موضوع پر پاکستان یا نظریہ پاکستان کی تذلیل ، تضحیک یا ہندوستان پاکستان کی آپس میں تقارن کرنے کی یا ایسا کوئی بیان دینے کی جو دونوں ملکوں کے کسی بھی گروہ کو ناگوار گزرے یا برا محسوس ہو حالانکہ یہ بیماری بہت سے پاکستانیوں اور ہندوستانیوں میں موجود ہے اور بہت بار دیکھا گیا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی جب کہیں ایسی جگہ ہو جو نفوذ والی ہو یا طاقت والی ہو اور اس میں دوسرے ملک کے لوگوں سے تعامل ہو تو کہیں ناں کہیں اپنے ملک کی پخ مارتے ہوئے یا دوسرے کو نیچا کرتے ہوئے یا رادی یا غیر ارادی طور پر ملک مذہب کے حق میں بولتے ہوئے وہ سرخ خط عبور ہو جاتا ہے جو تضحیک کا سبب بنتا ہے یا کم از کم دوسرے کو کسمسانے پر مجبور ضرور کرتا ہے لیکن اس مرض، جرثومے یا آلودگی سے اعجاز عبید صاحب کی شخصیت کو میں نے ہمیشہ پاک ہی پایا ۔ ہند کی تقسیم کا دکھ ایک طرح سے دیکھا جائے تو منسلکہ انسانی المیئے کی وجہ سے ہند و پاک دونوں ملکوں کے اجتماعی شعور کا جیسے حصہ بن چکا ہے اور اس سے بہت سے نظریئے یا جذبات وابستہ ہو چکے ہیں حالانکہ جھوٹے دونوں جانب سے کوئی بھی نہیں ہیں ۔جہاں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ، اجتماعی نقل مکانی اور جسمانی ، ذہنی ، جنسی ، نفسیاتی تشدد کا سامنا ہوا وہیں لاکھوں ہندوؤں اور سکھوں کو بھی اس تقسیم کے دوران ان ہی عوامل کا سامنا کرنا پڑا ۔ بیٹیاں ان کی بھی ویسے ہی بے توقیر ہوئی ہیں جیسے ہماری ہوئی ہیں ۔ اس اجتماعی صدمے سے نکلتے نکلتے پچھتر سال گزر گئے اور ابھی پچھتر اور لگ جائیں گے پھر بھی نہیں نکل پائیں گے جب تک ہم معاف کرنا اور مرہم رکھنا نہیں سیکھیں گے ۔ دشمن دشمن کی بجائے ہمسائے ہمسائے بن کر نہیں رہنا سیکھیں گے ۔ لیکن کیا کیجئے اس کے لئے بڑا دل اور خود احتسابی والا ظرف چاہیئے جو دونوں طرف کے بڑوں چھوٹوں کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا ۔ وہ ظرف جس کی زندہ مثال استاد محترم اعجاز عبید صاحب رہے ہیں اور اسی کی تعلیم دیتے ادب کے ذریعے اب تک اپنے رسالے سمت کے ذریعے فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش میں عمر گزار دی ۔ اگر اردو ویب پر محبتوں کے سفیر کا کوئی تمغہ یا مقام ہوتا تو اس کے بلامقابلہ حق دار صرف اور صرف جناب اعجاز عبید ہی ہوتے -اللہ انہیں اور ان کی رہ نمائی کو ہماری زندگیوں میں ہم سے دور نہ کرے ۔ جزاہ اللہ جزاء حسنا فی الدنیا والآخرۃ ۔
ہماری محبت ، عقیدت اور دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ آپ نے بہت اچھا لکھا۔
 

جاسمن

لائبریرین
اللہ پاک ہمارے محترم استاد کو کامل ایمان، کامل صحت، بے شمار خوشیوں اور آسانیوں والی لمبی حیاتی دے۔ انھیں اور ان کے خانوادے کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ کوئی دکھ، کوئی آزمائش ان کی زندگی میں نہ آئے۔ آمین!
ثم آمین!
 
الف سے اردو اور عین سے عالم کہیں یا الف سے اردو اور عین سے علم بردار ، دونوں کا مطلب اعجاز عبید ہوتا ہے۔ دنیائے ویب میں اردو شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کون ہے جو الف عین کے مخفف اور مشہور نام سے واقف نہیں۔ اعجاز بھائی نہ صرف اردو محفل کے تاسیسی اراکین میں شامل ہیں بلکہ محفل کے قیام سے لے کر تادمِ تحریر کسی تعطل کے بغیر اس کے ساتھ منسلک چلے آتے ہیں۔ ان بیس سالوں میں آپ نے کئی سطحوں پر اردو کی بے لوث خدمت کی ہے ۔ شعر و ادب کے زمروں میں آپ کی مسلسل سرپرستی اور بے غرض رہنمائی کے باعث آپ کو بابائے محفل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اکثر و بیشتر محفل کی رونق انہی زمروں کے وجہ سے رہی ہے۔ پچیس تیس برس پہلے جب انٹرنیٹ کا انقلاب شروع ہوا اور انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں نے دنیائے ویب میں اپنا مقام بنانے کی تگ و دو شروع کی تو اعجاز عبید اردو کو ڈیجیٹل دنیا میں آگے لانے والوں محسنین میں سے ایک تھے۔ سن ۲۰۰۰ میں اردو یونیکوڈ کی ابتدا کے بعد یاہو اردو گروپ سے لے کر اردو ویب کے قیام تک آپ ڈیجیٹل اردو کی ترویج و ترقی کی ابتدائی سرگرمیوں میں شامل تھے۔ ایک اردو کیبورڈ کی تشکیل بھی آپ کی ان کاوشوں کا مظہر ہے۔
اردو ویب کے قیام کے بعد سے شعر و ادب کے زمروں میں آپ کی ان تھک اور بے غرض کوششیں کسی سے مخفی نہیں۔ گزشتہ بیس سالوں میں اصلاحِ سخن کے زمرے میں آپ کی رہنمائی سے درجنوں شعرا نے براہِ راست اور دنیا بھر میں بے شمار نو آموز شعرا نے بالواسطہ طور پر استفادہ کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ اردو کے پہلے آنلائن جریدے سمت کا اجرا اور (اردو ڈیجیٹل لائبریری کے توسط سے) برقی کتب اور ای بک کی اشاعت اور مفت فراہمی بھی آپ کی شاندار خدمات کا حصہ رہی ہیں۔ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ الف عین اردو شعر و ادب کی دیرینہ روایات اور تہذیب کے روشن چراغوں میں سے ایک چراغ ہیں اور آپ بہت دیر سے بزمِ سخن میں کسی صلے کی تمنا کیے بغیر روشنی پھیلا رہے ہیں۔
میں نے ایک جگہ پہلے بھی لکھا تھا کہ اردو دنیا مردہ پرست دنیا ہے۔ اپنے کسی محسن کے گزرجانے کے بعد ان کے نام کی تقاریب منانا اور خراجِ تحسین پیش کرنا تو عام ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ انہیں ان کی زندگی ہی میں سراہا جائے اور ان کی مساعی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے کام اور ذات کی کماحقہ ستائش کی جائے۔ اردو محفل کے اختتام پر میں تمام شرکائے بزمِ سخن کی توجہ اس طرف دلانا چاہوں گا کہ وہ حسبِ مقدور استادِ محترم الف عین کو خراجِ تحسین پیش کریں۔ بیشک ان کی سرپرستی اور رہنمائی ہم سب کے لیے باعثِ اعزاز رہی ہے۔ اللہ کریم اردو کے اس محسن کو ڈیجیٹل عہد میں ان کی بے لوث خدمات اور بے غرض مساعی کا اجرِ خیر عطا فرمائے۔ انہیں سلامت رکھے ،صحت و تندرستی قائم رکھے اور ان کے وقت اور کوششوں میں برکت عطا فرمائے۔ آمین!

الف عین
آمین ثم آمین!!!
الف عین صاحب میرے لیے اور مجھ جیسے بہت سوں کے لیے father-figure ہیں۔ بلکہ گزرے مہ و سال میں جو کہ تقریبا 10 سال کا عرصہ تھا، میں نے شاید ان کو مندرجہ بالا طریقے سے کبھی مخاطب بھی نہ کیا۔ میں محفل میں آئی تھی تو محمد بلال اعظم بھائی نے باقی سب کا تھوڑا بہت انٹروڈکشن کروایا کہ کون کیسا ہے مگر ان کے لیے انہوں نے بس یہی کہا کہ یہ ہمارے "بابا جانی" ہیں!! مجھے پہلی بار مختلف سا احساس ہوا کہ کبھی اپنے والد کے سوا کسی کو یوں مخاطب نہ کیا تھا مگر۔۔۔جب پہلی بار کہا تو اس کے بعد کبھی کوئی اور طرز تخاطب سجھائی نہ دیا۔
میں نے آغاز میں کچھ شعری کاوشیں بھی کیں جن پہ ہمیشہ بہترین اصلاح بھی کی اور حوصلہ افزائی بھی۔ مگر شاید میں ہی سنجیدہ شعراء یا ادباءمیں سے نہیں بننا چاہتی تھی جن کی زندگیاں اس کام میں وقف ہو جاتیں۔ میں اس وقت بیس برس کی تھی اور میں زندگی میں بہت کچھ ٹرائی کر کے دیکھنا چاہتی تھی کہ وٹ ورکس فار می! شاعری کے لیے سنجیدگی سے چند ایک بار قلم بھی تب اٹھایا جب چند ایک ایسے واقعات سے واسطہ پڑا جن پہ میری ترجمانی کرنے والا کوئی دوجا شاعر نہ تھا۔ ایک مثال حاضر ہے! بابا جانی کو ہمیشہ سب کے لیے وقت نکالتے اور بہترین انداز میں اصلاح فرماتے ہوئے ہی دیکھا۔
اس کے علاوہ بابا جانی جب بھی محفل پہ آتے کسی نہ کسی طرح میری کسی بات پہ کسی کام پہ دست شفقت ہی رکھتے اور چلے جاتے۔ مجھے ان کی توجہ ملنے سے اپنا آپ محفل میں ہمیشہ خوش نصیب لگا اور حیرت ہوئی کہ مریم تم کون ہو۔ یہ تو دیکھ خدا نے تجھ کو لوگ دیے ہیں کیسے کیسے۔۔۔۔ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں!! ! جب میں کافی عرصے کے لیے محفل سے غائب تھی تب بھی باباجانی نے ایک مراسلے میں کچھ اور بچیوں سمیت مجھے ٹیگ کر کے لکھا کہ اگر کسی وجہ سے تنگ ہو رہی ہوں اور اس لیے محفل پر نہیں آ رہی تو واپس آ جاؤں اور وہ خود ہی بڑا ہونے کی حیثیت سے تنگ کرنے والوں کے کان کھینچ لیں گے۔ ۔میں نے واپس آ کر بابا جانی کے اس مراسلے کا اقتباس لے کر کئی کچھ ہی لکھا تھا مگر وہ لڑی شاید ان کے آنے سے پہلے ہی اڑ گئی۔
میرے بابا جانی کو اللہ تعالی یوں پھولوں کی طرح رکھے کہ ان سے دنیا کے غم اور زمانے کی سختیاں اٹھا لے۔ وہ جہاں بھی جائیں ان پہ عزت و محبت نچھاور ہو، ان کا سر بلند رہے، ان کی صحت اور ایمان سلامت رہیں اور وہ زندگی میں جو بھی کرنا چاہتے تھے اللہ اس سے بھی بڑھ کر اس راہ میں ان سے کام لے۔۔۔ایسا کام کہ انہیں سیٹسفیکشن ہو۔اللہ تعالی ان کے راستے کی سبھی رکاوٹوں کو ختم کریں اور ان کی زندگی کی ہر منفی انرجی کو مثبت انرجی میں بدل دیں۔ باباجانی کے گھر والوں اور سبھی روحانی شاگردوں/بچوں پر بھی اللہ تعالی اپنی رحمت کا سایہ رکھیں ۔ آمین ثم آمین۔ بابا جانی!میں ان بچوں میں سے ہوں جو جب بڑے ہو رہے تھے ان پر آپ کی شخصیت کا ہر لحاظ سے گہرا اثر پڑا۔ آپ کا بچوں کے لیے اخلاق وکردار، آپ کا اردو کی خدمت کے لیے اضافی وقت نکالنا اور آپ کا ایمان افروز معاملات کو ہمیشہ ترجیح دینا۔۔۔۔ایسے بابا جانی اللہ کرے سب کو ملیں اور تاحیات ان کے سروں پر قائم رہیں۔ اردو محفل کا یہ سفر آپ کے بغیر ادھورا تھا اور زندگی میں ہمیشہ آپ کے لیے دعا گو ہوں اور محفل کے بعد بھی کنکٹڈ رہنا چاہتی ہوں ۔ اللہ تعالی آپ کو سکون، ایمان اور صحت والی زندگی دیں اور آپ کا سایہ رہتی دنیا تک ہمارے سروں پر رکھیں۔ ہمارے پیارے بہت ہی پیارے بابا جانی!
 
آخری تدوین:
پیر
آمین ثم آمین!!!
الف عین صاحب میرے لیے اور مجھ جیسے بہت سوں کے لیے father-figure ہیں۔ بلکہ گزرے مہ و سال میں جو کہ تقریبا 10 سال کا عرصہ تھا، میں نے شاید ان کو مندرجہ بالا طریقے سے کبھی مخاطب بھی نہ کیا۔ میں محفل میں آئی تھی تو محمد بلال اعظم بھائی نے باقی سب کا تھوڑا بہت انٹروڈکشن کروایا کہ کون کیسا ہے مگر ان کے لیے انہوں نے بس یہی کہا کہ یہ ہمارے "بابا جانی" ہیں!! مجھے پہلی بار مختلف سا احساس ہوا کہ کبھی اپنے والد کے سوا کسی کو یوں مخاطب نہ کیا تھا مگر۔۔۔جب پہلی بار کہا تو اس کے بعد کبھی کوئی اور طرز تخاطب سجھائی نہ دیا۔
میں نے آغاز میں کچھ شعری کاوشیں بھی کیں جن پہ ہمیشہ بہترین اصلاح بھی کی اور حوصلہ افزائی بھی۔ مگر شاید میں ہی سنجیدہ شعراء یا ادباءمیں سے نہیں بننا چاہتی تھی جن کی زندگیاں اس کام میں وقف ہو جاتیں۔ میں اس وقت بیس برس کی تھی اور میں زندگی میں بہت کچھ ٹرائی کر کے دیکھنا چاہتی تھی کہ وٹ ورکس فار می! شاعری کے لیے سنجیدگی سے چند ایک بار قلم بھی تب اٹھایا جب چند ایک ایسے واقعات سے واسطہ پڑا جن پہ میری ترجمانی کرنے والا کوئی دوجا شاعر نہ تھا۔ ایک مثال حاضر ہے! بابا جانی کو ہمیشہ سب کے لیے وقت نکالتے اور بہترین انداز میں اصلاح فرماتے ہوئے ہی دیکھا۔
اس کے علاوہ بابا جانی جب بھی محفل پہ آتے کسی نہ کسی طرح میری کسی بات پہ کسی کام پہ دست شفقت ہی رکھتے اور چلے جاتے۔ مجھے ان کی توجہ ملنے سے اپنا آپ محفل میں ہمیشہ خوش نصیب لگا اور حیرت ہوئی کہ مریم تم کون ہو۔ یہ تو دیکھ خدا نے تجھ کو لوگ دیے ہیں کیسے کیسے۔۔۔۔ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں!! ! جب میں کافی عرصے کے لیے محفل سے غائب تھی تب بھی باباجانی نے ایک مراسلے میں کچھ اور بچیوں سمیت مجھے ٹیگ کر کے لکھا کہ اگر کسی وجہ سے تنگ ہو رہی ہوں اور اس لیے محفل پر نہیں آ رہی تو واپس آ جاؤں اور وہ خود ہی بڑا ہونے کی حیثیت سے تنگ کرنے والوں کے کان کھینچ لیں گے۔ ۔میں نے واپس آ کر بابا جانی کے اس مراسلے کا اقتباس لے کر کئی کچھ ہی لکھا تھا مگر وہ لڑی شاید ان کے آنے سے پہلے ہی اڑ گئی۔
میرے بابا جانی کو اللہ تعالی یوں پھولوں کی طرح رکھے کہ ان سے دنیا کے غم اور زمانے کی سختیاں اٹھا لے۔ وہ جہاں بھی جائیں ان پہ عزت و محبت نچھاور ہو، ان کا سر بلند رہے، ان کی صحت اور ایمان سلامت رہیں اور وہ زندگی میں جو بھی کرنا چاہتے تھے اللہ اس سے بھی بڑھ کر اس راہ میں ان سے کام لے۔۔۔ایسا کام کہ انہیں سیٹسفیکشن ہو۔اللہ تعالی ان کے راستے کی سبھی رکاوٹوں کو ختم کریں اور ان کی زندگی کی ہر منفی انرجی کو مثبت انرجی میں بدل دیں۔ باباجانی کے گھر والوں اور سبھی روحانی شاگردوں/بچوں پر بھی اللہ تعالی اپنی رحمت کا سایہ رکھیں ۔ آمین ثم آمین۔ بابا جانی!میں ان بچوں میں سے ہوں جو جب بڑے ہو رہے تھے ان پر آپ کی شخصیت کا ہر لحاظ سے گہرا اثر پڑا۔ آپ کا بچوں کے لیے اخلاق وکردار، آپ کا اردو کی خدمت کے لیے اضافی وقت نکالنا اور آپ کا ایمان افروز معاملات کو ہمیشہ ترجیح دینا۔۔۔۔ایسے بابا جانی اللہ کرے سب کو ملیں اور تاحیات ان کے سروں پر قائم رہیں۔ اردو محفل کا یہ سفر آپ کے بغیر ادھورا تھا اور زندگی میں ہمیشہ آپ کے لیے دعا گو ہوں اور محفل کے بعد بھی کنکٹڈ رہنا چاہتی ہوں ۔ اللہ تعالی آپ کو سکون، ایمان اور صحت والی زندگی دیں اور آپ کا سایہ رہتی دنیا تک ہمارے سروں پر رکھیں۔ ہمارے پیارے بہت ہی پیارے بابا جانی!
لگتا ہے اظہار کے معاملے میں ہم۔لاہوریوں پر رب کریم کا خصوصی کرم و فضل ہے ۔ ورنہ استاد محترم کی برسات میں محفل کا کون سا کونا ہے جو محروم شفقت و محبت رہا ہو ۔ یا پھر شاہد دوسرے ابھی اپنا اپنا میگزین لوڈ کر رہے ہونگے:)
 
پیر

لگتا ہے اظہار کے معاملے میں ہم۔لاہوریوں پر رب کریم کا خصوصی کرم و فضل ہے ۔ ورنہ استاد محترم کی برسات میں محفل کا کون سا کونا ہے جو محروم شفقت و محبت رہا ہو ۔ یا پھر شاہد دوسرے ابھی اپنا اپنا میگزین لوڈ کر رہے ہونگے:)
متفق و پرمزاح برادرم زندہ دلان لاہور!
 

الف عین

لائبریرین
آپ سب نے اپنی محبتوں سے رلا دیا مجھے.... کچھ لکھنے کی حالت ہی نہیں ہو رہی میری۔
دل کی شکل کی اموجی کو محفل "دوستانہ" کہتی ہے، لیکن میں نے اسے دل کی گہرائی سے پیار کی شکل میں استعمال کیا ہے۔
آپ سب کے لیے ڈھیروں دعائیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت سچ لکھا آپ نے۔۔۔بلکہ ایسی جامعیت سے صرف آپ ہی لکھ سکتے تھے۔۔۔ الف عین سر کے ساتھ ہماری دعائیں اور محبت ہمیشہ رہے گی۔ ان کی شفقت اور محبت سے ہر محفلین فیضیاب ہوا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اللہ کریم اردو کے اس محسن کو ڈیجیٹل عہد میں ان کی بے لوث خدمات اور بے غرض مساعی کا اجرِ خیر عطا فرمائے۔ انہیں سلامت رکھے ،صحت و تندرستی قائم رکھے اور ان کے وقت اور کوششوں میں برکت عطا فرمائے۔ آمین!
@الف عین
ظہیر بھائی اللہ تعالیٰ آپکے قلم کو دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اسقدر خوبصور ت
تحریر اُستادِ محترم کی شایانِ شان آپ ہی لکھ سکتے ہیں
ہمارے بہت ہی پیارے اُستادِ محترم
ہماری دعا ہے کہ خداوند عالم آپکو حیاتِ خضر عطا کرے آپکو صحت و سلامتی والی زندگی عطا کرے نظروبد رنجُ غم ہمیشہ دور رہیں
پروردگار
آپکو
اردو محفل اور اردو ادب کی
بے لوث خدمات کے بدلے
اجرِ عظیم عطا فرمائے ! ہمیشہ آپکی شفقت و محبت
ہمارا قیمتی اثاثہ ہے
 

سیما علی

لائبریرین
اگر اردو ویب پر محبتوں کے سفیر کا کوئی تمغہ یا مقام ہوتا تو اس کے بلامقابلہ حق دار صرف اور صرف جناب اعجاز عبید ہی ہوتے -اللہ انہیں اور ان کی رہ نمائی کو ہماری زندگیوں میں ہم سے دور نہ کرے ۔ جزاہ اللہ جزاء حسنا فی الدنیا والآخرۃ
بلا شبہ ایسا ہی ہے
فیصل بھائی ۔
 
Top