الفاظ کے پردے میں اگر تُو نہیں نکلے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
الفاظ کے پردے میں اگر تُو نہیں نکلے
پھر نوک ِ قلم سے کوئی جادو نہیں نکلے

دُھلتا ہے مرے اشکوں سے ہر رات یہ پھر بھی
تکیے سے ترے قرب کی خوشبو نہیں نکلے

منصف تو بڑی بات اگر ڈھونڈ نے جاؤ
اِس شہر ِ ستم گر میں ترازو نہیں نکلے

روئے جو کبھی نیشہء حالات پہ ہم لوگ
اک زہر ٹپک آیا ہے آنسو نہیں نکلے

دشمن مرے بیٹھیں جو حلیفوں کے مقابل
اک فرق بھی دونوں میں سر ِ مُو نہیں نکلے

بے آسرا بیٹھے ر ہے ہم بزم ِ وطن میں
جب تک کہ رہا درد پہ قابو ، نہیں نکلے

لڑنے کیلئے نکلے ہیں ہم جنگ بقا کی
گھرچھوڑ کے اپنا کوئی بھکشو نہیں نکلے

اک عمر ہوئی چھوڑے ہوئے دشت ِ غزالاں
پیروں سے پہ خوئے رم ِ آہو نہیں نکلے

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۵
فاتح محمد تابش صدیقی کاشف اختر سید عاطف علی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ ظہیر بھائی، کیا کہنے۔ ڈھیروں داد

کیا کہنے ظہیر بھائی

واہ کیا کہنے بہت خوب


اہا ہا۔ واہ بہت خوب۔


دشمن مرے بیٹھیں جو حریفوں کے مقابل
اک فرق بھی دونوں میں سرِ مو نھیں نکلے

واہ واہ جناب!


آپ تمام محبتی لوگوں کا بہت بہت بہت شکریہ!! یہ آپ لوگوں کی ذرہ نوازی ہے ۔مین بہت ممنون ہوں اس پذیرائی پر۔ مالک دوجہاں آپ سب کو شاد آباد رکھے۔ آمین۔
 
Top