"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
بیت المال کس سنہ میں قائم ہوا؟

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رائے دی کو جو رقم آئے وہ سال کے سال تقسیم کر دی جائے اور خزانے میں جمع نہ رکھی جائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے خلاف رائے دی۔ ولید بن ہشام نے کہا میں نے سلاطین شام کے ہاں دیکھا ہے کہ خزانہ اور دفتر کا جدا جدا محکمہ قائم ہے۔

آج کل کا زمانہ ہوتا تو غیر مذہب والوں کے نام سے اجتناب کیا جاتا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس رائے کو پسند کیا۔ اور بیت المال کی بنیاد ڈالی۔ سب سے پہلے دارالخلافہ یعنی مدینہ منورہ میں بہت بڑا خزانہ قائم کیا۔ اور چونکہ اسی کی نگرانی اور حساب کتاب کے لیے نہایت قابل اور دیانتدار آدمی کی ضرورت تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
بیت المال کے افسر

عبد اللہ ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ صحابی تھے اور لکھنے پڑھنے میں کمال رکھتے تھے، خزانہ کا افسر مقرر کیا۔ اس کے ساتھ اور لائق لوگ ان کے ماتحت مقرر کئے جن میں عبد الرحمنٰ بن عبید القاری رضی اللہ تعالٰی عنہ اور معیقب بھی تھے۔ (کتب رجال میں معیقب دیکھو)۔ معیقب کو یہ شرف حاصل تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انگشتری بردار تھے اور اس وجہ سے ان کی دیانتداری اور امانت ہر طرح پر قطعی اور مسلم الثبوت تھی۔

دارالخلافہ کے علاوہ تمام صوبجات اور صدر مقامات میں بیت المال قائم کئے۔ اور اگرچہ وہاں کے اعلیٰ حکام کو ان کے متعلق ہر قسم کے اختیارات حاصل تھے۔ لیکن بیت المال کا محکمہ بالکل الگ ہوتا تھا اور اس کے افسر جداگانہ ہوتے تھے۔ مثلاً اصفہان میں خالد بن حرث رضی اللہ تعالٰی عنہ اور کوفہ میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ خاص خزانے کے افسر تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بیت المال کی عمارتیں

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اگرچہ تعمیر کے باب میں نہایت کفایت شعاری کرتے تھے لیکن بیت المال کی عمارتیں مستحکم اور شاندار بنوائیں۔ کوفہ میں بیت المال کے لیے اول ایک محل تعمیر ہوا جس کو روزابہ ایک مشہور مجوسی معمار نے بنایا تھا اور جس کا مصالحہ خسروان فارس کی عمارت سے آیا تھا۔ لیکن جب اس میں نقب کے ذریعے چوری ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سعد بن وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لکھا کہ مسجد کی عمارت بیت المال سے ملا دی جائے۔ کیونکہ مسجد نمازیوں کے وجہ سے ہمیشہ آباد رہتی ہے اور ہر وقت لوگوں کا مجمع رہے گا۔ چنانچہ سعد بن وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حکم سے روزابہ نے بیت المال کی عمارت کو اس قدر وسیع کیا کہ مسجد سے مل گئی اور اس طرح چوری وغیر کی طرف سے اطمینان ہو گیا۔ (یہ تمام تفصیل تاریخ طبری ذکر آبادی کوفہ میں ہے)۔

معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ مابعد میں زیادہ احتیاط کے لحاظ سے خزانے پر سپاہیوں کا پہرہ بھی رہنے لگا تھا۔ بلاذری نے لکھا ہے کہ جب طلحہ و زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہم حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے باغی ہو کر بصرہ آئے اور خزانہ پر قبضہ کرنا چاہا تو سیاحہ کے 40 سپاہی خزانہ کے پہرے پر متعین تھے۔ اور انہوں نے طلحہ و زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ارادے کی مزاحمت کی۔ سیاحہ کی نسبت اسی مؤرخ نے تصریح کی ہے کہ وہ سندھ سے گرفتار ہو کر آئے تھے اور ایرانیوں کے فوج میں داخل تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں جب ایران فتح ہوا تو یہ قوم مسلمان ہو گئی اور ابو موسیٰ نے ان کو بصرہ میں آباد کرایا۔ (فتوح البلدان از صفحہ 373 تا 376)۔

صوبجات اور اضلاع میں جو خزانے تھے ان کا یہ انتظام تھا کہ جس قدر رقم وہاں کے ہر قسم کے مصارف کے لیے ضروری ہوتی تھی رکھ لی جاتی تھی۔ باقی سال کے ختم ہونے کے بعد صدر خزانہ یعنی مدینہ منورہ کے بیت المال میں بھیج دی جاتی تھی۔ اس کے متعلق عمال کے نام حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تاکیدی احکام آتے رہتے تھے۔ (عمرو بن العاص گورنر مصر کو جو فرمان لکھا گیا تھا اس میں یہ الفاظ تھے " فاذا حصل الیک و جمعۃ اخرجت عطاء المسلمین وما یحتاج الیہ مما لا بدمنہ ثم انظر فیما فضل بعد ذلک فاحملہ الی۔" کنز العمال بحوالہ ابن سعد جلد 3 صفحہ 63)۔ یہ دریافت کرنا مشکل ہے کہ ہر جگہ کے خزانے میں کس قدر رقم محفوظ رہتی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
جو رقم دارالخلافہ کے خزانے میں رہتی تھی

مؤرخ یعقوبی کی تصریح سے اس قدر معلوم ہے کہ دارالخلافہ کے خزانے سے خاص دارالخلافہ کے باشندوں کو جو تنخواہیں اور وظائف مقرر تھے، اس کی تعداد تین کروڑ سالانہ تھی۔

بیت المال کے حفاظت اور نگرانی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جو اہتمام تھا، اس کے متعلق تاریخوں میں بہت سے دلچسپ واقعات ہیں جن کی تفصیل ہم نظر انداز کرتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
پبلک ورک یا نظارت نافعہ

یہ صیغہ مستقل حیثیت سے زمانہ حال کی ایجاد ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں اس کے لیے کوئی اصطلاحی لفظ نہیں۔ مصر و شام میں اس کا ترجمہ نظارات نافعہ کیا گیا ہے۔ اس صیغے میں مفصلہ ذیل چیزیں داخل ہیں۔ سرکاری عمارتیں، نہریں، سڑکیں، پل، شفا خانے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں اس کے لیے کوئی مستقل صیغہ نہیں قائم ہوا تھا۔ لیکن شفا خانوں کے سوا اس صیغے کے متعلق اور جتنی چیزیں ہیں سب موجود تھیں اور نہایت منطم اور وسیع طور پر تھیں۔

زراعت کی ترقی کے لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جس قدر نہریں تیار کرائیں ان کا مختصر حال ہم صیغہ محاصل کے بیان میں لکھ آئے ہیں۔ یہاں ان نہروں کا ذکر کرتے ہیں جو زراعت کے صیغہ سے مخصوس نہ تھیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو نہریں تیار کرائیں

نہر ابی موسیٰ

نہر ابی موسیٰ، یہ نہر 9 میل لمبی تھی۔ جس کی تیاری کی تاریخ یہ ہے کہ ایک دفعہ بصرہ کے لوگ ڈپوٹیشن کے طور پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس حاضر ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے معمول کے موافق ایک ایک سے حالات پوچھے۔ ان میں حنیف بن قیس بھی تھے۔ انہوں نے نہایت پراثر تقریر کی جو کتابوں میں باالفاظھا منقول ہے۔ اس بات کی شکایت کی کہ بصرہ بالکل شورستان ہے اور پانی چھ میل سے لانا پڑتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسی وقت ابو موسیٰ کے نام اس مضمون کا تحریری حکم بھیجا کہ بصرہ کے لوگوں کےلیے نہر کھدوائی جائے۔ چنانچہ دجلہ سے 9 میل لمبی نہر کاٹ کر بصرہ میں لائی گئی جس کے ذریعہ سے گھر گھر پانی کی افراط ہو گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
نہر معقل

نہر معقل، یہ ایک مشہور نہر ہے جس کی نسبت عربی میں یہ مثل مشہور ہے اذا جاء نھر اللہ بطل نھر معقل، یہ نہر دجلہ سے کاٹ کر لائی گئی تھی اور چونکہ اس کی تیاری کا اہتمام معقل بن یسار رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سپرد کیا گیا تھا جو ایک مقتدر صحابی تھے، اس لیے انہی کے نام سے مشہور ہو گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
نہر سعد

نہر سعد، اس نہر کے لیے انبار والوں نے پہلے شہنشاہ فارس سے درخواست کی تھی۔ اسلام کا زمانہ آیا تو ان لوگوں نے سعد وقاص (گورنر کوفہ) سے خواہش ظاہر کی۔ سعد نے سعد بن عمر کو مامور کیا۔ انہوں نے بڑے اہتمام سے کام کرایا۔ لیکن کچھ دور پہنچ کر پہاڑ بیچ میں آ گیا اور وہیں چھوڑ دی گئی۔ پھر حجاج نے اپنے زمانے میں پہاڑ کاٹ کر بقیہ کام پورا کیا۔ تاہم نہر سعد ہی کے نام سے مشہور ہوئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
نہر امیر المومنین

سب سے بڑی اور فائدہ رساں نہر جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خاص حکم سے بنی وہ نہر تھی جو نہر امیر المومنین کے نام سے مشہور ہے اور جس کے ذریعے سے دریائے نیل کو بحر قلزم سے ملا دیا گیا تھا۔ اس می مختصر تاریخ یہ ہے کہ 18 ہجری میں جب تمام عرب میں قحط پڑا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام اضلاع کے حکام کو لکھا کہ ہر جگہ کثرت کے ساتھ غلہ اور اناج روانہ کیا جائے۔ اگرچہ اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی۔ لیکن شام اور مصر سے جو خشکی کو جو راستہ تھا بہت دور دراز تھا۔ اس لیے غلہ کے بھیجنے میں پھر بھی دیر لگی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان وقتوں پر خیال کر کے عمرو بن العاص (گورنر مصر) کو لکھا کہ مصر کے باشندوں کی ایک جماعت ساتھ لے کر دارالخلافہ حاضرہو۔ جب وہ آئے تو فرمایا کہ دریائے نیل کو اگر سمندر سے ملا دیا جائے تو عرب کو قحط گرانی کا کبھی اندیشہ نہیں ہو گا۔ ورنہ خشکی کی راہ غلہ کا آنا وقت سے خالی نہیں۔ عمرو نے واپس جا کر کام شروع کر دیا اور فسطات سے (جو قاہرہ سے دس بارہ میل ہے) بحر قلزم تک نہر تیار کرائی۔ اس ذریعہ سے جہاز دریائے نیل سے چل کر قلزم میں آتے تھے۔ اور یہاں سے جدہ پہنچ کر لنگر کرتے جو مدینہ منورہ کی بندرگاہ تھی۔ یہ نہر تقریباً 96 میل لمبی تھی اور تعجب یہ ہے کہ چھ مہینے میں تیار ہو گئی۔ چنانچہ پہلے ہی سال 20 بڑے بڑے جہاز جن میں ساٹھ ہزار اردب غلہ بھرا ہوا تھا، اس نہر کے ذریعے سے مدینہ منورہ کی بندرگاہ میں آئے۔ یہ نہر مدتوں تک جاری رہی اور اس کے ذریعے سے مصر کی تجارت کو نہایت ترقی ہوئی۔ عمر بن عبد العزیز کے عمالوں نے بے پروارئی کی اور وہ جابجا سے اٹ گئی۔ یہاں تک کہ مقام ذنب المساح تک آ کر بالکل بند ہو گئی۔ 105 ہجری میں منصور عباسی نے ایک ذاتی مصلحت سے اس کو بند کر دیا۔ لیکن بعد کو پھر جاری ہو گئی اور مدتوں جاری رہی۔ (یہ تفصیل حسن المحاضرہ سیوطی صفحہ 93 تا 94 مقریزی جلد اول صفحہ 71 و جلد دوم صفحہ 139 تا 144 میں ہے)۔

ایک اور عجیب و غریب بات یہ کہ عمرو بن العاص نے بحر روم و بحر قلزم کو براہ راست ملا دینے کا ارادہ کیا تھا۔ چنانچہ اس کے لیے موقع اور جگہ کی تجویز بھی کر لی تھی۔ اور چاہا تھا کہ فرما کے پاس سے جہاں سے بحر روم اور بحر قلزم میں صرف 70 میل کا فاصلہ رہ جاتا ہے، نہر نکال کر دونوں دریاؤں کو ملا دیا جائے۔ لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان کے ارادے سے اطلاع ہوئی تو نارضامندی ظاہر کی۔ اور لکھ بھیجا کہ اگر ایسا ہوا تو یونانی جہازوں میں آ کر حاجیوں کو اڑا لے جائیں گے۔ (تقویم البلدان ابو الفدار صفحہ 106)۔ اگر عمرو بن العاص کو اجازت ملی ہوتی تو نہر سویز کی ایجاد کا فخر درحقیقت عرب کے حصے میں آتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو عمارتیں تیار کرائیں

عمارات جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تیار کرائیں، تین قسم کی تھیں :

1 – مذہبی : جیسے مساجد وغیرہ، ان کا بیان تفصیل کے ساتھ مذہبی صیغے میں آئے گا۔ یہاں اس قدر کہنا کافی ہے کہ بقول صاحب روضۃ الاحباب چار ہزار مسجدیں تعمیر ہوئیں۔

2 – فوجی : جیسے قلعے، چھاؤنیاں، بارکیں، ان کا بیان فوجی انتظامات میں آئے گا۔

3 - ملکی : مثلاً دارالامارۃ وغیرہ، اس قسم کی عمارتوں کے تفصیلی حالات معلوم نہیں۔ لیکن ان کی اقسام کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :

1 – دارالامارۃ : یعنی صوبجات اور اضلاع کے حکام جہاں قیام رکھتے تھے اور جہاں ان کا دفتر رہتا تھا۔ کوفہ و بصرہ کے دارالامارۃ کا حال طبری و بلاذری نے کسی قدر تفصیل سے لکھا ہے۔

2 – دفتر : دیوان یعنی جہاں دفتر کے کاغذات رہتے تھے۔ فوج کا دفتر بھی اسی مکان میں رہتا تھا۔

3 – خزانہ : بیت المال – یعنی خزانے کا مکان – یہ عمارت مضبوط اور مستحکم ہوتی تھی۔ کوفہ کے بیت المال کا ذکر بیت المال کے حال میں گزر چکا ہے۔

4 – قید خانے : مدینہ منورہ کے قید خانے کا حال صیغہ پولیس کے بیان میں گزر چکا ہے۔ بصرہ میں جو قید خانہ تھا وہ دارالامارۃ کی عمارت میں شامل تھا۔ (فتوح البلدان صفحہ 347)۔

5 – مہمان خانے : مہمان خانے، یہ مکانات اس لیے تعمیر کئے گئے تھے کہ باہر والے جو دو چار روز کے لیے شہر میں آ جاتے تھے وہ ان مکانات میں ٹھہرائے جاتے تھے۔ کوفہ میں جو مہمان خانہ بنا اس کی نسبت علامہ بلاذری نے لکھا ہے امر ان یتخذلمن یرد من الافاق دارا فکانوا ینزلونھا (فتوح البلدان صفحہ 278)۔ مدینہ منورہ کا مہمان خانہ 17 ہجری میں تعمیر ہوا۔ چنانچہ ابن حیان نے کتاب الثقاۃ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔

اس موقع پر یہ بتانا ضروری ہے کہ عمارتوں کی نسبت یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ بڑی شان و شوکت کی ہوتی تھیں۔ اسلام فضول تکلفات کی اجازت نہیں دیتا۔ زمانہ بعد میں جو کچھ ہوا ہوا لیکن اس وقت تک اسلام بالکل اپنی سادہ اور اصلی صورت میں تھا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہایت اہتمام تھا کہ یہ سادگی جانے نہ پائے۔ اس کے علاوہ اس وقت تک بیت المال پر حاکم وقت کو آزادانہ اختیارات حاصل نہ تھے۔ بیت المال تمام قوم کا سرمایہ سمجھا جاتا تھا۔ اور لوگ اس کا اصلی مصرف یہ سمجھتے تھے کہ چونا پتھر کی بجائے زیادہ تر آدمیوں کے کام آئے۔ یہ خیال مدتوں تک رہا۔ اور اسی کا اثر تھا کہ جب ولید بن عبد الملک نے دمشق کی جامع مسجد پر ایک رقم کثیر صرف کر دی تو عام ناراضگی پھیل گئی۔ اور لوگوں نے علانیہ کہا کہ بیت المال کے روپیہ کا یہ مصرف نہیں ہے۔ بہرحال حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں جو عمارتیں بنیں وہ عموماً اینٹ اور گارے کی تھیں۔ بصرہ کا ایوان حکومت بھی اسی حیثیت کا تھا۔ (فتح البلدان صفحہ 347)۔ البتہ فوجی عمارتیں نہایت مضبوط اور مستحکم ہوتی تھیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
سڑکوں اور پلوں کا انتظام

سڑکوں اور پلوں کا انتظام اگرچہ نہایت عمدہ تھا لیکن براہ راست حکومت کے اہتمام میں نہیں تھا۔ مفتوحہ قوموں سے جو معاہدہ ہوتا تھا اس میں یہ شرط بھی ہوتی تھی کہ وہ سڑک اور پل وغیرہ اپنے اہتمام اور اپنے صرف سے بنوائے گی۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شام فتح کیا تو شرائط میں یہ امر بھی داخل تھا۔ (کتاب الخراج صفحہ 80 میں ہے۔ و علی ان علیھم ارشاد الضال و بناء القناطر علی الانھار من اموالھم۔ تاریخ طبری واقعات 16 ہجری صفحہ 240 میں سڑک اور پل دونوں کا ذکر ہے)۔
 

شمشاد

لائبریرین
مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک چوکیاں اور سرائیں

مکہ معظمہ اگرچہ مدتوں سے قبلہ گاہ خلائق تھا لیکن اس کے راستے بالکل ویران اور بے آب تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ 17 ہجری میں جب مکہ معظمہ گئے تو ان کی اجازت سے مدینہ سے لے کر مکہ معظمہ تک ہر منزل پر چوکیاں، سرائیں اور چشمے تیار ہوئے۔ شاہ ولی اللہ صاحب ازالۃ اخفاء میں لکھتے ہیں کہ " ازاں جملہ آنکہ سالے بقصد عمرہ بہ مکہ مكرمہ توجہ فرمود نزدیک مراجعت امر فومود تادر منازلے کہ مابین حرمین واقع اند سا یہ ہاد پناہ ہا ساز ندوہر چاہے کہ اپنا شتہ شدہ باشد آں راپاک کنند و صاف نمایندو در منازل کم آب چاہ ہا راکندہ تابر حجاج باستراحت تمام قطع مراحل میسر شود۔"
 

شمشاد

لائبریرین
شہروں کا آباد کرنا

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں جو جو شہر آباد ہوئے وہ جن جن ضرورتوں سے آباد ہوئے اور جو جو خصوصیتیں ان میں پیدا کی گئیں ان کے لحاظ سے ہر شہر تاریخ اسلام کا ایک صفحہ کہا جا سکتا ہے۔ ان میں بصرہ کوفہ ایک مدت تک اسلامی آثار کے منظر رہے۔ عربی نحو کی بنیاد یہیں پڑہی۔ نحو کے اصلی دارالعلوم یہی دو شہر تھے۔ حنفی فقہ جو آج تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اس کا سنگ بنیاد کوفہ میں ہی رکھا گیا۔ ان اسباب سے ان شہروں کی بنیاد اور آبادی کا حال تفصیل سے لکھنا ناموزوں نہ ہو گا۔

اس کتاب کے پہلے حصے میں ہم لکھ آئے ہیں کہ فارس اور ہند کے بحری حملوں سے مطمئن رہنے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے 14 ہجری میں عتبہ بن غزوان کو متعین کیا کہ بندرگاہ ایلہ کے قریب جہاں بحر فارس خلیج کے ذریعے سے ہندوستان و فارس کے جہاز لنگر کرتے تھے، ایک شہر بسائیں زمین کا موقع اور منظر خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا تھا، عتبہ آٹھ سو آدمیوں کے ساتھ روانہ ہوئے اور خربیہ میں آئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بصرہ

جہاں بصرہ آباد ہے یہاں کف دست میدان پڑا ہوا تھا اور چونکہ زمین کنکریلی تھی اور آس پاس پانی اور چارہ کا سامان نہ تھا۔ عرب کے مذاق کے بالکل موافق تھی۔ غرض عتبہ نے بنیاد کی داغ بیل ڈالی اور مختلف قبائل کے لیے الگ الگ احاطہ کھینچ کر گھاس اور پھونس کے مختصر مکانات بنوائے۔ عاصم بن ولف کو مقرر کیا کہ جہاں جہاں جس قبیلے کو اتارنا مناسب ہو اتاریں۔ خاص سرکاری عمارتیں جو تعمیر ہوئیں ان میں سے مسجد جامع اور ایوان حکومت جس کے ساتھ دفتر اور قید خانے کی عمارت بھی شامل تھی، زیادہ ممتاز تھا۔ 17 ہجری میں آگ لگی اور بہت سے مکانات جل گئے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو اس وقت کوفہ کے گورنر تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس سفارت بھیجی اور اجازت طلب کی کہ پختہ عمارتیں بنائی جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے منظور کیا۔ لیکن تاکید کی کہ کوئی شخص ایک مکان تین کمروں شے زیادہ نہ بنائے۔ (بصرہ کی وجہ تسمیہ عموماً اہل لغت یہ لکھتے ہیں کہ بصرہ عربی میں نرم پتھریلی زمین کو کہتے ہیں اور یہاں کی زمین اسی قسم کی تھی لیکن منجم البلدان میں ایک مجوسی فاضل کا جو قول نقل کیا ہے وہ زیادہ قرین قیاس ہے۔ اس کے نزدیک اصل میں یہ لفظ بس رہا تھا جس کے معنی فارس میں بہت سے راستوں کے ہیں۔ چونکہ یہاں سے بہت سی راہیں ہر طرف کو جاتی تھیں۔ اس لیے اہل عجم اس کو اس نام سے موسوم کرتے تھے۔ اس کی تصدیق زیادہ تر اس سے ہوتی ہے کہ آس پاس شاہان عرب نے جو عمارتیں تیار کرائی تھیں۔ اس کے نام بھی دراصل فارسی رکھے۔ مثلاً خورنق جو دراصل خودنگاہ ہے اور سدیر جو دراصل سہ در ہے۔)۔ بصرہ تک نہر کاٹ کر لائی جائے۔ چنانچہ اس کا حال کسی قدر تفصیل کے ساتھ پبلک ورک کے بیان میں گزر چکا۔ بصرہ کی آبادی نہایت جلد ترقی کر گئی۔ یہاں تک کہ زیاد بن ابی سفیان کے زمان حکومت میں صرف ان لوگوں کی تعداد جن کے نام فوجی رجسٹر میں درج تھے۔ 80 ہزار اور ان کی آل اولاد ایک لاکھ 20 ہزار تھی۔

یہاں کی خاک کو علم و فضل سے جو مناسب تھی۔ اس کا اندازہ اس سے کرنا چاہیے کہ علوم عربیت کی بنیاد یہیں پڑی۔ دنیا میں سب سے پہلی کتاب جو عربی علم لغت میں لکھی گئی یہیں لکھی گئی جس کا نام کتاب العین ہے اور جو خلیل بصری کی تصنیف ہے۔ عربی علم عروض اور موسیقی کی بھی یہیں سے ابتدأ ہوئی۔ علم نحو کا سب سے پہلا مصنف سیبویہ یہیں کا تعلیم یافتہ تھا۔ آئمہ مجتہدین میں سے حسن بصری یہیں کی خاک سے پیدا ہوئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
کوفہ

دوسرا شہر جو بصرہ سے زیادہ مشہور ہوا کوفہ تھا۔ مدائن وغیرہ جب فتح ہو چکے تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خط لکھا کہ یہاں رہ کر اہل عرب کا رنگ روپ بالکل بدل گیا۔ ایسی جگہ تلاش کرنا چاہیے جو بری و بحری دونوں حیثیت رکھتی ہو۔ چنانچہ سلمان و حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہم نے جو خالص اسی قسم کے کاموں پر مامور تھے۔ کوفہ کی زمین انتخاب کی۔ یہاں کی زمین ریتلی اور کنکریلی تھی اور اسی وجہ سے اس کا نام کوفہ رکھا گیا۔ اسلام سے پہلے نعمان بن منذر کا خاندان جو عراق عرب کا فرمانروا تھا۔ ان کا پائے تخت یہی مقام تھا اور ان کی مشہور عمارتیں خورنق اور سدیر وغیرہ اسی کے آس پاس واقع تھیں۔ منظر نہایت خوشنما اور دریائے فرات سے صرف ڈیڑھ دو میل کا فاصلہ تھا۔ اہل عرب اس مقام کو حد العذار یعنی عارض محبوب کہتے تھے کیونکہ وہ مختلف عمدہ قسم کے عربی پھولوں مثلاً اقحوان، شقایق، فیصوم، خزامی کا چمن زار تھا۔ غرض 17 ہجری میں اس کی بنیاد شروع ہوئی اور جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تصریح کے ساتھ لکھا تھا۔ 40 ہزار آدمیوں کی آبادہ کے قابل مکانات بنائے گئے۔ ہیاج بن بالک کے اہتمام سے عرب کے جدا جدا قبیلے محلوں میں آباد ہوئے شہر کی وضع اور ساخت کے متعلق خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا تحریری حکم ایا تھا کہ شارع ہائے عام 40، 40 ہاتھ اور اس سے گھٹ کر 30۔ 30 ہاتھ اور 20۔ 20 ہاتھ چوڑی رکھی جائیں اور گلیاں 7۔ 7 ہاتھ چوڑی ہوں۔ جامع مسجد کی عمارت جو ایک مربع بلند چبوترہ دے کر بنائی گئی اس قدر وسیع تھی، اس میں 40 ہزار آدمی آ سکتے تھے۔ اس کے ہرچہار طرف دور دور تک زمین کھلی چھوڑ دی گئی تھی۔

عمارتیں اول گھاس پھونس کی بنیں لیکن جب آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا تو ھضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اجازت دی اور اینٹ گارے کی عمارتیں تیار ہوئیں اور جامع مسجد کے آگے ایک وسیع سائبان بنا دیا گیا جو دو سو ہاتھ لمبا تھا۔ اور سنگ رخام کے ستونوں پر قائم کیا گیا تھا۔ جو نوشیروانی عمارت سے نکال کر لائے گئے تھے۔ اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ باوجود اس کے کہ دراصل نوشیروانی عمارت کا کوئی وارث نہ تھا۔ اور اصول سلطنت کے لحاظ سے اگر کوئی وارث ہو سکتا تھا تو خلیفہ وقت ہوتا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ عدل و انصاف تھا کہ مجوسی رعایا کو ان ستونوں کی قیمت ادا کی تئی۔ یعنی ان کی تخمینی جو قیمت ٹھہری وہ ان کے جزیہ میں مجرا کی گئی۔ مسجد سے دو سو ہاتھ کے فاصلے پر ایوان حکومت تعمیر ہوا۔ جس میں بیت المال یعنی خزانے کا مکان شامل تھا۔ ایک مہمان خانہ بھی تعمیر کیا گیا۔ جس میں باہر کے آئے ہوئے مسافر قیام کرتے تھے اور ان کو بیت المال سے کھانا ملتا تھا۔

چند روز کے بعد بیت المال میں چوری ہو گئی۔ اور چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ہر ہر جزئی واقعہ کی خبر پہنچتی تھی، انہوں نے سعد کو لکھا کہ ایوان حکومت مسجد سے ملا دیا جائے چنانچہ روزبہ نامی ایک پارسی معمار نے جو مشہور استاد تھا، اور تعمیرات کے کام پر مامور تھا، نہایت خوبی اور موزونی سے ایوان حکومت کی عمارت کر بڑھا کر مسجد سے ملا دیا۔ سعد نے روزبہ کو معہ اور کاریگروں کے اس صلے میں دربار خلافت روانہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی بڑی قدردانی کی اور ہمیشہ کے لیے روزینہ مقرر کر دیا۔ جامع مسجد کے سوا ہر ہر قبیلے کے لیے جدا جدا مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ جو قبیلے آباد کئے گئے ان میں یمن کے بارہ ہزار اور نزار کے آٹھ ہزار آدمی تھے۔ اور قبائل جو آباد کئے گئے، ان کے نام حسبِ ذیل ہیں ۔ سلیم، ثقیف، ہمدان بجیلہ، نیم اللات، تغلب، بنو اسد، نحع و کندۃ، ازومزینہ، تمیم و محارب، اسد و عامر، بجالہ، جدیلہ و اخلاط جہینہ، مذحج، ہوازن وغیرہ وغیرہ۔

یہ شہر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں اس عظمت و شان کو پہنچا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کو راس الاسلام کے نام سے موسوم فرماتے تھے۔ اور درحقیقت وہ عرب کی طاقت کا اصلی مرکز بن گیا۔ زمانہ ما بعد میں اس کی آبادی برابر ترقی کرتی گئی۔ لیکن یہ خصوصیت قائم رہی کہ آباد ہونے والے عموماً عرب کی نسل سے ہوتے تھے۔ 64 ہجری میں مردم شماری ہوئی تو 50 ہزار گھر خاص قبیلہ بیعہ، مضر کے اور 24 ہزار قبائل کے تھے اور اہل یمن کے 6 ہزار گھر ان کے علاوہ تھے۔

زمانہ ما بعد کی تغیرات اور ترقیوں نے اگرچہ قدیم آثار کو قائم نہیں رکھا تھا۔ تاہم یہ کچھ کم تعجب کی بات نہیں کہ بعض بعض عمارات کے نشانات زمانہ دراز تک قائم رہے۔ ابن بطوطہ جس نے آٹھویں صدی میں اس مقدس مقام کو دیکھا تھا اپنے سفر نامہ میں لکھتا ہے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو ایوان حکومت بنایا تھا اس کی بنیاد اب تک قائم ہے۔

اس شہر کی علمی حیثیت یہ ہے کہ فن نحو کی ابتدا یہیں ہوئیں۔ یعنی ابو الا سود وائلی نے اول اول نحو کے قوائد یہیں بیٹھ کر منضبط کئے۔ فقہ حنفی کی بنیاد یہیں پڑی۔ امام ابو حنیفہ صاحب رحمۃ اللہ نے قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ وغیرہ کی شرکت سے فقہ کی جو مجلس قائم کی وہ یہیں قائم کی۔ حدیث اور علوم عربیت کے بڑے بڑے آئمہ فن جو یہاں پیدا ہوئے ان میں ابراہیم نخعی، حماد، امام ابو حنیفہ، شعبی یادگار زمانہ تھے۔ (کوفہ و بصرہ کے حالات طبری، بلاذری اور معجم البلدان نے لئے گئے)۔
 

شمشاد

لائبریرین
فسطاط

عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب اسکندریہ فتح کر لیا تو یونانی جو کثرت سے وہاں آباد تھے عموماً شہر چھوڑ کر نکل گئے۔ ان مکانات کو خالی دیکھ کر عمرو بن العاص نے ارادہ کیا کہ اس کو مستقر حکومت بنائیں۔ چنانچہ دربار خلافت سے اجازت طلب کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ دریا کے حائل ہونے سے بہت ڈرتے تھے۔ بصرہ کوفہ کی آبادی کے وقت افسروں کو لکھا کہ شہر جہاں بسایا جائے وہاں سے مدینہ تک دریا راہ میں نہ آئے۔ چونکہ اسکندریہ کی راہ میں دریائے نیل پڑتا تھا اس لیے اس کو مستقر ریاست بنانا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نہ پسند نہ کیا۔ عمرو بن العاص اسکندریہ سے چل کر قصر الشمع میں آئے۔ یہاں ان کا وہ خیمہ اب تک اسی حالت سے کھڑا تھا جس کو وہ اسکندریہ کے حملے کے وقت خالی چھوڑ گئے تھے۔ چنانچہ اسی خیمے میں اترے اور وہیں نئی آبادی کی بنیاد ڈالی۔ ہر ہر قبیلے کے لیے الگ الگ احاطے کھینچے اور معاویہ بن خدیج، شریک بن شہمی، عمرو بن مخرم، حویل بن ناشرہ کو متعین کیا کہ جس قبیلے کو جہاں مناسب سمجھیں آباد کریں۔ جس قدر محلے اس وقت تھے اور جو قبائل ان میں آباد ہوئے ان کے نام علامہ مقریزی نے تفصیل سے لکھے ہیں۔ جامع مسجد خاص اہتمام سے بنی۔ عام روایت ہے کہ 80 صحابہ نے جمع ہو کر قبلہ کی سمت متعین کی۔ ان صحابہ میں زبیر، مقداد، عبادہ، ابو دردا رضی اللہ تعالٰی عنہم اور بڑے بڑے اکابر صحابہ شریک تھے۔ یہ مسجد 50 گز لمبی اور 30 گز چوڑی تھی۔ تین طرف دروازے تھے جن میں ایک دارالحکومت کے مقابل تھا۔ اور عمارتوں میں سات گز کا فاصلہ تھا۔

عمرو بن العاص نے ایک مکان خاص حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لکھ بھیجا یہ میرے کس کام کا ہے تو وہاں بازار آباد کرایا گیا۔ چونکہ اس شہر کی آبادی خیمہ گاہ سے شروع ہوئی تھی اس لیے اس کا نام فسطاط پڑا جس کے معنی عربی میں خیمہ کے ہیں۔ آبادی کا سن 21 ہجری ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فسطاط کی وسعت آبادی

فسطاط نے نہایت جلد ترقی کی۔ اور اسکندریہ کی بجائے مصر کا صدر مقام بن گیا۔ امیر معاویہ کے زمانے میں 40 ہزار عرب کے نام دفتر میں قلمبند تھے۔ مؤرخ قضائی کا بیان ہے کہ ایک زمانہ میں یہاں 360 مسجدیں، 8 ہزار سڑکیں، 170 حمام تھے۔ اس کی وسعت اور ہر قسم کے سر و سامان کی کثرت کو مقریزی نے کئی صفحہ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ مدت تک یہ شہر سلاطین مصر کا پائے تکت اور تمدن و ترقی کا مرکز رہا۔ علامہ بشاری جس نے چوتھی صدی میں دنیا کا سفت کیا اس شہر کی نسبت اپنے جغرافیہ میں لکھا ہے۔ فاسخ بغداد مفخر الاسلام خزانۃ المغرب لیس فی الاسلام اکبر مجالس من جامعہ ولا احسن تجملا من اھلہ ولا اکثر مراکب من ساحلہ یعنی " یہ شیر بغداد کا ناسخ مغرب کا خزانہ اور اسلام کا فخر ہے۔ تمام عالم اسلام میں یہاں سے زیادہ کسی جامع مسجد میں علمی مجلسیں نہیں ہوتیں نہ یہاں سے زیادہ کسی شہر کے ساحل پر جہازات لنگر ڈالتے ہیں۔"
 

شمشاد

لائبریرین
موصل

موصل یہ مقام اسلام سے پہلے بھی موجود تھا۔ لیکن اس وقت اس کی حالت یہ تھی کہ ایک قلعہ اور اس کے پاس عیسائیوں کے چند معبد تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں شہر کی حیثیت سے آباد ہوا۔ ہرثمہ بن عرفجہ نے اس کی بنیاد رکھی اور قبائل عرب کے متعدد محلے آباد کئے۔ اک خاص جامع مسجد بھی تعمیر کرائی۔ (فتوح البلدان صفحہ 331 تا 332)۔ ملکی حیثیت سے یہ شہر ایک خاص حیثیت رکھتا ہے یعنی اس کے ذریعے مشرق اور مغرب کا ڈانڈا ملتا ہے اور شاید اسی مناسبت سے اس کا نام موصل رکھا گیا۔ یاقوت حموی نے لکھا ہے کہ یہ مشہور ہے کہ دنیا کے بڑے شہر تین ہیں۔ نیشاپور جو مشرق کا دروازہ ہے اور دمشق جو مغرب کا دروازہ ہے اور موصل جو مشرق و مغرب کی گزرگاہ ہے یعنی آدمی کسی طرف جانا چاہے تو اس کو یہاں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس شہر نے بھی رفتہ رفتہ نہایت ترقی کی۔ چنانچہ اس کی وسعت اور عظمت کے حالات معجم البلدان اور جغرافیہ بشاری وغیرہ میں تفصیل سے ملتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
جیزہ

یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے جو دریائے نیل کے غربی جانب فسطاط کے مقابل واقع ہے۔ عمرو بن العاص اسکندریہ کی فتح کے بعد فسطاط آئے۔ تو اس غرض کے لیے رومی دریا کی طرف نہ چڑھ ائیں، تھوڑی سی فوج اس مقام پر متعین کر دی جس میں حمیر اور ازد و ہمدان کے قبیلے کے لوگ تھے۔ فسطاط کی آبادی کے بعد عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان لوگوں کو بلا لینا چاہا لیکن ان کو دریا کا منظر ایسا پسند آیا کہ وہ یہاں سے ہٹنا نہیں چاہتے تھے اور حجت یہ پیش کی کہ ہم جہاد کے لیے یہاں آئے تھے اور ایسے عمدہ مقصد کو چھوڑ کر اور کہیں نہیں جا سکتے۔ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کے حالات کی اطلاع حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دی۔ وہ اگرچہ دریا کے نام سے گھبراتے تھے لیکن مصلحت دیکھ کر اجازت دی اور ساتھ ہی یہ حکم بھیجا کہ ان کی حفاظت کے لیے ایک قلعہ تعمیر کیا جائے۔ چنانچہ 21 ہجری میں قلعہ کی بنیاد پڑی اور 22 ہجری میں بن کر تیار ہوا۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب قلعہ بننا شروع ہوا تو قبیلہ ہمدان نے کہا کہ " ہم نامردوں کی طرح قلعہ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتے۔ ہمارا قلعہ ہماری تلوار ہے۔" چنانچہ یہ قبیلہ اور ان کے ساتھ بعض اور قبیلوں نے قلعہ سے باہر کھلے میدان میں ڈیرے ڈال لئے اور ہمیشہ وہیں رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی برکت سے یہ چھوٹا سا مقام بھی علمی حیثیت سے خالی نہیں رہا۔ چنانچہ بڑے بڑے محدث یہاں پیدا ہوئے۔ ان میں بعض کے نام معجم البلدان میں مذکور ہیں۔ (جیزہ کے متعلق مقریزی نے نہایت تفصیل سے کام لیا ہے۔)
 

شمشاد

لائبریرین
صیغہ فوج

اسلام سے پہلے دنیا میں اگرچہ بڑی بڑی عظیم الشان سلطنتیں گزر چکی ہیں۔ جن کی بقیہ یادگاریں خود اسلام کے عہد میں بھی موجود تھیں۔ فوجی سسٹم جہاں جہاں تھا غیر منظم اور اصول سیاست کے خلاف تھا۔ روم کبیر میں جس کی سلطنت کسی زمانے میں تمام دنیا پر چھا گئی تھی، فوج کے انتظام کا یہ طریقہ تھا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top