"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
عراق کا بندوبست

عراق چونکہ عرب سے نہایت قریب اور عربوں کے آباد ہو جانے کی وجہ سے عرب کا ایک صوبہ بن گیا تھا۔ بندوبست کا طریقہ سب سے پہلے وہیں سے شروع کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک اصول یہ بھی تھا کہ ہر ایک ملک کے انتظام میں وہاں کے قدیم رسم و رواج سے واقفیت حاصل کرتے تھے اور اکثر حالتوں میں کسی قدر اصلاح کے ساتھ قدیم انتظامات کو بحال رکھتے تھے۔ عراق میں اس وقت مال گزاری کا جو طریقہ جاری تھا یہ تھا یہ ہر ایک قسم کی مزروعہ زمین پر ایک خاص شرح کے لگان مقرر تھے۔ جو تین قسطوں میں ادا کئے جاتے تھے۔ یہ طریقہ سب سے پہلے کے قباد نے قائم کیا تھا۔ اور نوشیروان نے اس کی تکمیل کی تھی۔ نوشیروان تک تعین لگان میں یہ اصول ملحوظ رہتا تھا کہ اصل پیداوار کے نصف سے زیادہ نہ ہونے پائے۔ لیکن خسرو پرویز نے اس پر اضافہ کیا۔ اور یزدگرد کے زمانے میں اور بھی تبدیلیاں ہوئیں۔ (کتاب الاوائل ذکر اول من غیر سنۃ ساسان و ذکر اول من وضع الخراج)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مزید تحقیقات کے لحاظ سے پیمائش کا حکم دیا۔ اس کام کے لیے چونکہ دیانت کے ساتھ مساحتہ سے واقف ہونا ضروری تھا۔ اور عرب میں اس قسم کے فنون اس وقت رائج نہ تھے اس لیے فی الجملہ دقت پیش آئی۔ آخر دو شخص انتخاب کئے گئے۔ عثمان بن حنیف اور حذیفہ بن الیمان۔
 

شمشاد

لائبریرین
افسران کا بندوبست

یہ دونوں بزرگ اکابر صحابہ میں سے تھے۔ اور عراق میں زیادہ تر رہنے سے اس قسم کے کاموں سے واقف ہو گئے تھے۔ خصوصاً عثمان بن حنیف کو اس فن میں پوری مہارت حاصل تھی۔ قاضی ابو یوسف صاحب نے کتاب الخراج میں لکھا ہے کہ انہوں نے اس تحقیق اور صحت کے ساتھ پیمائش کی جس طرح قیمتی کپڑا ناپا جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پیمائش کا پیمانہ خود اپنے دست مبارک سے تیار کر کے دیا۔ کئی مہینے تک بڑے اہتمام اور جانچ کے ساتھ پیمائش کا کام جاری رہا۔
 

شمشاد

لائبریرین
عراق کا کل رقبہ

کل رقبہ طول میں 375 میل اور عرض میں 240 یعنی کل 3000 میل مکسر ٹھہرا۔ اور پہاڑ اور صحرا اور نہروں کو چھوڑ کر قابل زراعت زمیں تین کروڑ ساتھ لاکھ جریب ٹھہری۔

(1) خاندان شاہی کی جاگیر
(2) آتش کدوں کے اوقاف
(3) لاوارث
(4) مفروروں اور
(5) باغیوں کی جائیداد
(6) وہ زمینیں جو سڑکوں کی تیاری اور درستی اور ڈاک کے مصارف کے لیے مخصوس تھیں
(7) دریا برد
(8) جنگل اور تمام زمینوں کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خالصہ قرار دے کر ان کی آمدنی جس کی تعداد سالانہ ستر لاکھ (7000000) تھی رفاہ عام کے کاموں کے لیے مخصوص کر دی۔ کبھی کبھی کسی شخص کو اسلامی کوششوں کے صلے میں جاگیر عطا کی جاتی تھی تو انہی زمینوں سے کی جاتی تھی۔ لیکن یہ جاگیریں کسی حال میں خراج یا عشر سے مستثنیٰ نہیں ہوتی تھیں۔ باقی تمام زمین قدیم قبضہ داروں کو دے دی گئی۔ اور حسب ذیل لگان مقرر کیا گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
لگان کی شرح


||
گیہوں|فی جریب یعنی پون بیگھ پختہ|دو درہم سال
جو|فی جریب یعنی پون بیگھ پختہ|ایک درہم سال
نیشکر|فی جریب یعنی پون بیگھ پختہ|چھ درہم سال
روئی|فی جریب یعنی پون بیگھ پختہ|پانچ درہم سال
انگور|فی جریب یعنی پون بیگھ پختہ|دس درہم سال
نخلستان|فی جریب یعنی پون بیگھ پختہ|دس درہم سال

بعض بعض جگہ زمین کی پیداوار کے اعتبار سے اس شرح میں تفاوت بھی ہوا۔ یعنی گیہوں پر فی جریب 4 درہم اور جو پر 2 درہم مقرر ہوئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عراق کا خراج

افتادہ زمین پر بشرطیکہ قابل زراعت ہو، دو جریب پر ایک درہم مقرر ہوا۔ اس طرح کل عراق کا خراج 8 کروڑ ساٹھ لاکھ درہم ٹھہرا۔ چونکہ پیمائش کے مہتمم مختلف لیاقت کے تھے، اس لیے تشخیص جمع میں بھی فرق رہا۔ تاہم جہاں جس قدر جمع مقرر کی گئی اس سے زیادہ مالکان اراضی کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ذمی رعایا کا اس قدر خیال تھا کہ دونوں افسروں کو بلا کر کہا کہ تم نے تشخیص جمع میں سختی تو نہیں کی؟ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ نہیں۔ بلکہ ابھی اس قدر اور گنجائش ہے۔ (کتاب الخراج صفحہ)۔
 

شمشاد

لائبریرین
زمیندار اور تعلقہ دار

جو لوگ قدیم سے زمیندار اور تعلقہ دار تھے اور جن کو ایرانی زبان میں مرزبان اور دہقان کہتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کی حالت اسی طرح قائم رہنے دی اور ان کے جو اختیارات اور حقوق تھے سب بحال رکھے۔ جس خوبی سے بندوبست کیا گیا تھا اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ لگان کی شرحیں نوشیروان کی مقرر کردہ شرحوں سے زائد تھیں، تاہم نہایت کثرت سے افتادہ زمینیں آباد ہو گئیں اور دفعئہً زراعت کی پیداوار میں ترقی ہو گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
پیداوار اور آمدنی میں ترقی

چنانچہ بندوبست کے دوسرے ہی سال خراج کی مقدار آٹھ کروڑ سے دس کروڑ بیس ہزار درہم تک پہنچ گئی۔ سالہائے ما بعد میں اور بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اس پر بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ احتیاط تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہر سال مال گزاری کی نسبت رعایا کی اظہار لیا جانا​

کہ ہر سال جب عراق کا خراج آتا تھا تو دس ثقہ اور معتمد اشخاص کوفہ سے اور اسی قدر بصرہ سے طلب کئے جاتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کو چار دفعہ شرعی قسم دلاتے تھے کہ یہ مال گزاری کسی ذمی یا مسلمان پر ظلم کر کے تو نہیں لی گئی ہے۔ (کتاب الخراج صفحہ 165، اصل عبارت یہ ہے : ان عمر ابن الخطاب کان من یحی العراق کل سنۃ مائۃ الف الف اوقیہ ثم یخرج الیہ عشرۃ من اھل الکوفۃ و عشرۃ من اھل البصرۃ یشھدون اربع شھادات باللہ انہ من طیب مافیہ طلم مسلم و لا معاھد 12)"

یہ عجیب بات ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اگرچہ نہایت نرمی سے خراج مقرر کیا تھا لیکن جس قدر مال گزاری ان کے عہد میں وصول ہوئی زمانہ مابعد میں کبھی وصول نہیں ہوئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں جس قدر خراج وصول ہوا زمانہ بعد میں کبھی نہیں ہوا

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ حجاج پر خدا لعنت کرے کمبخت کو نہ دین کی لیاقت تھی نہ دنیا کی۔ عمر بن الخطاب نے عراق کی مال گزاری 10 کروڑ 28 لاکھ درہم وصول کی، زیاد نے 10 کروڑ 15 لاکھ اور حجاج نے باوجود جبر و ظلم کے صرف 2 کروڑ 8 لاکھ وصول کئے۔ (معجم البلدان ذکر سواد)۔ مامون الرشید کا زمانہ عدل و انصاف کے لیے مشہور ہے لیکن اس کے عہد میں بھی عراق کے خراج کی تعداد 5 کروڑ 48 لاکھ درہم سے کبھی نہیں بڑھی۔

جہاں تک ہم کو معلوم ہے عراق کے سوا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کسی صوبے کی پیمائش نہیں کرائی۔ بلکہ جہاں جس قسم کا بندوبست تھا اور بندوبست کے جو کاغذات پہلے سے تیار تھے ان کو اسی طرح قائم رکھا۔ یہاں تک کہ دفتر کی زبان تک نہیں بدلی، یعنی جس طرح اسلام سے پہلے عراق و ایران کا دفتر فارسی میں، شام کا رومی میں، مصر کا قبطی میں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں بھی اسی طرح رہا۔ خراج کے محکمے میں جس طرح قدیم سے پارسی یونانی اور قطبی ملازم تھے بدستور بحال رہے۔ تاہم حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قدیم طریقہ انتظام میں جہاں کچھ غلطی دیکھی اس کی اصلاح کر دی، چنانچہ اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔

مصر میں فرعون کے زامنے میں جو بندوبست ہوا تھا۔ ٹالومیز (بطالمہ) نے بھی قائم رکھا۔ اور رومن ایمپائر میں بھی وہی جاری رہا۔ فرعون نے تمام اراضی کی پیمائش کرائی تھی اور تشخیص جمع اور طریقہ ادا کے مقدم اصول یہ قرار دیئے تھے :
 

شمشاد

لائبریرین
مصر میں فرعون کے زمانے کے قواعد مال گزاری

1 – خراج نقد اور اصل پیداوار دونوں طریقوں سے وصول کیا جائے۔

2 – چند سالوں کی پیداوار کا اوسط نکال کر اس کے لحاظ سے جمع تشخیص کی جائے۔

3 – بندوبست چار سالہ ہو۔

پروفیسر Frvan Bergho نے ایک کتاب فرنچ زبان میں مسلمانوں کے قانون مال گزاری پر لکھی ہے۔ یہ حالات میں نے اسی کتاب سے لیے ہیں۔ آگے چل کر بھی اس کتاب کے حوالے آئیں گے۔ اس کتاب کا پورا نام یہ ہے :

(
LAPROPRIE TE TERRITORIAL ETU’ IMPORT FONCIER SONSLES PREMIERS CALIFES)​
 

شمشاد

لائبریرین
رومیوں کا اضافہ

رومیوں نے اپنے عہد حکومت میں اور تمام قاعدے بحال رکھے لیکن یہ نیا دستور مقرر کیا کہ ہر سال خراج کے علاوہ مصر سے غلہ کی ایک مقدار کثیر پائے تخت قسطنطنیہ کو روانہ کی جاتی تھی اور سلطنت کے ہر صوبے میں فوج کی رسد کے لیے یہیں سے غلہ جاتا تھا۔ جو خراج میں محسوب نہین ہوتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ دونوں جابرانہ قاعدے موقوف کر دیئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قدیم طریقے کی اصلاح کی

یورپ کے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں بھی یہ رسم جاری رہی۔ چنانچہ قحط کے سال مصر سے مدینہ منورہ کو جو غلہ بھیجا گیا، اسی اصول کے موافق بھیجا گیا۔ لیکن یہ ان کی سخت غلطی اور قیاس بازی ہے۔ بے شبہ عام القحط میں مصر سے غلہ آیا اور پھر یہ ایک رسم قائم ہو کر مدتوں تک جاری رہی۔ لیکن یہ وہی غلہ تھا جو خراج سے وصول ہوتا تھا۔ کوئی نیا خراج یا ٹیکس نہ تھا۔ چنانچہ علامہ بلاذری نے فتوح البلدان میں صاف صاف تصریح کر دی ہے۔ اس بات کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب خراج میں صرف نقدی کا طریقہ رہ گیا تو حرمین کے لیے جو غلہ بھیجا جاتا تھا خرید کر بھیجا جاتا تھا۔ چنانچہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد حکومت کی نسبت علامہ مقریزی نے صاف اس کی تصریح کی ہے۔ (فتوح البلدان صفحہ 316)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہر صوبہ میں فوج کی رسد کے لیے غلے کھیتوں کا بھی انتظام کیا تھا۔ لیکن یہ وہی خراج کا غلہ تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
مصر میں وصول مال گزاری کا طریقہ

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مال گزاری کے وصول کا طریقہ بھی نہایت نرم کر دیا اور اس لحاظ سے ملک کے دونوں قدیم قاعدوں میں ترمیم کر دی۔ مصر ایک ایسا ملک ہے جس کی پیداوار کا دار و مدار دریائے نیل کی طغیانی پر ہے۔ اور چونکہ اس کی طغیانی کے مدارج میں نہایت تفاوت ہوتا رہتا تھا۔ اس لیے پیداوار کا کوئی خاص اندازہ نہیں ہو سکتا تھا۔ چند سالوں کے اوسط کا حساب اس لیے مفید نہیں تھا کہ جاہل کاشتکار اپنے مصارف کی تقسیم ایسے باقاعدہ طریقے سے نہیں کر سکتے کہ خشک سالی میں اوسط کے حساب سے ان کا کام چل سکے۔

بہرحال حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں مال گزاری کے وصول کا طریقہ یہ تھا کہ جب مال گزاری کی قسطیں کھلتی تھیں تو تمام پرگنہ جات سے رئیس اور زمیندار اور عراف طلب کئے جاتے تھے اور وہ پیداوار حال کے لحاظ سے کل ملک کے خراج کا ایک تخمینہ پیش کرتے تھے۔ اس کے بعد اسی طرح ہر ہر ضلع اور ہر ہر پرگنے کا تخمینہ مرتب کیا جاتا تھا، جس میں مقامی زمیندار اور مکھیا شریک ہوتے تھے۔ یہ تخمینی رقم ان لوگوں کے مشورے سے ہر ہر گاؤں پر پھیلا دی جاتی تھی۔ پیداوار جو ہوتی تھی اس میں سے اول گرجاؤں اور عمالوں کے مصارف اور مسلمانوں کی مہمانی کا خرچ نکال لیا جاتا تھا۔ باقی جو بچتا تھا اس میں سے جمع مشخصہ ادا کی جاتی تھی ہر گاؤں پر جمع تشخیص ہوتی تھی۔ پڑتے سے اس کا ایک حصہ گاؤں کے پیشہ وروں سے بھی وصول کیا جاتا تھا (مقریزی نے یہ پوری تفصیل نقل کی ہے۔ دیکھو کتاب مذکور صفحہ 77 علامہ بشاری کی کتاب جغرافیہ صفحہ 212 سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔)

اس طریقہ میں اگرچہ بڑی زحمت تھی اور گویا ہر سال نیا بندوبست کرنا پڑتا تھا۔ لیکن مصر کے حالات کے لحاظ سے عدل اور انصاف کا یہی مقتضی تھا۔ اور مصر میں یہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ایک مدت سے معمول بھی تھا۔ لگان کی شرح فی جریب ایک دینار اور تین ارب غلہ قرار دی گئی اور یہ معاہدہ لکھ دیا گیا کہ اس مقدار پر کبھی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
مصر کا کل خراج

اس عدل و انصاف کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں جو خراج وصول ہوتا تھا اس کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ دینار تھی۔ جس کے تقریباً پانچ کروڑ چھ لاکھ روپے ہوتے ہیں۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ یہ صرف جزیے کی رقم تھی۔ خراج اس کے علاوہ تھا۔ ابو حرقل بغدادی نے بھی اپنے جغرافیے میں قاضی ابو حازم کا جو قول نقل کیا ہے وہ اسی کے مطابق ہے۔ لیکن میرے نزدیک دونوں نے غلطی کی ہے۔ خود علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ جب عمرو بن العاص نے پہلے سال ایک کروڑ دینار وصول کئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بازپرس کی۔ یہ مسلم ہے کہ مقوقس کے عہد میں جزیے کا دستور نہ تھا۔ اس لیے عمرو بن العاص کی یہ رقم اگر جزیہ تھی تو مقوقس کی رقم سے اس کا مقابلہ کرنا بالکل بے معنی تھا۔ اس کے علاوہ تمام مؤرخین نے اور خود مقریزی نے جہاں خراج کی حیثیت سے اسلام کے ماقبل اور مابعد زمانوں کا مقابلہ کیا ہے، اسی تعداد کا نام لیا ہے۔ بہر حال حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں خراج کی مقدار جہاں تک پہنچی زمانہ بعد میں کبھی اس حد تک نہیں پہنچی۔ بنو امیہ اور بنو العباس کے زمانے میں تیس لاکھ دینار سے زیادہ وصول نہیں ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
مصر کا خراج بنو امیہ اور عباسیہ کے زمانے میں

ہشام بن عبد الملک نے جب بڑے اہتمام سے تمام ملک کی پیمائش کرائی جو تین کروڑ فدان ٹھہری تو 30 لاکھ سے چالیس لاکھ ہو گئے۔ البتہ حضرت عثمان کے زمانے میں عبد اللہ بن سعد گورنر مصر نے ایک کروڑ چالیس لاکھ دینار وصول کئے تھے لیکن جب حضرت عثمان نے فخریہ عمرو بن العاص سے کہا کہ اب تو اونٹنی نے زیادہ دودھ دیا ہے (دیکھو مقریزی صفحہ 18 جلد اول)۔ تو عمرو بن العاص نے آزادانہ کہا کہ " ہاں لیکن بچہ بھوکا رہا۔" امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا زمانہ ہر قسم کی دنیاوی ترقی میں یادگار ہے۔ ان کے عہد میں مصر کے خراج کی تعداد 90 لاکھ دینار تھی۔ فاطمئین (معجم البلدان ذکر مصر۔ مقریزی جلد اول صفحہ 74 تا 75) کے عہد میں خلیفہ المعز بدین اللہ کے گورنر نے باوجود یہ کہ لگان کی شرح دوگنی کر دی، تاہم 32 لاکھ دینار سے زیادہ وصول نہ ہوئے۔ (کتاب الخراج صفحہ 28 ابن حوقل ذکر مصر)۔
 

شمشاد

لائبریرین
شام

شام میں اسلام کے عہد تک وہ قانون جاری تھا جو ایک یونانی بادشاہ نے اپنے تمام ممالک مقبوضہ میں قائم کیا تھا۔ اس نے پیداوار کے اختلافات کے لحاظ سے زمین کے مختلف مدارج قرار دیئے تھے۔ اور ہر قسم کی زمین پر جداگانہ شرح کے لگان مقرر کئے تھے۔ یہ قانون چھٹی صدی عیسوی کے آغاز میں یونانی زبان سے شامی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ اور اسلام کی فتوحات تک وہی ان تمام ممالک میں جاری تھا۔ (دیکھو پروفیسر برخیم فرانسیسی کی کتاب مسلمانوں کے قانون مال گزاری پر)۔ قرائن اور قیاسات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مصر کی طرح یہاں بھی وہی قدیم قانون جاری رہنے دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں شام سے جو خراج وصول ہوتا تھا اس کی کل تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ دینار یعنی 5 کروڑ 80 لاکھ روپے تھی۔

عراق، مصر، شام کے سوا اور ممالک مفتوحہ یعنی فارس، کرمان، آرمینیہ وغیرہ کے بندوبست اور تشخیص خراج کے حالات ہم بہت کم معلوم کر سکے۔ مؤرخین ان ملکوں کے حالات فتح میں صرف اس قدر لکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگوں پر جزیہ اور زمین پر خراج مقرر کیا گیا۔ کہیں کہیں کسی خاص رقم پر معاہدہ ہو گیا ہے تو اس کی تعداد لکھ دی ہے۔ باقی اور قسم کی تفصیل کو ہاتھ نہیں لگایا ہے۔ اور چونکہ اس قسم کی جزئی تفصیلوں سے کچھ بڑے نتائج متعلق نہیں اس لیے ہم بھی اس کی چنداں پرواہ نہیں کرتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
قانون مال گزاری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اصلاحات

البتہ ایک محقق کی نگاہ اس بات پر پڑتی ہے کہ اس صیغے میں فتوحات فاروقی کی خاص ایجادات اور اصلاحیں کیا ہیں اور ہم اسی خاص پہلو پر نگاہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ سب سے بڑا انقلاب جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس صیغے میں کیا اور جس کی وجہ سے رعایا کی بہبودی اور خوشحالی دفعتہً نہایت ترقی کر گئی، یہ تھی کہ زمینداری اور ملکیت زمین کا قدیم جابرانہ قانون مٹا دیا۔ رومیوں نے جب شام اور مصر پر قبضہ کیا تو تمام ارضیات اصلی باشندوں سے چھین کر کچھ افسران فوج اور کچھ اراکین دربار کو دے دیں کچھ شاہی جاگیریں قرار پائیں۔ کچھ کلیسا اور چرچ پر وقف کر دیں۔ اصل باشندوں کے ہاتھ میں ایک چپہ زمین بھی نہیں رہی۔ وہ صرف کاشتکاری کا حق رکھتے تھے۔ اور اگر مالک زمین ان کی کاشتکاری کی زمین کو کسی کے ہاتھ منتقل کرتا تھا تو زمین کے ساتھ کاشتکار بھی منتقل ہو جاتے تھے۔ اخیر میں باشندوں کو بھی کچھ زمینداریاں ملنے لگیں۔ لیکن زمینداری کی حفاظت اور اس سے متمع ہونے کے لیے رومی زمینداروں سے اعانت لینی پڑتی تھی۔ اس بہانے سے زمیندار خود زمین پر متصرف ہو جاتے تھے۔ اور وہ غریب کاشتکار کا کاشتکار ہی رہتا تھا۔ یہ طریقہ کچھ رومی سلطنت کے ساتھ مخصوص نہ تھا۔ بلکہ جہاں تک ہم کو معلوم ہے تمام دنیا میں قریب قریب یہی طریقہ جاری تھا کہ زمین کا بہت بڑا حصہ افسران فوج یا ارکان دولت کی جاگیر میں دے دیا جاتا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ملک پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس ظالمانہ قانون کو مٹا دیا۔ رومی تو اکثر ملک کے مفتوح ہوتے ہی نکل گئے۔ اور جو رہ گئے ان کے قبضے سے بھی زمین نکال لی گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان تمام اراضیات کو جو شاہی جاگیریں تھیں یا جن پر رومی افسر قابض تھے، باشندگان ملک کے حوالے کر دیا۔ اور بجائے اس کے کہ وہ مسلمان افسروں یا فوجی سرداروں کو عنایت کی جاتیں، قاعدہ بنا دیا کہ مسلمان کسی حالت میں ان زمینوں پر قابض نہیں ہو سکتے۔ یعنی مالکان اراضی کو قیمت دے کر خریدنا چاہیں تو خرید بھی نہیں سکتے۔ یہ قاعدہ ایک مدت تک جاری رہا۔ چنانچہ لیث بن سعد نے مصر میں کچھ زمین مول لی تھی تو بڑے بڑے پیشوایان مذہب مثلاً امام مالک، نافع بن یزید بن البیعہ نے ان پر سخت اعتراض کیا۔ (مقریزی صفحہ 215)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اہل عرب کو جو ان ممالک میں پھیل گئے تھے زراعت کی ممانعت کر دی۔ چنانچہ تمام فوجی افسروں کے نام احکام بھیج دیئے کہ لوگوں کے روزینے مقرر کر دیئے گئے ہیں۔ اس لیے کوئی شخص زراعت نہ کرنے پائے۔ یہ حکم اس قدر سختی سے دیا گیا کہ شریک عطفی ایک شخص نے مصر میں زراعت خرید کر لی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کو بلا کر سخت مواخذہ کیا اور فرمایا کہ تجھ کو ایسی سزا دوں گا کہ اوروں کو عبرت ہو۔ (حسن المحاضرہ صفحہ 93)۔

ان قاعدوں سے ایک طرف تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس عدل و انصاف کا نمونہ قائم کیا۔ جس کی نظیر دنیا میں کہیں موجود نہ تھی۔ کیونکہ کسی فاتح قوم نے مفتوحین کے ساتھ کبھی ایسی رعایت نہیں برتی تھی۔ دوسری طرف زراعت اور آبادی کو اس سے نہایت ترقی ہوئی۔ اس لیے کہ اصلی باشندے جو مدت سے ان کاموں میں مہارت رکھتے تھے عرب کے خانہ بدوش بدوان کی برابری نہیں کر سکتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس تدبیر نے فتوحات کی وسعت میں بڑا کام دیا۔ فرانس کے ایک نہایت لائق مصنف نے لکھا ہے کہ یہ بات مسلم ہے کہ اسلام کی فتوحات میں خراج اور مال گزاری کے معاملہ کو بہت دخل ہے۔ رومن سلطنت میں باشندگان ملک کو جو سخت خراج ادا کرنا پڑتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کی فتوحات کو نہایت تیزی سے بڑھایا۔ مسلمانوں کے حملوں کا جو مقابلہ کیا گیا وہ اہل ملک کی طرف سے نہ تھا بلکہ حکومت کی طرف سے تھا۔ مصر میں خود قبطی کاشتکاروں نے یونانیوں کے برخلاف مسلمانوں کو مدد دی، دمشق اور حمص میں عیسائی باشندوں نے ہرقل کو فوج کے مقابلے میں شہر پناہ کے دروازے بند کر دیئے اور مسلمانوں سے کہہ دیا کہ ہم تمہارے حکومت کو بمقابلہ بے رحم رومیوں کے بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔

یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے غیر قوموں کے ساتھ انصاف کرنے میں اپنی قوم کی حق تلفی کی یعنی ان کو زراعت اور فلاحت سے روک دیا۔ درحقیقت اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بڑی انجام بینی کا ثبوت ملتا ہے۔ عرب کے اصلی جوہر دلیری، بہادری، جفاکشی، ہمت، عزم اسی وقت تک قائم رہے جب تک وہ کاشتکاری اور زمینداری سے الگ رہے۔ جس دن انہوں نے زمین کو ہاتھ لگایا، اسی دن یہ تمام اوصاف بھی ان سے رخصت ہو گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بندوبست مال گزاری میں ذمیوں سے رائے لینا

اس معاملے میں ایک اور نہایت منصافانہ اصول جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے برتا یہ تھا کہ بندوبست اور اس کے متعلق تمام امور میں ذمی رعایا سے جو پارسی یا عیسائی تھی ہمیشہ رائے طلب کرتے تھے۔ اور ان کی معروضات پر لحاظ فرماتے تھے۔ عراق کا جب بندوبست کرنا چاہا تو پہلے عمال کو لکھا کہ عراق کے دو رئیسوں کو ہمارے پاس بھیجو جن کے مترجم بھی ہوں (کتاب الخراج صفحہ 31)۔ پیمائش کا کام ہو چکا تو پھر دس دس بڑے بڑے زمیندار عراق سے بلوائے اور ان کے اظہار لیے (کتاب الخراج صفحہ 5)۔

اسی طرح مصر کے انتظام کے وقت وہاں کے گورنر کو لکھا کہ مقوقس سے (جو پہلے مصر کا حاکم تھا) خراج کے معاملے میں رائے لو۔ اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو ایک واقف کار قبطی کو مدینے میں طلب کیا اور اس کا اظہار لیا۔ (مقریزی جلد اول صفحہ 74 تا 75)۔ یہ طریقہ جس طرح عدل و انصاف کا نہایت اعلٰی نمونہ تھا، اسی طرح انتظام کی حیثیت سے بھی مفید تھا۔

ان باتوں کے ساتھ ان اصلاحات کو بھی شامل کرنا چاہیے جن کا بیان ہم بندوبست کے شروع میں کر آئے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ترقی زراعت

بندوبست کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے زمین کی آبادی اور زراعت کی ترقی کی طرف توجہ کی۔ عام حکم دے دیا کہ تمام ملک میں جہاں جہاں افتادہ زمینیں ہیں جو شخص ان کو آباد کرے گا اس کی ملک ہو جائیں گی۔ لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کی زمین کو آباد کرنے کی غرض سے اپنے قبضے میں لائے اور تین برس کے اندر آباد نہ کرے تو زمین اس کے قبضے سے نکل جائے گی۔ اس طریقے سے افتادہ زمینیں نہایت جلد آباد ہو گئیں۔ حملے کے وقت جہاں جہاں کی رعایا گھر چھوڑ کر نکل گئی تھی ان کے لیے اشتہار دے دیا کہ واپس آ جائے اور اپنی زمینوں پر قابض ہو جائے۔ زراعت کی حفاظت اور ترقی کا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جو خیال تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ان سے آکر شکایت کی کہ شام میں میری کچھ زراعت تھی۔ اپ کی فوج ادھر سے گزری اور اس کو برباد کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسی وقت اس کو دس ہزار درہم معاوضے میں دلوائے۔ (کتاب الاخراج صفحہ 68)۔ تمام ممالک مفتوحہ میں نہریں جاری کیں اور بند باندھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
محکمہ آبپاشی

تالاب تیار کرانے، پانی کی تقسیم کرنے کے دہانے بنانے، نہروں کے شعبے نکالنے اور اس قسم کے کاموں کا ایک بڑا محکمہ قائم کیا۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ خاص مصر میں ایک لاکھ بیس ہزار مزدور روزانہ سال بھر اس کام میں لگے رہتے تھے اور یہ تمام مصارف بیت المال سے ادا کئے جاتے تھے۔ (مقریزی صفحہ 76 جلد اول)۔ خوزستان اور اہواز کے اضلاع میں جزر بن معاویہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اجازت سے بہت سے نہریں کھدوائیں۔ جن کی وجہ سے بہت سی افتادہ زمینیں آباد ہو گئیں۔ اسی طرح اور سینکڑوں نہریں تیار ہوئیں۔ جس کا پتہ جستہ جستہ تاریخوں میں ملتا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top