الطاف حسین کا نائن زیرو کی تقریر میں عمران کے خلاف گھٹیا زبان کا استعمال

زرقا مفتی

محفلین
یہ 16 صفحات پڑھنے کی تو ہمت ہے نہ وقت لیکن اس خبر میں کس حد تک سچائی ہے کہ۔۔۔ الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی اور کارکنان سے ٹیلیفونک پریس کانفرنس میں رابطہ کمیٹی کو سخت سست کہا اور وہاں موجود حماد صدیقی سے کہا کہ واسع جلیل کے منہ پر جوتے مارو اور اس کے منہ پر اتنی زور سے جوتا مارو کہ مجھے فون پر آواز سنائی دے اور بھائی کے حکم پر عین اسی طرح عمل کیا گیا۔۔۔ پھر بھائی نے فاروق ستار کے منہ پر بھی جوتے مارنے کا حکم دیا اور وہ بھی پورا کیا گیا۔۔۔ اس دوران کارکنان بھائی کے احکامات سن کر آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے وہاں موجود تمام لیڈروں کو جوتوں کی نوک پر رکھ لیا (جس پر ان لیڈروں نے خود کو نائن زیرو کے دفتر میں مقفل کر کے کارکنان سے اپنی جانیں بچائیں جب کہ مشتعل کارکنان نے نائن زیرو کے دفتر کو بھی توڑ کر اندر گھسنا چاہا) اور وہاں موجود میڈیا والوں کو بھی مارا گیا اور بعد ازاں نہ صرف میڈیا والوں سے ان کے کیمرے اور دیگر ریکارڈنگ ڈیوائسز چھین لی گئیں بلکہ ان چینلز اور اخبارات کے دفاتر کو باقاعدہ تنبیہ کی گئی کہ اگر زندگی چاہتے ہو اور کراچی میں جینا چاہتے تو خبردار اس بارے میں کوئی خبر نہیں نکلنی چاہیے۔۔۔
ڈان نیوز نے خبر دی تو لیکن انتہائی توڑ مروڑ کے جب کہ باقی کسی میڈیا چینل یا اخبار نے اتنی ہمت بھی نہ کی۔
کوئی دوست اس خبر کی سچائی کے متعلق بھی بتائے

اس واقعے کے بعد رابطہ کمیٹی کے ارکان کی عزت نفس کس قدر مجروح ہوئی۔ ہمارے مذہب میں تو جانور کے منہ پر بھی مارنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ الطاف حسین کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہے اللہ اس کو ہدایت دے اور ہمارے ملک پر رحم کرے
 

فاتح

لائبریرین
اس واقعے کے بعد رابطہ کمیٹی کے ارکان کی عزت نفس کس قدر مجروح ہوئی۔ ہمارے مذہب میں تو جانور کے منہ پر بھی مارنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ الطاف حسین کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہے اللہ اس کو ہدایت دے اور ہمارے ملک پر رحم کرے
میں نے تو تصدیق چاہی ہے۔۔۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
آپ چنکیا کو نہیں جانتے ؟ مکاری مین اس سے بڑا استاد اج تک پیدا نہیں ہوا ۔ نہایت ہی شاطر زہین اور سازشیں کرنے میں اس سے بڑھ کر پھر شاید ہی کوئی پیا ہوا ہو ۔ چندر گپتا کا وزیر اعظم تھا ۔ عجیب بات ہے آپ نے آج تک چنکیا کے کوٹ نہین پڑھے کبھی ؟
chanakya.gif

https://en.wikipedia.org/wiki/Chanakya
اجی میں تو آج تک اسے چا نکیا پڑھتا آیا تھا، آپ نے چنکیا لکھ تو ذہنی رو بھائی کے کسی نائب کی طرف مڑ گئی تذکرہ جو بھائی کے ہو رہا تھا نا۔۔۔۔۔۔۔ یاد رہے میں ابھی اے پی ایم ایم تشکیل نہیں پائی اور میں نے کسی باقاعدہ عہدے کا 'حلف' بھی نہیں لیا۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے ہیڈ کوارٹر 777 میں ستار بھائی والی سزا کا سوچنا وی نہ:grin:
 

عسکری

معطل
اجی میں تو آج تک اسے چا نکیا پڑھتا آیا تھا، آپ نے چنکیا لکھ تو ذہنی رو بھائی کے کسی نائب کی طرف مڑ گئی تذکرہ جو بھائی کے ہو رہا تھا نا۔۔۔ ۔۔۔ ۔ یاد رہے میں ابھی اے پی ایم ایم تشکیل نہیں پائی اور میں نے کسی باقاعدہ عہدے کا 'حلف' بھی نہیں لیا۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اس لیے ہیڈ کوارٹر 777 میں ستار بھائی والی سزا کا سوچنا وی نہ:grin:
پائی جان میں اسے بچپن سے چنکیا پڑھتا آیا ہوں اور میں جو کہوں گا وہی ٹھیک ہے یہ تو اب ماننا پڑے گا آپکو ورنہ سب کا انجام ایم کیو ایم بنانے والوں جیسا بھی ہو سکتا ہے سوائے فاروق ستار کے اس لیے بہتر ہے فاروق ستار بن جاؤ یار :grin:
 

عسکری

معطل
جی حجور آپ کا کہا سر آنکھوں پر ہم عمران فاروق کبھی نہیں بنیں گے سرکار:p
سمجھداری کوئی میری رابطہ کمیٹی سے سیکھے ;) ملتان کے 3 سیکٹر بنائیں گے ابھی ریلوے لائن کے اس پار اے سیکٹر ۔ بوسن روڈ شہر کو درمیان مین کاٹتی ہے ایک طرف بی سیکٹر ایک طرف 777 سی سیکٹر ائیر پورٹ والی طرف پر سی سیکٹر ہمارا گڑھ ہو گا ویسے بھی کینٹ اسی طرف ہے :grin: اگر کہیں بس نا چلا تو اپنی دوسری کور کے انڈیپنڈنٹ انفنٹری برگیڈ کی مدد لی جا سکتی ہے وقت پڑنے پر (y)
 

عاطف بٹ

محفلین
یہ 16 صفحات پڑھنے کی تو ہمت ہے نہ وقت لیکن اس خبر میں کس حد تک سچائی ہے کہ۔۔۔ الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی اور کارکنان سے ٹیلیفونک پریس کانفرنس میں رابطہ کمیٹی کو سخت سست کہا اور وہاں موجود حماد صدیقی سے کہا کہ واسع جلیل کے منہ پر جوتے مارو اور اس کے منہ پر اتنی زور سے جوتا مارو کہ مجھے فون پر آواز سنائی دے اور بھائی کے حکم پر عین اسی طرح عمل کیا گیا۔۔۔ پھر بھائی نے فاروق ستار کے منہ پر بھی جوتے مارنے کا حکم دیا اور وہ بھی پورا کیا گیا۔۔۔ اس دوران کارکنان بھائی کے احکامات سن کر آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے وہاں موجود تمام لیڈروں کو جوتوں کی نوک پر رکھ لیا (جس پر ان لیڈروں نے خود کو نائن زیرو کے دفتر میں مقفل کر کے کارکنان سے اپنی جانیں بچائیں جب کہ مشتعل کارکنان نے نائن زیرو کے دفتر کو بھی توڑ کر اندر گھسنا چاہا) اور وہاں موجود میڈیا والوں کو بھی مارا گیا اور بعد ازاں نہ صرف میڈیا والوں سے ان کے کیمرے اور دیگر ریکارڈنگ ڈیوائسز چھین لی گئیں بلکہ ان چینلز اور اخبارات کے دفاتر کو باقاعدہ تنبیہ کی گئی کہ اگر زندگی چاہتے ہو اور کراچی میں جینا چاہتے تو خبردار اس بارے میں کوئی خبر نہیں نکلنی چاہیے۔۔۔
ڈان نیوز نے خبر دی تو لیکن انتہائی توڑ مروڑ کے جب کہ باقی کسی میڈیا چینل یا اخبار نے اتنی ہمت بھی نہ کی۔
کوئی دوست اس خبر کی سچائی کے متعلق بھی بتائے
فاتح بھائی، اس جوتم پیزار سے متعلق کچھ معلومات اس لنک پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ نام پر اعتراض کرسکتے ہیں مگر نام وہ چلے گا جو قوم کو پسند ہو
نام بھی پھر سوچ سمجھ کر رکھنا چاہیے ناں۔ اور آپ کس قوم کی بات کر رہے ہیں؟ مہاجر قوم کی ناں، لیکن یہ مہاجر ہوئے کیسے؟ کہاں سے مہاجر ہوئے؟ کہاں سے ہجرت کی؟

کہ اللہ واسطے کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے مہاجر کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔

خان صاحب آپ تو پڑھے لکھے ہیں۔ جان اللہ کو دینی ہے، الطاف کو تو نہیں دینی۔ ایمانداری کی بات کریں۔ مخالفت برائے مخالفت نہ کریں۔ کچھ تو اپنے علم کا ہی لحاظ کر لیں۔
 
نام بھی پھر سوچ سمجھ کر رکھنا چاہیے ناں۔ اور آپ کس قوم کی بات کر رہے ہیں؟ مہاجر قوم کی ناں، لیکن یہ مہاجر ہوئے کیسے؟ کہاں سے مہاجر ہوئے؟ کہاں سے ہجرت کی؟

کہ اللہ واسطے کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے مہاجر کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔

خان صاحب آپ تو پڑھے لکھے ہیں۔ جان اللہ کو دینی ہے، الطاف کو تو نہیں دینی۔ ایمانداری کی بات کریں۔ مخالفت برائے مخالفت نہ کریں۔ کچھ تو اپنے علم کا ہی لحاظ کر لیں۔

میری رائے وہی ہے جو میں نے بیان کی۔
اپکو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے مگر میرے رائے میں اپکی رائے زمینی حقائق سے ناواقفیت کی بناپر ہے۔
بہرحال یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے
 

محمد امین

لائبریرین
میں نے تو تصدیق چاہی ہے۔۔۔

فاتح بھائی یہ کہانیاں مجھے امت اخبار اور اسی کے قبیلے کے لوگوں کی بنائی ہوئی لگ رہی ہیں۔

رﭘﻮرٹ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ واﺳﻊ ﺟﻠﯿﻞ ﮐﻮ ﺟﻮﺗﺎ ﭘﮍواﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ اﻟﻄﺎف ﺣﺴﯿﻦ ﻧﮯ ﮐﺮاﭼﯽ ﺗﻨﻈﯿﻤﯽ ﮐﻤﯿﭩﯽ ﮐﮯ ذﻣہ دار ﺣﻤﺎد ﺻﺪﯾﻘﯽ ﮐﻮ ﻣﺨﺎطﺐ
ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐہ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺑﮭﺮوﺳہ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ اب ان ﻧﺎ اﮨﻠﻮں ﮐﮯﺳﺎﺗﮭ ﻣﻞ ﮔﺌﮯ ﮨﻮ، ﺗﻢ ﻟﻮﮔﻮں ﻧﮯﻣﺠﮭﮯ ﻧﻮٹ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ
ﻣﺸﯿﻦ ﺳﻤﺠﮭ رﮐﮭﺎ ﮨﮯ۔

پیسے بنانے کی مشین والا جملہ تمام چینلز پر براہِ راست نشر ہوا اور میں اس وقت ٹی وی دیکھ رہا تھا صبح کے پونے پانچ بجے۔ تقریر کا جتنا حصہ نشر ہوا وہ ہنگامہ ہونے سے پہلے پہلے تک کا تھا، ہنگامہ ہونے کے چند منٹ بعد تمام چینلز سے کوریج ہٹائی جا چکی تھی۔ اس وقت تک الطاف کی کوئی آواز کسی بھی چینل نے ریکورڈ نہیں کی کہ جس میں اس ہذیان کا متن موجود ہو۔ جب ہنگامہ ہوا تو اس وقت تک الطاف بھائی ٹنکی ٹناری میں رو دھو کے چپ ہوچکے تھے اور کارکنوں کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی سوائے رابطہ کمیٹی کے اراکین کی کہ جو بار بار کہہ رہے تھے "الطاف بھائی پوری رابطہ کمیٹی آپ سے معافی مانگ رہی ہے" ۔۔۔مائک پر اشفاق منگی اور فاروق ستار نے کئی دفعہ یہ جملے کہے۔ یعنی لاؤڈ اسپیکر کی آواز مجمعے کی آواز پر بھاری تھی تو الطاف کی آواز کیوں نہ آئی جس میں یہ ساری باتیں جو امت کے قبیلے والوں نے رپورٹ کیں۔۔۔

وہاں اس وقت ہزار یا کارکنان تھے۔ ٹی وی پر دیکھا بہت سے موبائل سے وڈیو بنا رہے تھے۔ چلو یہ مانا کہ صبح 8 بجے تک سب کو روک کر رکھا اور وڈیوز ڈیلیٹ کروائیں۔۔۔مگر اسمارٹ فونز کے دور میں کوئی ایک وڈیو بھی منظرِ عام پر نہ آنا عقل میں نہ آنے والی بات ہے۔ دسیوں ٹی وی والے موجود تھے، کوئی ایک وڈیو نہیں آئی۔۔

مجھے ان باتوں پر یقین کرنے میں کوئی عار نہیں مگر ہر تنظیم کی ایک hierarchy ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم کا نظم و ضبط سبھی مانتے ہیں، انکے اپنے بھی اور پرائے بھی۔ تو ان عوامل کے پیشِ نظر مجھے امت کے قبیلے کی قیاس آرائیوں اور سنی سنائیوں پر مبنی خبریں قبول کرنے میں تامل ہے۔ نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم ایک مسلح سیاسی تنظیم ہے۔ اس طرح کی اشتعال انگیز کارروائیاں کلاشنکوفیں نکلوانے کے لیے کافی ہیں۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو خوب ٹھائیں ٹھائیں ہوچکی ہوتی۔

البتہ مجھے اتنا یقین ہے کہ ایم کیو ایم کے اندر کھٹ پٹ ضرور چل رہی ہے۔ براہِ راست خطاب سنتے ہوئے میرے ذہن میں جو بات کوندی تھی وہ یہ تھی کہ 1990 والا دور واپس آرہا ہے۔ ایک اور حقیقی بننے جا رہی ہے۔ اور اس بات کو اگلے روز آفاق احمد کے بیان سے تقویت ملی کہ الطاف کی جانب سے منتخب نمائندوں اور رابطہ کمیٹی کی تذلیل کروانا شرمناک ہے اور اسے ان سے ہمدردی ہے۔۔۔

خیر۔۔۔اللہ بہتر جانتا ہے۔ ایک بھی کارکن نے کوئی بھی بات لیک آؤٹ نہیں کی ورنہ کراچی میں خبریں کیسے بم ہوتی ہیں ہم آپ جانتے ہیں۔ جو کچھ چل رہا ہے قیاس آرائیوں پر مبنی ہے ایسا ہی جیسا ہم بچپن میں سنتے تھے ۔۔۔ "عظیم طارق کا جب قتل ہوا تو اس کے گھر میں الطاف حسین کے پیروں کے نشان بنے ہوئے تھے خون سے۔۔۔" اور لوگ ایسی باتوں پر یقین بھی کرتے تھے۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
آفاق احمد سے کچھ یاد آگیا مجھے۔ الطاف کے مقابلے میں آفاق احمد بہت منکسر المزاج اور بہت سادہ آدمی ہے۔ ڈرامے باز نہیں ہے۔ ڈرتا ورتا نہیں ہے۔ ابھی رہا ہونے کے بعد واپس لانڈھی چلا گیا تھا عجیب درویش آدمی ہے اور پیر صاحب لنڈن کے ایسے ہوئے کہ واپسی کا نام تک نہیں۔ واپسی کے لیے کارکنوں سے اس انداز میں اجازت مانگتے ہیں کہ کارکن ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتے ہوئے "نہیں بھائی نہیں بھائی" کہہ دیتے ہیں :censored: ایسے ہی جیسے اسکول میں کسی کو کوئی سوال نہیں آتا تو ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ دیکھ کے ڈر ڈر کے جواب دیتے ہیں :D۔۔۔

آفاق احمد سے میری پہلی ملاقات 12، 13 سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ ہم حقیقی کے ہیڈ کوارٹر سے تھوڑی دور رہتے تھے، اور وہ اکیلا اپنی گاڑی میں گھومتا رہتا تھا بغیر سیکیورٹی کے۔ خریداری بھی اکیلے کرتا تھا۔ 2 دفعہ میری اس سے ملاقات ایک دوکان پر ہوئی اور وہ جوان کا بچہ تنِ تنہا گھوم رہا تھا۔۔۔ جمعے کی نماز میں 2 گارڈز کے ساتھ آتا تھا اے کے 47 کے ساتھ۔ ایک وائٹ مرگلہ تھی اس کے پاس اور ایک بڑی والی فل سائز پجیرو۔۔۔
میں 1990-91 میں اسکول جاتا تھا تو بیت الحمزہ کے کمپاؤنڈ میں سے گزر کر جاتا تھا۔۔ بڑا سنہرا دور تھا وہ کراچی بہت خوبصورت ہوا کرتا تھا صاف ستھرا۔ پارکس ہوتے تھے، مرکری بلب لگے ہوتے تھے ہر گلی میں۔۔ہر دیوار پر تازہ تازہ سفیدی اور اس پر خون کے رنگ سے جوشیلے نعرے۔ حقیقی والوں نے ہمارے علاقے کے ہر پارک کو پھولوں سے بھر دیا تھا، اور ایسا ہی الطاف والوں نے اپنے اپنے علاقوں میں کیا تھا۔ الطاف نے تو کراچی میں صفائی مہم شروع کی تھی اپنے ہاتھ سے جھاڑو لگا کر۔۔۔ پھر پتا نہیں کیا ہوا، ہم اسکول جاتے تھے تو گولیوں برس رہی ہوتی تھیں، گاڑیاں literally راستے میں دسیوں کی تعداد یں جل رہی ہوتی تھیں۔ ہم حقیقی کے علاقے سے نکل کر ایم کیو ایم کے علاقے میں اسکول جاتے تھے۔ روز رات کو گولیوں کی تڑتڑاہٹ آتی تھی تو ہم کہتے تھے بیت الحمزہ پر اسلحہ چیک کر رہے ہونگے۔ نعیم شری، فہیم کمانڈو، فہیم کن کٹا ایسے نام اور ان سے متعلقہ دیومالائی کہانیاں اسکول کی وین میں ایک دوسرے کو مرچ مسالہ لگا کر سناتے تھے۔ کوئی بچہ کسی کو بتاتا تھا کہ میرے گھر کے سامنے فائرنگ ہوئی تھی میں نے دیکھی تو سب اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ واہ تم نے تو فائرنگ دیکھی۔۔۔۔

پھر پھولوں کے بجائے کراچی کے پارکس اور گلیاں گولیوں کے خولوں سے بھر گئے۔۔۔ گھروں، دروازوں اور دکانوں کے شٹروں میں گولیوں کے سوراخ بکثرت پائے جانے لگے۔ ہمارے محلے میں ایک فیملی پوری کی پوری حقیقی میں تھی۔ ان کا سب سے بڑا لڑکا اکثر روپوش ہوجاتا تھا۔ ان کا سب سے چھوٹا لڑکا ایک دن رات میں آیا اور مجھے اور دو تین لڑکوں کو بلا کر ٹی ٹی دکھانے لگا کہ میں گھر سے لایا ہوں، اس کی عمر اس وقت کوئی 11-12 سال ہوگی بمشکل۔۔۔اس میں گولیاں بھی تھیں!
 

شمشاد

لائبریرین
امین بھائی اور تو آپ کی سب باتیں ٹھیک ہیں لیکن یہ

۔۔۔ان کا سب سے چھوٹا لڑکا ایک دن رات میں آیا اور مجھے اور دو تین لڑکوں کو بلا کر ٹی ٹی دکھانے لگا کہ میں گھر سے لایا ہوں، اس کی عمر اس وقت کوئی ۔۔۔

یہ کیسے ہوتا ہے؟
 
میری زندگی کے اپتدائی پانچ چھ سال کراچی میں گذرے ہیں (وہیں میری ولادت بھی ہوئی)۔۔کافی چیزیں یاد ہیں اس وقت کے خوبصورت، پرامن اور روشنیوں کے شہر کراچی کی۔۔۔
وہ دن گذر گئے وہ زمانے گذر گئے
 
میرے برادرِ عزیز، شناخت لوگوں کی ذاتی چیز ہوتی ہے جس سے وہ اپنی وابستگی محسوس کرتے ہیں۔ اگر ایک شخص کے نزدیک اُس کی نسلی شناخت مہاجر ہی ہے، تو یہاں آپ کے ماننے اور نہ ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ذاتی شناخت کا فیصلہ دوسرے لوگ نہیں کرتے، بلکہ انسان اپنی ذاتی حیثیت میں خود کرتا ہے۔
میں خود مہاجر نہیں کہلانا چاہتا (حالانکہ میرے والد کی پیدائش آلہ آباد ، اتر پردیش اور والدہ کی مظفر نگر ، اتر پردیش کی تھی) میں تو سندھ میں پیدا ہوا میں خود کو (نیا نا پرانا بس )پاکستانی سندھی کہلوانا چاہتا ہوں میں کیا کروں؟ ہاں میرے والدین مہاجر تھے لیکن میں تو اس زمین کا بیٹا ہوں! میری شناخت تو یہ زمین ہے ! مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ مجھے شائید پہلے تو سندھی سمجھ لیا جاتا لیکن اب نا ممکن ہے اب مجھے زبردستی کیوں مہاجر بنایا جارہا ہے؟
 
ویسے تو یہ بے کار کی بحث ہے لیکن اتنا ضرور عرض کروں گا کہ سندھ میں اردو بولنے والے لوگوں کی اپنی ایک شناخت ہے (چاہے اُن کا سیاسی قبلہ کچھ بھی ہو)۔ عرصہ دراز سے ان لوگوں کے لئے مہاجر کا لفظ استعمال ہو رہا ہے۔

شروع میں یہ لفظ اپنے اصل (لغوی) معنوں میں اُن لوگوں کے لئے استعمال ہوا جو ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرکے آئے۔ پھر یہ لفظ مہاجروں نے اپنے لئے کم اور دوسروں نے اُن کے لئے زیادہ استعمال کیا (تاکہ وہ خود میں اور نوواردان میں تفریق کر سکیں)۔ اور اس بنا پر سندھ میں دو مخلتف طبقات وجود میں آئے ایک پرانے رہائشی جو سندھی کہلاتے تھے اور دوسرے ہجرت کرکے آنے والے جو مہاجر کہلائے۔۔۔ ! پنجاب میں آنے والے اس ثقافت میں ضم ہو گئے کہ غالباً اُن کو دوستانہ ماحول ملا۔

سندھ میں ماحول بہت مختلف تھا۔۔۔ ! یہاں اردو بولنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اُنہیں "پناہ گیر " ، "مکڑ" اور دیگر مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا۔ یہاں آج بھی قوم پرست جماعتیں موجود ہیں جن کے وجود سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ ان جماعتوں سے وابستہ لوگ مہاجر دشمنی میں پیش پیش رہے اور ان لوگوں نے اردو بولنے والوں پر قیدِ حیات تنگ کرکے اُنہیں اس قدر مجبور کردیا کہ وہ ردِ عمل میں جنگ و جدل پر مجبور ہو گئے ( کیونکہ قانون اور حکومتیں کبھی مظلوم کو انصاف نہیں دے سکیں)۔ برسوں یہ سب معاملات ہوتے رہے یہاں تک کے اردو بولنے والے (چاہے وہ ہجرت کر کے آئے ہوں یا پاکستان میں ہی پیدا ہوئے ہوں) ذہنی طور پر یہ ماننے کو تیار ہوگئے کہ وہ کبھی سندھی قوم میں ضم نہیں ہوسکیں گے سو اُنہوں نے خود کو مہاجر سمجھنا اور کہنا شروع کردیا۔

میرا تعلق سندھ کے اردو بولنے والے گھرانے سے ہے۔ اب میرا شعر دیکھیے:

رہی ہجرت سدا منسوب مجھ سے​
وطن میں ہو کہ احمد بے وطن ہوں​

سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ایک شکوہ ہے اس کا پس منظر بھی فہمِ رسا رکھنے والوں سے مخفی نہیں ہے۔

آپ یقین کیجے آج بھی جب میں کسی سندھی بولنے والے شخص کی دریافت پر بتاتا ہوں کہ میں "سندھی" ہوں تو مجھے طرح طرح کے سوالات کے جواب دینے پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے تو گفتگو اردو سے سندھی زبان میں چلی جاتی ہے۔ پھر مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ "کاتھے ویٹھا ہے" (یعنی میں سندھ میں کہاں کا ہوں)۔ پھر بھی اگر میں اپنے سندھی ہونے پر اصرار کروں تو مجھ سے سندھی کے مشکل مشکل لفظ پوچھے جاتے ہیں۔ مثلاً سندھی میں لفظ "بارات" اور "مینڈک" کے لئے جو لفظ ادا کیے جاتے ہیں (جن کی ادائیگی غیر سندھی لوگوں کے لئے دشوار ہوتی ہے) پوچھے جاتے ہیں۔ میں تھوڑی بہت سندھی جانتا ہوں تاہم اِن مشکل الفاظ کی ادائیگی میرے لئے دشوار ہے۔

اگر میں ان سے یہ کہوں کہ چونکہ میں سندھ میں رہتا ہوں، یہاں پیدا ہوا یہاں پلا بڑھا ہوں تو اس لئے "میں سندھی ہوں" تو میرا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔

اب برسوں گزر جانے کے بعد لفظ "مہاجر" جو کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں اور اُن کی اولادوں کے لئے استعمال ہوتا آ رہا ہے اور اسے خود مہاجر اپنے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور دیگر زبان بولنے والے بھی ان کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اب یہ ایک روایت بن گئی ہے، سو اب اس بات پر معترض ہونا سمجھ نہیں آتا۔

ہر لفظ کے لغوی معنی ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی لغوی معنی پیچھے بھی رہ جاتے ہیں جیسے ہم آج بھی "قیس" کا لفظ کاکلِ عشق کے اسیروں کے لئے اور "ہٹلر" کا لفظ "ہٹ دھرم" لوگوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کبھی لفظ "مدینہ" صرف "شہر" کے لئے استعمال ہوتا تھا لیکن آج اس لفظ کی قسمت میں ایسی محبتیں اور عقیدتیں ہیں جو کبھی لفظ "شہر" کے لئے سوچی بھی نہیں جا سکتیں۔

محفلین سے سوال یہ ہے کہ اس قسم کی بحث سے حاصل کیا ہے؟

اور آخر میں ایک تجویز اور یہ کہ اگر تمام سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ، مہاجر اور دیگر قومیں اپنے لئے "پاکستانی" کی اصطلاح استعمال کریں تو اس طرح کی غیر ضروری بحث و مباحثے سے جان چھوٹ جائے گی اور پاکستانیوں میں اتحاد اور یگانگت کی فضا ہموار ہو سکے گی۔
ایک اور لفظ ہے جو اُونٹ کے لئے استعمال ہوتا ہے جسکی ادائیگی غیر سندھیوں کے لئے بہت مشکل ہے۔
میں آپکی بات سے سو فیصد متفق ہوں شناخت اگر درکار ہو تو صرف علاقے سے ہونی چاہئے لسانی بنیاد پرتو ہرگز نہیں۔
میرا تعلق سکھر سے ہے، سکھر شہر میں بیشتر کاروبار اردو اور پنجابی بولنے والوں کے ہاتھ میں ہے لیکن انتظامیہ اور حکومتی امور میں سندھی بولنے والے زیادہ ہیں ، وہاں بہت مسائل خصوصاً 90 کی دھائی میں ہوئے لیکن پھر بھی سب مل کر رہتے ہیں، وہاں کا ایم این اے نعمان اسلام االدین شیخ اردو بولنے والا ہے اور پی پی پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوتا ہے اسکا پیو اسلام الدین شیخ بھی سنیٹر ہے اور ضیا کی باقیات میں سے ہے لیکن اب پی پی پی میں ہے اور ایم پی اے کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔ وہاں سندھی مہاجر فساد کبھی اس پیمانے پر نہیں ہوئے جتنے دوسرے شہروں میں ہوئے کیونکہ وہاں کے لوگ جانتے ہیں کہ نا اردو اور پنجابی بولنے والے کہیں جاسکتے ہیں نا ہم رہنا ساتھ ہی ہے اب چاہے خون خرابے یا دنگا فساد سے رہو یا پیار محبت سے رہو۔۔ اور تو اور اب آپس میں اتنی رشتہ داریاں ہوچکی ہیں کہ دوسری مکس نسل اب دادادادی بن چکی ہے۔۔ میرے والد کے دوست آلہ آباد سےتھے اردو بولنے والے انکی بیگم سندھی، لاڑکانہ سے تھیں اس پوری فیملی کو بمعہ چار جوان بچوں سمیت پنجرہ پول حیدرآباد سے 1989ء میں دربدر کردیا گیا تھا کیونکہ بچے سندھی لہجے میں بات کرتے تھے، وہ بیچارے لاڑکانہ بھی اسی ڈر سے نہیں گئے کہ پتا نہیں وہاں ہمیں اپنے ابا کی وجہ سے کوئی نقصان نا پہنچے، لیکن وہ سکھر میں خوش و خرم سیٹ ہوگئے ۔۔
 
ایسا بندہ کہاں سے لاؤں؟:( اس کو بنانے والی ڈائی بھی پکھلا دی انہوں نے کہ دوسرا کوئی نا بنا سکے :rolleyes: اس کام کے لیے 4 بندے مکس کرنے پڑیں گے ۔ مسٹر بین +ایمن الظوہری - عامر لیاقت اور چنکیا :cautious:
عامر لیاقت کی جگہ طاہر القادری کو لے لیں بہت زبردست اور ڈھیٹ چیز بن جائے گی
 

شمشاد

لائبریرین
اسد بھائی یہ سیدھی سادی باتیں اُن کے سمجھ میں نہیں آ سکتیں جنہوں نے دھونس دھاندلی اور گولی کی سیاست کرنی ہے۔
 
Top