فخر اس ہنر میں کب سے کمال رکھتا ہے
آنکھ میں نیند نہیں، خواب پال رکھتا ہے

ہم نے چاہا ہے انہیں ، ان کو اس سے کیا مطلب
وہ تو باتوں سے ہمیں خوب ٹال رکھتا ہے

کس طرح دردِ دل چہرے سے عیاں ہو تیرا
کہ تُو غم میں بھی تبسم بحال رکھتا ہے

ایک فرقہ ہے مکمل ہمارے یاروں کا
جان سے بڑھ کے ہمارا خیال رکھتا ہے

تیرا ہر زخم یار شہد سے بھی میٹھا ہے
اس لیے فخر تیرے غم سنبھال رکھتا ہے

کیا کروں شمع دل کا، بجھا نہ دوں اس کو؟
فخر جس دل میں صنم کے خیال رکھتا ہے
 
فخر اس ہنر میں کب سے کمال رکھتا ہے
اپنی آنکھوں میں ترے خواب پال رکھتا ہے

ہم جسے چاہتے ہیں بے پناہ محبت میں
وہ تو باتوں سے ہمیں خوب ٹال رکھتا ہے

سخن ور نام سے ہی یکتا جانتے ہیں ابھی
فخر تو عادتیں بھی بے مثال رکھتا ہے

ایک فرقہ ہے مکمل ہمارے یاروں کا
جان سے بڑھ کے ہمارا خیال رکھتا ہے

تیرا ہر زخم یار شہد سے بھی میٹھا ہے
اس لیے فخر تیرے غم سنبھال رکھتا ہے

کیا کروں شمع دل کا، بجھا نہ دوں اس کو؟
فخر جس دل میں صنم کے خیال رکھتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
تھوڑی تقطیع کرنی سیکھیں تو بہتر شاعری کر سکتے ہیں۔ کچھ موزونیت تو پائی جاتی ہے طبیعت میں، اس لئے امید ہے کہ جلد ہی اچھی شاعری کرنے لگیں گے۔
اس غزل میں ردیف پال رکھا ہے، مفاعلن فعلن کے اراکین پر ختم ہو رہی ہے، جسے مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فعلن کے افاعیل والی بحر کے ارکان ہونا چاہئے تھے، لیکن ہر مصرعے کے شروع کے الفاظ فاعلاتن فَعِلاتن سے شروع ہو رہے ہیں، جو ایک دوسری بحر ہے، اور جو فعلاتن فعلن پر ختم ہوتی ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بحر کی پابند شاعری کے لیے پہلے بحور سے آشنائی پیدا کیجیے پھر سالم بحروں پر طبع آزمائی کیجیے ۔اور اس طرح آگے بڑھیے ۔
 
Top