فراز اس دورِ بے جنوں کی کہانی۔۔۔۔۔۔احمد فراز

زرقا مفتی

محفلین
اس دورِ بے جنوں کی کہانی کوئی لکھو
جسموں کو برف، خون کو پانی کوئی لکھو

کوئی کہو کہ ہاتھ قلم کس طرح ہوئے
کیوں رک گئی قلم کی روانی کوئی لکھو

کیوں اہلِ شوق سر بگریباں ہیں دوستو
کیوں خوں بہ دل ہے عہدِ جوانی کوئی لکھو

کیوں سرمہ در گلو ہے ہر اک طائرِ سخن
کیوں گلستاں قفس کا ہے ثانی کوئی لکھو

ہاں تازہ سانحوں کا کرے کون انتظار
ہاں دل کی واردات پرانی کوئی لکھو

احمد فراز؃
 

زونی

محفلین
فراز صاحب کی ایک نظم پیش کرتی ہوں،



خواب مرتے نہیں
خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیگے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جائینگے
خواب مرتے نہیں
خواب تو روشنی ہیں نوا ہیں ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظلم کے دوزخوں سے بھی پھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ہوا کے عالم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں
خوان تو حرف ہیں
خواب تو نور ہیں
خواب تو سقراط ہیں
خواب منصور ہیں

(احمد فراز)
 
واقعی فراز کی نظم اور غزل دونوں اچھی ہیں۔

فراز کا نیا کلام حالات کی مناسبت سے ضرور پیش کرنا چاہیے کیونکہ فراز کے قلم میں وہ کاٹ ہے جو دل تک اترتی ہے۔
 

حسن علوی

محفلین
زرقا بہت ہی اعلٰی نظم لکھی ہے آپ نے فراز کی، ان حالات کے پیشِ نظر، جن سے اس وقت پاکستانی قوم نبردآزما ھے، اسکی اہمیت اور بھی موزوں ھے۔ کاش ایسی ہی کوئی کاوش ہماری قوم کی آنکھیں کھولنے کا باعث ہو جائے۔
 
Top