"اسے دفنا کے بیٹھے ہیں" -------- (نظم) ----- شعیب صدیقی

مغزل

محفلین
"اسے دفنا کے بیٹھے ہیں"

اسے اب بھول ہی جائیں
جسے ہم چھوڑ کر پیچھے
بہت آگے نکل آئے

بہت آگے نکل آئے
کہ ہم کو دور جانا تھا

کہ وہ اک ناتواں لڑکی
وہ بھائی، باپ کی غیرت
وہ دل ہاری ہوئی لڑکی
بہت فرسودہ رسموں کی
وہ اک ماری ہوئی لڑکی

جسے ہم چھوڑ کر پیچھے
بہت آگے نکل آئے

سنا ہے خون روتی ہے
ابھی تک یاد کرتی ہے
ہماری یاد میں اب تک
بہت فریاد کرتی ہے

مگر اب کیا کرے کوئی
کہ دل کو کر چکے پتھر
بہت آسودہ رہتے ہیں

ہم اس کے پیار کی باتیں
نہ سنتے ہیں نہ کہتے ہیں

کہ ان باتوں سے کیا حاصل
بدن کے مقبرے میں ہم
اسے دفنا کے بیٹھے ہیں
جسے تم روح کہتے ہو

شعیب صدیقی (ٹورانٹو )
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرا خیال ہے یہ نظم کینڈا میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی ایک پاکستانی لڑکی کے بارے میں ہے۔ بہت شکریہ محمود صاحب!
 
Top