ارضِ وطَن کو پھر سے لہُو کا خراج دو ۔ فاتح الدین بشیر

فاتح

لائبریرین
ماہِ آزادی کے حوالے سے میری ایک پرانی غزل جو کئی سال پہلے کہی تھی لیکن آج بھی تازہ ہے۔

ارضِ وطَن کو پھر سے لہُو کا خراج دو
قربانیوں کی رسم کو پھر سے رِواج دو

ظلمت کی بادِ تیز سے جو سرنگوں نہ ہو
طاقِ وطن کو ایسا کوئی اب سراج دو

گر "کَل" سنوارنی ہے تمہیں ارضِ پاک کی
مقتل میں وقت کے یہ ضروری ہے "آج" دو

ماں سر برہنہ ہوتی چلی جا رہی ہے پھر
بیٹے ہو اس کے چاہئے عظمت کا تاج دو

دھرتی کی گود میں جو پلے ہو تو اب بشیر
قرضِ وفا بھی تم مع سود و بیاج دو
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ فاتح صاحب، کیا خوب کلام ہے

ارضِ وطن کو پھر سے لہو کا خراج دو
قربانیوں کی رسم کو پھر سے رِواج دو

دھرتی کی گود میں جو پلے ہو تو اب بشیر
قرضِ وفا بھی تم مع سود و بیاج دو

سبحان اللہ، سبحان اللہ۔

۔
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ فاتح صاحب، کیا خوب کلام ہے

ارضِ وطن کو پھر سے لہو کا خراج دو
قربانیوں کی رسم کو پھر سے رِواج دو

دھرتی کی گود میں جو پلے ہو تو اب بشیر
قرضِ وفا بھی تم مع سود و بیاج دو

سبحان اللہ، سبحان اللہ۔

نوازش ہے آپ کی حضور!
 

فاتح

لائبریرین
میں آج کے خوبصورت دن کے حوالے سے اپنی یہ نظم ڈھونڈ رہا تھا کہ محفل پر ارسال کروں لیکن مجھے اپنے کمپیوٹر میں نہ مل سکی تو گوگل سے رابطہ کیا اور گوگل نے محفل کے ہی اس دھاگے کا ربط دے دیا۔ اب دوبارہ تو ارسال کر نہیں سکتا لیکن بہرحال جذبات اب بھی وہی ہیں جو برسوں پہلے یہ نظم لکھتے ہوئے تھے۔
 
Top