اردو کے کچھ الفاظ سے متعلق مدد چاہئے

السلام علیکم،

ایک مسئلہ درپیش تھا نیچے دئیے گئے اِن الفاظ کے صحیح ہجے معلوم کرنے ہیں

لئے، لیے، لیئے
کیے، کئے، کیئے
دیئے،
 

الف عین

لائبریرین
درست تو یوں ہے کہ ’لینا‘ سے مشتق اگر لفظ ہے تو درست ’لیے‘ ہے ورنہ ’لئے‘۔ لیئے، لئیےوغیرہ غلط املا ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ غلط العوام اور غلط العام ہونے کے باعث میں پروف ریڈنگ میں ر ہجے کو درست مان لیتا ہوں، خواہ مخواہ اپنا کام بڑھانا پسند نہیں کرتا!!
 
ن

نامعلوم اول

مہمان

درست تو یوں ہے کہ ’لینا‘ سے مشتق اگر لفظ ہے تو درست ’لیے‘ ہے ورنہ ’لئے‘۔ لیئے، لئیےوغیرہ غلط املا ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ غلط العوام اور غلط العام ہونے کے باعث میں پروف ریڈنگ میں ر ہجے کو درست مان لیتا ہوں، خواہ مخواہ اپنا کام بڑھانا پسند نہیں کرتا!!
سو فیصد متفق۔
 
درست تو یوں ہے کہ ’لینا‘ سے مشتق اگر لفظ ہے تو درست ’لیے‘ ہے ورنہ ’لئے‘۔ لیئے، لئیےوغیرہ غلط املا ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ غلط العوام اور غلط العام ہونے کے باعث میں پروف ریڈنگ میں ہجے کو درست مان لیتا ہوں، خواہ مخواہ اپنا کام بڑھانا پسند نہیں کرتا!!
میں بھی پروف ریڈنگ میں ہی پھنسا بیٹھا ہوں، پہلے لفظ لیئے استعمال ہوا پھر لیے کی تصحیح ہوئی اور میں لیے، لئے اور لیئے کو لے کر کنفیوز۔
یعنی اگر ہم کہیں کہ "اسکولوں کے لئے" تو اس میں آپ کہتے ہیں کہ لئے ہی بہتر ہے۔ متذبذب اس لئے تھا کہ لفظ گئے میں ہم ہجے استعمال کرتے ہیں گ کے ساتھ تو وہ گئے کی آواز نکالتا ہے جب کہ یہاں کئے اور گئے میں کافی فرق ہے صوتی لحاظ سے۔

ایک بات اور یہ جملہ دیکھیں " اب تو خواہشیں بھی آپ نے مانگ لی" یہاں لی آئے گا یا لیں، اور دیکھنے میں لیں جچ نہیں رہا کچھ۔ اور "آپ میٹھے میں کیا لیں گے"
کاشف عمران
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
میں بھی پروف ریڈنگ میں ہی پھنسا بیٹھا ہوں، پہلے لفظ لیئے استعمال ہوا پھر لیے کی تصحیح ہوئی اور میں لیے، لئے اور لیئے کو لے کر کنفیوز۔
یعنی اگر ہم کہیں کہ "اسکولوں کے لئے" تو اس میں آپ کہتے ہیں کہ لئے ہی بہتر ہے۔ متذبذب اس لئے تھا کہ لفظ گئے میں ہم ہجے استعمال کرتے ہیں گ کے ساتھ تو وہ گئے کی آواز نکالتا ہے جب کہ یہاں کئے اور گئے میں کافی فرق ہے صوتی لحاظ سے۔

ایک بات اور یہ جملہ دیکھیں " اب تو خواہشیں بھی آپ نے مانگ لی" یہاں لی آئے گا یا لیں، اور دیکھنے میں لیں جچ نہیں رہا کچھ۔ اور "آپ میٹھے میں کیا لیں گے"
کاشف عمران

میں زیرِ نظر الفاظ اور جملوں کو یوں لکھوں گا: لیے - گئے - خواہشیں مانگ لیں - آپ میٹھے میں کیا لیں گے۔
 
اب تک کے مشاہدے سے یہ سمجھ آیا کہ "لیے" اور "لئے" دو الگ الگ الفاظ ہیں۔ جیسے ہمارے محترم الف عین صاحب نے کہا کہ اگر لین دین سے لیا ہے تو لفظ ہو گا "لیے" اور اگر واسطے، برائے، یا انگریزی میں فار کے لئے استعمال ہوا ہے تو لفظ ہو گا "لئے"

پر یہاں تشنگی باقی ہے۔

جملہ: "آپ نے تو ساری خواہشیں ایک ساتھ مانگ لیں" اگر ایسا جملہ ہو تو کیا کیا جائے؟
یا ایسے جملے ہمیشہ زمانے کے ساتھ لکھے جائیں " آپ نے تو ساری خوہشیں ایک ساتھ مانگ لی ہیں"
کاشف عمران
 

قیصرانی

لائبریرین
اب تک کے مشاہدے سے یہ سمجھ آیا کہ "لیے" اور "لئے" دو الگ الگ الفاظ ہیں۔ جیسے ہمارے محترم الف عین صاحب نے کہا کہ اگر لین دین سے لیا ہے تو لفظ ہو گا "لیے" اور اگر واسطے، برائے، یا انگریزی میں فار کے لئے استعمال ہوا ہے تو لفظ ہو گا "لئے"

پر یہاں تشنگی باقی ہے۔

جملہ: "آپ نے تو ساری خواہشیں ایک ساتھ مانگ لیں" اگر ایسا جملہ ہو تو کیا کیا جائے؟
یا ایسے جملے ہمیشہ زمانے کے ساتھ لکھے جائیں " آپ نے تو ساری خوہشیں ایک ساتھ مانگ لی ہیں"
کاشف عمران
اگر لین دین کی بات ہے تو لیے لکھیئے۔ اگر فقرہ کچھ ایسے ہے کہ اس لئے میں چھٹی پر ہوں
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
اب تک کے مشاہدے سے یہ سمجھ آیا کہ "لیے" اور "لئے" دو الگ الگ الفاظ ہیں۔ جیسے ہمارے محترم الف عین صاحب نے کہا کہ اگر لین دین سے لیا ہے تو لفظ ہو گا "لیے" اور اگر واسطے، برائے، یا انگریزی میں فار کے لئے استعمال ہوا ہے تو لفظ ہو گا "لئے"

پر یہاں تشنگی باقی ہے۔

جملہ: "آپ نے تو ساری خواہشیں ایک ساتھ مانگ لیں" اگر ایسا جملہ ہو تو کیا کیا جائے؟
یا ایسے جملے ہمیشہ زمانے کے ساتھ لکھے جائیں " آپ نے تو ساری خوہشیں ایک ساتھ مانگ لی ہیں"
کاشف عمران

دونوں صورتیں درست ہیں اور تقریبا ہم معنی۔ مگر دونوں میں ایک باریک سا معنوی فرق بھی ہے۔ جملے کے آخر میں "ہیں"لگنے سے ذکر کردہ امر کے لمحہءِ موجودہ میں حاضر ہونے کی طرف اشارہ زیادہ پُرزور ہے۔ اس معمولی فرق کے باوجود، موقعے کی مناسبت سے دونوں صورتوں کا ایک دوسرے کا متبادل ہونا سامنے کی بات ہے۔ مگر لازم نہیں کہ ہمیشہ ایسا ہی ہو۔ درج ذیل دو مثالوں میں دونوں صورتیں ایک دوسرے کا متبادل نہیں:

1۔ میں نے ضد کی تو انھوں نے میری ساری باتیں مان لیں۔
2۔ لگتا ہے کہ انھوں نے میری ساری باتیں مان لی ہیں۔

یہ دو مثالیں میری "لمحہءِ موجودہ" والی بات کو زیادہ اچھی طرح واضح کرتی ہیں۔ پہلے جملے میں ماضی کا ذکر تھا تو "ہیں" نہ آیا، دوسرے میں حال کی بات ہے تو "ہیں" لکھا گیا۔
 
میں بھی پروف ریڈنگ میں ہی پھنسا بیٹھا ہوں، پہلے لفظ لیئے استعمال ہوا پھر لیے کی تصحیح ہوئی اور میں​
لیے​
، ل​
ئے​
اور​
لیئے​
کو لے کر کنفیوز۔​
یعنی اگر ہم کہیں کہ "اسکولوں کے​
لئے​
" تو اس میں آپ کہتے ہیں کہ​
لئے​
ہی بہتر ہے۔ متذبذب اس لئے تھا کہ لفظ​
گئے​
میں ہم ہجے استعمال کرتے ہیں گ کے ساتھ تو وہ گئے کی آواز نکالتا ہے جب کہ یہاں​
کئے​
اور​
گئے​
میں کافی فرق ہے صوتی لحاظ سے۔​

خود کو الجھنے سے بچائیے جناب امجد میانداد صاحب۔
’’کئے‘‘ اور ’’گئے‘‘ میں فرق صرف زیر اور زبر کا ہے، جہاں ناگزیر ہو اعراب لگا دیجئے، مسئلہ حل!
’’میں‘‘ (حرف جار) اور ’’میں‘‘ (اسمِ ضمیر) میں بھی تو اول کی یاے مجہول ہے اور دوسرے کی یاے لین ہے، یعنی ماقبل پر زبر۔

رہا مسئلہ ہجوں کا۔ ’’لئے، دئے، کئے، جئے‘‘ اور ’’لیے، دیے، کیے، جیے‘‘ ہر دو طرح درست ہیں جیسا جناب الف عین نے کہا۔ اِن دو سے ہٹ کے کوئی ہجے قبول نہ کیجئے، بس!
 
ایک ہی املاء کا حامل لفظ ایک سے زیادہ معانی بھی تو دیتا ہے یا دے سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر معنی کے لئے اس کی املاء بھی بدلی جائے گی۔ پھر یہ بھی تو ہے، کہ شعر یا نثر میں ہم ایک اکیلا لفظ تو نہیں لکھتے، مصرع یا جملہ ہوتا ہے، گفتگو میں بھی اور تحریر میں بھی لفظ اپنے سیاق و سباق کے ساتھ آتا ہے، یہی سیاق و سباق معانی کا تعین کرتے ہیں۔

ایک مثال دیکھئے: ’’مجھے ابھی کھانا کھانا ہے‘‘۔ اس میں پہلا ’’کھانا‘‘ اسم ہے اور دوسرا فعل ہے۔
’’تم نے دو تولئے کس لئے لئے؟‘‘ مجھے تو یہاں کوئی الجھن نہیں ہو رہی۔ پہلے ہے ’’کس لئے‘‘ (استفہام)، اور دوسرا ہے ’’لئے‘‘ لینا سے ماضی مطلق بہ مطابق فاعل یا مفعول۔

لفظ کو ڈیفائن کرنے کی ضرورت ہو تو وہاں ہوتی ہے، جہاں وہ اکیلا واقع ہو، جیسے لغات میں ہوتا ہے۔ وہاں اس کا تلفظ، ہجے، معانی، حیثیت (اسم، فعل، حرف)، عدد معدود، تذکیر و تانیث، اصل و وضع جو کچھ بھی بیان کیا جا سکے بہتر ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک ہی املاء کا حامل لفظ ایک سے زیادہ معانی بھی تو دیتا ہے یا دے سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر معنی کے لئے اس کی املاء بھی بدلی جائے گی۔ پھر یہ بھی تو ہے، کہ شعر یا نثر میں ہم ایک اکیلا لفظ تو نہیں لکھتے، مصرع یا جملہ ہوتا ہے، گفتگو میں بھی اور تحریر میں بھی لفظ اپنے سیاق و سباق کے ساتھ آتا ہے، یہی سیاق و سباق معانی کا تعین کرتے ہیں۔

ایک مثال دیکھئے: ’’مجھے اپنی کھانا کھانا ہے‘‘۔ اس میں پہلا ’’کھانا‘‘ اسم ہے اور دوسرا فعل ہے۔
’’تم نے دو تولئے کس لئے لئے؟‘‘ مجھے تو یہاں کوئی الجھن نہیں ہو رہی۔ پہلے ہے ’’کس لئے‘‘ (استفہام)، اور دوسرا ہے ’’لئے‘‘ لینا سے ماضی مطلق بہ مطابق فاعل یا مفعول۔

لفظ کو ڈیفائن کرنے کی ضرورت ہو تو وہاں ہوتی ہے، جہاں وہ اکیلا واقع ہو، جیسے لغات میں ہوتا ہے۔ وہاں اس کا تلفظ، ہجے، معانی، حیثیت (اسم، فعل، حرف)، عدد معدود، تذکیر و تانیث، اصل و وضع جو کچھ بھی بیان کیا جا سکے بہتر ہے۔
تولیہ مصدر ہے نا تو اس سے تولئے کیسے؟ تولیے کیوں نہیں؟ :(
 
نہ ایں ہمہ اگر کہیں کوئی الجھاؤ ہے تو اس کے لفظ کی اصل اور وضع کو دیکھا جائے گا، یہ بہت منطقی سی بات ہے۔ ایک مثال دیکھئے:
’’گزارہ کرو یار، جیسے بھی ہو‘‘ اور ’’تم نے وہ وقت کیسے گزارا؟‘‘
ذال اور زاے کے لحاظ ہے، کوئی اگر یہ کہتا ہے کہ درست لفظ ’’گزارہ‘‘ نہیں ’’گذارا‘‘ ہے تو، یہ بات تو قابل توجہ ہے۔ الف اور ہاے کا فرق ’’گزارا‘‘ اور ’’گزارہ‘‘؟ ’’گزارہ‘‘ اسم اصل کے مطابق ہے تو فارسی قواعد کے مطابق اس میں ہاے ہے، اسی گزاشتن سے ’’گزارنا‘‘ اردو کا مصدر بنا تو اس میں وضع کا عنصر آ گیا، اور مصدر ’’گزارنا‘‘ سے ماضی ’’گزارا‘‘ الف کے ساتھ بنا، جیسے لکھنا سے لکھا (نہ کہ لکھہ)، بولنا سے بولا (نہ کہ بولہ)، چلنا سے چلا (نہ کہ چلہ)۔
 
اعراب کی بھی دیکھ لیجئے۔ ایک سادہ سا جملہ ہے ’’تم نے یہ کیا کیا یار!‘‘ کوئی بھی وضاحت کئے بغیر یہاں بات بالکل صاف ہے کہ پہلا ’’کیا‘‘ استفہامیہ ہے اور اس میں یاے مخلوط ہے (یا جو بھی اس کا اصطلاحی نام ہے)، یہ شعر میں کوئی صوت نہیں رکھتی۔ اور دوسرے ’’کیا‘‘ میں کاف مکسور ہے۔ مصدر ’’کرنا‘‘ سے ماضی کا صیغہ۔

مختصر یہ ہے کہ صاحبو، سادہ کو سادہ رہنے دیجئے، اسی میں سہولت ہے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
لگتا ہے کہ سائل کے ذہن میں کچھ ابہام ہیں، جنکا دور ہونا از بس ضروری ہے۔ آسی صاحب نے ایک نہایت اہم بات کی ہے:

لفظ کو ڈیفائن کرنے کی ضرورت ہو تو وہاں ہوتی ہے، جہاں وہ اکیلا واقع ہو، جیسے لغات میں ہوتا ہے۔ وہاں اس کا تلفظ، ہجے، معانی، حیثیت (اسم، فعل، حرف)، عدد معدود، تذکیر و تانیث، اصل و وضع جو کچھ بھی بیان کیا جا سکے بہتر ہے۔

اصل اصول یہی ہے۔ زبان کوئی ریاضی کا فارمولا تو ہے نہیں جس پر سو فیصد اتفاق ہو سکے۔ چند مبادیات کو چھوڑ کر باقی باتوں پر اختلاف تو رہے گا۔ ایک انگریزی زبان دان کا نام تو نہیں قول یاد آ رہا ہے۔ ترجمہ کیے دیتا ہوں:

"الفاظ کے معانی کا انحصار ان کے استعمال پر ہے۔ مگر یاد رہے کہ الفاظ ایک سیاق و سباق میں استعمال ہوتے ہیں"۔

یہی بات ہے جسے آسی صاحب نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ جہاں کہیں سیاق و سباق، لفظ کو اس کے درست معنی میں بیان کر رہے ہوں، وہاں ان کی اختلافی حیثیت پر بحث کرنا اور کوشش کرنا کہ کوئی متفقہ قاعدہ سامنے آ جائے عبث ہے۔
 
Top