اردو کا آغاز اور ارتقاء

قیصرانی

لائبریرین
زکریا بھائی کیا میرا آخری پیغام وہاں ٹھیک تھا یا اس میں‌کوئی تبدیلی کرنا چاہیں گے؟
بےبی ہاتھی
 
زیف ، محب ، اختر بھائی سب لوگ کہاں‌غائب ہو گئے ہیں‌۔۔۔ کیا یہ بحث‌ آگے نہیں‌بڑھائیں‌گے ،،،قیصرانی تو ویسے بھی آتا ہے تو چپ ہی رہتا ہے ،،،
 

قیصرانی

لائبریرین
شاہد بھائی، میں منتظر ہوں‌کہ آپ لوگ کچھ مزید فرمائیں تو۔ میری معلومات کچھ ہیں، لیکن غیر مصدقہ۔ اور بحث میں تب حصہ لوں جب مجھے کوئی بات آتی ہو۔ :wink:
بےبی ہاتھی
 
شاہد کیونکہ بحث خاصی تحقیق اور مصدقہ حوالہ جات کی متقاضی ہے اس لیے میں بھی انتظار میں تھا کہ زیف یا آپ یا باذوق اسے کچھ اور چلائیں اور میں موقع دیکھتے ہوئے اس میں کودوں۔ :)
آغاز پر فی الحال کچھ خاص‌ذہن میں نہیں اور جو ہے وہ تصدیق کے لائق ہے اس لیے کچھ ارتقا پر بات کرتے ہیں۔

میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میں کچھ جانتا نہیں یا میں اس کا اہل نہیں کہ گفتگو میں حصہ لوں جیسا کہ کچھ اہل لوگ کسرِ نفسی میں حد سے بڑھ جانے پر کرتے ہیں مگر فی الحال میرے پاس وہ حوالہ جات اور کتابیں نہیں جو آغاز پر روشنی ڈال سکیں۔ یہ سب کہہ چکنے کے بعد چونکہ میں اس کا بھی قائل ہوں کہ آپ جتنے اہل ہیں اس پر شکر ادا کریں اور اس کا کم از کم خود سے اعتراف ضرور کریں اس لیے اردو کے ارتقا پر بات کرتا ہوں کہ اس پر بات کرنا فی الوقت میرے لیے زیادہ آسان ہے۔

اردوستان کے بلاگ پر یہ خبر پڑھ رہا تھا تو سوچا کہ آپ لوگوں کے ساتھ بانٹ لوں اور ان لوگوں کے ساتھ بھی جو آنے والے دور میں ہماری پوسٹس کو پڑھیں گے اور سوچ کے کچھ در ان پر بھی وا ہوں گے۔

پولینڈ جو شاید اردو کے لیے کسی زمانے میں قطعی انجان سرزمین ہو اب جانی پہچانی بن رہی ہے اور شاید مستقبل قریب میں وہاں اردو کو آشناؤں کی ایک مکمل کھیپ بھی مل جائے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پولش زبان کا واسطہ سب سے پہلے اردو شاعری سے پڑا ہے یعنی اردو کے خوبصورت ، قوی اور بہترین پہلو سے ۔ اب اردو شاعری میں بھی کسی نوارد یا نوجوان شاعر کے کلام سے نہیں بلکہ خدائے سخن میر تقی میر سے پالا پڑا ہے ۔ ابھی پولش زبان میر تقی میر کی شاعری چکھ ہی رہی تھی کہ مرزا غالب بھی پہنچ گئے پولینڈ تک اپنے “ اور ہی اندازِ بیاں“ کو لے کر ۔

اب ان دو شعرائے معلہ کو پڑھنے کے بعدامید کے ساتھ ساتھ خوش فہمی تو یہی ہے کہ پولش عوام میں اردو کی محبت اور شوق بڑھے گا۔ میں تو یہ پڑھ کر بے انتہا خوش ہوں کہ اردو نے ایک اور زبان میں راستہ بنا لیا ہے اپنی دلکش شاعری کے راستے ۔
 

زیف سید

محفلین
عزیز دوستو:

میرا خیال تھا کہ میں نے اپنے مضامین میں ایک بڑا اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ اردو زبان کے نام کا لشکر سے تعلق نہیں ہے بلکہ چونکہ دہلی شہر کو اردو کہا جاتا تھا اس لیے وہاں بولی جانے والی زبان کا نام اردو پڑ گیا۔ لیکن حیرت ہے کہ ادھر ادھر کی باتیں تو ہو رہی ہیں لیکن موضوعِ زیرِ بحث کی طرف کوئی آتا ہی نہیں۔ لگتا ہے مضمون کسی نے پڑھا ہی نہیں۔ یقیناً قصور میری کڈھب انگریزی کا ہو گا۔

شاید کوئی بندہِ خدا آجائے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں

زیف
 

قیصرانی

لائبریرین
زیف بھائی، آپ کا بیان کردہ نکتہ بہت اہم ہے۔ مگر کیا ہے کہ
اقساط میں بات اردو کے آغاز و ارتقا تک پھیلائی جائے گی۔
نے جذبہ ٹھنڈا کر دیا ہے۔ آپ کچھ آگے بڑھیں‌گے تو قافلہ بنے گا ناں‌:)
دوسرا اسی فورم کے ایک نہایت ہی محترم دوست جناب تفسیر صاحب نے اپنی پوسٹمیں اردو کا ماخذ لشکرکو قرار دیا ہے۔ ابھی اس سلسلے میں کافی الجھن ہے۔ اس کو اگر رفع کر سکیں‌تو۔ آپ دونوں‌دوست نہایت محترم ہیں۔ میں‌کسی کی بات کو جھٹلانے کے حوالے سے نہیں کہ رہا۔ مگر جب ایک ہی وقت میں دو مختلف باتیں ہو رہی‌ ہوں‌تو انہیں‌ سمجھنا ایک عام فہم انسان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
بےبی ہاتھی
 
زیف سید نے کہا:
عزیز دوستو:

میرا خیال تھا کہ میں نے اپنے مضامین میں ایک بڑا اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ اردو زبان کے نام کا لشکر سے تعلق نہیں ہے بلکہ چونکہ دہلی شہر کو اردو کہا جاتا تھا اس لیے وہاں بولی جانے والی زبان کا نام اردو پڑ گیا۔ لیکن حیرت ہے کہ ادھر ادھر کی باتیں تو ہو رہی ہیں لیکن موضوعِ زیرِ بحث کی طرف کوئی آتا ہی نہیں۔ لگتا ہے مضمون کسی نے پڑھا ہی نہیں۔ یقیناً قصور میری کڈھب انگریزی کا ہو گا۔

شاید کوئی بندہِ خدا آجائے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں


زیف

زیف آپ کا نکتہ بہت اہم ہے مگر اس کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے جو فی الوقت میں کرنے سے قاصر ہوں ۔ اس دھاگہ کا عنوان آغاز اور ارتقا ہے ، اس لیے میں نے ارتقا پر بھی بات کی ہے اور میرے خیال میں ارتقا پر بات کرنا آغاز سے بھی زیادہ ضروری ہے ۔ میرا مقصد آغاز کی اہمیت کو کم کرنا نہیں ہے مگر ارتقا پر بات چیت میری ناقص رائے میں زیادہ اہم ہے۔ آپ کا مضمون ابھی میں نہیں پڑھ سکا ، جیسے ہی موقع ملا پڑھتا ہوں مگر اسے اردو میں ڈھالنا بہت ضروری ہے۔

اس دھاگہ پر ہم ملی جلی باتیں کریں گے ، آغاز اور ارتقا دونوں پر ، پھر آغاز اور ارتقا دونوں پر دو علیحدہ دھاگے کھول لیں گے جب مواد بڑھ جائے گا۔
 
زیف آپ نے جو کھڑی بولی کی بابت تحقیق کی ہے کیا اس کو یہاں ہم لوگوں‌سے شیئر نہیں‌کریں‌گے ۔۔ویسے کیا آپ اس بات سے متفق ہیں‌کہ پشاور اور ہزارہ کی ہند کو بولی سے برما کی سرحد پر بولی جانے والی بہاری بولی اور بنگلہ تک تمام بولیاں بشمول پوربی ، دکھنی ، بھوج پوری ، پنجابی ، آسامی ، چھتیس گڑھی ، ہریانوی ، اور دیگر اپنی اصل میں ایک ہی ہیں‌۔۔ ذرا پنجابی کے اس جملے پر غور کیجئے گا ( بھور ویلے قران پڑھو ) اور بنگلہ زبان میں اسی جملے کو دیکھیں‌ (‌بھور بیلا قران پڑھو ) ۔۔میری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ شمالی ہند و پاکستان کی زبان اصل میں‌ایک ہی ہے ۔۔۔ لیکن یہ بات سمجھ میں‌نہیں‌آتی کہ پشتو اور ہندکو اتنے آس پاس رہتے ہوئے اتنا دور کیسے ہو گئیں‌۔۔
 

زیف سید

محفلین
قیصرانی نے کہا:
دوسرا اسی فورم کے ایک نہایت ہی محترم دوست جناب تفسیر صاحب نے اپنی پوسٹمیں اردو کا ماخذ لشکرکو قرار دیا ہے۔ ابھی اس سلسلے میں کافی الجھن ہے۔ اس کو اگر رفع کر سکیں‌تو۔ آپ دونوں‌دوست نہایت محترم ہیں۔ میں‌کسی کی بات کو جھٹلانے کے حوالے سے نہیں کہ رہا۔ مگر جب ایک ہی وقت میں دو مختلف باتیں ہو رہی‌ ہوں‌تو انہیں‌ سمجھنا ایک عام فہم انسان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
بےبی ہاتھی

جناب قیصرانی صاحب:

آپ کی بات (کس پر یقین کیا جائے) اس وقت وزن رکھتی جب تفسیر صاحب اور اس خاکسار نے ایک ایک جملے میں کوئی دعویٰ کیا ہوتا، یعنی کچھ ایسے:

تفسیر: اردو لشکری زبان ہے، لشکریوں کے اختلاط سے وجود میں آئی ہے۔
زیف: اردو لشکری زبان نہیں ہے، بلکہ دہلی شہر کو اردو کہا جاتا تھا، جس کی وجہ سے زبان کا نام پڑ گیا۔
قیصرانی: یا اللہ، کس الجھن میں پڑ گیا ہوں، آگے کنواں، پیچھے کھائی۔ کس کی بات مانوں، کس کو جھٹلا‌‌ؤں۔

ارے حضور، ہم آپ سے ایمان بالغیب کی بات تو کر نہیں‌رہے۔ ہم دونوں نے تفصیلاً مضامین لکھ رکھے ہیں۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ مضامین پڑھ کر فیصلہ کریں، کس کی بات میں وزن ہے، کس کے دلائل بہتر ہیں، کس نے مستند حوالہ جات کی مدد سے بات کی ہے۔ وغیرہ۔

قیصرانی بھائی، کچھ وقت تو صرف کرنا ہی پڑے گا۔

آداب عرض ہے،

زیف
 

قیصرانی

لائبریرین
زیف بھائی، کل میرا کورس کا اختتامی ٹیسٹ ہے۔ اس کے بعد انشاء اللہ لازمی وقت ملے گا اور لازمی ہی میں‌ دونوں‌ مضامین پڑھ کر اپنی رائے دیتا ہوں۔ :)
بےبی ہاتھی
 

زیف سید

محفلین
شاہد احمد خان نے کہا:
زیف آپ نے جو کھڑی بولی کی بابت تحقیق کی ہے کیا اس کو یہاں ہم لوگوں‌سے شیئر نہیں‌کریں‌گے ۔۔

شاہد بھائی: میں نے کھڑی بولی کے حوالے سے ایک زبردست بات کا پتا چلایا ہے۔ میں‌ضرور شیر کروں گا (اور وہ بھی اردو میں، کس واسطے کہ تجربے سے ثابت کیا ہے کہ انگریزی کوئی نہیں‌پڑھتا۔ :cry: ) بس ادھر ذرا امتحانات کی گھنگور گھٹا سر پر تلی کھڑی ہے۔ ذرا یہ ابرِ‌گراں بار کھل جائے تو پھر بات ہو گی۔

والسلام

زیف
 

رضوان

محفلین
زیف سید نے کہا:
شاہد احمد خان نے کہا:
زیف آپ نے جو کھڑی بولی کی بابت تحقیق کی ہے کیا اس کو یہاں ہم لوگوں‌سے شیئر نہیں‌کریں‌گے ۔۔

شاہد بھائی: میں نے کھڑی بولی کے حوالے سے ایک زبردست بات کا پتا چلایا ہے۔ میں‌ضرور شیر کروں گا (اور وہ بھی اردو میں، کس واسطے کہ تجربے سے ثابت کیا ہے کہ انگریزی کوئی نہیں‌پڑھتا۔ :cry: ) بس ادھر ذرا امتحانات کی گھنگور گھٹا سر پر تلی کھڑی ہے۔ ذرا یہ ابرِ‌گراں بار کھل جائے تو پھر بات ہو گی۔

والسلام

زیف
زیف صاحب ،آپ کے منھ میں گھی شکر، جب اردو کی بات ہو تو اردو ہی میں سجتی ہے۔
ایک سوال ہے کہ کیا کھڑی بولی اور بھوجپوری میں بھی کیا کوئی ربط ہے؟ کیا پوربی زبانیں (یا بولیاں) اردو کی ماخذ نہیں ؟
 

باذوق

محفلین
جناب اور صاحب

جناب باذوق صاحب
غلط العام ہے یا غلط العوام ؟
ایک بار بچپن میں، امتحان میں “ سنگِ مرمر کا پتھر“ کی ترکیب استعمال کی تو کافی شاباشی :wink: ملی تھی استاد کی طرف سے ۔۔۔
آداب عرض ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جناب اور صاحب

باذوق نے کہا:
جناب باذوق صاحب
غلط العام ہے یا غلط العوام ؟
ایک بار بچپن میں، امتحان میں “ سنگِ مرمر کا پتھر“ کی ترکیب استعمال کی تو کافی شاباشی :wink: ملی تھی استاد کی طرف سے ۔۔۔
آداب عرض ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا خیال ہے کہ زیف بھائی سے غلطی سے باذوق بھائی کا پیغام اوور رائٹ ہو گیا ہے۔ یعنی اقتباس کی بجائے قطع و برید۔
بےبی ہاتھی
 

تفسیر

محفلین
جناب اور صاحب

قیصرانی نے کہا:
باذوق نے کہا:
جناب باذوق صاحب
غلط العام ہے یا غلط العوام ؟
ایک بار بچپن میں، امتحان میں “ سنگِ مرمر کا پتھر“ کی ترکیب استعمال کی تو کافی شاباشی :wink: ملی تھی استاد کی طرف سے ۔۔۔
آداب عرض ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا خیال ہے کہ زیف بھائی سے غلطی سے باذوق بھائی کا پیغام اوور رائٹ ہو گیا ہے۔ یعنی اقتباس کی بجائے قطع و برید۔
بےبی ہاتھی


قصرانی صاحب

کیونکہ مجھے اپنی ریسریچ کو کاغذ پر مکمل کرنے میں 6 ماہ سے ایک سال لگ جائے گا

اس لیے میں اس بحث میں حصہ نہیں لے سکتا۔ ہاں اردو کو اردو کہنے سے پہلے اسکو دہلی میں ریختہ کہا گیا اس سے پہلے اس کو دکھنی کہا گیا۔ اردو کے اور بھی نام ہیں اور ایک زمانے میں بےنام بھی تھی اور اب بد نام بھی ہے -

ریختہ کہ تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوی میر بھی تھا۔

:roll: :roll: :roll: :roll: :roll:

میری ہر بات کو ایک افسانہ کہیں گے
معلوم ہے مجھ کو سب دیوانہ کہیں ہے

انکھوں میں شرارت، ہونٹوں پر مسکراہٹ
کوئی کچھ بھی کہہ دے اِس کو اترانہ کہیں گے

تفسر :(

(کیوں کہ آپ یہ میری قسط نمبر 5 میں پڑھیں گے اس لئے میں اسکو یہا ں درج کررہا ہوں -

( اگر کسی طرح میں قسط نمبر5 پوسٹ کرسکوں ۔۔۔۔۔ تو وہ ایک دوسری انمول کہانی ہوگئی۔میں نے دوبار آن لائن ایڈیٹنگ کی کوشش کی لیکن آپکی محفل مجھے بتائے بغیر مجھ کو لاگ آوٹ کردیتی ہے - ہر دفعہ مجھے پھر سے ایڈیٹنگ کرنی پڑتی ہے۔ ۔۔۔ میں آپ سے اس کے متعلق علیحدہ سے بات کروں گا اس لنک میں نہیں۔- شیاید آپ کے پاس اس کا جواب موجود ہو۔ )

اسکریپٹ ، املا ، ہجوں اور تلفظ کی غلطیوں کے ساتھ

:chal:

“صوفی بابا فرید کا انتقال١٢٦٤ ہوا - انہیں اردو کی پہلی نظم لکھنا اور اردو میں پہلی گفتگو کرنے کا امتیاز حاصل ہے ۔ یہ اردو کی ابتدا تھی یہ مانا کہ بابا فرید کے زمانے میں اس زبان کا نام اردو نہیں تھا - لیکن یہ زبان فارسی کواور مقامی زبانوں کےجوڑ توڑ سے پیدا ہورہی تھی۔ اس زمانے کے معززین (elite ) فارسی بولتے تھے ، متوسط اور نیچلےطبقے کےلوگ مختلف مقامی زبانیں بولتے تھے -

بابا فریدنے اپنےزمانےمیں ان زبانوں کی جوڑ توڑ شروع کی بابا فرید نے پہلی بار اس زبان کا استعمال صوفی خواجہ برُہان الدین بابا کی ملازمہ پر کیا - ملازمہ کئی مقامی زبان سے واقف تھی اور بابا فرید فارسی کے عالم تھے ، مُقامی زبانوں کوسمجھتے تھے ۔ اس بات کا ہمارے پاس دستاویزی ثبوت موجودہے۔
امیر خسرو (١٢٥٣-١٣٢٨) کومعزز اور نچلےطبقہ کی مختلف زبانوں کو فارسی سےجوڑ نے کا امتیاز اسلےء ملا کہ انہوں نےبابا فرید کے کام کو بےانتہا ترقی دی۔ امیر خسرو کو فارسی کی شاعری میں مہارت تھی وہ اس زبان (اردو) کے ایک عمدہ شاعر ہیں۔ امیر خسرو کے پہلیاں اور گیت آج بھی شوق سے پڑھے جاتے ہیں ۔

ایک گنی نے یہ گن کینا - ہربل پنجرے میں دیدینا
دیکھو جادوگر کا کمال - ڈارے ہرا نکا لے لال


ek guni nay gun keena - Hariyal pinray mein dedeena
Deko jadoogar ka kamal- daray hara nikaalay lal

بالا تھا جب سب کو بھایا - بڑا ہوا کچھو کام نہ آیا
خسرو کیہ دیا اسکا ناؤں - ارتھ کہو نہیں چھاڑو گاوں


Baala tha jab sab ko bhaaya - bada huva kuchu kaam na aaya
Khusrau keh diya uska naav - arth karo nahin chaado gaanv


اللہ حافظ
تفسیر
21 جون ، لاس انجیلس
 

قیصرانی

لائبریرین
جناب اور صاحب

تفسیر نے کہا:
قیصرانی نے کہا:
باذوق نے کہا:
جناب باذوق صاحب
غلط العام ہے یا غلط العوام ؟
ایک بار بچپن میں، امتحان میں “ سنگِ مرمر کا پتھر“ کی ترکیب استعمال کی تو کافی شاباشی :wink: ملی تھی استاد کی طرف سے ۔۔۔
آداب عرض ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا خیال ہے کہ زیف بھائی سے غلطی سے باذوق بھائی کا پیغام اوور رائٹ ہو گیا ہے۔ یعنی اقتباس کی بجائے قطع و برید۔
بےبی ہاتھی

قصرانی صاحب
کیونکہ مجھے اپنی ریسریچ کو کاغذ پر لکھنے میں 6 ماہ سے ایک سال لگے گا - میں اس بحث میں حصہ نہیں لے سکتا۔ ہاں اردو کو اردو کہنے سے پہلے اسکو دہلی میں ریختہ کہا گیا اس سے پہلے اس کو دکھنی کہا گیا۔ اردو کےہ اور بھی نام ہیں اور ایک زمانے میں بے نام بھی تھی اور اب بد نام ہے -

میری ہر بات کو ایک افسانہ کہیں گے
معلوم ہے مجھ کو سب دیوانہ کہیں ہے

انکھوں میں شرارت، ہونٹوں پر مسکراہٹ
کوئی کچھ بھی کہہ دے اس کو اترانہ کہیں گے

تفسر 2001

:(

(یوں کہ آپ میری 5 قسط میں یہ پڑھیں گے میں یہاں اسکو درج کررہا ہوں
( اگر کسی طرح میں پوسٹ کرسکوں ۔۔۔۔۔ وہ ایک دوسری کہانی ہے۔۔۔۔۔ میں نے دوبار آن لائن ایڈیٹنگ کی کوشش کی لیکن آپکی محفل مجھے بتائے مجھ کو لاگ آف کردیتی ہے - ہر دفعہ مجھے شروع سے ایڈیٹنگ کرنی پڑتی ے۔ ۔۔۔ میں آپ سے اس کے متعلق علیحدہ سے بات کروں گا- شیاید آپ کے پاس اس کا جواب موجود ہو۔ اس لنک میں نہیں۔)

اسکریپٹ املا اور ہجوں اور تلفظ کی غلطیوں کے ساتھ
:chal:

“صوفی بابا فرید کا انتقال ١٢٦٤ ہوا انہیں اردو کی پہلی نظم لکھنا کا اور اردو میں پہلی گفتگو کرنے کا امتیاز حاصل ہے ۔ یہ اردو کی ابتدا تھی ہ مانا کہ بابا فرید کے زمانے میں اس زبان کا نام اردو نہیں تھا - لیکن یہ زبان فارسی کو اور مقامی زبانوں کے جوڑ توڑ سے پیدا ہورہی تھی۔ اس زمانے کے معزز (elite ) فارسی بولتے تھے ، متوسط اور نیچلا طبقے کے لوگ مختلیف مقامی زبانیں بولتے تھے - بابا فرید نے زمانے میں ان سب زبانوں کی جوڑ توڑ شروع کی بابا فرید نے اس زبان کو پہلی بار صوفی خواجہ برُہان الدین بابا کی ملازمہ پر کیا - ملازمہ کئی مقامی زبان سے واقف تھی اور بابا فرید فارسی کے علم تھے اور مُقامی زبانوں کو سمجھتے تھے ۔ اس بات کا ہمارے پاس تاریخی شوت ہے۔ امیر خسرو (١٢٥٣-١٣٢٨) کو معزز اور نچلے طبقہ کی مختلف زبانون کو فاسی سےجوڑ نے کا امتیاز اسلےء ملا کیونکہ جو قدم بابا فرید نے اٹھایا تھا اس ے امیر خُسرو نے آے پڑھایا ۔ امیر خسرو کو فارسی کی شاعری میں مہارت تھی وہ اس زبان (اردو) کے ایک عمدہ شاعر ہیں۔ امیر خسرو کے پہلیاں اور گیت آج بھی شوق سے پڑھے جاتے ہیں ۔



ایک گنی نے یہ گن کینا ، ہربل پنجرے میں دیدینا
ek guni nay gun keena Hariyal pinray mein dedeena
دیکھو جادوگر کا کمال ، ڈارے ہرا نکا لے لال
Deko jadoogar ka kamal daray hara nikaalay lal

بالا تھا جب سب کو بھایا بڑا ہوا کچھو کام نہ آیا

Baala tha jab sab ko bhaaya bada huva kuchu kaam na aaya
خسرو کیہ دیا اسکا ناؤں ارتھ کہو نہیں چھاڑو گاوں
Khusrau keh diya uska naav arth karo nahin chaado gaanv


اللہ حافظ
تفسیر
21 جون
لاس انجیلس
زہے نصیب تفسیر بھائی۔ ہمیں‌تو جتنا بھی مل جائے اور جب بھی مل جائے، شکریہ کے ساتھ قبول ہے۔ یہ تو آپ کی بڑائی ہے کہ اپنی ریسرچ جو کہ ابھی اپنے تکمیلی مراحل میں‌ ہے، کو ہمارے ساتھ اس فورم پر شیئر کر رہے ہیں۔ بہت شکریہ۔ باقی بابا فرید والی بات کافی من کو لگ رہی ہے۔ اس ضمن میں‌اگر وقت ہو تو کچھ مزید بھی فرما دیجئیے گا۔
بےبی ہاتھی
 
بھائی تفسسسیر اپنی ریسرچ کو کتابی شکل ضرور دیجئے گا ۔۔اور ہاں‌یہ ری سرچ کیا آپ کسی پراجیکٹ‌کے سلسلے میں‌کر رہے ہیں‌یا اپنے طور پر اردو کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں‌۔۔ آپ لوگ قابل صد مبارک باد ہیں‌کہ دیار غہر میں‌اردو کے چراغ‌ جلائے ہوئے ہیں‌۔۔
لیکن یہ زمانہ چراغوں‌کا نہیں‌ بلکہ انرجی سیور کا ہے ۔۔اس سلسلے میں‌دوسروں‌کو بھی تنقید کے بجائے عملی اقدامات اٹھانے چاہیئے ( کچھ لوگ یہ پڑھ کر پیدل چلنا نہ شروع کر دیں )‌
 

باذوق

محفلین
نبیل نے کہا:
باذوق، یہ آپ واقعی خود کو مخاطب کرنا چاہ رہے تھے؟
آپ غالباََ میرے لطیف اشارے کو نہیں سمجھے ۔۔۔
میری پوسٹ سے اوپر ہی ایسی “ جناب XYZ صاحب “ والی ترکیب استعمال کی گئی ہے۔
اردو پر طول طویل مقالے لکھے جا رہے ہوں تو صرف و نحو کا بھی باریک بینی سے خیال رکھا جانا چاہئے ۔ املاء کی غلطی کو کی۔بورڈ کی غلطی کہہ کر نظرانداز کیا جا سکتا ہے ، لیکن گرامر کی غلطی سے نظراندازی اختیار نہیں کی جا سکتی کہ آخر ہم لوگ ہی تو نیٹ پر فصیح و بلیغ اردو کے احیاء کا بیڑا اٹھانے جا رہے ہیں
 
Top