اردو کا آغاز اور ارتقاء

الف عین

لائبریرین
نہیں شاہد خان، سمت محض ای زین ہے۔ اردو تحریر میں پہلا ادبی جریدہ جس کے چار شمارے نکل چکے ہیں۔ سہ ماہی ہے۔
 

زیف سید

محفلین
شاہد احمد خان نے کہا:
زیف بھائی آپ ہندی الف کی ابترائی شکل کی بات کر رہے ہیں‌،، جب یہ آ‌ کسی لفظ‌کے آخر میں‌ آتا ہے تو اس کا ماترا صرف ایک لمبا ڈنڈا رہ جاتا ہے جیسا کہ ہمارا الف ہے

شاہد بھائی: آپ کی بات بجا، لیکن حضور یہ آخری ڈنڈا تو ای یا او میں ‌بھی "بدرجہِ اتم" موجود ہوتا ہے۔ صرف اس کے سر پر ایک "کنڈا " لگا دیا جاتا ہے۔ اس کی بنا پر زبان کا نام رکھنے کی تک کم از کم میرے سمجھ سے بالاتر ہے، کیوں کہ اگر کھڑی بولی ہے تو پھر پڑی بولی بھی ہونی چاہیے۔ تو پڑی بولی کو آپ رسم الخط (ناگری) کی رو سے کیسے تسلیم کروائیں‌گے؟

آداب عرض‌ہے،

زیف
 
جناب زیف سید کا مضمون لشکری زبان قسط اول تا سوئم پڑھا ۔۔ سچ تو یہ ہے کہ زیف بھائی نے زبان کا حق ادا کردیا ،، بہت ہی علمی اور مدلل بحث‌کی ہے ، تاریخ لسانیات کے طلبا کے لئے یقینا عرفان اور آ‌گئی کے کئی نئے ابواب کھل گئے ہیں‌۔۔۔۔۔۔جان گلکرسٹ یا فورٹ‌ولیم کے دیگر کرتا دھرتاوں‌نے وہی کیا جو انگریز کی کالونیل سوچ کے تحت وہ کر سکتے تھے ۔۔۔گلکرسٹ مقامیوں کی مادری زبان کے بارے میں ان کے نظریے کو قلم زد کرکے یک طرفہ ڈگری جاری کر دیتاہے۔ دوہی برس بعد گلکرسٹ ایک بار پھر بڑے پر تیقن لہجے میں لکھتاہے:

”ہندو قدرتی طور پر ہندی کی طرف جھکیں گے جب کہ ظاہر ہے مسلمان عربی اور فارسی کی نسبت جانب دارہوں گے۔ یوں دو نئے انداز جاری ہو جائیں گے۔

یہی وہ طرز فکر ہے جس نے اردو اور ہندی کا وہ جھگڑا شروع کیا جس نے بعد میں برصغیر کی تقسیم کے لئے راہ ہموار کی ۔۔۔
کھڑی بولی کی بابت زیف صاحب کی رائے اور تجزیہ اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ تاریخ
‌‌لسانیات کا طالب علم اس عینک کو اتار کر آ‌نکھیں‌صاف کرے اور اس مصنوعی رابطے کے بغیر قدیم اور جدید زبان کے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔۔ لیکن یہاں‌ایک سوال اٹھتا ہے کہ آج کی زبان اور ہزار ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی بولی جانی والی زبان (بولی )‌کو کہاں‌تلاش کیا جائے اور اس کو کس نام سے پکارا جائے ۔۔۔زیف بھائی نے اردو اور ہندی کے الگ زبانیں‌ہونے کے حوالے سے بحث‌بھی سمیٹ‌دی ہے ۔۔۔۔۔دونوں زبانوں کا ماخذ اردو سہی، لیکن کیا جدید اردو اور جدید ہندی دو مختلف زبانیں ہیں؟اور جواب ہے، نہیں۔ لسانیات کا مانا ہوا اصول ہے کہ زبانوں کی تقسیم و تفریق اور درجہ بندی ان کے افعال کی بنا پر ہوتی ہے ، نہ کہ اسما کی بنیادپر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندہ زبانوں کے اسما بہت لچکدار ہوتے ہیں اور بڑی تیزی سے زبان کے ذخیرے میں داخل ہوتے اور نکلتے رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں افعال نسبتاً مستقل رہتے ہیں اور ان میں آسانی سے تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ لسانیات میں افعال کو زبان کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔ ۔۔۔ ایک آخری بات کہ اس زبان کو ( اردو یا ہندی )‌جو ہم بولتے ہیں‌کس زبان کا فوری پرتو قرار دیا جا سکتاہے ۔۔ جواب زیف نے دیا ہے ۔۔۔۔بقول گیان چند جین ۔۔۔ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے محققین نے بڑی دقت نظری سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جدید پنجابی جس اپ بھرنشا سے نکلی ہے اسے پشاچی اپ بھرنشا کہا جاتا ہے جب کہ برج بھاشا شورسینی اپ بھرنشا کی ارتقائی شکل ہے۔ اردو زبان کی اپ بھرنشا کون سی ہے، اس سلسلے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے اور تاحال ماہرینِ لسانیات کسی سب کے لیے قابلِ قبول نتیجے تک نہیں پہنچ پائے۔ ۔۔ میرا اپنا خیال ہے کہ پنجابی اور صرف اور صرف پنجابی ہی وہ زبان ہے جس پر جدید اردو اور ہندی کی تعمیر ہوئی ہے ۔۔ زبان کا سوتی تاثر ہو یا الفاظ‌ کا برتاو ،، پنجابی قدرتی طور پر فارسی اور عربی الفاظ‌ کے برتنے میں‌اردو اور ہندی کی ہمسر ہے ۔۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ۔۔ کوئی بھی شخص مشرقی یا مغربی پیجاب کے پڑھے لکھے طبقے کی زبان سن کر بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کس زبان کے لہجے کو سن رہا ہے ۔۔ صرف پنجابی ہی اس زبان کا اصل رنگ لئے ہوئے ہے جو سلطنت دہلی کے زمانے میں‌دہلی اور قرب و جوار میں‌بولی جاتی تھی اور جس سے اردو یا ہندی کا جنم ہوا ہے (‌وہی مسنگ لنک جس کو کھڑی بولی سے کنفیوز کیا جاتا ہے )‌۔۔ یہاں‌پنجاب یا پنجابی کو محدود نہ کیجئے گا ،، پنجاب کے علاقے میں پشاور سے دہلی تک شامل رہے ہیں‌اور کبھی تو پبجاب کے دریا کابل تک موجیں‌مارتےتھے ۔۔ ابھی تقسیم ہند تک دلی پنجاب کا حصہ تھی اور شمال مغربی سرحدی صوبے کے نام سے انگریز نے کہیں‌1880 کےآس پاس پنجاب کے تین ضلعے الگ کر کے ایک نیا صوبہ بنایا تھا ۔۔۔۔ آخر میں‌زیف بھائی کا بہت بہت شکریہ کہ انہوں نے اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر ہمیں اتنے خوبصورت مضمون سے نوازا ،،، امید یہ زیف محبان اردو کو ممنون ہونے کے مزید مواقع فراہم کرتے رہیں گے ،، رہے نام اللہ کا ۔۔۔
 
نیچے دئے گئے لنک پر اردو یا ہندی کی تاریخ‌ کے بارے میں‌ایک اچھا چارٹ‌موجود ہے ۔ چونکہ یہ ایک ہندی سائٹ ہے اس لے انہوں‌نے ہندی زبان کی تاریخ‌قرار دیا ہے ۔۔ آپ اردو کم ہندی کی تاریخ‌سمجھ لیں‌۔۔

http://www.hindisociety.com/ArticleHindiHistory.htm

ویسے خود اس سائٹ‌پر لکھا ہے ۔۔۔
Hindi (and Urdu) is descended from Hindustani, the colloquial form of speech that was spoken in the area in and around Delhi in North India roughly in the ninth and tenth centuries
 

زیف سید

محفلین
جناب شاہد صاحب:

ناچیز مضمون پسند فرمانے کا شکریہ۔ دیر لگی آنے میں‌تم، شکر ہے پھر بھی آئے تو۔۔۔

آپ نے لکھا ہے کہ پنجابی اردو کی ماں کہلائی جا سکتی ہے۔ معذرت کے ساتھ عرض‌کروں‌گا کہ جدید لسانیات کی روشنی میں‌یہ نظریہ غلط ثابت ہو چکا ہے۔ اصل میں‌ پاکستان میں‌دریائے سندھ سے بھارت کے وسط تک زبانوں کا ایک طویل سلسلہ ہے، جس میں‌ہندکو، سرائیکی، گوجری، پنجابی، ہریانوی،راجستھانی، میتھلی، برج بھاشا، قنوجی، بندیلوی، اور کئی دوسری زبانیں بکھری ہوئی ہیں۔یہ تمام زبانیں ‌ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اور ایک زبان کے بولنے والے دوسرے کی بات کسی حد تک سمجھ سکتے ہیں۔ اردو اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے، اور یہ کہنا درست نہیں‌کہ ان میں سے کوئی ایک زبان کسی دوسری زبان کی ماں‌کہلائی جا سکتی ہے۔البتہ یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتاہے کہ ماضیِ بعید میں ان سب زبانوں کا منبع ایک رہا ہو گا۔

اردو اور پنجابی میں‌کئی باتیں‌مشترک ہیں‌، لیکن یہی‌بات اوپر دی گئی دوسری زبانوں‌اور اردو کے بارے میں‌بھی کہی جاسکتی ہے۔

آپ نے دوسری پوسٹ میں‌جس انگریزی آرٹیکل کا پتا دیا ہے، اس میں‌لکھا ہے کہ اردو اور ہندی ہندوستانی سے نکلی ہیں۔

زسوخت عقل بہ حیرت کہ ایں چہ بوالعجبیست!

یہ بات تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہندوستانی وہ نام ہے جو انگریزوں‌نے اردو (ہندی) کو دیا تھا، اور یہ کبھی بھی مقامیوں میں مقبولیت حاصل نہیں‌کر سکا۔

آداب عرض‌ہے،

زیف‌‌
 
شاہد احمد خان

جناب زیف صاحب تسلیمات ،اقبال ہمیشہ دیر سے آتا ہے ، خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ،،، میں‌نے پیجابی کو اردو کی ماں‌، معنوی اعتبار سے قرار دیا تھا ۔۔ اردو صوتی اور حرفی اعتبار سے برصغیر کی کسی بھی دوسری زبان کے مقابلے میںپیجابی سے ‌زیادہ قریب ہے ۔۔ کیا آپ سرائیکی، گوجری، ہندکو ، ہریانوی،بہاری ، میتھلی، قنوجی، بندیلوی، بھوج پوری ، چھتیس گڑھی اور یو پی کی دیگر بولیوں‌ کو اردو کے اتنا قریب پاتے ہیں‌ جتنا اپنے چلن میں‌پنجابی ہے ۔۔ یہ تو طے ہے کہ دلی سے پشاور تک کے علاقے کو پنجاب کہا جاتا رہا ہے ۔۔ تو اردو کی پیش رو زبان کو پنجابی کہنے میں‌کیا قباحت ہے۔۔ امید ہے کہ اس بارے میں بھی اپنی علمی تحقیق سے ہمیں آگاہ رکھیں گے ۔۔
 

ماہ وش

محفلین
زیف تو آئے نہیں‌ لیکن ان کا ایک مضمون مل گیا ہے ،، آپ بھی پڑھیئے ۔۔

کیا قلوپطرہ واقعی حسین تھی؟
زیف سید


۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔
الفاظ اس کے حسن کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں

وقت ا س کو مرجھانہیں سکتا

نہ زمانہ

اس کی رنگارنگ شخصیت کو

ماندکر سکتاہے



یہ الفاظ شیکسپیئر کے ہیں جو اس نے مصر کی ملکہ قلوپطرہ کے بارے میں لکھے تھے۔ شیکسپیئر اور اس جیسےدوسرے ادیبوں ،شاعروں اور ہالی وڈ کے فلم سازوں نے قلوپطرہ کے حسن کی تعریف کے وہ پل باندھے ہیں کہ اس کی شخصیت ہمارے اجتماعی شعور میں ملکوتی حسن اورشاہانہ وقار کی علامت کے طور پر نقش ہو کر رہ گئی ہے۔

لیکن برا ہو شمالی برطانیہ کے شہر نیوکاسل کی یونی ورسٹی کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا، جنھوں نے ایک ایسا سکّہ ڈھونڈ نکالا جس کے ایک رخ پر قلوپطرہ اور دوسرے پر اس کے محبوب مارک اینٹنی کی شبیہیں کندہ ہیں۔

32قبل مسیح میں ڈھالے جانے والا اس چاندی کے سکّے پر ڈھلی ہوئی شبیہ کے مطابق قلوپطرہ کوئی حسن کی دیوی نہیں بلکہ ایک معمولی خد و خال والی عورت ہے۔ تنگ پیشانی، ابھری ہوئی ٹھوڑی، پتلے ہونٹ اور نوکیلی ناک۔

یہ تصاویر 1963ء میں بنائی جانے والی ہالی وڈ کی مشہور فلم ’قلوپطرہ‘میں پیش کیے جانے والے رومانی جوڑے سے بہت مختلف ہیں، جس میں قلوپطرہ کا کردار ایلزبتھ ٹیلر نے ادا کیا تھااور اپنی تمکنت اور سحر انگیزی سے دنیا بھر کے شائقین کے دل موہ لیے تھے، جب کہ رچرڈ برٹن مارک اینٹنی بنے تھے۔

نیوکاسل یونی ورسٹی کی ماہرِ آثارِ قدیمہ لنڈزے ایلسن جونز کا کہنا ہے کہ قلوپطرہ کے بے پناہ حسن کا تصور ازمنہٴ وسطیٰ کی پیداوار ہےاوریہ انگریز شاعر جیفری چاسر تھاجس نے سب سے پہلے قلوپطرہ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا ڈالےتھے۔ لنڈزے کا کہنا ہے کہ قدیم رومن تحریروں میں قلوپطرہ کی ذہانت کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، یہ بھی رقم ہے کہ اس کی آواز مسحور کن تھی، لیکن اس کے حسن کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

یہ سکّہ رومی سپاہیوں کو بطورِ تنخواہ ملا کرتا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اسے مصر کی کسی ٹکسال میں ڈھالا گیا تھا۔

تاہم قلوپطرہ چاہے جیسے بھی رہی ہو، اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک تاریخ ساز عورت تھی۔ 48قبل مسیح میں اس نے خود سے عمر میں تیس سال بڑے جولیس سیزر کو اپنے دام میں گرفتار کیا اور اس کے بچے کی ماں بنی۔

بعد میں اس نے مارک اینٹنی کے ساتھ پینگیں بڑھالیں، تاہم اس معاشقے کا انجام اچھا نہیں ہوا اور جب اینٹنی کو جنگ میں شکست ہوئی تو اس نے اور قلوپطرہ دونوں نے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرڈالا۔

ختم شد
 
زبان اور نسل ۔۔
کسی زبان کے بننے اور ترقی کرنے کا عمل اس زبان کے بولنے والوں کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ برصغیر پاک و ہند کی زبانوں کے مطالعے کے لئے ان کو بولنے والی اقوام کا تجزیہ نہ صرف ضروی ہے بلکہ یہ زبان کی ہیئت اور اجزائے ترکیبی سے متعلق اہم معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔ مورخین صاحبان علم اور ماہرین بشریات و آثار قدیمہ متفق ہیں کہ پاک و ہند کے قدیم ترین باسی سیاہ فام تھے۔ آج ہم ان اقوام کو دراوڑی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ دراوڑی کا مفہوم بھی کالے آدمی ہی ہے۔ اسی طرح جیسے بلوچستان کا قدیم نام گدروسیا ہے جس کا مطلب ہے کالے لوگوں کا دیس۔۔ انہی کالے لوگوں نے پاک و ہند میں ہڑپہ اور موئن جو دڑو جیسے عظیم شہروں کی بنیاد رکھی جو 5 ہزار سال قبل از مسیح ٹاون پلاننگ کا شاہکار تھے۔ ہند و سندھ ہی کی مانند اسی دور قدیم میں بابل و نینوا، مصر ، سوڈان اور یمن وغیرہ سیاہ فام تہزیب کے گہوارے تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی ابتدائی تہزیب 'عظیم سیاہ فام تہزیب ' تھی جو ایک وقت میں افریقہ حبشہ لیبیا مصر سوڈان بابل روم اور پاک و ہند تک پھیلی تھی ۔ ان کے درمیان سمندری اور خشکی کے راستے تجارتی مراسم بھی قائم تھے۔گویا اس دور قدیم میں سیاہ فام اقوام نہ صرف ترقی یافتہ تھیں بلکہ تہزیبی اور ثقافتی اعتبار سے بھی بلندیوں کو چھو رہی تھیں۔ اب نظر ڈالتے ہیں اس دور کی زرد اور سفید فام اقوام پر جو اپنے ہم عصر سیاہ فاموں کے مقابلے میں تمدن اور معاشرت کے مفہوم ہی سے نا آشنا تھیں اس تفاوت کا بڑا سبب زمینی یا جغرافیائی عوامل تھے ۔ سیاہ فام اقوام کے برخلاف سفید اور زرد فام اقوام سرد اور پہاڑی علاقوں میں رہتے تھے جہاں نہ موسم معتدل ہوتا ہے اور نہ ہی زمین کاشت اور باغبانی کے لائق اس لئے وہاں اسباب زیست کی فراوانی و فراہمی بھی مشکل تر تھی۔ سفید فام جنگلی اور وحشی تھے اسی لئے اپنے ماحول کے مطابق ان کے قد لمبے اور جسم مظبوط تھے۔ ان وحشی سفید و زرد فاموں نے جب میدانی علاقوں کا رخ کیا تو سیام فاموں اور ان کی تہزیب کو اکھاڑ پھینکا۔ اسی طرح سیاہ فاموں کی زبانیں اور بولیاں بھی سفید اور زرد فام اقوام کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکیں لیکن وہ مری نہیں سیاہ فاموں کے پسپا ہونے کے ساتھ پسپا ہوتی چلی گئیں۔ حملہ آور سفیر اور زرد فاموں کو میدانی علاقوں میں نت نئی اشیاء اور اعمال و افعال کا سامنا ہوا جس کے لئے انہیں سیاہ فاموں کی زبانوں سے الفاظ لینے پڑے ۔ معاملہ صرف چیزوں کے ناموں تک محدود نہیں تھا سفید و زرد فاموں کو بہت سے افعال (ورب) بھی سیاہ فاموں کی زبانوں سے لینے پڑے جو سفید و زرد فاموں کی اپنی زبانوں اور بولیوں کا حصہ بنتے چلے گئے۔ ہماری زبانیں بھی اس اصول سے الگ نہیں اردو ہندی ہندوستانی پنجابی ہریانوی پوربی بھوجپوری کشمیری گجراتی مارواڑی سندھی سرائیکی ہندکو ہمیں اسی ایک صف میں کھڑی نطر آتی ہیں جہاں سفید اور زرد فاموں کی زبان یا بولی نے اپنا صوتی مزاج تبدیل کر کے سیاہ فاموں کی زبان اور بولی کا مزاج اپنا لیا۔ دوسری جانب پشتو دری اور بلوچی میں سفید اور زرد فاموں کی زبان اور بولی نے سیاہ فام بولیوں کا اثر ضرور قبول کیا لیکن اپنا الگ مزاج برقرار رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top