بہت مشکل کام ہے معیار بندی۔ اردو والے بہت عرصہ پہلے اس بھاری پتھر کوچوم کر رکھ چکے ہیں۔ تجاویز کیا کیا ہے، دو کی جگہ دس لکھیں۔
میری رائے میں اس کام میں مندرجہ ذیل قدم ہیں۔
1۔ ہر فونیم (معنی کا فرق رکھنے والی آواز) کے لیے الگ شکل والے حرف کا بندوبست۔ اس میں یہ خصوصی اہتمام ہو کہ اس کی شکل پہلے سے اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والے حرف سے بہت ملتی جلتی ہو تاکہ پہلی بار دیکھنے والے کو بھی لگے کہ یہ وہی حرف لکھا ہوا ہے بس ذرا سٹائل سے لکھ دیا گیاہے۔ اور چند بار دیکھنے کے بعد اس کا ذہن خودبخود سمجھ لے کہ حرف کی یہ شکل اسی مقصد کے لیے مختص ہے۔ عوام میں قبولیت کے لیے یہ اہتمام بہت ضروری ہے۔
2۔ ان حروف اور ان کی خصوصیات کو نستعلیق فونٹ میں ایڈجسٹ کرنا۔
3۔ اس نئی سکیم اور فونٹ کی اشاعت و تشہیر اور اس کو سرکاری اداروں تک پہنچانا۔
4۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رہنمائی کے لیے پانچ دس ہزار کثیر الاستعمال اردو الفاظ اور کچھ منتخب اردو الفاظ کو نئے حروف میں ڈھال کر دے دیا جائے۔
ٹیکنالوجی نے اب اس کام کو آسان بنا دیا ہے۔ دیکھیں رابطے کتنے آسان ہو چکے ہیں۔ تحقیق، تبادلۂ خیال اور تشہیر کتنی آسان ہوچکی ہے۔
میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ/پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کے اردو قاعدے دیکھتا رہتا ہوں۔ تقریباً ہر سال ان میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ہوتی ہے۔ ان بورڈ والوں کے ذہن پروگریسو معلوم ہوتے ہیں۔ ان کا ذہن کسی بھی نئی تعلیمی بات پر مطمئن ہو جائے تو وہ اسے قبول کر لیتے ہیں اور اس کو قاعدے/درسی کتابوں میں شامل کر دیتے ہیں۔
ہمیں اردو رسم الخط اور املا میں بہتری کے لیے ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ کامیابی کا بہت امکان ہے۔ ہاں سکیم قابلِ عمل اور عوام میں قبولیت پا سکنے والی ہو۔
ہمارے بچے جتنی آسانی اور جتنی جلدی سے اردو سیکھ سکیں گے اتنا ہی ہمارا مستقبل بہتر ہو گا۔اور اردو کا مستقبل بھی اتنا ہی بہتر ہو گا۔