اردو الفاظ کا املا صدیوں سے ارتقا پذیر ہے۔ پہلےہ اور ھ میں فرق نہیں کیا جاتا تھا مثلاً مجھے کو مجہے اور کھانا کو کہانا لکھ دیا جاتا تھا۔ اسی طرح ں لفظ کے آخر میں آتا تو بھی اس میں نقطہ لگایا جاتا تھا۔اس سے بھی پہلے ٹ،ڈ،ڑ پر چھوٹا ط نہیں بلکہ چار نقطے لگائے جاتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے الفاظ کے املا میں بہتری آتی گئی۔ اب بھی بعض الفاظ کے املا میں بہتری لانے کی بات ہو رہی ہے۔ ایسی بہتری جس کا اردو جاننے والے خود سے اندازہ لگا کر سمجھ سکیں اور جو الفاظ کوواضح کر دے۔
آپ رسم الخط اور املا کو خلط ملط کررہے ہیں ۔
اردو زبان صرف سات آٹھ سو سال پرانی ہے اور اس کا رسم الخط تو اس سے بھی کم پرانا ہے۔ جو مثالیں آپ نے دی ہیں وہ ابتدائی دور کی ہیں کہ جب اردو رسم الخط وجود میں آرہا تھا اور ان میں کچھ مثالیں رسم الخط سے زیادہ املا سے متعلق ہیں۔ میں نے اپنے پہلے مراسلے میں تفصیل سے یہ بات لکھی تھی ۔ (
مجھے کو ایک زمانے تک
مجہےلکھنے میں کاتب حضرات کی غلطی اور ذاتی رجحان کو بھی دخل رہا ہے۔اس کے علاوہ بہت سارے کاتب وقت اور کاغذ بچانے کے لیے الفاظ کو ملا کر بھی لکھتے تھے۔ یہ کاتبان کی غلطی تھی اردو زبان کی نہیں ۔ )
اب اردو رسم الخط کا ارتقا ہوئے زمانے گزر گئے۔ ڈیڑھ صدی سے ایک رسم الخظ رائج ہوچکا ہے ۔ زبان کے سلسلے میں سب سے بڑی اہمیت رواج کی ہے ۔ اگررسم الخط میں کوئی تبدیلی کی جائےتو صدیوں پر محیط علمی اور ادبی ذخیرے کا کیا ہوگا؟ ایک ضخیم مواد کمپیوٹرکے لیے یونیکوڈ میں کنورٹ کیا جاچکا ہے ، اس کا کیا ہوگا؟ ایک مستند اور رائج رسم الخط کو بدلنے سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے ۔
جہاں تک نون غنہ پر نقطے کا تعلق ہے تو یہاں آپ اس حرف کے ارتقا ئی سفرکو الٹا یعنی ریورس کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ پہلے نون معلنہ اور غنہ دونوں ہی نقطے کے ساتھ لکھے جاتے تھے چنانچہ بہت سارے لفظوں میں التباس ہوجاتا تھا۔ حسین اور حسیں ، زمین اور زمیں کے اوزان میں فرق ہے ۔ آئین اور آئیں دو مختلف الفاظ ہیں ۔ اسی طرح گاؤن اور گاؤں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بڑا مسئلہ تھا۔ اس مسئلے سےنبٹنے کے لیے حرف کے آخر میں نون غنہ کو بغیر نقطے کے لکھا جانے لگا۔ لیکن یہی کام لفظ کے درمیان میں آنے والے نون غنہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے مزید مسائل اور مشکلات پیدا ہوتے ہیں ۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اس نون غنہ کے اوپر
U کی شکل کی ایک چھوٹی سی علامت بنادی جائے۔ بلکہ فیروزاللغات نے اس بھی آگے ایک قدم اٹھایا کہ جن الفاظ کا نون غنہ عروضی وزن میں نہیں آتا ان پر سیدھا
U اور جن الفاظ کا نون غنہ وزن میں شمار کیا جاتا ہے ان پر الٹا
Uبنادیا جائے ( مثلاً جنگ ، رنگ وغیرہ)۔ چنانچہ لغت دیکھنے سے فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ اس لفظ میں نون غنہ ہے ، نون معلنہ نہیں۔
لفظ کے درمیان میں نون غنہ کو بغیر نقطے کے لکھا جائے تو لفظ میں ایک شوشہ زیادہ ہوجائے گا جس سے پڑھنے والوں کے لیے عجیب و غریب الجھنیں اور مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ مثلاً ان لفاظ کو دیکھیے:
سینت ، گیند ، بھینس،پھینکیں ، پھینکیے ،بھینگے ، گھونسلا ، آنسو ، دھانسو
سیںت ،گیںد، بھیںس ،پھیںکیں ، پھیںکیے ،بھیںگے ، گھوںسلا ، آںسو ، دھاںسو ،
بھینس کو بھیس پڑھا جارہا ہے ۔ آنسو اور دھانسو میں بغیر نقطے کے نون کو لام پڑھا جارہا ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسا کرنے سے آسانی نہیں بلکہ مشکلات پیدا ہوں گی ۔ کیا قاری کسی لفظ کے شوشے گن کر اندازہ لگائے گا کہ اس لفظ کے بیچ میں نون غنہ موجود ہے؟؟؟
اگر الفاظ کا املا واضح ہو گا تو اس سے زبان سیکھنے میں آسانی ہو گی اور وقت بھی کم لگے گاپاک و ہند کے لوگوں کو بھی اور غیر ملکیوں کو بھی۔ دوسرے لفظوں میں اس سے زبان کو ترقی حاصل ہو گی۔
چند لوگوں کی آسانی کے لیے صدیوں سے رائج رسم الخط تو کیا زبان کی کسی بھی چیز کو نہیں بدلا جاتا۔ اگر آپ کو یا مجھے انگریزی ، فرانسیسی ، ہندی ، سندھی جو بھی زبان سیکھنی ہو تو ہم اسے اس کی مروجہ حالت میں اس کے رسم الخط ، املا اور قواعد کے ساتھ ہی سیکھیں گے۔ تو اردو کے ساتھ ایسا کیوں کیا جائے؟
اور جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا ۔ زبان کو سیکھنے کا بنیادی طریقہ اہلِ زبان اور زبان دانوں سے سن کر سیکھنا ہے نہ کہ کتاب پڑھ کر۔
کیا میں اور آپ انگریزی کتاب پڑھ کر الفاظ کا درست تلفظ جان سکتے ہیں ؟؟؟ قطعی نہیں ۔ جب تک وہ لفظ کسی انگریزی دان سے سن نہ لیں تب تک نہیں جان سکتے۔ یا پھر یہ کہ انگریزی لغت میں موجود اسپیشل علامات یا صوتی تشبیہات کی مدد سے سے سیکھا جائے۔ اس بارے میں میں تفصیلاً اوپر لکھ آیا ہوں ۔