ابو ہاشم

محفلین
مقصد اس لڑی کا یہ ہے کہ اردو پڑھتے لکھتے (یا کمپیوٹر پر ان پٹ کرتے) ہوئے جو مختلف الجھنیں پیش آتی ہیں ان پر تبادلۂ خیال کیا جائے اور ان کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز پیش کی جائیں۔

نوٹ: آگے استعمال کی گئی چند اصطلاحات کے لیے انگریزی کے الفاظ یہ ہیں:
علت (vowel) (جمع :علات)،
صحیحہ (consonant) (جمع :صحیحات)،
تہجی (alphabet) ،
ترسیمہ (ligature)
 

ابو ہاشم

محفلین
مسائل/ الجھنوں کا بیان
ایک مثالی اور سائنسی تہجی وہ ہوگی ہے جس کے حروف کے ذریعے اس زبان کا کوئی بھی سنا ہوا لفظ صحیح صحیح لکھا جا سکتا ہو اور کوئی بھی لکھا ہوا لفظ صحیح صحیح پڑھا جا سکتا ہو۔ یعنی لکھنے پڑھنے میں کسی قسم کی کوئی الجھن نہ ہو۔ اردو میں ہم دیکھتے ہیں کہ:

1۔ (ا/ ء ، ع)؛ (ت،ط)؛ (ث، س، ص)؛ (ح، ہ)؛ (ذ،ز، ض، ظ) جیسے قریب المخرج حروف کے گروپوں کی وجہ سے بعض اوقات سنے ہوئے لفظ کو لکھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ (پنجابیوں کو عموماً ک اور ق میں بھی فرق کا پتا نہیں چلتا لیکن کھڑی بولی کے علاقے والے لوگوں کے لیے یہ دو مختلف آوازیں ہیں اور انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا)

2۔ (و، ی، ے) گروپ کے حرفوں کے مختلف آوازوں اور حرکات کے لیے استعمال ہونے کی وجہ سے لکھے ہوئے لفظ کو پڑھنے میں دشواری پیش آتی ہے :
ا۔ ایک حرف و چار مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے: واؤ معروف،واؤ مجہول، واؤ لین اور واؤ (نیم صحیحہ)۔ ان کے علاوہ بعض مخصوص الفاظ میں یہ خاموش ہوتا ہے۔ اس طرح کسی لفظ میں و آ جائے تو اس کے تلفظ کے بارے میں ابہام رہتا ہے۔اس پر تفصیلی بات آگے چل کر کی جائے گی۔
ب۔ ترسیمے کے شروع میں ( ﯾ ) اور درمیان میں ( ﯿ ) چار مختلف چیزوں کو ظاہر کرتے ہیں: یائے معروف، یائے مجہول، یائے لین، اور یے (نیم صحیحہ)۔ اور ترسیمے کے آخر میں ے یائے مجہول اور یائے لین دونوں کی نمائندگی کرتا ہے اور اس طرح ان کے تلفظ مبہم رہتے ہیں۔
ج۔ علات کے جوڑوں کے بارے میں بھی ابہام رہتا ہے مثلاًراجیو (Rajeev) کو عموماً را +جِیوْ کے بجائے را +جی +او( Rajio) پڑھا جاتا ہے۔ اسی طرح لفظ گاؤں کا تلفظ و معنیٰ ان دو جملوں میں دیکھیے : ‘ یہ میرا گاؤں ہے‘ اور ‘ میں گیت گاؤں گا‘ ۔ املا بالکل ایک جیسی ہے اور اس سے ان کے تلفظ کا پتا بالکل نہیں چل رہا۔

3۔ ترسیمے کے شروع اور درمیان میں نونِ غنہ کو بھی ن ہی کی طرح لکھا جاتا ہے۔اس سے نون اور نونِ غنہ کا فرق پتا نہیں چلتا۔ اسی وجہ سے عالموں تک کو ہنسی کو ہن+سی کہتے سنا ہے۔

بڑے مسائل اوپر بتادیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ

4۔ د کی ترسیمے کے آخر میں شکل اس کی مفرد شکل سے مختلف ہوتی ہے بلکہ ر کی مفرد شکل سے ملتی جلتی ہے۔ مثلاً لفظ 'بدر' کو لیجیے اس میں د کی شکل بالکل ر جیسی ہے۔ اسی طرح ڈ، ذ کی بھی ترسیمے کے آخر والی شکلیں ڑ،ز کی مفرد شکلوں سے ملتی جلتی ہیں۔

5۔ ہ کی ترسیمے کے شروع میں شکل کبھی شوشے کے ساتھ اور کبھی بغیر شوشے کے ہوتی ہے۔

6۔ ر کی ترسیمے کے آخر میں شکل بعض اوقات اسی طرح اور بعض اوقات ذرا لہراتی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لہراتی ہوئی ر سے پہلے شوشہ آجائے تو اسے ہموار کر دیا جاتا ہے اوراس سے بھی پڑھنے میں الجھن پیدا ہوتی ہے مثلاً کئی لوگوں کے لیے کٹر (ک ٹ ر) اور کڑ (ک ڑ) میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ڑ،ز،ژ پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔

مختلف افراد، چیزوں، جگہوں، اصطلاحات وغیرہ کے ناموں کے تلفظ کا مسئلہ ایک عالم فاضل اہلِ زبان کو بھی رہتا ہے کیونکہ چھوٹے علّات (حرکات) کی علامتیں بھی عموماً لکھتے ہوئے نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔

یہی املائی الجھن تھی جس کی وجہ سے کہا گیا کہ الفاظ کو جہاں تک ممکن ہو توڑ کر لکھا جائے کہ اس سے قراءت پذیری (readability )بڑھے گی۔ ممتاز کالم نویسوں کے کالموں میں یو نی ور سی ٹی اور نوٹی فی کےشن لکھا دیکھ کر دل مرجھانے لگتا ہے۔ امید ہے ایک ایسی نئی سکیم بن سکے گی جس کی بدولت الفاط کو یوں توڑ کر لکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہوا انہیں اکٹھا لکھا جا سکے گا ۔ یہی لفظ کی وحدت کا بھی تقاضا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
یہی املائی الجھن تھی جس کی وجہ سے کہا گیا کہ الفاظ کو جہاں تک ممکن ہو توڑ کر لکھا جائے کہ اس سے قراءت پذیری (readability )بڑھے گی۔ ممتاز کالم نویسوں کے کالموں میں یو نی ور سی ٹی اور نوٹی فی کےشن لکھا دیکھ کر دل مرجھانے لگتا ہے۔ امید ہے ایک ایسی نئی سکیم بن سکے گی جس کی بدولت الفاط کو یوں توڑ کر لکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہوا انہیں اکٹھا لکھا جا سکے گا ۔ یہی لفظ کی وحدت کا بھی تقاضا ہے۔
لیکن اس طرح کچھ دوسرے مسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیں، بدر پر ہی جیسے یاد آیا " شہر بدر" کو اگر ایک لفظ مانا جائے تو گویا کہ لغت میں تین الفاظ کا ہونا ضروری ہو گا، شہر، بدر، اور شہر بدر۔ الگ الگ لکھنے کی صورت میں دو سے جام چل جائے گا۔ لغت اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میری اس لغت سے بھی مراد ہے جو ورڈ میں پروف ریڈنگ کے لئے میرے زیر استعمال ہے، یعنی اس میں "شہربدر" کو وہ لغت سپیلنگ کی غلطی دکھائے گا۔ ایسے بہت الفاظ اور لاحقے ممکن ہیں، لایعنی، بے معنی، بے چین جسے اکثر بیچین لکھا جاتا ہے، ناپسند، نادیدہ، وغیرہ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مسائل/ الجھنوں کا بیان
ایک مثالی اور سائنسی تہجی وہ ہوگی ہے جس کے حروف کے ذریعے اس زبان کا کوئی بھی سنا ہوا لفظ صحیح صحیح لکھا جا سکتا ہو اور کوئی بھی لکھا ہوا لفظ صحیح صحیح پڑھا جا سکتا ہو۔ یعنی لکھنے پڑھنے میں کسی قسم کی کوئی الجھن نہ ہو۔

الفاظ کی کتابت اور قرات میں جس غیر مطابقت کی آپ بات کررہے ہیں وہ ایک عالمگیر "مسئلہ" ہے اور دنیا کی اکثر زبانوں میں موجود ہے۔ الفاظ جس طرح بولے جاتے ہیں اکثر اُس طرح لکھے نہیں جاتے۔ یعنی تلفظ(صوتی شکل) اور املا (تحریری شکل) میں ایک داخلی بُعد اور فرق موجود ہے۔ بولی جانے والی ہر آواز کے لیے ایک علیحدہ علیحدہ حرف بہت کم زبانوں میں پایا جاتا ہے ۔ چنانچہ لغت نگاروں کو کاغذ پر درست تلفظ ظاہر کرنے کے لیے اضافی علامات اور اشکال ایجاد کرنا پڑتی ہیں ۔ تلفظ اور املا کا یہ اختلاف کچھ زبانوں میں کم اور کچھ میں زیادہ ہے۔تلفظ اور املا کا یہ فرق فرانسیسی زبان میں تو بہت ہی نمایاں ہے بلکہ اسے اس زبان کی پہچان سمجھا جاتا ہے ۔ جدیدفرانسیسی زبان لاطینی اور گالش زبانوں کی آمیزش سے بنی ہے ۔اس میں الفاظ کا بڑا ذخیرہ تو گالش زبان کا ہے لیکن املا لاطینی زبان سے آیا ۔ چنانچہ اب فرانسیسی الفاظ میں لکھو عیسٰی اور پڑھو موسیٰ والی کیفیت عام نظر آتی ہے۔
چونکہ اردو کے ننانوے فیصد الفاظ ہندی فارسی اور عربی سے آئے ہیں اس لیے اردو میں بھی یہ معاملہ نظر آتا ہے۔ اردو کا رسم الخط عربی/فارسی سے آیا لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ کچھ عقلمند لوگوں نے ہندی الفاظ کی آوازیں لکھنے کے لیے ٹ ، ڑ ، ڈ اور مخلوط حروف ایجاد کردیئے۔ ز، ذ، ظ اور ض ، س ، ث، ص وغیرہ کے مخارج عربوں کے ہاں تو علیحدہ علیحدہ ہیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ حروف اردو والوں کے ہاں ہم صوت بن چکے ہیں۔ چنانچہ اب اردو الفبائی میں ضرورت سے زیادہ حروف موجود ہیں ۔ ان حروف کو نکالا اس لیے نہیں جاسکتا کہ املا بدلنے سے لفظ کے معانی اور اُن الفاظ پر لاگو ہونے والے گرامر کے اصول بدل جاتے ہیں ۔ مثلاً صعودی اور سعودی ، کسرت اور کثرت وغیرہ۔
اس مسئلے کے صرف دو ہی حل ہیں ۔ ایک تو معیاری صوتی لغت اور دوسرے ایک ایسی کتابی لغت کی تیاری کہ جس میں (انگریزی لغت کی طرز پر )مختلف آوازوں کو ظاہر کرنے کے لیے کچھ علامات اورمعروف صوتی امثال استعمال کی جائیں۔انگریزی زبان میں بھی ہر حرفِ علت مختلف الفاظ میں مختلف آواز پیدا کرتا ہے ۔ چنانچہ انگریزی لغت میں cutاور put میں حرفِ علتuکی آواز کو ظاہر کرنے کے لیے دو مختلف علامات استعمال ہوتی ہیں ۔ تلفظ طاہر کرنے والی ان علامات کا استعمال صرف لغت ہی میں ممکن ہے ۔ عام تحریر میں نہ تو اس کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ایسا عملی طور پر ممکن ہے۔ اور یہی بات اردو پر بھی صادق آئے گی۔
درست اردو تلفظ کو سیکھنے کے لیے مذکورہ بالا صوتی لغت یا کتابی لغت کی دستیابی ضروری ہے۔
اردو لغت نگاروں نےاپنی لغات میں تلفظ ظاہر کرنے کے لیے متعدد علامات استعمال تو کی ہیں (اور اس بارے میں میں نے پہلے کہیں لکھا بھی تھا ) لیکن ان علامات کو یکجا کرنے اور معیاری بنانے یعنی ان کی standardization کی ضرورت ہے۔
یہ تو رہا اسپیشل علامات کا استعمال۔ تلفظ ظاہر کرنے کے لیے معروف صوتی امثال یا صوتی تشبیہات کے استعمال کی صورت یہ ہے۔
1۔دور (بر وزن حور): بعید
2۔ دور (بروزن غور): عہد
یا
1۔ ادیب(بروزن نصیب)
2۔ نشیب ( بروزن فریب)

ظاہر ہے کہ ایسی صوتی اور کتابی لغات کی تیاری کا کام فردِ واحد یا چند افراد کے بس کا نہیں بلکہ مقتدر سرکاری اداروں یا بری بڑی جامعات کا ہے ۔
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
۔ تلفظ ظاہر کرنے کے لیے معروف صوتی امثال یا صوتی تشبیہات کے استعمال کی صورت یہ ہے۔
1۔دور (بر وزن حور): بعید
2۔ دور (بروزن غور): عہد
یا
1۔ ادیب(بروزن نصیب)
2۔ نشیب ( بروزن فریب)
حرکات یعنی زیر، زبر، پیش لگا کر بھی درست تلفظ کی ادائیگی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ مثلاً:
دُور، دَور
ادِیب، نشیب
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حرکات یعنی زیر، زبر، پیش لگا کر بھی درست تلفظ کی ادائیگی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ مثلاً:
دُور، دَور
ادِیب، نشیب
عدنان عمر ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا کہ عام تحریر میں ایسا کرنے کی نہ تو ضرورت ہوتی ہے اور نہ ایسا کرنا عملی طور پر ممکن ہے۔ عام زندگی میں تو الفاظ کا تلفظ اہلِ زبان یا زبان دانوں سے سن کر سیکھا جاتا ہے۔ لیکن
یہاں بات غیر اردو دان کو تلفظ سکھانے کی اور ایک معیاری تلفظ کو تحریری صورت میں درج کرنے کی ہورہی ہے۔ اس لیے ان علامات کا استعمال لغت میں کیا جانا ضروری ہے۔
مثال کے طور پر لفظ خوش اور کوش کو لے لیجیے۔ اب ان پر آپ کیا اعراب لگائیں گے؟
ان الفاظ کا تلفظ ظاہر کرنے کے لیے اسپیشل علامات یا صوتی مثالوں کا استعمال ضرور ی ہے۔
1۔ خوش ( خُش)
2۔ کوش (بر وزن ہوش)

وغیرہ وغیرہ
 

ابو ہاشم

محفلین
الفاظ کی کتابت اور قرات میں جس غیر مطابقت کی آپ بات کررہے ہیں وہ ایک عالمگیر "مسئلہ" ہے اور دنیا کی اکثر زبانوں میں موجود ہے۔ الفاظ جس طرح بولے جاتے ہیں اکثر اُس طرح لکھے نہیں جاتے۔ یعنی تلفظ(صوتی شکل) اور املا (تحریری شکل) میں ایک داخلی بُعد اور فرق موجود ہے۔ بولی جانے والی ہر آواز کے لیے ایک علیحدہ علیحدہ حرف بہت کم زبانوں میں پایا جاتا ہے ۔ چنانچہ لغت نگاروں کو کاغذ پر درست تلفظ ظاہر کرنے کے لیے اضافی علامات اور اشکال ایجاد کرنا پڑتی ہیں ۔ تلفظ اور املا کا یہ اختلاف کچھ زبانوں میں کم اور کچھ میں زیادہ ہے۔
اس تلفظ اور املا کے اختلاف کو کم بھی تو کیا جا سکتا ہے اور یہی اس لڑی کا مقصد ہے۔ مثلاً مجھے پرسوں ہی معلوم ہوا اور بہت خوشی بھی ہوئی کہ اردو محفل کے موجودہ فونٹ میں ں خود سے اگلے حرف سے مل جاتا ہے اور اس پر نقطہ بھی نہیں ہوتا جیسے لفظ ساںپ دیکھیں ۔ اس سے یہ لفظ بالکل واضح ہو گیا ہے اور اس پر کسی قسم کے اعراب بھی لگانے کی ضرورت نہیں۔ روایتی املا سانپ کو سانَپ بھی پڑھا جا سکتا ہے، سانِپ، سانُپ بھی اور ساںپ بھی۔
اسی طرح ڈ. گیان چند جین نے اپنی کتاب لسانی مطالعے میں بتایا ہے کہ انگریزی حرف O اسی طریقے سے ادا ہوتا ہے جیسے الف۔ فرق بس یہ ہے کہ الف ادا کرتے ہوئے ہوںٹ پھیلے رہتے ہیں جبکہ O کے ادا کرنے میں ہوںٹوں کو گول کر دیا جاتا ہے۔ یعنی الف تھوڑا سا واؤ کی طرف جھکا ہوا ہوتا ہے۔ الف کے واؤ کی طرف اس تھوڑے سے جھکاؤ کو اس سے ماقبل حرف پر پیش لگا کر ظاہر کیا جا سکتا ہے یوں لُارڈ، فُانٹ وغیرہ ۔
ں کی طرح ے کو بھی اس سے اگلے حرف سے ملا دیا جائے اور اس کی شکل ی کی درمیان والی شکل کی طرح بنا دی جائے اور اس کے نقطے دائیں بائیں کے بجائے اوپر نیچے لگا دیے جائیں تو یہ بھی بالکل واضح ہو جائے گا اور اس پر کسی قسم کے اعراب لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اسی قسم کی تجاویز کے لیے یہ لڑی شروع کی گئی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے پہلے اردو کی ساری آوازیں نظر میں ہوں اور اردو تہجی کے مختلف امکانات پر بھی نظر ہو۔ اسی سلسلے میں اردو صحیحات و عِلّات کی لڑی شروع کی گئی ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ردو محفل کے موجودہ فونٹ میں ں خود سے اگلے حرف سے مل جاتا ہے اور اس پر نقطہ بھی نہیں ہوتا جیسے لفظ ساںپ دیکھیں ۔ اس سے یہ لفظ بالکل واضح ہو گیا ہے اور اس پر کسی قسم کے اعراب بھی لگانے کی ضرورت نہیں۔ روایتی املا سانپ کو سانَپ بھی پڑھا جا سکتا ہے، سانِپ، سانُپ بھی اور ساںپ بھی۔
ابو ہاشم بھائی ، نہایت معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ آپ بہت ہی عجیب بات کررہے ہیں ۔ آپ مختلف مسائل کو خلط ملط کرر ہے ہیں ۔
پہلی بات تو یہ کہ صدیوں سے رائج املا کو بدلنے کی ضرورت کیا ہے ؟ اس سے کیا مقصد حاصل ہوگا؟ کیا زبان سیکھنے کے لیے املا تبدیل کرنا ضروری ہے؟ بالکل بھی ضروری نہیں ۔ اردو سمیت دنیا کی ہر زبان کو اس کے املا کے ساتھ ہی سیکھا جاتا ہے ۔اوپر انگریزی میں cutاور put کی مثال بھی لکھی تھی۔
آپ کہتے ہیں کہ سانپ کو تین مختلف طریقوں سے پڑھا جاسکتا ہے ۔ تو میاں اس طرح تو اعراب تبدیل کرکے ہر ہر لفظ کو کئی طریقوں سے پڑھا جاسکتا ہے ۔ مثلاً قسمت کے قاف اور میم پر زیر یا زبر یا پیش کچھ بھی لگا کر پڑھا جاسکتا ہے ۔ اس کا کیا حل نکالیں گے آپ؟ کیا ہر لفظ کے ہر ایک حرف پر اعراب لگائیں گے؟
آپ مختلف مسائل کو خلط ملط کرر ہے ہیں۔ املا کا کوئی مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں ۔ جو مسئلہ ہے وہ میں نے اوپر لکھ دیا ۔ اس کا اقتباس پھر دے دیتا ہوں۔
اس مسئلے کے صرف دو ہی حل ہیں ۔ ایک تو معیاری صوتی لغت اور دوسرے ایک ایسی کتابی لغت کی تیاری کہ جس میں (انگریزی لغت کی طرز پر )مختلف آوازوں کو ظاہر کرنے کے لیے کچھ علامات اورمعروف صوتی امثال استعمال کی جائیں۔انگریزی زبان میں بھی ہر حرفِ علت مختلف الفاظ میں مختلف آواز پیدا کرتا ہے ۔ چنانچہ انگریزی لغت میں cutاور put میں حرفِ علتuکی آواز کو ظاہر کرنے کے لیے دو مختلف علامات استعمال ہوتی ہیں ۔ تلفظ طاہر کرنے والی ان علامات کا استعمال صرف لغت ہی میں ممکن ہے ۔ عام تحریر میں نہ تو اس کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ایسا عملی طور پر ممکن ہے۔ اور یہی بات اردو پر بھی صادق آئے گی۔
درست اردو تلفظ کو سیکھنے کے لیے مذکورہ بالا صوتی لغت یا کتابی لغت کی دستیابی ضروری ہے۔
اردو لغت نگاروں نےاپنی لغات میں تلفظ ظاہر کرنے کے لیے متعدد علامات استعمال تو کی ہیں (اور اس بارے میں میں نے پہلے کہیں لکھا بھی تھا ) لیکن ان علامات کو یکجا کرنے اور معیاری بنانے یعنی ان کی standardization کی ضرورت ہے۔
 
آخری تدوین:

ابو ہاشم

محفلین
پہلی بات تو یہ کہ صدیوں سے رائج املا کو بدلنے کی ضرورت کیا ہے ؟ اس سے کیا مقصد حاصل ہوگا؟ کیا زبان سیکھنے کے لیے املا تبدیل کرنا ضروری ہے؟ بالکل بھی ضروری نہیں ۔ اردو سمیت دنیا کی ہر زبان کو اس کے املا کے ساتھ ہی سیکھا جاتا ہے ۔
اردو الفاظ کا املا صدیوں سے ارتقا پذیر ہے۔ پہلےہ اور ھ میں فرق نہیں کیا جاتا تھا مثلاً مجھے کو مجہے اور کھانا کو کہانا لکھ دیا جاتا تھا۔ اسی طرح ں لفظ کے آخر میں آتا تو بھی اس میں نقطہ لگایا جاتا تھا۔اس سے بھی پہلے ٹ،ڈ،ڑ پر چھوٹا ط نہیں بلکہ چار نقطے لگائے جاتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے الفاظ کے املا میں بہتری آتی گئی۔ اب بھی بعض الفاظ کے املا میں بہتری لانے کی بات ہو رہی ہے۔ ایسی بہتری جس کا اردو جاننے والے خود سے اندازہ لگا کر سمجھ سکیں اور جو الفاظ کوواضح کر دے۔
اور مقصد اس سے وہی حاصل ہو گا جو مجہے کو مجھے اور کہانا کو کھانا لکھنے سے حاصل ہوا۔
اگر الفاظ کا املا واضح ہو گا تو اس سے زبان سیکھنے میں آسانی ہو گی اور وقت بھی کم لگے گاپاک و ہند کے لوگوں کو بھی اور غیر ملکیوں کو بھی۔ دوسرے لفظوں میں اس سے زبان کو ترقی حاصل ہو گی۔
 

ابو ہاشم

محفلین
آپ کہتے ہیں کہ سانپ کو تین مختلف طریقوں سے پڑھا جاسکتا ہے ۔ تو میاں اس طرح تو اعراب تبدیل کرکے ہر ہر لفظ کو کئی طریقوں سے پڑھا جاسکتا ہے ۔ مثلاً قسمت کے کاف اور میم پر زیر یا زبر یا پیش کچھ بھی لگا کر پڑھا جاسکتا ہے ۔ اس کا کیا حل نکالیں گے آپ؟ کیا ہر لفظ کے ہر ایک حرف پر اعراب لگائیں گے؟
میری عرض کا مقصد یہ تھا کہ سانپ کو ساںپ لکھنے سے یہ لفظ بالکل واضح ہو گیا اور کسی بھی نئے پڑھنے والے کے لیے اس کا تلفظ کسی سے پوچھنے یا کہیں سے دیکھنے یا سننے کی ضرورت نہیں رہی۔
جیسے مجہے کو مجھے اور کہانا کو کھانا لکھنے والی سکیم سے بہت سے الفاظ کا املا بہتر ہو گیا لیکن پھر بھی بہت سارے الفاظ کا تلفظ ان کے املا سے واضح طور پر معلوم نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اس فونٹ میں لفظ کے درمیان میں ں پر نقطہ نہ ڈال کر مزید بہت سے الفاظ کا تلفظ بالکل واضح ہو جائے گا۔ اسی قسم کی تجاویز اس لڑی کا مقصد ہیں۔
یہ ضروری نہیں ہے اور نہ ہی مجھے اس کی توقع ہے کہ ان تجاویز سے اردو کے تمام الفاظ کا املا بالکل واضح ہو جائے گا لیکن بہتری جس قدر بھی آئے اچھا ہی ہے۔
باقی زبر، زیر، پیش لگانے کی جہاں تک بات ہے تو اس کے لیے موجودہ عام تحریروں میں انھیں نہ لگانے کی روایت برقرار رکھی جا سکتی ہے بس یہ اصول بنا لیا جائے کہ جہاں کوئی نیا لفظ یا یا نیا اسمِ معرفہ آئے وہاں زبر، زیر، پیش لگانے کا اہتمام کیا جائے۔
 
آخری تدوین:

ابو ہاشم

محفلین
اس مسئلے کے صرف دو ہی حل ہیں ۔ ایک تو معیاری صوتی لغت اور دوسرے ایک ایسی کتابی لغت کی تیاری کہ جس میں (انگریزی لغت کی طرز پر )مختلف آوازوں کو ظاہر کرنے کے لیے کچھ علامات اورمعروف صوتی امثال استعمال کی جائیں۔انگریزی زبان میں بھی ہر حرفِ علت مختلف الفاظ میں مختلف آواز پیدا کرتا ہے ۔ چنانچہ انگریزی لغت میں cutاور put میں حرفِ علتuکی آواز کو ظاہر کرنے کے لیے دو مختلف علامات استعمال ہوتی ہیں ۔ تلفظ طاہر کرنے والی ان علامات کا استعمال صرف لغت ہی میں ممکن ہے ۔ عام تحریر میں نہ تو اس کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ایسا عملی طور پر ممکن ہے۔ اور یہی بات اردو پر بھی صادق آئے گی۔
درست اردو تلفظ کو سیکھنے کے لیے مذکورہ بالا صوتی لغت یا کتابی لغت کی دستیابی ضروری ہے۔
بلاشبہ یہ دونوں کام نہایت اہم ہیں اور ضرور ہونے چاہیئیں۔
البتہ ہر شخص یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ ایسے الفاظ جن کے تلفظ کے لیے ایسے ذرائع سے رجوع کرنا پڑے جتنے کم ہوں اتنا ہی بہتر ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اردو الفاظ کا املا صدیوں سے ارتقا پذیر ہے۔ پہلےہ اور ھ میں فرق نہیں کیا جاتا تھا مثلاً مجھے کو مجہے اور کھانا کو کہانا لکھ دیا جاتا تھا۔ اسی طرح ں لفظ کے آخر میں آتا تو بھی اس میں نقطہ لگایا جاتا تھا۔اس سے بھی پہلے ٹ،ڈ،ڑ پر چھوٹا ط نہیں بلکہ چار نقطے لگائے جاتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے الفاظ کے املا میں بہتری آتی گئی۔ اب بھی بعض الفاظ کے املا میں بہتری لانے کی بات ہو رہی ہے۔ ایسی بہتری جس کا اردو جاننے والے خود سے اندازہ لگا کر سمجھ سکیں اور جو الفاظ کوواضح کر دے۔
آپ رسم الخط اور املا کو خلط ملط کررہے ہیں ۔

اردو زبان صرف سات آٹھ سو سال پرانی ہے اور اس کا رسم الخط تو اس سے بھی کم پرانا ہے۔ جو مثالیں آپ نے دی ہیں وہ ابتدائی دور کی ہیں کہ جب اردو رسم الخط وجود میں آرہا تھا اور ان میں کچھ مثالیں رسم الخط سے زیادہ املا سے متعلق ہیں۔ میں نے اپنے پہلے مراسلے میں تفصیل سے یہ بات لکھی تھی ۔ ( مجھے کو ایک زمانے تک مجہےلکھنے میں کاتب حضرات کی غلطی اور ذاتی رجحان کو بھی دخل رہا ہے۔اس کے علاوہ بہت سارے کاتب وقت اور کاغذ بچانے کے لیے الفاظ کو ملا کر بھی لکھتے تھے۔ یہ کاتبان کی غلطی تھی اردو زبان کی نہیں ۔ )
اب اردو رسم الخط کا ارتقا ہوئے زمانے گزر گئے۔ ڈیڑھ صدی سے ایک رسم الخظ رائج ہوچکا ہے ۔ زبان کے سلسلے میں سب سے بڑی اہمیت رواج کی ہے ۔ اگررسم الخط میں کوئی تبدیلی کی جائےتو صدیوں پر محیط علمی اور ادبی ذخیرے کا کیا ہوگا؟ ایک ضخیم مواد کمپیوٹرکے لیے یونیکوڈ میں کنورٹ کیا جاچکا ہے ، اس کا کیا ہوگا؟ ایک مستند اور رائج رسم الخط کو بدلنے سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے ۔

جہاں تک نون غنہ پر نقطے کا تعلق ہے تو یہاں آپ اس حرف کے ارتقا ئی سفرکو الٹا یعنی ریورس کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ پہلے نون معلنہ اور غنہ دونوں ہی نقطے کے ساتھ لکھے جاتے تھے چنانچہ بہت سارے لفظوں میں التباس ہوجاتا تھا۔ حسین اور حسیں ، زمین اور زمیں کے اوزان میں فرق ہے ۔ آئین اور آئیں دو مختلف الفاظ ہیں ۔ اسی طرح گاؤن اور گاؤں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بڑا مسئلہ تھا۔ اس مسئلے سےنبٹنے کے لیے حرف کے آخر میں نون غنہ کو بغیر نقطے کے لکھا جانے لگا۔ لیکن یہی کام لفظ کے درمیان میں آنے والے نون غنہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے مزید مسائل اور مشکلات پیدا ہوتے ہیں ۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اس نون غنہ کے اوپر U کی شکل کی ایک چھوٹی سی علامت بنادی جائے۔ بلکہ فیروزاللغات نے اس بھی آگے ایک قدم اٹھایا کہ جن الفاظ کا نون غنہ عروضی وزن میں نہیں آتا ان پر سیدھا U اور جن الفاظ کا نون غنہ وزن میں شمار کیا جاتا ہے ان پر الٹا Uبنادیا جائے ( مثلاً جنگ ، رنگ وغیرہ)۔ چنانچہ لغت دیکھنے سے فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ اس لفظ میں نون غنہ ہے ، نون معلنہ نہیں۔

لفظ کے درمیان میں نون غنہ کو بغیر نقطے کے لکھا جائے تو لفظ میں ایک شوشہ زیادہ ہوجائے گا جس سے پڑھنے والوں کے لیے عجیب و غریب الجھنیں اور مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ مثلاً ان لفاظ کو دیکھیے:
سینت ، گیند ، بھینس،پھینکیں ، پھینکیے ،بھینگے ، گھونسلا ، آنسو ، دھانسو
سیںت ،گیںد، بھیںس ،پھیںکیں ، پھیںکیے ،بھیںگے ، گھوںسلا ، آںسو ، دھاںسو ،
بھینس کو بھیس پڑھا جارہا ہے ۔ آنسو اور دھانسو میں بغیر نقطے کے نون کو لام پڑھا جارہا ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسا کرنے سے آسانی نہیں بلکہ مشکلات پیدا ہوں گی ۔ کیا قاری کسی لفظ کے شوشے گن کر اندازہ لگائے گا کہ اس لفظ کے بیچ میں نون غنہ موجود ہے؟؟؟

اگر الفاظ کا املا واضح ہو گا تو اس سے زبان سیکھنے میں آسانی ہو گی اور وقت بھی کم لگے گاپاک و ہند کے لوگوں کو بھی اور غیر ملکیوں کو بھی۔ دوسرے لفظوں میں اس سے زبان کو ترقی حاصل ہو گی۔
چند لوگوں کی آسانی کے لیے صدیوں سے رائج رسم الخط تو کیا زبان کی کسی بھی چیز کو نہیں بدلا جاتا۔ اگر آپ کو یا مجھے انگریزی ، فرانسیسی ، ہندی ، سندھی جو بھی زبان سیکھنی ہو تو ہم اسے اس کی مروجہ حالت میں اس کے رسم الخط ، املا اور قواعد کے ساتھ ہی سیکھیں گے۔ تو اردو کے ساتھ ایسا کیوں کیا جائے؟
اور جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا ۔ زبان کو سیکھنے کا بنیادی طریقہ اہلِ زبان اور زبان دانوں سے سن کر سیکھنا ہے نہ کہ کتاب پڑھ کر۔
کیا میں اور آپ انگریزی کتاب پڑھ کر الفاظ کا درست تلفظ جان سکتے ہیں ؟؟؟ قطعی نہیں ۔ جب تک وہ لفظ کسی انگریزی دان سے سن نہ لیں تب تک نہیں جان سکتے۔ یا پھر یہ کہ انگریزی لغت میں موجود اسپیشل علامات یا صوتی تشبیہات کی مدد سے سے سیکھا جائے۔ اس بارے میں میں تفصیلاً اوپر لکھ آیا ہوں ۔
 
آخری تدوین:
Top