اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۱۸

جیمس جوائس نے اپنی تخلیقات کی ابتدا شاعری سے کی اور ۱۹۰۷ میں پہلا مجموعہ چیمبر میوزک

Chamber Music

کے نام سے شائع کیا۔ اس کے بعد اس نے اپنی نظموں کے کئی مجموعے شائع کیے لیکن بحیثیت شاعر اسے کوئی خاص مقام حاصل نہ ہو سکا۔ ادب میں اصل مقام اس نے نثر کے ذریعہ پیدا کیا۔ اس کی پہلی نثری تصنیف ڈبلنرز

Dubliners

ہے جو کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ان کہانیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ربط ہے۔ یہ بالکل نئی طرح کی کہانیاں ہیں۔ انھیں شروع میں کوکئی ناشر نہیں ملتا تھا۔ اس کے بعد اس نے ایک ناول "پورٹریٹ آف این آرٹسٹ ایز اے ینگ مین"

Portrait of an Artist as a Young Man

لکھا جو امریکہ سے شائع ہوا۔ اس میں ایک نوجوان کی زندگی، حقیقت پسندی کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ اس میں جو تکنیک استعمال کی گئی تھی وہ جوائس نے بعد کے ناولوں میں بھی استعمال کی۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ اس کا ناول "یولی سِس"

Ulysses

ہے جو اس نے ۱۹۱۴ اور ۱۹۲۱ کے درمیان زیورچ اور پیرس میں لکھا۔ اس کے لیے بھی ناشر کا ملنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ اس لیے کہ اس پر فحاشی کا الزام لگایا گیا تھا۔ پہلی مرتبہ ۱۹۲۲ میں یہ پیرس سے چھپا۔ امریکا میں ۱۹۲۳ تک اس پر پابندی لگی رہی۔ اس ناول کا ڈھانچہ بہت پیچیدہ ہے۔ یہ کئی سطحوں پر آگے بڑھتا ہے۔ عام گرامر کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ مختلف زبانوں کے الفاظ اور فقرے استعمال کیے گئے ہیں۔ ہر کیرکٹر کے ساتھ اسٹائل بھی بدل جاتی ہے۔ جوائس نے اس میں مذاہب، اساطیر، جغرافیہ، زبانوں اور بے شمار دوسرے چیزوں سے متعلق اپنے علم کو اس کے اندر سمیٹ لیا ہے۔ اسے پڑھنے میں کافی دقت اور محنت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اسی لیے اس کے بے شمار نقادوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۱۹

نے مختلف بیانات کو متلفم معنی پہنائے ہیں۔ یولی سِس کی تکنیک جوائس نے اپنی دوسرے تصنیفات مثلاً "ورک ان پروگرس" میں بھی استعمال کی ہے۔ اس نے ایک ڈرامہ جلا وطن

Exiles

بھی لکھا تھا۔ جوائس کی تصنیفات کے یوروپ کی اکثر زبانوں میں کئی اڈیشن نکل چکے ہیں اور نقادوں نے اس کی تصنیفات پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔

جوش، سلطان حیدر ((۱۹۵۳ – ۱۸۸۶)) : زندگی کا بڑا حصہ علی گڑھ میں گزارا۔ اردو کے ابتدائی دور کے ناول نگاروں میں سلطان حیدر جوش بھی شامل ہیں۔ افسانے بھی لکھے۔ جوش معاشرتی اصلاحی افسانہ نگار ہیں۔ مشرقی اور مغربی خیالات اور تہذیبوں کے تصادم کو اپنے افسانوں میں موضوع بنایا ہے اور ہندوستانیوں کو مغرب کی کورانہ تقلید سے بچنے کی ترغیب دی ہے۔ جوش کے افسانوں میں مقصدیت غالب ہے۔ پہلا مجموعہ "افسانہ جوش" اصلاحی رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس میں ناصحانہ رنگ اتنا گہرا ہے کہ افسانویت دب گئی ہے۔ دوسرے مجموعہ "فکر جوش" کے افسانے فنی اعتبار سے بہتر ہیں۔ اصلاحی مقصد سے زیادہ توجہ دل چسپی کے عنصر پر دی گئی ہے۔ مزاج کی شگفتگی بھی نمایاں ہے۔ جوش کی تصنیفات کے نام یہ ہیں : ابن مسلم، افسانہ جوش، فکر جوش، نقش و نقائص اور نواب فرید وغیرہ۔

جوشی، رام چندر بھیکا جی ((را۔ بھی۔)) ((۱۹۰۳ – ۱۹۹۱)) : ان کی ابتدائی تعلیم حیدر آباد میں ہوئی۔ بی۔ اے۔ کرنے کے بعد وہ ایک ہائی اسکول میں پڑھانے لگے اور ایم۔ اے۔ کر کے ممبئی کے سدھارتھ کالج اور مہاڈ کے امبیڈکر کالج میں پرہفیسر اور پرنپل کی حیثیت سے اکیس سال تک کام کرنے کے بعد ۱۹۶۳ میں سبکدوش

 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۲۰

ہوئے۔ اس کے بعد ممبئی کے "مراٹھی سنشودھن منڈل" کے ڈائریکٹر رہے۔ آزادی سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں بھی کام کیا تھا۔

را۔ بھی۔ جوشی نے اپنی قلمی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا تھا۔ ان کی کہانیوں کا مجموعہ "کانچ کا خول" ۱۹۴۹ میں شائع ہوا اور دوسرا افسانوی مجمودہ "جھمن" ۱۹۵۳ میں منظر عام پر آیا۔ ان میں روایتی انداز کی کہانیاں تھیں اس لیے انھیں امتیازی شناخت نہیں مل سکی۔

غالباً فکشن سے فطری لگاؤ کے سبب ہی انھوں نے اردو ناول اور افسانے کی طرف توجہ دی۔ آل انڈیا ریڈیو دہلی کی ملازمت کے دوران انھیں کرشن چندر، سعادت حسن منٹو اور ن۔ م۔ راشد وغیرہ سے اردو ادب کے بارے میں زیادہ جانکاری حاصل ہوئی اور انھوں نے ترقی پسند اور جدید فکشن کو اردو سے مراٹھی میں ڈھالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ سب سے پہلے انھوں نے کرشن چندر کے ناول شکست کا ترجمہ "واتاہت" کے نام سے کیا جو ۱۹۴۸ میں ممبئی سے شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کی مترجمہ کہانیوں کا مجموعہ "میلاد شریف" ۱۹۵۸ میں منظر عام پر آیا جس میں محمد حسن عسکری کی اسی عنوان کی کہانی شامل ہے۔ ۱۹۶۰ میں انھوں نے عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، ہاجرہ مسرور وغیرہ خواتین افسانہ نگاروں کی کہانیوں پر مشتمل مجموعہ "انوکھی واٹا ((انجان راہیں)) شائع کیا۔

جوشی وقتاً فوقتاً مراٹھی میں اردو ادب اور مراٹھی اردو لین دین پر لکھتے رہے۔ مراٹھی ادب سے متعلق پہلی اردو کتاب "مراٹھی ادب کا مطالعہ" پر تحریر کردہ ان کا "مقدمہ" ادبی لین دین کی پذیرائی اور تہذیبی و لسانی ہم آہنگی ا مظہر ہے۔ مہاراشٹر اردو اکادمی نے ان کی اردو مراٹھی خدمات کے اعتراف میں انھیں خصوصی انعام بھی دیا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 530

جینیندر کمار ((1905 – 1988)) : جینیندر کمار ہندی افسانہ نگار، ناول نگار اور مضمون نگار ہیں۔ انھوں نے پریم چند کی روایت سے متاثر ہو کر افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی کہانی "فوٹو گرافی" 1927 میں اور دوسری کہانی "تروینی" شائع ہو چکی تھیں۔ انھوں نے ہندی افسانے کو داخلیت سے روشناس کرایا۔ ان کے افسانوں میں فلسفیانہ رنگ بھی نظر آتا ہے۔ انھوں نے سماج کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا اور ایک ماہر نفسیات کی طرح انسان کے لطیف اور نازک احساسات کو گرفت میں لینے کی کوشش کی۔ ہندی ادب کے نقاد جینیندر کو ویکتی وادی کہانی کار بھی کہتے ہیں۔ ہندی فکشن میں جینیندر ہی نے وجودی فلسفے کو داخل کیا ہے۔ انھوں نے ہندی کہانی کو نئی سمت دی۔ ان کی منفرد انداز کی نشاندہی 1940 کے بعد ہوئی۔ ان کے نئے انداز نے ہندی فکشن کی دنیا میں ہلچل پیدا کر دی۔ ان کا نیا طرز فکر، نیا نظریہ اور جدید اسلوب نقادوں کے درمیان اختلاف کا باعث بن گیا۔ ترقی پسندوں نے ان کے افسانوں کو ناپسند کیا جن میں جنسی رشتوں کو موضوع بنایا گیا تھا۔ لیکن داخلیت اور فرد کو اہمیت دینے والے ادیبوں نے جینیندر کمار کو جدید دور کا مسیحا قرار دیا۔ ان کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 531

کہانیاں دو طرح کی ہیں۔ پہلی قسم کی وہ کہانیاں جن میں نفسیات کو موضوع بنایا گیا ہے اور دوسری قسم کی وہ کہانیاں جن میں فلسفے کی گتھیاں سلجھاتے نظر آتے ہیں۔ "داتایات"، نیلم دیش کی راج کنیا"، "دو چڑیاں"، "دِھرو یاتر"، "پازیب"، "پھانسی"، "جے سندھی"، "کھیل"، "ایک رات"، باہوبلی" وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

جینیندر کمار ہندی کے اہم ناول نگار بھی ہیں۔ ان کے کم و بیش پندرہ ناول شائع ہو چکے ہیں۔ "پرکھ" ان کا پہلا ناول ہے جس نے اپنی انفرادیت کی وجہ سے قارئین کی توجہ اپنی جانب کی تھی۔ ((1)) سنیتا، ((2)) تیاگ، ((3)) کلیانی، ((4)) سکھدا، ((5)) ویورت، ((6)) بیتیت، ((7)) جے وردھن اور ((8)) مکتی بودھ ان کے مشہور ناول ہیں۔

جینیندر کمار ہندی نضمون نگاری میں بھی منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کے اب تک چھوٹے بڑے مضامین کیے کم و بیش ایک درجن مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ((1)) جڑ کی بات ((1945))، ((2)) ساہتیہ کا شرے و پرے ((1953))، ((3)) سوچ وچار ((1952))، ((4)) منتھن ((1953))، ((5)) یہ اوروے ((1954))، ((6)) پرستت پرشن ((1937))، ((7)) کام پریم پریوار ((1953))، ((8)) سمے اور ہم ((1962))، ((9)) ساہتیہ چین ((1951))، وغیرہ ان کے مشہور مجموعے ہیں۔ کھڑی بولی ہندی کو اردو کے مستقل اور معروف اندز سے جوڑ کر بات چیت کے لہجے میں پیش کرنا جینیندر کی اپنی خصوصیت ہے۔ ان کے یہاں جملے چھوٹے چھوٹے اور خوب صورت ہوتے ہیں۔ جینیندر ہندی کے فکری نقاد ہیں۔ ادب، سماج، سیاست، مذہب، تہذیب اور فلسفہ سب پر بڑی آسانی سے وہ اظہار خیال کرتے ہیں۔ موضوع کی گہرائی تک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 532

جانے کی ان میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ یہ "اوروی" جینیندر کمار کی وہ مشہور یادنوشت ہے جو انھوں نے بعض اہم مجاہدین آزادی کی یاد میں تحریر کیا تھا۔

جیو تریشور ٹھاکر ((1280 – 1340)) : میتھلی زبان کا پہلا ادیب جس کی تصنیف خالص میٹھلی میں ہے۔ وہ بلند مرتبت شاعروں کا استاد ((کوی شیکھر آچاریہ)) کہلاتا تھا۔ جوتک اس کا قلمی نام تھا۔ وہ میتھلا کے نامور راجہ مہاراجہ ہر سنہاعیو کو اپنا سرپرست بتلاتا ہے۔ میتھلا میں سنسکرت علوم و فنون کا یہ سنہرا دور تھا۔ یہاں سنگیت، شاعری اور ڈرامہ کو درباروں کے علاوہ عوام کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔ جیو تریشور نے سنسکرت شاعر جے دیو کے اتباع میں غنائی گیت لکھے اور انھیں اپنے سنسکرت مذاحیہ ناٹک "ڈھرتا سماکما"

Dhurtasamaga

کے میتھلی ترجمہ میں شامل کیا۔ اس سے زیادہ اہم اس کی ایک نثری تصنیف ہے جو آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ اسے بجا طور پر "ورن رتناکر" ((بحر البیان))

Varnaratna Kara

کہا جاتا ہے۔ یہ تصنیف نہ صرف موجودہ شاعری کی رہنمائی کرتی ہے بلکہ آئندہ کے شاعروں کے لیے بھی شمع ہدایت کا کام دیتی ہے۔ جیوتریشور کا اسلوب قدامت پسندانہ ہے جس میں آفاقیت کی جھلکیاں بھی موجود ہیں۔ ان ہی خصوصیات کی بنا پر میتھلی مشرقی ہند کی ساری زبانوں میں پیش پیش تھی۔

جیوگام دھنی، شاہ علی محمد ((م۔ 1565)) : گجرات کے ممتاز صوفی شاعر تھے۔ والد کا نام شاہ ابراہیم ابن عمر الحسینی تھا۔ باپ کی طرف سے سلسلہ نسب سید احمد کبیر رفاعی اور ماں کی طرف سے حضرت عبد القادر جیلانی تک پہنچتا ہے۔ گام دھنی ((گاؤں کا مالک)) ان کا لقب اس وجہ سے تھا کہ جس کو جو چاہتے تھے دے دیتے تھے۔ ان کا نقش نگیں "اللہ باقی محمد ساقی" تھا۔ برگ تبنول کی شکل میں یہ نقش کندہ تھا۔ جو شجرے مریدوں کو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 533

دیے جاتے تھے ان پر اس کی مہر لگائی جاتی تھی۔ شاہ صاحب وحدت الوجود کے قائل تھے۔ باہر سے جو بزرگ گجرات آتے ان کے یہاں قیام کرتے۔ شیخ بہاء الدین برناوی گجرات آئے تو شاہ علی کے مہمان ہوئے۔ شاہ صاحب نے ایک ان کو اپنا ہندی کلام سنایا۔ شیخ نے اسے پسند کیا۔

رائے کھیڑ ((احمد آباد)) میں شاہ غزنی کے مقبرہ کے پاس ان کا مزار مرجع عام و خاص ہے۔ شاہ علی جیو گام دھنی کی نظموں کا مجموعہ "جواہر اسرار اللہ" ہے۔ "مرآت احمدی " کے مصنف محمد حسن نے اسے طرز فکر اور معنی کے لحاظ سے "دیوان مغربی" کے ہم پایہ خیال کیا ہے۔ ان کے کلام کو ان کے ایک مرید ابو الحسن فتح محمد ابن عبد الرحم القریشی الاحمد نے مرتب کیا تھا۔ ابتدا میں ایک فارسی دیباچہ اور بارہ شعروں کی مدحیہ نظم ہے۔ بعد میں معتقدین کے اصرار پر ان کے پوتے شاہ ابراہیم نے ایک مبسوط دیباچہ لکھ کر دوبارہ مرتب کیا۔ اس میں پہلی ترتیب کا ذکر ہے۔ مدحیہ نظم بھی شامل ہے۔ پہلے عربی میں دیباچہ ہے۔ پھر فارسی دیباچہ ہے۔

ان کا کلام توحید اور وحدت الوجود کے اسرار و رموز سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں سوز و گداز ہے۔ خیالات اور جذبات ہندستانی ہیں۔ چند نظموں میں فارسی مضامین بھی ہیں۔ میلاد نبی، مدح شاہ احمد کبیر، آفرینش کے عنوان سے عمدہ نظمیں ہیں۔ بارہ ماسہ کی طرز کی ایک سہ حرفی بھی لکھی ہے۔

چاسر، جیفرے ((1400 – 1340))

Chaucer, Geoffrey

انگریزی ادب کی انتہائی اہم شخصیتوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کے بارے میں عام طور پر بہت کم مواد ملتا ہے۔ صرف پرانے سرکاری ریکارڈ سے تھوڑی بہت معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ چاسر 1340 اور 1344 کے درمیان لندن میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ چاسر شراب کا کاروبار کرتا تھا۔ چاسر کئی سال تک شہزادہ لائنل کے یہاں ایک ادنیٰ ملازم رہا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 534

1359 – 60 میں وہ ایڈورڈ سوم کی فوج میں شریک ہو کر فرانس گیا۔ وہاں دشمن کے ہاتھ لگا لیکن معاوضہ دے کر اسے چھڑوا لیا گیا۔ 1366 میں اس نے ایڈورڈ سوم کی ملکی کی ایک خادمہ کے ساتھ شادی کر لی۔ اس کے بعد وہ کئی سرکاری خدمتوں پر مامور رہا اور اٹلی اور یوروپ کے دوسرے ممالک میں سفارتی خدمات بھی اسے ملیں۔ 25 اکتوبر 1400 کو اس کا انتقال ہو گیا اور ویسٹ منسٹر ایبے میں دفن کیا گیا۔

چاسر ایک اعلٰی پائی کا افسانہ نگار اور شاعر تھا۔ اپنی ادبی سرگرمی کے ابتدائی دور میں وہ فرانسیسی ادب سے بے حد متاثر تھا اور اکثر ان کے چربے اتارا کرتا تھا۔ اس دور کی اس کی مشہور تصنیف "ڈچز کی کتاب"

Book of the Dutches

ہے جو اس نے 1370 میں لکھی۔ اس کا کچھ حصہ ایک مشہور فرانسیسی ناول کا ترجمہ ہے۔ اس کی ادبی تخلیقات کا دوسرا دور اطالوی دور کہلاتا ہے۔ یہ دور 1385 تک رہا۔ اس میں وہ مشہور اطالوی ادیبوں دانتے اور بوکاچو

Boccaccio

سے بے حد متاثر رہا۔ اس دور کی اس کی تصنیفات ان ہی ادیبوں کی تخلیقات کے نمونہ پر ہیں۔ بعض اطالوی تصنیفات کا اس نے ترجمہ کیا۔ اس دور کی اس کی کتابوں میں "ہاؤس آف فیم"

House of Fame

اس کی زندگی کا بہترین کارنامہ ہے۔ اس میں اس نے حقیقت پسندی اور مشاہدے کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اس کی بے جھجھک حقیقیت نگاری اس کی طبیعت سے میل کھاتی تھی۔ اس نظم میں واقعاتی بیانیہ کے ساتھ جو کردار نگاری جھلکتی ہے، اُس میں ڈرامائی عنصر اور مزاح کی کارفرمائی خاص طور پر جاذب نظر ہے۔ اس نظم کی بناوٹ اور کردار نگاری میں کسی حد تک

Puilastrato

اور "پارلیمنٹ آف فاولس"

Parliament of Fowls

مشہور ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 535

اصل میں چاسر کا آخری دور سب سے اہم ہے جس میں وہ اپنے فن کے عروج پر پہنچا۔ اس دور میں اس نے شاعری میں نئی راہیں نکالیں اور کینٹر بری ٹیلس

Canterbury Tales

لکھی۔ اس میں 17 ہزار اشعار ہیں اور یہ کتاب نامکمل ہے۔ اس میں اس دور کی انگلستان کی زندگی کا مرقع پیش کر دیا گیا ہے۔ اس کا شمار دنیا کے اعلٰی ترین ادب میں ہوتا ہے۔

چائلڈ، ویر گارڈن ((1957 – 1892))

Child, Vere Garden

انگریز ماہر فن تعمیر و مستشرق۔ آسٹریلیا میں پیدا ہوا۔ آکسفورڈ میں تعلیم پائی۔ جامعہ ایڈنبرا اور جامعہ لندن میں پروفیسر رہا۔ ماقبل تاریخ دور کے یوروپ کی سماجی زندگی پر اس کا کام بہت مشہور اور اہمیت کا حامل ہے۔ اس پر اس نے دو نہایت مبسوط کتابیں لکھیں۔ اس کے علاوہ اسے مشرق کی آثارِ قدیمہ اور تاریخ سے بھی بڑی دلچسپی تھی۔ اپنی تصانیف میں اس نے ایشیا کی قدیم تاریخ پر نئے انداز میں نظر ڈالی ہے۔ اس کے علاوہ انسانی تاریخ پر بھی اس نے دو جلدوں میں مبسوط طریقہ پر روشنی ڈالی ہے۔

چیلونکر، وشنو شاستری ((1850 – 1882)) : 20 مئی 1850 کو پیدا ہوئے۔ وہ سنسکرت، انگریزی اور مراٹھی ادب کے ایک اچھے طالب علم تھے۔ انھوں نے اپنے والد کرشن شاستری کے رسالہ "شالا پترک" ((1865)) میں "راسیلس"

Rasselas

کا ترجمہ اور سنسکرت شاعروں پر مضامیں کا سلسلہ شروع کیا اور 1872 میں خود اس رسالہ کے مدیر بنے۔ اس پرچہ میں انھوں نے تاریخ، ادبی تنقید اور فلسفہ پر بڑے عالمانہ مضامین لکھے ہیں۔ وہ ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر بھی رہے لیکن 1879 میں اپنی ملازمت سے استعفی دے دیا۔ "کتاب خانہ" کے نام
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 536

سے پونا میں انھوں نے کتابوں کی ایک دوکان بھی کھولی تھی۔ 1880 میں پونا ہی میں "نیو انگلش اسکول" شروع کیا۔

ان کے ادبی سرمایہ میں ترجمے، زبان اور تاریخ پر مضامین، ادبی تنقید، نزاعی بحث و تمحیص، سماجی مسائل، سیاست اور نفسیات سب ہی شامل ہیں۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ اپنے بہترین طرز تحریر اور قوت استدلال کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں اور مراٹھی میں مباحثی ادب کے بانی کہلاتے ہیں۔ ان کی تصانیف کا انتخاب مرکزی شاہتیہ اکادمی کی جانب سے شائع ہوا ہے۔

چٹرجی، سنیتی کمار ((1890 – 1977)) : ان کے دادا ((متوفی 1906)) فارسی پڑھے ہوئے تھے۔ سنیتی کمار چڑجی ان سے گلستان اور پند نامے کے قصے سنا کرتے تھے۔ والد ہری داس چٹرجی انگریزی فرم میں نوکر تھے اور بنگلہ کے اچھے شاعر اور موسیقار تھے۔ سنیتی کمار نے 1913 میں کولکتہ میں انگریزی میں فرسٹ کلاس فرسٹ ایم۔ اے۔ کیا۔ اور اسی سال کولکتہ یونیورسٹی میں انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہو گئے۔ 1918 میں ویدک سنسکرت کی ڈگری لی اور وظیفہ لے کر لندن گئے۔ 1921 میں انڈوایرین فلالوجی پر ڈی۔ لٹ۔ کی ڈگری لی۔ 1921-22 میں پیرس یونیورسٹی میں لسانیات اور کئی کلاسیکی زبانوں کا درس لیا۔ یوروپ سے واپسی پر کولکتہ یونیورسٹی میں تقابلی لسانیات کے پروفیسر ہو گئے۔ وہاں سنسکرت، پالی نیز تاریخ تمدن اسلام کا بھی درس دیا۔ 1952 میں کولکتہ یونیورسٹی سے ریٹائر ہو کر لسانیات کے پروفیسر ایمریٹس ہو گئے۔ اسی سال گریجویٹوں کے حلقے سے بنگال لیجسلیٹیو کونسل

Bengal Legislative Council

کے رکن اور صدر ہو گئے۔ 1957 میں کولکتہ یونیورسٹی کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 537

فنونِ لطیفہ اور موسیقی کی فیکلٹی میں ڈین ہو گئے۔ مئی 1964 میں مرکزی حکومت کی طرف سے قومی پروفیسر مقرر ہوئے۔

سنیتی کمار چٹرجی غیر ممالک کے متعدد سفر کیے اور لیکچر دیے۔ برلن کے مشرقی انسٹی ٹیوٹ اور گجرات سبھا ریسرچ شعبے کے خطبات سب سے اہم ہیں۔ چٹرجی بین سلوینیا یونیورسٹی امریکا میں ایک سال وزیٹنگ پروفیسر رہے۔ متعدد بیرونی سوسائٹیوں کے رکن رہے۔ 1936 میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کے فیلو، اور 1953 میں صدر چنے گئے۔ 1948 میں ہندی ساہتیہ سمیلن سے ساہتیہ واچسپتی کا خطاب، 1955 میں پدم بھوشن، 1963 میں پدم وبھوشن ملا۔ 1955-56 میں مرکزی سرکاری زبان کمیشن کے رکن اور 1956-57 میں سنسکرت کمیشن کے صدر ہوئے۔ مارچ 1961 میں روم یونیورسٹی سے ڈی۔ لٹ۔ ملی۔ کئی سال مرکزی ساہتیہ اکادمی کے صدر رہے۔ آپ کی متعدد کتابوں میں سب سے اہم یہ ہیں :

1926 میں

Origin and Development of Bengali Language

((دو جلد 1179 صفحات))۔ یہ ہندوستانی زبانوں کی قاموس ہے۔ گجرات ودیا سبھا احمد آباد کے خطبات

Indo – Aryan and Hindi

((اشاعت 1942)) اردو میں بھی ترجمہ ہوا اور 1943 میں

Language and Linguistic Problem

کا اردو ترجمہ ہوا۔ 1957 میں اناملائی یونیورسٹی میں دراوڑی لسانیات کا شعبہ کھلا۔ اس کا عالمانہ خطبہ

Dravidian

1965 میں شائع ہوا اور ضخیم کتاب

Languages and Literatures of Modern India

کولکتہ 1963 میں شائع ہوئی۔ ادبی تنقید اور تہذیب اقوام پر بھی تصانیف کیں۔ دو کتابیں "قوم، تہذیب اور ادب " اور "ہندوستانی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 538

تمدن" قابل ذکر ہیں۔ مضامین کی تعداد ڈھائی سو کے لگ بھک ہے۔ ڈاکٹر شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے ان کی بنگالی کتابوں کے منتخب مضامین کا ترجمہ "بکھرے ورق" 1968 میں شائع کیا۔

دو بڑے ماہرینِ لسانیات نے ہندوستان میں آریوں کا آمد کا اندرونی اور بیرونی گروہوں کا نظریہ پیش کیا۔ چٹرجی نے اس کی شافی تردید کی۔ انھوں نے "انڈوایرین ایند ہندی" میں اردو کے خلاف لکھا ہے لیکن سرکاری زبان کمیشن کے اختلافی نوٹ میں ہندی کی شدید مخالفت اور اردو کی حمایت کی۔ اپنے آخری زمانے میں وہ اردو کے مکمل حامی ہو گئے تھے اور انھوں نے صاف لکھا کہ ہندی کچھ نہیں ہے صرف سنسکرت آمیز ناگری رسم خط میں ہندوستانی ہے اور اردو ((یعنی فارسی آمیز ہندوستانی)) اصل زبان ہے جو بقول ڈاکٹر تارا چند صدیوں سے اس ملک کے مہذب حلقوں میں بولی اور لکھی جاتی رہی ہے۔

چراغ علی مولوی، اعظم یار جنگ ((1895 – 1844)) : مولوی چراغ علی کے آبا و اجداد کشمیر کے رہنے والے تھے۔ ان کے والد مولوی محمد بخش نے میرٹھ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ یہیں چراغ علی پیدا ہوئے۔ دس سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ معمولی تعلیم کے بعد سلسلہ معاش میں ضلع بستی چلے گئے۔ وہاں محکمہ خزانہ میں بیس روپیہ ماہوار پر ملازم ہو گئے۔ قانون کا امتحان دے کر جوڈیشیری کمشنر اودھ کے ڈپٹی منصرم اور پھر سیتاپور کے تحصیلدار ہو گئے۔ علمی شوق ان کی فطرت میں تھا۔ کئی زبانوں انگریزی، لاطینی اور یونانی سے واقف تھے۔ علمی ترقی کے ساتھ ملازمت میں بھی ممتاز عہدوں تک پہنچے۔ 1877 میں سرسید کی کوشش سے حیدرآباد آئے جہاں محسن الملک کے ماتحت چار سو روپیہ ماہوار پر مددگار معتمد مال ہوئے۔ یہاں کچھ ایسی خوش اسلوبی دکھائی کہ جلد ہی معتمدی مال پر ترقی مل گئی۔ یہیں انتقال ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 539

کتب بینی کا انھیں ایسا شوق تھا کہ مطالعہ کے لیے غیر ممالک سے گتابیں منگواتے تھے۔ تصانیف کی تعداد خاصی ہے۔ بہت سی کتابیں حیدرآباد کے سرکاری امور پر لکھیں۔ مذہبی کتابیں بھی کئی ہیں جن میں تحقیق الجہاد، رسول برحق، اصلاحات سلاطین اسلام، اسلام کی دینوی برکتیں، قدیم قوموں کی مختصر تاریخ قابل ذکر ہیں۔ خطوط "مجموعہ رسائل" کے نام سے چھپ چکے ہیں۔ اخلاقی مسائل پر چند اردو اور انگریزی پمفلٹ بھی ہیں۔ تہذیب الاخلاق کے مستقل اور معروف قلمی معاون تھے۔ ان کی نظر زیادہ تر نفسِ مضمون پر رہتی ہے۔ عبارت آرائی اور رنگینی مفقود ہے۔ چراغ علی کو مذہبی مسائل سے بھی کافی دلچسپی تھی۔ فن مناظرہ میں دستگاہ رکھتے تھے۔

چرخہ نامہ : چرخہ کاتتے وقت گیت گانے کی رسم عام ہے۔ دکن میں چرخہ کاتتے وقت گائے جانے کی غرض سے لکھے گئے گیتوں کو "چرخہ نامہ" کہتے ہیں۔ چرخہ نامے کی غایت ایک طرف تو یہ تھی کہ کاتنے والی/والے کے دل کو اللہ کی طرف متوجہ رکھا جائے، دوسرے یہ کہ محنت کی یکسانیت کا احساس موسیقی کی مدد سے کم کر دیا جائے۔

چسٹرٹ، گلبرٹ کیتھ ((1936 – 1874))

Chesterton, G. K.

برطانوی ناول نگار، نقاد، شاعر صحافی اور انشاپرداز۔ وہ لندن میں پیدا ہوئے اور سینٹ پال اسکول اور سلیڈ میں تعلیم حاصل کی۔ شروع مٰن انھوں نے اپنے دوست ہلیری بلوک کے ناولوں کے لیے مرقعے تیار کیے جو پسند کیے گئے مگر پھر انھوں نے خود لکھنے کی طرف توجہ کی۔ ان کے مضامین برابر "دی بک مین"، "السٹرئیڈ لندن نیوز" اور "اسپیکر" میں چھپنے لگے۔ کچھ مضامین جو انھوں نے بوئروار کے زمانہ میں لکھے تھے میں انھوں نے کھل کر شہنشاہیت اور استعمار پسندی پر تنقید کی۔ ان کی پہلی کتاب جو اشعار اور خاکوں کا مجموعہ تھی 1900 میں "گرے بیرڈس ایٹ پلے۔ لٹریچر اینڈ آرٹ فار اولڈ جنٹلمین"
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 540

کے نام شائع ہوئی۔ اس کے بعد "وائلڈ نائٹ" اور دوسری نظمیں شائع ہوئیں۔ انگلینڈ کی خصوصیات کو انھوں نے شعری زبان میں "کلکٹڈ پوئمس" میں بحسن و خوبی ادا کیا۔

ان کا پہلا ناول "دی نپولین آف ناٹنگ بل" 1904 میں شائع ہوا جس میں انھوں نے موجودہ دنیا کی کاروباری ذہنیت اور سیاسی طاقت کی مرکزیت کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیا اور صنعت و حرفت اور کارخانوں سے پہلے کی دنیا کی تعریف و توصیف کی۔ ایسے ہی جذبات ان کے دوسرے ناولوں "دی میں ہو واز تھرسڈی" اور "اے نائٹ میر" میں پائے جاتے ہیں۔ پھر انھوں نے ایک سیدھے سادے کیتھولک پادری کے بارے میں کئی جاسوسی کہانیاں لکھیں جن میں اس پادری نے اپنی روحانی طاقت سے کئی پیچیدہ اور پراسرار جرائم کا پتہ لگایا۔ خود چسٹرٹن نے بھی 1922 میں کیتھولک مذہب اختیار کر لیا۔

ادبی تنقید کے میدان میں چسٹرٹن کی "چارلس ڈکنس" کتاب آج بھی وقعت کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ اس نے رابرٹ برادننگ، جارج برناڈشا، ولیم بلیک اور چوسر پر تنقیدی کتابیں لکھیں۔ اس کے علاوہ اس نے کئی کتابیں مختلف معاشرتی، سیاسی اور مذہبی موضوعات پر لکھیں جیسے "ہیر ٹیکس" آرتھوڈا کسی "سینٹ فرانسس آف آسی" اور سینٹ تھامس اکیوناس"۔ ان کے مقالات کے چار مجموعے آل تھنگس کینڈرڈ"، "اے مسیلینی آف مین"، "یوزز آف ڈائیورسٹی" اور "ایز آئی واز سیانگ" بھی شائع ہوئے۔ آخری کتاب ان کی خود نوشت سوانح عمری "آٹوبایوگرانی" 1936 میں شائع ہوئی۔

چکبست، برج نارائن ((1926 – 1882)) : چکبست کا لکھنؤ کے ایک کشمیری برہمن خاندان سے تعلق تھا۔ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ نشو و نما لکھنؤ میں ہوئی۔ مغربی تعلیم کے ساتھ فارسی ادب کا بھی مطالعہ کیا۔ کیننگ کالج
 

شمشاد

لائبریرین
صٖفحہ 541

سے بی۔ اے۔ کی ڈگری لی، پھر قانون کا امتحان پاس کر کے وکالت کرنے لگے۔ اس پیشہ میں ایسی کامیابی حاصل کی کہ لکھنؤ کے بہترین وکیلوں میں گنے جانے لگے۔

شاعری کا ذوق انھیں شروع سے تھا۔ پہلے غزلیں کہیں پھر نظمیں لکھنے لگے۔ کسی کی باقاعدہ شاگردی اختیار نہیں کی۔ قدامت اور فرسودگی سے اپنی غزل کو دور رکھا۔ اس وقت ہندوستان کی سیاست میں جو ہل چل مچی ہوئی تھی اور جنگ آزادی جس منزل سے گزر رہی تھی چکبست کی نظمیں اس کی مظہر کہی جا سکتی ہیں۔ مجموعی طور پر وہ ایک روشن خیال شاعر تھے اور ملک و قوم کو آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ ان کی نظمیں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے جذبات کی ترجمان ہیں۔

چکبست پر انیس کا بہت اثر تھا۔ مرثیہ گوئی ان کے لیے ذرا مشکل تھی اس لیے مرثیے کے بجائے رامائن کے بعض دلچسپ اور مو ثر واقعات انھوں نے میر انیس کے انداز میں لکھے ہیں جو اردو شاعری میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں مرثیہ کی جھلک نمایاں ہے۔ انھوں نے شخصی مرثیے بھی لکھے ہیں جن میں جذبات کا دردمندانہ پیرایہ میں اظہار کیا ہے۔

چکبست کی زبان لکھنؤ کی شستہ زبان ہے۔ بندش کی چستی کے ساتھ مناسب ہندی الفاظ کے خوشگوار امتزاج سے کلام کا حسن بڑھایا ہے۔ چکبست اچھے نثر نگار بھی تھے۔ ان کے مضامین کا مجموعہ چھپ چکا ہے جس سے ان کی علمیت اور تنقیدی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے۔ چکبست اپنی زندگی میں مثنوی "گلزار نسیم" کے مباحثوں کی بدولت بہت مشہور ہوئے۔ ان کا شعری مجموعہ "صبح وطن" کے نام سے ہے جو ان کے انتقال کے بعد شائع ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 530

جینیندر کمار ((1905 – 1988)) : جینیندر کمار ہندی افسانہ نگار، ناول نگار اور مضمون نگار ہیں۔ انھوں نے پریم چند کی روایت سے متاثر ہو کر افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی کہانی "فوٹو گرافی" 1927 میں اور دوسری کہانی "تروینی" شائع ہو چکی تھیں۔ انھوں نے ہندی افسانے کو داخلیت سے روشناس کرایا۔ ان کے افسانوں میں فلسفیانہ رنگ بھی نظر آتا ہے۔ انھوں نے سماج کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا اور ایک ماہر نفسیات کی طرح انسان کے لطیف اور نازک احساسات کو گرفت میں لینے کی کوشش کی۔ ہندی ادب کے نقاد جینیندر کو ویکتی وادی کہانی کار بھی کہتے ہیں۔ ہندی فکشن میں جینیندر ہی نے وجودی فلسفے کو داخل کیا ہے۔ انھوں نے ہندی کہانی کو نئی سمت دی۔ ان کی منفرد انداز کی نشاندہی 1940 کے بعد ہوئی۔ ان کے نئے انداز نے ہندی فکشن کی دنیا میں ہلچل پیدا کر دی۔ ان کا نیا طرز فکر، نیا نظریہ اور جدید اسلوب نقادوں کے درمیان اختلاف کا باعث بن گیا۔ ترقی پسندوں نے ان کے افسانوں کو ناپسند کیا جن میں جنسی رشتوں کو موضوع بنایا گیا تھا۔ لیکن داخلیت اور فرد کو اہمیت دینے والے ادیبوں نے جینیندر کمار کو جدید دور کا مسیحا قرار دیا۔ ان کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 531

کہانیاں دو طرح کی ہیں۔ پہلی قسم کی وہ کہانیاں جن میں نفسیات کو موضوع بنایا گیا ہے اور دوسری قسم کی وہ کہانیاں جن میں فلسفے کی گتھیاں سلجھاتے نظر آتے ہیں۔ "داتایات"، نیلم دیش کی راج کنیا"، "دو چڑیاں"، "دِھرو یاتر"، "پازیب"، "پھانسی"، "جے سندھی"، "کھیل"، "ایک رات"، باہوبلی" وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

جینیندر کمار ہندی کے اہم ناول نگار بھی ہیں۔ ان کے کم و بیش پندرہ ناول شائع ہو چکے ہیں۔ "پرکھ" ان کا پہلا ناول ہے جس نے اپنی انفرادیت کی وجہ سے قارئین کی توجہ اپنی جانب کی تھی۔ ((1)) سنیتا، ((2)) تیاگ، ((3)) کلیانی، ((4)) سکھدا، ((5)) ویورت، ((6)) بیتیت، ((7)) جے وردھن اور ((8)) مکتی بودھ ان کے مشہور ناول ہیں۔

جینیندر کمار ہندی نضمون نگاری میں بھی منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کے اب تک چھوٹے بڑے مضامین کیے کم و بیش ایک درجن مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ((1)) جڑ کی بات ((1945))، ((2)) ساہتیہ کا شرے و پرے ((1953))، ((3)) سوچ وچار ((1952))، ((4)) منتھن ((1953))، ((5)) یہ اوروے ((1954))، ((6)) پرستت پرشن ((1937))، ((7)) کام پریم پریوار ((1953))، ((8)) سمے اور ہم ((1962))، ((9)) ساہتیہ چین ((1951))، وغیرہ ان کے مشہور مجموعے ہیں۔ کھڑی بولی ہندی کو اردو کے مستقل اور معروف اندز سے جوڑ کر بات چیت کے لہجے میں پیش کرنا جینیندر کی اپنی خصوصیت ہے۔ ان کے یہاں جملے چھوٹے چھوٹے اور خوب صورت ہوتے ہیں۔ جینیندر ہندی کے فکری نقاد ہیں۔ ادب، سماج، سیاست، مذہب، تہذیب اور فلسفہ سب پر بڑی آسانی سے وہ اظہار خیال کرتے ہیں۔ موضوع کی گہرائی تک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 532

جانے کی ان میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ یہ "اوروی" جینیندر کمار کی وہ مشہور یادنوشت ہے جو انھوں نے بعض اہم مجاہدین آزادی کی یاد میں تحریر کیا تھا۔

جیو تریشور ٹھاکر ((1280 – 1340)) : میتھلی زبان کا پہلا ادیب جس کی تصنیف خالص میٹھلی میں ہے۔ وہ بلند مرتبت شاعروں کا استاد ((کوی شیکھر آچاریہ)) کہلاتا تھا۔ جوتک اس کا قلمی نام تھا۔ وہ میتھلا کے نامور راجہ مہاراجہ ہر سنہاعیو کو اپنا سرپرست بتلاتا ہے۔ میتھلا میں سنسکرت علوم و فنون کا یہ سنہرا دور تھا۔ یہاں سنگیت، شاعری اور ڈرامہ کو درباروں کے علاوہ عوام کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔ جیو تریشور نے سنسکرت شاعر جے دیو کے اتباع میں غنائی گیت لکھے اور انھیں اپنے سنسکرت مذاحیہ ناٹک "ڈھرتا سماکما"

Dhurtasamaga

کے میتھلی ترجمہ میں شامل کیا۔ اس سے زیادہ اہم اس کی ایک نثری تصنیف ہے جو آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ اسے بجا طور پر "ورن رتناکر" ((بحر البیان))

Varnaratna Kara

کہا جاتا ہے۔ یہ تصنیف نہ صرف موجودہ شاعری کی رہنمائی کرتی ہے بلکہ آئندہ کے شاعروں کے لیے بھی شمع ہدایت کا کام دیتی ہے۔ جیوتریشور کا اسلوب قدامت پسندانہ ہے جس میں آفاقیت کی جھلکیاں بھی موجود ہیں۔ ان ہی خصوصیات کی بنا پر میتھلی مشرقی ہند کی ساری زبانوں میں پیش پیش تھی۔

جیوگام دھنی، شاہ علی محمد ((م۔ 1565)) : گجرات کے ممتاز صوفی شاعر تھے۔ والد کا نام شاہ ابراہیم ابن عمر الحسینی تھا۔ باپ کی طرف سے سلسلہ نسب سید احمد کبیر رفاعی اور ماں کی طرف سے حضرت عبد القادر جیلانی تک پہنچتا ہے۔ گام دھنی ((گاؤں کا مالک)) ان کا لقب اس وجہ سے تھا کہ جس کو جو چاہتے تھے دے دیتے تھے۔ ان کا نقش نگیں "اللہ باقی محمد ساقی" تھا۔ برگ تبنول کی شکل میں یہ نقش کندہ تھا۔ جو شجرے مریدوں کو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 533

دیے جاتے تھے ان پر اس کی مہر لگائی جاتی تھی۔ شاہ صاحب وحدت الوجود کے قائل تھے۔ باہر سے جو بزرگ گجرات آتے ان کے یہاں قیام کرتے۔ شیخ بہاء الدین برناوی گجرات آئے تو شاہ علی کے مہمان ہوئے۔ شاہ صاحب نے ایک ان کو اپنا ہندی کلام سنایا۔ شیخ نے اسے پسند کیا۔

رائے کھیڑ ((احمد آباد)) میں شاہ غزنی کے مقبرہ کے پاس ان کا مزار مرجع عام و خاص ہے۔ شاہ علی جیو گام دھنی کی نظموں کا مجموعہ "جواہر اسرار اللہ" ہے۔ "مرآت احمدی " کے مصنف محمد حسن نے اسے طرز فکر اور معنی کے لحاظ سے "دیوان مغربی" کے ہم پایہ خیال کیا ہے۔ ان کے کلام کو ان کے ایک مرید ابو الحسن فتح محمد ابن عبد الرحم القریشی الاحمد نے مرتب کیا تھا۔ ابتدا میں ایک فارسی دیباچہ اور بارہ شعروں کی مدحیہ نظم ہے۔ بعد میں معتقدین کے اصرار پر ان کے پوتے شاہ ابراہیم نے ایک مبسوط دیباچہ لکھ کر دوبارہ مرتب کیا۔ اس میں پہلی ترتیب کا ذکر ہے۔ مدحیہ نظم بھی شامل ہے۔ پہلے عربی میں دیباچہ ہے۔ پھر فارسی دیباچہ ہے۔

ان کا کلام توحید اور وحدت الوجود کے اسرار و رموز سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں سوز و گداز ہے۔ خیالات اور جذبات ہندستانی ہیں۔ چند نظموں میں فارسی مضامین بھی ہیں۔ میلاد نبی، مدح شاہ احمد کبیر، آفرینش کے عنوان سے عمدہ نظمیں ہیں۔ بارہ ماسہ کی طرز کی ایک سہ حرفی بھی لکھی ہے۔

چاسر، جیفرے ((1400 – 1340))

Chaucer, Geoffrey

انگریزی ادب کی انتہائی اہم شخصیتوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کے بارے میں عام طور پر بہت کم مواد ملتا ہے۔ صرف پرانے سرکاری ریکارڈ سے تھوڑی بہت معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ چاسر 1340 اور 1344 کے درمیان لندن میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ چاسر شراب کا کاروبار کرتا تھا۔ چاسر کئی سال تک شہزادہ لائنل کے یہاں ایک ادنیٰ ملازم رہا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 534

1359 – 60 میں وہ ایڈورڈ سوم کی فوج میں شریک ہو کر فرانس گیا۔ وہاں دشمن کے ہاتھ لگا لیکن معاوضہ دے کر اسے چھڑوا لیا گیا۔ 1366 میں اس نے ایڈورڈ سوم کی ملکی کی ایک خادمہ کے ساتھ شادی کر لی۔ اس کے بعد وہ کئی سرکاری خدمتوں پر مامور رہا اور اٹلی اور یوروپ کے دوسرے ممالک میں سفارتی خدمات بھی اسے ملیں۔ 25 اکتوبر 1400 کو اس کا انتقال ہو گیا اور ویسٹ منسٹر ایبے میں دفن کیا گیا۔

چاسر ایک اعلٰی پائی کا افسانہ نگار اور شاعر تھا۔ اپنی ادبی سرگرمی کے ابتدائی دور میں وہ فرانسیسی ادب سے بے حد متاثر تھا اور اکثر ان کے چربے اتارا کرتا تھا۔ اس دور کی اس کی مشہور تصنیف "ڈچز کی کتاب"

Book of the Dutches

ہے جو اس نے 1370 میں لکھی۔ اس کا کچھ حصہ ایک مشہور فرانسیسی ناول کا ترجمہ ہے۔ اس کی ادبی تخلیقات کا دوسرا دور اطالوی دور کہلاتا ہے۔ یہ دور 1385 تک رہا۔ اس میں وہ مشہور اطالوی ادیبوں دانتے اور بوکاچو

Boccaccio

سے بے حد متاثر رہا۔ اس دور کی اس کی تصنیفات ان ہی ادیبوں کی تخلیقات کے نمونہ پر ہیں۔ بعض اطالوی تصنیفات کا اس نے ترجمہ کیا۔ اس دور کی اس کی کتابوں میں "ہاؤس آف فیم"

House of Fame

اس کی زندگی کا بہترین کارنامہ ہے۔ اس میں اس نے حقیقت پسندی اور مشاہدے کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اس کی بے جھجھک حقیقیت نگاری اس کی طبیعت سے میل کھاتی تھی۔ اس نظم میں واقعاتی بیانیہ کے ساتھ جو کردار نگاری جھلکتی ہے، اُس میں ڈرامائی عنصر اور مزاح کی کارفرمائی خاص طور پر جاذب نظر ہے۔ اس نظم کی بناوٹ اور کردار نگاری میں کسی حد تک

Puilastrato

اور "پارلیمنٹ آف فاولس"

Parliament of Fowls

مشہور ہیں۔
 
Top