اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۳۸

بابل کے لوگ ایک تجارت پیشہ قوم تھے۔ اس لیے ادب اور فنون لطیفہ کی نسبت انھیں سائنس سے زیادہ لگاؤ تھا۔ تجارت کے ساتھ ساتھ وہ ریاضی کی طرف آئے اور مذہب کے ساتھ اس کا رشتہ جوڑنے کے دوران فلکیات سے بھی ان کو دلچسپی پیدا ہوئی۔ انھوں نے ایک دائرے کو ۳۶۰ درجوں میں تقسیم کرنے اور سال کو ۳۶۰ دن میں بانٹنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ اس کی بنیاد پر انھوں نے ریاضیات کی بنیاد رکھی۔

بابل والوں کی خاص سائنس فلکیات تھی اور اس کے لیے وہ عہد قدیم میں مشہور تھے۔ وہ ستاروں کی حرکت کا مطالعہ صرف جہازوں یا قافلوں کے راستے متعین کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ قسمت کا پتہ چلانے کے لیے بھی کرتے تھے۔ فلکیات سے زیادہ انھیں علم نجوم اور جیوتش سے دلچسپی تھی۔ ان کے لحاظ سے ہر سیارہ ایک دیوتا تھا اور انسانوں کے چند خاص معاملات سے اس کا تعلق تھا۔

عراق میں کھدائی سے جو تختیاں ملی ہیں ان میں آٹھ ((۸)) سو ادویہ اور علاج کے بارے میں ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس فن میں بھی وہ ترقی کر چکے تھے۔

بابل – مذہب و اخلاق : بابل ((Babylon)) قدیم میسوپوتامیہ ((موجودہ عراق)) کی ایک عظیم سلطنت کی راجدھانی تھا اور آج سے تقریباً تین ہزار سال ق۔م۔ میں وہ ایک ترقی یافتہ ملک اور تہذیبی مرکز تھا اور اس دور کی دوسری سلطنتوں کی طرح یہاں مذہب اور مذہبی ادارے کافی منظم اور طاقتور تھے۔ بادشاہوں کے اقتدار پر نہ صرف قانونی پابندیاں تھیں بلکہ کاہنوں اور پروہتوں کا بھی زور تھا۔ بادشاہ دیوتاؤں کا نائب سمجھا جاتا تھا۔ ٹیکس اور محصول دیوتاؤں کی طرف سے وصول کیے جاتے اور معبد کے خزانے میں جمع کیے جاتے تھے۔ عوام بادشاہ کو اس وقت تک بادشاہ نہ مانتے جب تک پروہت انھیں بادشاہت کا اقتدار نہ سونپتے۔ چنانچہ اکثر بادشاہ ہی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۳۹

مذہبی ذمہ داریاں بھی سنبھالتے اور پروہت کے منصب پر بھی قبصہ کر لیتے۔ بابل کے مشہور بادشاہ ہمورابی ((Hammurabi)) نے آشوریوں ((Assyrians)) کے زوال کے بعد اپنے خاندان میں سب سے پہلے اس روایت کی داغ بیل ڈالی۔ ہمورابی کے زیر اقتدار ٹگرس ((Tigris)) اور یوفریٹ ((Euphrates)) علاقوں کی زیادہ تر حکومتیں تھیں۔

بادشاہ کو عوام پر اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے معبدوں اور پروہتوں کی ضرورت تھی اور پروہت اپنے اقتدار کے لیے بادشاہوں پر انحصار کرتے تھے۔ دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے بادشاہ مندر و معبد تعمیر کرتے اور اپنی فتوحات سے جو مال غنیمت حاصل ہوتا اسے دیوتاؤں پر چڑھاتے۔ اس کے علاوہ امیر و غریب سب سہی روزانہ اپنے اپنے دیوتا کے چرنوں میں بھینٹ چڑھاتے۔ اس کی وجہ سے معبدوں کے پاس کافی دولت جمع ہونے لگی اور چونکہ یہ دولت پروہت براہ راست استعمال نہیں کر سکتے تھے اس لیے وہ بڑی بڑی زمینیں خریدتے۔ سینکڑوں غلام رکھتے اور ان سے ان زمینوں پر کاشت کراتے۔ اس کے علاوہ اور دوسرے بہت سارے کاروباروں میں پیسہ لگاتے۔ چنانچہ ایک زمانہ میں بابل کے کاروبار اور تجارت کا کافی بڑا حصہ پروہتوں کے قبصہ میں آ گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ سرکاری اور غیر سرکاری بہت ساری خدمات انجام دیتے اور ان کا معاوضہ وصول کرتے۔ وقت پڑنے پر وہ بادشاہ کی مدد کرتے۔ اس طرح بابل کی سلطنت میں پروہتوں نے زبردست طاقت حاصل کر لی تھی۔

عوام کی ضروریات لاتعداد اور خواہشیں بے شمار ہوتی ہیں اور اسی کے لحاظ سے حسب ضرورت پروہت سے دیوتا بھی تخلیق کر لیتے تھے۔ چنانچہ بعض وقت ان دیوتاؤں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی۔ چنانچہ بابل میں بھی لاتعداد دیوتا تھے۔ لیکن ان میں سب سے اہم دیوتا یہ تھے : انو ((Anu)) یعنی آسمان جو غیر متحرک اور قائم تھا،
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۴۰

((شماش ))، ((سورج))، ((لُنار))، ((چاند)) اور بعل یعنی زمین جس کے آغوش میں بابل کے ہر باشندے کو مرنے کے بعد جانا تھا۔ اس کے علاوہ ہر خاندان کا دیوتا الگ الگ ہوتا جس کی پوجا روز کی جاتی اور اسے نذرانہ چڑھایا جاتا تھا۔ پھر ہر شخص کا اپنا ایک محافظ دیوتا بھی ہوتا جو اس کی حفاظت کرتا اور زرخیزی کا دیوتا فصل کی پیداوار بڑھاتا تھا۔

بابل کی سلطنت جیسے جیسے وسیع ہوتی گئی وحدانیت کی طرف ان کا رحجان بڑھتا گیا اور ان بے شمار دیوتاؤں کا اوپر ایک قادر مطلق دیوتا کا عقیدہ پیدا ہونے لگا۔ مگر اس کے ساتھ اشتر دیوی کی بھی پرستش کی جاتی تھی۔ اشتر دیوی تضادات کا مجموعہ تھی۔ وہ مصری یا یونانی دیویوں کی طرح خوبصورت نہیں تھی لیکن وہ ایک طرف جنگ کی تو دوسری طرف محبت کی دیوی تھی۔ وہ فاحشہ عورتوں کی بھی دیوی تھی اور کنواریوں کی بھی۔ بلکہ اسے کنواری دیوی کے لقب سے ہی یاد کیا جاتا تھا۔ اس کے مجسمے مرد اور عورت کا مجموعہ ہوتے۔ بعض وقت اسے ایک ننگی عورت کی شکل میں پیش کیا جاتا جس سے جنسی بے راہ روی کا اظہار ہوتا۔

بابل نے نہ صرف عجیب و غریب دیوی اور دیوتا ایجاد کیے بلکہ ان سے متعلق بہت سارے افسانے ((Myths)) بھی گڑھ لیے۔ ان میں سے بعض ہم تک یہودیوں اور ان کی مذہبی کتابوں کے ذریعہ پہنچے ہیں۔ ان میں سب سے دلچسپ روایت تخلق کائنات کے بارے میں ہے۔ اس کے مطابق پہلے ہر طرف ہیولٰی ((Chaos)) تھا۔ نہ اوپر آسمان تھا اور نہ نیچے زمین اور دوسری چیز جو تھی وہ آپسو ((سمندر)) کا وجود تھا۔ ان دونوں کے اختلاط سے زمین، آسمان اور یہ ساری کائنات تخلیق ہوئی۔ شروع میں چیزیں آہستہ آہستہ شکل اختیار کر رہی تھی کہ یکایک شیطانی دیوی "تیامت" نے تمام دوسری دیویوں اور دیوتاؤں کو ختم کرنے اور خود سب سے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۴۱

طاقتور بننے کی مہم شروع کی۔ اس سے ہر طرف نراج پھیل گیا لیکن پھر ایک اور دیوتا "مردک" پیدا ہوا۔ اس نے "تیامت" کو قتل کیا اور اسے سر سے پیر تک دو حصوں میں بانٹ دیا۔ ایک حصہ اوپر لٹکا دیا گیا جو آسمان بنا اور ایک حصہ اس نے اپنے پیروں تلے بچھا لیا جو زمین بن گیا۔ اس کے بعد "مردک" نے زمین کو اپنے خون سے رنگ کر انسان بنائے تاکہ وہ دیوتاؤں کی خدمت کر سکیں۔ اسی طرح کی بے شمار روایات دوسرے مسائل کے بارے میں بھی ہیں۔

بابل کے لوگ موت کے بعد کی زندگی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کے نردیک مرنے کے بعد لوگ زمین کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں البتہ ایک جنت ضرور ہے جس میں صرف ویوتا جا سکتے ہیں۔

مرنے کے بعد لوگ تہہ خانوں میں دفن کیے جاتے تھے۔ بعض جلا دیے جاتے اور ان کی راکھ ایک برتن میں محفوظ رکھی جاتی۔ مرنے والے کو نہلا دھلا کر، خوشبو لگا کر، اچھے کپڑے پہنائے جاتے تھے۔ عورتوں کے ساتھ بناؤ سنگھار کا سامان بھی رکھا جاتا تھا۔ یہ عقیدہ عام تھا کہ اگر لاش ٹھیک طرح دفن ہی نہ کی جائے تو روح بھٹکتی اور زندوں کو پریشان کرتی ہے اور اگر دفن نہ کی جائے تو وہ نالیوں وغیرہ میں غذا تلاش کرتی ہے۔ اور اس سے سارے گاؤں پر بیماری اور تباہی آ سکتی ہے۔

قربانی کا رواج عام تھا اور قربانی میں عام طور پر بھیڑیں پیش کی جاتیں۔ دیوتاؤں کو خوش کرنے کا یہ طریقہ اہم سمجھا جاتا تھا۔

مشہور مؤرخ ہیروڈوٹس ((Herodotus)) نے عورتوں کے تعلق سے بابل کی زندگی کی جو تصویر کشی کی ہے وہ اس طرح ہے : "ہر عورت کی یہ فرض ہے کہ وہ زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ معبد میں بیٹھے اور کسی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۴۲

اجنبی کے ساتھ جنسی تعلق پیدا کرے۔ بہت سی مالدار عورتیں جو عام لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا پسند نہیں کرتیں، بند گاڑیوں میں اپنے خادموں اور خادماؤں کے جلو میں آتی ہیں اور اپنا ڈیرا معبد کے آس پاس جماتی ہیں۔ کوئی عورت معبد میں داخل ہونے کے بعد اس وقت تک باہر نہیں نکل سکتی جب تک کوکئی اجنبی اس کی طرف چاندی کا سکہ نہ پھینکے اور اس کے ساتھ نہ سوئے۔ چنانچہ نوجوان اور حسین عورتیں بہت جلد آزادی پا لیتی ہیں لیکن بعض کو برسوں انتظار میں گزارنے پڑتے ہیں۔"

باپٹسٹ ((Baptists)) : یہ عیسائیوں کا ایک فرقہ ہے جو بپتسمہ کے بارے میں خاص نقطہ نظر رکھتا ہے۔ ۱۶۴۴ سے یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا جن کا عقیدہ تھا کہ بپتسمہ صرف ان لوگوں کا ہونا چاہیے جو عیسائیت پر ایسا اعتقاد رکھتے ہں، جیسا کہ عہد نامہ جدید ((New Testament)) میں بتایا گیا ہے۔ اس تقریب کے وقت بپتسمہ لینے والے کو پوری طرح پانی میں ڈبونا چاہیے۔ اس قسم کے عقیدہ رکھنے والی جماعتیں اس سے پہلے بھی تھیں۔ ۱۶۰۸ میں ایک انگریز جان اسمایتھ ((John Smyth)) نے اس عقیدے والوں کو ایسٹرڈم میں جمع کیا۔ یہ باپٹسٹوں کا پہلا اجتماع تھا۔ ۱۶۱۱ میں باپٹسٹوں کے ایک فرقہ نے اپنا پہلا چرچ قائم کیا جو بعد میں جنرل باپٹسٹ چرچ ((General Baptist Church)) کے نام سے جانا گیا۔ یہ چرچ اس آرمینی عقیدے پر انحصار کرتا تھا کہ مسیح کی برکت کچھ خواص تک محدود نہیں ہے بلکہ سب کے لیے ہے۔ ۱۶۳۳ میں خاص باپٹسٹ ((Particular Baptists)) کا احیا ہوا جن کا فلسفہ یہ تھا کہ مسیح کی برکت خصوصی اور انفرادی ہوتی ہے۔ اس تعلق سے مختلف قسم کے کچھ اور چرچ قائم ہوئے۔ ان سب کا اجتماع ۱۶۴۴ میں ہوا اور عام و خواص کے مشترکہ عقاید پر اسے باپٹسٹ چرچ کا نام دیا گیا۔ ۱۸۹۱ میں ایک اور اجتماع
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۴۳

ہوا جس میں باپٹزم کو ماننے والے مختلف گروہوں کو متحد کیا گیا۔ انگلستان کے علاوہ اس چرچ کے پیرو امریکا میں بھی کافی ہیں مگر اس عقیدے کے لوگ مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ۱۶۳۹ میں روج ولیمز نامی شخص نے باپٹزم کے ابتدائی نظریہ کو رد کر کے ذاتی عقیدے کی اساس پر ایک نئے چرچ کی بنیاد رکھی تھی اور نیو انگلینڈ میں اس نظریہ نے بہت زور پکڑا تھا لیکن جنوب مشرق میں جنرل باپٹسٹ نظریہ نے قبول عام پایا تھا۔ ۱۹۰۵ میں عالمی سطح پر باپٹسٹوں کا اتحاد ہوا اور اب اس فرقہ کے ۱۴۴ چرچ ہیں اور اس عقیدے کے ماننے والوں کی مشترکہ تعداد ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ ہے۔

ہاتھ شیبا : حضرت داؤد علیہ السلام کی بیوی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی والدہ تھیں۔ پہلے یہ ہٹی ((Hitti)) بادشاہ یوریا ((Uriah)) کی بیوی تھیں۔ عبرانی بائبل سے روایت ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے ان کے شوہر کو میدان جنگ بھجوا دیا جہاں وہ مارا گیا پھر ان سے شادی کر لی۔ انجیل میں ان کا نام ہاتھ شیبا ہے۔

باغ، جوہان سیباسٹین ((Bach, Johenn Sebastian)) : مغربی موسیقی کے کلاسیکی دور کے عین پہلے کا مشہور موسیقار، شمالی جرمنی کے مشہور موسیقاروں کے خاندان میں پیدا ہوا۔ دس سال کی عمر میں اس کے والدین کا انتقال ہو گیا اور اس کے بڑی بھائی جوہان کرسٹاف نے اس کی دیکھ بھال کی اور اسے موسیقی کی تربیت دی۔ پندرہ سال کی عمر میں وہ موسیقاروں کے ایک گروپ میں شریک ہو گیا اور اس کے بعد چار سال تک آرگن بجاتا رہا اور پھر مل ساہن چلا آیا جہاں اسے آرگن بجانے کی خدمت سپرد ہوئی۔ ایک سال بعد باخ دھیر کے دربار میں آرگن بجانے پر مامور ہوا، وہاں ۱۷۱۷ تک رہا۔ اس کے بعد شہزادہ لیوپولڈ نے اسے میوزک ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔ یہیں اس نے اپنے مشہور عالم برینڈن برگ کنچوٹو ((۱۷۲۱)) Concuto میں مکمل
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۴۴

کیے۔ ۱۷۲۸ میں لائپزگ ((جرمنی)) میں اسے میوزک ڈائریکٹر مقرر کیا گیا جہاں وہ چار گرجا گھروں کے لیے موسیقار تھا۔ ۱۷۴۷ میں اس نے پوسٹڈم میں فریڈرک اعظم کے سامنے اپنا پروگرام پیش کیا۔ لیکن دو سال بعد اس کی آنکھیں خراب ہونی شروع ہوئی اور آخرکار بینائی چلی گئ۔

بے شمار ذمہ داریوں اور مصروفیات کے باوجود باخ نے بے شمار مذہبی گیت تیار کیے۔ جن میں دو سو کے قریب کینٹاٹس ((Cantatas)) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے کئی آلات موسیقی مثلاً آرگن اور ہارپس کارڈ ((Harpischaed)) کے لیے موسیقی مرتب کی۔

بادراین : مہابھارت اور کئی ایک پرانوں کے مصنف مہرشیوید ویاس کا اصلی نام کرشن دوے پاین ہے۔ روایت ہے کہ پراشر رشی جمنا ندی کو پار کرتے وقت ان کی ماں ستیہ وتی یا متسیہ گندھا کی شکل و صورت کو دیکھ کر عاشق ہو گئے تھے اور اس کے نتیجے کے طور پر ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کا رنگ سیاہ تھا اور ان کی پیدائش دویپ یعنی جزیرے میں ہوئی تھی۔ اس لیے یہ کرشن دوے پاین کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ انھوں نے ویدوں کی مکمل تقسیم کر کے چار ویدوں کی شکل دی تھی۔ اس لیے ان کو ویدویاس بھی کہا جاتا ہے۔ اپنے آخری دنوں میں یہ بدری بن میں رہے۔ اس لیے ان کا تیسرا نام بادراین ہے اور بادراین کو ویدانت سوتر کا مصنف سمجھا جاتا ہے۔ ان کی تصمہف ،ہ سات وہدانتی اساتذہ کا حوالہ موجود ہے۔ لیکن یہ نہیں معلوم ہے کہ وہ سب ان کے ہم عصر تھے یا پیش رو تھے۔ انھوں نے ان کے درمیان اساسی نقاط پر اختلاف آرا کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً نجات کی نوعیت اور روحانی سالک کے لیے سنیاس کی ضرورت وغیرہ۔ یہاں تک کہ جیو اور برہمہ کی نسبت کے مانند اہم سوال کے متعلق بھی بادراین نے خود اپنے نقطہ نظر کے علاوہ اور دو طرز کے خیالات کا ذکر کیا ہے اور وہ
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۴۵

دونوں اپنے عام فلسفیانہ نظریہ میں نہایت اہم اختلافات رکھتے ہیں۔ بنیادی متنازعہ فیہ مسائل پر اس طرح کے اختلافات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ابتدائی زمانہ سے ہی ویدانتی اساتذہ نے اپنشدوں کی تعلیم کو کئی ایک طریقوں سے سمجھے کو کوشش کی تھی۔ بادراین کی تفسیر ان میں سے ایک ہے۔ قرین یہ ہے کہ یہ سب سے زیادہ بااثر ہے۔ ویدانت کے تمام جدید مذاہب اگرچہ اہم مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن سب کے سب یکساں وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ باردراین کی تعلیم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کے سوتروں کی انتہائی مختصر اور پرمغز اور پراسرار صورت تغیرات کی مختلف قسموں کو ممکن بنا دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اہم ترین اساسی مسائل میں بھی تذبذب نظر آتا ہے۔ مثلاً ہم یقیناً یہ نہیں جانتے کہ بادراین کے مطابق کائنات برہمہ سے ارتقا پائی ہوئی ہے یا اس کا محض ایک مظہر ہے۔ بادراین کی اصلی تصنیف کی تاریخ تقریباً ۴۰۰ سمجھی جاتی ہے۔

بازنطینی فن تعمیر : فن تعمیر کا یہ اسٹائل ۳۳۰ عیسوی کے بعد شروع ہوا۔ اس سال قسطنطین نے باز نطیم کو اپنا دارالسلطنت بنایا اور اسے قسطنطنیہ کا نام دیا۔ اس وقت روم کا فنون لطیفہ زوال پذیر تھا۔ قسطنطنیہ میں روم کی تمام روایات زندہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ رومن فن تعمیر استعمال ہونے لگا لیکن آہستہ آہستہ ایک نیا اسٹائل بھی ابھرنے لگا۔ روم میں گہرے رنگ کی ریلیف تزئین ((Relief Decoration)) کا بڑا رواج تھا۔ لیکن یہاں وہ تزئین پسند کی جانے لگی۔

شروع میں کلیسا کی جو عمارتیں تعمیر ہوئیں ان میں سوریا ((شام)) اور روم کے اسٹائلوں کی آمیزش ملتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نئے اثرات سے آئے تھے۔ اس زمانے کی نجی اور غیر مذہبی عمارتوں کے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۴۶

بارے میں کچھ علم نہیں البتہ حال میں جو کھدائی ہوئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہی محل کی عمارت بہت بڑی اور شاندار تھی۔

پانچویں صدی عیسوی میں کلیسا دو قسم کے تعمیر ہوتے تھے۔ ایک بیسی لیکا ((Baselica)) جو سیدھی سادی عمارتیں ہوتی تھیں اور دوسرے بڑے کلیسا جو شہیدوں کے مقبروں کے لیے محفوظ ہوتے تھے۔ ان کا فن تعمیر یونان سے لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس پر مشرق کا بھی اثر تھا۔ چوکور عمارت پر گنبد بنایا جاتا تھا۔ بعد میں ان دونوں قسم کے کلیساؤں کو ملا دیا گیا۔ خالی وسیع جگہوں کے ساتھ ٹھوس عمارتیں بنائی جاتیں اور پھر اندھیرے اور اجالے کا اس طرح میل کیا جاتا کہ ایک طرح کی پراثر کیفیت پیدا ہو جاتی۔ اس کا بہترین نمونہ استنبول ((قسطنطنیہ)) کی مسجد اباصوفیہ ہے ((جو پہلے ایک کلیسا تھا))۔ اسی میں ہندسی علم کو بڑے باکمال طریقے پر استعمال کیا گیا ہے اور اسی میں اس کا حسن ہے۔ اس زمانے میں ریاضی اعلٰی ترین سائنس سمجھی جاتی تھی اور بقول اس کے معمار کے اس عمارت میں علم ہندسہ کو ٹھوس مادہ پر استعمال کیا گیا ہے۔

نویں صدی عیسوی میں باز نطینی فن تعمیر میں اشاریت ((Symbolism)) نے کافی دخل حاصل کر لیا۔ کلیسا کو پوری زمین اور آسمان کا ایک چھوٹا نمونہ بنا کر پیش کیا جاتا تھا ((کیونکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی زندگی اس دنیا میں بھی تصور کی جاتی تھی اور اس کے باہر بھی)) چنانچہ پچی کاری ((Mosaic)) اور تصویروں کے ذریعہ تزئین کا جو کام کیا جاتا یا جو رنگ استعمال کیے جاتے ہیں، ان میں بھی یہ اشاریت کارفرما رہتی تھی۔ کلیساؤں کے نقشے بنانے میں ہندسوں سے بڑا کام لیا جاتا تھا۔ بازنطینی فن تعمیر کا اثر پانچویں صدی عیسوی سے ہی روم میں پہنچنے لگا اور اس اسٹائل کی عمارتیں بننے لگیں لیکن بعد میں اطالوی فن کاروں نے اس میں کئی جدتیں کیں۔ یہ اسٹائل یونان
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۴۷

اور پڑوس کے دوسرے ملکوں میں بھی پہنچا اور نہایت خوبصورت کلیسا تعمیر کیے گئے۔ بازنطینی کلیسا کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ایک مربع خطے پر ایک صلیب بنائی جاتی ہے اور مربع خطے کے اوپر ایک بڑا مرکزی گنبد ہوتا ہے اور پھر ان عمارتوں کو تصویر کشی اور پچی کاری کی مدد سے خوب سجایا جاتا ہے۔

باطنیہ : فرقہ اسماعیلیہ ہی کو باطنیہ بھی کہتے ہیں۔ انھیں یہ لقب دیے جانے کے بارے میں مختلف اقوال منقول ہیں۔ بقول شیخ ابو زہرہ : "چونکہ یہ اپنے معتقدات کو لوگوں سے چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ اس لیے انھیں باطنین کہا جاتا ہے۔ ان کو باطنیہ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ اکثر حالات میں امام کو مستور مانتے ہیں۔ بہرکیف اسماعیلیہ اپنے عقائد کو پس پردہ رکھنے کی کوشش کرتے اور مصلحت وقت کے تحت بعض افکار کو منکشف کرتے ہیں۔ یہ لوگ قرآن مجید اور احادیث کے ظاہری الفاظ کے باطنی معنوں پر زور دیتے ہیں مثلاً ابو المنصور العجلی کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ وہ "السموات" سے مراد امام اور "الارض" سے امام کے پیرو مراد لیتے تھے۔ ان کے خیال کے مطابق ہر مقدس متن کے کچھ باطنی معنی بھی ہوتے ہیں۔ جو ظاہری معنوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ اعتدال پسند باطنیہ کے افکار و آرا دراصل تین اصولوں پر مبنی ہیں : ((۱)) آئمہ کو علم و معرفت کا جو عطیہ فیضان الہٰی سے ملا ہے اس میں کوئی دوسرا فرد بشر ان کا شریک و سہیم نہیں۔ جو علم انھیں دیا جاتا ہے وہ علم انسانوں کے فہم و ادراک سے بالا تر ہے۔ ((۲)) امام کا ظاہر ہونا ضروری نہیں بلکہ وہ مستور بھی ہوتا ہے اور اس حالت میں بھی اس کی اطاعت ضروری ہوتی ہے۔ کسی نہ کسی زمانہ میں امام مستور کا ظہور ضرور ہو گا اور اس وقت کائنات عدل و انصاف سے معمور ہو جائے گی۔ ((۳)) امام کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا اور اس
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۴۸

کے اعمال پر کوئی خوردہ گری اور انگشت نمائی نہیں کر سکتا بلکہ سب کے لیے امام کے اعمال و افعال کی تصدیق کرنا اور انھیں نیکی پر معمول کرنا واجب ہے۔

ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ہر نبی جس کو کتاب دی جاتی ہے، اس کے ساتھ ایک وصی ہونا بھی لازمی ہے اور اس وصی کا کام یہ ہے کہ وہ کلام الہٰی کی تاول ان منتخب اور خاص لوگوں کے سامنے کرے جو اسے وصی مانتے ہوں۔ اسی وجہ سے شیعوں کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں۔ باطینی لوگوں کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک خواص یعنی باطن کے جاننے والے اور دوسرے عوام۔ اس فرقہ کے نزدیک باطن اس لیے باطن نہیں کہ وہ ظاہر نہیں ہے بلکہ اس لیے باطن ہے کہ وہ بھید ہے اور اسے وصی کی ظاہری پیروی کرنے والے نہیں جان سکتے۔

بالکونی ((Balcony)) : ایک قسم کا پلیٹ فارم جو دیوار سے نکلا ہوا ہوتا ہے اور اس کے اطراف جنگلا لگا ہوتا ہے، یہ ستونوں یا بریکٹ پر لگا ہوتا ہے۔

پاولوف، ایوان پیترووچ ((۱۹۳۶ – ۱۸۴۸، Pavolov, Ivan Petrovich)) : ایوان پیترووچ پاولوف روس کا ایک مشہور ماہر نفسیات ہے۔ جس نے دوران خون، ہاضمی غدود اور التزامی اضطراریہ ((Conditional Reflexes)) پر تحقیقات کی بنا پر عالمگیر شہرت حاصل کی۔ ۱۹۰۴ میں ہاضمہ کی عضویات ((Physiology)) پر تحقیقات کی بنا پر اس کو نوبل انعام بھی دیا گیا۔ مگر اس کو غیر معمولی شہرت کتے اور دوسرے جانوروں پر باضابطہ ((Systematic)) مطالعہ اور تحقیقات کی وجہ سے ہوئی۔ اس نے یہ کام ۱۹۰۲ میں شروع کیا اور تجربی نفسیات پر بہت ہی گہرا اثر ڈالا۔ اس نے کتوں اور دوسرے جانوروں میں
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۴۹

امتحاناً اعصابی خلل پیدا کرنے کا جو طریقہ ایجاد کیا وہ انسانی ذہنی امراض کے مطالعہ کے لیے راستہ ہموار کرنے کا سبب بنا۔ فنِ جراحی اور جانوروں پر تجربات کے جن معروضی طریقوں کو اس نے اختیار کیا تھا اس کا کوئی ثانی نہیں تھا مگر انھیں نظریات کو جب پاولوف نے پیچیدہ انسانی ذہن افعال پر لاگو کرنے کی کوشش کی تو اس کو تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔

پاولوف ۱۴ ستمبر ۱۸۴۹ کو ریازان ((Ryazan)) میں ایک پادری کے گھر میں پیدا ہوا۔ ریازان ((Ryazan)) کے مکتب ((Seminary)) میں چار سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے جرمنی میں چار سال ۱۸۸۴ سے ۱۸۸۸ تک دو شہرہ آفاق ماہرین تعلیم عضویات ((Physiologists)) کارل ایف۔ ڈبلیو۔ لڈوگ اور روڈالف ہائیڈین ہائین کے تحت کام کیا۔ جرمنی سے پیٹرزبرگ واپس ہونے پر ۱۸۹۰ میں فوجی طبی اکادمی ((Military Medical Academy)) میں علم ادویات ((Pharmacology)) کا صدر بنایا گیا۔ ۱۸۹۱ میں اس کے ایما پر دنیا کا پہلا جرمنی شعبہ "ادارہ ذہنی ادویہ" ((Institute of Mental Medicine)) قائم کیا گیا۔

۱۹۰۵ میں پاولوف کو فوجی طبی اکادمی کا پروفیسر بنایا گیا۔ پاولوف کی ان ہی خدمات کے صلے میں ۱۹۰۶ میں اس کو Russian Academy of Sciences کا رکن بھی بنایا گیا۔ ۱۹۰۷ میں رائل سوسائٹی ((لندن)) کے بیرونی ممبر ((Foreign Member)) کی حیثیت سے منتخب کیا گیا۔ ۱۹۲۸ میں رائل کالج آف فزیشین ((لندن)) کا اعزازی فیلو ((Fellow)) منتخب کیا گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۵۰

۱۹۲۸ سے لے کر اپنی موت تک پاولوف نے اپنی ساری کوششیں اس بات پر مرکوز کیں کہ اپنے التزامی اضطراریہ ((Conditioning Reflexes)) کے اصولوں کا مرضیاتی نفسیات میں استعمال کیا جائے۔ پاولوف کا انتقال ۲۷ فروری ۱۹۳۱ کو لینن گراڈ میں ہوا۔ اس کی موت کے بعد بھی اس کے نظریہ التزامی اضطراریہ ((Conditioning Reflexes)) اور قشری فعلیت ((Cerebral Activity)) کے نظریوں کی اہمیت باقی ہے۔

پاولوف کے سارے نظریات کا نچوڑ یہ ہے کہ پیچیدہ ذہنی اعمال کا بحیثیت ایک معروضی علم کے تجربی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اس نے قدیم روایاتی نفسیاتی کو بالکلیہ رد کیا۔

کتوں پر اس نے جو تجربات کیے ہیں ان سے بہت اہم معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ اس نے کتے کو غذا دیتے وقت گھنٹی بجانا شروع کیا اور روزانہ اسی عمل کو دہرایا۔ چند دن کے بعد اس نے مشاہدہ کیا کہ صرف گھنٹی کی آواز کے ساتھ ہی کتے کے منھ سے رال ٹپکنے لگتی ہے۔ اسی طرح اس نے کتے کو دو متضاد اشارے یعنی ایک سگنل جس کا مطلب غذا کا دیا جانا تھا اور دوسرا غذا نہ ملنے کا تھا۔ ایسے متضاد سگنل دے کر اس نے کتوں میں عصبی اختلال کی سی کیفیت پیدا کی جس کو وہ تجربی تصبی اختلال ((Experimental Neurosis)) کہتا ہے۔

پاولوف نے ایک طرح سے اپنے خیالات کے ذریعہ کرداریت ((Behaviourism )) کے لیے راہ ہموار کی۔
 
Top