اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۱۸

نظریہ یا علمیاتی اصول نہیں ہے بلکہ ایک قسم کا فلسفیانہ منہاج ہے۔ وسیع ترین معنی میں اس کو فلسفیانہ تحلیل ((Philosophical Analysis)) کی جرمن روایت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جس کی انگریزی روایت کو مور ((Moore)) اور رسل ((Russell)) نے اپنی فلسفیانہ تحریروں میں فروغ دیا ہے۔ مظہریت دراصل مابعد الطبیعیاتی نظام سازی کی کلاسیکی روایت کے خلاف "بعد کانٹی احتجاج" کی ایک مثال ہے، جو ایک تنقیدی علمیات کی مستحکم اساس سے عاری تھی اور اصطلاحات و تصورات کی صحیح معنوں میں شافی و کافی توضیح سے بے بہرہ تھی۔ اپنی مزاجی کیفیت میں، مظہریت بنیادی طور پر کانٹ کے تنقیدی فلسفہ کے میلان فکر سے یا مور کی فلسفیانہ تحلیل کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہے، لیکن اپنے حدود عمل اور اپنے موضوعات میں دونوں سے مختلف ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہسرل کی تحلیلی مہارت زیادہ تر علمیاتی، نفسیاتی، اخلاقیاتی اور روحانی و وجودیاتی نوعیت کے اساسی تصورات و مظاہر ((مثال کے طور پر ادراک، علم، معروض، تخیل، محبت، ہمدردی، جلال، امید، یقین، عقیدہ، آزادی وغیرہ)) کی ماہیت یا اصلی ساخت کو آشکارا کرنے پر مرکوز و مشتمل ہے۔ لیکن ان تصورات و مظاہر کی ماہیت یا اصلی ساخت کو آشکارا کرتے وقت ہسرل ان کے ٹھوس مکانی و زمانی خواص پر زیادہ زور نہیں دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مظہریت انسانی تجربہ کی وسیع ترین معنوں میں، گوناگوں قسموں کی ایک تصوراتی تحلیل ((Conceptual Analysis)) سے عبارت ہے جو شعوری یا غیر شعوری طور پر بے جان چےپرکھے مفروضات پر مبنی مابعد الطبیعیاتی تشریح و توضیح سے یا اخلاقیاتی تعین قدر سے مبرا رہتی ہے۔ یعنی یہ مظاہر کی مجرد تعریف و توصیف پر زور دیتی ہے اور تفسیر و تعبیر نیز تعین قدر سے ممکن حد تک آزاد واقع ہوتی ہے۔ مابعد الطبیعیاتی یا اخلاقی تاثر سے بے تعلقی کی اس کیفیت کو ہسرل اپوچی ((Epoche)) یعنی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۱۹

غیر پابندی ((Non-Commitment)) یا تصدیق کی تعلیق ((Suspension of Judgement)) سے تعبیر کرتا ہے جو فلسفیانہ تفکر کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔

گرچہ ہسرل ان عام مسائل کو جن کا تعلق اخروی حقیقت ((Ultimate Reality)) سے ہے، نظر انداز کر دیتا ہے، تاہم اس کا فلسفہ بدستور مظہری جوہریت ((Phenomenological Essentialism)) کا آئینہ دار نظر آتا ہے کیونکہ اس کے فلسفہ کا منشا شعور کے فوری مواد کا خاکہ یا ساخت پیش کرنا ہے۔ وہ اسی خیال کا حامل ہے کہ ہمیں لازمی طور پر انسانی موضوع ((Human Subject)) اور اس کے شعور سے اپنے فلسفیانہ تفکر کا آغاز کرنا چاہیے اور انسان کے روزانہ تجربات نیز تشبیہات و استعارات کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک "شعور محض" تک مراجعت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ "شعور محض" کی منزلت حاصل کرنے کے لیے انسان کے یومیہ تجربات کو قوسین بند کر دیا جاتا ہے یا جدا کر دیا جاتا ہے۔ یعنی ان سے توجہ ہٹائی جاتی ہے یا ان کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں بالآخر بعض "جوہری خواص" باقی رہ جاتے ہیں یا جواہر کا ایک وجدان ((Intuition of Essences)) باقی بچ جاتا ہے۔ پہلے سے دیا ہوا یہ اقلیم ((Pre-given Realm)) اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی چیز ہی جو تجربہ سے کلیتاً علاحدہ اور سابقاً موجود ہے جس کو ہسرل شعور محض سے تعبیر کرتا ہے اور جو چیزوں کو براہ راست احاطہ ادراک میں لے آنے کا کام انجام دیتا ہے۔ چیزوں سے مراد وہ مظہری حقائق ہیں جو ہماری نظروں کے سامنے موجود ہیں، جن کا ہم اپنے شعور کے واسطہ سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ مظہر اس معنی میں ہیں کہ یہ ہمارے شعور کے اندر ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ یہاں مظہر کی اصطلاح اس امر کی غمازی نہیں کرتی ہے کہ ان مظاہر کے پرے ایک نامعلوم شے کا وجود پایا جاتا ہے۔ اس
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۲۰

طرح کی نامعلوم شے کا مظہریت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہ ظہور ((Appearance)) اور حقیقت ((Reality)) کے مسئلہ میں یقین نہیں رکھتی ہے۔

ہسرل کے نزدیک قوسین بندی کا عمل تاریخی تصدیقات کی تعلیق سے شروع ہوتا ہے، کیونکہ مظہری فلسفی دوسرے لوگوں کے خیالات میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے، بلکہ بذات خود اشیا کا ادراک حاصل کرتا ہے۔ اس ابتدائی تحویل کے بعد استعاری یا تشبہیی تحویل ((Eidetic Reduction)) کی منزل آتی ہے جہاں پر زیر بحث معروض کا انفرادی وجود قوسین بند کر دیا جاتا ہے۔ انفرادیت اور وجود کا اخراج تمام روحانی اور طبعی علوم سے دست برداری پر، ان کے واقعاتی مشاہدات اور ان کی تعمیمات سے کنارہ کشی پر، دلالت کرتا ہے۔ حتی کہ خدا کی ذات کا بھی استرداد لازم آتا ہے جو ہستی کی بنیاد ہے۔ استعاری یا تشبیہی تحول کے ساتھ ساتھ ایک اور تحویل ((Reduction)) معرض وجود میں آتی ہے جو ماورائی تحویل ((Transcendental Reduction)) کے نام سے موسوم کی جاتی ہے۔ یہ نہ صرف وجود کی قوسین بندی سے مرکب ہوتی ہے بلکہ ہر اس چیز کی قوسین بندی پر دلالت کرتی ہے جو شعور محض سے علاقہ نہیں رکھتی ہے۔ اس آخری تحلیل کے نتیجہ میں معروض کی بابت صرف وہ چیز قائم رہ جاتی ہے جو موضوع کے اندر موجود ہوتی ہے۔ ماورائی تحویل کا نظریہ دراصل، تصور ایمائیت ((Intentionality)) پر مبنی ہے۔ یہ ایک مشکل تصور ہے جو برنٹانو سے اور بالواسطہ مدرسیت ((Scholasticism)) سے مستعار ہے۔

ماورائی تحویل دراصل مظہریاتی منہاج کو بذاتہ موضوع اور اس کے افعال پر چسپاں کرنے کی کوشش سے عبارت ہے۔ بعض تجربات اپنی جوہری کیفیت کے اعتبار سے ایک شے یا معروض کے تجربات واقع ہوتے ہیں۔ یہ
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۲۱

تجربات، جس حد تک یہ کسی چیز کے شعور، محبت یا قدر وغیرہ سے علاقہ رکھتے ہیں، اسی چیز سے ایمائی طور پر متعلق گردانے جاتے ہیں اور ایمائی تجربات ((Intentional Experiences)) کے نام سے موسوم کیے جاتے ہیں۔ اس قسم کے ایمائی تجربات پر ماورائی تحویل کو چسپاں کر کے ہم بذاتہ تجربہ کو عمل خالص یا فعل محض میں تبدیل کر دیتے ہیں جو ایمائی معروض ((Intentional Object)) کی طرف شعور محض کے خالص ایمائی تعلق پر دلالت کرتا ہے۔ گویا ماورائی تحویل ایمائیت کے ذریعہ شعور محض کو مظہریات کے اندر داخل کر دیتی ہے۔ اور اس کو ایک مظہری عمل قرار دیتی ہے۔ ہسرل کے نزدیک شعور ایک نفسیاتی کیفیت نہیں ہے بلکہ ایک طرح کی نسبت یا سمت سے عبارت ہے۔ شعور کا عمل ایک معروض کی نشاندہی کر دیتا ہے۔ ایک میز کے شعور سے مراد میز کا ایک نجی اور داخلی نقشہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب میز کی طرف توجہ مبذول کرنا یا میز کے مفہوم کی نشاندہی کرنا ہے۔ اس طرح شعور سے ایمائیت کا ایک عمل ((Act of Intending)) اور اس عمل میں ایماشدہ معروض ((Intended Object)) دونوں ہی مراد ہیں۔ شعور کی اس مائیت کو ہسرل ایمائیت ((Intentionality)) سے تعبیر کرتا ہے جس کی مدد سے جواہر ((Essences)) تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ ان ساری تحلیلوں سے تجربہ کہ دو قطبیت ((Bi-polarity)) بخوبی واضح ہو جاتی ہے جو مظہریت کا بنیادی مسئلہ ہے۔ موضوع ((Subject)) اپنے عین جوہر کے اندر معروض ((Object)) سے علاقہ رکھتا ہے اور معروض اپنے جوہر کی رو سے موضوع محض ((Pure Subject)) کے اندر موجود ہوتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۲۲

ہسرل سے پہلے مظہریت بالعموم ایک نظریہ ظہور ((Theory of Appearance)) کے طور پر مستعمل تھی۔ ہسرل نے اس کو ایک مکمل نظام فلسفہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے جو نہ تو استخراجی ((Deductive)) ہے اور نہ تو تجربی ((Empirical)) بلکہ مظاہر کی وضاحت و صراحت سے عبارت ہے۔ یہاں وجدانی شہادت ((Intuitive Evidence)) حق و صداقت کی کسوٹی قرار پاتی ہے جو نہ تو قطعیت ((Certainty)) پر دلالت کرتی ہے اور نہ حقیقیت ((Reality)) کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ ہسرل کسی قسم کی مابعد الطبیعیاتی ملحوظات سے بحث نہیں کرتا ہے لیکن وہ اس امر میں یقین رکھتا ہے کہ اس کی مظہریات کسی بھی معقول مابعد الطبیعیاتی مسئلہ کا جواب فراہم کر سکتی ہے اور یہ کہ اگر اس کی رائج کردہ مظہریاتی تحلیل ((Phenomenological Analysis)) مقبول ہو جاتی ہے اور اس کو عملی طور پر اختیار کر لیا جاتا ہے تو پھر حقیقی علم کا حصول عمل میں آ سکتا ہے۔ ہسرل منطقی قوانین ((Logical Rules)) اور انفسیاتی حقائق ((Psychic Facts)) کے قوانین کے مابین فرق و امتیاز قائم کرتا ہے جس سے نفسانیت ((Psychologism)) کا استرداد لازم آتا ہے۔ جس کی رو سے منطق نفسیات کی ایک شاغ قرار پاتی ہے۔ اس کے نزدیک منطقی تصورات ((Lobical Notions)) کی ابتدا نفسیاتی ترکیبات ((Psychic Formations))میں مضمر نہیں ہوتی ہے۔ وہ فلسفہ کو ایک آزاد و کود مختار اور اساسی، مصدری سائنس کی حیثیت سے پیش کرتا ے جو سارے علم و ادراک کی خدمت انجام دے سکتا ہے۔ اس کا فلسفہ جوہر اور وجود کی تفریق پر مشتمل ہے اور ماورائی تصوریت ((Transcendental Idealism)) سے کافی قریب نظر آتا ہے اور بہت سے امور و مسائل میں نوکانٹی ((Neo-Kantion)) مفکرین سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۲۳

اس کے اور ماربرگ کے مکتب فکر ((The Marburg School)) کے مابین واحد اہم اختلاف یہ ہے کہ وہ موجود موضوعات ((Existent Subjects)) کی کثرتیت کو تسلیم کرتا ہے اور معروض کو صوری قوانین ((Formal Laws)) میں محلول کر دینے کا قائل نہیں ہے۔ یہ تصوریتی میلان اس کے مکتب فکر سے بہرکیف میل نہیں کھاتا ہے۔

ہسرل کے طرز فکر کی جدت بلاشبہ قرین صحت ہے، مگر مظہریاتی تحلیل کا منہاج لسانیاتی تحلیل کے منہاج کے باعث ماند پڑ گیا ہے، اگرچہ پورے طور پر منسوخ نہیں ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود مظہریاتی تحلیل جس کا بنیادی مقصد اساسی تصورات کی وضاحت کرنا تھا، ایسے لفظی جال میں الجھ گئی ہے کہ اس کی مدد وے وضاحت و صراحت کا حصول مشکل ہو گیا ہے جو کہ ہسرک کا اولین مقصود تھا۔ دراصل یہ خامی یا دشواری تمام غیر لسانیاتی فلاسفر میں عام طور سے اور جرمن فلاسفر میں خاص طور سے بے حد عام ہے۔ مظہریاتی تحریک کے اضافی جمود کا دوسرا سبب یہ امر واقعہ ہے کہ اس کی مماثل تحریک یعنی وجودیت ((Existentialism)) اس کے مقابلہ میں کہیں زیادہ آگے بڑھ گئی ہے۔ جو انفرادی وجودی گہرائیوں ((Individual Existential Depths)) کو منور کرنے کے لیے ((وسیع تر معنی میں)) مظہریاتی منہاج کا استعمال کرتی ہے۔ آزادی، اصلیت ((Authenticity))، محبت، وقار، سکوت ترسیل اور ارتباط ((Communication))، شرم وغیرہ جیسے تصورات کی وجودیاتی تحلیل نے جو کہ وجودی مفکرین کی ناولوں یا فنی تحریروں میں کافی نمایاں نظر آتی ہے، بیشتر معاصر فلاسفہ اور قارئین کو توجہ کی اس حد تک اپنا فریفتہ و گرویدہ بنا لیا ہے کہ علمی مظہریات بالکل ہی گوشہ گمنامی میں پہنچ گئی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۲۴

ایڈونس ((Adonis)) : یونانی دیومالا کا ایک ہیرو جو اپنی وجاحت، حسن اور جاذب نظری کے لیے مشہور ہے۔ مردانہ حسن وجاحت کی پرکھ کے لیے آج بھی اسی کے حوالے سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ اس حسین نوجوان پر اور کئی حسیناؤں کے علاوہ ایفروڈائٹ ((Aphrodite)) اور پرسی فون ((Persephone)) بھی فریفتہ تھیں۔ ایڈونس میرہا ((Myrrha)) یا سیمرنا ((Smyrna)) اور سینی رس ((Cinyras)) جو قبرص ((Cyprus)) کابادشاہ تھا، کے ملاپ سے پیدا ہوا تھا۔ جب یہ پیدا ہوا تو ایفروڈائٹ نے اسے پرورش کے لیے پرسی فون کے حوالے کیا لیکن جب ایڈونس جوان ہوا تو پرسی فون نے اس سے تعلق پیدا کر لیا اور ایفروڈائٹ نے واپس مانگا تو دینے سے انکار کف دیا۔ جب ایک سؤر نے ایڈونس کو مار ڈالا تو پرسی فون اور ایفروڈائٹ دونوں نے اس پر اپنا اپنا حق جتایا۔ تب یونانی دیوتا زئیس ((Zeus)) نے اسے زندہ کر دیا اور یہ فیصلہ دیا کہ ایڈونس گرمیوں کے چھ ماہ زمین کے اوپر ایفروڈائٹ کے ساتھ رہے گا اور بقیہ چھ مہینے زمین کے اندر پرسی فون کے ساتھ۔ یہ ایک تمثیل بھی ہے۔ اس کے بعد سے یونان میں ہر سال ایڈونس کی موت اور حیات کا جشن منایا جاتا رہا ہے۔ وسط گرمی میں اس کے مجسمہ کے اطراف بے شمار پودے لگائے جاتے جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایڈونس سطح زمین پر موجود ہے اور جب وہ پودے سرسبز و شاداب ہو کر مرجھا جاتے تو یہ مان لیا جاتا کہ وہ زیر زمین پرسی فون کے پاس چلا گیا ہے۔

ایرانی فن تعمیر : انتہائی ابتدائی دور میں ایرانی خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے لہذا اس وقت تک کسی تعمیر کا سوال ہی نہیں تھا۔ ۵۳۹ ق۔م۔ میں جب انھوں نے بابل کا علاقہ فتح کیا تو وہاں فن تعمیر نے بھی ایک نیا روپ اختیار کرنا شروع کیا۔ بخامنشی ((Achaemenid)) دور ((۵۵۰ ق۔م۔ تا ۳۳۰ ق۔م۔)) کی عظیم عمارتوں
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۲۵

میں مجسموں کو استعمال کیا جانے لگا۔ ان میں یونانی، مصری اور سلطنت کے دوسرے صوبوں کے فن تعمیر کے اثرات صاف جھلکتے تھے۔

سائرس ((Cyrus)) اور اردشیر ((Artaxeras)) کے محلات، دارا ((Darius)) اور ختشایارشا ((Xerxes)) کے شاندار محلات کے جو کھنڈرات تخت جمشید ((Persepolis)) میں ملے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان محلوں میں وسیع دربار ہال ((Audience Hall)) تھے۔ جن میں عظیم اور بلند ستون استعمال کیے جاتے تھے۔ ہال کے سامنے بارہ دریاں ہوتی تھیں جن میں چوکور ستون ہوتے تھے۔ محلوں تک پہنچنے کے لیے زینوں کے دوہرے سلسلے ہوتے تھے۔ اگرچہ ان کی تعمیرات میں مصری، یونانی، اور اشوری فن تعمیر سے بڑی مماثلت پائی جاتی تھی لیکن ان میں مکانی وسعت کا جو تصور تھا وہ ان کا اپنا تھا۔ یونانی عمارتوں کے برعکس ان محلوں کے ستون زیادہ پتلے اور نازک ہوتے تھے۔ مجسمے جو استعمال کیے گئے تھے ان میں سادگی اور حقیقت پسندی زیادہ تھی۔

سکندر اعظم کے انتقال کے بعد ((۳۲۳ ق۔م۔)) ایران افراتفری کا شکار ہو گیا۔ ۲۵۰ ق۔م۔ میں پارتھیوں ((Parthineans)) کے آنے کے بعد سکون پیدا ہوا۔ ان کا فن تعمیر اگرچہ کسی قدر بھونڈا تھا مگر عمارتوں کا ہر پتھر اچھی طرح تراشا ہوا ہوتا اور ان پر کوئی مجسمہ بنا ہوتا تھا۔

ساسانیوں نے ایران پر ۲۲۶ سے ساتویں صدی عیسوی تک حکومت کی۔ انھوں نے مدائن میں اپنا صدر مقام پھر سے تعمیر کیا۔ عالی شان محل تعمیر کیے جو مٹی اور اینٹ سے بنائے گئے تھے۔ انھیں تراشے ہوئے پتھروں
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۲۶

سے سجایا گیا تھا اور رنگین پتھروں سے پچی کاری کی گئی تھی۔ یہ اپنے فرامین ہر جگہ پتھروں پر کندہ کروا کر اونچی جگہوں پر لگواتے تھے۔

ایرانی فن تعمیر میں اسلام کے ابتدائی دور کے آثار بہت کم ملتے ہیں لیکن ایرانی فن تعمیر نے اسلامی فن تعمیر بالخصوص سوریا اور فلسطین کے فن کو بے حد متاثر کیا ہے۔ ایک مربع پر ڈاٹو ((Squinches)) کے ذریعہ گنبد کی تعمیر ان ہی کی ایجاد ہے۔ عمارتوں کی سجاوٹ میں گچ کے ٹکڑے استعمال کرنے، انتہائی نازک اور خوبصورت بنیادی نقسے ((Motifs)) بنانے اور عمار ت میں تناسب پیدا کرنے میں انھیں کمال حاصل تھا۔ ایرانیوں کے ابتدائی اسلامی دور کی مشہور عمارت بخارہ میں اسماعیل کا مقبرہ ہے۔ یہ ۹۰۷ میں بنایا گیا تھا۔ سولہویں صدی تک ایران میں پچی کاری کا فن اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ جو اصفہان کے "میدان شاہ" کی عمارتوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ صفوی دور میں محلوں کی سجاوٹ میں دیواری نقاشی ((Mural Painting)) کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا تھا۔ قاچار عہد میں فن تعمیر اور دوسرے فنون لطیفہ میں ایک قسم کی تھیٹری اسٹائل ترقی پا چکا تھا۔ سابق شاہ ایران رضا شاہ کے دور میں ہخامنثی دور کے فن کی جدید فن کے ساتھ آمیزش سے ایک نیا اسٹائل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جس میں قدیم اور جدید کو ہم آہنگ کیا گیا تھا۔

ایروس ((Eros)) : قدیم یونانی روایات میں یہ محبت کا دیوتا ہے۔ محبت کی تجسیم کی ساری خوبیاں اس سے وابستہ ہیں۔ حسین، خوبصورت اور مضبوط جسم کا مالک، جذبہ محبت سے سرشار، اظہار عشق میں نزاکت اور ذوق و شوق۔ بعض کے نزدیک وہ قدیم ترین دیوتا تھا، جو عالمی خلفشار سے ابھرا تھا۔ وہ کائنات کی تخلیقی قوت کا مظہر تھا۔ سمجھا جاتا تھا کہ ایفروڈائٹ کے بطن سے پیدا ہوا تھا اور اس کا باپ ایرس ((Ares)) تھا۔ اسے عام
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۲۷

طور سے ایک بچے کی شکل میں تصور کیا جاتا ہے۔ اسے تصویروں میں ایسے بچے کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے جس کے ہاتھوں میں تیروکمان ہوتے ہیں۔

یونانی شاعری میں اسے ایک مغرور اور غیر ذمہ دار عاشق کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے مگر وہ محبت کے جنون اور جذبہ کے ساتھ ساتھ محبوب کا درد بھی بانٹتا رہتا ہے۔ یونان میں بعض جگہ اس کی پرستش ایک بارآور کے طور پر بھی کی جاتی تھی جو خوشحالی فراہم کرتا تھا۔ رومن دیومالا میں اسے کیوپڈ یا آمور کا نام دیا گیا ہے۔ اسے ایک ننگے بچے کی شکل میں بھی پیش کیا جاتا ہے جس کے بازوؤں پر پر لگے ہوتے ہیں۔ اسے زہرہ ((Venus)) کا بیٹا اور ساتھی بھی سمجھا جاتا تھا۔ ایروس کو کبھی کبھی اس کے بھائی انتے روس ((Anteros)) کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا ہے جو محبت کا مخالف اور محبت کرنے والوں کا دشمن تھا۔

ایسپیٹن، جیکب ((Espiton, Jacob)) : نیویارک میں ۱۸۸۰ میں پیدا ہوا اور ۱۹۰۲ میں پیرس چلا گیا۔ ۱۹۰۵ سے لندن میں رہنے لگا۔ وہ ایک اچھا مجسمہ ساز سمجھا جاتا تھا چنانچہ ۱۹۰۷ میں برطانیہ کی میڈیکل ایسوسی ایشن نے اپنی عمارت کے لیے ۱۸ مجسمے تیار کرنے کی اس سے فرمائش کی۔ ۱۹۰۸ میں یہ مجسمے لگائے گئے تو بڑا شور مچا۔ اس کا بنایا ہوا ایک مجسمہ ہائیڈ پارک میں ۱۹۲۵ میں لگایا گیا اور اس کے بعد پارلیمنٹ اور دوسری سرکاری عمارتوں کے لیے اس نے مجسمے بنائے۔ فنکاروں نے اس کے فن کی ہمیشہ تعریف کی۔ لیکن عام لوگوں نے اس کے خلاف شور مچایا اور اس کی مذمت کی۔ اس نے بنائے مجسمے برطانیہ اور امریکا کی کئ عمارتوں میں موجود ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۲۸

ایسٹر ((Ester)) : عیسائیوں کا اہم تہوار اور یہ موسم بہار کی دیوی کا بھی نام ہے۔ تصلیب ((Crucifixion)) کے بعد یہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی "تجدید حیات" ((Resurrection)) کی سالگرہ کا دن ہے۔ مغرب میں عیسائی یہ دن پورے چاند کے بعد والے اتوار کو مناتے ہیں اور یہ دن ۲۲ اور ۲۵ اپریل کے درمیان پڑتا ہے۔ مشرق کے کلیسا، جولین جنتری کے مطابق یہ دن مقرر کرتے ہیں اور مشرق میں یہ دن مغرب کے ایسٹر کے ہفتوں بعد منایا جاتا ہے۔ مسیحی کلنڈر کی بہت سی تاریخیں ایسٹر پر انحصار کرتی ہیں۔ اس دن سے مختلف عبادتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور ہفتوں جاری رہتا ہے۔ اس زمانہ میں ہر رومن کیتھولک مذہب والے کے لیے یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ کمیونین ((Communion)) کی رسم ادا کرے جس میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات کو یاد کیا جاتا ہے۔ جو رومن کیتھولک یہ رسم ادا نہیں کرتا اس کے لیے سمجھا جاتا ہے کہ اس نے عیسائیت سے منھ موڑ لیا۔ اس دن کرسمس کی طرح جشن اور خوشیاں تو نہیں منائی جاتیں البتہ لوگ نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ انڈوں کو رنگتے ہیں اور سجاتے ہیں۔ گھروں میں موم بتیاں بھی روشن رکھی جاتی ہیں۔

ایفروڈائٹ ((Aphrodite)) : قدیم یونانی دیومالا میں خوشحالی، محبت اور حسن کی دیوی۔ مشہور انگریز شاعر ہومر نے اسے زئیس Zeus)) اور ڈیون ((Dione)) کی اولاد کے طور پر پیش کیا ہے لیکن ہسی اوڈ ((Hesiod)) نے اس کی پیدائش کی جو تفصیل دی ہے وہ زیادہ مقبول ہے۔ اس روایت کے مطابق وہ سمندر کے ان جھاگوں سے وجود نہیں آئی تھی جو یورے نس ((Uranus)) دیوتا کی مردانگی کو متھنے سے پیدا ہوئے تھے۔ایفروڈائٹ کی شادی ہیفسٹس ((Hephaestus)) سے ہوئی تھی لیکن اسے محبت ایرس ((Ares)) سے تھی جس سے اس کے بطن سے ہرمونیا ((Harmonia)) کی پیدائش ہوئی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۲۹

اور کچھ اساطیری روایتوں کے مطابق ((Eros)) اور انٹی روس ((Anteros)) کی۔ پورے یونان میں اس کی پرستش کی جاتی تھی لیکن مختلف علاقوں اور مختلف لوگوں کے لیے وہ الگ الگ خواص کی حامل تھی۔ کہیں وہ ایفروڈائٹ یورے نیا کہلاتی یعنی پاکی یا روحانی محبت کی مظہر تو کہیں وہ ایفروڈائٹ شادی اور خاندانی زندگی کی دیوری تھی اور جنسی محبت کی مظہر۔ اسپارٹا کے لوگ اسے جنگ کی دیوی کے طور پر پوجتے تھے۔ وہ سمندروں اور ملاحوں کی محافظ تھی اور وہ اسی لحاظ سے اس کی پوجا کرتے تھے۔ وہ سمندروں اور ملاحوں کی محافظ تھی اور وہ اسی لحاظ سے اس کی پوجا کرتے تھے۔ یونان میں اس دیوی کو وہی حیثیت حاصل تھی جو مغربی ایشیا میں استارت ((Astarte)) اور اِشتر ((Ishtar)) دیویوں کو حاصل تھی۔ اس کے چاہنے والوں میں بہت سے دیوتا تھے ہرمس، زئیس، ایڈونس وغیرہ۔ کہا جاتا ہے کہ دیومالائی کردار پیرس ((Paris)) الیکزاندر ((Alexander)) نے ایفروڈائٹ کی مدد سے اسپارٹا کے بادشاہ مینی لوس ((Menelaus)) کے یہاں سے ٹرائے ((Troy)) کی ہیلن کا اغوا کر لیا تھا اور اسی وجہ سے جنگ ٹروجن ہوئی تھی۔ رومن ایفروڈائٹ کو زہرہ ((Venus)) یعنی حسن و عشق کی دیوی مانتے تھے۔

ایفل، گستاف ((۱۹۲۳ – ۱۸۳۲، Eiffel, Gustav)) : فرانسیسی انجینیئر جو ایفل ٹاور ((مینار)) کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہوا۔ اس نے پیرس کی ایک نمائش کے لیے ۱۸۸۰ میں یہ مینار تعمیر کیا تھا۔ یہ مینار ۱۰۱۰ فٹ اونچا ہے اور ایک زمانے تک اس کا شمار دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں ہوتا تھا۔ بعد میں امریکہ میں اس سے بلند اور کئی عمارتیں مثلاً گرائسلر اور امپائر اسٹیٹ بلڈنگ وغیرہ تعمیر ہوئیں۔ ایفل ٹاور پیرس کے مرکز میں ہے۔ ساری دنیا کے سیاح اسے دیکھنے جاتے ہیں۔ اسی کے بعد دنیا کے ماہرین تعمیر نے دھات کو تعمیر کا ایک اہم ذریعہ تسلیم کیا۔ ایفل اس مینار کی وجہ سے مشہور ا لیکن اس کے بنائے ہوئے لوہے کے کئی پل بھی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۳۰

مشہور ہیں۔ پیرس کے مشہور مارش اسٹور کی عمارت کا بھی وہی انجینیئر تھا جو ۱۸۷۶ میں بنا تھا۔ اس کے علاوہ وہ امریکا کا مجسمہ آزادی ((Statue of Liberty)) بھی اس کی فن کاری اور انجینیئری کا نمونہ ہے۔ ان دونوں عمارتوں میں اس نے لوہے کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے۔

ایکادشی : ہندوؤں نے ہر مہینے کو دو مساوی حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ہر ایک حصہ کی گیارہویں کو ایک دشی کہتے ہیں۔ اس طرح سال بھر میں ۲۴ ایکادشی ہوتی ہیں اور ان کے الگ الگ نام ہیں۔ یہ وشنو کی پوجا کے لیے بہت ہی پاک مانی جاتی ہے۔ اس روز روزہ، جپ، وشنو سہونام کا پاٹھ اور رات بھر جاگنے کا عمل حصول ثواب کی خاص ذرائع ہیں۔

ایکناتھ ((۱۵۳۳ – ۱۵۹۹)) : یہ مہاراشٹر کے بہت مشہور سنت ہیں۔ وہ پٹن ضلع اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں یتیم ہو گئے۔ وہ بڑی عقیدت مند اور عقلمند تھے۔ دیوگڑھ کے حاکم جناردن سوامی کے علم اور اخلاق اور پرماتما میں ان کی عقیدت و محبت اور بھکتی کو دیکھ کر ایکناتھ کو ان کی طرف خاص کشش ہو گئی اس لیے وہ ان کے شاگرد ہو گئے۔ انھوں نے اپنے گرو سے گیانیشوری، امرتانوبھو اور شری مدبھاگوت وغیرہ پڑھی۔ گروہی کے حکم سے انھوں نے شادی کی۔ انھوں نے انسانیت کے وسیع تخیل سے متاثر ہو کر اچھوت ادھار کی کوشش کی تھی۔ یہ جتنے بلند پایہ سنت تھے اتنے ہی اعلٰی مرتبہ کے شاعر تھے۔ مہاراشٹر میں ان سے پیشتر ان کے مقابلہ کا کوئی شاعر پیدا نہیں ہوا۔ اگرچہ فارسی کے اثر سے مرہٹی کچھ دب گئی تھی اور سنسکرت کے پنڈت دیسی زبان کی سخت مخالفت کرتے تھے لیکن انھوں نے مرہٹی کے ذریعہ ہی عوام کو بیدار کرنے کا قصد کر لیا اور کئی مذہبی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۳۱

اور روحانی نظمیں لکھیں۔ بھاگوت ان کی سب سے بہتر تصنیف ہے۔ ان کو صحیح معنی میں انقلاب انگیز شاعر کہا جاتا ہے۔

ایکویڈکٹ ((Aqueduct)) پانی کے لے جانے کی نہر یا نالی جو چونے اور اینٹ سے بنائی جاتی ہے۔ یہ قدیم رومن ایجاد ہے اور روم کے قدیم علاقوں میں آج بھی موجود ہے۔

ایکی لیز ((Achilles)) یونانی دیومالا کا ایک مشہور ہیرو جو پیلیس ((Peleus)) اور تھیتس ((Thetis)) کا بیٹا تھا، جنگ ٹروجن کے اس کے کارنامے مشہور ہیں۔ یہ بڑا جاں باز جنگجو تھا اور اسے غصہ بہت جلد آ جاتا تھا۔ اس کی ماں کو یقین تھا کہ اگر وہ جنگ پر گیا تو ضرور مارا جائے گا چنانچہ اس نے اسے لڑکیوں کا لباس پہنا کر اسکائی روس ((Skyros)) کے بادشاہ لیکومدس ((Lycomedes)) کے شاہی محل کی عورتوں میں چھپا دیا لیکن اوڈیسیس ((Odysseus)) کو پتہ چل گیا اور اس نے اسے وہاں سے نکال کر جنگ ٹرائے پر جانے پر آمادہ کر لیا۔ وہاں اس نے بڑی بہادری کے کارنامے انجام دیے۔

یہ بھی ایک روایت ہے کہ بادشاہ لیکومدس کی ایک بیٹی دیدامیا ((Deidamia)) سے ایکی لیز کے تعلق ہو گئے تھے اور دیدامیا کے بطن سے اس کا بیٹا نیوپ ٹولے مس ((Neoptolemus)) پیدا ہوا تھا۔ مشہور قدیم یونانی شاعر ہومر الیاڈ ((Illiad)) اور اوڈیسی ((Odyssey)) جس کی بہت مشہور تخلیقات ہیں، کے مطابق ایکی لیز جنگ ٹرائے میں پچاس جنگی جہاز لے کر گیا تھا اور اس نے ٹرائے گھیراؤ کر لیا تھا، لیکن جنگ کے آخری دنوں میں جب اگا میمنون ((Agamemnon)) نے اس کے قبضہ سے شہزادی بریسیز ((Briseis)) کو نکال لیا تو وہ غصہ میں آ کر اپنا لشکر واپس لے گیا لیکن یونانیوں کو شکست کھاتے دیکھ کر اس
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۳۲

نے اپنے دوست پٹروکلس ((Patroclus)) کی سربراہی میں اپنی فوج کو جنگ میں شریک ہونے کی اجازت دے دی لیکن جب ہیکٹر ((Hector)) نے پیٹروکلس کو مار ڈالا تو ایکی لیز نے غم و غصہ کی حد نہ رہی اور وہ خود جنگ میں شریک ہو کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑا اور ہیکٹر کو قتل کر کے ہی چین لیا۔

اس کے مرنے کے متعلق کئی روائتیں مشہور ہیں۔ ایک یہ ہے کہ ایکی لیز کی ماں نے اسے دریائے اسٹکس ((Stys)) میں نہلا کر غیر فانی بنا دیا تھا لیکن نہالاتے وقت اس کی ایڑی پکڑے ہوئے تھی جو بھیگ نہ سکی اور جب جنگ ٹروجن میں پیرس ((Paris)) نے اس کی ایڑی کو نشانہ بنایا تو پھر وہ بچ نہ سکا۔ اسی سے مغربی ادب میں "ایکی لیز کی ایڑی" ((Achilles Heel)) کا محاورہ رائج ہوا۔

اس کے مرنے کے متعلق دوسری روایت یہ ہے کہ اسے ایک مشہور حسینہ پولی زینا ((Polysena)) سے محبت ہو گئی تھی۔ یہ بات پیرس کو پسند نہیں تھی چنانچہ جب ایکی لیز اس سے ملنے جا رہا تھا تو پیرس نے پیچھے سے اس پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا۔ قدیم یونان میں ایکی لیز کی بڑی پرستش ہوتی رہی ہے۔

ایمپیڈوقلیز ((Empedocles)) : ایک سائنسدان، ماہر معالج اور فلسفی تھا جو اپنے مذہبی تعیقنات میں فیثا غورثی تحریک سے متاثر تھا۔ وہ پراسرار شخصیت کا مالک تھا جسے دیوتا اور فوق الفطرت صلاحیتوں کا مالک سمجھا گیا۔ اس کے نظریہ عناصر کے مطابق کائنات کی تشکیل چار عناصر ((پانی، ہوا، آگ اور مٹی)) کے امتزاج کا اثر ہے۔ اس نے پارمینائیڈیزی و ہراقلیطسی نظریات کو یکجا کرتے ہوئے حقیقت کو استقلال و تغیر کا میل بنایا اور مادی ھرکت کو توضیح کی خاطر حب و تنفر جیسے دو عوامل تسلیم کیے جو اشیا میں قرب و بعد کے ضامن ہیں۔ اس طرح کائنات کی توضیح کے سلسلے میں قدری اصولوں کا اطلاق کیا گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۳۳

جس کے مذہبی و اخلاقی لزومات بھی تھے۔ ایمپیڈوقلیز کے فکر میں نظریہ ارتقا کا ابتدائی خاکہ نظر آتا ہے جس کے مطابق انسان عناصر کی حادثی امتزاج کی وجہ سے دنیا میں ظہور پذیر ہوا۔

ایممنوئل کانٹ ((۱۸۰۴ – ۱۷۲۴، Immanuel Kant)) : کانٹ جرمنی کے شہر کونکسبرگ میں پیدا ہوا تھا۔ وہ زندگی بھر اپنے آبائی صوبہ میں سکونت پذیر رہا۔ ۱۷۴۰ میں وہ کونکسبرگ یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ کچھ دنوں تک نجی معلم رہا۔ پھر مذکورہ یونیورسٹی سے متعلق ہو گیا اور تقریباً تیس سالوں تک اس میں منطق اور مابعد الطبعیات کے پروفیسر کے عہدہ پر فائز رہا۔ وہ شادی کے رشتہ میں کبھی منسلک نہیں ہوا۔ تمام عمر وہ اپنی ابتدائی زندگی کے گہرے اثرات سے مغلوب رہا۔ اس کے والدین مذہب کے پرجوش حامی تھے اور اس کی تعلیم و تربیت خالص مذہبی ماحول میں ہوئی تھی۔ وہ ایک سخت گیر مذہبی اور اخلاقی شعور کا حامل تھا۔ اس کی فلسفیانہ تعلیم قیاسی و نظری مابعد الطبعیات کی روایت پر مشتمل تھی۔

لاک اور ہیوم اس نظریہ کے حامل تھے کہ مابعد الطبعیاتی نظامات کی تشکیل سے پہلے ایک تنقیدی علمیات کا وجود ضروری ہے۔ کانٹ نے اسی نظریہ کے مطابق عقل اور تجربہ دونوں کی مجبوریوں کی مائیت کا بے حد جامع تنقیدی تجزیہ پیش کیا ہے جس کی مثال فلسفہ کی تاریخ میں مشکل سے مل سکتی ہے۔ اس نے اپنی تصانیف میں علمیات کے موضوع کو تنقیدی لہجہ عطا کیا اور فلسفہ کو انتفاد علم کا مترادف قرار دیا۔

کانٹ نے ریاضیاتی، سائنسی، اخلاقیاتی اور جمالیاتی تصدیقات کو اپنے تنقیدی تجزیہ کا موضوع بنایا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ نہ تو محض حواس اور نہ تنہا عقل علم کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ علم کے حصول میں دونوں ذرائع کام آتے ہیں اس لیے کہ یہ دو عناصر سے مرکب ہوتا ہے : ایک خام مواد جو خارجی اشیا سے موصولہ حسیات یا ادراکات پر مشتمل
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۳۴

ہوتا ہے اور دوسری صورت یا ساخت جو ذہن کی پیدا کردہ ہوتی ہے۔ حسیت گوناگوں خام مواد فراہم کرتی ہے۔ جو زمان و مکان سے باہم مربوط ہو کر قابل فہم بن جاتا ہے اور یہ گوناگوں حسیات مقولات فہم کے ذریہ سے مزید ترکیب پا کر تصدیقات کی صورت اختیار کر جاتی ہیں جو ترکیبی یا تحلیلی قبل از تجربی ((Apriori)) یا بعد از تجربی ((Aposteriori )) اقسام پر مشتمل ہوتی ہیں۔ گویا علم حسیت کی موضوعی صورتوں ((مکان اور زمان)) اور فہم کے موضوعی مقولات ((جوہر، کیفیت، اضافت، علت وغیرہ)) سے لازمی طور پر مشروط و متلازم واقع ہوتا ہے۔ کانٹ نے اپنے نظریہ انتقاد علم میں عقلیت اور تجربیت کے انتہا پسندانہ رحجان کے مابین ایک طرح کی مفاہمت کی کوشش کی ہے۔ ان دونوں متنازع فیہ رحجانات فکر کے مابین یہ مفاہمانہ طریق کار اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ سائنس اور ریاضیات کے معتبر ترین اور قطعی ترین بیانات بھی حقیقت کمافی نفسہ ((ماورایت)) کی ہرگز عکاسی نہیں کرتے ہیں اور نہ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ بلکہ صرف حقیقت کما فی الظاہر ((مظہریت)) کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ رحجان فکر مابعدالطبعیات کے اخراج کا باعث ہوا، تاہم سائنس اور ریاضیات کی اصنافی معروضیت و کلیت برقرار و قائم رہی۔ بلکہ اس کی بدولت ان کی ہمہ گیریت اور ضرورت اور بھی زیادہ مستحکم ہو گئ۔ اس لیے کہ کانٹ نے سائنس کو کل تجربہ کی بنا پر یکساں گرداننے سے انکار کیا اور صداقت خیر و حسن میں صاف صاف امتیاز کیا اور ان حقائق کی خود مختاری کو محفوظ رکھا۔ اس نے اس طرح انسانی عقل و فہم کے حدود کے لیے راہیں استوار کیں اور انھیں تحفظ دیا۔

کانٹ نے جہاں ادارکی تجربہ اور حکمیاتی طریق کار کو اپنی تنقیدی تحلیل کا موضوع بنایا ہے وہیں اس نے اخلاقی تجربہ اور عقل عملی سے بھی خاطر خواہ بحث کی ہے۔ اس کی نظر میں اخلاقی تجربہ اتنا ہی اہم اور بامعنی ہے جتنا کہ
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۳۵

ادراکی تجربہ۔ مزید برآں وہ اس خیال کا حامل ہے کہ ہمارا اخلاقی تجربہ منطقی طور پر بعض مابعد الطبعیاتی عقائد یعنی ارادہ کی آزادی، ذات کی لافانیت اور خدا کے وجود کی پیش قیاسی کرتا ہے۔ اپنی تصنیف " انتقاد عقل عملی" میں اس نے ان عقائد کی تائید کی ہے۔ اس کے نزدیک اخلاقی استحسان ایک حکم مطلق یا امر اطلاقی ہے۔ یہ ضمیر یا ارادہ محض کے بطن سے از خود وارد ہوتا ہے۔ دراصل کانٹ نے "خیر خواہی" یعنی فرض کے لیے انسان کی بے لوث اور غیر مشروط عقیدت کو اعلٰی ترین اخلاقی روحانی قدر گردانا ہے جو اختیار و آزادی، حیات بعد موت اور ایک حاکم اعلٰی کے وجود پر دلالت کرتی ہے۔ اگرچہ ان عقائد کی مابعد الطبعیاتی صداقت کو ((خود مابعدالطبعیات کے مقدم نظری عدم امکان کے باعث)) ثابت کرنا ممکن نہیں ہے تاہم اس احساس کے ساتھ عمل کرنا پورے طور پر معقول اور حق بجانب ہے کہ گویا یہ عقائد مابعدالطبعیاتی معنی میں صداقت کے حامل ہیں۔ اس قسم کا عقیدہ ایک ایسے مابعد الطبعیاتی یقین کے مترادف ہے جو کسی بھی مخصوص تاریخی مذہب میں مروجہ مذہبی ایمان سے بالکل ممتاز و ممیز واقع ہوتا ہے۔ اس طرح کانٹ ایک فلسفی کی حیثیت سے کسی مخصوص دینیات کا حامی نہیں ہے۔ وہ خدا کے وجود کے مختلف کاسیکی ثبوت کو یہ کہہ کر مسترد کر دیات ہے کہ یہ غیر تشفی بخش اور مغالطہ دہ ہیں۔ تاہم کائنات کی بابت اس کا نقطہ نظر بنیادی طور پر ایک روحانی تناظر رکھتا ہے جو ایک طرف سائنس اور ریاضیات کی اور دوسری طرف مذہبی عقیدہ کی جو اخلاقی تجربہ کو حددرجہ اہم اور معنی خیز بناتا ہے، اضافی معروضیت اور کلیت کے لیے کافی گنجائش فراہم کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کانٹ کا تنقیدی فلسفہ ان مربوط ترین اور جامع ترین کاوشوں میں سے ایک ہے جو انسان نے کسی ادعائیت کے بٖیر، خواہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی، کائنات کی فلسفیانہ تشریح و توضیح کے ضمن میں برابر کی ہیں۔ یہ بہرکیف، اس امر پر دلالت نہیں کرتا ہے کہ اس کا تنقیدی فلسفہ
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۳۶

ریاضیاتی تصدیقات کی ماہیت کے سلسلہ میں بعض قابل اعتراض مفروضات سے بالکل مبرا ہے۔ بہرحال، امر واقعہ یہ ہے کہ کانٹ کےبعد کا تمام تر فلسفہ ((ہیگل کے مختصر درمیانی وقفہ کے علاوہ)) (( کانٹ کے مرکزی موضوعات)) ((مابعد الطبعیات سے علاحدگی، سائنس کی اثباتی توضیح، انسان کے اخلاقی جمالیاتی تجربہ کی، اس کو معروضی اور تصدیق پذیر علم کا ماخذ گردانے بغیر، نازک اور فیصلہ کن قدر و اہمیت)) سے گوناگوں انحرافی صورتوں پر مشتمل ہے۔

اینٹستھنیز ((۳۶۸ ق۔م۔ – ۴۴۴ ق۔م۔، Antisthenes)) : سقراط کا دوست اور مکتب کلبیت کا بانی۔ اس کے مطابق انسان کی سچی خوشی صحیح اور دانشمندانہ طرز زندگی میں پنہاں ہے جو خارجی عوامل و اثرات سے آزاد ہو کر جینے کا نام ہے۔ یہ حال خواہشات و ضروریات پر قابو پا کر پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس کی نظر میں انسانی آزادی سماجی رسوم و ادارتی قیود سے علاحدگی میں ممکن ہے۔ لہذا صرف ان چیزوں کی تمنا جائز ہے جو زندہ رہنے کے لیے ناگزیر ہیں۔

اینی مزم ((Animism)) : دیکھیے روحیت۔

ایودھیا ((اجودھیا)) : یہ ہندوستان کی ایک بہت قدیم تاریخی شہر ہے جو سر جوندی کے کنارے ضلع فیض آباد، اترپردیش میں واقع ہے۔ رامائن میں ذکر ہے کہ جب رام چندر جی لنکا کی فتح کے بعد واپسی میں ایودھیا کے نزدیک پہنچے تو اپنے ساتھیوں سے انھوں نے اس شہر کی تعریف کی اور کہا کہ یہاں میں پیدا ہوا تھا۔ سرجو ندی میں اشنان سے سارے گناہ دھل جاتے ہیں اور نجات حاصل ہو جاتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۳۷

قدیم زمانہ میں ایودھیا کوشل دیش کا دارالسلطنت تھا۔ آج ایودھیا کے قدیم مندروں میں ایک "سیتار سوئی" اور "ہنومان گڑھی" دیکھنے کے قابل ہیں۔ کچھ مندر اٹھارویں اور انیسویں صدی میں تعمیر ہوئے ہیں جن میں کنک بھون، ناگیشور ناتھ اور درشن سنگھ مندر قابل دید ہیں۔

بابل۔ فنون لطیفہ و تہذیب : بابل کی کوئی فنی تخلیق اب باقی نہیں رہی ہے سوائے حقہ گل کمیش ((Gilgamesh)) کے جس سے اس قوم کی تخلیقی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

بابل کی عمارتوں میں پالش کیے ہوئے ٹائل استعمالہوتے تھے۔ چمکتے ہوئے پتھروں کی کمی نہیں تھی۔ کانسے سے خوبصورت پیکر بنائے جاتے۔ لوہے، سونے، چاندی سے نازک زیور گڑھے جاتے۔ نرم قالین بنائی جاتی۔ خوبصورت گہرے رنگوں کے قبا پہنے جاتے۔ خوبصورت پھول کاریاں کاڑھی جاتیں۔ پایہ درا میز، کرسیاں اور پلنگ تیار ہوتے تھے۔ بابلی سماج کے یہ شہ پارے اور کچھ نہیں تو زندگی کو حسین اور آرام دہ ضرور بناتے تھے۔ البتہ زیورات اور دوسرے فن پاروں میں قدیم مصر کی سی صناعی اور نزاکت نہیں پائی جاتی تھی۔

بابل میں موسیقی کے لیے بہت سارے ساز استعمال کیے جاتے تھے جیسے رباب، بربط، بانسری اور بین، نرسنگھ، بگل، جھانجھ اور دف۔ معبدوں، محلوں اور مالدار لوگوں کی دعوتوں میں آرکسٹرا ہوتا اور لوگ گاتے اور ناچتے تھے۔

مصوری بابل میں ایک آزاد فن کے طور پر ترقی نہیں کی تھی۔ البتہ دیواروں اور مجسموں کو سنوارنے کے لیے تھوڑی بہت ضرور استعمال ہوتی تھی۔ پیکر کاری کے بھی کوئی نمونے نہیں ملے ہیں۔
 
Top