اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۸

جذب عالمپوری، راگھوویندر راؤ ((۱۹۷۳ – ۱۸۹۴)) : دکن کے رباعی گو شاعر جذب عالمپوری گنگاوتی ((کرناٹک)) میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا ذوق فطری تھا۔ شوکت میرٹھی سے اصلاح لی۔ سخا دہلوی سے علم عروض سیکھا پھر صنف رباعی کو اپنے لیے مختص کر لیا اور ساری عمر رباعی کہتے رہے۔ آخری عمر میں حیدر آباد میں سکونت اختیار کی۔ یہیں انتقال ہوا۔

جذب عالمپوری رباعی گو کی حیثیت سے معروف ہیں۔ دکن میں انھی نے اس صنف کو امجد کے بعد خاص اہمیت دی۔ رباعی کے فن پر انھیں قدرت حاصل ہے۔ ان کی رباعیوں کی سب سے اہم خصوصیت ان کا کلاسیکی رچاؤ ہے۔

جذب کی رباعیات کا پہلا مجموعہ "آہنگ جذب" ہے۔ غزلیات کا مجموعہ "سازِ غزل" ہے۔ جذب نے جنوبی ہند کے پانچ سو شعرا کا ایک تذکرہ بھی لکھا تھا جو ہنوز غیر مطبوعہ ہے۔ سنسکرت، تلنگی اور کنٹر کی پرانی کتابوں کے منظوم ترجمے اس کے علاوہ ہیں۔

جرات، شیخ قلندر علی بخش ((۱۸۰۹ - ۱۷۴۸)) : اصل نام یحی، امان تھا لیکن قلندر بخش کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے والد حافظ امان دلی کے رہنے والے تھے۔ جرات کا بچپن فیض آباد میں گزرا۔ کم عمری میں ہی آنکھوں سے معذور ہو گئے۔ آصف الدولہ کے عہد میں لکھنؤ آئے۔ سلیمان شکوہ نے ان کی سرپرستی کی۔ جرات زیادہ لکھے پڑھے نہیں تھے۔ لیکن قادر الکلام شعرا میں ان کا نام ممتاز ہے۔ جرات کا ایک دیوان اردو اور کئی مثنویاں ملتی ہیں۔ انھوں نے غزلوں کے علاوہ فردیات، رباعیات، مسدس، مخمس، ہجویں و اسوخت، ترجیع بند، سلام اور مرثیے وغیرہ لکھے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۹

جُرجانی، عبد القاہر ((۴۷۱ ہجری مطابق ۱۰۷۸)) : ابوبکر عبد القاہر بن عبد الرحمن بن محمد جرجانی پانچویں صدی کے اوائل میں پیدا ہئے۔ جرجان، طبرستان اور خراسان کے درمیان ایک مردم خیز شہر ہے۔ علماء فقہا اور صوفیہ کی کثیر تعداد یہاں سے منسوب ہے۔ چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں یہ علم و ثقافت کا منفرد مرکز تھا۔ وہ ایک غریب یا تارک الدنیا خاندان کے فرد تھے اور تاحیات اپنے وطن میں ہی رہے۔ امرا و سلاطین سے رابطہ نہ تھا۔ زاہدانہ زندگی تھی۔ جرجان ہی میں علوم دینیہ اور دیگر مُروج علوم حاصل کیے۔ ابو الحسین محمد بن الحسین الفارسی سے لغت و نحو کی تکمیل کی۔ ابتدا میں ان کی شہرت ایک نحوی کے لحاظ سے ہوئی چنانچہ تراجم کے معتبر ماخذ میں انھیں کسی نے امام نحو لکھا کسی نے بہت بڑا ادیب بتایا اور کسی نے مورخ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عبد القاہر فن بلاغت کے امام اور اس میں ایک نئے نظریے کے بانی تھے۔ اور آج ان کی شہرت اسی وجہ سے ہے۔

قرآن کریم نے صرف ایک دین ہی کی طرف دعوت نہیں دی، سچ یہ ہے کہ عربوں میں ایک روح نشاط پھونک دی۔ جب اس نے اعلان کیا کہ اگر تمھیں شک ہے کہ یہ الُوہی کلام نہیں ہے تو تم بھی ایک سورہ اسی جیسی بنا دو۔ بہ ظاہر یہ کوئی بڑی بات نہ تھی۔ لیکن مخاطب عربوں نے اپنے ذوق سے سمجھا کہ وجہ خواہ کچھ ہو، اس طرح کا کلام انسان کی طاقت سے باہر ہے۔ متاثر ہو کر کبھی جادو کہتے کبھی کاہنوں کا کلام لیکن کلام کی وہ تاثیر جو دل کی گہرائیوں میں اتر جائے، یہ کیا اور کیوں ہے، اس کی فنی تحلیل ابتدائی عہد میں نہیں ہوئی۔ اس کی ضرورت اس لیے نہ تھی کہ ہر ایک اس کا معترف تھا اور اپنے فطری ذوق سے اسے محسوس کرتا تھا۔ بعد کی دو صدیاں قرآنی تعلیم کے انتشار عام اور فروغ کا زمانہ ہے۔ اس عہد میں عربوں نے نوع بہ نوع اسلوب بیان، ادبی جمال کی رنگا رنگی، نظام حایت کی ایک نئی شرح، مجدد فضل کے اکتساب کا ایک نیا طریقہ اور زندگی سے بھرپور پیغام کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۰۰

تحصیل و تجزیہ پر توجہ دی، چنانچہ سب سے پہلے نحوی قواعد کی ترتیب پر توجہ دی گئی اور کلام عرب کو جمع کیا گیا۔ ہزاروں ہزار اشعار و محاورے قرآنی کلمات کو سمجھنے اور اسے عربوں کے کلام پر پرکھنے کے لیے جمع کیے گئے۔ اصحاب لغت و نحو اسی زمرے میں آتے ہیں۔

دوسرا مرحلہ وہ تھا جس میں قرآن کریم کے وجہ اعجاز پر غور کرنا شروع کیا گیا۔ اس سلسلے کی پہلی کوشش ابُو عبیدۃ معمر بن المثنی الثقفی ((م، ۲۰۹ ہجری)) کی "مجاز القرآن" ہے۔ اس میں بعض ایسے کلمات و تراکیب کی نشاندہی ہے جو حقیقی معنی میں استعمال نہ ہو کر مجازی معنونمیں قرآن نے استعمال کیے ہیں، لیکن مجاز کا اصطلاحی تصور اس وقت تک نہ تھا۔

اس کے بعد عمرو بن بحر بن محبوب الجاحظ ((م، ۲۵۵ ہجری)) کا نام آتا ہے۔ جاحظ پہلا شخص ہے جس نے لفظ و معنی کے باہمی ارتباط، ان کی انفرادی اہمیت، کلام میں حسن و جمال کے اسباب پر تفصیلی ہی نہیں، استادانہ گفتگو کی۔ اس کی تصنیف "البیان والتبیین" اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ جاحظ نے اعلان کیا کہ معنی کی اپنی ذاتی کوئی اہمیت نہیں ہے جب تک کہ اس کا موقع استعمال مناسب نہ ہو۔ اور فصاحت یا بلاغت اسی حسن استعمال کا نام ہے، بہ الفاظ دیگر نظم کلام کے نظریہ کے نقوش ابھرنے شروع ہو گئے۔

ابن المعتز ((م، ۲۹۶ھ)) نے کتاب البدیع تصنیف کی اور اپنی قوت فکر و استنباط سے اس نے بدیع کی تعریف و افادیت اس کے انواع و اقسام وغیرہ پر نہایت مفید کام کیا۔ علم بدیع کا موجد یہی عبد اللہ بن المعتز ہے، یہ تمام کوششیں قرآن کریم کے سبب اعجاز کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے کی جا رہی تھیں اور لاشعوری طور پر ایک گرامی قدر علم وجود پذیر ہو رہا تھا۔ عرب شعرا کے قصائد عربوں کے الفاظ و لہجات و محاورے اور نادر و غریب الفاظ جو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۰۱

اوراق پارینہ ہو جانے کی تمام شرائط پوری کر چکے تھے انھیں جمع و حفظ کے ذریعہ حیات دوام بخشی جا رہی تھی یہ سب کچھ قرآن کریم کے طفیل تھا۔

پھر قدامہ بن جعفر ((م۔ ۳۳۷ ہجری)) نے "نقد الشعر" اور "نقد النثر" لکھ کر اس بنیاد پر ایک اینٹ کا مزید اضافہ کیا۔ قدامہ کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے پہلی بار بیان کی چار مختلف پیرایوں یا اقسام میں درجہ بندی کر کے نظام بیان کو سمجھانے کی کوشش کی۔ اعتبار، اعتقاد، عبارت اور تحریر۔ اور پھر ان چاروں اقسام کی تفصیل و وضاحت کی جس کے ضمن میں تشبیہات و استعارات و عبارات میں حذف، تقدیم و تاخیر وغیرہ کے اسباب اور حسن کلام پر ان کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔ شعری محاسن و عیوب، نثر کے اداب و ضوابط پر نہایت مفید گفتگو کی ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علم بلاغت کے ضمن میں فن نقد کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ اور یہ فن بلاغت آہستہ آہستہ فن نقد میں تبدیل ہو گیا یا یوں کہیے کہ نقد ادب کے اصول و ضوابط مُدون ہو کر انفرادی حیثیت سے سامنے آ گئے چنانچہ قاضی جرجانی ((م۔ ۳۶۶ھ)) کی "الوساطۃ بین المتبی و خصومہ" نقد شعر کی پہلی نہایت کامیاب کوشش ہے۔ ابو بلال العسکری ((م۔ ۳۹۵ھ)) کی "کتاب الصناعتین"، الباقلانی ((م۔ ۴۰۳ھ)) کی "اعجاز القرآن"، ابن رشیق القیروانی ((م۔ ۴۵۶ھ)) کی العمدۃ فی محاسن الشعر" یہ تمام کوششیں ایک ہی سلسلے کی تدریجی شکلیں ہیں۔

ہر ایک نے بلاغت قرآن کے ضمن میں نقد ادب و شعر پر گفتگو کی۔ لیکن اب تک یہ بات طے نہ ہو سکی تھی کہ قرآن کریم دوسرے ادب سے ممتاز و فائق اور معجزہ ہے تو کیوں ہے۔ کوئی اعجاز لفظوں میں بتاتا، کوئی معانی کو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۰۲

معجز گردانتا تھا، ایک طبقہ نظم عبارت کو وجہ امتیاز سمجھتا تھا۔ لیکن یہ ساری باتیں دوسرے کلام میں بھی موجود تھیں گو قرآن کریم کے درجے کی نہ سہی۔

عبد القاہر جرجانی کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے متقدین کے افکار و نظریات کو بہ نظر عمیق پڑھا اور پھر ان میں اس طرح ترتیب دیا اور اتنے شرح و بسط اور باریک بینی سے پیش کیا کہ علم معانی اور بیان میں دو مستقل نظریے کے موجد قرار پائے۔

علم بلاغت کو تین مستقل اقسام، معانی، بیان اور بدیع میں تقسیم کرنا اور ہر ایک کے حدود متعین کرنا جرجانی کا پہلا کارنامہ ہے، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے ایک طبقہ وہ تھا جو اعجاز قرآن کا راز حسن لفظ اور حسن معنی میں سمجھتا تھا اور اس کا نام فصاحت رکھا تھا۔ دوسرا طبقہ نظم عبارت کو معجز سمجھتا تھا، جاحظ نے پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا۔ تیسرا طبقہ وہ تھا جو فصاحت کر مرجع اعجاز تو سمجھتا تھا لیکن فصاحت کی تعریف وسیع تر مفہوم پر مشتمل تھی۔ یعنی لفظ و معنی کے انتخاب و ارتباط اور ان سے پیدا ہونے والی صورت بیانیہ ہی فصاحت نہیں ہے بلکہ اسلوب ادا، نحوی تراکیب کا حسن استعمال بھی اس میں شامل ہے۔ جرجانی نے اپنے نظریہ نطم میں اس فکر کو خاص طور پر سامنے رکھا اور فصاحت کی تعریف میں ان کا موقف یہی ہے۔ مختصراً یہ کہیے کہ جرجانی کے یہاں فصاحت، بلاغت، ترتیب و ترکیبِ عبارت اور حسنِ ادا میں لفظ کا کوئی دخل نہین ہے بلکہ الفاظ کے حسن ترتیب، ان کا حسن انتخاب اور پھر برمحل استعمال فصاحت کی روح ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔

"کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ کلمہ فصیح ہے تاوقتیکہ اس کلمہ کو برمحل استعمال نہ کیا گیا ہو اور سیاق و سباق کے کلمات سے حسن صوت اور حسن معنی میں پوری طرح ہم آہنگ ہی نہ ہو بلکہ ان کے مجموعی حسن میں مؤید ہو"۔ اس طرح
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۰۳

جرجانی نے یہ مسئلہ صاف کر دیا کہ جو لوگ ادب میں معنی پر زور دیتے ہیں اور حسن و قبح کا معیار معنی کی گہرائی یا ندرت قرار دیتے ہیں وہ حقیقیت سے بہت دور ہیں۔ ہاں استعارہ کے ذریعہ کوئی ندرت پیدا ہوئی ہو تو اس کی اور بات ہے۔ یہ ابن قتیبہ کا مذہب ہے جسے جرجانی نے سختی سے مسترد کر دیا۔ گویا نہ تنہا لفظ نہ ہی معنی بلاغت کلام میں مؤثر ہیں۔ خلاصہ یہ نکلا کہ اعجاز قرآنی ایسے معنی کی جہت سے ہے جس میں الفاظ ایک مخصوص ترکیب میں نظم کیے گئے ہوں۔ باہم مربوط و ہم آہنگ ہو کر حسن ادا کے ضامن ہوں۔ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ صورت بیانیہ ترکیب و اسلوب ہی سے بنتی ہے۔ بیانیہ ترکیب و اسلوب ہی سے بنتی ہے۔ اس طرح وہ نظم عبارت کا جز ہے۔ جرجانی ایک قدم اور آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ "جو لوگ فصاحت کو الفاظ میں محدود سمجھتے ہیں اور جن اوصاف کی بنا پر وہ لفظ کی اہمیت کے قائل ہیں درحقیقت وہ تمام اوصاف معنی کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ "بہترن نقشہ کشی"، "بیان میں شیرینی"، "نہایت پر مغز" وغیرہ اوصاف درحقیقت لفظ کے نہیں، معنی کے اوصاف ہیں جسے غلطی سے لفظ کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ اپنے نظریے کی تائید میں وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر قرآنی اعجاز لفظ مفرد میں ہوتا تو وہ سب وہی ہیں جو نزول قرآن سے قبل استعمال ہوتے آئے تھے اور اگر معنی میں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن نے الفاظ کو اپنے وضعی یعنی لغوی معنی سے الگ کسی اور معنی میں استعمال کیا ہے جبکہ یہ بداہۃً غلط ہے، استعارات کا اعجاز قرآنی میں بہت دخل ہے لیکن یہ صرف اسی میں محدود نہیں کیونکہ پورا قرآن استعارے میں نہیں ہے۔ جرجانی کے یہاں معنی سے مراد وہ معنی نہیں ہیں جو کسی لفظ کے مقابل وضع کیے گئے ہوں بلکہ وہ معنی ہیں جو ایسے الفاظ کے مدلول ہوں جو استعارہ "کنایہ" تمثیل یا کوئی بھی ایسا لفظ ہو جا معنی حقیقی سے الگ ہٹ کر استعمال کیا گیا ہو، اس اسے یوں سمجھیے کہ لفظ کو بھی فصاحت میں دخل ہے بشرطیکہ اس سے صورت بیانیہ یا ذہنی تصویر کشی میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۰۴

جمال پیدا ہوتا ہو چنانچہ فصاحت لفظ کے تمام خواص مثلاً سلاست، سہولت ادا، شیرنی وغیرہ فصاحت کا جز ہوئے۔ لیکن یہ فصاحت وہ نہیں جسے قرآنی معجزہ کہا جا سکے۔ کیونکہ یہ کوئی بھی کر سکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ فصاحت قرآن نہ لفظ میں ہے نہ معنی میں ہے نہ ہی اس نظام یا نظم کلمات میں ہے جو عرف عام میں سمجھا جاتا ہے۔

جرجانی کا نظریہ نظم : جرجانی نے دلائل الاعجاز اور اسرار البلاغہ دو کتابیں اس سلسلے میں تصنیف کیں جو تقریباً ایک ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ جرجانی نے قرآنی اعجاز سے اور اسی کے ضمن میں اچھے ادب کو اس طرح سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جب تک کوئی بات کہی نہیں جاتی وہ فکر ہے، اس فکر کی تعبیر کے لیے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، لفظ مجموعہ حروف کا نام ہے۔ اور بہت سے الفاظ مل کر جملہ بنتا ہے۔ ہر لفظ اپنی ذاتی حیثیت سے کسی معنی کے لیے مخصوص ہے جسے لغوی معنی کہتے ہیں، کبھی ایک ہی معنی کے لیے بہت سے لفظ وٖضع کر لیے جاتے ہیں جسے مترادف کہتے ہیں لیکن درحقیقت مترادف کوئی چیز نہیں بلکہ ہر لفظ ایک مخصوص معنویت رکھتا ہے۔ اب آپ کو اپنی بات کہنے کے لیے لفظ کا انتخاب کرنا ہے، ایسا لفظ جو آپ کی فکری عکاسی کے لیے موزوں تر ہو۔ اسی طرح اور بھی لفظ انتخاب کرنے ہوں گے تاکہ جملہ مکمل ہو سکے۔ جملہ الفاظ کی ایک زنجیر ہے جو صرفی و نحوی قواعد کے تحت جوڑی گئی ہے۔ اس لیے ہر لفظ اپنے سابق اور لاحق سے ہم آہنگ ہونا چاہیے، یعنی پہلے لفظ کا آخری ھرف آئندہ لفظ کے ابتدائی حرف سے جتنا زیادہ ہم آہنگ ہو گا سہولت ادا میں معاون ہو کر اتنی ہی سلاست پیدا کرے گا۔ دوسری بات یہ کہ جملے میں اس لفظ کی جگہ کہاں ہو گی یعنی تالیف لفظ۔ ان دونوں کو کلام کے حسن و قبح میں بہت دخل ہے اور یہی حسن نظم ہے، جتنی زیادہ اس کی رعایت ہو گی جملہ اور عبارت اتنی ہی فصیح ہو گی لیکن یہ فصاحت قرآنی اعجاز نہیں ہے بلکہ صرف اس مینمُعاوِن
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۰۵

ہے یعنی جرجانی کا خیال ہے کہ نظم عبارت صرف اس کا نام نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نحوی و صرفی قواعد کے تحت ایک ہی بات ہزار طرح کہی جا سکتی ہے یعنی تعبیرات مختلف ہو سکتی ہیں، ہر پیرایہ بیان یا اسلوب کسی نہ کسی نحوی و صرفی ترکیب کے تحت ہوتا ہے اور ہر ایک سے ایک نئی ذہنی تصویر ابھرتی ہے، معلوم یہ ہوا کہ نحوی تعبیرات کو کلام کے مؤثر ہونے میں پورا پورا دخل ہے، دوسرے لفظوں میں مختلف نحوی تراکیب کا تنوع اور کلی اصول و قواعد میں جزئی وسعت انھیں تعبیرات کو منضبط کرنے کے لیے لائی گئی ہیں اور اصول وضع کیے گئے۔ کلام اسم فعل اور حرف میں محصور ہے انھیں سے جملہ بنتا ہے اور جملوں سے کلام وجود میں آتا ہے۔ چنانچہ موزوں ترین نحوی ترکیب کے تحت جملوں کو ایک دوسرے سے اس طرح جوڑ دینا کہ بالکل ایک نئی تصویر ذہن میں ابھر کر آ جائے یہی نظم ہے۔ بات آپ کی ہو گی اور تصویر قاری کے ذہن میں۔ شاید یہی نظریہ جرجانی کو آج کی جدید نظریہ نقد سے ممتاز کرتا ہے۔

نحو میں تقدیم و تاخیر، حذف و اضافہ تکرار و حصر، اضمار و اظہار حروف کے استعمال مثلاً شرط و جزا یا استفہام میں مختلف تصرفات وغیرہ وہ اصول ہیں جن میں ہر ترکیب ایک مخصوص ذہنی ہیئت کی تخلیق کرتی ہے، جو فی الجملہ لفظی معنی سے الگ ایک اضافی پیکر تراشی یا تصویر بیانی ہوتی ہے۔ نحوی و صرفی تراکیب کے اسی ماہرانہ استعمال کا نام نظم ہے جو ایک مخصوص اسلوب اور اضافی معنویت یا پیکر تراشی میں معاون ہوتا ہے۔ قرآن کریم کے اعجاز کا راز اسی نظم میں ہے۔

دلائل الاعجاز پہلی بار سید رشید رضا کے زیر نگرانی ۱۳۲۱ ہجری میں مصر سے شائع ہوئی، اور اسرار البلاغہ مصر ہی سے ۱۳۲۰ میں پہلی بار شائع ہوئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۰۶

عبد القاہر جرجانی کی شہرت ابتدا میں نحو و لغت کے مستقل امام کی حیثیت سے تھی۔ اکثر تذکرہ نگاروں نے انھیں اسی حیثیت سے متعارف کرایا، فن بلاغت و نقد میں ان کی مجتہدانہ حیثیت بعد میں سامنے آئی۔ ان کی چند اہم تصانیف حسبِ ذیل ہیں :

((۱)) کتاب شرح الفاتحۃ

((۲)) درج الدرر فی تفسیر الآی و السؤر : ان دونوں تصانیف کا ذکر تذکروں میں ملتا ہے لیکن کتاب ناپید ہے۔

((۳)) المعتضد : ابع عبد اللہ محمد بن یزید، الواسطی کی تصنیف "اعجاز القرآن" کی شرح ہے۔ الشرح الکبیر کے نام سے یہ کتاب مشہور ہے لیکن اس کی طباعت کا اب تک کوئی سراغ نہ مل سکا۔

((۴)) الشرح الصغیر : یہ بھی مذکورہ بالا تصنیف اعجاز القرآن کی مختصر شرح ہے۔ یہ کتاب بھی حوادث زمانہ کا شکار ہو گئی اور اب صرف نام باقی ہے۔

((۵)) الرسالۃ الشافی : اعجاز قرآنی سے متعلق یہ تصنیف "ثلاث رسائل فی اعجاز القرآن" میں شامل کر کے شائع ہو چکی ہے۔

((۶)) الاعجاز : ابو علی الفارسی کی تصنیف الایضاح کی مختصر شرح ہے۔ یہ کتاب بھی اب تک طبع نہ ہو سکی۔

((۷)) المغنی : یہ مذکورہ بالا الایضاح کی ۳۰ جلدوں میں مبسوط شرح ہے۔ تمام مشہور تذکرہ و تراجم کی کتابوں میں اس کا ذکر ہے لیکن نہ اس کی طباعت، نہ ہی کسی مخطوطہ کے وجود مکانی کی نشاندہی کسی نے کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۰۷

((۸)) المقصد : "المغنی فی شرح الایضاح" کی تلخیص ہے۔ رمضان ۴۵۴ھ میں یہ کتاب مکمل ہوئی۔ طباعت کی کوئی اطلاع نہیں، جزو ثانی کا ایک مخطوطہ مصر کے دار الکتب المصریہ میں محفوظ ہے۔

((۹)) الجمل : العوامل المۃ جو خرد جرجانی کی مشہور و متداول مطبوعہ تصنیف ہے، "الجمل" اس کی شرح ہے، ۱۹۱۷ میں لندن سے، ۱۸۰۳ میں کولکتہ سے اور ۱۲۴۷ ہجری میں مصر سے شائع ہو چکی ہے۔ اس کی متعدد شرحیں بھی لکھی گئی ہیں۔

((۱۰)) التلخیص : کتاب الجمل کی تلخیص ہے۔

((۱۱)) العمدہ فی التصریف : علم صرف میں یہ دونوں کتابیں غیر مطبوعہ ہیں۔ ترکی اور مصر کے کتب خانوں میں ان کے قلمی نسخے موجود ہیں۔

اس کے علاوہ جرجانی کی دیگر تصنیف کا ذکر بھی ملتا ہے لیکن نہ ان کا پوری طرح تعارف کرایا گیا ہے نہ ہی طباعت یا مخطوطات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جرجانی ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ لیکن ان کی شہرت آج فن بلاغت و نقد کے مجتہد مطلق کی حیثیت سے ہے۔

جرجان ہی میں ان کی وفات ہوئی۔

جرجی زیدان ((۱۹۱۴ – ۱۸۶۱)) : بیروت میں پیدا ہوا۔ عربی ادب میں نئی تحریک کے علما میں سے ہے۔ قاہرہ میں سکونت اختیار کر لی۔ ایک مجلہ الہلال ۱۸۹۲ میں قاہرہ سے جاری کیا جس میں تاریخ، لغت وغیرہ سے متعلق مضامین شائع ہوتے تھے۔ جرجی زیدان ادب، تاریخ اور تمدن سے متعلق کتابیں شائع کرنے میں نہایت بلند مقام رکھتا تھا۔ "تاریخ تمدن اسلام" اور "تاریخ آداب اللغۃ العربی" کی پانچ جلدیں شائع کیں۔ ادبی انتخابات بھی شائع کیے اور
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۰۸

مشاہیر مشرق کی سوانح حیات بھی لکھیں۔ بعض ادبی مسائل کے متعلق علما کر جرجی زیدان سے اختلافات ہیں۔ تاریخ المتمدن الاسلامی اور تراجم مشاہیر الشرق اس کی اہم تصانیف ہیں۔

جریر (۷۳۳ – ۶۵۳)) : کنیت ابو حزرہ، نام جریر بن عطیہ بن الخطفی تھا۔ یہ خاندان کلیب کا فرد تھا جو یمامہ کے ایک گاؤں مجر میں رہتا تھا۔ اب اس علاقہ کو ریاض کہتے ہیں۔ جریر کے خاندان کا پیشہ بھیڑ بکریاں چرانا تھا، مگر اس کے بووجود ان کے یہاں شعر و شاعری کا ہمیشہ چرچا رہتا تھا۔

جریر کی پیدائش یمامہ ((ریاض)) میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں ہوئی۔ بچپن غربت و افلاس میں گزارا، جہاں وہ خاندان کے لوگوں کی طرح بھیڑ بکریاں چراتا تھا۔ اپنی عمر کا اکثر حصہ اس نے بادیہ ((دیہات)) میں گزارا، مگر جب اس کے اور فرزدق کے درمیان ہجو گوئی اور جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا تو بصرہ آیا اور دس سال تک جم کر اس کی ہجو کرتا رہا۔ فرزدق کے مرنے کے چھ ماہ بعد ۷۳۳ میں یمامہ میں اس کا انتقال ہوا۔

جریر اور فرزدق میں ہجو گوئی کا سبب : غسان السلیطی جو رشتہ میں جریر کا چچا زاد بھائی ہوتا تھا، جریر کے خاندان کی سخت ہجو کیا کرتا تھا اور اس کے مقابلہ میں اس کے خاندان کا کائی شاعر ٹک نہ پاتا تھا۔ ان دن جریر نے دیکھا کہ ایک جگہ لوگوں کی بھیڑ جمع ہے اور ان میں شاعر غسان جریر کے قبیلہ کی ہجو سنا رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر اسے جوش آ گیا اور وہیں کھڑے کھڑے اس نے برجستہ رمزیہ انداز میں غسان کی سخت اور فحش قسم کی ہجو کہہ کر سنا ڈالی اور اس دن سے مستقل اس کی ہجو لکھتا رہا۔ غسان جواب دیتا رہا۔ لیکن جب اس نے یہ دیکھا کہ اس کے مقابلہ میں جریر کا پلڑا بھاری ہے تو اس نے فرزدق کے قبیلہ بنو تمیم کے ایک خاندان بنو مجاشع کے ایک شاعر البیعث سے مدد لی۔ چنانچہ جریر نے اب دونوں کی ہجو کے ساتھ بنع مجاشع کی بھی بہت سخت اور فحش ہجو لکھنی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۰۹

شروع کی، جس میں ان کی عورتوں کی بھی سخت اور بیہودہ قسم کی ہجو ہوتی تھی۔ فرزدق ان دنوں چوٹی کے شعرا میں شمار ہوتا تھا، مگر ان نے ہجو کرنے سے توبہ کر رکھی تھی اور اپنے گھر میں اپنے کو لوہے کی زنجیر سے باندھ دیا تھا اور قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک قرآن حفظ نہ کرے گا نہ زنجیر سے اپنے کو کھولے گا اور نہ گھر سے نکلے گا۔ مگر بنو مجاشع کی عورتیں اس کے پاس روتی پیٹتی آئیں اور اسے غیرت دلائی کہ تم گھر میں گھسے بیٹھے ہو اور جریر تمھاری ماؤں اور بہنوں کی سربازار عزتیں لوٹ رہا ہے۔ یہ سن کر اسے جوش آ گیا اور زنجیر توڑ کر میدان میں آ گیا اور جریر کے جواب میں ایک ہجویہ قصیدہ لکھا جس کا جواب جریر نے بھی سخت دیا۔ اب کیا تھا، اس ہجو گوئی میں جریر کے مقابلے میں تقریباً ۸۰ شعرا کود پڑے جن میں اخطل اور فرزدق بھی تھے۔ جریر نے سب کی زبانیں بند کر دیں مگر فرزدق اور اخطل ڈٹے رہے۔

جریر فطری شاعر تھا۔ خوبصورت، سہل اور شیریں الفاظ کا انتخاب کر کے حسین قوافی، خوبصورت رمز و کنایہ اور مناسب تشبیہ و استعارہ کے امتزاج سے اپنے کلام کو اتنا دل آویز، موثر اور سحر طراز بنا دیتا تھا کہ منھ سے واہ نکل جاتی تھی اور ہر خاص و عام اس سے یکساں لطف لیتا تھا اور وہ خود بھی اپنے فنی کمالات کو دیکھ کر جھوم اٹھتا تھا۔ اس کی وجہ بادیہ میں پرورش اور قرآن و حدیث کا اثر تھا۔ اس کے کمالات کا مظہر اس کے وہ قصیدے ہیں جو اس نے تشبیب یا عتاب میں کہے ہیں۔

جریر نے شاعری کی اکثر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن اس کا خاص میدان ہجو، مدح، غزل اور فخر ہے۔ سیاسی خیالات میں جریر بنو امیہ کا ہمنوا تھا اور دل کھول کر ان کی تعریف اور ان کا پروپیگنڈہ کرتا تھا۔ مگر اس کا خیال رکھتا تھا کہ قریش میں جو لوگ خلافت کی دعویدار ہیں جیسے بنو ہاشم اور آل زبیر، ان کی شان میں گستاخی نہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۱۰

ہونے پائے کیونکہ وہ ان کی قدر کرتا تھا۔ ان کے تقدس اور دیانتداری کا قائل تھا۔ ۱۹۳۵ میں مصر سے اس کا دیوان طبع ہو چکا ہے۔

جعفر قراجہ داغی ((۱۸۸۶ – ۱۸۳۲)) : مرزا جعفر ۱۸۳۲ میں "قراجہ داغ" میں پیدا ہوئے اور حصول تعلیم کے بعد شہزادہ جلال الدین مرزا کے پاس رہے۔ یہاں درسی کتب کا سلسلہ تیار کرنے کا ارادہ کیا۔ دوران مطالعہ شیخ فتح علی کے ترکی ڈرامے پڑھے اور ملا ابراہیم کیمیا گر اور حکیم نباتات کے ڈرامے ترکی سے ترجمہ کیے۔ اس کے بعد متعدد ڈراموں مثلاً "یوسف شاہ"، "وزیر بنکران"، "مرد خسیس" اور "وکلائے مرافعہ" کے ترجمے کیے۔ ان کی زبان نہایت سادہ ہے۔ ڈراموں میں ایرانی نظم و نثر کے نقائص بتلائے ہیں۔ اصل میں فارسی ادب میں ڈرامہ جعفر ہی کی وجہ سے داخل ہوا۔

جفرسن، تھامس ((۱۸۲۶ – ۱۷۴۳))

Jefferson, Thomas

سیاست داں، تعمیر کار اور ماہر تعلیم تھے۔ وہ سرحدی ورجینیا میں پیدا ہوئے اور ولیم و میری کالج سے ۱۷۶۲ میں گریجویٹ ہوئے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ اعلان آزادی

The Declaration of Freedom

کے مصنف تھے۔ وہ فرانس میں امریکا کے سفیر رہے اور ۱۸۰۱ سے ۱۸۰۹ تک امریکا کے صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ ان کی تصنیفات میں برطانوی امریکا کے حقوق کا خلاصہ اور اعلان آزادی

The Declaration of Freedom

مشہور ہیں۔

جکری : ایک صنف شعر جس میں صوفیانہ اور مغربی مضامین بیان ہوتے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ یہ لفظ "ذکری" کی ایک شکل ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس لفظ کی اصل "ذکری" نہیں، بلکہ "جگری" ہے۔ بمعنی "جگر یا دل سے نکلی ہوئی بات"۔ جکری عام طور پر گائی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ صنف گجرات سے منسوب ہے، لیکن شمالی ہند میں بھی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۱۱

بہت مقبول رہی ہے۔ جکری میں شاعر خدا، رسول یا اپنے مرشد کا ذکر کرتا ہے، اور اپنے واردات باطنی و کوائف روحانی کو بیان کرتا ہے۔ بعض جکریوں میں عشق مجازی کا عنصر بھی نظر آتا ہے۔ لیکن صوفیانہ شاعری میں عام طور پر عشق مجازی اور عشق حقیقی کے درمیان تفریق نہیں کی جاتی، اور عموماً عشق مجازی کے مضمون پر مبنی کسی شعر یا نظم کی تعبیر عشق حقیقی کے نقطہ نظر سے بھی ہو سکتی ہے۔ جکری کی زبان سادہ اور موسیقی کے لیے مناسب ہوتی ہے۔ شیخ بہاء الدین باجن کی جکریاں خاص طور پر مشہور ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اس صنف کو "زبان ہندی" میں جکری کہتے ہیں۔ چونکہ قدیم زمانہ میں کاف عربی اور کاف فارسی کی لکھائی میں فرق نہ کرتے تھے، لہذا ممکن ہے کہ شیخ نے "جگری" ((مع کاف فارسی)) لکھا ہو۔

جگر مراد آبادی، علی سکندر ((۱۹۵۸ – ۱۸۹۰)) : جگر کے والد مولوی علی نظیر نظر بھی شاعر تھے۔ بنارس میں پیدا ہوئے۔ بعد ازاں معاش کے سلسلہ میں مراد آباد میں سکونت اختیار کی۔ باقاعدہ تعلیم سے محروم رہے۔ جگر لڑکپن سے شعر کہنے لگے تھے۔ شروع میں اپنا کلام داغ کو دکھایا۔ منشی امر اللہ تسلیم سے بھی مشورہ سخن کیا لیکن اصغر گونڈوی سے زیادہ اثر قبول کیا۔ گونڈے میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ وہیں انتقال ہوا۔

جگر کی شاعری کے ابتدائی دور میں رندی کے مضامین کی کثرت ہے۔ فکر انگیزی کم ہے لیکن جذبات و احساسات کی ترجمانی میں بری صفائی اور والہانہ پن ملتا ہے۔ انداز بیان میں نغمگی پائی جاتی ہے۔ جگر کی شاعری کا آخری حصہ ان کے ابتدائی دور سے مختلف ہے۔ ایک نیا سماجی شعور رفتہ رفتہ ان کے کلام میں جھلکنے لگا۔ معاملات حسن و عشق کے ساتھ حقائق و معارف کے مسائل بھی جگہ پانے لگے۔ کہیں کہیں انھوں نے صوفیانہ خیالات بھی پیش
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۱۲

کیے ہیں۔ وہ ٹھیٹ غزل گو شاعر ہیں جن کی غزل قدیم و جدید میلانات کا نمونہ ہے۔ جگر کے تین مجموعے "آتش گل"، "داغ جگر" اور "شعلہ طور" شائع ہو چکے ہیں۔

جگن ناتھ داس رتناکر ((۱۸۶۶ – ۱۹۳۲)) : یہ ۱۸۶۶ میں کاشی میں پیدا ہوئے۔ اپنی شہرہ آفاق کتاب "بہاری رتناکر" میں انھوں نے اپنی پیدائش کے بارے میں یہی لکھا ہے۔ ان کے آبا و اجداد کا تعلق مغل دربار سے ہونے کے سبب ان کے گھر میں فارسی زبان اجنبی نہیں جتھی۔ رتناکر کی ابتدائی تعلیم فارسی اور اردو کے ذریعے ہی ہوئی۔ اسکول میں انگریزی، ریاضی، تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۸۹۱ میں اتناکر نے کوئنس کالج بنارس سے بی۔ ای۔ پاس کیا۔ بچپن ہی سے شعر و شاعری میں دلچسپی تھی۔ اردو فارسی کے ساتھ ہندی میں بھی کوئیتا کہنا شروع کر دیا تھا۔ اردو میں ذکی تخلص کرتے تھے۔ رتناکر برج ہندی میں جب شاعری کا آغاز کیا تو متھرا کے رہنے والے اپنے دوست شری نونیت لال چترویدی سے اصلاح لی۔ اس وقت ہندی شاعری میں برج بھاشا کو زیادہ پسند کیا جا رہا تھا اس لیے رتناکر نے بھی ہندی میں شاعری کا آغاز کیا۔ انھوں نے کئی جگہوں پر ملازمت بھی کی۔ ضلع اینہ کے اباگڑھ ریاست میں خازن رہے۔ اس کے بعد کاشی کے نریش پرتاب ناراین سنگھ کے سکریٹری اور چیف سکریٹری رہے۔ اس کے بعد ۱۹۲۸ تک شریمتی جگدمبا دیوی کے پرنسپل سکریٹری رہے۔ ایودھیا میں قیام کے دوران انھوں نے "گنگا وترن" ((۱۹۲۰)) تخلیق کی۔ ۱۹۲۵ میں "بہاری ست سئی" کی تشریح مکمل ہوئی اور بہاری رتناکر کے نام سے مشہور ہوئی۔ رتناکر کو سیاحی کا بڑا شوق تھا چنانچہ وہ کشمیر، شملہ، مسوری، نینی تال اور ہری دوار سیاحت کی غرض سے گئے۔ فلسفہ، آثار قدیمہ، روحانی علوم اور پوران سے متعلق کتابوں کےمطالعے کا انھیں بے حد شوق تھا۔ رتناکر باذوق شاعر تھے لہذا ریتی کالین شعرا متی رام، بہاری، کیشو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۱۳

داس، پدماکر وغیرہ کے کلام میں ان کی زبان زد تھے۔ رس کھان کے سویے تو ان کے منھ سے ایسے نکلتے تھے جیسے وہ رس کھان کے نہ ہو کر رتناکر کے ہی ہوں۔ کاشی ناگری پرچارنی سبھا کے وہ ایک سرگرم کارکن تھے۔ ان کے معاصر ہندی ادیب ان کی شعری ذہانت و ذوق کے بڑے قائل تھے۔ مہاویر پرساد دیودی نے جب برج بھاشا کے مقابلے کھڑی بولی کی وکالت شروع کی تو رتناکر اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ انھوں نے اپنے اخبار سمالوچنا درشن میں مہاویر پرساد دیودی سے سخت تنقید کی۔ انھوں نے "اُودھو شتک" کے نام سے برج ہندی میں شاہکار تخلیقی کی۔ یہ وہ واھد تصنیف ہے جس کے سبب رتناکر ہندی ادب میں ہمیشہ یاد کیئے جائیں گے۔

جلال، سید ضامن علی ((۱۹۰۹ – ۱۸۳۱)) : حکیم اصغر علی داستان گو کے بیٹے تھے۔ لکھنؤ میں پیدا ہوئے، کتب درسیہ فارسی و عربی رواج زمانہ کے مطابق پڑھیں۔ اسی درمیان شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ ابتدا میں امیر علی بلال اور علی اوسط رشک کے شاگرد تھے۔ فتح الدولہ برق سے بھی اصلاح لی۔ ۱۸۵۷ کے ہنگامے کے بعد رام پور چلے گئے۔ وہاں ان کے والد نواب یوسف علی خاں ناظم کی سرکار میں داستان گوئی کی خدمت پر مامور تھے۔ یہ بھی اسی سرکار سے وابستہ ہو گئے۔ سو روپیہ ماہورا ملتے تھے۔ تنک مزاجی کے سبب کئی مرتبہ ملازمت سے سبکدوش ہوئے لیکن نواب نے انھیں رام پور چھوڑنے نہیں دیا۔ کلب علی خاں کے انتقال کے بعد منگرول کے نواب حسین میاں نے جلال کو اپنے یہاں بلا لیا اور پچیس روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد جلال لکھنؤ واپس آ گئے، یہیں وفات پائی۔

جلال کی نازک مزاجی اور اسی کے ساتھ زبان دانی مشہور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ((سلسلہ ناسخ میں)) اصلاح زبان کے سلسلے میں ان کا نام بہت نمایاں ہے۔ جس کام کو رشک نے شروع کیا تھا انھوں نے اس کو آگے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۱۴

بڑھایا۔ انھوں نے چار دیوان اپنی یادگار چھوڑے۔ نثری تصنیفات میں ان کا لغت "سرمایہ زبان اردو" اور "مفید الشعرا" وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

جلیل مانک پوری، حافظ جلیل حسن (۱۹۴۶ – ۱۸۶۶)) : مانک پور ((اودھ)) میں پیدا ہوئے۔ ۱۲ سال کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا۔ علوم متداولہ کا درس لکھنؤ میں علمائے فرنگی محل سے لیا۔ عربی فارسی کے ماہر تھے۔ شاعری کا آغاز مانکپور سے ہوا۔ امیر مینائی کے شاگرد اور جانشین ہوئے جو اس وقت والیِ رام پور کے استاد تھے۔ امیر نے جلیل کو رام پور بلایا۔ جہاں وہ دفتر امیر اللغات کے سکریٹری ہو گئے۔ داغ کے انتقال کے بعد جلیل نے دربار دکن میں داغ کی جگہ لی۔ وہ میر محبوب علی خاں اور میر عثمان علی خاں ((والیانِ دکن)) کے استاد رہے۔ دربار دکن سے فصاحت جنگ کا خطاب پایا۔ یہیں وفات پائی۔

جلیل اپنے زمانے کے مسلم الثبوت استاد تھے۔ فن کے مسائل پر انھیں عبور حاصل تھا۔ ان کے کلام سے زبان کے محاورات اور روزمرہ کی تصدیق ہوتی ہے۔ جلیل کے تین دیوان تاج سخن، سخن اور روحِ سخن ہیں۔ دیگر تصانیف میں تذکیر و تانیث اور روح سخن، گلِ صد برگ، معیار اردو، معراج سخن، سرتاج سخن، سوانح حضرت امیر مینائی، مجموعہ قصائد اور مکاتیب جلیل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

جمیل بن معمر ((جمیل بثینہ)) ((۷۰۱ – ۶۶۰)) : بثینہ کا عاشق اور عذری شعرا ((پاکباز غزل گو)) میں ایسا شاعر جس کے حسن و عشق کے قصے مشہور ہیں۔ اس کا نام جمیل اور کنیت ابو عمرو تھی۔ یہ قبیلہ قضاعہ کی ایک شاخ بنو عذرہ کے چشم و چراغ تھے جو مدینہ منورہ سے شمال مشرق میں وادی القمری سے لے کر تیما تک کے علاقے میں رہا کرتے تھے۔ اسی علاقے میں جمیل ۶۶۰ میں پیدا ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۱۵

بنو عذرہ کے لوگ سارے بدوی قبائل میں اپنی پاک دامنی، عفت اور اخلاق فاضلہ میں مشہور تھے۔ پاک اور افلاطونی مھبت میں جو جنسیت سے پاک ہوتی ہے اس قبیلے کے افراد کو خصوصیت حاصل تھی۔

جمیل شاید تمام عذری شعرا ((پاکباز شعرا)) میں وہ تنہا شاعر ہے جس کی محبت بے لوث، بے غرض اور جنسیت سے پاک تھی۔ وہ مھبت برائے محبت کرتا تھا، لیکن اس راہ میں اس نے اپنی عزت نفس کو کبھی گرنے نہیں دیا اور نہ اپنی کودی و خودداری کو بھینٹ چڑھایا۔ جذبات کا اظہار عوام کہ غلو معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ اس کی اپنی کیفیت ہے۔ خیالات بڑے پاکیزہ اور صاف ستھرے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کا دل آپ کے سامنے آئینہ کی طرح صاف شفاف رکھا ہے جس پر مکر و فریب، خود غرضی یا خود پسندی کے داغ دھبے نہیں ہیں۔ فنائیت اور تفویض اس کی شاعری کی روح ہے۔ بثینہ کی محبت میں سرشار دنیا و مافیہا سے بےخبر محبت کے لافانی نغمے الاپتا رہتا ہے۔

یہ سب اس لیے ہے کہ جمیل کے رگ و ریشہ میں بثینہ کی محبت اس طرح رچ بس گئی تھی کہ وہ ہر چیز میں اس کا جلوہ دیکھتا، ہر موقع پر اسی سے ہم کلام ہوتا، اپنے دکھ درد کی حکایت خونچکاں اسے سناتا اور اپنا دل چیر کر اس کے سامنے رکھ دیتا۔ جمیل کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جہاں حرف و حکایت کا موقع ہو یا محبوبہ کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات گزراں کا ذکر ہو یا ایسی ہی کسی تقریب کی یاد تازہ کرنی ہو تو بہت ہی سادہ مگر خوبصورت اور مؤثر الفاظ چن کر ان سے شعری گلدستہ تیار کرتا تھا۔

جمیل کے کلام کی یہی سادگی و پرکاری، موسیقیت و نغمگی بلا کا اثر رکھتی تھی جس کے سبب بزمہائے طرب میں اس کے کلام کو خوب گایا جاتا تھا۔ بقول حنا الفا خوری جمیل بن معمر کا کلام قدیم عربی شاعری میں سب سے زیادہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۱۶

خوبصورت، لطیف اور پسندیدہ ہے کیونکہ وہ اس کی زندگی کی تصویر اور اس کے دل و دماغ میں ابھرتے جذبات و خیالات کا عکس ہے۔ یہ منفرد رنگ و آہنگ اس کے طبقے میں اور کسی شاعر کے یہاں نظر نہین آتا۔ ۷۰۱ میں مصر میں وفات پائی۔

جنیدی : جیندی کا نام احمد تھا۔ ڈاکٹر زور اور جمیل جالبی لکھتے ہیں کہ عبد اللہ قطب شاہ نے انھیں میر نوبت کے عہدے پر مقرر کیا تھا۔ ان کی ایک مثنوی "ماہ پیکر" کا پتہ چل سکا ہے۔ یہ مثنوی انھوں نے ۱۶۵۳ میں مکمل کی تھی۔ انھوں نے زندگی کے آخری ایام میں فکر سخن سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور برہان پور میں مقیم ہو گئے تھے۔ "ماہ پیکر" میں آیات و احادیث کے حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ جنیدی پڑھے لکھے شخص تھے۔ وہ اچھے مثنوی نگار بھی تھے۔ قصے کی ترتیب، کرداروں کی تراش خراش، جزئیات نگاری اور جذبات کی مصوری میں انھیں مہارت حاصل تھی۔ جنیدی کا طرز ادا شگفتہ اور دلکش ہے۔

جوالا پرشاد برق : دیکھیے برق، جوالا پرشاد۔

جوان، کاظم علی ((۱۸۱۶)) : دہلی کے رہنے والے تھے۔ دہلی کی تباہی کے بعد لکھنؤ پہنچے اور اپنی شاعری کی وجہ سے لکھنؤ کے ریزیڈنٹ کرنل اسکاٹ تک باریابی پائی۔ اسکاٹ جوان کو ان کے والد کے ہمراہ فورٹ ولیم کالج کولکتہ لے گئے۔ گلکرسٹ نے ان دونوں کا تقرر اسی اسی ((۸۰)) روپے ماہوار مشاہرہ پر کیا۔ ان کی پہلی کتاب شکنتلا ناٹک ہے جو للو لال جی کی مدد سے ۱۸۰۱ میں ترجمہ کی گئی۔ جوان نے کبت اور دوہوں کا ترجمہ اپنے اشعار میں کیا ہے۔ ان کی عبارت مسجع و مقفی ہے۔ ان کی دوسری کتاب "سنگھاسن بتیسی" ((۱۸۰۱)) ہے جسے مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ اصل میں سنسکرت سے برج بھاشا میں ترجمہ ہوئی اور جوان نے اسے برج
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۱۷

بھاشا سے اردو میں منقتل کیا۔ یہ کتاب بھی للو لال جی کی مدد سے ترجمہ کی گئی۔ جوان کا شعری سرمایہ "بارہ ماسا" یا "دستور ہند" ہے۔ اس مثنوی میں ہندوستان کے بارہ مہینوں کے رسم و رواج، تہوار اور موسم کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ انھوں نے تاریخ فرشتہ سے صرف تاریخ سلطنت بہمنی کا ترجمہ کیا جو شائع نہ ہو سکا۔ جوان نے کلیات میر اور کلیات سودا کا انتخاب بھی مرتب کیا۔ شیر علی افسوس، مرزا جان طپش، محمد اسلم اور غلام قادر وغیرہ بھی ان کے شریک کار تھے۔ یہ انتخابات فورٹ ولیم کالج سے شائع ہوئے۔ قرآن شریف کے ترجمے میں بھی جوان شریک رہے۔ ۱۸۰۴ میں اس کی تکمیل کی۔

جوائس، جیمس ((۱۹۴۱ – ۱۸۸۲))

Joyce, James

آئرلینڈ کا مشہور ناول نگار، بیسویں صدی کے اوائل میں یہ ادب کی افق پر ابھرا اور اس نے ناول کی تکنیک اور زبان میں انقلاب پیدا کیا۔ آنے والی نسل کے بہت سارے ادیبوں کو متاثر کیا اور اس کی ذات اور اس کی ادبی تخلیقات زبردست بحث و مباحثہ کا مرکز بنیں۔ جیمس جوائش، ڈبلن میں پیدا ہوا۔ جیسویٹ اسکولوں اور ڈبلن کے کئی کالجوں میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اگرچہ اس نے اپنی بقیہ عمر کا بڑا حصہ یوروپ میں گزارا لیکن اس کی تخلیقات پر جیسویٹ مدرسوں کی تعلیم اور اپنے وطن کے ماحول کی گہری چھاپ رہی۔ ۱۹۰۴ میں وہ آئر لینڈ واپس آیا جبکہ اس کی ماں بستر مرگ پر تھی۔ یہاں اس نے کچھ دن مدرسی بھی کی۔ یہیں اس کی ملاقات ایک خاتون سے ہوئی جو اس کے ساتھ یوروپ گئی اور بعد میں دونوں کی شادی ہو گئی۔ وہ زیادہ تر زیورچ اور پیرس میں رہا۔ افلاس کی زندگی رہی۔ اس کی آنکھیں بھی تیزی سے خراب ہو رہی تھیں۔

 
Top