اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۸

نے ۱۶۸۳ میں لکھا تھا جو کمیاب ہے۔ ایک اور تذکرہ جو اسی نام سے ملتا ہے، میر علاء الدولہ اشرف علی خاں نے ۱۷۶۴ میں لکھا ہے۔ اسی تذکرہ کی تاریخی اور ادبی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

تراب، شاہ ((زمانہ تقریباً ۱۷۹۹ – ۱۷۴۵ )) : نواب علی نام تراب تخلص، معروف بہ شاہ تراب لقب گنج الاسرار۔ ترنمول ضلع ارکاٹ ((چینئی)) کے رہنے والے تھے۔ والد کا نام عبد اللطیف خاں تھا۔ صوفی خاندان سے ہونے کے باعث حصول علم میں مصروف ہو گئے۔ رمل، نجوم، ہیئت اور فلسفہ میں بھی دستگاہ رکھتے تھے۔ رمل میں ان کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ مرشد کی تلاش میں بیجاپور پہنچے اور بادشاہ حسینی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پیر بادشاہ حسینی علی پیر کے فرزند تھے۔ جو امین الدین علی اعلٰی شاہ کے پوتے تھے۔ انھیں رمل اور نجوم میں مہارت تامہ حاصل تھی۔ تراب رمل میں انھی کے شاگرد ہوئے۔

"مناچے شکوک" کے مطالعہ کا ان پر گہرا اثر پڑا۔ انھوں نے اسی اثر کی ترجمانی اپنی تصنیف "من سمجھاون" میں کی ہے۔ ان کی کئی تصانیف ہیں : ((۱)) گیان سروپ، ((۲)) ظہور کلی ((۱۷۵۷))، ((۳)) من سمجھاون ((۱۷۵۷))، ((۴)) گلزار وحدت ((۱۷۵۹))، ((۵)) گنج الاسرار ((۱۷۶۵))، ((۶)) مثنوی مہ جبیں و ملا ((۱۷۶۸))، ((۷)) آئینہ کثرت ((۱۷۷۳))۔ ان کی تصانیف میں "من سمجھاون" کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔

ترکیب بند اور ترجیع بند : ترکیب بند غزل کے طور پر ایک یا زیادہ مطلعوں کے ساتھ چند شعر لکھ کر ایک مطلع بطور گرہ کے لگاتے جائیں، اور بعد کے بندوں میں جو اشعار ہوں وہ پہلے بند کے اشعار ہی کے وزن پر کہے جائیں اور اس کا التزام رکھا جائے کہ ہر بند کا مطلع مکتلف ہو۔ اگر مندرجہ بالا ایک ہی گرہ یا مطلع کی تکرار ہو تو اس کو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۹

ترجیع بند کہتے ہیں۔ ترکیب بند ہو یا ترجیع بند، ان کے ایک بند میں کتنے شعر ہوں، اور نظم میں کتنے بند ہوں، اس کی کوئی قید نہیں۔

تروپتی وینکٹا کاولو
Triupati Venkata Kavulu
زمانہ انیسویں و بیسویں صدی : "تروپتی وینکٹاکاولو" کے مشترکہ نام سے تیلگو زبان کے دو ممتاز شاعر گزرے ہیں جو ایک ہی گرو کے چیلے اور شاگرد تھے۔ یہ دیوی کرلا تروپتی شاستری ((۱۹۱۹ – ۱۸۷۱)) اور چلاّ پلاّ وینکٹا شاستری ((۱۹۶۰ – ۱۸۷۰))
Challapilla Venkata Sastry
ہیں۔ انھوں نے تیلگو اور سنسکرت ادب میں مہارت حاصل کر کے مشترکہ طور پر تیلگو نطم و نثر کی ایک سو سے زائد تصانیف مرتب کی ہیں۔ یہ تصانیف متعدد تیلگو ادب اور تنقید کی کتابوں پر مشتمل ہیں۔ یہ اپنی سادگی، سلاست زبان اور شگفتہ بیانی کی وجہ سے ملک میں بہت مقبول ہیں اور کثرت سے پڑھی اور سنی جاتی ہیں۔ جب ان کو
Salavadhana
سلاودھنا اور است ودھنا
Astavadhana
طریق پر سنایا جاتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعری کی دیوی شاہی محلوں سے نکل کر دیہاتوں کی کٹیاؤں میں رونق افروز ہے۔

ان کے پنڈوا طرز کے ڈرامے
Pandavoyasanand
بڑے بڑے شہروں میں بار بار دکھائے جاتے ہیں۔

"دیوی بھگوتا"
Devibhagavatha
سراونندا بدھا چرترا
Budha Charitra
اور پانی گریتھا
Panigrihita
بڑی خاص نظمیں ہیں۔ "گرتا گنتوری سیما
Girata Gantore
اور نانا راجا سندر سنا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۰

Nanaraja Sander Sena Seema
کی نظمیں تیلگو زبان میں ایک نئی طرز کی شاعری کی محرک ثابت ہوئی ہیں۔

اگر ہم یہ کہیں تو مبالغہ نہ ہو گا کہ زمانہ حال کے تمام مشہور شعرا بلا واسطہ یا بالواسطہ ان ہی دونوں شاعروں کے پیرو ہیں۔ ان دونوں شاعروں نے اپنی نغمہ سرائی سے بہت انعامات و اعزاز حاصل کیے اور وینکٹا شاستری تو ریاست آندھرا کا پہلا ملک الشعرا
Poet Laurate
قرار پایا۔

تروکورال ((زمانہ آٹھویں صدی قبل مسیح
Thirukkural
)) : بدھ مت اور جین مت کی وجہ سے تامل ادب میناخلاقی رحجانات پیدا ہوئے جو سگنم دور کے بعد بہت ہی نمایاں ہو گئے لیکن یہ رحجانات سگنم روایات کے زیر اثر دینوی امور میں کوئی منفی نقطہ نظر اختیار نہ کر سکے بلکہ ان کا اثباتی پہلو حاوی رہا۔ چار پرشارتھ ((انسان کے کرنے کے قابل چر کام یعنی دھرم، ارتھ، کام، موکش)) کے عام ہندو تصور کی بجائے جین مت میں ترورگ (( یعنی ارتھ، دھرم، کام)) ہی پر زور دیا جاتا ہے۔ دھرم یہاں وسیع مفہوم رکھتا ہے اور اس میں موکش کو بھی شامل تصور کیا جاتا ہے اور "تروکورال " میں بھی ((جو تامل میں بائیبل کی حیثیت رکھتی ہے)) اسی تصور کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا مصنف ترووکَوّر
Thiru Valluvar
ہے۔ کتاب میں اچھی زندگی کے ہمہ گیر اصول بیان کیے گئے ہیں تاکہ وہ سب کے لیے قابل قبول ہوں۔ دھرم، ارتھ اور کام اس تسنیف کے سہ رخی موضوع ہیں۔ یہ ۱۳۳۰ دوہوں پر مشتمل ہے جنھیں "کُرل" کہا جاتا ہے۔ ہر کُرل ایک منظوم اخلاقی مضمون ہے جو سادہ، پراثر اور سحر انگیز زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ آدرش اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ علمی زندگی اور فہم عامہ سے اس کا رشتہ ٹوٹتا نہیں۔ مصنف زندگی کے اتفاقی پہلوؤں کو جو ہر ملک اور ہر زمانہ میں بدلتے رہتے ہیں اور
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۱

جن کا اثر صرف سطحی ہوتا ہے، نظر انداز کر دیتا ہے اور ان ہی پہلوؤں پر زور دیتا ہے جو آفاقی، ابدی اور لاینفک ہیں۔

کام کواکم شاعری کی بہترین روایات کے مطابق ڈرامائی مکالموں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں پیشہ ور عورتوں کا کوئی مقام نہیں ہے جیسا کہ کام شاستر کے جنسی تذکروں میں ہوتا ہے۔ کام کا بیان کتاب کے تیسرے یا آخری حصہ پر مشتمل ہے۔

کتاب کے دوسرے حصہ میں ارتھ یعنی سماج، ریاست اور حکومت سے بحث کی گئی ہے۔ اس کی رو سے بادشاہ عوام کا نمائندہ اور ان کے اقتدار کا مظہر ہوتا ہے۔ جو ہندوستانی روایات کے مطابق سوامی یا مالک کہلاتا ہے۔ اس کے تحت ریاست کے دیگر چھ شعبے ہوتے ہیں یعنی ((۱)) فوج، ((۲)) رعایا، ((۳)) دولت یا خزانہ جو داخلی یا خارجی محاصل، پیداوار سے حاصل ہوتا ہے، ((۴)) انتظام ریاست جس میں مخبر اور سفیر بھی شامل ہیں، ((۵)) دفاعی استحکامات جو آدمیوں اور ساز و سامان سے لیس ہوں اور ((۶)) حلیف ممالک یا خارجی حکمت عملی۔ بادشاہ کی یگانگت پر زور دینا مقصود ہے نہ کہ بادشاہ کی مطلق العنان حیثیت کو ظاہر کرنا۔ بادشاہ کے اوصاف کا تذکرہ دوسرے ارتھ شاستروں کی طرح آئین جہاں بانی کے اعتبار سے نہیں کیا گیا ہے بلکہ بنیادی طور پر اسے ایک انسان کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ کوئی بھی لیڈر یا عظیم شخصیت ان اوصاف کی حامل ہو سکتی ہے۔ نظم و نسق میں وہ عقلمند افراد کو ترجیح دیتا ہے، چاہے ان کا مرتبہ کچھ بھی ہو۔ جنگ و امن کے معاملہ میں وہ دوسروں کی طرح ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کو ضروری سمجھتا ہے لیکن دوسروں کے برخلاف وہ پاکیزگی عمل پر زور دیتا ہے۔ اسی لیے اس کے نزدیک نتیجہ عمل طریقہ عمل کا جواز نہیں ہے۔ آدرش زندگی سے زیادہ بلند ہوتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۲

اس لیے وہ آپ دھرما یا انفرادی عزت نفس میں یقین نہیں رکھتا۔ غرض اس کے نزدیک اخلاق ہی رعیت کی اساس ہے۔ وہ سنگم روایات کے مطابق جنگ میں بہادری اور جرات مندی کی یقیناً داد دیتا ہے۔ ترو ولووار کو خارجی حکمت عملی کے نظریات پر بھی عبور ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ ریاست کو سازشوں سے بچانا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں وہ چھپے ہوئے دشمنوں سے آگاہ کرتا ہے۔ اندرونی دشمنوں میں وہ قماربازی، پیشہ ور عورتوں اور منکوحہ عورتوں کے مسموم اثرات کو بھی شامل کرتا ہے۔ لیکن حلیفوں کی حد تک اس کا تصور دوستی کے بنیادی اور عام تصور ہی پر مبنی ہے۔ اس لیے جب وہ اس موضوع پر اظہار خیال کرتا ہے تو یہ اندازہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ وہ راستی کے ایک عام اصول کا تذکرہ کر رہا ہے یا ڈپلومیسی کی بات کہہ رہا ہے۔ وہ دراصل انسانی پہلو پر زور دیتا ہے اور امور سلطنت میں بھی ان ہی خصوصیات کو ضروری سمجھتا ہے جو عام زندگی میں ناگزیر ہیں۔ دولت کا بھی وہ اسی انداز میں تذکرہ کرتا ہے۔ استحکامات ملک پر وہ عام نقطہ نظر سے روشنی ڈالتا ہے۔ انسان اور پیداوار پر وہ زور دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہی ملک مستحکم ہے جس کے قدرتی وسائل وافر ہوں، جہاں کے باشندے محنتی، عقل مند اور مطمئن ہوں اور جہاں گروہ بندیاں اور مناقشات نہ ہوں، کیونکہ بڑے سے بڑے خطرات میں بھی یہی اوصاف سپر کا کام کرتے ہیں۔

ریاست کا سب سے بڑا رحجان اور اس کا عظیم الشان کارنامہ یہی ہے کہ وہ شریف، نیک، مہذب، شائستہ، بااخلاق، رحمدل اور جذبہ ایثار و قربانی رکھنے والے باہمت شہری پیدا کرے۔ ترو ولو وار کا یہ تصور نظریات میں یقیناً انوکھا اور قابل قدر ہے۔ اچھے شہریوں کی اس نے جو تعریف کی ہے جس سے انسان کامل کا تصور ابھرتا ہے جن کے مقابلے میں وہ ایسے کم ظرف افراد کے وجود کو بھی تسلیم کرتا ہے جو خوف اور صلی کی بنا پر اطاعت کرتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۳

ایک آزاد پیشہ کی حیثیت سے وہ زراعت کی تعریف کرتا ہے اور اس کے سربستہ کہ بتلاتا ہے۔ وہ پیشہ زراعت کو سب کا مددگار قرار دیتا ہے۔ وہ جسم کے نشو و نما کو نظر انداز نہیں کرتا جسے حفظان صحت کے عام اصول پر عمل کر کے صحت مند رکھا جا سکتا ہے گو اس کے لیے علاج اور دوا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ غریبوں کی مدد پر وہ زور دیتا ہے اور غربت کے مصائب و آلام کا بہت ہی پر اثر نقشہ کھینچتا ہے۔ وہ اس لعنت کا ذمہ دار دستور ریاست ہی کو قرار دیتا ہے۔ وہ جھنجھلا کر کہتا ہے اگر بھیک کی زندگی گزارنا مقدر ہے تو خدا کرے دستور ساز نیست و نابود ہو جائیں۔

"تروکرل" کا پہلا باب دھرم سے متعلق ہے۔ "پاکیزگی ذہن" دھرم کے لیے ضروری ہے۔ بقیہ چیزیں نام و نمود کی حیثیت رکھتی ہیں۔ "خود غرضی، حسد و غصہ اور تلخ کلامی کے بغیر جو بھی عمل ہو گا وہ دھرم ہی"۔ ترو ولو وار کے پاس انسانی محبت کا ایک ترقی پذیر ہمہ گیر جذبہ ہے جو مہمان نوازی، شکر گزاری، انصاف، صبر و تحمل، خوش گفتاری اور خوش اخلاقی کے ذریعہ بیوی بچوں سے شروع ہو کر اپنے گاؤں اور ملک کے پڑوسیوں تک پہنچتا ہے اور حسد، مہمل گوئی، غیبت اور ہوس جاہ و دولت سے بچتے ہوئے مفادِ عامہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے جیسے کوئی تالاب ہو جس سے سب ہی مستفید ہوتے ہین یا جیسے گاؤں کا ثمردار درخت جس کے پھل سب ہی کھاتے ہیں یا پھر وہ بادل ہوں جو کہیں سے آسمان میں جمع ہو جاتے ہیں اور پانی برسا کر انھیں بھی فائدہ پہنچاتے ہیں جنہیں وہ جانتے نہیں۔ یہی فیاضانہ سلوک حقیقی شہریت کا باعث ہوتا ہے اور اس کی بنا پر دوام حاصل ہوتا ہے۔ یہی پہلو زندگی کا بنیادی اصول ہے۔ تمام بنی نوع انسان ایک ہو جاتے ہیں۔ "میں" اور "تو" یا "میری" اور "تیری" کی تمیز
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۴

اٹھ جاتی ہے۔ مصیبتیں جھیلنا لیکن اپنے قول اور فعل حتٰی کہ خیال سے بھی کسی کو تکلیف نہ پہنچانا یہی سچی تپسیا ہے۔ اس میں عالمگیر محبت سے سچائی کے پھول کھلتے ہیں اور تکمیل انسانیت کے منازل طے ہوتے ہیں۔ "ترو کُرل" اہل عمل کی نظروں میں ایک آدرش کی حیثیت رکھتی ہے جسے زندہ اور تابندہ رکھنے میں ہر دور کے شاعروں نے حصہ لیا ہے۔

اپنی دقیقہ رسی کے باوجود بلند پایہ اخلاقی زندگی کی یہ تصویر شاعرانہ حُسن اور مخصوص آہنگ کی وجہ سے اور بھی دلکش بن جاتی ہے۔ تروکرل کا دنیا کی تقریباً تمام اہم زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ پروفیسر یوسف کوکن نے عربی میں "ابیاتِ مقدسہ" کے نام سے، پروفیسر حسرت سہروردی کے کُرل کے نام اردو میں ترجمہ کیا جس پر انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مختار بدری نے لفظ "گہر" کے نام سے منظوم ترجمہ کیا ہے۔

تِرو وی کلیان سُندرر ((تِرو وی کا))
Thiru Vi Kalyana Sundarar
تمل کے اس عظیم شخصیت کو لوگ "تِرو وی کا"
Thiruvika
کے نام سے جانتے ہیں۔ معلم، مدیر، مقرر، ادیب اور شاعر تھے۔ نوَسکتی
Navasakthi
نامی ہفتہ وار رسالے کے مدیر کی حیثیت سے کافی شہرت حاصل کی۔ مہاتما گاندھی پر ان کی تصنیف "مَنیدا والکائی یم گاندھی اڈی گلم
Manidha Vaalkai Yum
ان کے تبحر علمی کو ظاہر کرتا ہے۔ پنین پیرومائی
Pennin Perumai
میں عورت کی عظمت کو سراہا ہے۔ ان کے لکھے اداریے تمل چُولائی
Tamil Chulai
کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ فنِ خطابت پر ان کی تصنیف میڈئی تمل
Medai Tamil
اہمیت کی حامل ہے۔ انھوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۵

نے قدیم آلوار اور نینماروں کی تقلید میں کئی بھگتی نظمیں بھی لکھی۔ ان کی شعری تصنیفات کی کل تعداد ۱۵ ہے۔ انھوں نے اپنی تخلیقات میں ہندوستانی بالخصوص تمل تہذیب کو نمایاں کیا ہے۔

تسکین دہلوی، عطا حسن (۱۸۵۱ – ۱۸۰۳)) : ان کے والد میرن صاحب کے لقب سے مشہور تھے۔ امام بخش صہبائی سے درسی کتابیں پڑھیں اور تحصیل علم کے بعد جب دلی میں گزر اوقات کی کوئی صورت نہ ہوئی تو تلاش معاش میں لکھنؤ کا سفر کیا۔ پھر میرٹھ گئے۔ وہاں بھی کامیابی نہیں ہوئی تو رامپور چلے گئے۔ جہاں نواب یوسف علی خاں کے زیر سرپرستی فراغت سے زندگی بسر کی اور وہیں وفات پائی۔

تسکین پہلے شاہ نصیر کے پھر مومن کے باقاعدہ شاگرد ہوئے۔ مومن کے شاگردوں میں ان کا خاص درجہ ہے۔ صاحب دیوان تھے۔

تسلیم، شیخ امیر اللہ ((۱۹۱۱ – ۱۸۱۹)) : اسل نام احمد حسین تھا مگر امیر اللہ کے نام سے مشہور ہیں۔ والد کا نام مولوی عبدالحمید انصاری تھا جو شاہی پلٹن میں ملازم تھے۔ تسلیم کی تعلیم و تربیت لکھنؤ میں ہوئی۔ باپ اور بھائی سے فارسی و عربی کی کتابیں پڑھیں اور خطاطی میں مہارت حاصل کی۔ باپ کی جگہ پلٹن میں بہت دنوں تک کام کیا۔ واجد علی شاہ کے دربامیں تیس روپیہ ماہوار پاتے تھے۔ اِنتزاعِ سلطنت کے بعد رامپور چلے گئے، لیکن پھر واپس آ گئے۔ نواب کلب علی خاں تخت نشیں ہوئے تو انھیں پھر رامپور بلوا لیا۔ وہیں وفات پائی۔

تسلیم کا پہلا دیوان ۱۸۵۷ کے ہنگاموں میں ضائع ہو گیا۔ دوسرا غدر کے بعد مرتب ہوا۔ پھر اور دو دیوان رامپور سے شائع ہوئے۔ تسلیم مثنوی نگار بھی تھے لیکن ان کی مثنویوں کو زیادہ شہرت نہیں ملی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۶

تشریح الموسیقی : دربار اکبری کے معروف موسیقی کار تان سین ((م۔ ۱۵۸۷)) کی مشہور کتاب "بدھ پرکاش" کا فارسی ترجمہ ہے۔ تان سین کے بارے میں اکبر کے وزیر ابو الفضل نے لکھا ہے کہ ایسے نابغہ روزگار ہزاروں سال کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ عہد اورنگ زیب کے طبیب حکیم محمد اکبر ارزانی ابن محمد مقیم حنفی دہلوی ایک کثیر التصانیف شخص تھے۔ یہ اپنی کتاب طب اکبری کی وجہ سے، جو نصاب میں شامل رہی ہے، طبی دنیا میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ارزانی سے پہلے ہندوستان میں عربی میں طبی کتابیں نصاب میں شامل تھیں۔ ارزانی نے انھیں فارسی میں منتقل کرنے کا بیڑا اتھایا اور مختلف کتابوں کے فارسی میں تراجم کیے۔ اس طرح طب ان کی وجہ سے ارزاں و آسان ہو گئی۔ بعض لوگوں نے اسی امر کو ارزانی کی وجہ تسمیہ بھی قرار دیا ہے۔ بدھ پرکاش کے اس فارسی ترجمے کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ اب تان سین کی کتاب موجود نہیں اور یہ صرف اس ترجمے میں محفوظ ہے۔ تشریح الموسیقی ابھی تک شائع نہیں ہوئی ہے۔ اس کا ایک کمیاب خطی نسخہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری، لاہور، پاکستان میں محفوظ ہے۔

تصدق حسین، شیخ (م۔ ۱۹۰۹)) : انیسویں صدی کے ربع آخر میں لکھنؤ میں تین بڑے داستان گو تھے۔ شیخ تصدق حسین ان میں سے ایک ہیں۔ بقیہ دو کے نام محمد حسین جاہ اور احمد حسین قمر ہیں۔ شیخ تصدق حسین کے بارے میں ہماری معلومات کم ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ وہ آنکھوں سے معذور تھے۔ ایک روایت یہ ہے کہ وہ ناخواندہ تھے۔ فی الوقت ان میں سے کسی بات کے بارے میں قطعی فیصلہ ممکن نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ان کی بعض داستانوں میں عربی فارسی کی اچھی معلومات کا مظاہرہ ملتا ہے۔ کہیں کہیں یہ اشارہ بھی مل سکتا ہے کہ شیخ تصدق حسین نے داستانیں املا کرائی ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۷

شیخ تصدق حسین اور احمد حسین قمر نے داستان امیر حمزہ کی چھتیس جلدیں (( یا داستانیں)) لکھیں۔ پیارے مرزا کے ساتھ مل کر ایک، اور اسمعیل اثر کے ساتھ مل کر چار جلدیں شیخ تصدق حسین نے مزید لکھیں۔

نام --------------------- اول اشاعت
نوشیرواں نامہ، جلد اول --------- ۱۸۹۳
کوچک باختر ---------------- ۱۸۹۲ کے بعد
ایرج نامہ، جلد اول ------------ ۱۸۹۳
ایضاً، جلد دوم --------------- ۱۸۹۳
لعل نامہ، جلد اول ------------ ۱۸۹۶
ایضاً، جلد دوم --------------- ۱۸۹۷
نوشیرواں نامہ، جلد دوم --------- ۱۸۹۸ / ۹۹
بالا باختر ------------------ ۱۸۹۹
ہرمز نامہ ----------------- ۱۹۰۰
آفتاب شجاعت، جلد دوم -------- ۱۹۰۳
ایضاً، جلد اول -------------- ۱۹۰۴
ایضاً، جلد سوم -------------- ۱۹۰۴
ایضاً، جلد چہارم ------------- ۱۹۰۵
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۸

ایضاً، جلد پنجم، حصہ اول -------- ۱۹۰۸
ایضاً، حصہ دوم ------------- ۱۹۰۸

مندرجہ بالا پندرہ جلدیں تصدق حسین نے خود تصنیف کیں۔ انھوں نے پیارے مرزا کے ساتھ "تورج نامہ"، جلد اول ((۱۸۹۶)) لکھی۔۔ "تورج نامہ"، جلد دوم ((۱۸۹۷)) اور "گلستان باختر"، جلد اول، دوم اور سوم (( اول و دوم ۱۹۰۹ اور سوم ۱۹۱۷)) انھوں نے اسمٰعیل اثر کے ساتھ لکھیں۔ "طلسم زعفران زار سلیمانی"، جلد اول اور دوم ((دونو ۱۹۰۵)) کے تصنیف انھوں نے قمر کے ساتھ کی۔ ((جلد دوم میں کچھ کام اسمٰعیل اثر کا بھی ہے))۔

شیخ تصدق حسین کا اسلوب ناہموار ہے۔ جب وہ اچھا لکھتے ہیں تو بہت اچھا لکھتے ہیں۔ بعض داستانوں (( مثلاً "ہرمز نامہ")) میں اسلوب بہت پھیکا اور تکراری ہے۔ بعض ((مثلاً "ایرج نامہ"، خاص کر جلد اول)) کو ہر اعتبار سے داستانی ادب کے شاہکاروں میں شمار کیا جانا چاہیے۔

داستان امیر حمزہ میں یہ تصور موجود ہے کہ امیر حمزہ کی صاحب قرانی دوسروں کو منتقل ہو سکتی ہے۔ اس کی پہلی مثال "صندلی نامہ" ((مصنفہ اسمٰعیل اثر، پہلی اشاعت ۱۸۹۵)) میں ملتی ہے، جہاں امیر حمزہ کے بیٹے حمزہ ثانی کو صاحب قرانی تفویض ہوتی ہے۔ تصدق حسین نے اس خیال کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی داستانوں میں صاحب قران ثالث ((بدیع الملک)) اور صاحب قران رابع ((عادل کیواں شکوہ)) کے بھی کارنامے بیان کیے ہیں۔ اسی طرح، انھوں نے عمر و عیار کے بعد ان کے بیٹے عمرو ثانی، پرھ عمرو ثالث کو بھی پیس کیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۹

مجموعی حیثیت سے ان تین داستان گویوں کی تصنیف کردہ داستان امیر حمزہ دنیا کے تخیلاتی ادب میں انتہائی بلند مقام کی مستحق ہے۔

تضمین : کسی دوسرے شاعر کے مصرعے یا پورے شعر یا غزل وغیرہ کو اپنے کلام میں اس طرح جگہ دینا کہ وہ ایک نئی نظم یا شعر کی صورت اختیار کر جائے، تضمین کہلاتا ہے۔ پوری غزل پر تضمین اس طرح ہوتی ہے کہ ہر شعر پر تین مصرعے لگاتے ہیں جو ہر شعر کے مصرع اولی کے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ شعر پر تضمین یوں ہوتی ہے کہ اسے غزل یا نظم کا حصہ بنا لیا جاتا ہے۔

تکارام ((۱۶۰۸ – ۱۶۵۰)) : سنت تکارام ایک پس ماندہ ذات کے بیوپاری گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام بولہوبا اور ماں کنکائی کہلاتی تھی۔ امبیے ان کا خاندانی نام تھا جو بعد میں تبدیل ہو کر مورے ہو گیا۔ پونا کے قریب دیہو میں ان کی ایک دوکان تھی۔

انھوں نے اپنے متعلق جو ابھنگ لکھے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ قطعی عملی انسان نہیں تھے اور اسی لیے انھیں مادی دولت یا دوکانداری سے بالکل دلچسپی نہ تھی۔ تکارام بھی سماجی ناانصافیوں اور زیادتیوں کے شکار بنے۔ ان کا انتقال ۱۶۵۰ میں ہوا۔ لوگوں کا عام طور سے عقیدہ تھا کہ ان کا انتقال نہیں ہوا بلکہ ان کی نیکی اور پاکیزگی کی وجہ سے خود وشنو دیوتا نے انھیں اٹھا کر سورگ میں پہنچا دیا۔

تکارام سے منسوب ابھنگوں کی تعداد تین ہزار تک ہو سکتی ہے لیکن ان سب کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔ "تکارام گاتھا" کے نام سے ایک معیاری ایڈیشن مہاراشٹر سرکار نے چھاپا ہے۔ ان کی کویتائیں خود ان کے حالاتِ زندگی پر روشنی ڈالتی ہیں۔ اور ساتھ ہی سماجی تنقید کا پہلو بھی رکھتی ہیں جن میں نام نہاد روحانی پیشواؤں کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۰

ریاکاری کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ وہ انھیں "خدا کے بیوپاری" کا نام دیتے ہیں۔ ان کی تنقید بے لاگ ہوتی ہے۔ ان کی نظموں سے ایک طرح کی راست گوئی، چبھن اور کھری کھری صداقت صاف نمایاں ہے۔ ان کے بھگتی گیتوں کا فرانسیسی ترجمہ یونیسکو کی جانب سے شائع ہوا ہے۔ بعض بھجنوں کا انگریزی ترجمہ ڈاکٹر پربھاکرماچوے نے کیا ہے جو امریکا کے رسالے "محفل" میں شائع ہوا ہے۔ تکارام کی زندگی اور شاعری پر ایچ۔ آر۔ دیویکر نے بھی ایک کتاب لکھی ہے جو ہندوستانی اکادمی الہ آباد سے شائع ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ بعض ابھنگوں کے ترجمے دلیپ چترے نے بھی کیے ہیں۔ جو پہلے ممبئی کے رسالہ "پوئٹری" میں چھپے پھر کتابی شکل میں منظر عام پر آئے۔

تکانا سومیاجی ((۱۲۹۰ – ۱۲۱۰))
Tikkana Somayaji
تکانا سومیاجی تیلگو زبان میں تیرہویں صدی عیسوی کا اہم اور بڑا شاعر ہے۔ وہ نیلور کے راجہ منوما سدھی کا درباری شاعر اور وزیر تھا۔ اس کی پہلی تصنیف "والمیکی اترکانڈا"
Valmiki Uttarakanda
کا آزاد ترجمہ ہے جو اس نے نرواچنا
Nirvachana
کے نمونہ پر کیا۔ اپنی اس تصنیف کو اس نے اپنے ہمدرد راجہ منوما سدھی کے نام سے منسوب کیا اور اس کے کرداروں ویرا
Veera
اور کرونا
Karuna
کے اوصاف اور جذبات کو اپنے ماہرانہ انداز میں نہایت دلکش طور پر پیش کیا ے۔ راما کے موت کے منظر کو اس میں سے خارج کر دیا۔

مہابھارت کے پندرہ پرواس
Pravas
ویرتا
Virata
سے ویاساس
Vyasas
تک کا ترجمہ میگنم
Magnum
کے نام سے کیا اور اس ترجمہ کو ہری ہر مہادیو ((وشنو اور شیوا کے مجموعہ)) کے نام سے منسوب کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۱

ادیوگاپَروا
Udyogaporva
میں کرشنا کے کردار کو ایک سیاسی سفیر کی حیثیت سے جس ماہرانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے اس سے تکانا کی سیاسی علمیت اور تدبر کی وسعت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔

وہ خود ایک وزیر تھا چنانچہ اس نے مہابھارت کے جنگی کارناموں کے ایک ایک جزو کو بہت دلکش پیرایہ میں نظم کیا ہے۔ اس کا اسلوب بیان بہت ڈرامائی انداز کا تھا اور اس نے جو مکالمے پیش کیے ہیں ان میں شجاعت اور جوانمردی کا حیات آفریں اظہار قابل تعریف ہے۔

اس نے دقیق سنسکرت مشتقات اور اصطلاحات ترک کر کے آسان اور مقامی چلن کے محاورات استعمال کیے تاکہ تیلگو عوام زیادہ سے زیادہ ان سے مستفید ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اس امر میں بھی پہل کی کہ روحانیت اور تصوف کے پیچیدہ اور مشکل مسائل کو تیلگو زبان میں بہت آسان اور دلنشیں پیرایہ میں عوام تک پہنچایا جائے۔ تکانا سومَیاجی کی ان صفات کی بنا پر اس کو "کوی برہما"
Kavi Brahma
اور "اوبھیا کوئی متر" کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے جس سے مراد شاعری کا خالق اور جامع اللسان ((تیلگو سنسکرت)) ہے۔ اس لحاظ سے تیلگو ادب میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

تلاگنا : پنی کٹی تلا گنا، ابراہیم شاہ کے دور کا شاعر ہے اس نے "یاہاتی چرترا" لکھی جس کو خالص تلگو کی پہلی نظم قرار دیا گیا ہے۔

تلسی داس، گوسوامی : ان کی پیدائش سمبت ۱۵۵۴ میں بعض محققین کے مطابق باندہ ضلع کے راجہ پور گاؤں اور بعض کے نزدیک گنگا کنارے سوروں ضلع اینہ میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام آتما رام دوبے اور والدہ کا نام ہلسی تھا۔ اس کی تائید میں عبد الرحیم خان خاناں کا ایک دوہہ پیش کیا جاتا ہے۔ شیو سنگھ سروج نامی تحقیق کے مطابق
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۲

تلسی داس کی سن پیدائش سمبت ۱۵۸۳ قرار پاتا ہے۔ پنڈت رام غلام دویدی کی تصنیف اور ڈاکٹر گریرسن کی تحقیق سے اس کی تصدیق ہو جاتی ہے حالانکہ "گوسائیں چرتر" اور "تلسی چرتر" دونوں میں سمبت ۱۵۵۴ ہی ملتا ہے۔ تلسی داس کی سوانحی تصانیف کا ایک قابل قدر ذخیرہ تیار ہو گیا ہے جن میں مہاتما رگھودر داس کی "تلسی چرتر" اور تلسی داس کے شاگرد اور ہم عصر مادھو داس کی "گوسائیں چرتر" سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ تلسی داس کے بارے میں یہ روایت مشہور ہے کہ جب وہ پیدا ہوئےتو پانچ برس کے بچے کی طرح ان کے دانت تھے اور پیدائش کے وقت ان کے منھ سے رام کا لفظ نکلا تھا۔ تلسی داس کی اس عجیب و غریب ہیئت کو دیکھ کر ان کے والد نے انھیں بھوت پریت سمجھا اور انھیں کہیں پھینک آنے کو تیار ہو گئے۔ اس پر ان کی ماں نے اپنی کادمہ مینا کے حوالے تلسی داس کو کر دیا۔ پانچ برس کے اندر منیا کے انتقال کے بعد بھی آتما رام دوبے تلسی داس کو واپس لینے پر راضی نہ ہوئے۔ بہرحال کچھ دنوں ان کی پرورش جیسے تیسے ہوتی رہی تاآنکہ بابا نرہری داس نامی ایک سادھو نے تلسی داس کو اپنے ساتھ رکھ لیا۔ انھیں سے تلسی داس نے رام کتھا سنی۔ پھر یہ اپنے استاد بابا نرہری داس کے ساتھ کاشی کے پنچ گنگا گھاٹ پر آ کر سوامی رامانند کی جگہ رہنے لگے اور یہیں انھوں نے شیش سناتن داس نام کے سادھو سے ویدانت، شاستر اور مذہبی علوم کا درس لیا۔ پندرہ برس درس لینے کے بعد جب تلسی داس اپنے گاؤں لوٹے تو ان کے خاندان کا کوئی فرد زندہ نہ تھا اور ان کا گھر کھنڈر بن چکا تھا۔ گوسوامی تلسی داس کی شادی کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ تمام عمر برہمچاری رہے تھے۔ یہ خیال ان کے یہاں عورت کے متعلق سخت اور ترش رویہ پائے جانے سے پیدا ہوا لیکن درست بات یہ ہے کہ تلسی داس کی شادی جمنا پار کے رہنے والے ایک بھاردواج برہمن یم دوتیہ کی لڑکی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۳

سے ہوئی تھی۔ یم دوتیہ نے ان کی علمیت اور فضیلت سے متاثر ہو کر اپنی لڑکی تلسی داس سے بیاہ دی تھی۔ تلسی داس کو اپنی بیوی سے بے حد پیار تھا۔ "تلسی چرتر" اور "گوسائیں چرتر" کے مطابق یہی عشق ان کی روحانیت کا وسیلہ بنا۔ روایت ہے کہ ایک بار جبکہ ان کی بیوی میکے گئی ہوئی تھی، تلسی داس درد فراق سے مجبور ہو کر ایک طوفانی ندی پار کر کے ان سے ملنے گئے۔ اس پر ان کی بیوی نے طنزاً ایک دوہہ کہا جس کا مطلب یہ ہے: جتنا مجھے تم چاہتے ہو اتنا اگر شری رام کو چاہتے تو نجات حاصل ہو جاتی۔ یہ بات تلسی داس کے دل میں لگ گئی چنانچہ وہ گھر بار چھوڑ کر تیرتھ یاترا کے لیے نکل کھڑے ہوئے اور پورے ہندوستان کا چکر کاٹ کر کاشی پہنچے۔ چترکوٹ میں بھی ایک عرصے تک ان کا قیام رہا اور یہیں ان کی ملاقات سورداس سے ہوئی اور یہ کہا جاتا ہے کہ انہی کی فرمائش پر تلسی داس نے کرشن گیتاولی تصنیف کی۔

تلسی داس کے خاص دوستوں میں عبد الرحیم خان خاناں، مہاراج مان سنگھ، نابھاجی اور مدھو سودن کا نام قابل ذکر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عبد الرحیم خان خاناں سے دوہونمیں مراسلت ہوتی تھی۔ ان کے دوستوں میں ٹوڈرنابھدینی کے ایک زمیندار کا بھی ذکر ملتا ہے۔

تلسی داس کی سن وفات کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ یہ روایت مشہور ہے کہ ان کو ہیضہ ہو گیا تھا جس سے وہ کافی کمزور ہو گئے تھے۔ بالآخر کچھ عرصے بعد سمبت ۱۶۸۰ میں ان کا انتقال ہو گیا۔

تلسی داس کی تصانیف میں سب سے ممتاز مقام رام چرتر مانس کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ونے پتریکا، دوہاولی، کویتاولی، راما گیاپرشن بڑی اہم تصانیف ہیں۔ رام للا نہچھو بروے راماینی، پاربتی منگل، جانکی منگل، کرشن
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۴

گیتا ولی، راماگیاپرشناولی چھوٹے چھوٹے رسالوں کی شکل میں ہیں۔ رام غلام دویدی نے مذکورہ بارہ تصانیف کو تسلیم کیا ہے جبکہ شیوسنگھ سروج نامی تحقیق میں دس اور تصانیف گنائے گئے ہیں۔

تلسی داس نے دو سال اور سات مہینے میں رام چترمانس جیسی عطیم اور شاہکار تصنیف مکمل کر لی تھی۔ ان کی تصنیف کا آغاز سمبت ۱۶۳۱ بتایا جاتا ہے۔ اس کی شروعات بعض کے نزدیک اجودھیا میں اور بعض کے نزدیک کاشی میں ہوئی۔ اس تصنیف کے بعد تلسی داس کا شمار اس عہد کے عالموں میں ہونے لگا تھا۔ یہاں تک کہ اس وقت کے سنسکرت کے مشہور عالم مدھو سودن سرسوتی نے بھی رام چرترمانس کی بڑی تعریف کی جبکہ اس وقت کوئی سنسکرت کا عالم دیسی زبان کو پسند نہیں کرتا تھا۔ رام بھکت ہونے کے سبب تلسی داس کی ساری عقیدت رام جی ہی سے ہے لیکن جگہ جگہ انھوں نے دوسرے دیوتاؤں اور اوتاروں کا ذکر تعریف کے ساتھ کر کے وسیع القلبی کا ثبو ت دیا ہے۔

اس زمانے میں برج بھاشا اور اودھی کو ادبی زبان کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔ اس لیے سورداس نے برج بھاشا کو اور ایشوداس اور ملک محمد جائسی نے اودھی ذریعہ اظہار بنایا۔ تلسی داس نے ان دونوں زبانوں پر پوری قدرت کا مظاہرہ کیا ہے جو اس سے قبل کسی اور شاعر کے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ دوسری اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ تلسی داس اپنے عہد کے تمام اسالیب پر پوری طرح قدرت رکھتے تھے۔ اس زمانے کے پانچ اسالیب کی طرف ناقدین نے توجہ دلائی ہے۔ ایک ویرگاتھاؤں کی چھپے کا انداز ہے دوسرا ودیاپتی اور سورداس کے گیتوں کی طرز نگارش ہے تیسرا کبیر کی بانی اور دوہوں کی ترتیب ہے۔ چوتھا گنگ اور دوسرے بھاؤں کے گیتوں کا مخصوص انداز ہے پانچواں ایشورداس اور جائسی کے دوہوں اور چوپائیوں کا اسلوب ہے۔ تلسی داس
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۵

نے رام چرتر مانس مینان تمام اسالیب سے استفادہ کر کے اپنی الگ اور منفرد شناخت بنائی ہے۔ یہ تلسی داس کی عظمت کی دلیل ہے کہ انھوں نے ان اسالیب کے تنوع سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ رام چرترمانس میں رام چندجی اور سیتا کے رومانی مناظر بھی ہیں اور ان کے فراق اور قربانی کے پردرد حالات کا بیان بھی۔ راون کے خلاف جنگ کے خوں آشام ماجظر بھی ہیں اور اسطور کی پراسراریت بھی۔

رام چرترمانس کی سب سے اہم خصوصیت اس کا تناسب و توازن ہے۔ تلسی داس نے قصہ کی ترتیب میں بڑی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ اس طویل نطم میں کرداروں، اشیا اور واقعات کی کثرت اور تفصیل ہے اور جذبات نگاری کے بھی عمدہ نمونے ہیں لیکن کہیں بھی توازن کا دامن ہاتھ سے نکلنے نہین دیا گیا ہے۔

رام چرتر مانس کی ایک اور اہم خصوصیت اس میں انسانی نفسیات اور اس کی فطرت کے عمدہ مرقعوں کا ہونا ہے۔ چاہے وہ رام چندر جی اور سیتا جی کی ملاقات کا منظر ہو یا راجہ دشرتھ کی موت اور اس قسم کے دوسرے مناظر ہوں تلسی داس نے انسانی فطرت کے لطیف گوشوں کو بڑی ہنرمندی سے بے نقاب کیا ہے۔ کرداروں کے منھ سے جو الفاظ نکلے یں وہ نہ صرف موقع و محل کے مناسب ہیں بلکہ ان کے مرتبہ و مقام کی مطابق بھی۔ علماء سنسکرت آمیز زبان میں اور نوکر اور غلام عام اور گھریلو زبان میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔

تلسی داس نے رام چرتر مانس میں جگہ جگہ پر وعظ و نصیحت کی باتیں کسی نہ کسی کردار سے ضرور کہلائی ہیں لیکن کہیں بھی فنکاری کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔ تلسی داس کی تشبیہیں محض روایتی اور قدیم نہیں ہیں بلکہ ان میں یہاں کی زندگی، مناظر اور فطرت کی سادگی کے نقوش ملتے ہیں۔ تلسی داس نے جنگلوں اور دریاؤں سے بھی تشبیہیں اخذ کی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۶

موضوع کی وسعت اور مقصد کی عظمت کے اعتبار سے یہ ایک عظیم شعری کارنامہ ہے۔ مختصر یہ کہ رام چرترمانس ہندی ادب کی عظیم ترین شاہکار ہے۔ جتنے زیادہ اور طویل عرصے تک اس نے لوگوں کے دلوں کو گرمایا ہے اس کی مثال کسی دوسرے زبان کے ادب میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔

تلک، بال گنگا دھر ((۱۸۵۶ – ۱۹۲۰)) : یہ ۱۸۵۶ میں کونکن کے ایک متوسط برہمن خاندان میں پیدا ہوئے۔ دکن کالج پونا سے ۱۸۷۷ میں بی۔ اے۔اور ۱۸۷۹ میں ایل۔ ایل۔ بی۔ کا امتحان پاس کیا۔ ۱۸۸۰ میں وہ "نیو انگلش اسکول" سے منسلک ہوئے اور پھر ۱۸۸۵ میں فرگیوسن کالج میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ ۱۸۹۰ میں انھوں نے اسکول اور کالج دونوں کی ملازمت ترک کر دی اور مراٹھی میں "کیسری" اور انگریزی میں "مراہٹہ" جاری کر کے اپنے اپ کو پوری طرح صحافت اور جہد آزادی کے لیے وقف کر دیا اور پھر انھیں ایک سربرآوردہ سیاسی رہنما کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ تلک سنسکرت اور ریاضی کے عالم تھے۔ ۱۸۹۳ میں انھوں نے انگریزی میں "اورین"
Orian
کے نام سےسے ایک عالمانہ کتاب لکھی جو ویدوں کی ابتدا اور ان کی تاریخ سے متعلق ہے۔ اس کتاب نے بیرونی اسکالروں کو بھی ان کی طرف متوجہ کیا۔ باغیانہ تحریروں کی بنا پر انھیں ۱۸۹۶ میں ایک سال کی قیدبامشقت کی سزا دی گئی۔ ان کی رہائی کے لیے میکس ملر نے بھی پیروی کی تھی۔ ایک سال کی قید کے بعد انھوں نے پنچانگ ((علم نجوم کی تقویم)) کی تیاری میں دلچسپی لی۔ ۱۹۰۱ میں انھوں نے اپنی کتاب "ویدوں کا وطن قطب شمالی" لکھی۔ ۱۹۰۸ میں انھیں دوبارہ قید کر کے مانڈلے بھیج دیا گیا۔ اسیری کے زمانے میں انھوں نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "گیتا رہیسہ" لکھی جس میں گیتا کی تعلیمات کی کرم مارگی ((ویدوں کا بتایا ہوا عملی راستہ)) نقطہ نظر سے تشریح کی گئی ہے۔ ۱۹۱۹ میں وہ والنٹائن شرول
Valintine Chirol
کے خلاف ازالہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۷

حیثیت عرفی کا دعوا کرنے کی غرض سے لندن بھی گئے تھے۔ اس مصنف نے اپنی کتاب "انڈین ان رسٹ"
Indian Unrest
میں تلک کے بارے میں توہین آمیز جملے استعمال کیے تھے۔ ان پر چلائے گئے اشتعال انگیزی کے ایک مقدمے کے دوران ممبئی کی عدالت میں کہا ہوا ان کا یہ جملہ تو ضرب المثل ہو گیا ہے کہ "آزادی میرا پیدائشی حق ہے اور میں اسے لے کر ہی رہوں گا"۔ ۱۹۲۰ میں ممبئی میں ان کا انتقال ہو گیا۔

تلک ایک جید عالم اور بے باک صحافی تھے۔ انھوں نے تاریخ، ہند و مذہب، شنکر اچاریہ کے فلسفہ، تاریخ ماقبل رامائن، شیواجی کی حیات، بودھی دور اور شک راجاؤں پر بھی لکھنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ "کیسری" میں ان کے مضامین جذبہ حب الوطنی کی شدت و خلوص اور خطیبانہ انداز کی پختگی کے آئینہ دار ہیں۔ وہ قاری کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے اور نپی تلی صاف اور غیر مبہم بات کہتے۔ ان کے خیالات کی بنیاد ہندو احیا پرستی اور کلاسیکی انداز فکر پر تھی۔ اس معاملے میں وہ اصلاح پسند اگرکر سے اختلاف کرتے تھے جن کی نظر مستقبل پر تھی۔ ان کی "گیتا رہسیہ" کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ تقریباً ساری ہندوستانی زبانوں میں ملتا ہے۔ مراٹھی اور انگریزی میں ان کی سوانح عمریاں بھی موجود ہیں۔

تلک، لکشمی بائی (۱۸۷۳ – ۱۹۳۶)) : انیسویں صدی کے بال وِواہ کے رواج کے مطابق لکشمی بائی کی شادی صرف چھ سال کی عمر میں ناراین وامن تلک سے ہوئی۔ تلک ایک متلون مزاج شخص تھے اور شاعرانہ طبیعت کے مالک بھی جس کے سبب ازدواجی زندگی میں ٹھہراؤ نہ آ سکا اور ۱۸۹۵ میں تلک کے عیسائی ہو جانے کے بعد تو جیسے بھونچال آ گیا اور علاحدگی کی نوبت آ گئی لیکن ۱۹۰۰ میں لکشمی بائی نے بھی عیسائی مذہب اختیار کر لیا اور دونوں پھر سے رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔
 
Top