اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۵

کلام عاشقانہ بھی ہے اور عارفانہ بھی۔ بہت سے اشعار اخلاقیات اور پند و نصائح سے مملو ہیں۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی غزلوں کے نیچے تاریخ تکمیل بھی دے دی ہے۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ یہ غزل کس شاعر کی طرح پر ہے۔ اس طرح خود ان کی زبان اور تخلیقی ارتقا کے علاوہ اس زمانے کی عہد بہ عہد زبان اور شعرا کے اثر و نفوذ کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ولی کے بارے میں بھی بعض اہم معلومات کا ماخذ شاہ حاتم کے حوالے سے مصحفی کی تحریریں ہیں۔ اٹھارہویں صدی کی اردو غزل کی تاریخ میں شاہ حاتم مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔

حاتم نے بہ زمانہ عالمگیر ثانی ((زمانہ حکومت ۱۷۵۴ – ۱۷۵۹)) ایک دیوان مرتب کیا۔ اس پر انھوں نے شروع میں ایک مفید دیباچہ بھی لکھا ہے اور اس دیوان میں غزلیں، مخمس، رباعیات، مستزاد، ترجیع بند اور ساقی نامہ اور مثنویاں سب کچھ ہیں۔

حافظ ابراہیم، محمد ((۱۹۳۲ – ۱۸۷۰)) : شہر دیروط میں پیدا ہوئے۔ ان کی کم عمری میں والد ابراہیم فہمی جو انجینیئر تھے انتقال کر گئے۔ یہ اپنے ماموں کے پاس قاہرہ آ گئے۔ یہاں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ابتدا سے شاعری کا ذوق تھا۔ ابتدائی کلام شکایات اور مایوسی کا عکاس ہے۔ جلد ہی معاش کی تلاش میں سرگرداں ہو گئے۔ پہلے وکلا کے دفاتر میں کام کیا۔ پھر ملڑی اسکول میں داخل ہو گئے اور فوجی آفیسر بن گئے۔ کچھ عرصے کے لیے پولیس کے محکمے میں بھی چلے گئے اور ڈکیچز کے تحت کام کرنے سے آزادی کے جذبات موجزن ہو گئے۔ ۱۸۹۹ میں کچھ افسروں کے ساتھ آزادی کی جد و جہد میں حصہ لیا تو ان پر مقدمہ چلایا گیا اور پنشن دے دی گئی۔ مفتی محمد عبدہ کے ساتھ کچھ دنوں کام کیا۔ ان سے استفادہ بھی کرتے رہے۔ اپنا کلام بھی انھیں دکھاتے تھے۔ ۱۹۱۱ میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۶

"دارالکتب المصریہ" کے ادبی شعبے کے صدر بن گئے۔ ۱۹۳۲ میں انتقال ہو گیا۔ ان کا کلام زندگی کے واقعات کے ساتھ ساتھ بدلتا گیا۔ ابتدائی زمانے کے کلام میں ملکہ وکٹوریہ اور دوسرے انگریزوں کی تعریف بھی ملتی ہے۔ لیکن آخری زمانہ میں قومی جذبات اور قومی بیداری کو پورے جوش و خروش کے ساتھ پیش کیا ہے۔

حافظ ابراہیم ان پانچ عظیم شاعروں میں دوسرے درجہ پر ہیں جن کی شاعری نے نئی نسل کو شعر کی حقیقت سمجھائی اور شعر برائے زندگی کے نعرے بلند کیے۔ فطری شاعر تھے۔ رسمی علم کچھ زیادہ حاصل نہ کر سکے تھے۔

خالص عربی اسلوب الفاظ کے استعمال میں وہ پختہ عقیدہ رکھتے تھے۔ اسی لیے مدرسۃ المحافظین میں سر فہرست ان کا ہی نام ہے۔ قومی مسائل کو حافظ ابراہیم نے اپنا غم بنا لیا اور اتنے مؤثر الفاظ میں اسے پیش کیا کہ دنیائے عرب نے انھیں شاعر الشعب ((قومی شاعر)) اور شاعر النیل کے خطاب سے نوازا۔ انھوں نے عربی زبان کی طرف سے عام بے اعتنائی پر جو نوحہ لکھا ہے وہ بیسیویں صدی کی عربی شاعری کا گل سر سبد ہے۔

حافظ شیرازی، خواجہ شمس الدین ((۱۳۸۹ – ۱۳۲۵)) : خواجہ شمس الدین حافظ شیرازی کے والد بہاء الدین اصفہان میں قیام پذیر تھے۔ وہ اتابکوں کے عہد میں شیراز آئے اور یہیں رہ گئے۔ خواجہ حافظ کی والدہ گاذرون کی رہنے والی تھیں۔ بہاء الدین کا پیشہ تجارت تھا اس لیے انھوں نے خوش حال زندگی بسر کی۔ ان کے تین لڑکے تھے۔ سب سے چھوٹے خواجہ حافظ تھے۔ والد کے انتقال کے بعد بھائیوں نے سب مال و متاع ختم کر دیا اور دونوں بھائی شیراز چھوڑ کر تلاش معاش میں نکل گئے لیکن والدہ حافظ کے ساتھ شیراز ہی میں رہیں۔ مفلسی کی بنا پر انھوں نے اپنے لڑکے کو ایک شخص کے سپرد کر دیا۔ حافظ کو اس کا طور و طریق پسند نہ آیا اس لیے انھوں نے نانبائی کی دوکان پر خمیر گری شروع کی۔ جو مزدوری ملتی اس کو تین حصوں میں تقسیم کرتے۔ ایک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۷

حصہ والدہ کو دیتے، ایک استاد کو اور تیسرا خیرات کر دیتے۔ اس طرح انھوں نے تعلیم بھی حاصل کی اور قرآن بھی حفظ کر لیا۔ ان کے اساتذہ میں قوام الدین عبد اللہ ((۱۳۸۰)) بھی تھے۔ حافظ نے اس دور کی اعلی تعلیم پائی۔ قرآن حفظ کیا اور اس کا گہرا مطالعہ کیا۔ اسی مناسبت سے حافظ تخلص اختیار کیا۔ انھوں نے جب شعر گوئی شروع کی تو شیراز میں شعر و شاعری کا چرچا تھا۔ حافظ نے باوجود کم سن ہونے کے شعر کہے اور محفلوں میں سنائے۔

حافظ نے چار بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ شیخ جمال الدین ابو اسحاق اینجو ان کا بہت قدرداں تھا۔ اس نے ۱۳۵۳ میں انتقال کیا۔ اس کے بعد مبارز الدین نے حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ لیکن پانچ سال سے زیادہ حکومت کرنے کا موقع نہ ملا۔ اس کے بیٹے جلال الدین شاہ شجاع ((۱۳۵۷ – ۱۳۸۴)) نے تخت پر جلوس کیا پھر اس کے بھیدی جے شاہ منصور بن شرف الدین مظفر بن مبارز الدین ((۱۳۸۷ – ۱۳۹۲)) کو شیراز کی حکومت ملی۔ حافظ نے اپنی غزلوں میں اں سب کی تعریف کی ہے۔ بادشاہوں کے علاوہ اور بھی نام ان کی غزلوں میں ملتے ہیں ایک قطعہ میں پانچ نام آئے ہیں۔ شاہ ابو اسحاق، شیخ امین الدین ابدالی، قاضی عضد الدین عبد الرحمن یحیی ((م۔ ۱۳۵۵)) جن کی تصنیف علم کلام میں "مواقف" شاملِ درس رہی ہے۔ ھاجی قوام الدین حسن، مالیات کی محصلی کے عہدہ پر فائز تھے اور پانچویں مجد الدین اسماعیل ((م۔ ۱۳۵۵)) قاضی شیراز اور مدرسہ مجدیہ کے بانی اور معلم۔ حافظ کے ان سب سے خوشگوار تعلقات تھے۔ حافظ کی شہرت ایران سے باہر بھی پہنچی۔ چنانچہ سلطان احمد بن شیخ اویسی ((۱۳۸۲ – ۱۴۱۰)) والئی بغداد نے حافظ کو بغداد آنے کی دعوت دی۔ محمود شاہ بہمنی ((۱۳۷۸ – ۱۳۹۷)) نے انھیں گلبرگہ ((دکن)) بلایا۔ غیاث الدین بن سکندر نے بنگالہ انے کے لیے زاد راہ بھیجا لیکن
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۸

انھوں نے غزلیں بھیج دینے پر اکتفا کیا اور کہیں نہ گئے۔ دکن جانے کے لیے ہرمز ((بندرگاہ)) تک آئے۔ کشتی میں بیٹھے لیکن باد مخالف سے ان کا ارادہ فسخ ہو گیا۔

دراصل انھیں خاک مصلی اور رکنا باد چھوڑنا گوارا نہ تھا۔ ہرمز کے علاوہ دو سفر اور کیے ایک نصرت الدین کی طلبی پر یزد اور آخری عمر میں شاہ منصور کی طلبی پر اصفہان گئے۔

حافظ کی شاعری میں ناؤ نوش، مے و نغمہ اور شاہد و شراب کا ذکر بار بار آتا ہے۔ وہ طرح طرح سے عشقیہ مضامین باندھتے ہیں، ان میں تازگی و شگفتگی ہوتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس راہ سے گزرے ہیں اور عشق مجازی کی وادیوں کی سیر کی ہے۔ وہ عشق کے اسرار و رموز کو اپنے اشعار میں کہیں پنہاں اور کہیں آشکارا بیان کرتے ہیں۔ جب وہ عمر کی ایک خاص منزل پر پہنچتے ہیں تو ان میں خدا شناسی اور تصوف کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور یہی مے و نغمہ اور شاہد و شراب، مستی و سرشاری کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اب وہ سنائی، عطار، مولانائے روم اور سعدی کا مسلک اختیار کرتے ہیں اور توحید اور تصوف کے مضامین خواہ قصیدہ ہو یا غزل ہر صنف میں ادا کرتے ہیں۔ وہ چونکہ حقیقت کے پرستار ہیں اس لیے مکر و ریا اور تزویر سے متنفر ہیں اسی لیے وہ شیخ و زاہد پر لعن طعن کرتے اور ان کے خرقہ سالوسی کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے بیشتر شعرا کے کلام کو پیش نظر رکھا ہے لیکن ان کی تقلید نہیں کی۔ وہ اپنے کلام کی نغمگی و حلاوت اور عذوبت سے پیشروؤں سے آگے نکل گئے۔ حافظ نے اچھوتا تخیل پیش کیا ہے اور ایسے الفاظ، اصطلاحیں اور ترکیبیں فارسی ادب کو دی ہیں جو اس سے پہلے اس میں نہ تھیں یا تھیں تو اپنے معانی محدود رکھتی تھیں۔ ان کے اشعار میں صنائع و بدائع بھی ملتے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۹

ہیں اور تشبیہوں اور استعاروں کی بھی کمی نہیں۔ غرض حافظ نے تغزل، تعشق اور تصوف کو جس طرح شیر و شکر کیا اس کا کوئی جواب نہیں۔

حافظ نے جب عشق حقیقی اختیار کیا تو ان کا شباب آخری منزلیں طے کر رہا تھا۔ وہ جذب و کیف کے عالم میں رہتے۔ چنانچہ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ ((م۔ ۱۴۰۵، مزار کچھوچھہ شریف)) اپنی سیاحت کے دوران شیراز پہنچے تو حافظ سے ملے۔ وہ اپنے ملفوظات میں حافظ کو "بیچارہ مجذوب شیرازی" کہتے ہیں۔ آپ نے شیراز میں زیادہ عرصہ تک قیام کیا اور حافظ سے کئی ملاقاتیں کیں اور اپنی یہ رائے دی کہ "ہر چند کہ مجذوبان روزگار" محبوبان کرد گار را دیدہ بودیم اما مشرب و بے بسیار عالی یا فتیم"۔

حافظ نے ۱۳۸۹ میں شیراز میں وفات پائی اور اپنے محبوب مقام "مصلی" میں دفن ہوئے۔ "خاک مصلی" تاریخ وفات ہے۔

حالی، خواجہ الطاف حسین ((۱۹۱۴ – ۱۸۳۷)) : بمقام پانی پت پیدا ہوئے۔ ان کے اجداد سلطان غیاث الدین بلبن کے زمانے میں ہندوستان آئے تھے۔ نو برس کی عمر میں یتیم ہو گئے۔ بھائیوں نے پرورش کی۔ تعلیم کی تکمیل دلی کے عالموں کی صحبت میں ہوئی۔ فکر معاش میں حصار جانا پڑا۔ وہاں ڈپتی کلکٹر کے دفتر میں نوکری مل گئی۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ غدر ہو گیا۔ جان بچا کر پانی پت واپس آ گئے۔ غدر ختم ہو گیا تو تلا ش روزگار میں پھر دلی پہنچے۔ وہاں غالب کی صحبت میں ان کا ادبی مذاق پروان چڑھا۔ شیفتہ اور غالب کے انتقال کے بعد لاہور جا کر پنجاب بُک ڈپو میں ملازمت کر لی۔ یہاں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی ہوئی کتابوں کی درستی کے سلسلے میں انگریزی ادب سے اگاہ ہونے کا موقع مل گیا جس نے ان کے نظریہ شاعری پر گہرا اثر ڈالا۔ دہلی اور لاہور میں
 

شمشاد

لائبریرین
صحفہ ۵۶۰

تھوڑے تھوڑے وقفہ کے لیے اردو پڑھانے کی خدمت انجام دی۔ اس وقت تک حالی کی نظم اور نثر کی شہرت ہو چکی تھی۔ ۱۸۸۷ میں سرکار حیدر آباد سے سو روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر ہو گیا تو ملازمت تر ک کر دی اور باقی عمر علمی مشاغل میں بسر کی۔ انتقال دہلی میں ہوا۔

زمانے کے رواج کے مطابق حالی نے روایتی شاعری شروع کی لیکن انھوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اردو شاعری میں اصلاح کی شدید ضرورت ہے اور جدید طرز کی نظمیں لکھیں۔ مخالفتوں کی پروا کیے بغیر وہ زندگی بھر اسی راہ پر گامزن رہے۔ نثر میں ان کی کتابیں حیاتِ جاوید، یادگارِ غالب، حیاتِ سعدی، مقدمہ شعر و شاعری بہت مقبول ہوئیں۔ حالی کی شعری تصنیفات میں سب سے زیادہ شہرت مد و جزر اسلام کو حاصل ہوئی۔ جو مسدس حالی کے نام سے مشہور ہے۔ "مقدمہ شعر و شاعری" در حقیقت دیوان حالی کا طویل دیباچہ ہے لیکن اس تحریر نے ایک مسقتل تصنیف کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اس کو نئی اردو تنقید کا نقظہ آغاز قرار دیا جاتا ہے۔

حامد حسن قادری : دیکھیے قادری، حامد حسن

حبہ خاتون ((۱۵۴۱ – ۱۶۰۱)) : اصل نام زون تھا جس کے معنی چاند کے ہیں۔ کشمیر کے موضع چندن ہار میں پیدا ہوئی۔ تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے۔ بعض نے ۱۵۵۳ بتائی ہے۔ پہلے ایک غیر معروف شخص سے شادی ہوئی جو راس نہ آئی۔ لیکن اسی شخص حبہ لالہ کے نام کی مناسبت سے حبہ خاتون مشہور ہوئی۔ چند سال تک سسرال میں بڑی مظلومی کی زندگی بسر کی پھر بادشاہ وقت یوسف شاہ چک کی ملکہ بن گئی۔ وہ ریاست کے معاملات میں سلطان کو مشورہ دیتی تھی اور اس کی قوت کا سرچشمہ تھی۔ لیکن جب مغلیہ فوج شاہ کو گرفتار کر کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶۱

لے گئی تو حبہ خاتون نے باقی زندگی ترک دنیا میں گزاری۔ زندگی کی اس اونچ نیچ کا اثر اس کشمیری شاعرہ کی شاعری میں صاف نظر آتا ہے۔

حبہ خاتون گیت کار اور موسیقار دونوں حیثیت سے شہرت رکھتی ہے۔ اس کی طویل نظمیں "وژُن"

vatsun

گیتوں میں ہیں جو کشمیری شاعری کی مقبول صنف ہے۔ لیکن اس کی مقبولیت کا سبب اس کی غزلیں ہیں۔ اسے موجودہ کشمیری غزل کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ جہاں تک اس کی ابتدائی نظموں اور گیتوں کا تعلق ہے، وہ اس کے دور مظلومیت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس کے عشقیہ گیت جو دور خوشحالی کی تخلیق ہیں بڑے ہی اثر آفریں ہیں۔ آخری دور کی شاعری مینایسا نظر آتا ہے کہ عشق مجازی نے عشق حقیقی کی صورت اختیار کر لی ہے۔ مجموعی طور پر حبہ خاتون کی شاعری سولہویں صدی عیسوی کی نمائندہ شاعری ہے۔ سادگی و سلاست کے باوجود زبان و بیان پر فارسی شاعری کا اثر غالب ہے۔ اس میں عصری آگہیہ کا بھرپور عکس جلوہ گر ہے۔

حبیب الرحمن خان شروانی ((۱۹۵۰ – ۱۸۶۷)) : صدر یار جنگ حبیب الرحمن شروانی بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے رہنے والے تھے۔ علوم عربی و فارسی کے تحصیل بڑے عالموں کی نگرانی میں ہوئی۔ آگرہ ہائی اسکول میں انگریزی بھی سیکھی۔ بعد ختم تعلیم ریاست کے کاروبار میں لگ گئے۔ ان کا قائم کیا ہوا کتب خانہ "حبیب گنج" ہندوستان کے نادر کتب خانوں میں سے ایک ہے۔ اب یہ کتب خانہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دے دیا گیا ہے۔ نواب صاحب حیدر آباد کے صدر الصدور مذہبی امور کے مشیر اعلٰی تھے۔ علی گڑھ میں انتقال ہوا۔

حبیب الرحمن خان مذہبی علوم، تاریخ، فلسفہ اور فقہ اسلامی کے زبردست عالم اور صاحب تصنیف بزرگ تھے۔ زیادہ تر کتابیں مذہبی موضوعات پر ہیں۔ کچھ تذکرے اور سوانح عمریاں بھی ہیں۔ میر حسن کا تذکرہ اور خواجہ میر درد
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶۲

کے دیوان کی ترتیب و تدوین اور ان کے مقدمے مرحوم کی علمی یادگار ہیں۔ دیگر تصانیف میں ذکر الحبیب، شان رسالت، شمع رسالت، شمع ہدایت، علمائے سلف، اسلامی اخلاق، مقالات شیروانی، تذکرہ بابر، حالات حزیں، نقش وفا اور سر سید کی یاد قابل ذکر ہیں۔

حبیب السیر : غیاث الدین بن ہمام الدین خواند میر کی فارسی تصنیف ہے جس میں ابتدا سے شاہ اسمعیل صفوی کی وفات ((۱۵۲۳)) تک کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ تکمیل کتاب کے بعد مصنف ہندوستان آیا۔ کتاب پر نظر ثانی کی اور دہلی میں انتقال کیا۔ اس کی ایک اور تصنیف دستور الوزرا بھی ہے جس میں ابتدائے اسلام سے لے کر تیموریوں کی سلطنت کے اختتام تک وزراء اسلام کا حال لکھا ہے۔ یہ کتاب ۱۵۰۸ میں مکمل ہوئی۔

حدیث : اصطلاح میں حضرت محمدﷺ کے "قول"، "فعل" اور "تقریر" کو حدیث کہتے ہیں۔ "قول" زبان سے سنی ہوئی بات اور "فعل" آپ ﷺ کے کیے ہوئے کام کا مفہوم واصح کرتا ہے۔ تقریر ایک اصطلاحی لفظ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کسی کو کوئی کام یا عمل کرتے خود دیکھا اور اس کو منع نہیں کیا۔ اور اس طرح چپ رہ کر یا زبان سے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کر کے اپنی رضامندی ظاہر کی یا کسی صحابی نے کسی شخص کے قول یا فعل کو آپ سے نقل کیا اور آپ سن کر خاموش رہے تو یہ بھی "تقریر" ہے اور "تقریر" کی یہ دونوں قسمیں بھی حدیث ہی کہلاتی ہیں۔

اسلام مین قرآن کے بعد سب سے زیادہ مقدس، اہم اور صحیح ترین دستاویز ہونے کے علاوہ حدیث کو نہ صرف دینی معلومات میں ہی بلکہ زبان و ادب میں بھی بطور دلیل، سند اور کسوٹی کے جو مقام حاصل ہے وہ کسی اور انسان کے کلام یا بات چیت یا تقریر کو حاصل نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶۳

ادب اور زبان کی حیثیت سے حدیث کی اس امتیازی شان کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ آپ ﷺ کی زبانِ مبارک پر قرآن جیسی معجز نما کتاب ہر وقت جاری رہتی تھی۔ دوسرے یہ کہ آپ قریشی تھے جن کی زبان اس عہد میں سب سے زیادہ خوبصورت، دل آویز، ہمہ گیر اور تمام قبائل عرب کے لب و لہجہ پر فوقیت رکھتی تھی۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ آپ نے اپنا بچپن قبیلہ بنو سعد میں جو قبائلی عرب میں زبان دانی، فصاحت و بلاغت میں ضرب المثل تھا گزارا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی زبان حقیقت میں "الان" من البیان لسحرا بن گئی تھی۔ جس کے سامنے تمام ادبا اور یکتائے زمانہ فصحا و بلغا کی زبانیں گنگ ہو گئی تھیں، اسی لیے عربی ادب میں حدیث کو قرآن کے بعد دوسرا ادبی شہ پارہ سمجھا جاتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے جو کچھ کہا اسے پوری ایمانداری اور صحت کے ساتھ جمع اور مرتب کر لیا گیا ہے۔ عام طور پر مسلمانوں نے حدیثوں کے چھ مجموعوں کو مستند تسلیم کر لیا ہے۔ ان کو "الصحاح الستہ" کہتے ہیں۔ ان کے مؤلفوں کے نام یہ ہیں : ((1)) البخاری ((م 256ھ، 870))، ((2)) مسلم ((م 261ھ، 875))، ((3)) الترمذی ((279ھ، 892))، ((4)) ابو داؤد ((م 275ھ، 889))، ((5)) النسائی ((م 303ھ، 915)) اور ((6)) ابن ماجہ ((م 273ھ، 886))۔ قرآن مجید کے بعد ان مجموعوں کو ہی مستند تصور کیا جاتا ہے۔

شیعہ حدیث کو اپنے نقطہ نظر سے جانچتے ہیں۔ وہ صرف ان حدیثوں کو مستند اور قابل اعتماد سمجھتے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ یا ان کے ساتھیوں ((اہل بیت)) کی سند پر مبنی ہوں۔ اس موضوع پر ان کی علیحدہ کتابیں ہیں۔ مندرجہ ذیل پانچ کتابوں کو خاص طور پر قابل احترام سمجھتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 564

((1)) الکافی از محمد بن یعقوب، ((2)) مَن لا یَحضُرہ الفقیہ از محمد بن علی بن بابویہ، ((3)) تہذیب الاحکام، ((4)) الاختصار فیمااختلف فیہ الاخبار از محمد طوسی اور ((5) نہج البلاغہ از علی بن طاہر۔

حدیقہ : اس مثنوی کا پورا نام "حدیقہ الحقیقۃ" ہے۔ یہ حکیم سنائی نے 1140 میں فارسی میں لکھی۔ اس کے گیارہ باب ہیں اور دس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ صوفیانہ مسائل کی کتابوں میں اس کا مقام بلند ہے۔ سنائی نے اس میں بادشاہ وقت بہرام شاہ غزنوی ((1128 تا)) 1153 کی مدح کی ہے۔ سنائی نے حدیقہ کے ہر با ب میں حکایات اور امثال پیش کر کے مطالب بیان کیے ہیں۔ وہ ایران کے پہلے بڑی صوفی شاعر ہیں۔ مولانا رومی نے بھی ان کی مدح کی ہے اور انھیں اپنی "دو آنکھیں" کہا ہے۔

حریری ((1122 – 1054)) : محمد بن قاسم بن علی بصری عربی النسل تھا۔ وہ عراق میں المثان نامی بستی میں پیدا ہوا۔ بصرے میں پرورش و تعلیم پائی۔ ریشم کے کاروبار میں مصروف رہتا تھا اسی وجہ سے حریری مشہور ہوا۔ لیکن علمی مصروفتیں جیسے جیسے بڑھتی گئیں، ریشم کا کاروبار کم ہونے لگا۔ امرا نے اس کو اپنا مقرب بنایا اور ادبا اس سے استفادہ کرنے لگے۔ اس کے لباس وغیرہ کی حالت دل پسند نہیں رہتی تھی۔ لیکن ذہنی صلاحیتوں کے لوگ گرویدہ ہو جاتے تھے۔ نظم ادبی نقطہ نظر سے معیاری نہیں لیکن اس کی نثر نگاری نادر روزگار ہے۔ جس میں نظم جیسا رچاو ملتا ہے۔ اس کے تمام اشعار کی کتابی شکل میں ایک جگہ جمع کیا گیا ہے۔ عربی ادب پر "درۃ الغَّواص فی اوھام الخواص" اور علم نحو میں "ملِحۃ الاعراب" اس کی نہایت بلند پایہ تصنیفات ہیں جن سے صرف اہل علم ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ مقبول تصنیف وہ پچاس مقامات ہیں جو "مقامات حریری" کے نام سے معروف ہیں۔ یہ ادب کی بلند پایہ تصنیف مانی جاتی ہے۔ اس کا مقام "ہمدانی کے مقامات" سے بلند خیال
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 565

کیا جاتا ہے۔ مقامات روایت نگاری کی وہ عجیب و غریب قسم ہے جسے نہ افسانہ کہہ سکتے ہیں اور نہ افسانہ تسلیم کرنے پر پابندی لگا سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر مقامات نویسی میں سارا اہتمام عبارت آرائی، زور بیان اور لفظی شعبدہ بازی پر ہوتا ہے۔ اسی لیے افسانے کی طرح اس میں پلاٹ، کردار نگاری اور منطقی نتائج تک پہنچانا ضروری نہیں ہوتا۔ مقامات ((مقامہ کی جمع)) میں عام طور پر ایک ہیرو ہوتا ہے جو نئے نئے تجربات سے لوگوں کو چونکاتا رہتا ہے اور یہ سب کچھ زبان کی جادو بیانی اور سحر آفرینی سے ہوتا ہے۔مقامات کا قاری اس سے زیادہ توقع بھی نہیں رکھتا۔

مقامات میں کلیدی اہمیت لفظی بازی گری کی ہوتی ہے۔ اس نقطہ نظر سے اگر مطالعہ کیا جائے تو حریری کے مقامات اپنے پیشرو بدیع الزمان الھمدانی کے مقامات سے یقیناً فائق و برتر ہیں۔ مگر ادق اور غیر مانوس وحشی الفاظ مقفیٰ اور مسجع عبارت کا اہتمام حریری کے مقامات کی شان امتیاز ہے۔ اس کے علاوہ اکثر صنعتوں کا استعمال حریری نے مختلف مقامات میں نہایت چابکدستانہ بلکہ استادانہ طور پر کیا ہے۔ صنعت اھمال صنعت اعجام صنعت تقلیب ((کوئی شعر یا نثری جملہ اس طرح لکھنا کہ اس کی انتہا سے اگر پڑھنا شروع کیا جائے تو ابتدا تک وہی جملہ یا شعر بن جائے))۔ زمخشری نے مقامات حریری کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ "حریری کے مقامات آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں"۔ اسلامی مدارس میں بہ شمول عرب ممالک اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ درس میں داخل ہونے کے ساتھ ساتھ انھیں زبانی یاد بھی کیا کرتے تھے۔

مقامات حریری اپنی گونا گوں خوبیوں کی بنیاد پر عربی اد ب کا ایک نادر سرمایہ ہے۔ اس نے عربی کے نادر اور قلیل الاستعمال الفاظ کو جمع کر کے زبان و ادب کی گراں قدر خدمت انجام دی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 566

حسان بن ثابت انصاری ((563 – 674)) حضرت حسان بن ثابت انصاری مدینہ کے رہنے والے تھے۔ ہجرت نبوی سے ساٹھ سال پہلے مدینہ میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے اور جب جوان ہوئے تو اپنی قوم خزرج کے شاعر بن کر چمکے۔ اسلام سے پہلے جاہلی شعرا کے مطابق وہ بھی شام کے بادشاہوں، آل جفنہ کے خاندان اور حیرۃ کے بادشاہوں منذریوں کی شان میں مدحیہ قصائد کہہ کر انعام و اکرام حاصل کرتے تھے اور بہت فارغ البال زندگی گزارتے تھے۔ حسان کے اسلام لانے کے بعد بھی وہ لوگ برابر ان کو نوازتے رہتے تھے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے تو حضرت حسان بھی مدینہ والوں کے ساتھ مسلمان ہو گئے اور خدمت نبویﷺ سے اس طرح منسلک ہو گئے کہ مکہ والوں کی مدافعت میں آپ کی ڈھال بن گئے اور ساری زندگی آپ کی خدمت و حفاظت میں گزار دی۔ مکہ کے شعرا نے جب رسول اللہ صلعم کی ہجو گوئی شروع کی اور اس کے جواب دینے کی ضرورت پڑی تو حضرت حسان اس خدمت کے لیے تیار ہو گئے۔ آپ ﷺ کے ایما سے مکہ والوں کا جواب اپنے اشعار سے دینا شروع کیا جس میں ان کی ہجو اور اسلام اور رسول اللہ صلعم کی فوقیت و برتری ثابت کرتے تھے۔

حضرت حسان نے زمانہ جاہلیت میں غسانی اور منذری باشاہوں کی شان میں جو مدحیہ قصائد کہے ہیں وہ زبان و بیان اور معانی و مطالب کے اعتبار سے بہت ممتاز میں اور زمانہ جاہلی کے کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔ ان میں انتہائی وحشی نادر اور قلیل الاستعمال الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اسی لیے ان میں وہ سلاست نہیں جو اسلام کے بعد کی شاعری میں ہے۔ رسول اللہ صلعم کی شان میں کہے ہوئے قصائد اور اہل مکہ کی ہجو میں لکھے ہوئے اشعار، اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے،مدح اور ہجو کا خاص نمونہ ہیں۔ جن میں سلاست و روانی اپنے عروج پر ہے۔ لیکن
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 567

غلو سے پاک ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حسان رضی اللہ کی شاعری، بحیثیت ہیئت و اجزا ترکیبی عہد اسلام میں بھی جاہلی دور سے سرمُو منحرف نہیں ہے۔ مضامین میں تشبیہی اشعار جاہلی دور سے کہیں زیادہ شباب آور ہیں۔ ہجو کا رُخ بدل گیا ہے لیکن اس کی شدت وہی ہے۔ معانی و مطالب کے ادا کرنے میں تکلف یا بہت زیادہ باریک بینی سے کام نہیں لیتے تھے۔ پھر بھی کلام بہت گٹھا ہوا، حسین، دل آویز اور موثر ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلعم کے زمانے کی شاعری میں قرآن کریم کے الفاظ اس کی تعبیرات، عبارات اور شعائر دینیہ کا استعمال اپنے شعر میں کرتے تھے اور انھیں شعر میں ڈھال دیتے تھے۔ جس کی وجہ سے اسلامی رنگ کی شاعری کی ابتدا ہوئی۔ حضرت حسان نے بڑی لمبی عمر پائی۔ آخری عمر میں آنکھوں کی بصارت جاتی رہی۔ حضرت معاویہ کے عہد خلافت میں 674 میں ایک سو بیس سال کی عمر میں وفات پائی۔

حسرت، جعفر علی ((1785/86 – 1734/35)) : دہلی کے رہنے والے اور مرزا ابو الخیر عطار کے بیٹے تھے۔ شعر گوئی شروع کی تو رائے سرب سکھ دیوانہ کی شاگردی اختیار کی۔ جلد ہی خود استادی کا درجہ حاصل کیا۔ شجاع الدولہ کے زمانے میں حسرت فیض آباد پہنچے اور نواب شجاع الدولہ کے دربار سے متوسل ہو گئے۔ جب آصف الدولہ نواب ہوئے اور لکھنؤ دارالسلطنت قرار پایا تو حسرت بھی لکھنؤ آ گئے۔ وہاں انھوں نے مرزا حسن علی خان بہادر کی سرکار سے تعلق پیدا کیا۔ پھر مرزا جہاندار شاہ کی مصاحبت میں رہے۔ آخر عمر میں فقیری اختیار کر کے گوشہ نشین ہو گئے۔ لکھنؤ میں وفات پائی۔ وہیں مدفون ہوئے۔

حسرت کا عام انداز وہی ہے جو اس عہد کی دہلوی شاعری کا تھا۔ جذبات نگاری اور واقعات و واردات کی ترجمانی پر زیادہ زور ہے۔ کلام میں یاس انگیز مضامین کی کثرت ہے۔ معامہ بندی کے موضوعات اشاروں کنایوں تک محدود
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 568

ہیں۔ حسرت کا ایک خاص انداز یہ بھی ہے کہ وہ اکثر غزل کو قطعہ پر ختم کرتے ہیں اور کبھی پوری غزل ایک ہی مضمون پر لکھتے ہیں۔ حسرت کے کلام میں استادی کے تمام جوہر ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ تازگی مضمون سے زیادہ تازگی طرز ادا پر ان کے یہاں زیادہ زور ہے۔

حسرت کے شاگردوں میں شیخ قلندر بخش جرات اور نواب محبت خاں محبت ہیں۔ دو دیوان غزل کے اور ایک پورا دیوان رباعیات کا ان کی یادگار ہیں۔

حسرت موہانی، سید فضل الحسن ((1951 – 1875)) :اناّؤ کے قصبہ موہان میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام اظہر حسین تھا، سادات نیشاپور میں سے تھے۔ ایم۔ اے۔ او۔ کالج میں تعلیم پائی، جہاں ان کی ذہنی تربیت ہوئی اور علمی و ادبی ذوق نشو و نما پایا۔ وہاں وہ انجمن اردو معلی کے سکریٹری بھی مقرر ہوئے۔ آر بندو گھوش اور تلک کی تحریروں سے بہت متاثر تھے۔ اپنی حب الوطنی اور حکومت کی نکتہ چینی کی وجہ سے 1903 میں ان کو کالج سے نکال دیا گیا۔ ادبی اور سیاسی سرگرمیوں میں حسرت کی زندگی گزری۔ 1907 تک کانگریس میں رہے۔ پھر تلک کے ساتھ کانگریس سے علاحدگی اختیار کی۔ ایک مضمون لکھنے کے جرم میں بغاوت کا الزام لگا کر ان کو دو سال قید بامشقت اور پانچ سو روپے جرمانے کی سزا دی گئی۔

وہ کئی بار حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ متھرا کے سالانہ میلے میں بھی پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ 1921 میں آل انڈیا کانگریس کے احمد آباد اجلاس میں وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے آزادیِ کامل کی قرارداد پیش کی تھی۔ اس پر اتفاق رائے نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ کبھی کانگریس سیاست سے ہم آہنگ نہ ہو سکے چنانچہ سنہ 1928 میں انھوں نے کانگریس چھوڑ دی اور مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ آزادی کے بعد وہ دستور ساز اسمبلی کے ممبر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 569

رہے۔ وہ واحد ممبر تھے جنھوں نے دستور اساس ہند پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ تقسیم اور کامن ویلتھ کی ممبری کے بھی خلاف تھے۔

صنف غزل کے احیا میں حسرت موہانی کا بڑا حصہ ہے۔ تسلیم لکھنوی کے شاگرد تھے۔ اساتذہ سخن کے کلام سے انھوں نے غزل کی تمام مسلمہ روایات کا شعور حاصل کیا، لیکن اس کے ساتھ ہی غزل میں ایک نئی جان بھی ڈالی۔ تصنع سے پاک کر کےغزل کو ایک فطری صنف بنایا اور غزل کی ترقی کا ایک نیا راستہ دریافت کیا۔ اس حیثیت سے حسرت غزل کے ایک دبستان کے معمار بھی ہیں۔ سیاسی تجربوں کی جھلکیاں بھی ان کی غزلوں میں ہیں۔ بحیثیت مجموعی حسرت کی شاعری کا غالب عنصر تغزل ہے۔ رئیں ال متغزلین کے لقب سے ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ اردو غزل کی تاریخ میں حسرت کا بڑا مقام ہے۔ حسرت ادبی محقق بھی تھے۔ ان کا علمی کام وقیع ہے۔ ان کے توسط سے اردو کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقی و تنقیدی کام کرنے کی فضا عام ہوئی۔ ایک دیوان ان کی یادگار ہے۔ غالب کی شرح بھی لکھی جو ان کا بڑا کارنامہ ہے۔

حسن سجزی، نجم الدین ((1337)) : نجم الدین امیر حسن علاء سجزی بدایوں ((اتر پردیش)) میں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ شیخ الاسلام قطب الدین ((جد بزرگوار قاضیان بدایوں)) ممکن ہے کہ ان کے استاد رہے ہوں۔ وہیں شعر کہنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد دہلی آئے اور لشکر میں ملازمت اختیار کی۔ کبھی کبھار حضرت محبوب الہی کی خانقاہ میں بھی حاضری دیتے جہاں امیر خسرو سے ان کی دوستی ہوئی۔ غیاث الدین بلبن کا لڑکا سلطان محمد 1270 میں بلبن کے عم زاد بھائی شیر خاں کے انتقال پر ملتان کا گورنر مقرر ہوا۔ اس نے تاتاریوں کے حملے سے مغربی علاقے کو نجات دلائی اور امن قائم کیا۔ وہ ہر دوسرے تیسرے سال باپ سے ملنے دہلی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 570

آتے تھے۔ جب 1279 میں دہلی آئے تو امیر خسرو اور امیر حسن کی شاعری کی شہرت سنی۔ انھوں نے امیر خسرو کو مصحف داری اور امیر حسن کو دولت داری کی خدمت سپرد کی اور اپنے ساتھ ملتان لے گئے۔ شہزادہ سلطان محمد، عالم، فاضل، سیاسی، مدبر اور علم و ادب کا قدردان تھا۔ اس نے ان دونوں شعرا کی بھی خوب قدر کی اور وہ ندما کی حیثیت سے انعامات سے سرفراز ہوتے رہے۔ 1284 میں تیمور خاں نامی ایک تاتاری جو افغانستان کا حاکم تھا، لوٹ مار کرتا ہوا لاہور اور دیپال پور تک آ گیا اور ملتان کی طرف بڑھا۔ شہزادہ سلطان محمد نے بھی بہادری دکھائی لیکن لڑتا ہوا مارا گیا۔ اس کی موت پر امیر خسرو نے ایک مرثیہ ترکیب بند لکھا اور امیر حسن نے نثر میں اپنے جذبات غم کا اظہار کیا۔ یہ دونوں دہلی واپس ہوئے۔ امیر خسرو اپنے وطن پٹیالی گئے اور امیر حسن گوشہ نشین ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد امیر خسرو نے خان جہاں کی ملازمت اختیار کی اور امیر حسن لشکر ہی سے منسلک رہے۔ امیر خسرو نے بعد میں جلال الدین خلجی کی مصحف داری کی اور ندیم بھی ہوئے لیکن امیر حسن لشکر ہی میں رہے۔ علاء الدین خلجی کے عہد ((1316 – 1295)) میں امیر خسرو کے ساتھ امیر حسن بھی ندما میں شال ہوئے۔ دوسرے شعرا کی طرح انھیں بھی ایک ہزار تنگہ مواجب دیوان عرض سے ملتے تھے۔ چھپن سال کی عمر میں آپ حضرت نظام الدین محبوب الہی کے مرید ہوئے اور 1317 سے اپنی مشہور تصنیف ملفوظات حضرت محبوب الہی یعنی فوائد الفواد لکھنا شروع کی۔ یہ سلسلہ 1322 تک قائم رہا۔ اس اثنا میں انھوں نے علاء الدین خلجی کی مدح کی ہے۔ حضرت محبوب الہی کی خانقاہ میں محفل سماع منعقد ہوتیں تو ان میں حضرت امیر خسرو کے علاوہ امیر حسن کی بھی غزلیں گائی جاتی تھیں۔ حسن کا دیوان عوام میں مقبول ہو گیا تھا اور بعض حضرات اس کو اپنے درس میں شامل کر چکے تھے۔ محمد تغلق نے جب 1326 میں دولت آباد بسانے کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ571

فرمان جاری کیا تو حضرت برہان الدین غریب حضرت سید یوسف راجا ((والد حضرت محمد گیسو دراز)) اور شیخ زین الدین قدس اللہ اسرارہم کے ہمرا دولت آباد آ گئے اور یہیں 1337 میں وفات پائی۔
میر حسن نے حصول دولت کی کبھی کوشش نہ کی۔ علاء الدین خلجی کے سوا اور کسی کی تعریف میں قصیدہ نہیں لکھا۔ غزل میں انھوں نے شیخ سعدی کا اتباع اس قدر کیا کہ سعدی ہند کا لقب پایا۔ ان کی نظم و نثر صحت، ترکیب اور روانی میں لاجواب ہے۔ غزلیں نہایت جگر سوز ہیں۔

مولانا عبد الرحمن جامی لکھتے ہیں کہ خواجہ حسن نے غزل گوئی میں ایک خاص طرز اختیار کیا تھا۔ اکثر تنگ قافیوں اور غیر معمولی ردیفوں میں شعر کہتے تھے۔ فیضی نے لکھا ہے کہ ان کا کلام ایک آن رکھتا ہے۔ غرض حسن کے اشعار سوز و گداز سے پُر، زبان شیریں اور سلیس، مضامین صاف اور صوفی ہونے کے باوجود ان کا کلام عاشقانہ رنگ لیے ہوتے ہیں۔

انھوں نے قصائد، مثنویاں اور رباعیاں بھی لکھی ہیں۔ لیکن غزل کا رنگ ان اصناف میں نہیں۔

حسن شوقی : دیکھیے شوقی، حسن

حسن نظامی، خواجہ ((1955 – 1875)) : دہلی میں پیدا ہوئے۔ کمسنی میں والد کا انتقال ہو گیا۔ پرورش بڑے بھائی نے کی۔ عربی زبان اور صرف و نحو کی تعلیم دہلی اور دوسرے تعلیمی مرکزوں میں حاصل کی۔ اپنے وقت کے بڑے صوفی تھے۔ ذریعہ معاش کتابوں اور دواؤں کی تجارت تھا۔ ان کی ساری زندگی مضمون نگاری اور تصنیف و تالیف میں صرف ہوئی۔ کئی ہفتہ وار جاری کیے۔ 1911 میں بلاد اسلامیہ کا سفر کیا تھا۔ دہلی میں انتقال ہوا، وہیں مدفون ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 572

خواجہ صاحب ہندو مسلم اتحاد کے زبردست ترجمان تھے۔ اس کا اظہار ان کی تحریروں میں جابجا ہوا ہے۔ ان کی مقبولیت، ان کی علمی و مذہبی خدمات کی وجہ سے ہے، لیکن ان کی شہرت کا اصل سبب ان کی کتابیں ہیں۔ ان کا طرز تحریر اپنے بے ساختہ پن اور بے تکلفانہ انداز کے باعث بہت دلکش اور مؤثر ہے۔ اسلوب میں سوز و گداز کا رنگ بھی نمایاں ہے۔ منفرد طرز تحریر کے مالک تھے۔ دہلی کی زبان اور محاورے پر انھیں عبور حاصل تھا۔ عمر بھر ان کی کوشش یہ رہی کہ متصوفانہ مضامین کو عام لوگوں کے لیے قابل فہم بنایا جائے۔ اس غرض سے انھوں نے رسالے "منادی" اور "نظام المشائخ" جاری کیے۔

ان کی تصنیفات کی تعداد پچاس سے زائد بیان کی جاتی ہے۔ ان کے موضوعات تاریخی، ادبی اور مذہبی ہیں۔ قابل ذکر کتابیں یہ ہیں : آپ بیتی، غدر دہلی کے افسانے، سی پارہ دل، یزید نامہ، محرم نامہ، بیوی کی تعلیم، میلاد نامہ، کرشن بیتی، جگ بیتی، فلسفہ شہادت، روزنامچہ اور مجموعہ خطوط حسن نظامی وغیرہ۔

حسین ((زمانہ اٹھارویں صدی)) : پیر پاشا حسین علی کے بیٹے بابا شاہ حسن کے پوتے اور امین الدین علی اعلی شاہ کے پڑپوتے تھے۔ علوم معقولات و منقولات میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ ایک مختصر دیوان ان کی یادگار ہے جس میں مرزا مظہر جان جاناں اور یقین کی زمین میں چند غزلیں ہیں۔ امین الدین علی اعلی شاہ کی مدح میں دو مسدس ہیں۔ وحدت الوجود کے موضوع پر ان کی مختصر مثنوی "گنجینہ الاسرار" ہے۔ زبان سلیس اور شیریں ہے۔ چھوٹی بحر میں جادو جگایا ہے۔ شاہ تراب الدین کے خلیفہ تھے۔

حسین شاہ ((1493 – 1519)) : پندرہویں صدی عیسوی میں بنگال پر ترک اور پٹھان سلطانوں کی حکومت تھی۔ لیکن ان پر بنگالی اثرات مرتب ہو گئے تھے اور وہ بنگلہ ادب کے حامی اور مددگار بن گئے تھے۔ ایسا ہی ایک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 573

حکمران حسین شاہ تھا جس کا زمانہ 1493 سے 1519 تک سمجھا جاتا ہے۔ اس نے چٹ گاؤں کے اپنے انتہائی سمجھدار صوبہ دار اور اپنے فرزند رشید ناصر الدین نصرت سے ہندوستان کی بے حد مشہور رزمیہ مہابھارت کا ترجمہ بنگلہ زبان میں مکمل کرایا۔ اس تالیف کا نام "پانڈو وجئی" رکھا گیا اور حکومت کے ذریعہ اس کی تیاری اور اشاعت عمل میں آئی۔

حسین میاں ظریف، غلام حسن ((1896 – 1813)) : علاقہ دکن کے رہنے والے تھے۔ ممبئی میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ظریف کے ڈراموں کی غرض و غایت محض تفنن طبع اور دو گھڑی کا دل بہلاوا تھا۔ انھوں نے بیشتر قدیم ڈراموں کو اپنی تصنیف کی بنیاد بنایا۔ انھوں نے کوئی ڈرامہ طبع زاد نہیں لکھا۔ زبان و بیان کی خامیاں بہت ہیں۔ زبان عام بول چال کی استعمال کی ہے۔

حسین واعظ کاشفی بن علی بیہقی سبزواری واعظ ملقب بہ کمال الدین ((م۔ 1504)) : سبزوار میں پیدا ہوا۔ حصولِ علم کے بعد وعظ کہنے لگا۔ سبزوار سے نیشاپور اور مشہد گیا۔ ہرات پہنچ کر عبد الرحمن جامی سے استفادہ کیا اور سلسلہ نقشبندیہ سے منسلک ہوا۔ تصنیف و تالیف کے ساتھ رشد و ہدایت اور وعظ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ سلطان حسین بایقرا والی ہرات نے قدر افزائی کی اور اس کے وزیر علی شیر نوائی نے اس کی سرپرستی کی۔ یہیں اس نے اپنی مشہور کتاب کربلا کے واقعات پر "روضۃ الشہدا" لکھی جو بلحاظ تاریخ قابلِ اعتماد نہیں۔ کاشفی کی تصانیف کی تعداد 35 ہے۔ اس میں جواہر التفسیر، تفسیر حسینی، اخلاق محسنی اور انوار سہیلی نے شہرت پائی اور روضۃ الشہدا کی شہرت ایران سے ہندوستان تک پہنچی جہاں اس کے کئی ترجمے ہوئے۔ کاشفی نے طویل عمر پائی اور 1504 میں ہرات میں انتقال کیا۔ "مخدوم محمد حسین مادہ" تاریخ وفات ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 574

حفیظ الدین احمد ((زمانہ اٹھارویں و انیسویں صدی)) : حفیظ الدین نام احمد تخلص تھا۔ ان کے پردادا شیخ حسن دکن سے بنگال گئے۔ ان کے والد شیخ بلال الدین محمد ابن شیخ محمد ذاکر صدیقی وارن پسٹنگز کے قائم کردہ نیٹیو کالج میں مدرس ہوئے۔ حفیظ الدین نے اپنے والد سے تعلیم پائی اور فورٹ ولیم کالج کے قیام کے ساتھ عربی و فارسی کی تعلیم اور کتابوں کے ترجمہ پر مامور ہوئے۔ عربی کے "کلیہ و دمنہ" کا قصہ فارسی میں "انوار سہیلی" کے نام سے ملا حسن واعظ کاشفی نے کیا۔ ابو الفضل نے اس کو پیش نظر رکھ کر "عیار دانش" لکھی۔ حفیظ الدین نے اس کا اردو ترجمہ "خرد افروز" کے نام سے کیا۔ وہ سنہ 1815 سے کچھ پہلے دہلی گئے اور سر چارلس مکاف ریزیڈنٹ دہلی کے میر منشی مقرر ہوئے۔

حفیظ جالندھری، ابو الاثر ((1900 – 1982)) : جالندھر میں پیدا ہوئے۔ مولانا قادر گرامی سے تلمذ حاصل کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران حکوتِ برطانیہ نے انھیں دہلی میں سانگ پبلی سٹی آرگنائزیشن کا ڈائرکٹر مقرر کر دیا تھا۔ شعر گوئی کی صلاحیت فطری تھی۔ حفیظ کا مطالعہ تو محدود تھا اور انھیں اکتساب علم کے مواقع بھی کم ملے تھے، مگر ان کی طبعیت میں موزونیت بہت تھی۔ اسی لیے ان کی شاعری کا نمایاں وصف بھی اس کی عشائیت، سادگی اور شیرینی ہے۔ ان کے شاہ نامہ اسلام کو غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور حفیظ کا نام زبان زدِ خاص و عام ہو گیا۔ اپنے ترنم کی وجہ سے مشاعروں میں بھی بہت پسند کیے جاتے تھے۔ جن اصناف میں انھوں نے امتیاز حاصل کیا وہ گیت اور نظم ہیں۔
 
Top