اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۴۷

بکسلے، آلڈس لیونارڈ ((۱۹۶۳ – ۱۸۹۴، Huxley, Aldous Leonard)) : بکسلے انگریز مصنف ہے۔ یہ مشہور سائنس داں تھامس بکسلے کا پوتا تھا۔ اٹین ((Eton)) اور آکسفورڈ میں تعلیم پائی۔ یوروپ کی سیر کے زمانہ میں اٹلی میں اس کی ڈی۔ ایچ۔ لارنس سے ملاقات ہوئی اور دونوں میں گہری دوستی ہو گئی۔ ۱۹۳۰ میں وہ امریکا آیا اور پھر یہیں رہنے لگا۔ ۱۸ سال کی عمر ہی سے اس کی آنکھیں خراب ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ساری عمر ان کو بچانے پر صرف ہو گئی۔

بکسلے کی ادبی زندگی نظم گوئی سے شروع ہوئی۔ کچھ تنقیدی مضامین لکھے اور پھر ناول کا رخ کیا۔ اپنے ناولوں "کروم یلو" ((Crome Yellow))، "پائنٹ کاونٹر پائنٹ" ((Point Counter Point)) وغیرہ میں اس نے ایک زوال پذیر سماج کا نقشہ پیش کیا ہے۔ انداز نہایت طنزیہ ہے۔ "بریو نیو ورلڈ" ((Brave New World)) میں اس نے پچیسویں صدی میں آنے والے سماج کا ایک خیالی خاکہ پیش کیا ہے جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے آئی لس ان غزہ ((Eyeless In Gaza))، "ڈیولز آف لندن" ((Devils of London))، "دی جینیس اینڈ گوڈیس" ((The Genius and Goddes)) وغیرہ لکھیں۔ ان میں نئے نئے خیالات کی بھرمار ہے۔ نئے نئے قسم کے پلاٹ ہیں۔ اس کی تحریر سے صاف جھلکتا ہے کہ اسے موجودہ سماج سے کس قدر ناامیدی ہو گئی تھی۔ اور اس کی وجہ سے نفرت اور حقارت کا جذبہ پرورش پا گیا تھا۔

بکسلے کی بعد کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ اسے تصوف ((Mysticism)) اور مشرقی فلسفہ سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ ناولوں کے علاوہ اس کی کہانیوں اور مضامین کے مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۴۸

ہمالیہ کی بولیاں : دیکھیے پہاڑی بولیاں

ہمدانی، ابو الفضل احمد بن حسین ((م۔ ۱۰۰۷)) : ابو الفضل احمد بن حسین ہمدان میں پیدا ہوا اور وہیں پرورش پائی۔ فارسی اور عربی دونوں زبانوں میں علوم حاصل کیے اور ہمدان کے تمام علما سے فیض حاصل کیا اور انھیں کی سرپرستی حاصل کی۔ ۹۹۰ میں نیشاپور پہنچا۔ جہاں اپنی صلاحیت کے جوہر دکھائے اور چار سو مقامات یا مقالے لکھے۔ یہاں نیشاپور ادیب سے ادبی چشمک ہوئی اور مناظرے ہونے لگے جن میں خوارزمی پر ہمدانی اس قدر چھا گیا کہ وہ اپنی شکست کے غم میں زیادہ دنوں تک زندہ نہ رہ سکا۔ ہمدانی نظم و نثر کا دھنی تھا۔ نظم میں اس کا ایک دیوان بھی ہے۔ نثرنگاری میں اپنے استاد ابن فارس کی طرز کو اجاگر کیا۔ جو کوفے کے دبستان کا مشہور عالم لغت و صرف و نحو تھا۔ وہ کچھ عرصہ ہمدان میں درس دیتا رہا۔ جہاں ہمدانی نے ایسا فیض حاسل کیا کہ مقالات نویسی کا بانی خیال کیا جانے لگا۔ مقالات چھوٹے دلچسپ قصے ہیں جو ادبی صنعتوں، اچھے استعارات اور تلمیحات و اشعار سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اس کی معیاری کتاب "مقامات بدیعی" کے نام سے عام طور پر معروف ہے۔

ہمسن، کُنٹ ((۱۹۵۲ – ۱۸۵۹، Hamsun, Knut)) : ہمسن ناروے کا ناول نگار ہے۔ اپنی جوانی کا زمانہ اس نے مٹر گشتیوں میں گزارا۔ جب وہ دوبارہ امریکہ گیا تو وہاں اس نے گاڑیوں کے کنڈکٹر، لکچرر، پھیری والے، کلرک، کھیت، مزدور، غرض کہ ہر قسم کے کام کیے۔ اس کی جہاں بینی کا عکس اس کے تمام ناولوں میں ملتا ہے۔ اس کا نیچری ناول "بھوک" کافی مشہور ہوا اور تنقید کا سخت نشانہ بھی بنا۔ اس کا شاہکار "گروتھ آف دی سوائل" ((
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۴۹

Groth of the Soil)) ہے۔ اس نے اس میں دیہات کی سادہ زندگی کو نئے صنعتی سماج کے مقابلہ میں پیش کیا ہے۔ اس نے کئی ڈرامے، خوبصورت نظمیں اور کئی دوسرے ناول بھی لکھے ہیں۔

ہمسن کو ۱۹۲۰ میں ادب کا نوبل انعام ملا۔ دوسری عالمگیر جنگ کے دوران اس کی مقبولیت بالکل ختم ہو گئی۔ اس لیے کہ اس نے ناروے پر ہٹلر کے حملہ کی تائید کی تھی۔

ہملیٹ ((Hamlet)) : دنیا کا عظیم ادبی شاہ پارہ اور شیکسپیئر کا سب سے مشہور و مقبول ڈرامہ۔ اس کی کہانی قدیم جرمن دور کی ہے۔ یہ سب سے پہلے ۱۲۰۰ میں ڈنمارک کے عالم سیسکو گوامیٹی کس نے لکھی تھی۔ اس نے یہ کہانی اس طرح بیان کی تھی کہ شہزادہ ایملتھ ((Amleth)) کے باپ کو اس کے چچا نے قتل کر کے تخت حاصل کر لیا تھا۔ اس قتل سے ہر شخص واقف تھا۔ نوجوان ایملتھ نے اپنی جان بچانے اور بعد میں بدلہ لینے کی خاطر یہ ظاہر کر دیا کہ وہ پاگل تھا۔ شہزادہ انگلستان سے واپس آ رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ اس کے چچا کے دربار میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ وہ مر گیا ہے اور اس کا جشن منایا جا رہا ہے۔

ہملتھ نے اپنے کو پاگل ظاہر کیا اور تمام درباریوں کو شراب میں مدہوش کر دیا۔ موقع پا کر محل میں آگ لگا دی اور چچا کو قتل کر دیا اور اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس مبنی ایک ڈرامہ تھامس کڈ ((T.Kyd)) نے سولہویں صدی کے آخر میں لکھا تھا۔ شیکسپیئر نے اسے پھر دوبارہ لکھا اور اس میں کافی تبدیلیاں کر دیں۔ کڈ نے یہ ظاہر کیا تھا کہ ہملیت بیرونی حالات کی وجہ سے اپنے چچا سے بدلہ نہ لے سکا۔ شیکسپیئر نے اس کی وجہ یہ پیش کی کہ ہملیٹ بڑے پیچیدہ مزاج کا تھا۔ پچھلی صدیوں میں اس ڈرامہ کے ماخذ اور ہملیٹ کے کیرکٹر پر بڑی بحثیں رہیں اور بے شمار مضامین لکھے گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۵۰

ہند یورپی خاندان کی زبانیں : زبانوں کے خاندانوں میں یہ سب سے بڑا اور اہم خاندان ہے۔ اس خاندان کی زبانوں کو عموماً دو گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس تقسیم کی بنیاد سو کے عدد کے لفظ پر رکھتے ہیں جس کی نشو و نما دونوں گروہوں میں الگ الگ طور پر ہوئی :

((۱)) سینتم ((Centum)) گروہ جس میں مغربی یعنی یوروپی زبانیں شامل ہیں۔
((۲)) سیٹم ((Satem)) گروہ جس میں مشرقی یعنی مشرقی یوروپ، ایران اور ہند کی زبانیں ہیں۔

سینٹم گروہ کی حسب ذیل شاخیں ہیں :

((i)) کلٹی، ((ii)) جرمانی یا یٹوٹانی، ((iii)) اطالوی، ((iv)) یونانی، ((v)) ہٹائیٹ، ((vi)) طخاریائی۔

((i)) کلٹی ((Celtic)) : عہد قدیم میں ایشیائے کوچک تک پھیلی ہوئی تھی۔ اب اس کی زبانیں مغربی یورپ تک ہی محدود ہیں۔ اس کی دو ذیلی شاخیں ہیں۔ ((۱)) ق۔ کلٹی جس سے قدیم و جدید آئرش اسکاچ اور گالک زبانیں نکلی ہیں۔ ((۲)) پ۔ کلٹی جس سے ویلش کارش اور بریٹن زبانوں کا تعلق ہے۔

((ii)) جرمانی یا یٹوٹانی ((Germanic or Teutonic)) : اس کی تین ذیلی شاخیں ہیں :

((الف)) مشرقی جس کی نمائندہ زبان"گاتھی" ہے۔

((ب)) مغربی جس میں لوجرمن ((Low German)) اور ہائی جرمن ((High German)) دو گروہ ہیں۔ پہلے گروہ سے تعلق رکھنے والی زبانیں ڈچ، فریشین قدیم وسطی، اور جدید انگریزی ہیں اور دوسری سے جرمن اور بوہری زبانیں نکلی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۵۱

((ج)) شمالی جس میں قدیم ناروے ((نارسے کی)) آئس لیندی اور نارویجین اور سیویڈی ((سویڈن کی))، ((ڈینش))، ((ڈنمارک)) اور ((اسکینڈ نیویائی)) شامل ہیں۔

((iii)) اطالوی ((Italic)) : اس کی بھی کلٹی کی طرح دو ذیلی شاخیں ہیں۔ ((الف)) ق۔ اطالوی جس کی نمائندہ زبان قدیم لاطینی ہے جس سے وسطی اور جدید لاطینی نکلی ہیں۔ موجودہ زبانوں میں لاطینی سب سے اہم ہے۔ اس کے علاوہ دوسری اہم زبانیں فرانسیسی، ہسپانوی، رومانوی اور پرتگالی ہیں۔ ((ب)) پ۔ اطالوی۔ اس کی نمائندہ زبان روپبلکن ہے۔

((iv)) یونانی ((Hellanic)) : اس کی چار ذیلی شاخیں ہیں : ((الف)) مغربی۔ جس میں Achacan, Doric, Elcan اور شمال مغربی بولیاں جیسے Locrian, Actolian, Acarnanian, Epiroteشامل ہیں۔ ((ب)) وسطی یا ((Acotic)) جس میں Thessalian, Bocotian اور Lesbian شامل ہیں۔ ((ج)) Arcado-Cyprian جس میں ایک طرف Arcadian ہے اور دوسرے طرف Pamphytian Cyprian اور ((د)) جس میں Lonic اور Attic زبانیں ہیں۔ یونانی زبان کے ارتقا کی چار منزلیں بتائیں جاتی ہیں۔

((i)) ہومری نظموں کی زبانیں، ((ii)) کلاسیکی یونانی، ((iii)) عبوری دور کی یونانی اور ((iv)) جدید یونانی۔

((v)) ہٹائیٹ ((Hittite)) : اسے ایک علیحدہ خاندان سمجھا جاتا رہا مگر تحقیقات سے ثابت ہوا کہ ہٹائیٹ سنٹج گروہ سے تعلق رکھنے والی شاخ ہے۔ قدیم ہند یوروپی کی دستاویز میں اسی زبان میں دریافت ہوئی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۵۲

ہیں، جو پہلی بار ۱۸۹۳ میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے بعد ایشیائے کوچک میں دستیاب ہوئیں۔ ان کا تعلق نویں اور تیرہویں صدی قبل مسیح سے ہے۔ یہ زبان اب موجود نہیں۔

((vi)) طخاریائی ((Tokharian)) : چینی ترکستان میں جو دستاویزیں ملی ہیں ان سے اس زبان کے نمونے سامنے آئے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی دو شاخیں تھیں۔ ایک پربالٹو سلاوی زبانوں کا اثر تھا اور دوسری پر یونانی، آرمینین اور تھراکوفرئین کا۔ لسانی خصوصیات میں طخریائی میں پانچ مختصر مصوتے پائے جاتے ہیں اور مصمتوں میں غیر مسموع وقفیے پ، ت اور ک۔

سیٹم گروہ میں چند شاخیں ہیں :

((i)) بالٹو، سلاوی، ((ii)) آرمینی، ((iii))) البانوی اور ((iv)) آریائی یا ہند ایرانی۔

بالٹو سلاوی ((Balto-Slavic)) کی دو شاخیں ہیں : ((الف)) سلاوی، ((ب)) تالئو۔ سلاوی کا قدیم روپ قدیم چرچ سلاوی یا قدیم بلغاریائی ہے۔ موجودہ زبانیں تین ذیلی شاخوں میں بٹی ہیں : ((i)) جنوبی شاغ جس میں بلغاریائی، سربوکروئین اور سلوینین ہیں۔ ((ii)) مغربی شاغ جس میں چیک سلواک پوش اور وینڈس زبانیں ہیں اور ((iii)) مشرقی شاغ جس میں گریٹ رشین ((روسی))، وہائٹ رشین اور یوکرینی زبانیں آتی ہیں۔ تالئو شاغ میں قدیم پرشین، لتھوینین اور لٹوینین زبانیں شامل ہیں۔

آرمینی ((Armenian)) جنوبی کاکیش اور مغربی ترکی کی زبان ہے۔ پانچویں صدی عیسوی تک اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملتی۔ یونانی اور اکاڈین لوگوں کی فراہم شدہ معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ آرمینی لوگ ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ قدیم ترین تحریریں پانچویں صدی عیسوی کی ہیں جو کلاسیکی آرمینی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۵۳

موجودہ آرمینی کی دو شکلیں ہیں۔ مشرقی جو روس اور ایران کے بعض حصوں میں بولی جاتی ہے اور مغربی جو ترکی میں رائج ہے۔ اس کے علاوہ لبنان اور یوروپ کے کچھ حصوں اور امریکا میں بھی اس کے بولنے والے ہیں۔ ایرانی زبانوں کا اس پر بہت اثر ہے۔

البانوی ((Albanian)) کی قدیم تاریخ کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں۔ اس کی دو بولیاں ہیں، توسک ((Tosk)) اور گیگ ((Geg))۔ اس پر روسی لاطینی علما اس کو قدیم الی ریین اور تھراشیین زبانوں کی موجودہ شکل سمجھتے ہیں۔ اس کی ذیلی شاخیں فریجیین اور ارارات ہیں۔

آریائی یا ہند ایرانی ((Aryan or Indo-Iranian)) : ہند یوروپی زبانوں میں یہ شاخ بھی ایسی ہے جس میں قدیم ترین زبان کے نمونے دستیاب ہوتے ہیں۔ اس کی دو ذیلی شاخیں ہیں : ((i)) ایرانی اور ((ii)) ہند آریائی۔

ایرانی شاخ ملک ایران اور کاکیشس کے کچھ حصوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے ارتقا کی تین شکلیں ہیں : قدیم، وسطی اور جدید۔ قدیم دور کی نمائندہ زبانیں قدیم اور اویستا ہیں جس میں زرتشیتوں کی مذہبی کتاب لکھی گئی۔ اویستا سے کوئی زبان نہیں نکلی۔ البتہ قدیم فارسی سے وسطی فارسی یا پہلوی اور ہزوارش ماخوذ ہیں۔ جدید ایرانی کی اہم زبانیں فارسی کروش، ارموری، ماژندرانی، سنمعانی گلاکی، تالی کاشانی، نیانی سیوندی ہیں جو مغربی ایران میں ہیں۔ مشرقی ایران کی زبانیں روشانی اور ایرانی کی ایک شاخ افغانی افغانستان میں ہے جس کی دو ذیلی شاخیں پشتو اور پختو ہیں۔ بلوچستان میں بھی ایرانی کی ایک شاخ ہے بلوچی جس کی ایک بولی کرانی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۵۴

ہند آریائی ((Indo-Aryan)) ہندوستان کی زبانوں کے نقطہ نظر سے ہند یوروپی خاندان کی یہ شاخ نہایت اہم ہے۔ ہند آریائی کا ارتقا ہندوستان میں آریہ قوم کی ۱۵۰۰۰ قبل مسیح آمد سے لے کر موجودہ زمانے تک ہوا ہے جس کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے : ((۱)) قدیم ہند آریائی ((Old Indo-Aryan))، ((۲)) وسطی ہند آریائی ((Middle Indo-Aryan)) اور ((۳)) جدید ہند آریائی ((New Indo-Aryan ))۔

قدیم ہند آریائی کا مستند نقش رگ وید کی زبان ہے۔ اس کے مقابلے میں عوام میں رائج بول چال کی زبان تھی جس کو پراکرت کہا جاتا ہے۔ جیسے جیسے آریہ مغربی ہند سے مشرقی ہند کے مختلف حصوں میں پھلتے گئے ان کی بول چال کی زبان یعنی پراکرت بھی ان کے ساتھ گئی۔ آریوں کا سابقہ ہندوستان کی قدیم قوموں میں کول، منڈا اور دراوڑ قوم کے لوگوں اور ان کی زبان سے ہوا جس کے نتیجے میں آریوں کی زبان متاثر ہوئی اور وہ اپنی اصلی حالت پر نہ رہی۔ مختلف علاقوں میں پہنچ کر پراکرت کی مختلف شکلیں ہو گئیں یعنی شمال مغربی، شمال وسطی، مشرقی اور جنوبی۔

آریائی زبان کو مقامی یا دیسی زبانوں کے لسانی اثرات سے محفوظ رکھنے اور خالص کرنے کی کوشش سے ایک ٹکسالی زبان وجود میں آئی جس کو سنسکرت کا نام دیا گیا۔ ۳۰۰ ق۔م۔ میں مشہور قواعد نویس پانینی نے سنسکرت کی قواعد لکھی۔ اس زبان کا استعمال صرف برہمنوں تک محدود تھا۔ عوام کی زبانیں پراکرتیں تھیں جن کی کوئی قواعد نہیں تھی لیکن فطری طور پر ارتقا پا رہی تھیں۔ سنسکرت ایک محدود طبقے کی زبان ہونے کی وجہ سے اس کا رواج کم ہونے لگا۔ دوسری طرف پراکرتیں عوام کا سہارا پا کر فطری طور پر آگے بڑھنے لگیں۔ بدھ اور جین
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۵۵

مذہب کے آغاز کے بعد ان کے بانیوں نے پالی نام کی پراکرت کو سنسکرت کے مقابلے میں اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کا ذریعہ بنایا۔ اس طرح پہلی بار ایک پراکرت بھی تحریری کاموں میں استعمال ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ دوسری پراکرتوں مین بھی تحریر کا آغاز ہو گیا اور وہ بھی کچھ صدیوں بعد ادبی زبانیں بن گئیں۔ ان میں سے پانچ پراکرتیں مشہور ہیں : ((۱)) شورسینی پراکرت، شورسین دیس یعنی دوآبہ متھرا اور اس کے آس پاس کے علاقے کی زبان، ((۲)) ماگدھی۔ مگدھ دیس یعنی جنوبی بہار کی زبان، ((۳)) اردو ماگدھی۔ پُورب یعنی شورسین اور ماگدھی کے درمیانی علاقے کی زبان، ((۴)) مہاراشٹری۔ یہ کسی مخصوص علاقے کی زبان نہین تھی مگر پراکرتوں میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور معیاری تھی۔ ادبی زبان کی حیثیت سے اس کا استعمال زیادہ تھا۔ اور ((۵)) پشاچی۔ پنجاب اور کشمیر کے درمیانی علاقہ کی زبان۔

ہندوستانی اکادمی، الہ آباد : انگریزی اقتدار کے قیام کے بعد اردو اور ہندی دونوں زبانوں کی ترقی میں تیزی آئی۔ زبانوں کی توسیع اور کتابوں کی اشاعت کو منظم کرنے کے لیے علم دوستوں کی تحریک پر حکومت اتر پردیش نے ہندوستانی اکادمی کے نام سے ۱۹۲۷ میں ایک ادارہ قائم کیا۔ اس کے مقاصد میں اردو اور ہندی ادب کی ترقی اور نشو و نما، فاضل مصنفین کو معقول معاوضہ دے کر مختلف موضوعات پر کتابیں لکھوانا اور ان کو شائع کرنا، ملکی اور غیر ملکی زبانوں سے منتخب کتابوں کے ترجمے کروا کر شائع کرنا، یونیورسٹیوں میں اردو اور ہندی زبانوں کے طلبا کو وظائف دینا اور ان کی تالیف و تصنیف کے کام میں حوصلہ افزائی کرنا، قدیم اور اہمیت رکھنے والی کتابوں کی دوبارہ اشاعت، لغات اور انسائیکلوپیڈیا وغرہ کی ترتیب و تدوین اور ملک کے لیے مشترکہ زبان کے مسئلہ کو حل کرنا، کتب خانے قائم کرنا اور مذاکرات کا اہتمام کرنا تھا۔ اس کے سرپرست اترپردیش کے گورنر سر ولیم میرس تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۵۶

وزیر تعلیمات، ناظم تعلیمات الہ آباد، بنارس، لکھنؤ اور علی گڑھ کے جامعات کے وائس چانسلر اور دیگر ماہرین تعلیم اکادمی کے رکن تھے۔ اکادمی کی تین ذیلی کمیٹیاں تھیں : ((۱)) کونسل، ((۲)) عاملہ اور ((۳)) رفقا۔ ان کے فرائض بھی الگ الگ تھے اور ان کے اراکین بھی متعدد تھے جن میں یونیورسٹیوں کے اردو کے اساتذہ بھی شریک تھے۔ سر تیج بہادر سپرو کو اس اکادمی کا صدر اور ڈاکٹر تارا چند کر سکریٹری منتخب کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی کے اراکین میں پریم چند، سجاد حیدر یلدرم، دیا نرائن نگم، پنڈت منوہر لال زتشی، عبد الماجد دریا بادی اور نیاز فتح پوری بھی شریک تھے۔ اکادمی نے اشتراک زبان کے سلسلے میں طے کیا تھا کہ اردو ہندی دونوں زبانوں کو آسان بنایا جائے اور انھیں دیوناگری اور فارسی رسم خط میں لکھا جائے تا کہ وہ باآسانی پڑھی جا سکیں۔ اکادمی نے "ہندوستانی" کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ بھی جاری کیا جس کا پہلے شمارہ ۱۹۳۱ کو منظرِ عام پر آیا۔ اس کے مدیر اصغر گونڈوی تھے۔ اکادمی نے جامعات کے ان طلبا کو انعامات بھی دیے جنھوں نے ہندی اور اردو میں مختلف موضوعات پر مختصر کتابچے اور کتابیں لکھیں۔ اکیڈمی نے ۱۹۴۸ تک جن مصنفین کی تقریباً تیس کتابیں شائع کیں ان میں علامہ عبد اللہ یوسف علی، جگت موہن لال رواں، منوہر لال زتشی، ڈاکٹر ذاکر حسین، محمد مبین کیفی چریا کوٹی، کشن پرشاد کول، محمد مجیب، جلیل قدوائی، مولوی مہیش پرشاد اور خواجہ غلام السیدین شامل ہیں۔ ۱۹۴۷ کے بعد سے اکادمی کے کام کی رفتار سست ہو گئی۔ اردو کی حیثیت وہاں تقریباً معدوم ہو گئی۔

ہندوستانی قصے ((فارسی زبان میں)) : کسی بھی ملک کی تہذیبی وراثت کا اندازہ وہاں کے عام طور پر رائج قصوں، کہانیوں، داستانوں وغیرہ کی کثرت سے بھی لگایا جاتا ہے۔ ہندوستان کا دامن اس لحاظ سے بہت وسیع ہے۔ قصے اور داستانیں بیان کرنا، یہاں کی قدیم روایت ہے۔ رامائن سے پتا چلتا ہے کہ ایک روز بھرت ایک
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۵۶

وزیر تعلیمات، ناظم تعلیمات الہ آباد، بنارس، لکھنؤ اور علی گڑھ کے جامعات کے وائس چانسلر اور دیگر ماہرین تعلیم اکادمی کے رکن تھے۔ اکادمی کی تین ذیلی کمیٹیاں تھیں : ((۱)) کونسل، ((۲)) عاملہ اور ((۳)) رفقا۔ ان کے فرائض بھی الگ الگ تھے اور ان کے اراکین بھی متعدد تھے جن میں یونیورسٹیوں کے اردو کے اساتذہ بھی شریک تھے۔ سر تیج بہادر سپرو کو اس اکادمی کا صدر اور ڈاکٹر تارا چند کر سکریٹری منتخب کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی کے اراکین میں پریم چند، سجاد حیدر یلدرم، دیا نرائن نگم، پنڈت منوہر لال زتشی، عبد الماجد دریا بادی اور نیاز فتح پوری بھی شریک تھے۔ اکادمی نے اشتراک زبان کے سلسلے میں طے کیا تھا کہ اردو ہندی دونوں زبانوں کو آسان بنایا جائے اور انھیں دیوناگری اور فارسی رسم خط میں لکھا جائے تا کہ وہ باآسانی پڑھی جا سکیں۔ اکادمی نے "ہندوستانی" کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ بھی جاری کیا جس کا پہلے شمارہ ۱۹۳۱ کو منظرِ عام پر آیا۔ اس کے مدیر اصغر گونڈوی تھے۔ اکادمی نے جامعات کے ان طلبا کو انعامات بھی دیے جنھوں نے ہندی اور اردو میں مختلف موضوعات پر مختصر کتابچے اور کتابیں لکھیں۔ اکیڈمی نے ۱۹۴۸ تک جن مصنفین کی تقریباً تیس کتابیں شائع کیں ان میں علامہ عبد اللہ یوسف علی، جگت موہن لال رواں، منوہر لال زتشی، ڈاکٹر ذاکر حسین، محمد مبین کیفی چریا کوٹی، کشن پرشاد کول، محمد مجیب، جلیل قدوائی، مولوی مہیش پرشاد اور خواجہ غلام السیدین شامل ہیں۔ ۱۹۴۷ کے بعد سے اکادمی کے کام کی رفتار سست ہو گئی۔ اردو کی حیثیت وہاں تقریباً معدوم ہو گئی۔

ہندوستانی قصے ((فارسی زبان میں)) : کسی بھی ملک کی تہذیبی وراثت کا اندازہ وہاں کے عام طور پر رائج قصوں، کہانیوں، داستانوں وغیرہ کی کثرت سے بھی لگایا جاتا ہے۔ ہندوستان کا دامن اس لحاظ سے بہت وسیع ہے۔ قصے اور داستانیں بیان کرنا، یہاں کی قدیم روایت ہے۔ رامائن سے پتا چلتا ہے کہ ایک روز بھرت ایک
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۵۷

برے خواب کی وجہ سے افسردہ خاطر تھا۔ اس افسردگی سے نجات دلانے کے لیے ایک داستان گو نے اسے دلچسپ کہانی سنائی تھی۔ ہندوستانی تہذیب کی یہ خصوصیت دورِ قدیم ہی سے دنیا پر روشن رہی ہے۔ انو شیر وانِ عادل کے زمانے میں اس کا درباری طبیب برزو ہندوستان آیا اور ہندوستان کی معروف کتاب پنچ تنتر کا اس دور کی ایرانی زبان پہلوی میں ترجمہ کیا جو بعد کے ادوار میں اس کتاب کے دنیا کی دوسری زبانوں میں تراجم کی بنیاد بنا۔ ہندوستانی قصے کہانیوں کو چند عنوانات کے تحت تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پوران کی کہانیاں، قدیم ہندوستانی لوک کہانیاں، نیم تاریخی کہانیاں، شمال ہند کی کہانیاں، مرکزی اور جنوبی ہند کی کہانیاں۔ ان تمام اقسام کی کہانیاں فارسی میں ترجمہ یا بیان کی گئی ہیں۔

ہندوستان میں فارسی کے رواج کے ساتھ ہی یہاں کے قصے کہانیوں کو فارسی میں منقتل کرنے کا رحجان پروان چڑھنے لگا اور یہ عمل پورے قرون وسطی میں جاری رہا۔

امیر خسرو دہلوی ((م۔ ۱۳۲۵)) پہلے فارسی شاعر ہیں جنھوں نے خضر خان و دولرانی کی داستان کو فارسی میں نظم کیا۔ محمد بدر علی، احمد حسن دبیر نے بساتین الانس کے نام سے فارسی میں ہندوستانی کہانیاں سنائیں۔ ضیاء الدین نخشبی ((م۔ ۱۳۵۰)) نے طوطی نامہ کے عنوان سے ہندوستانی کہانیوں کو فارسی کا لباس پہنایا۔ کشمیر کے معروف بادشاہ زین العابدین عرف بڈشاہ نے ہندوستان کی بعض داستانوں کو فارسی میں منتقل کرایا۔ ان میں پنچ تنتر خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ شہنشاہ اکبر نے ہندوستانی کتابوں کو فارسی میں منتقل کرانے کا باقاعدہ پروگرام مرتب کیا تھا۔ اس کے دور میں جہاں مکتلف علوم پر ہندوستانی کتابیں فارسی میں ترجمہ کی گئیں وہاں اس ملک کی داستانوں کو بھی فارسی میں پیش کیا گیا۔ فیضی ((م۔ ۱۵۹۵)) نے نل دمن کی داستان کو فارسی کا جامہ پہنایا۔ رزم
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۵۸

نامہ کے عنوان سے مہا بھارت کو فارسی میں منتقل کیا گیا۔ فیضی کے چھوٹے بھائی اور اکبر کے معروف وزیر ابو الفضل ((م۔ ۱۶۰۲)) نے بھی پنج تنتر کو عیار دانش کے عنوان سے فارسی میں پیش کیا۔ اس دور میں رامائن بھی فارسی میں ترجمہ کی گئی۔ سوم دیو کی کتھا سرت ساگر کو خالق داد عباسی نے دریائے اسماء کے نام سے فارسی میں پیش کیا۔ اسی مترجم نے پنچ تنتر کو پنچاکھیانہ کے نام سے دوبارہ فارسی نثر میں ڈھالا۔ راجا وکرما دتیا کی تیس کہانیوں "وکرما چرتیا" کے فارسی ترجمے خرد افزا کو ملا عبد القادر بدایونی ((م۔ ۱۶۱۵)) سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ادراکی ہیگلری نے ۱۶۰۱/۰۲ میں لیلا وچنیسر کی داستان کو چنیسر نامہ کے عنوان سے فارسی میں نظم کیا ہے۔ حیات جان باقی گلابی ((م۔ ۱۵۷۹)) نے اکبر ہی کے دور میں پنجاب کی داستان ہیر رانجھا کو فارسی میں بیان کیا ہے۔ پنجاب کی ایک دوسری معروف کہانی مرزا و صاحباں بھی فارسی میں منتقل کی گئی ہے۔ صالح نے سوھنی و مہینوال کا قصہ فارسی میں تالیف کیا ہے۔ ملک محمد جائسی کی پدماوت کو جہانگیر کے دور میں شیخ شکر اللہ بزمی نے رت پدم کے نام سے فارسی کا لباس پہنایا ہے۔ حمید نام کے ایک شاعر نے ہندوستان کی ایک مشہور داستان مینا و لورک کو عصمت نامہ کے عنوان سے فارسی میں پیش کیا ہے۔ سندھ کی پسندیدہ عوامی داستان سسی پنوں کو سب سے پہلے ٹھٹھے کے سید علی نے شاہجہاں کے دور میں فارسی نثر میں بیان کیا تھا۔ منوہر و مدھو مالتی کی ایک دوسری ہندوستانی کہانی بھی منوہر و مدھو مالتی ہی کے عنوان سے فارسی میں موجود ہے۔ شکنتلا اور وکرم اروشی کی داستانیں بھی فارسی میں بیان کی جا چکی ہیں۔ ان کہانیوں کے علاوہ دیگر متعدد ہندوستانی کہانیاں مختلف ادوار میں فارسی میں منتقل کی جاتی رہی ہیں۔ بعض داستانوں کو عرفانی رنگ میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ اگر فارسی ادب کی تاریخ پر سرسری نگاہ بھی ڈالی جائے تو اس حقیقت کا علم ہو جاتا ہے کہ فارسی میں داستانوں
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۵۹

کا جو سرمایہ موجود ہے، اس کا بڑا حصہ ہندوستان کی دین ہے۔ فارسی میں ہندوستانی کہانیوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان داستانوں کے ذریعے ہندوستان کے سماجی اور تہذیبی ماحول کا فارسی دنیا میں تعارف ہوا ہے۔ فارسی میں ہندوستانی قصے یہاں کے رسم و رواج، سماجی ماحول، جغرافیے، اساطیر وغیرہ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ فارسی میں ان قصوں اور داستانوں میں ہندوستانی الفاظ نسبتاً زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ داستانیں عوام کے لیے فارسی میں پیش کی جا رہی تھیں،اس لیے ان میں زبان و بیان کی سلاست بھی قابل توجہ ہے۔

ہندی، بھگوان داس ((پ۔ ۱۷۵۰/۵۱)) : فارسی شعرا کے دو معروف تذکرے حدیقہ ہندی اور سفینہ ہندی کا مؤلف ہے۔ یہ صیدپور ((از توابع سیلک)) میں پیدا ہوا۔ لکھنؤ میں نشو و نما پائی۔ مولوی سید یوسف سہارن پوری سے صرف و نحو، فارسی کی متداولہ کتابیں اور دیگر علوم پڑھے۔ اس کے بعد اساتذہ شعرا کے دو اوین کا انتخاب اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا۔ شعر گوئی بھی اسی زمانے میں شروع کی۔ پہلے بسمل اور پھر ہندی تخلص اختیار کیا۔ فارسی کے معروف شاعر فاخر مکین ((م۔ ۱۲۴۱ ھ)) سے اصلاح لی۔ مختلف سرکاری عہدوں پر کام کیا۔ جوانی میں میر بحر تھا۔ نواب مختار الدولہ نے صوبہ الہ آباد اس کو تفویض کیا تھا۔ اس کے بعد نواب آصف الدولہ کی طرف سے اسے راجا ندھی سنگھ بہادر کا جو خیر آباد اور سیلک کی خدمت پر مامور تھا، دیوان مقرر کیا گیا۔ راجا ندھی سنگھ کی وفات کے بعد بھگوان داس ہندی کو پتر چند بہاردر کا، جو آصف الدولہ کی طرف سے خانسامانی کے عہدے پر فائز تھا، مصاحب و ندیم مقرر کیا گیا۔ بھگوان داس آصف الدولہ کے نائب و دیوان مہاراجا ٹکیٹ رائے صلابت جنگ ((م۔ ۱۲۱۵ھ)) کا مصاحب بھی رہا۔ اس کے بعد راجا جے سنگھ نے اس کی قدردانی کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۶۰

بھگوان دان ہندی نے سلسلۃ المحبت ((جامی کی سلسلۃ الذھب کے وزن پر))، مظہر الانوار ((نظامی کی مخزن الاسرار کے وزن پر))، مھر ضیایا مثنوی بھاگوت ((جامی کی یوسف و زلیخا کے وزن پر)) نام کی مثنویاں، شوقیہ اور ذوقیہ فاریسی کے دو دیوان، راسلہ سوانح انبوۃ کے علاوہ حدیقہ ہندی اور سفینہ ہندی فارسی شعرا کے دو تذکرے بھی اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔ یہی دو تذکرے فارسی ادب کی تاریخ میں اس کی شہرت کا باعث ہیں اور اس کے علاوہ ان کی دیگر تصانیف اب دستیاب نہیں۔ حدیقہ ہندی ایسے فارسی شعرا کا ذکر ہےہ جو ہندوستان میں پیدا ہوئے یا ان کی نشونما یہاں ہوئی۔ یہ ایک ضخیم تذکرہ ہے۔ دوسرے تذکرے سفینہ ہندی کو رسماً ((باغیچہ بہار)) ۱۸۰۴ میں مکمل کیا لیکن بعض مطالب کا بعد میں بھی اضافہ کیا گیا۔ اس میں محمد شاہ کی حکومت کے آغاز ۱۶۲۲ سے ۱۸۰۴ تک مؤلف کے معاصر شعرا کے مختصر احوال زندگی درج ہیں۔ مؤلف ان میں سے بیشتر شعرا سے آشنا تھا۔ یہ تذکرہ پٹنہ سے ۱۹۵۸ میں شائع ہوا ہے۔

ہنگری زبان و ادب : یہ ایک یوریلک (( Uralic)) زبان ہے۔ اس کا تعلق فنی زبانوں سے ہے ((دیکھیے عالمی زبانوں کے خاندان))۔

انیسویں صدی تک ہنگری کی سرکاری اور ادبی زبان لاطینی تھی۔ سولہویں صدی تک ہنگری یا مگیار زبان میں انجیل اور بعض مذہبی کتابوں کے ترجمے ہوتے رہے۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں کچھ لوگوں نے شاعری بھی کی۔ ۱۷۹۰ میں پہلی مرتبہ ہنگری میں قومی تھیٹر قائم ہوا اور ۱۸۲۵ میں ہنگری کی سائنس کی اکادمی قائم ہوئی اور یہاں سے اس کے ادب کی بھی ہمت افزائی ہوئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۶۱

سولہویں صدی میں مگیار زبان کے کئی اچھے شاعر پیدا ہوئے جن میں الکزنڈکسافلڈی، جان ارینی اور پٹوفی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ بیسویں صدی میں نثرنگاری نے کافی ترقی کی۔ فیرنگ ہرک زگ اور فیرنک مولنار نے ڈرامہ نگاری میں بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں کے درمیان ناول نگاری نے بہت ترقی کی۔ یہ ناول نگار تین حصوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ایک قدامت پرست اور ہارتھی کی فاشسٹ حکومت کے ہم نوا، دوسرے عوامی ادیب جو کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے حامی تھے اور تیسرے ترقی پسند بائیں بازو کے اور کیمونسٹ ادیب۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب ہنگری میں سوشلسٹ حکومت قائم ہوئی تو پھر کلچر کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب میں بھی سوشلٹ حقیقت پسندی کو اہم مقام حاصل ہوا۔

ہنمنت راؤ، ماداپتی : ان کے افسانے "کرشنا پتریکا" ((مسولی پٹم)) میں چھپتے رہے ہیں۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر افاسنے لکھے اور مذہبی، سیاسی، تعلیمی اور ادبی میدان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اس لیے انھیں "آندھرا پتامہا" کا لقب ملا۔ انھوں نے پریم چند کے بعض افسانوں کے تلگو میں ترجمے بھی کیے۔ ۱۹۴۷ میں وہ شہر حیدر آباد کے میئر ہوئے اور جب آندھرا پردیش قائم ہوا تو اس کی مجلس وضع قوانین کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ حیدر آباد کے تعلیمی اداروں، کتب خانوں اور دارالمطالعوں کے قائم کرنے میں ان کی دلچسپی کو دخل رہا ہے۔ ان کے افسانوں کے مجموعے "ملکا گچھم" اور "مالتی گچھم" شائع ہوئے ہیں۔

ہوپٹ من، گرہارٹ یوہان رابرٹ ((۱۹۴۶ – ۱۸۶۲، Hauptmann, Gerhart Yohan Robert)) : جرمن ڈرامہ نگار، شاعر اور ناول نگار۔ اس کا ڈرامہ "صبح سے پہلے" ۱۸۸۹ بے حد مشہور ہوا۔ اس سے گویا جرمن ڈرامہ میں فطرت پسندانہ ((Naturalistic)) تحریک کی ابتدا ہوئی۔ اس کے علاوہ اس نے اور بھی ڈرامے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۶۲

لکھے۔ وہ ابھی اسی اسلوب میں ہیں۔ ان میں بنکر مزدوروں کے بارے میں ایک ٹریجڈی ہے۔ اس کے علاوہ کامیڈی "سنجاب کا کوٹ" ((The Beaver Coat)) اور ٹریجڈی "روزبرنڈ" ((Rose Bernd)) اور "ڈرے مین ہنشل" ((Drayman Henschel)) بہت مشہور ہوئے۔ یوروپ کی کئی زبانوں میں ان کے ترجمے ہوئے اور یہ اسٹیج کیے گئے۔

بعد کے دور میں ہوپٹ من نے نئے ادب کے بدلتے ہوئے رحجانات کا سلسلہ دیا اور فطرت پرستانہ طرز سے مکتلف ڈرامے لکھے۔ ان میں ہینل ((Hannele)) اور "سنکن بیل" ((Sunken Bell)) مشہور ہوئے۔ ان نے کئی ناول بھی لکھے۔ ان میں سے کئی جدید صوفیت کے بارے میں ہیں۔ اس کی تصنیف "ٹِل ایولینس پیگل" ((Till Eulens Piegel)) پہلی جنگ عظیم کے بعد کے یوروپ کی ایک گراں قدر تصنیف ہے۔ ہوپٹ من تین نسلوں تک جرمنی کے ادبی افق پر چھایا رہا۔ اسے کئی اعزازات ملے۔ ۱۹۱۲ میں اسے ادب کا نوبل انعام بھی ملا۔

ہوریس (( ۸ ق۔م۔ – ۶۵ ق۔ م۔ Horace)) : لاطینی ادب کے دور زریں ((Golden Age)) کا عطیم شاعر اور ورجل اور اوویڈ کا ہم عصر ہے۔ ہوریس کے والدین نے اسے پہلے روم اور پھر ایتھنز میں تعلیم دلوائی۔ مگر رومن خانہ جنگیوں کے چکر میں پھنس کر اس نے اپنی ابتدائی زندگی بڑی مشکلات میں گزاری۔ شہنشاہیت کے قیام کے بعد اسے رومن حکمراں آگسٹس ((Augustus)) اور اس کے مقرب خاص میس نس ((Macaenas)) کی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ آخر الذکر نے اسے روم کے قریب ایک قطعہ ((Sabine Farm)) عطا کیا جہاں ہوریس نے اپنی آخری زندگی بڑے پُرسکون انداز میں مطالعہ اور شعر و شاعری اور
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۶۳

دوستوں کی صحبت میں گزاری۔ بحثیت شاعر ہوریس کو یوروپی ادب میں بہت بڑا درجہ حاصل ہے۔ اس کی شاعری میں فن کی جو نزاکت اور کمال ہے وہ بہت کم شاعروں کو نصیب ہوئی۔ اسے اس نے یونانی صنف سخن اوڈ ((Ode)) کو ایک نئی شکل دی جو اسی کے نام سے مشہور ہوئی۔ یوروپی ادب میں اسے قبولیت عام ملی۔ ہوریس کی یہ مختصر نظمیں مختلف بحروں میں لکھی گئی ہیں۔ ان میں بیشتر یونانی ہیں اور چند خود ہوریس کی ایجاد ہیں۔ اس کے مضامین بھی بہت متنوع ہیں۔ حب الوطنی، شاہ پرستی، محبت، دوستی، رندی و قلندری، سنجیدگی اور کھلنڈرے پن کی یکجائی جیسے مختلف النوع مضامین پر لکھی ہوئی یہ نظمیں نہ صرف اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہیں کہ ان میں فن کی پختگی اور اختصار بیان کی خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ رومی مزاج اور افتاد طبع کی اس سے بہتر تصویر ہمیں کہیں اور نہیں مل سکتی۔ بحیثیت طنز نگار بھی ہوریس کو بہت بلند درجہ حاصل ہے۔ طنزیہ ادب ((ٍSatires)) اور مکتوب نگاری ((Epistles)) میں ہوریس نے اپنی شخصیت کے اظہار کے ساتھ ساتھ انسانی خوبیوں اور خامیوں کو فلسفیانہ رنگ میں پیش کیا ہے۔ ہوریس کا ایک اور کارنامہ اس کی نظم Ars Poetica ہے جو جن تنقید پر نظم میں لکھی جانے والی پہلی تالیف ہے اور جہاں کلاسیکی اصول نقد و نظر یکجا کر دیے گئے ہیں۔ اس کی شاعری میں کئی خوبیاں جیسے کردار نگاری، حب وطن، سادگی و سلاست، شرافت نفس، خلوص و محبت اور سب سے بڑھ کر انداز بیان کا بے عیب حسن یہ سب یکجا ہو گئی ہیں۔ آخر الذکر خوبی نے ہوریس کے کئی مصرعوں کو ضرب المثل کا درجہ دیا ہے۔ اپنی خصوصیات کی بدولت ہوریس کو یورپی شاعری کی تاریخ میں بہت ممتاز مقام حاصل ہے۔ یوں بھی مغربی یوروپ کی غنائیہ اور طنزیہ شاعری پر ہوریس کا زبردست اثر ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۶۴

ہومر ((Homer)) : یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ اس نام کا کوئی شاعر واقعی کبھی گزرا ہے۔ خود یونانیوں نے الیڈ اور اوڈیسی کی تصنیف کو ہومر نامی ایک شخص سے منسوب کر دیا تھا جس کے متعلق یہ بات بھی مشہور ہو گئی تھی کہ وہ اندھا تھا۔ اگر واقعی ہومر نامی کوئی شاعر تھا اور یونان کی مشہور رزمیہ نطمیں اسی نے لکھیں تو پھر ہم یہ کہہ سکتے ہین کہ ہومر یقیناً دنیا کے عظیم ترین شاعروں اور ادیبوں میں سے ایک تھا۔

ہومر کی رزمیہ نظمیں زمانہ دراز تک یونانی تعلیم و تدریس اور یونانی تہذیب اور ثقافت کی بنیاد رہیں اور چونکہ رومن ورجل نے اپنی رزمیہ نظم "اینی ایڈ" ((The Aeneid))، الیڈ اور اوڈیسی ہی کی طرز پر لکھی تھی اس لیے ان نظموں کا گہرا اثر عیسائی دور کے آغاز تک مسلسل قائم رہا بلکہ جب قسطنطنیہ ترکوں کے ہاتھوں فتح ہوا اور رومن شہنشاہیت کو بالاخر زوال آیا تو ہومر کی نظمیں کلاسکیکی عالموں کے ساتھ جو قسطنطنیہ سے فرار ہو اطالیہ کے شہروں میں پھیل گئے تھے، یوروپ کے نشاۃ ثانیہ پر اثر انداز ہوئیں۔

یونانیوں کا خیال تھا کہ ہومر آئیونیا ((Ionia)) کا باشندہ تھا جو ایشیائے کوچک کے مرکزی ساحلی علاقے کا نام تھا۔ جدید تحقیق اس بات سے متفق ہے کہ اگر ہومر واقعی ایک زندہ انسان تھا تو غالباً آئیونیا ہی میں رہا ہو گا کیونکہ اس کی نظموں کی زبان ائیونک ((Ionic)) ہے۔ یونان کا مشہور مؤرخ ہیروڈوٹس ((Herodotus)) نے ہومر کے زمانے کو خود اپنے زمانے یعنی پانچویں صدی قبل مسیح سے کوئی ۴۰۰ سال قبل کا زمانہ قرار دیا ہے۔ لیکن بہت سے یونانی اسےٹرائے ((Troy)) کی جنگ کے عہد کے کچھ بعد کے دور سے متعلق بتاتے ہیں۔ بہرحال اتنا کہا جا سکتا ہے کہ غالباً ہومر نامی کوئی شاعر ضرور تھا اور الیڈ اور اوڈیسی اگر بالکلیہ اس کی تصنیفیں نہ ہوں تو بھی ان کا بہت بڑا حصہ اسی کی دین ہے۔ ویسے الیڈ اور اوڈیسی میں اتنا فرق ہے کہ دونوں کو کسی ایک شاعر
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۶۵

کی تصنیف قرار دینا مشکل ہے۔ جہاں تک ہومر کے عہد کا تعلق ہے تو نظموں کی لفظی اسلوبی اور لسانی شہادت وغیرہ کی بنا پر آج کل یہ خیال کیا جاتا ہے کہ الیڈ اور اوڈیسی نویں یا غالباً آٹھویں صدی قبل مسیح کی تصنیفیں ہیں۔ الیڈ آٹھویں صدی کے وسط اور اوڈیسی اس کے آخر کا کارنامہ ہے۔

لیکن یہ مان بھی لیں کہ ہومر ایک گوشت پوست کا حقیقی انسان تھا اور نویں یا آٹھویں صدی ق۔م۔ اس کا زمانہ تھا اور آئیونیا کا باشندہ تھا تو بھی ہومر زیادہ تر انھیں نظموں کے آئینے میں دیکھا جائے گا اور ایک حد تک اس کی شبیہ ان نظموں کی تخلیق میں پوشیدہ ہے۔

جدید تحقیق نے جس میں زیادہ حصہ امریکی فاضل مل میں پیری ((Milman Parry)) کا ہے، یہ اہم انکشاف کیا ہے کہ ہومر کا تعلق بہر حال شاعری کی ایک لسانی روایت سے تھا جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہتی تھی۔ خود ہومر نے جو لفظ شاعر کے لیے استعمال کیا ہے اس کے معنی مغنی کے ہیں۔ اوڈیسی میں ایسے دو بھائیوں یا مغنیوں کا ذکر ہے جو پرانے اساطیری قصے دربار یا مردانہ کھیلوں کے موقعوں پر گا کر سناتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ بھاٹ عموماً ایسی نظمیں استعمال کرتے تھے جو اتنی مختصر ہوں کہ ایک وقت میں گائی جا سکیں۔

تکرار اور مقررہ بندشیں اور استعارے اس شاعری کی بنیاد ہیں۔ اس کی ایک مثال وہ بندھے ہوئے فقرے یا تعریفی اسم ہیں جو ہومر اپنے سورماؤں کے لیے ہمیشہ حسب ضرورت استعمال کرتا ہے۔ یہ ضرورت بھی شعری ہے۔ کمان یہ ہے کہ ہومر نے بھی دوسرے مغنیوں یا بھاٹوں کی طرح مناسب طور کی نظموں کا ایک ذخیرہ فراہم کر لیا اور انھیں اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا تھا۔ لیکن الیڈ جو سولہ ہزار مصروعوں پر مشتمل ہے اگر
 
Top