اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۳۷

تھا۔ ان کے دیگر ناولوں میں ان داتا، طوفان کی کلیاں، باون پتے اور دل کی وادیاں سو گئیں، ایک گدھے کی سرگزشت قابل ذکر ہیں۔ عزیز احمد ترقی پسند تحریک سے تعلق کے باوجود ایک آزاد تخلیقی شعور رکھتے تھے۔ انھوں نے کئی ناول لکھے : ہوس، ایسی بلندی ایسی پستی، مرمر اور خون، گریز اور آگ اور شبنم۔ یہ ناول ترقی پسندی سے وابستہ حقیقیت نگاری کے تصور اور ایک نئے فنکارانہ شعور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عصمت چغتائی کے اسلوب کی بیباکی ان کا طرہ امتیاز بنی۔ ان کا ناول "ٹیڑھی لکیر" اردو ناولوں میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے دوسرے اہم ناول : ایک بوند لہو کی، ضدی، جنگلی کبوتر اور معشوقہ ہیں۔ قیسی رام پوری، رشید اختر ندوی، رئیس احمد جعفری، عظیم بیگ چغتائی، خان محبوب طرزی، شوکت تھانوی، عادل رشید اور اے۔ حمید وغیرہ کو عوامی مقبولیت ملی۔ منشی فیاض علی جو پیشے سے وکیل تھے انھوں نے شمیم اور انور نامی دو ناول لکھے۔ یہ سماجی ناول ہیں اور اپنے دور کی تہذیبی قدروں کے عکاس ہونے کے ساتھ قاری کی دلچسپی کے کئے پہلو بھی ان میں موجود ہیں۔ اے۔ آر۔ خاتون کے ناول مسلم ثقافتی قدروں کے عکاس ہیں۔ شمع، تصویر، افشاں اور چشمہ ان کے مقبول ناول ہیں۔

۱۹۴۷ کے بعد ناول کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ تقسیم اور فسادات کی آنچ عصری ادب تک بھی پہنچی۔ بالخصوص فسادات کو اپنا موضوع بنانے اور اس ماحول میں انسانی قدروں کو اجاگر کرنے میں اردو ناول نگار سب سے آگے رہے۔ فسادات کے موضوع پر ایم۔ اسلم کا "رقص ابلیس"، رئیس احمد جعفری کا "مجاہد"، رامانند ساگر کا "اور انسان مر گیا"، نسیم حجازی کا "خاک و خون" اور قدرت اللہ شہاب کا ناولٹ "یا خدا" نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ اس دور میں ایسے ناول بھی ملتے ہیں جو اپنی فکری وسعت کے باعث پائیداری اور ہمہ گیریت کے حامل ہیں۔ قرۃ العین
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۳۸

حیدر کے کئی ناولوں کا موضوع ہندوستان سے پہلے کا لکھنؤ اور وہاں کی تہذیب ہے۔ انھوں نے اپنے ناولوں "میرے بھی صنم خانے"، "سفینہ"، "غم دل" اور "آگ کا دریا" میں علامتی اور آزاد تلازمہ خیال کی تکنیک کو بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کر کے اردو ناول کو نئے امکانات اور تجربے سے روشناس کرایا ہے۔ یہ ناول جدید تر فنی ہیئتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حیات اللہ انصاری کا ناول "لہو کے پھول" اور عبد اللہ حسین کا ناول "اداس نسلیں" بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ خدیجہ مستور کا ناول "آنگن" انسانی زندگی کے نفسیاتی اور جذباتی حالات کا ترجمان ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کا ناولٹ "ایک چادر میلی سی" نہ صرف پنجاب کی ثقافت کا عکاس ہے بلکہ اپنی فنی خوبیوں کے اعتبار سے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

۱۹۵۰ کے لگ بھگ ادیبوں کی ایک نئی پود اس کارواں میں شامل ہو گئی جو ایک نئے زاویہ نظر کی نمائندہ تھی۔ موجودہ دور کے قابل ذکر ناول نگاروں میں انتظار حسین نے پرانی داستانوں کے کرداروں اور ان کی فضا کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ آج کی کہانیوں میں سمویا ہے۔ ان کی کہانیوں میں یہ کردار ایک طاقتور استعارہ بن گئے ہیں۔ "بستی" ان کا نمائندہ ناول ہے۔ ان کے ناولوں "تذکرہ" اور "آگے سمندر ہے" کو بھی شہرت ملی۔ دوسرے نئے پرانے ناولوں میں ممتاز مفتی کا "علی پور کا ایلی"، ابراھیم جلیس کا "چور بازار"، قاضی عبد الستار کا "شب گزیدہ"، شوکت صدیقی کا "خدا کی بستی"، صالحہ عابد حسین کا "اپنی اپنی صلیب"، جیلانی بانو کا "ایوانِ غزل"، جمیلہ ہاشمی کا "تلاشِ بہاراں"، "چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو" اور "دشتِ سوس"، الیاس احمد گدی کا "فائر ایریا"، الطاف فاطمہ کا "دستک نہ دو"، رضیہ فصیح احمد کا "آبلہ پا"، بانو قدسیہ کا "راجہ گدھ"، مستنصر حسین تارڑ کا "بہاؤ"، عبد اللہ حسین کا "قید" اور "نادار لوگ"، انور سجاد کا "خوشیوں کا باغ" اور
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۳۹

"جنم روپ"، اقبال مجید کا "نمک"، سید محمد اشرف کا "نمبردار کا نیلا"، انیس ناگی کا "کیمپ"، اکرام اللہ کا "سوا نیزے پر سورج"، محمد خالد اختر کا "چاکی واڑہ میں وصال"، فہمیدہ ریاض کا "گوداوری" اور علی امام نقوی کا "تین بتی کا راما" قابل ذکر ہیں۔

اردو ناول کی تاریخ بہت قدیم نہیں ہے پھر بھی ناولوں کا ایک بڑا ذخیرہ سامنے آ گیا ہے۔ تاہم ہمعصر ادب میں اچھے ناولوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اردو میں ناول کی فنی اہمیت اور اس کے تخلیقی عمل اور امکانات پر اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی دی جانی چاہیے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح دنیا کی دوسری ترقی یافتہ زبانوں میں ناول نے نمائندہ اور مقبول صنف ادب کا درجہ ھاصل کر لیا ہے اردو میں اسے وہ مقام و منصب ابھی نہیں مل سکا ہے اور اس کا سفر ابھی جاری ہے۔

نائک نائیکا بھید : نائک نائیکا بھید پر مبنی ہندی ادب میں بہت سی تصانیف ملتی ہیں۔ اس کی ترغیب کے دو اہم ذرائع ہیں۔ اول سنسکرت شاعری دوم کرشن بھگتی ادب۔ ہندی سے پہلے سنسکرت میں کئی ادیبوں کا دھیان اس طرف گیا تھا۔ داستان حسن و عشق کے دوران اس میں عاشق و معشوق کے اقسام بیان کیے جاتے ہیں۔ کیشو داس، ستی رام، رحیم، سندر، چنتا منی وغیرہ شاعروں نے نائک نائیکا بھید لکھے ہیں۔ نائک اور نائیکا کے ساتھ دونی ((پیغام رساں سہیلی)) اور سہیلیوں کی قسمیں بھی بتائی جاتی ہیں۔

نثر اور اسالیب نثر – اردو : نثر وہ طرز اظہار ہے جس میں عام نحوی ترتیب قائم رہے اور صراھت، ربط اور روانی پر زور دیا جائے۔ نظم اور نثر کے درمیان امتیاز محض موزونیت کا نہین طرز احساس اور طرز اظہار کا بھی ہے۔ نظم میں الفاظ محض بیان حقیقت پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ان کا مقصد تخیل کو بیدار اور متحرک کرنا ہوتا ہے، جبکہ نثر میں عموماً الفاظ کا مقصد صراحت اور وضاحت ہوتا ہے۔ الفاظ اور جملوں میں منطقی ربط قائم رکھا جاتا ہے اور زبان
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۴۰


کی نہج روزمرہ کی گفتگو اور عام بول چال کی نحوی اور صرفی ترتیب کے قریب رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دور قدیم میں عام طور پر نثر کو فنی اظہار کا وسیلہ نہین سمجھا گیا اور محض نظم ہی فن قرار دی جاتی رہی۔ لیکن ادب جب عوام سے قریب آنے لگا اور اس سے محض فنی اور شعری مقاصد کی بجائے معلوماتی اور منطقی مقاصد کے حصول کی کوشش بھی ہونے لگی تو نثر بھی فن کے دائرے میں شامل ہو گئی اور اسے بھی تخلیقی اظہار کا ایک اہم وسیلہ قرار دیا جانے لگا۔ البتہ نثری اسلوب پر شعری اسلوب کا اثر مختلف طریقوں سے مدتوں قائم رہا۔ عربی اور فارسی تنقید نے تخلیقی نثر کو تین اقسام میں تقسیم کر دیا۔ نثر مقفی، نثر مرجز اور نثر عاری۔ پہلی دونوں اقسام کے لیے شاعری کے طرز پر قافیوں اور ہم صوتی ٹکڑوں کا التزام رہا اور مدتوں تک اسی قسم کی نثر کو ادبی نثر قرار دیا جاتا رہا۔ شادی کے رقعوں سے لے کر علمی اور ادبی تصانیف تک اسی قسم کی سجی ہوئی نثر لکھی جاتی رہی جس میں موزونیت کے علاوہ شاعری کے تقریباً سبھی لوازم موجود ہوتے تھے جبکہ نثر کے لوازم سے اس کا رشتہ واجبی سا تھا۔ اس میں نہ تو صراحت، وضاحت اور قطعیت پر زور تھا جو معیاری نثر کا زیور ہیں، نہ اس میں تسلسل اور منطقی ربط و ترتیب لازمی تھی، جو نثر کے آداب و آئین کا حصہ ہے۔ نہ اس میں وہ روانی اور برجستگی تھی جو اسے شاعری کی مرصع کاری اور فسوں گری سے الگ کرتی ہے۔

آج معیاری نثر کے لیے بھی کچھ خصوصیات ضروری ہیں۔ اچھی نثر وہ ہے جو نظم کے مقابلے میں اپنا انفرادی آہنگ قائم رکھ سکے۔ وہ محض شاعری کے اسلوب و مزاج کا حصہ نہ بن جائے بلکہ ان کی شیرنی اور دلکشی اس کو توضیح میں نہیں اس کی سادگی اور بے ساختگی میں ہو۔ زور بیان پر توجہ ہو تو اس طرح کہ وہ الجھانے کا سبب
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۴۱

نہ بن جائے بلکہ مضمون کی صراحت اور وضاحت میں مدد دے اور اس کو منزل بہ منزل ربط و ترتیب کے ساتھ ذہن نشین کرانے میں معاون ثابت ہو۔

نظم کی طرح نثر کے بھی مختلف اصناف ہیں اور ہر صنف کے تقاضے الگ الگ شرطوں اور معیاروں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک طرف علمی اور معلوماتی نثر ہے جس کا سلسلہ فلسفیانہ، تاریخی اور معلوماتی مضامین سے صحافت اور بیانیہ مضامین تک پھیلا ہوا ہے۔ اس صنف میں نثر جتنی سلجھی ہوئی، مربوط، سادہ، رواں اور مضمون کی ضرورت کے مطابق ہو گی اسی قدر معیاری سمجھی جائے گی۔ اس قسم کے مضامین کے ساتھ ہی انشائیہ یا مزاحیہ مضامین کا ذکر ضروری ہے جن میں بیانیہ، معلوماتی یا خالص علمی نقطہ نظر پر تخلیقی عنصر غالب آ جاتا ہے۔ ایسی نثر میں تخیل کی رنگ آمیزی نسبتاً زیادہ ہو گی اور ربط اس قدر واضح اور براہ راست نہ ہو گا لیکن صراحت و وضاحت اور روانی یہاں بھی لازمی اقدار ٹھہریں گی۔

پھر افسانے، ناول اور ڈرامے کے اصناف ہیں جن میں حقیقتاً نثر نگار کے اپنے اسلوب کے ساتھ ساتھ نثر میں مختلف کرداروں کے مزاج اور مختلف واقعات اور صورت ھال کے مطابق نثری اسلوب بھی بدلتا جائے گا۔ گویا یہاں اسلوب کا معیار اس طرح بھی مقرر کیا جائے گا کہ مکالمے، بیان اور الفاظ کس حد تک متعلقہ کردار اور واقعات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ افسانہ نگار یا ناول نگار، کرداروں اوور واقعات کی پیش کش کے لیے کچھ حصوں میں براہ راست اپنی شخصیت کو ظاہر کر سکتا ہے۔ ان حصوں میں اس کے اسلوب پر اس کی اپنی شخصیت کی پرچھائیں واضح ہو گی۔ ڈرامے میں براہ راست اظہار کی گنجائش کم ہے۔ اس صورت میں ڈرامہ نگار کے نثری اسلوب کو اس کے کرداروں اور اس کے تخلیق کردہ صورت حال ہی کی روشنی میں پہچاننا ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۴۲

نثر کا معیار مختلف ادوار کے تہذیبی مزاج کے مطابق بدلتا رہا ہے۔ تجزیے کی آسانی کے لیے نثری اسالیب کو چند اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تمثیلی اسلوب آتا ہے جس میں علامتوں اور تمثیلوں کے ذریعے مضامین، قصوں اور حکایتوں میں اخلاقی، مذہبی اور فلسفیانہ رموز بیان کیے جاتے رہے ہیں۔ اس کی مثالیں مختلف الہامی کتابوں اور مذہبی اور نیم مذہبی تصانیف میں کثرت سے ملتی ہیں۔ دوسری قسم شاعرانہ اور نیم شاعرانہ نثر کی ہے جسے ایک مدت تک ادبی نثر قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس میں کہیں قافیے سے کام لیا گیا ہے، کہیں ایسے ٹکڑے استعمال کیے گئے ہیں جو برابر کے ہوں اور ہم وزن ہوں۔ کہیں کہیں الفاظ کے در و بست اور تشبیہ اور استعاروں کے استعمال سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ تیسری قسم اس نثر کی ہے جس میں سادگی اور صراحت کو اہمیت حاصل ہے اور بیان کی غیر ضروری آرائش کے بجائے نثر کی سادگی اور صراحت کو قدر اول قرار دیا جاتا ہے۔ اردو میں ان تینوں اقسام کی نثر کا رواج رہا ہے، گو تیسری قسم ہنوز طفولیت میں ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سادگی اور صراحت اور قطعیت والی نثر ((جس کی عمدہ مثال فرانسیسی میں فلابیر کی نثر میں اور انگریزی میں برنارڈ شا اور برٹرینڈ رسل کی تحریروں میں ملتی ہے)) صنعتی دور کے سماج کی دین ہے اور سماج کے سائنسی مزاج اور کسی قدر منطقی ذہن کی نشان دہی کرتی ہے۔ ہندوستانی سماج چونکہ ہنوز اس منزل تک نہیں پہنچا لہذا ہمارا نثری اسلوب بھی وہ سادگی، روانی، قطعیت اور شفافی نہیں پا سکا۔ پہلے طرز کے کامیاب نمونے وجہی کی "سب رس" محمد حسین آزاد کی "نیرنگ خیال" اور ابو الکلام آزاد کی تصنیف "غبار خاطر" میں چڑیا چڑے کی کہانی والے حصے میں ملیں گے۔ دوسرے طرز کی اچھی مثالیں تحسین کی "نو طرز مرصع" رجب علی بیگ سرور کے "فسانہ عجائب" اور رتن ناتھ سرشار کے "فسانہ آزاد" میں موجود ہیں۔ اس طرز کو تیسرے طرز میں سمو کر جو نثری اسلوب سامنے آیا تھا
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۴۳

اس کی مثالیں شبلی کی نثر کے زیر اثر ابو الکلام آزاد، رشید احمد صدیقی، مہدی افادی، ظفر علی خاں، عبد الرحمن بجنوری اور آل احمد سرور کی تحریروں میں ملتی ہیں۔ تیسرے طرز کے ابتدائی نقوش غالب کے اردو خطوط سے لے کر میر امّن کی باغ و بہار، سر سید احمد خان اور حالی کے نثری اسلوب اور سجاد انصاری کے محشر خیال والے مضامین ہیہں اور خواجہ ھسن نظامی اور عبد الماجد دریا بادی کی تحریروں میں ملتے ہیں۔ اس طرز میں معروضیت اور استدلال کے عناصر کی شمولیت نے ایک طرح کا فکری استحکام پیدا کر دیا ہے اس لیے جرورت اس بات کی ہے کہ اسے نہ صرف علمی مضامین میں اختیار کیا جائے بلکہ اسے مزید ترقی بھی دی جائے۔

اردو نثر نے ابتدا میں ظہوری اور ابو الفضل کی طرز انشا سے فیض اٹھایا پھر "رقعات عالمگیری" کے اسلوب سے۔ فورٹ ولیم کے دور کے بعد اس پر انگریزی نثر کے اثرات نمایاں ہونے لگے لیکن آج بھی اردو نثر میں وہ شفاف پن، وہ سادگی وہ کاٹ وہ صراحت اور قطعیت نہیں آئی ہے جو نثر میں قدر اول سمجھی جاتی ہے۔

اردو کا نثری اسلوب مختلف منازل اور مراحل سے گزرا ہے اور اس کے صرفی اور نحوی ڈھانچے ترتیب اور تراش میں مختلف طور طریقے رائج رہے ہیں۔ شروع کے دور میں نثری اسلوب کی اکائی جملے بجائے فقرہ تھا لہذا انھیں فقروں کے صوتی آہنگ اور ترتیب سے کام لیا جاتا تھا۔ ان فقروں کی مدد سے نثر میں رنگینی اور کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ملا وجہی کی نثر میں یہ اسلوب سب سے زیادہ نمایاں ہے اور اس کی جھلک سرور کے "فسانہ عجائب" تک میں موجود ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو گی کہ نثر لکھتے وقت بھی مصنف کا ذہن مصرعوں میں سوچتا تھا اور منطقی ربط کے بجائے صوتی آہنگ پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ اس طرز کی نثر میں فقروں کی مدد سے ایک ہی جملے کو اس قدر پھیلایا گیا ہے کہ اس کی وحدت کا تصور قائم نہیں رہا۔ کہیں کہیں غالب کے خطوط
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۴۴

میں بھی اس طرز کے جملے ملتے ہیں، گو ان میں مقفی و مسجّع انداز بھی موجود ہے لیکن نثر کا آہنگ کہیں مخدوش نہیں ہوتا۔ سر سید احمد خاں کی نثر میں پہلی بار غالباً انگریزی ادب کے زیر اثر جملے کا تصور ملتا ہے اور ان جملوں میں ربط فکری منطقی طور پر قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرز کو اردو رسالوں اور اخبارات نے رواج دیا۔ اخبارات اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے پرتکلف اور پرتصنع نثر کو برتنے سے قاصر تھے۔ اس کے علاوہ چونکہ نثر محض ذریعہ انبساط یا اظہار فن کا وسیلہ نہ رہی بلکہ اس کے ذریعے اہم سماجی اور تہذیبی، مذہبی اظہار ہونے لگے، اس لیے نثر زیادہ بے ساختہ، بے تکلف اور سادہ ہوتی گئی اور لازمی طور پر اس میں منطقی ربط و آہنگ زیادہ نمایاں ہونے لگا۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ نثر کو زیادہ رواں، سادہ اور بے تکلف بنانے میں اس کے عام وسیلہ اظہار ہونے کو دخل ہے اور پریس اور سماجی اور تہذیبی تحریکوں نے اسے دوسری تمام اصناف میں زیادہ بے ساختہ اور رواں بنا دیا ہے۔

نثری وسائل اظہار میں اسلوب کا سب سے زیادہ واضح فنی اظہار انشائیہ میں ہوتا ہے جو بقول شخصے "نثر کا ایک ایسا چھوٹا سا ٹکڑا ہوتا ہے جس میں مصنف دنیا کے کسی بھی موضوع کے بارے میں اپنی ذات کا انکشاف کرتا ہے۔" چونکہ ذات کا یہ اظہار فلسفے یا منطق، تبلیغ یا تعلیم کے ضابطوں کا پابند نہیں ہوتا لہذا اسلوب پر مصنف کی انفرادیت کی پرچھائیاں زیادہ صاف اور واضح شکل میں نظر آتی ہیں اور یہاں نثر کی زیادہ صاف شفاف، زیادہ رنگین اور دل فریب شکل نظر آتی ہے۔ اسلوب کو شخصیت کا اظہار کہا گیا ہے۔ انشائیے میں یہ اظہار بہت واضح اور دلکش ہوتا ہے۔ یہاں معروضی ڈھنگ سے بات کہنے یا دلیل اور استدلال سے اسے ثابت کرنے کے بجائے گویا ذاتی اور نجی تجربات اور کیفیات، مشاہدات اور تاثرات کا ہم جلیسوں سے سرگوشی یا خوش وقتی کے لہجے میں
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۴۵

تذکرہ مقصود ہوتا ہے اور اسی لیے اس میں خطابت کی بجائے گفتگو اور وکالت کی بجائے رفاقت کا انداز غالب ہوتا ہے۔ اردو میں وجہی کے انشائیہ اسلوب سے لے کر غالب، محمد حسین آزاد، عبد الحلیم شرر، مہدی افادی، سجاد انصاری، سجاد حیدر یلدرم، ناصر علی، خواجہ حسن نظامی، فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، ابو الکلام آزاد، پطرس بخاری، فلک پیما، کرشن چندر وغیرہ تک انشائیہ کی اچھی مثالیں ملتی ہیں۔ یہ سبھی اپنے اپنے طور پر صاحب طرز انشا پرداز ہیں۔ ان کے نثری اسلوب پر ان کی اپنی شخصیت کی مہر لگی ہوئی ہے۔ گویا انشائیہ میں مصنف اور مخاطب کے درمیان کی دیوار بہت پتلی ہوتی ہے اور نثری اسلوب یہاں شخصیت کا تقریباً براہ راست اظہار کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مضمون اور مقالے میں یہ اظہار ذرا زیادہ معروضی ہو جاتا ہے۔ ذاتی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کا معاملہ یہاں دلیل اور ثبوت کا پابند ہونے لگتا ہے اور مضمون میں دلیل جتنی زیادہ وزنی، استدلال جتنا زیادہ معروضی اور منطقی ہوتا ہے اور ذاتی تاثرات اور تعصبات کا اظہار جتنا کم ہوتا ہے، اسی قدر اس کی اہمیت بڑھتی ہے۔ یہاں نثری اسلوب میں تخیل کی اڑان اور جذبے کی فراوانی جتنی کم ہو گی اتنا ہی مضمون مؤثر اور مضمون نگار کامیاب قرار دیا جائے گا۔

ان دو انتہاؤں کے درمیان ناول، مختصر افسانہ اور ڈرامے کے نثری اسالیب ہیں جن میں نہ تو جذبے اور تخیل کو کم وقعت قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ معروضیت اور استدلال سے منھ موڑا جا سکتا ہے۔ پہلی دو اصناف میں تو نثری اسلوب دو سطحوں پر کار فرما ہوتا ہے۔ ایک اس حصے میں جہاں مصنف براہ راست اشیا، واقعات یا تاثرات کا بیان کرتا ہے۔ گویا اس کی اپنی شخصیت کا کم و بیش براہ راست اظہار ہوتا ہے۔ دوسرے اس حصے میں جہاں مصنف مختلف کرداروں کی زبانی بولتا ہے۔ یہاں مصنف کا اپنا ذاتی اسلوب کارفرما نہیں ہوتا بلکہ اس ذاتی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۴۶

اسلوب کا اظہار مختلف کرداروں اور واقعات کے ذریعے ہوتا ہے۔ یعنی نثری اسلوب کرداروں کے مزاج کے مطابق اور مخصوص واقعات اور صورت حال کی مناسبت سے ہوتا ہے۔ ڈرامے میں صرف آخری صورت ہی ممکن ہے کیونکہ یہاں مصنف براہ راست بیان نہیں کر سکتا۔

اوپر نثر کی روایتی قسموں کا ذکر آیا ہے لیکن اردو میں عام طور پر چار نثری اسالیب رائج رہے ہیں، جنھیں تمثیلی، مقفی، داستانی اور سادہ کی اصطلاحوں سے ظاہر کیا جا سکتا ہے اور ان چاروں کی بھی مختلف اور متعدد اقسام ہیں۔ دراصل ہر صاحبِ طرز قلم کار اپنا نثری اسلوب خود متعین کرتا ہے اور اس کی نثر مختلف عناصر ترکیبی سے عبارت ہوتی ہے۔ پھر بھی اردو نثر سے شناسائی کے لیے ان چار اسالیب کی شناخت اور ان کے عناصر ترکیبی سے واقفیت ضروری ہے جس کے اہم ترین نمائندے علی الترتیب وجہی اور / یا محمد حسین آزاد، رجب علی بیگ سرور، میر امن اور سرسید احمد خاں کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اردو کا نثری اسلوب ابھی تک شبلی دور سے گزر رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جس طرح ہمارے سماجی اور اقتصادی حالات میں جاگیرداری اور صنعتی دور کی پیوند کاری جھلکتی ہے، اسی طرح ہمارے نثری اسالیب میں بھی عہد متوسط کی شاعرانہ اور روایتی سجاوٹ کا پیوند سادہ اور شفاف نثر میں لگایا جاتا رہا ہے۔ آج بھی ہماری نثر نگاری شاعرانہ آداب میں گھری ہوئی ہے اور اس کی تربیت اور آہنگ میں جو واقعیت پسندی، منطقی ربط اور استدلال ہونا چاہیے، اس کی طرف توجہ کم ہے مگر یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ پچھلے ڈھائی سو سال میں اردو نثر نے بلوغت کی کئی منزلیں طے کر لی ہیں اور اس میں تنوع، رنگا رنگی معروغیت، وضاحت اور وسعت پیدا ہو چلی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۴۷

نجم آفندی، مرزا تجمل حسین ((۱۹۷۷ – ۱۸۹۲)) : نام مرزا تجمل حسین، نجم تخلص۔ آگرے میں پیدا ہوئے۔ خاندان میں شعر و شاعری کا چرچہ تھا۔ اپنے والد بزم آفندی سے استفادہ کیا۔ ابتدائی تعلیم آگرہ میں ہوئی۔ علوم متداولہ کی تکمیل کے بعد محکمہ ریلوے میں بحیثیت کلرک ملازمت اختیار کی۔ پھر حیدر آباد دکن پہنچ کر عرصہ تک شہزادہ معطم جاہ کی خدمت میں رہے۔ انتقال سے دس سال قبل کراچی منتقل ہو گئے۔ وہیں وفات پائی۔

نجم کا حلقہ اثر وسیع تھا۔ ان کے سینکڑوں شاگرد ہندوستان و پاکستان میں موجود ہیہں۔ انھیں نثر نگاری میں بھی کمال حاصل تھا۔ کوئی تیس ان کی شعری و نثری مطبوعات پینجن میں کاروان، ماتم، قصائد نجم، شہیدوں کی باتیں، آیات ماتم، معراج فکر، بیاض نجم، اسرار و افکار اور کربل نگری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

نجم، مرزا تجمل حسین آفندی : دیکھیے نجم آفندی، مرزا تجمل حسین۔

نحوی تجزیہ ((Syntactic Analysis)) : کسی زبان کے جملوں کی وضاحت اور تجزیے کو نحوی تجزیہ کہتے ہیں جس کا حامل اس زبان کی گرامر یعنی قواعد ہے۔

قدیم طرز پر لکھی ہوئی قواعد کو اب روایتی قواعد ((Traditional Grammar)) کہا جاتا ہے۔ جدید لسانیاتی تحقیقات کی روشنی میں اب قواعد زبان کے کئی ایک نظریے سامنے آئے ہیں مثلاً ساختی قواعد ((Structural Grammar))، تبادلی قواعد ((Transformational Grammar))، ٹیگمیمی قواعد ((Tagmemics Grammar))، طباقی قواعد ((Stratificational Grammar)) جو امریکی ماہرین کی کوششوں کا ثمر ہیں۔ لسانیات کے برطانوی اسکول کی پیش کردہ قواعد کو Category and Scale یا
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۴۸

Systemic Grammar کہتے ہیں۔ ان تمام قواعدوں میں بنیادی فرق Approach کا ہے۔ ان سب میں تبادلی تخلیقی قواعد کا نظریہ زیادہ مقبول اور مرعوب کن ہے جو جدید لسانیات کا انقلاب آفریں کارنامہ ہے۔

ندوۃ العلما : ہندوستانی علما میں بعض اس خیال کے حامی تھے کہ آج کی ترقی پذیر دنیا محض مذہبی نہیں ہے بلکہ قدیم و جدید قدروں کے اس سنگمی دور میں نصاب تعلیم اور طریقہ تدریس ایسا ہو جو دین اور دنیا دونوں میں کام آئے۔ اس مقصد کو لے کر ندوۃ العلما کا قیام ۱۸۹۴ میں عمل میں آیا۔ اس کا دستور العمل حسب ذیل تھا :

((۱)) نصاب تعلیم کی اصلاح اور دینی علوم کی ترویج و ترقی، تہذیب اخلاق
((۲)) علما کے اختلافی مسائل کا ازالہ
((۳)) مسلمانوں کے لیے رفاہی امور کی انجام دہی لیکن سیاست سے دوری
((۴)) اسلامی دارالعلوم کا قیام جہاں صنعتی تعلیم بھی ضروری ہو۔
((۵)) محکمہ افتا کا قیام

سید محمد علی کانپوری ندوۃ العلما کے سب سے پہلے ناظم تھے۔ مولانا شبلی ۱۹۰۴ میں حیدر آباد سے لکھنؤ پہنچے۔ ناطم ندوۃ مقرر ہوئے اور ماضی کی بدنظمی سے پیدا ہونے والی خرابیوں کی اصلاح میں لگ گئے۔ لیکن یہ اصلاحیں بعض حضرات کو گوارہ نہ ہوئیں اور وہ شبلی کی مخالف ہو گئے۔ حکومت کی نظر میں یہ ادارہ مشتبہ ہو گیا۔ لیکن جلد ہی حکومت کی غلط فہمی دور ہو گئی۔ حالات بہتر ہوتے گئے۔ عطیات میں اضافہ ہوا تو ندوہ کے مالی حالات میں بہتری آئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۴۹

۱۹۰۸ میں ندوہ کی اپنی عمارت بن گئی۔ علمی اختلافات کی بنا پر شبلی مستعفی ہو گئے اور اعظم گڑھ جا کر وہاں دارالمصنفین قائم کیا جس میں انے کے ندوہ کے تلامذہ نے گرانقدر ادبی اور اسلامی خدمات انجام دیں۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ لکھنؤ میں ندوۃ العلما قدیم و جدید تعلیم کا سنگم بنا ہوا اپنے مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہے۔

نذر سجاد حیدر ((۱۸۹۴ – ۱۹۶۷)) : کوہاٹ صوبہ سرحد میں پیدا ہوئیں جہاں ان کے والد برٹش انڈین آرمی کے سپلائی ایجنٹ تھے۔ نذر سجاد حیدر جن کا اصل نام نذر زہرا بیگم تھا، اپنے زمانے کے مقبول ترین ادیبوں میں تھیں۔ وہ حقوق نسواں اور تعلیم نسواں کی علم بردار تھیں۔ ان کے اجداد سلطنت اودھ کے مختلف اضلاع میں ناظم اور دیگر اعلٰی مناصب پر فائز رہ چکے تھے۔ ۱۸۵۷ کے بعد انگریزی حکومت نے اترپردیش کے جن غیر فوجی افسروں کو صوبے کے انتظام کے لیے پنجاب بھیجا ان میں سے نذر سجاد حیدر کے پردادا خان بہادر میر قائم علی سی۔ آئی۔ اے۔ بھی تھے۔ نذر زہرا بیگم کے والد خان بہادر میر نذر الباقر نے اپنی لڑکیوں کو گھر پر یوریشین معلمات سے تعلیم دلوائی۔ ۱۹۱۰ میں نذر زہرا بیگم ہفتہ وار اخبار "پھول" کی ایڈیٹر رہیں۔ ان کی ادبی شہرت سے متاثر ہو کر ہرہائینس سلطان جہاں بیگم والیہ بھوپال نے ان کو اپنا سکریٹری بنانا چاہا لیکن ان کے والد نے اس کی اجازت نہیں دی۔

۱۹۱۲ میں ان کی شادی سجاد حیدر یلدرم سے ہوئی۔ ۱۹۲۰ میں انھوں نے پردہ ترک کر کے سودیشی تحریک میں حصہ لیا۔ انھوں نے دہرہ دون میں ایک نسواں اسکول قائم کیا۔ اس کے بعد لکھنؤ کے مسلم گرلز ہائی اسکول کی مجلس عاملہ کی سررم رکن رہیں۔ ان کے شوہر سجاد حیدر یلدرم نے اردو کی اولین افسانے لکھے اور ترکی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۵۰

سے کئی تراجم اردو میں کیے۔ بعد میں وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے رجسٹرار مقرر ہو گئے۔ علی گڑھ میں بھی نذر سجاد حیدر نے بیگم عبد اللہ کی دست راست کی حیثیت سے مسلم گرلز کالج کے انتظام میں نمایاں کام کیا۔

ان کے ناولوں میں "اختر النسا بیگم" ((۱۹۱۰))، "آہِ مظلوماں" ((۱۹۱۸))، "حرماں نصیب"، "ثریا"، "جاں باز" ((۱۹۳۵))، "نجمہ" ((۱۹۳۹)) اور "عصمت" شامل ہیں۔ ان میں "نجمہ" اور "ثریا" کو خاص شہرت حاصل ہوئی۔

نذر سجاچ حیدر نے اپنی نوعمری میں بچوں کے لیے کئی دلچسپ کتابیں "سچی رضیہ اور اس کی بکری"، "پھولوں کا ہار"، "سلیم کی کہانی"، وغیرہ لکھیں۔ ان میں سے بعض کو پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی نے اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا۔

نذر سجاد حیدر کا ۱۷ اکتوبر ۱۹۶۷ کو بمقام ممبئی انتقال ہوا۔

نذیر احمد، مولوی ((۱۹۱۲ – ۱۸۳۱)) : ۱۸۳۱ میں ضلع بجنور کے موضع رہتر میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سید سعادت علی تھا۔ عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ پھر دلی آئے۔ دلی کالج میں ادب عربی اور فلسفہ اور علم ریاضی کی تکمیل کی۔ پہلے کانپور پھر الہ آباد میں ڈپتی انسپکٹر مدارس رہے۔ اپنی کوشش اور شوق سے انگریزی میں دستگاہ حاصل کی اور ترقی کر کے تحصیلدار بنے۔ پھر ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ تک پہنچ گئے۔ حیدر آباد کی سرکار نے انھیں اپنے بلا کر بورڈ آف ریوینیو کا ممبر بنا دیا۔ ۱۸۸۳ میں پنشن لے کر دلی واپس چلے آئے اور عمر کا باقی حصہ تصنیف و تالیف میں بسر کیا۔ انگریز حکومت نے شمس العلما کا خطاب دیا اور اڈنبرا یونیورسٹی سے ایل ایل ڈی کی ڈگری عطا کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۴۱

ہامس، اولیور وینڈل ((۱۸۹۴ – ۱۸۰۹، Holmes, Oliver Wendell)) : کیمبرج کے ایک ممتاز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مشہور پادری اور دینیات کے عالم تھے۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ جہاں سے گریجویٹ ہونے کے بعد قانون کے اسکول میں بقول خود کتابوں سے کوئی دلچسپی نہ لی۔ تین سال تک پیرس میں تعلیم حاصل کی۔ واپسی پر ہارورڈ سے ایم۔ ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۸۴۷ میں وہ ہارورڈ میں اناٹمی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ ۱۸۸۲ تک تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کی زندگی میں چھبیس کتابیں شائع ہوئیں۔

ہائی نے، ہنرچ ((۱۸۵۶ – ۱۷۹۷، Heine, Heinrich)) " : جرمنی کا بہت بڑا شاعر تھا۔ غنائی شاعری ((Lyric Poetry)) میں اس کا نہایت اہم مقام ہے۔ ہائی نے جرمنی کے مشہور شہر ڈوسلڈورف ((Dusseldfro)) میں ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا۔ شروع میں اس نے کاروبار شروع کیا۔ اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو قانون کا رخ کیا اور جب یہاں بھی ناکامی کا سامنا ہوا تو پھر اس نے تاریخ اور ادب کو اپنایا۔ جیسے ہی اس کی نظموں اور ڈراموں کا پہلا مجموعہ شائع ہوا تو اسے رومانی ادیبوں میں ایک مقام حاصل ہو گیا۔ اسی زمانے میں اس کی کئی نوجوان شاعروں سے ملاقات ہوئی جن میں باف مان اور گراب بھی شامل ہیں۔ بعض زندگی بھر کے لیے دوست بن گئے اور بعض دشمن۔

ہائی نے فرانس کے انقلاب کا بڑا حامی تھا۔ جرمنی کے حالات سے بہت مایوس تھا۔ یہاں اسے بہت ساری سیاسی مخالفتوں اور بدمزگیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا اور وہ پیرس چلا گیا۔ اس کو یہاں جرمن کی انقلابی تحریک کے ایک سرگرم اور نوجوان کارکن کی حیثیت سے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔ وہ یہاں سے انقلابی خیالات کی تبلیغ جرمنی میں
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۴۲

کرنے لگا۔ فرانسیسی حکومت نے اس کے لیے وظیفہ مقرر کر دیا اور وہ وہاں جرمن اخباروں کے نمائندے کے طور پر کام کرتا رہا۔ ۵۹ سال کی عمر میں سخت علالت کے بعد یہیں اس کا انتقال ہو گیا۔

ہائے نے کی طبیعت میں ایک طرح کی ثانویت تھی جس کی جھلک اس کی ادبی سرگرمیوں میں بھی جھلکتی ہے۔ ایک طرف وہ جرمن رومانی ادب کا دلدادہ تھا تو دوسری طرف کلاسیکی ادب کا بھی۔ طبیعتاً قوم پرست اور محب وطن بھی اور ساتھ ہی ان محدود دائروں کو توڑ کر بین الاقوامیت کو بھی اپنانا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک ساتھ فرانسیسی، انگریزی اور یہودی اثرات کو قبول کیا۔ اس نے غنائی نظموں اور گیتوں کے کئے مجموعے شائع کیے۔

مشہور موسیقاروں شومان، شوبرٹ، مینڈل سون اور لزٹ نے اس کے گیتوں کو موسیقی میں ڈھالا ہے۔ اس کی ۳ ہزار سے زائد نظموں کو دنیا کے عظیم فن کاروں نے موسیقی دی ہے۔ اس سے اس کی شاعری کی رومانیت، غنائیت اور کمال کا اندازہ ہو سکتا ہے۔

بعد کے دور میں ہائی نے نے اپنی نظموں اور نثر میں طنز نگاری کو خوب استعمال کیا ہے۔ اس میں رومان پسندی، تنگ نظر قوم پرستی اور اس وقت کے سماجی اور سیاسی حالات پر سخت طنز کیا گیا ہے۔ اس زمانہ کی دو کتابیں بہت مشہور ہیں۔ "ہرز کا سفر" اور "سفر کے تاثرات"۔ ان میں نثر و نظم دونوں ہیں۔ اس نے اپنے ڈرامے "المنصور" اور "اٹاٹرال" ((Attatroll)) اور "ڈیوش لینڈ" ((Deutech Land)) میں جرمنی کے بعض حلقوں کی یہودی دشمنی کو اپنا نشانہ بنایا ہے۔ غالباً اسی وجہ سے ہائے نے کی تصنیفات جرمنی میں اتنی مقبولیت کبھی نہ
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۴۳

حاصل کر سکیں جتنی وہ یورپ کے دوسرے ملکوں میں پسند کی گئی۔ انگلستان میں اس کی ہر تصنیف کا ترجمہ کیا گیا۔ ان میں سے بعض کا ترجمہ براؤننگ اور دوسرے بڑے ادیبوں نے کیا ہے۔

ہٹی، فلپ خوری ((خوری ((۱۹۲۹ – ۱۸۸۶، Hitti, Philip Khuri)) : امریکی مشتشرق، پیدائش سیریا ((شام)) کی ہے۔ بیروت کی امریکن یونیورسٹی اور پھر کولمبیا میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۱۳ میں یہ مستقل طور پر امریکا میں رہنے لگا۔ یہ پہلے جامعہ کولمبیا یونیورسٹی اور پھر پرنسٹن میں مشرقی زبانوں اور سامی ادب کا پروفیسر رہا۔ عربوں کی تاریخ اس نے بڑی محنت اور جستجو کے ساتھ جمع کی اور اس کی تصنیف "عرب کی تاریخ" کافی مستند مانی جاتی ہے۔ پہلی مرتبہ یہ ۱۹۳۷ میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد اس کے کئی اڈیشن نکل چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی "شام کی تاریخ" اور "مشرق کی تاریخ" بھی کافی مشہور ہیں۔

ہری اودھ ایودھیائے سنہہ اپادھیائے ((۱۸۶۵ – ۱۹۴۱)) : انیسویں صدی کے آخر تک ہندی کی شاعری برج بھاشا میں ہوتی تھی۔ جن شعرا نے بیسویں صدی کی ابتدا میں کھڑی بولی میں شاعری کی ان میں ایودھیائے سنہہ اپادھیائے ہری اودھ کا مقام کافی بلند ہے۔ انھیں ہندی کے کئی رزمیوں پر غضب کا عبور حاصل تھا۔ انھوں نے ایسی ہندی میں شاعری کی ہے جو سنسکرت آمیز ہے۔ جس میں بحریں بھی سنسکرت کی استعمال کی گئی ہیں۔ اس طرح ان کی ایک تصنیف "پریہ پرواس" قابل ذکر ہے۔ ایسی زبان میں بھی انھوں نے شاعری کی ہے جس میں سنسکرت کے الفاظ کم لیکن فارسی عربی کے لفظ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔ ایودھیائے سنہہ ایسی ہندی میں بھی شاعری کی اور ناول لکھے ہیں جس میں نہ تو ایک لفظ سنسکرت کا ہے اور یہ عربی فارسی کا۔ انشاء اللہ خاں کی رانی کیتکی کی کہانی کے بعد خالص ہندی میں لکھنے کی کامیاب کوشش ایودھیائے سنہہ نے کی۔ اس
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۴۴

طرح کی زبان میں لکھی ہوئی ان کی تصنیف یہ ہیں : شاعری : "چوکھے چوپدی" اور "چبھتے چوپدی"، ناول : "ادھ کھلا پھول" اور "ٹھیٹ ہندی کا ٹھاٹ"۔ اپادھیائے جی کا "پریہ پرواس" کھڑی بولی کا پہلا مہاکویہ ہے۔ اس میں کرشن جی کی زندگی کے کچھ واقعات نئے زمانے کو مدنظر رکھ کر لکھے گئے ہیں۔

ہری ویاس دیو : ان کی تاریخ پیدائش، جائے پیدائش اور وفات کا سراغ اب تک نہیں چل پایا۔ روایت کے مطابق ہری ویاس دیو گقڑ برہمن تھے۔ ان کا شمار نمبارک مسلک ((نمبارک فرقہ کرشن بھکتی سے متعلق برج منڈل کا اہم وشنو فرقہ ہے۔ اس کے بانی شری ہنس بھگوان ہیں)) کے اہم مہاتماؤں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے ازسر نو مسلک کی تنظیم کی اور گمشدہ روایات کی بازیافت کی۔ ان کے بارہ اہم شاگرد ہیں جنھوں نے اکھاڑوں کے قیام کے ذریعے مسلک کے وقار کو بلند کیا۔ نابھاداس نے اپنی کتاب "بھکت مال" میں انھیں شری بھٹ کا شاگرد بتایا ہے اور ان سے منسوب بعض کرشموں کا ذکر کیا ہے۔ ہری ویاس دیو سنسکرت کے چار اور ہندی کی ایک کتاب کے مصنف ہیں جو بالترتیب اس طرح ہیں۔ ((۱)) سدھانت رتناولی، ((۲)) نمبارکا شٹوتر شتنام، ((۳)) تتوارتھ پنچک، ((۴)) پنچ سنسکار نیروپن، ((۵)) مہاوانی۔ موخر الذکر دو کتابیں اب دستیاب نہیں ہیں۔ "مہاوانی" نمبارک مسلک کی روایات سے متعلق ایک اہم کتاب ہے۔ اس کتاب کو دوسرے لوگوں سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ "مہاوانی" میں رادھا کرشن کے لیلا کو فلسفیانہ شکل دی گئی ہے۔ مہاوانی کی بھاشا برج بھاشا ہندی ہے۔ اس میں تتسم الفاظ زیادہ ہیں۔ اس میں دوہا اور ایک پد کا طریقہ اپنایا گیا ہے اور گائے جانے والے پد زیادہ ہیں۔ انھوں نے النکاروں کی طرف بھی دھیان دیا ہے۔ ہری ویاس دیو کا تعلق کرشن بھکت کویتا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۴۵

ہری ہرا ((زمانہ تیرہویں صدی، Hari, Hara)) : ہری ہرا کنٹر ادب کا بلند پایہ شاعر ہے۔ اس سے ادب میں نئے اسلوب اور نئے مضامین کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ عظیم شاعر بھگوان شیو کا پجاری تھا۔ اس کے کلام سے اس کی عقیدت کی خوشبو جھلکتی ہے۔

ہری ہرا کی اہم تخلیقات پمپاستکا ((Pampa Satka))، رکشا ستکا ((Raksha Satka))، مدگیا ستکا ((Mudgeya Satka))، گری جاکلیان ((Grija Kalyan))، شیوا گندا ((Siva Ganda)) اور راگالےگلو ((Ragalekhalu)) ہیں۔ پہلی دو تصنیفات میں سے ہر ایک سو بندوں پر مشتمل ہے اور خود نوشت سوانح کا عنصر لیے ہوئے ہیں۔ اس کا نظریہ شاعری یہ تھا کہ فانی انسانوں کے بجائے صرف بھگوان شیو کا گن گان کرنا چاہیے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ بہت سے ویراشیو شاعروں نے ہری ہرا کی تقلید میں اسی کا راستہ اختیار کیا۔

"گری جاکلیان" چمپو فارم میں ہری ہرا کی شاہکار نطم ہے جس پر ان کی نفرادیت کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ اس کا اصل موضوع شیو اور پاربتی کی شادی کی داستان ہے جس کا ماخذ سنسکرت کی "شیوپران" ہے۔ شاعر نے کلاسیکی شاعری کی روایت اور جدید اسلوب دونوں کے درمیان کی راہ نکالنے کی کوشش کی ہے۔ کنٹر ادب کو ہری ہرا کی سب سے بڑی دین اس کی تصنیف مَدرا چنیہنا راگلے ((The Madra Channaiahna Ragale Untouchable Madra’s Song )) ہے۔ اس میں ہری ہرا کو اپنی شخصیت ابھارنے کا اچھا میدان ملا ہے۔ اس کا مواد اگرچہ روایتی ماخذات سے حاصل کیا گیا ہے لیکن اپنے شاعرانہ تصرفات، اسلوب بیان اور
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۴۶

موزوں ڈکشن کے ذریعہ مصنف نے اس میں نئی جان ڈال دی ہے۔ ہری ہرا بلاشبہ عظیم شاعر ہے۔ کنٹری دانشوروں اور بھگوان شیو کے عقیدتمندوں میں اس قد بہت اونچا ہے۔

ہریش چندر بھارتیندو ((۱۸۵۰ – ۱۸۸۵)) : دیکھیے بھارتیندو، ہریش چندر۔

ہزاری پرشاد دویدی ((۱۹۰۷ – ۱۹۷۹)) : ہزاری پرشاد دویدی کی پیدائش ضلع بلیا اترپردیش کے ایک گاؤں آرت دوبے کا چھپرہ میں ہوئی۔ سنسکرت کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بنارس ہندو یونیورسٹی سے ۱۹۳۰ میں جیوتش آچاریہ اور انٹر کیا۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ۱۹۴۰ سے ۱۹۵۰ تک وہ شانتی نکیتن میں ہندی بھون کے ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کرتے رہے جہاں انھیں گرو دیو رویندر ناتھ ٹھاکر سے بھی فیضیاب ہونے کا موقع ملا۔ ۱۹۴۹ میں لکھنؤ یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ ۱۹۵۰ میں بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے پروفیسر اور سربراہ کی حیثیت سے ان کی تقرری ہوئی۔ حکومتِ ہند نے ہندی زبان کی خدمات کے سلسلے میں انھیں ۱۹۵۷ میں پدم بھوشن کے خطاب سے نوازا۔

وہ ہندی کے ممتاز نقاد، انشائیہ نگار اور ناول نگار تھے۔ ان کی اہم کتابیں یہ ہیں : تنقید : سور ساہتیہ ((۱۹۳۰))، ہندی ساہتیہ کی بھومیکا ((۱۹۴۰))، پراچین بھارت میں کلاتمک ونود ((۱۹۴۰))، کبیر ((۱۹۴۲))، ناتھ سمپردایہ ((۱۹۵۰))، ہندی ساہتیہ ((۱۹۵۲))، ناتھ سدھ کی دانیاں ((۱۹۵۷))، انشائیے و مضامین کے مجموعے، اشوک کا پھول ((۱۹۴۸))، کلپ لتا ((۱۹۵۱))، وچار پرواہ ((۱۹۵۹)) وغیرہ۔
 
Top