اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۴۸

اسی نام کی ایک اور تاریخ محمد یوسف کی تصنیف ہے جس میں شاہجہاں کے دور کے ۱۶۰۸ تک کے واقعات قلمبند کیے گئے ہیں۔

منٹو، سعادت حسن ((۱۹۵۵ – ۱۹۱۲)) : پیدائش لدھیانہ میں ہوئی۔ بچپن امرتسر میں گزرا۔ تعلیم امرتسر اور علی گڑھ میں حاصل کی۔ دہلی، ممبئی اور لاہور میں زندگی بسر کی۔ ۱۹۳۹ میں صفیہ بیگم سے شادی ہوئی۔ تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ انتقال لاہور میں ہوا۔ منٹو نے ادبی زندگی کا آغاز انگریزی، روسی اور فرانسیسی کہانیوں کے تراجم سے کیا۔ ڈرامے بھی لکھے۔ ریڈیو، فلم اور ادبی صحافت سے بھی تعلق رہا۔ ان کی بعض طبع زاد کہانیوں پر فلمیں بھی بنائی گئیں۔ کہانی منٹو کا خاص میدان ہے۔ کچھ مضامین بھی لکھے۔ ذاتی زندگی پریشانیوں میں گزری۔ تقسیم کے بعد کے چند برس، جب منٹو کا قیام لاہور میں تھا، بہت سخت تھے۔ یہاں تک کہ کچھ دنوں کے لیے دماغی ہسپتال میں داخل کروا دیے گئے۔ مالی پریشانیاں زندگی بھر ساتھ لگی رہیں۔ منٹو کی کچھ کہانیوں پر فحاشی کے الزام میں مقدمے بھے چلے۔ لکھنے کا سلسلہ ہر حال میں جاری رہا۔ ان کی تصانیف کے خاص مجموعے یہ ہیں : آتش پارے ((۱۹۳۶))، لذت سنگ ((۱۹۴۷))، سیاہ حاشیے ((۱۹۴۸))، چغد ((۱۹۴۸))، خالی بوتلیں خالی ثبے ((۱۹۵۰))، بادشاہت کا خاتمہ ((۱۹۵۱))، یزید ((۱۹۵۱))، اوپر، نیچے، درمیان ((۱۹۵۴))، شیطان ((۱۹۵۴))، بغیر عنوان کے ((۱۹۴۰))، ڈرامے : تین عورتیں ((۱۹۴۲))، منٹو کے مضامین ((۱۹۴۲)) اور خاکے : گنجے فرشتے ((۱۹۵۳))۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۴۹

کہانیوں، ڈراموں اور متفرق مضامین پر مشتمل کچھ کتابیں جو منٹو کی موت کے بعد شائع ہوئیں، ان کے نام یہ ہیں : رتی ماشہ تولہ، شکاری عورتیں، سرکنڈوں کے پیچھے، منٹو کے ڈرامے، پھندنے، تلخ ترش شیریں، ٹھنڈا گوشت، ناخن کا قرض، چشم روزن، گلاب کا پھول، مجذوب کی بڑ، نور جہاں سرور جہاں، عصمت چغتائی ((خاکہ))۔ ایک نامکمل ناول بھی منٹو کی یادگار ہے۔ ان کی تحریروں کے تراجم ہندوستان اور یوروپ کی کئ زبانوں میں کیے گئے ہیں۔

منٹو ایک غیر معمولی افسانہ نگار تھے۔ اپنی صناعی اور مہارت کے لحاظ سے بے مثال۔ منٹو کی کہانیوں کا ڈھانچہ اور ان کی نثر سادگی کے باوجود بہت موثر ہوتی ہے۔ منٹو کے کرداروں میں طوائفیں، کسبیاں، بھڑوے، جیب کترے، لفنگے، ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ گرے ہوئے مردوں اور عورتوں کی زندگی سے منٹو کو خاص دل چسپی ہے۔ وہ ان کرداروں کے زوال کی تاریخ یا اسباب سے زیادہ توجہ ان کے روحانی کرب، ان کی مسخ شدہ انسانیت اور ان کے احساسِ تنہائی پر صرف کرتے ہیں۔ موذیل، سوگندھی اور بابو گوپی ناتھ کے کردار منٹو نے بڑی مہارت کے ساتھ وضع کیے ہیں۔ منٹو اخلاقی فیصلے نہیں کرتے، نہ کسی طرح کے وعظ و پند سے سروکار رکھتے ہیں۔ ہتک، بابو بوپی ناتھ، نیا قانون، بو، کھول دو، موذیل، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پھندنے، سیاہ حاشیے اور ڈرامہ "اس منجدھار میں" منٹو کی نمائندہ تخلیقات ہیں۔

منزونی، آلیساندرو ((۱۸۷۳ – ۱۷۸۵ Manzoni, Alessandro,)) : منزونی اٹلی کا شاعر و ناول نگار ہے۔ نوجوانی میں منزونی الفیے ری ((Alfieri)) اور پیری نو ((Parino)) جیسے مصنفوں سے متاثر ہوا اور حریت پسندی، وطن دوستی اور آزاد خیالی کو اپنایا۔ والٹیر ((Voltaire)) کے اثر نے اسے عقیدے سے برگشتہ ((
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۵۰

Sceptial)) بنا دیا۔ ۱۷۹۲ میں اس کے والدین نے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ ۱۸۰۵ میں منزونی اپنی ماں اور اس کے عاشق کے ہاں پیرس چلا گیا۔ ۱۸۰۸ میں شادی کی اور بیوی کے اثر میں آ کر کیتھولک مذہب اختیار کیا۔ منزونی کی باقی زندگی ایک گہری مذہبیت کی حامل ہے۔ اس کا گہرا ایمان اس کی ساری تصنیفوں میں نمایاں ہے۔ منزونی نے کیتھولک اخلاقیات پر ایک رسالہ لکھا اور ۱۸۰۴ میں اپنے اشعار کا مجموعہ "انی ساکری" ((Inni Sacri)) یعنی "مناجات" ((Sacred Hymns)) شائع کیں۔ ۱۸۳۲ سے ۱۸۳۹ تک اس کا مشہور زمانہ ناول "آئی پرومیسی سپوزی" ((I Promesti Spose)) یعنی "دو منگیتر" تین جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کا انگریزی ترجمہ The Betrothed کے نام سے ۱۸۵۱ میں چھپا۔ یہ ناول ابتدائی سترہویں صدی کے لمبارڈی ((Lombardi)) جنگ سی سالہ اور پلیگ کی وبا کے پس منظر کے ساتھ دو دہقانی کرداروں کی داستان ہے جو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن ایک مقامی صاحب اقتدار کا جبر و ظلم اور بستی کے پادری کی بزدلی ان کی زندگیوں اور ارادوں میں حائل ہوتے ہیں۔ منزونی کا تاریخی تبحر، غریب کسانوں سے ہمدردی اور اس کی گہری مسیحیت اس ناول میں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ اس کتاب کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور اس کے سبب منزونی کو یوروپی شہرت حاصل ہوئی۔ منزونی نے بڑی طویل عمر پائی۔ بہت دکھ جھیلے۔ اس کی دو بیویاں اور کئی بچے اس کی زندگی میں نذر اجل ہو گئے لیکن منزونی کے عقیدے اور ایمان میں کبھی تزلزل نہیں آیا۔

منزونی کی اہم تصنیفیں Operetic Varic کے نام سے ۱۸۷۰ میں یکجا شائع کی گئیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۰۱

میتھلی ڈرامہ ((جدید)) : جدید میتھلی ڈرامہ میں وہ پختگی نہیں ہے جو دوسرے اصناف ادب میں پائی جاتی ہے۔ جدید ڈرامہ چیرن چھا اور رگھونندن داس کے ساتھ شروع ہوا جن کا نثری ڈرامہ نویسی میں بڑا حصہ ہے۔ بعد میں کئی ایک روایتی ڈرامے بھی لکھے گئے۔ آنند جھا کا "سیتالو بمور" آیش ناتھ جھا کا "جینی کا لڈو" ((۱۹۴۷)) اور گووند جھا کا "راستہ" اسی نوع کے ڈرامے ہیں۔ اس دور کے زیادہ کامیاب ڈرامے تاریخی ہیں۔ جو ودیاپتی یا دیگر ممتاز شخصیتوں کی زندگی پر لکھے گئے ہیں۔ تاہم سب سے اچھے ڈرامے یک بابی ڈرامہ ہیں۔ خاص طور سے کانچی ناتھ جھاکرن اور چندرا ناتھ مشرا امر کے یک بابی ڈرامے پڑھنے اور اسٹیج کیے جانے کے لحاظ سے بھی کافی موثر ہیں۔ کولکتہ اسکول کے قلمکاروں نے "میتھیلی یاترک" تھیٹریکل کمپنی نامی انجمن کے اشتراک سے اس صنف کو کافی آگے بڑھایا ہے۔ اس انجمن کو شہری سہولتوں کے علاوہ بنگالی اسٹیج کا تجربہ اور اس کی مثالوں سے استفادہ کا موقعہ حاصل رہا ہے۔

میتھلی شاعری : جدید ادب کا آغاز احیا پسندی سے ہوا۔ اس تحریک کا بانی جدید نظم کا پہلا ممتاز شاعر، کویشور چندجھا عرف چنداجھا ((۱۸۲۰ – ۱۹۰۷)) ہے۔ میتھلی زبان نے اس کی نظم "رامائن" کے ذریعہ میتھلا نشاۃ ثانیہ ((Renaissance)) میں بڑا اہم حصہ ادا کیا ہے۔ دوسرے ممتاز شاعروں میں "سبھدرا ہرن" نامی رزمیہ کا مشہور مصنف رگھونندن داس ہے۔ اس کے علاوہ وندھیاناتھ جھا، لال داس جس کا میتھلی کے جدید بھکتی ادب ((کھنٹہ کاویہ)) میں نمایاں حصہ ہے۔ گیت کاویہ میں گن ونت لال داس، جیو ناتھ جھا "بدھ" اور بابو بھونیشور سنہہ بٹھون ((۱۹۰۸ – ۱۹۴۵)) قابل ذکر ہیں۔ بٹھون ابتدائی جدید شاعروں کی آخری کڑی اور نئے شاعروں میں سب سے پہلا شاعر ہے۔ اس کی نگارشات کی وجہ سے موضوع اور فن شاعری دونوں میں ایک انقلاب سا پیدا ہوا۔ شاعری
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۰۲

موسیقی کے شکنجے سے آزاد ہو گئی اور ہمعصر زندگی کو شعری تجربہ میں پیش کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ دوسرا بڑا شاعر جس نے شاعری کو جدید رنگ و روپ دینے کی کوشش کی سیتا رام جھا تھا۔

جدید شاعری کے دیگر روایتی اور تجرباتی رحجانات کے نمائندہ شاعروں میں نغمہ نواز اشامیتھ جھا، صاحب علم و حکمت سریندر جھا سمن، "کبچک بدھ" کا قادر الکلام مصنف تنتر ناتھ جھا، بدری ناتھ جھا جیسا عالم اور کاشی ناتھ مشرا مادھو جیسا قنوطیت پسند قابل ذکر ہیں۔ لیکن آج کی نسل کے شاعروں میں بغاوت کا جذبہ اور جدیدیت کا شعور ان سے بھی زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان کا لیڈر پرانی ہی نسل کا شاعر سری یاتری ((وید ناتھ مشرویہ ویدیہ جو ہندی میں ناگار جن کے نام سے مشہور تھے)) ہے جسے ہر لحاظ سے جدید ہندوستان کے ذہن ترین شاعروں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس کی جمالیہ نظموں کا مجموعہ "پترہین نگن گاچھ" ((بے برگ ننگا درخت)) ساہتیہ اکادمی کا ایوارڈ بھی پا چکا ہے۔ تاہم میتھلی کی جدید شاعری کے خالقوں میں "سور گندھا" (بوئے صدا)) کا مصنف مہندر چودھری، راج کمل اور رام کرشن جھاکِسُن اہم مقام رکھتے ہیں۔

کِسُن کی غیر معمولی تصنیف "آتما نے پد" ابھی تک پوری طرح ہر شخص کی فہم و ادراک سے باہر ہے، دوسرے جدید شاعروں میں مایا نندا، سوم دیوکال دھون کرتی نارائن متر ((سیمانت))، رامانند رینو، جیو کانت ((ناچوہے پرتھوی)) اور "دُھری" ((محور)) کے شہرت یافتہ شاعر بھیسم ناتھ جھا، اپیندر دوشی، ادے چند جھا اور یک بودھ قابل ذکر ہیں۔ نئی نسل کے شعرا جو ۱۹۵۰ کے لگ بھگ پیدا ہوئے ہیں، وہ پوری سنجیدگی اور خلوص سے اپنے کام میں جٹے ہئے ہیں۔ ان شعرا میں سے کم از کم ایک شاعر یعنی "نچکتا" ((Nachiketa)) کی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۰۳

تخلیقات خاص طور سے ترجمہ کا مستحق ہے۔ جس کے کلام کا مجموعہ "کولو ویدانت" ((بقول دانائے راز)) کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

میتھلی نثر : جدید دور میں سب سے زیادہ جس صنف ادب میں کام ہوا ہے وہ نثر ہے اور نثر میں بھی سب سے پہلے صحافت پر توجہ کی گئی۔ ابتدا میں مضمون نویسی کا رنگ زیادہ تر ناصحانہ تھا۔ رفتہ رفتہ اس میں پختگی پیدا ہوئی اور اعلٰی میعار کے متعدد شخصی مضامین اور فکر انگیز مضامین سنجیدہ اور ہلکے پھلے انداز میں لکھے جانے لگے۔ مرلی دھر جا ((۱۸۶۸ – ۱۹۲۹)) پہلا اہم مضمون نویس ہے جس نے ادب میں طنز و مزاح کے شگوفے چھوڑے۔ بلدیو مشرامیں مرلی دھر کی سی شگفتگی تو نہیں ہے تاہم اس کا سنجیدہ اور مہذب اسلوب اس کی بہترین تصنیف "گپ شپ وویک" اور "رامائن شکشا" سے پوری طرح عیاں ہے۔ دوسرے اہم مضمون نگاروں میں کمار گنگا نند سنہہ ((۱۸۰۸ – ۱۸۷۳))، بھو نیشور سنہہ بھون ((۱۹۰۷ – ۱۹۴۵)) اور بھولا لال داس قابل ذکر ہیں۔ پروفیسر ہری موہن جھا کے مذاحیہ اور طنز آمیز مضامین شو شمبھو کا جیٹھا، ڈاکٹر اُمیش مشر کے ادب و زندگی سے متعلق متعدد حسین اور نفیس جائزے اور پروفیسر رام ناتھ جھا کی متوازن اور محتاط نگارشات انھیں میتھلی مضمون نگاری کی تاریخ میں ایک مخصوص مقام عطا کرتے ہیں۔ پروفیسر تنترناتھ جھا نے اپنے مضامین میں چارلس لیمب کے اسلوب کو بڑی خوبصورتی سے اپنایا ہے۔

ادبی تنقید کے میدان میں مشرق اور مغرب دونوں کی روایات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ابتدائی زمانہ میں اس شعبہ ادب کی ممتاز شخصیت چنرا جھا کی تھی جن کے تبصروں اور نوٹس کو "چھا چھو پادھیہ" کو پرمیشور جھا نے بعد میں یکجا کر کے شائع کیا ہے۔ اس کے بعد پنڈت رام ناتھ جھا نے اپنی دو مشہور تصانیف "پربندھ سنگرھا" ((
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۰۴

Prabandha Sangraha)) اور "نبندھ مالا" ((Nibandhmala)) کے ذریعہ میتھلی میں ادبی تنقید کی بنیاد رکھی۔ ہری موہن جھا کی کنیا دان اور دیگر تصانیف سے متعلق پروفیسر شری کرشن مشرا کے دلچسپ مطالعے اپنی ٹھوس اور آزادانہ رائے کی وجہ سے پنڈت رام ناتھ جھا پر فوقیت رکھتے ہیں۔ تنقید نگاری میں دیگر نقادوں کے کارنامے بہت ہی مختصر ہیں یا پھر پروفیسر جیا دھاری سنہہ کی طرح ان میں بغیر کسی اپچ کے دوسروں کی آرا کو یکجا کر دیا گیا ہے۔

میتھلی افسانہ اور ناول : میتھلی نثر کی سب سے کامیاب صنف افسانوی ادب ہے۔ یہی وہ میدان ہے جہاں میتھلی ادب نے پھر ایک بار وہی عظمت حاصل کی ہے جو دور ودیاپتی میں غنائی نظم کو اور عہد اوماپتی میں ڈرامہ کو حاصل تھی۔ اس سلسلہ میں پروفیسر ہری موہن جھا کی نگارشات اور خاص طور سے موجودہ عہد کا افسانوی ادب بلندیوں کی اس منزل پر پہنچ چکا ہے جہاں اس کا مقابلہ کسی بھی جدید ہندوستانی زبان و ادب سے کیا جا سکتا ہے۔ ہری موہن جھا کی ظرافت اس حد تک قابل قدر ہے جہاں وہ اس سے سماجی اصلاح کا کام لیتے ہیں ورنہ ان کے ناولوں کے پلاٹ کی ترتیب ناقص ہے اور تعلیم نسواں سے متعلق ان کی وکالت کوئی ادبی جوہر نہیں رکھتی۔ البتہ میتھلی زندگی و عادات و خصائل پر ان کی گہری نظر کسی واقعہ کے مذاحیہ پہلوؤں کو نمایاں کرنے کی صلاحیت اور سب سے بڑھ کر میتھلی زبان کے محاوروں اور استعاروں پر ان کی قدرت نے بہ حیثیت ادیب انھیں ایک بلند مقام عطا کیا ہے۔ پروفیسر جھا کے "کنیا دان" ((۱۹۳۰ – ۳۲)) اور "دوی رامگن" ((۱۹۴۵)) جیسے ناولوں اور بالخصوص ان کی کہانیوں کے مجموعوں کی وجہ سے جو "پرنام دیوتا" اور "چھر چھاری" ((Char Chari)) کے ناموں سے موسوم ہیں، میتھلی افسانوی ادب نے سارے ہندوستان میں شہرت پائی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۰۴

Prabandha Sangraha)) اور "نبندھ مالا" ((Nibandhmala)) کے ذریعہ میتھلی میں ادبی تنقید کی بنیاد رکھی۔ ہری موہن جھا کی کنیا دان اور دیگر تصانیف سے متعلق پروفیسر شری کرشن مشرا کے دلچسپ مطالعے اپنی ٹھوس اور آزادانہ رائے کی وجہ سے پنڈت رام ناتھ جھا پر فوقیت رکھتے ہیں۔ تنقید نگاری میں دیگر نقادوں کے کارنامے بہت ہی مختصر ہیں یا پھر پروفیسر جیا دھاری سنہہ کی طرح ان میں بغیر کسی اپچ کے دوسروں کی آرا کو یکجا کر دیا گیا ہے۔

میتھلی افسانہ اور ناول : میتھلی نثر کی سب سے کامیاب صنف افسانوی ادب ہے۔ یہی وہ میدان ہے جہاں میتھلی ادب نے پھر ایک بار وہی عظمت حاصل کی ہے جو دور ودیاپتی میں غنائی نظم کو اور عہد اوماپتی میں ڈرامہ کو حاصل تھی۔ اس سلسلہ میں پروفیسر ہری موہن جھا کی نگارشات اور خاص طور سے موجودہ عہد کا افسانوی ادب بلندیوں کی اس منزل پر پہنچ چکا ہے جہاں اس کا مقابلہ کسی بھی جدید ہندوستانی زبان و ادب سے کیا جا سکتا ہے۔ ہری موہن جھا کی ظرافت اس حد تک قابل قدر ہے جہاں وہ اس سے سماجی اصلاح کا کام لیتے ہیں ورنہ ان کے ناولوں کے پلاٹ کی ترتیب ناقص ہے اور تعلیم نسواں سے متعلق ان کی وکالت کوئی ادبی جوہر نہیں رکھتی۔ البتہ میتھلی زندگی و عادات و خصائل پر ان کی گہری نظر کسی واقعہ کے مذاحیہ پہلوؤں کو نمایاں کرنے کی صلاحیت اور سب سے بڑھ کر میتھلی زبان کے محاوروں اور استعاروں پر ان کی قدرت نے بہ حیثیت ادیب انھیں ایک بلند مقام عطا کیا ہے۔ پروفیسر جھا کے "کنیا دان" ((۱۹۳۰ – ۳۲)) اور "دوی رامگن" ((۱۹۴۵)) جیسے ناولوں اور بالخصوص ان کی کہانیوں کے مجموعوں کی وجہ سے جو "پرنام دیوتا" اور "چھر چھاری" ((Char Chari)) کے ناموں سے موسوم ہیں، میتھلی افسانوی ادب نے سارے ہندوستان میں شہرت پائی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۰۵

دوسرے دو ممتاز ناول نگار للت اوور دھیرندر نے پچھڑے اور دھتکارے ہوئے لوگوں کی زندگی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ایسے ناول نگاروں میں رامانند رینو کی تصانیف خاص طور سے ترجمہ کی مستحق ہیں۔ اس کے ناول اور خاص طور سے "دودھ پھول" ((۱۹۶۷)) اس بات کا ثبوت ہیں کہ کوئی ناول جنسی موضوع کے بغیر بھی بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔ میتھلی افسانے میں زندگی کی چھوٹی حقیر چیزوں کو موضوع بنا کر حقیقت نگاری کا ایک نیا تصور پیش کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے میتھلی افسانے کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ اس نوع کے افسانہ نگاروں میں جیو کانت کو ممتاز ترین مقام حاصل ہے جس کی کہانیوں کے مجموعہ "ایک سری تھارہی کدم تری" ((Eksari Tharhi Kadam Tare, 1972)) میں زندگی کی اس بے پناہ اجنبیت کو پیش کیا گیا ہے جس میں شہر اور دیہات دونوں جگہوں کا رہنے والا جدید انسان مبتلا ہے۔ دوسرے نامور افسانہ نگاروں میں پربھ کار چودھری اور گنگیر گنجن قابل ذکر ہیں۔

میتھلی شرن گپت ((۱۸۸۶ – ۱۹۶۴)) : جرگاوان جھانسی ((اتر پردیش)) میں جنم ہوا۔ ۱۹۰۰ تک نثر معیاری ہندی میں لکھی جاتی تھی لیکن شاعری کے لیے برج بھاشا کا استعمال ہوتا تھا۔ مہادیو پرشاد دودیدی کی وجہ سے جن لوگوں نے معیاری ہندی میں شاعری شروع کی ان میں میتھلی شرن گپت کا مقام سب سے اونچا ہے۔ ان کی پہلی تصنیف "رنگ میں بھنگ" ۱۹۱۰ میں شائع ہوئی۔ مہاویر پرشاد دودیدی نے ان سے اصرار کیا تھا کہ وہ مولانا حالی کے مسدس کی طرح ہندی میں کوئی چیز لکھیں۔ انھوں نے ۱۹۱۳ میں اس فرمائش کے مطابق "بھارت بھارتی" لکھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ ہندوستان ماضی میں ایک عظیم و شان دار حیثیت رکھتا تھا۔ اس نے سبھی میدانوں میں ترقی کی تھی۔ موجودہ زمانے میں ہندوستان انگریزوں کا غلام ہو گیا۔ اس کی ساری خوبیاں نہ جانے کہاں
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۰۶

کھو گئیں۔ اگر ہم متحد ہو کر کام کریں تو پھر دوبارہ اپنی کھوئی عزت کو پا سکتے ہیں۔ بھارت بھارتی سے میتھلی شرن گپت کو پورے ملک میں شہرت حاصل ہوئی۔ انگریز حکومت نے کچھ عرصہ کے لیے بھارت بھارتی پر پابندی لگا دی تھی۔ مہاتما گاندھی کی قیادت میں جن لوگوں نے عدم تشدد کے ساتھ انگریزوں سے لوہا لیا اور جو انقلاب پسند نوجوان پھانسی پر لٹکے وہ سب بھارت بھارتی کو بہت پسند کرتے تھے۔

بھارت بھارتی کے بعد گپت جیون میں انھوں نے ہندوستان کی تاریخ اور دیومالا کو شاعری کے ذریعے اس طرح پیش کیا کہ لوگوں میں اپنی تہذیب کے بارے میں شعور پیدا ہوا۔ "منگل گھٹ"، "گوروکل"، "ہندوتو" ان کے ایسے ہی شعری مجموعے ہیں۔ انھوں نے مہابھارت کی کچھ کہانیوں کو نئے ڈھنگ سے پیش کیا۔ اس ڈھنگ کی شاعری میں "جئے در تہودہ" ((۱۹۱۰)) دواپر اور جے بھارت ((۱۹۱۲)) قابل ذکر ہیں۔ بھگوان بدھ پر ان کے دو شعری نمونے ملتے ہیں : اناگھ اور یشودھرا۔ حضرت حسن و حسین کی شہادت پر کعبہ اور کربلا لکھا۔

ساکیت ((۱۹۳۲)) گپت جی کی عظیم ترین تصنیف ہے۔ اس میں انھوں نے بھگوان رام چندر جی کی کتھا اس ڈھنگ سے لکھی ہے کہ لکشمن کی بیوی ارملا کا کردار قاری کے ذہن پر چھا جاتا ہے۔ ان سے پہلے کسی شاعر کا خیال ارملا پر نہیں گیا تھا۔ گپت جی بھگوان رام کے بھگت تھے اور انھوں نے ساکیت میں اپنی بھگتی کا اظہار کیا ہے۔

گپت جی آسان زبان میں نظم لکھتے تھے۔ وہ ہندوستان کی پرانی تہذیب کے ترجمان ہیں۔ تقریباً پچاس سال تک انھوں نے ہندی پڑھنے لکھنے اور سمجھنے والوں کی رہنمائی کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۰۷

میٹا مور فوسِس ((Metamorphosis)) : لاطینی شاعر اوویڈ کی مشہور تصنیف ہے جس میں اس نے یونانی دیومالا کی قصوں اور رومائے قدیم کی کہانیوں کو بڑی مہارت سے نظم کیا ہے۔ گو اس نظم میں کوئی مرکزی خیال کارفرما نہیں ہے اور نہ کوئی فلسفیانہ گہرائی ملتی ہے لیکن قصہ گوئی اور داستان طرازی کی جو مہارت اس میں پائی جاتی ہے اس نے اسے شہرت دوام دے دی اور یہ نظم صدیوں تک یوروپ کے شاعروں کے لیے کہانیوں اور قصوں کا ایک بیش بہا ماخذی ذخیرہ بنی رہی جس سے بیسیوں شاعروں جیسے بوکاچو ((Boccaccio)) اور چاسر ((Chaucer)) نے خوشہ چینی کی۔ قرون وسطی اور نشاۃ ثانیہ کے دور میں اس نظم کی شہرت اپنے عروج پر تھی۔ اس نظم میں اوویڈ نے اپنی غیر معمولی تخیلانہ اڑان اور نئے الفاظ اور محاورات ایجاد کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ کہانیوں کے اس مجموعہ نے یورپی ادب کو روایتوں اور استعاروں کا ایک گراں بہا ذخیرہ دیا ہے۔

میٹر لنک، مورس ((۱۹۴۹ – ۱۸۶۲، Maeterlink, Maurice)) : مورس بیلجیم کا باشندہ تھا جو فرانسیسی میں لکھتا تھا۔ بیلجیم میں اس کے نام کا تلفظ مورس میٹرلیک کیا جاتا ہے۔ شروع میں کئی سال تک وہ وکالت کرتا رہا۔ ۱۸۹۷ میں پیرس آیا۔ اس پر شروع ہی سے اشارت نگاروں ((Symbolists)) کا اثر تھا۔ ساتھ ہی ایمرسن کی باطنیت یا صوفیت ((Mysticism)) سے بھی وہ کافی متاثر تھا۔ اس کی تصنیفات ساٹھ سے اوپر جلدوں پر مشتمل ہیں اور ان سب میں اشارت نگاری کا اثر پرزور طریقے پر موجود ہے۔ پُراسرار کائنات، زندگی سے بے زاری اور دنیا کی تباہی پر یقین ہر نگارش پر چھایا ہوا ہے۔ پہلی جنگ عظیم سے پیشتر کی نسل پر اس کے خیالات کا گہرا اثر ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۰۸

۱۹۱۱ میں میٹرلنک کو ادب کا نوبل انعام ملا۔ ۱۹۲۰ کے بعد سے اس کی تخلیقی صلاحیتیں تقریباً ختم ہو گئیں۔ اس کی مشہور نصنیفات میں کہانیوں کا مجموعہ "بچوں کا قتل" اور ڈرامے "مونا واننا" اور "پلاس و میلی زاند" ہیں۔ آخر الذکر پر مشہور فرانسیسی نغمہ نگار دیوسی نے اوپیرا تیار کیا تھا۔ اس کا افسانہ "نیلا پرندہ" بھی کافی مشہور ہوا۔ اس نے بچوں کے لیے بھی کہانیاں لکھی ہیں جن میں موت کی حقیقت سے انکار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نظموں اور مضامین کے مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں۔ اکثر کتابوں کا یوروپ کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔

میجر فلر ((تقریباً ۱۸۲۹ – ۱۸۶۸ Major Fuller)) : میجر فلر پنجاب میں ناظم تعلیمات ((ڈائرکٹر آف ایجوکیشن)) تھے۔ ان کا ذکر کپتان فلر کے نام سے بھی ملتا ہے۔ ۱۸۶۵ کے بعد انھیں میجر کا عہدہ ملا۔ یہ اپنے دور نظامت میں پنجاب کی تعلیمی ترقی کے بارے میں مفصل رپورٹ چھپوایا کرتے تھے۔ انھوں نے ہندوستانی کی متعدد قدیم و نایاب کتابیں طبع کروائیں اور خود بھی نئی کتابیں اس زبان میں لکھی اور لکھوائیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر لائنز نے جو انجمن اشاعت علوم لاہور میں قائم کی تھی فلر اس کے سرپرست تھے۔ ۱۸۶۷ میں میجر فلر اپنے اہل و عیال سے ملنے انگلستان گئے تھے۔ انگلستان سے واپسی کے چند روز بعد جب وہ دیہات کے دورے پر تھے تو شہر راولپنڈی کے قریب ان کی گاڑی ایک نالے میں پھنس گئی۔ وہ اسے نکالنے کی کوشش میں خود ہی پانی کے زور میں بہہ گئے اور چند گھنٹوں بعد ان کی لاش دور کسی مقام پر ملی۔

میر احمد علی ((۱۸۱۶ – ۱۸۹۱)) : داستان امیر حمزہ کا سب سے زیادہ مشہور اور مقبول حصہ وہ داستان ہے جو "طلسم ہوش ربا" کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے مطبوعہ نولکشوری روپ میں دس جلدیں ہیں، وہ اس طرح کہ اصل داستان کی جلدیں تو سات ہیں لیکن جلد پنجم دو حصوں میں ہے اور پھر بقیہ "طلسم ہوش ربا" کے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۰۹

نام سے دو جلدیں اور ہیں۔ اولین چار جلدیں محمد حسین جاہ نے اور بقیہ جلدیں احمد حسین قمر نے لکھیں۔ ((جلد پنجم کا ایک روپ محمد حسین جاہ نے بھی لکھا تھا، لیکن وہ نول کشور پریس سے شائع نہیں ہوا۔)) بہرحال، اس انتہائی کامیاب داستان کا خاکہ یا پلاٹ یا اس کا ابتدائی نقشہ، جو بھی کہیں، میر احمد علی کا مرہون منت ہے۔ میر احمد علی اس زمانے میں دربار رام پور سے بطور داستان گو وابستہ تھے۔ ان کے بارے میں اتنا ہی معلوم ہے کہ وہ، اور ایک اور داستان گو مسمی بہ میر قاسم علی نے لکھنؤ سے آ کر دربار رام پور میں بصیغہ داستان گوئی نوکری اختیار کی تھی۔ رضا لائبریری رام پور میں میر احمد علی کی تصنیف کردہ فارسی داستانیں ہیں۔ اور بقول بعض ایک اردو داستان امیر حمزہ بھی ہے جسے امیر احمد علی نے فارسی سے ترجمہ کیا تھا۔ بہرحال "طلسم ہوش ربا" کی مطبوعہ نول کشوری جلدوں میں جگہ جگہ اس بات کی صراحت ملتی ہے کہ اس داستان کا اولین نقشہ میر احمد علی کا ہی تیار کیا ہوا ہے۔

میر امن لطف دہلوی : دیکھیے امنّ، میر۔

میر بہادر علی حسینی ((زمانہ تقریباً ۱۸۰۰)) : سید عبد اللہ کاظم کے بیٹے تھے۔ آبا و اجداد سبزوار ((ایران)) کے رہنے والے تھے۔ بہادر علی حسینی دہلی میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔ تلاش معاش میں عظیم آباد ((پٹنہ)) گئے۔ وہاں سے کولکتہ پہنچے۔ گلکرسٹ سے ملاقات کے بعد فورٹ ولیم کالج میں میر منشی مقرر ہوئے۔ نثر بے نظیر کے نام سے میر حسن کی مثنوی "سحر البیان" ((بے نظیر و بدر منیر)) کا قصہ نثر میں لکھا۔ ان کا اسلوب پر کشش نہ تھا اور عبارت روکھی پھیکی تھی اس لیے یہ نثری قصہ مقبول نہ ہو سکا۔ یہ کتاب ۱۸۱۲ میں شائع ہوئی۔ ان کی دوسری کتاب "اخلاق ہندی" ہے۔ یہ سنسکرت کتاب "ہتوپدیش" کے ایک فارسی ترجمے سے اردو میں منتقل کی گئی۔ شاہ نصیر الدین بہادر کے حکم سے مفتی تاج الدین نے بھی اس کا ایک اردو ترجمہ "مفرح القلوب"
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۱۰

کے نام سے کیا تھا جو سلیس اور بامحاورہ ہے۔ "ہتوپدیش" کا ایک اور فارسی ترجمہ "نگار دانش" کے نام سے کیا گیا تھا۔ "اخلاق ہندی" حسینی کی مقبول کتاب ہے۔ سیدھے سادے انداز میں لکھی گئی ہے۔ حسینی کا تیسرا کارنامہ "تاریخ آسام" ہے۔ اس میں ولی احمد شہاب الدین کے مشہور سپہ سالار میر جملہ کے حملہ آسام ((۱۶۶۶)) کا ذکر ہے۔ یہ کتاب شائع نہ ہو سکی۔ ان کی ایک تالیف رسالہ "گلکرسٹ" ہے جو گلکرسٹ کی قواعد کا خلاصہ ہے۔ بہادر علی حسینی ۱۸۰۸ میں "میر منشی" کے عہدہ سے سبکدوش ہوئے۔ لیکن ۱۸۱۶ تک فورٹ ولیم کالج میں بہ حیثیت مترجم کام کرتے رہے۔ ڈاکٹر گلکرسٹ کی خواہش پر بہادر علی حسینی نے مولوی امانت اللہ شیدا کے ساتھ مل کر قرآن مجید کے اردو ترجمہ پر کام کیا جس کی تکمیل بعد میں میر کاطم علی جوان، مولوی فضل اللہ اور حافظ غوث علی نے کی۔

میرا بائی ((۱۴۹۸ – ۱۵۴۵)) : میرن بائی نام لیکن میرا بائی کے نام سے شہرت حاصل کی۔ میٹرتیہ رتن سہنہ کی بیٹی، راودوداجی کی پوتی اور جودھ پور کی بسانے والی جودھا جی کی پڑپوتی تھی۔ بچپن میں ہی ماں کا انتقال ہوا۔ دادا نے پالا پوسا، ۱۵۱۶ میں میواڑ کی مشہور رانا سانگا کے بیٹے بھوج راج سے شادی ہوئی جو جلد ہی اللہ کو پیارے ہوئے۔ سسر رانا سانگا بھی جلد ہی سورگ پہنچ گئے۔ ان سب کا اثر یہ پڑا کہ میرا گوشہ نشینی اختیار کر کے کرشن کی بھگتی میں لگ گئیں۔ میرا کے کاوند بھوج کا سوتیلا بھائی وکرمادتیہ میواڑ کا تاجدار تھا۔ اسے اپنی بھابھی کی گوشہ نشینی یا بھگتی پسند نہیں آئی اور میرا کو اس نے طرح طرح سے ستانا شروع کیا یہاں تک کہ اسے زہر دینے کی کوشش کی۔ آخر میرا سسرال چھوڑ کر ورندون اور پھر دوارکا چلی گئی۔ وہیں ان کا انتقال ہو گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۱۱

میرا کے نام پر کئی تصانیف ملتی ہیں۔ نرسی جی روماہرو، گیت گووند، راگ گووند، سورٹھ کے پد، میرا بائی کا مزار، راگ وہاگ وغیرہ۔ ان کے علاوہ گیتوں کا ایک مجموعہ "میرا پداوتی" کے نام سے شائع ہوا ہے۔ میرا کے گیت ہندوستانی موسیقی کے مختلف راگوں پر لکھے گئے ہیں۔

میرا بھگوان کرشن کو اپنا پتی مانتی تھیں۔ ان کا یہ جذبہ ہی گیتوں میں ظاہر ہوا ہے۔ کرشن کے فراق میں وہ دن رات سلگتی رہتی تھیں۔ کرشن انھیں نوکر رکھ لیتے تو تب بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ نہ جانے وہ کتنے ڈھنگ سے اپنے کنہیا کو ریجھانے لگی رہتیں۔ انھیں دنیا میں کسی سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ میرا کے گیت ایک سادھک ((عابدہ)) کے گیت ہیں۔ جو جدائی کی حالت میں اپنے درد کو الفاظ کے پیکر میں ڈھالتا ہے۔ اس کا درد کوئی نہیں پہچان سکتا۔

میرا راجستھان کی رہنے والی تھی۔ ان دنوں برج بھاشا میں گیت لکھے جانے لگے تھے۔ سورداس، رام داس اور کئی کرشن بھگتوں نے بے شمار گیت کرشن کنہیا کی مدح میں لکھے۔ میرا نے برج بھاشا میں گیت لکھے ہیں لیکن میرا کی برج بھاشا میں راجتھا نی کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ مارواڑی کے الفاظ اور اسلوب سے ان کی گیتوں کو نیا آہنگ ملا جو میرا کو انفرادی حیثیت بخشتا ہے۔

میرا جی ((۱۹۴۹ – ۱۹۱۲)) : ثنا اللہ ڈار نام تھا۔ ان کے والد منشی مہتاب الدین ریلوے انجینیئر تھے۔ ملازمت کی وجہ سے مختلف جگہوں پر قیام رہا۔ میرا جی کی تعلیم بھی مختلف مقامات پر ہوئی اور ادھوری رہی۔ شعر گوئی کا شوق بچپن سے تھا۔ پہلے سامری تخلص کرتے تھے مگر جب لاہور آئے تو ان کی زندگی ایک انقلاب سے دوچار ہوئی۔ میرا سین نامی ایک لڑکی سے عشق نے انھیں میرا جی بنا دیا۔ وہ مولانا صلاح الدین کے رسالہ ادبی دنیا سے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۱۲

سے وابستہ ہو گئے۔ وہاں سے دہلی آئے تو آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہو گئے۔ یہاں چند سال گزار کر ممبئی چلے گئے۔ ممبئی کے ایک ہسپتال میں انتقال کیا۔

میرا جی کی زندگی نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہی۔ وہ سماج کی مروجہ اقدار سے منحرف تھے۔ میرا جی اردو شاعری میں ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے ایک نیا طرز شاعری اپنایا اور ایک نئی روایت قائم کی۔ ان کا سارا زور انسان کی باطنی شخصیت اور انفرادی تجربوں پر تھا۔ تحلیل نفسی سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ ہندی فلسفے، اساطیر اور موسیقی سے بھی متاثر تھے۔ دنیا بھر کی عشقیہ شاعری، خاض طور پر فرانس کے انحطاطی شعرا کا انھوں نے تفصیلی مطالعہ کیا تھا۔

میرا جی کی اہمیت ایک خاص طرز احساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ سے بھی ہے۔ وہ طبعاً ایک باغی شاعر تھے۔ میرا جی کی شاعری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نظموں اور غزلوں کے علاوہ میرا جی کے گیت اور ان کی تنقیدیں بھی اہم ہیں۔ نثری مضامین کے مجموعے "اس نظم میں" اور "مشرق و مغرب کے نغمے" کے نام سے شائع ہوئے۔

میراں جی حسن خدا نما، شاہ ((۱۶۶۳ – ۱۵۹۵)) : میراں جی حسن نام تھا۔ خواجہ بندہ نواز کے سلسلہ فیض سے تعلق رکھتے تھے۔ معتقدین نے ان کے تقدس سے متاثر ہو کر انھیں "خدا نما" کا لقب دیا تھا۔ ان کے خلیفہ میراں یعقوب نے برہان الدین اولیا اورنگ آبادی کی فارسی کتاب "شمائل الاتقیاء" کا اسی نام سے دکنی اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ اس میں میراں جی حسن خدا نما کے بارے میں معلومات یکجا ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۱۳

میراں جی حسن خدا نما عبد اللہ قطب شاہ کے ملازم تھے اور بادشاہ نے بعض امور سلطنت کے سلسلے میں انھیں ۱۶۱۶ – ۱۶۷۲ کے درمیانی عرصے میں بیجاپور روانہ کیا تھا۔ یہاں انھوں نے امین الدین علی اعلٰی سے بیعت کی۔ بیجاپور سے حیدر آباد واپس آ کر میراں جی نے ملازمت ترک کر دی اور رشد و ہدایت میں مصروف ہو گئے۔ مذہبی مسائل کی تشریح کے لیے انھوں نے عام فہم اور سادہ اسلوب میں تین رسالے "شرح تمہیدات عین القضات"، "رسالہ وجودیہ" اور "رسالہ مرغوب القلوب" تصنیف کیے تھے۔ "بشارت الانوار" کے نام سے چند غزلیں اور مثنویاں ان کی یادگار ہیں۔ "شرح تمہیدات عین القضات" امام غزالی کے بھائی شیخ احمد غزالی کی تصنیف کا ترجمہ ہے۔ یہ کتاب دس ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں معرفت نفس، علم و عرفان، بصارت و بصیرت اور روح و عشق جیسے موضوعات سے بحث کی گئی ہے۔ "رسالہ وجودیہ" میں ذکر جلی، نفسِ امارہ، شہادت مبدا اور منزل ناسوت وغیرہ کی تشریح کی گئی ہے۔ "مرغوب القلوب" میں طریقت، تجوید اور کشف اور بقا کے مسائل پر اظہار خیال ہے۔ یہ رسالے اپنی لسانی خصوصیات کی بنا پر قدیم دکنی نثر کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان میں خدا نما کا اندازِ بیان سادہ، آسان اور پُر اثر ہے۔

میراں جی شمس العشاق، شاہ ((۱۴۹۸ – ۱۴۰۷)) : سید حاجی دوام الدین کے بیٹے تھے۔ اپنے دور کے بلند مرتبہ صوفیہ میں ہیں۔ سلسہ بیعت دو واسطوں سے حضرت خواجہ بندہ نواز تک پہنچتا ہے۔ آپ نے بارہ سال مدینہ منورہ میں قیام کیا۔ اس کے بعد بیجا پور آئے اور درس و تدریس میں مشغول ہوئے۔ تصوف کے موضوع پر کئی مثنویاں لکھیں۔ نغز مرغوب، خوش نامہ اور خوش نغز مثنویاں ہیں اور شرح مرغوب القلوب نثر میں ہے۔ قدیم
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۱۴

دکھنی ہونے کی وجہ سے زبان بہت مشکل ہے۔ آپ کا مزار بیجا پور میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔ آپ کے صاحبزادے برہان الدین جانم اور پوتے امین الدین علی اعلٰی کی بھی کئی تصانیف ہیں۔

میراں یعقوب : دیکھیے یعقوب میراں، شیخ

میر باقر علی ((۱۹۲۸)) : پرانی طرز کے داستان گویوں کی آخری یادگار میر باقر علی نے داستان گوئی اپنے نانا میر امیر علی اور ماموں میر کاظم علی سے سیکھی۔ یہ دونوں صاحبان قلعہ معلی میں داستان گوئی پر مامور تھے۔ پرانی طرز کی داستان گوئی میں اعلٰی درجے کی اداکاری، نقل، سوانگ، فی البدیہہ شعر گوئی، غیر معمولی قوت حافظہ، مختلف علوم و فنون کے بارے میں ضروری معلومات اور بے حد وسیع ذخیرہ الفاظ بکار آتے تھے۔ عبد النبی فخر زمانی نے تو داستان گو کا مرتبہ شاعر سے بھی افضل قرار دیا ہے۔ سید یوسف بخاری اور اشرف صبوحی دہلوی نے میر باقر علی کی داستان گوئی کا کچھ حال لکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ واقعی ان تمام صفات سے متصف تھے جن کا ذکر کیا گیا۔

آخری زمانے میں میر باقر علی کے حالات سقیم ہو گئے تھے۔ انھوں نے داستان گوئی ترک کر کے چھوٹے موٹے قصے لکھنا شروع کر دیے۔ ان میں بہادر شاہ ظفر کے ہاتھی مولا بخش کے حالات پر مبنی قصہ دہلی کی زبان کا اچھا نمونہ ہے۔ میر باقر علی لاولد فوت ہوئے۔

میر حسن دہلوی ((۱۷۳۶//۳۷ – ۱۷۸۶)) : غلام حسن نام تھا۔ ان کے اجداد ہرات کے مشہور خانوادہ سادات سے تھے۔ جد اعلٰی ہندوستان آئے۔ یہیں سکونت اختیار کی۔ میر حسن دلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر غلام حسین ضاحک اپنے زمانے کے معروف مرثیہ گو تھے۔ انھیں کے ساتھ ۱۲ برس کی عمر میں فیض آباد چلے گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۱۵

یہاں نواب سالار جنگ بہادر کی ملازمت اختیار کی اور ان کے بیٹے نوازش علی خاں کے مصاحب بن گئے۔ کچھ عرصہ بعد آصف الدولہ کے عہد میں لکھنؤ آ بسے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ شعر و سخن کا ذوق موروثی تھا۔ بچپن سے شاعری کی طرف میلان تھا۔ لکھنؤ میں اسے اٹھان ملی۔ میر ضیاء الدین کے شاگرد ہوئے۔ دلی میں تھے تو خواجہ میر درد کو اپنا کلام دکھایا تھا۔ خواجہ صاحب ہی کی روحانی تعلیم اور فیض صحبت کے اثر سے مثنوی "رموز العارفین" لکھی۔ لکھنؤ میں وفات پائی۔ وہیں دفن ہوئے۔

میر حسن فطرتاً نہایت خوش مزاج و بدلہ سنج تھے۔ ان کا شاہکار ان کی مثنوی "سحر البیان" ہے۔ ان کا کلام تقریباً تمام اصناف سخن، مثنوی، غزلیات، ہجویات، قصائد، مرثیے، رباعیات، قطعات، ترکیب بند اور ترجیع بند وغیرہ پر مشتمل ہے۔ وہ قصیدے اور مرثیے کے مرد میدان نہیں البتہ ان کی غزلیں ادبی شان رکھتی ہیں۔ انھوں نے گیارہ مثنویاں لکھیں۔ مثنوی "سحر البیان" ((قصہ بے نظیر و بدر منیر)) نے اردو زبان میں جو شہرت حاصل کی ہے وہ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد آج تک کسی مثنوی کو نصیب ہوئی۔ زبان و بیان، جزیات نگاری اور منظر نگاری میں یہ مثنوی اپنا جواب نہیں رکھتی۔ جامعیت، تاثیر اور بیان کی صفائی اور مناسبت یہ ایسی خوبیاں ہیں جو اس مثنوی کے برابر اردو کی کسی اور مثنوی میں نظر نہیں آتیں۔ محاورہ کا لطف، مضمون کی شوخی اور طرز ادا کی نزاکت اس مثنوی کی خصوصیات ہیں۔ زبان کی سادگی اور الفاظ کی بندش کا یہ حال ہے کہ سحر البیان کو لکھے دو سو برس سے زائد گزر چکے لیکن وہ آج کی بولی جانے والی زبان لگتی ہے۔ اسلوب میں پرکاری ہے۔ تکلف و تصنع کا شائبہ تک نہیں۔ یہ مثنوی کہنے کو تو ایک منظوم عشقیہ کہانی ہے لیکن اس میں اس دور کی زندگی، معاشرت،
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۱۶

رسوم و رواج، شادی بیاہ کی رسمیں، زنانہ لباس، زیورات، ناچ رنگ وغیرہ کی دلچسپ تفصیلات و جزئیات موجود ہیں۔ اس اعتبار سے "سحر البیان" اپنے دور کی ثقافتی تاریخ کا معتبر ماخذ بھی ہے۔

دوسری قابل ذکر مثنوی "گلزار ارم" ہے جس میں میر حسن نے لکھنؤ کی ہجو اور فیض آباد کی تعریف جی کھول کر کی ہے۔ "تذکرہ شعرائے اردو" بھی میر حسن کی اہم تصنیف ہے۔ یہ تذکرہ فارسی میں ہے۔ اس کی اہمیت کا سبب یہ ہے کہ اس میں میر حسن نے قدیم شاعروں اور اپنے ہمعصر شاعروں کا حال معتبر حوالوں کے ساتھ لکھا ہے۔ میر حسن کے بیٹے میر مستحسن خلیق بھی اپنے زمانے کے نامی شاعر تھے۔ میر خلیق کے بیٹے یعنی میر حسن کے پوتے میر انیس اپنی مرثیہ نگاری کے باعث اردو شاعری کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکے۔

میر، میر عمر تقی ((۱۷۲۲ – ۱۸۱۰)) : میر کے بزرگ حجاز سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔ دادا نے فوج میں نوکری کی۔ والد محمد علی ایک صوفی بزرگ تھے۔ میر بھی بچپن سے صوفیوں اور عالموں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے۔ ان کی باتیں سنتے اور سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ابھی وہ دس برس کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ میر نے اپنے حالات زندگی فارسی میں لکھے ہیں جو "ذکر میر" کے نام سے مشہور ہے۔ میر نے اپنے والد کا ذکر تفصیل سے کیا۔ والد کے انتقال کے بعد انھوں نے سوتیلے بھائیوں کے رویے سے پریشان ہو کر وطن اکبر آباد ((آگرہ)) چھوڑ دیا اور ۱۷ سال کی عمر میں دلی چلے گئے۔ یہاں سراج الدین علی خاں آرزو کے دامن تربیت میں پرورش پائی جو ان کے رشتہ دار بھی تھے۔ انھیں کی ترغیب سے ریختہ گوئی شروع کی۔ دلی میں میر نے عمر کا بڑا حصہ بسر کیا اور انھیں مختلف امرا کی سرپرستی حاصل رہی۔ دلی کی تباہی کے باعث دلی سے باہر نکلے۔ اکبر آباد ہوتے ہوئے لکھنؤ پہنچے۔ اس وقت تک میر کافی مشہور و معروف ہو چکے تھے۔ آصف الدولہ نہ خیر مقدم کیا اور
 
Top