اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ 108

((20)) جھلکیاں ((دو جلدیں)) ((ساقی میں مطبوعہ ادبی کالم کا انتخاب))، مکتبہ بکس، لاہور، 1995

محمد سعید دہلوی، مرزا ((1962 – 1886)) : مقام پیدائش دلی ہے۔ ان کی والدہ سر سید احمد خاں کی رشتہ دار تھیں۔ والد جدید تعلیم یافتہ تھے۔ انھوں نے مرزا کو بھی جدید تعلیم دلوائی۔ مرزا نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔ اے۔ کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد ایم۔ اے۔ او۔ کالج علی گڑھ میں لکچرر ہو گئے۔

مرزا محمد سعید نے دو ناول لکھے۔ "خواب ہستی" اور "یاسمین"، "خواب ہستی" ایک اخلاقی ناول ہے جو 1905 میں لکھا گیا۔ اس کے تیس سال بعد "یاسمین" منظر عام پر آیا۔ یہ دونوں ناول سماجی حالات کے آئینہ دار ہیں۔ ان کے ناولوں میں جگہ جگہ طویل اصلاحی تقریروں، موقع بے موقع نصیحتوں کی بھرمار ہے، لیکن فن اور پیش کش کے لحاظ سے ان ناولوں کا شمار اردو کی تاریخی اور یادگار کتابوں میں ہوتا ہے۔ مصلحانہ جوش نے ناولوں میں دل چسپی کا عنصر دھندلا کر دیا ہے۔

محمد شاہ ثانی بہمنی ((م۔ 1397)) : محمد شاہ کا بیٹا اور علاء الدین حسن گنگوہ بہمنی ((متوفی 1358)) کا پوتا تھا جو داؤد شاہ بہمنی کے قتل کے بعد تخت نشیں ہوا۔ وہ سنجیدہ طبیعت رکھتا تھا اور اس نے اعلیٰ تعلیم پائی تھی۔ مؤرخین نے ایک صاحب علم اور علم دوست بادشاہ کے طور پر اس کی بہت تعریف کی ہے۔ سوائے باغیوں کی سرکوبی کے کسی جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ شاید اسی لیے وہ "ارسطوئے زماں" کے نام سے مشہور تھا۔ اس نے علم کی اشاعت میں بڑا حصہ لیا۔ اس نے خواجہ شمس الدین حافظ شیراز کو بھی تحائف اور زادِ راہ بھیج کر گلبرگہ آنے کی دعوت دی۔ ابتدائے سفر میں ہی انھوں نے کل رقم ایک ضرورت مند دوست کو عطا کر دی اور ارادہ سفر ترک کر دیا مگر محمد شاہ ثانی کےعطیات کے شکریے میں انھوں نے اپنی ایک غزل بھیج دی۔ محمد شاہ نے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ 109

اپنی سلطنت کے بڑے بڑے شہروں میں مدارس قائم کیے اور وہاں لائق اساتذہ کا تقرر کیا۔ ان مدرسوں میں طلبہ کے لیےکھانا اور کپڑا بھی حکومت کی طرف سے مہیا کیا جاتا تھا۔ وہ فارسی کا اچھا شاعر تھا۔ اس کا دور سیاسی تدبر اور نظم و نسق کے لحاظ سے ایک اچھا دور کہا جاتا ہے۔

محمد شریف خاں حکیم دہلوی ((1807 – 1724)) : خواجہ عبید اللہ احرار کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کے اجداد بابر کے ساتھ ہندوستان آئے۔ دادا حکیم واصل خان آگرہ آئے اور اورنگ زیب عالمگیر کے شاہی طبیب مقرر ہوئے۔ وہ شاہ علم اللہ کے خلیفہ تھے۔ ان کے لڑکے محمد اکمل خان محمد شاہ بادشاہ دہلی کے طبیب خاص تھے۔ حاذق الملک خطاب تھا۔ حکیم محمد شریف خان انھیں کے لڑکے تھے۔ علم و فضل میں کمال حاصل کیا اور طب میں ثانی بو علی سینا کہلائے۔ شاہی طبیب تھے۔ اشرف الحکما ان کا خطاب تھا۔ عربی اور فارسی کے عالم تھے۔ مشکوٰۃ شریف کا ترجمہ کاشف المشکوٰۃ کے نام سے کیا۔ حاشیہ نفیس، حاشیہ شرح، اسباب شرح حمد اللہ وغیرہ ان کی تصانیف میں سے ہیں۔ شاہ عبد القادر کے ترجمہ سے بیس سال قبل 1770 میں انھوں نے کلام مجید کا اردو میں ترجمہ کیا۔ تشریح کے لیے کہیں کہیں ایک آدھ لفظ بڑھا دیا ہے۔ اس کی زبان شاہ عبد القادر کے ترجمہ سے زیادہ صاف، صحیح اور بامحاورہ ہے۔

محمد علی ردولوی، چودھری ((1953 – 1886)) : ردولی کے تعلقداروں میں سے تھے۔ پہلے مکتب میں تعلیم پائی پھر کالون تعلقہ دار اسکول میں داخلہ لیا۔ کوئی امتحان پاس نہیں کیا۔ فارسی اور انگریزی اچھی جانتے تھے۔ چھ برس صوبائی کونسل کے ممبر رہے۔ اچھے مقرر تھے۔ لکھنے پڑھنے کا شوق رکھتے تھے۔ اُن کا شمار اردو کے منفرد انشاء پردازوں میں ہوتا ہے۔ خطوط کا مجموعہ "گویا دبستان کھل گیا" کے نام سے بہت مقبول ہوا۔ اسلوب میں بے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ 110

ساختگی اور آمد ہے۔ گویا لکھتے نہیں بات کرتے ہیں۔ تصانیف کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ اتالیق بی بی، نقادی کے نکتے، صلاح کار، پردے کی بات، میرا مذہب، گناہ کا خوف، کشکول محمد علی شاہ فقیر کے علاوہ بہت سے مضامین، کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے۔

محمد قطب شاہ : دیکھیے ظل اللہ، محمد قطب شاہ۔

محمد قلی سلیم ((م۔ 1657)) : محمد قلی نام اور سلیم تخلص تھا۔ طرشت کا رہنے والا اور ترک طبقہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتدا میں میرزا عبد اللہ وزیر لاہیجان کے دربار سے متوسل تھا۔ لاہیجان کی تعریف میں ایک مثنوی لکھی۔ جب 1647 میں ہندوستان آیا تو اسی مثنوی میں قدرے تبدیلی کی اور کشمیر سے موسوم کیا۔ اس میں کشمیر کے راستے کی تکالیف کا ذکر کیا ہے۔ ہندوستان میں اس نے عبد السلام مشہدی سے ربط پیدا کیا۔ مشہدی شاہجہانی امرا میں ممتاز مرتبہ کا حامل تھا۔ شاہجہاں کی شاہزادگی کے زمانہ میں اختصاص خان خطاب تھا۔ اس کے بادشاہ ہونے پر وہ بخشی دوم کے عہدہ پر فائز ہوا۔ پھر گجرات کی نظامت تفویض کی گئی۔ جب بنگالہ کی نظامت پر بھیجا گیا تو اسلام خاں خطاب سے سرفراز ہوا۔ سلیم نے اپنی زندگی کے آخری ایام کشمیر میں گزارے جہاں وہ 1657 میں فوت ہوا اور جھیل ڈل کے کنارے صفُہ شعرا میں مدفون ہوا۔ وہ نہایت خوش خیال تھا۔ اس نے نئے نئے مضامین باندھے اور نئے نئے معانی پیدا کیے۔ اسلام خاں کی مدح میں کئی قصیدے لکھے۔ اس پر سرقے کا الزام بھی لگایا گیا۔ اس کی ایک مثنوی "جنگ اسلام خاں" بھی ملتی ہے۔

محمد قلی قطب شاہ ((1612 – 1566)) : اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ابو المظہر محمد قلی قطب شاہ گولکنڈہ کا پانچواں تاجدار تھا۔ محمد قلی اپریل سنہ 1565 میں پیدا ہوا۔ اپنے والد ابراہیم قطب شاہ کے انتقال کے بعد 5 جون
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ 111

1580 کو تخت نشیں ہوا۔ محمد قلی نے اٹھارہ سال کی عمر میں شاہ میر طباطبائی کی بیٹی سے شادی کی۔ محمد قلی قطب شاہ کو فن تعمیر سے غیر معمولی دلچسپی تھی۔ چار مینار، دولت خانہ عالی، خداد داد محل، محل کوہ طور، سجن محل، اعلیٰ محل، حیدر محل، حنا محل اور جامع مسجد جیسی عمارات اس کی یادگار ہیں۔

محمد قلی قطب شاہ پرگو اور قادر الکلام شاعر تھا۔ اس نے کئی تخلص استعمال کیے ہیں، محمد، قطب، قطب شاہ، ترکمان اور معانی اس کے مشہور تخلص ہیں۔ اس نے جسمانی محبت کے تجربات بیان کیے ہیں۔ اپنی پیاریوں کے جو دلکش اور جاذب نظر مرقع اس نے پیش کیے ہیں، انھیں اردو شاعری میں سراپا نگاری کا اولین نقش کہا جا سکتا ہے۔ اس کی شاعری سے اس کی معاشرت پر روشنی پڑتی ہے۔ اس نے اپنے زمانے کے میلوں، تہواروں، جشنوں اور دوسری اجتماعی تفریحات کی تصویریں اپنے کلام میں پیش کی ہیں۔ قطب شاہی محلات میں عورتوں کے مشاغل، ان کے لباس، زیورات، ان کی رسوم و روایات غرض کہ پورے تمدن کا حال اس نے اپنے اشعار میں محفوظ کر دیا ہے۔ مناظر قدرت کی عکاسی بھی خوب کی ہے۔ بسنت، بارش اور سرما کی کیفیات کا بیان بھی بہت دل چسپ ہے۔ محمد قلی قطب شاہ نے فارسی میں بھی طبع آزمائی کی اور غزلیں اور مرثیے کہے ہیں۔ رنگینی، گھلاوٹ، اثر آفرینی اور دلکشی اس کے کلام میں نمایاں ہے۔ وہ حافظ کے کلام کا شیدائی تھا۔ حافظ کی بعض غزلوں کے ترجمے اس کے کلیات میں ملتے ہیں۔ سلطان محمد قطب شاہ نے محمد قلی کا دیوان مرتب کیا۔ بعد میں اپنا منظوم دیباچہ بھی شامل کر دیا۔ جدید دور میں ڈاکٹر محی الدین قادری نے یہ دیوان مرتب کر کے شائع کیا۔

محمود : دکن میں قطب شاہی دور کے شاعر تھے۔ اپنے زمانے کے ایک استاد سخن سمجھے جاتے تھے۔ وہ شاہ شہباز ملک شرف الدین بن ملک عبد القدوس کے مرید و معتقد تھے۔ ابنِ نشاطی نے "پھول بن" میں جہاں فیروز کو خراج
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۱۲

عقیدت ادا کیا ہے، وہیں محمود کے کمال سخن کی بھی داد دی ہے۔ وجہی نے بھی "قطب مشتری" میں محمود کی شاعرانہ حیثیت کا اعتراف کیا ہے۔ انھوں نے زیادہ غزلیں کہی ہیں۔ کچھ مرثیے، گیت اور دوہے بھی لکھے ہیں۔

محمود گامی ((۱۷۶۵ – ۱۸۵۵)) : کشمیری زبان کا استاد شاعر محمود گامی اننت ناگ کے علاقہ میں پیدا ہوا۔ کشمیر کی ٹکسالی زبان استعمال کرنے کے سبب کشمیری زبان کا "نظامی گنجوی" کہلاتا ہے۔ وہ روایتی شاعری کا بانی اور غزل کا استاد شاعر ہے۔ فطرتاً وہ حسن پرست اور عشق شعار تھا جس کا اثر اس کی تقریباً تمام تخلیقات میں ملتا ہے۔ محمود گامی نے آٹھ مثنویاں لکھیں جن میں یوسف، زلیخا، شیریں و خسرو، لیلی مجنوں، قصہ ہارون رشید اور سلطان محمود و غزنوی قابل ذکر ہیں۔ یہ مثنویاں زیادہ تر نظامی، جامی اور دوسرے فارسی شعرا کی مثنویوں کے ترجمے ہیں یا ان سے ماخوذ ہیں۔ اندازِ بیان مرصع، پرشکوہ، پرتکلف اور پرتصنع ہے۔ چنانچہ اس کے کلام کی سب سے اہم خصوصیت اس کی فارسی آمیزی ہے۔ فارسی اور عربی زبان پر عبور رکھنے کے سبب اس کی نظم و نثر پر فارسی کا اثر غالب نظر آتا ہے۔ محمود نے غزلیں بھی بہت لکھی ہیں۔ غزلوں میں حافظ شیرازی کی تقلید کی ہے۔

ایک اور قابل ذکر خصوصیت یہ کہ وہ اپنی شاعری میں نسوانی جذبات کی ترجمانی بڑی خوبی و کامیابی کے ساتھ کرتا ہے۔ اپنے دور میں وہ سب پر چھایا رہا۔ کشمیری شاعری مختلف اصناف میں اس کی مرہون منت ہے۔ اپنی انفرادیت کے سبب آج بھی محمود "مرد استاد" کے نام سے مشہور ہے۔ بعد کے کئی شعرا نے اس کی تقلید کی ہے۔

محمود گاواں خواجہ عماد الدین ((۱۴۸۱ – ۱۴۱۱)) : خواجہ محمود ولد خواجہ شہر گیلان کے ایک قریہ گاوان میں پیدا ہوا۔ خواجہ محمود کے چچا خواجہ شمس الدین والی گیلان امیر محمد کے وزیر تھے۔ اس لیے خواجہ محمد کی تعلیم و تربیت
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۱۳

اعلٰی پیمانہ پر ہوئی۔ محمود گاوان کو مختلف علوم میں کامل دستگاہ حاصل تھی۔ انشاء میں ان کا کوئی مدمقابل نہ تھا۔ "ریاض الانشاء" ان کے خطوط کا مجموعہ ہے جس میں ۱۴۸ خطوط ہیں جو سلاطین، وزراء، علما کرام، اپنے لڑکوں کو لکھے گئے ہیں۔ فارسی کے مشہور شاعر مولانا عبد الرحمن جامی کے نام چھ خطوط ہیں جن میں سے اکثر میں بیدر آنے کی درخواست کی گئی ہے مگر وہ نہ آ سکے۔ ان کی دوسری کتاب "مناظر الانشاء" ہے۔ محمود گاوان نے بیدر میں ایک شاندار اقامتی مدرسہ تعمیر کیا اور تدریس کے لیے بڑے بڑے علما دور دراز سے جمع کیے۔ طلبا کو کھانا، کپڑا اور کتابیں مدرسہ سے ملتیں۔ اس کے اخرابات وہ خود ادا کرتے تھے۔ چونکہ وہ خود عالم تھے اس لیے طلبا کو درس بھی دیتے تھے۔ محمد شاہ لشکری نے جو عالم فاضل اور علم دوست تھا، محمود گاواں کو خواجہ جہاں اور امیر الامرا کے خطابات سے نوازا۔ اس نے محمد شاہ لشکری کی خدمت نہایت دیانت داری اور وفاداری سے کی۔ حسن نظام الملک بحری نے سازش کر کے محمود گاواں کو قتل کروا دیا۔ ملا عبد الکریم ہمدانی نے بے گنہ محمود گاواں گشتہ شد ((۸۸۶)) سے تاریخ شہادت نکالی۔ مزار بیدر میں ہے۔

محمود بحری، قاضی ((م۔ ۱۷۱۷)) : ابن بحر الدین قاضی دربار خلیفہ برہان الدین بیجاپوری۔ وطن گوگی، تعلقہ شاہ پور، ضلع گلبرگہ، چشتیہ سلسہ میں اپنے والد سے بیت کی اور قادریہ سلسلہ میں شاہ محمد باقر سے۔

ان کا کلیات تمام اصناف سخن پر مشتمل ہے۔ دکھنی زبان میں علم تصرف میں ایک مثنوی "من لگن" ۱۷۰۰ میں لکھی۔ دوسری مثنوی "بنکاب نامہ" ہے۔ اس میں سنسکرت کی اصطلاحیں زیادہ استعمال ہوئی ہیں۔ "من لگن" کے مضامین کو فارسی میں "عروس عرفان. کے نام سے ۱۷۰۴ میں لکھا۔ اس میں وحدت الوجود، فضیلت انسان، عشق، جبر و قدر اور تجددا مثال جیسے مسائل پر بحث کی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ 114

مختصر افسانہ : کوئی ایسی جامع تعریف جو صنف "مختصر افسانہ" کے تمام پہلوؤں اور اقسام پر محیط ہو ممکن نہیں ہے۔ اس کے اختصار کی حد کا تعین بھی ممکن نہیں۔ وہ ایک صفحہ کا بھی ہو سکتا ہے اور اسے سو صفحات پر بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ "مختصر مختصر افسانہ" اور "طویل مختصر افسانہ" بھی اصطلاح کے طور پر رائج ہیں۔ مختصر افسانہ کا بنیادی وصف وحدت تاثر ہے۔ یعنی جب افسانے میں کسی ایک واقعہ، کسی ایک نفسیاتی حقیقت، کسی ایک کردار یا کسی ماحول یا صورت حال کو پیش کیا جاتا ہے۔

مختصر افسانہ نے نو عمر صنف ادب ہونے کے باوجود تمام دنیا میں ترقی کی ہے۔ اس کا بڑا سبب ادبی اور نیم ادبی رسائل اور اخبارات کی اشاعت ہے جن میں مختصر افسانے شائع ہونے لگے۔

اردو میں مختصر افسانہ کی شروعات سجاد حیدر یلدرم اور منشی پریم چند سے ہوتی ہے۔ یلدرم کے افسانوں میں رومان کا عنصر غالب تھا۔ اسے بعد میں نیاز فتح پوری، ل۔ احمد اکبر آبادی اور مجنوں گورکھپوری نے فروغ دیا۔ پریم چند نے حقیقت نگاری کو فن کی روح قرار دیا۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں کسانوں اور محنت کش انسانوں اور متوسط طبقہ کو خاص طور پر اپنا موضوع بنایا۔ اعظم کریوی، مہاشے سدرشن، علی عباس حسینی اور سہیل عظیم آبادی نے اس روایت سے فیض اٹھایا۔ مغربی افسانہ کے بعض رحجانات اور تحریکات نے بھی اردو افسانہ کو متاثر کیا۔ سعادت حسن منٹو، محمد حسن عسکری، احمد علی، ممتاز مفتی اور عزیز احمد نے نفسیات کے نئے اصولوں کی روشنی میں اردو افسانہ کو نئی سمتیں دکھائیں۔ منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، غلام عباس اور احمد ندیم قاسمی جیسے افسانہ نگاروں نے افسانے میں انقلابی رومانیت یا نفسیاتی حقیقت نگاری کو فروغ دیا۔ ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق نے افسانے کو خاص طور پر فروغ دیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ ترقی پسند تحریک کے فروغ
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۱۵

کا زمانہ مختصر افسانے کے لیے بہت سازگار تھا اور اس زمانے میں افسانے کے فن نے بہت ترقی کی۔ بیدی اور منٹو کا تعلق ترقی پسندی کے ساتھ نہ بہت گہرا تھا اور نہ بہت دیر قائم رہا۔ ان کے یہاں حقیقت نگاری کے متنوع رنگ ملتے ہیں اور موضوعات کی وسعت بھی اپنے معاصروں کی نسبت ان کے یہاں زیادہ ہے۔ منٹو اور بیدی کے یہاں تکنیک اور زبان کا بھی بہت تنوع ہے۔

۱۹۶۰ کے بعد اردو افسانے میں ایک نیا رحجان سامنے آیا جسے "جدید افسانہ"، "تجریدی افسانہ"، "علامتی افسانہ" جیسے نام دیے گئے۔ بعض افسانہ نگار، مثلاً انتظار حسین، اگرچہ بیانیہ طرز کے اعتبار سے بیدی اور منٹو سے قریب تھے، لیکن موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے ۱۹۶۰ کے بعد کے افسانہ نگاروں سے قریب تر معلوم ہوتے ہیں۔ انور سجاد، سریندر پرکاش، خالدہ حسین، احمد ہمیش، مین را، اکرام اللہ، حسن منظر، نیر مسعود، رشید امجد، محمد منشایا وغرہ کے نام ۱۹۶۰ کے بعد کے افسانے سے منسلک ہیں۔ اس زمانے کے بعض اور افسانہ نگار مثلاً غیاث احمد گدّی اور اقبال مجید نے ایسی راہ اختیار کی جو ترقی پسند افسانے سے متاثر لیکن جدید افسانے کے قریب تھی۔

افسانے کے فروغ میں خواتین کا بھی نمایاں حصہ رہا ہے۔ بیشتر خواتین نے چہار دیواری میں گھری ہوئی متوسط طبقہ کی گھریلو زندگی کے ھوالے سے اپنے افسانوں میں حقیقت کے رنگ بھرے۔ منٹو نے اگر گھر کے باہر کی عورتوں کی نفسیات کے حساس اور عمیق مطالعے اپنے افسانوں میں پیش کیے تو یہی کام عصمت چغتائی نے گھر کے اندر کی عورتوں کی نفسیات اور کوائف پر مبنی افسانے لکھ کر انجام دیا جن میں زبان بھی موضوع کی مناسبت سے استعمال ہوئی تھی۔ خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، قرۃ العین حیدر، واجدہ تبسم اور جیلانی بانو کے نام خصوصیت
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۱۶

سے قابل ذکر ہیں۔ جہاں تک فن اور تکنیک کے کامیاب تجربات کا تعلق ہے، قرۃ العین حیدر کا نام پورے اردو فکشن میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔

مخدوم شاہ حسینی ((زمانہ تقریباً ۱۶۸۰)) : نیجاپور دکن میں قصبہ بلکنور ضلع رائچور کے رہنے والے تھے۔ ان کے مرشد پیر اللہ حسینی میراں جی خدا نما کے خلیفہ تھے جو امین الدین علی اعلٰی شاہ سے نسبت رکھتے ہیں۔ مخدوم نے امین الدین علی اعلٰی شاہ کے خیالات کی تشریح اپنے ایک رسالے "تلاوت الوجود" میں کی ہے۔ سادہ اسلوب کی وجہ سے اس رسالہ نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی۔ وہ شاعر بھی تھے لیکن اب تک ایک دو گیت اور دو چار غزلیں ہی دستیاب ہوئی ہیں۔

مخدومحی الدین ((۱۹۶۹ – ۱۹۰۸)) : خاندانی نام ابو سعید محمد مخدوم محی الدین، ریاست حیدر آباد کے ضلع میدک میں پیدا ہوئے۔ جامہ عثمانیہ سے ایم۔ اے۔ کی سند لی۔ پھر سٹی کالج میں اردو لکچرر ہو گئے۔ دو سال کے بعد استعفیٰ دے دیا اور کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رکن بن کر عملی سیاست میں داخل ہو گئے۔ دہلی میں انتقال ہوا۔ تدفین حیدر آباد میں ہوئی۔

مخدوم ممتاز شاعر بھی تھے اور سیاسی رہنما بھی۔ انھوں نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ شاعری سے دلچسپی انھیں طالب علمی کے زمانے سے ہی تھی۔ کلام میں وارفتگی کا عنصر نمایاں ہے۔ خیال کی ندرت اور جذبات کے وفور کے ساتھ ساتھ غنائیت ان کے کلام کا نمایاں وصف ہے۔ انھوں نے زیادہ تر نظمیں کہیں ہیں۔ چند غزلیں بھی ان کی یادگار ہیں جن میں روایت کی تقلید سے زیادہ روایت کو ایک نئی جہت دینے کا رحجان ملتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۱۷

مخدوم نے کم لکھا لیکن جو کچھ لکھا وہ ترقی پسند ادبی سرمائے کا قیمتی حصہ ہے۔ دو مجموعے "سرخ سویرا" اور "گل تر" شائع ہوہے۔ جشن مخدوم کمیٹی نے کلیات "بساط رقص" ادبی ٹرسٹ حیدر آباد کی طرف سے ۱۹۶۶ میں شائع کیا۔ مخدوم کی نثری کتاب "ہوش کے ناخن" برنارڈشا کے ڈرامے کا کامیاب ترجمہ ہے۔ "ٹیگور اور اس کی شاعری" ادبی مضامین، سفر نامے اور رپورتاژ اس کے علاوہ ہیں۔ مخدوم کی بعض نظموں کے ترجمے تلگو، ہندی، مراٹھی، بنگالی، انگریزی، روسی، جرمن اور چیک زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ مخدوم کو "بساط رقص" کے لیے ساہیتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے پس مرگ نوازا گیا۔

مخمس : یہ ایک صنف سخن جس کے ہر بند میں پانچ مصرعے ہوتے ہیں۔ ان میں چار مصرعے ہم قافیہ اور پانچواں خلاف قافیہ ہوتا ہے۔ یہ خلاف قافیہ مصرعہ ہر بند کا پانچواں مصرعہ ہوتا ہے۔

مدرسہ محمود گاواں ((تکمیل ۱۴۷۲)) : اس مدرسہ کی تعمیر ۱۴۴۰ میں شروع ہوئی۔ شاعر ملا سمیعی نے "ربنا تقبل منا" سے اس کی تاریخ کہی۔ یہ عمارت تین منزلہ شرقاً غرباً ۲۰۵ فٹ اور شمالاً جنوباً ۱۸۰ فٹ ہے۔ وسط میں سو مربع فٹ کا صحن ہے۔ دالان اس قدر وسیع و عریض ہے کہ ایک ہزار آدمی آسانی سے بیٹھ سکتے ہیں۔ عمارت کے سامنے کے دونوں بازوؤں میں ایک ایک سو فٹ کے دو بلند مینار تھے۔ دیواروں پر چھت سے قریب قرآنی آیات کاش کاری میں لکھی گئی تھیں۔ جن کے آثار آج بھی باقی ہیں۔ عبارت کے حروف تین تین فیٹ لمبے اور چھ چھ انچ چوڑے ہیں۔ دروازے سے متصل ایک رخ پر مسجد اور دوسری جانب کتب خانہ تھا، کہتے ہیں کہ اس کتب خانے میں تیس ہزار کتابیں تھیں۔ اساتذہ کے رہائشی کمروں میں بھی کتابیں رکھنے کے لیے دیواروں میں طاق بے ہوئے ہیں۔ طلبا کے لیے کمرے تھے۔ یہاں عربی صرف و منطق، ریاضیات، ہندسہ، ہیئت، فقہ، علوم
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۱۸

معقول و منقول، طب اور ادب، عربی و فارسی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مدرسہ میں دو ڈگریاں دی جاتی تھیں۔ ایک "ملازم" دوسری "مدرس"۔ ہمسایہ سلطنتوں کو علما اور عہدہ دار یہیں سے ملتے تھے۔ اورنگ زیب عالمگیر نے جب ۱۶۶۱ میں بیدر کو اپنے قبضہ میں لیا تو اس مدرسہ سے بہت متاثر ہوا۔ ۱۶۸۵ میں اس مدرسہ کے ایک حصہ پر بجلی گری۔ مینار، کتب خانہ اور بڑا دروازہ گر کر تباہ ہو گئے۔ مینار کے نچلے حصے میں بارود خانہ تھا جس کی وجہ سے بہت نقصان ہوا۔ اب مدرسہ کا کچھ کم نصف حصہ اور ایک مینار باقی ہے۔

مدھو مالتی ((سن تصنیف سمبت ۱۵۵۰ – ۱۵۹۰)) : منجھن کی تصنیف ہے۔ یہ جائسی کی "پدمادت" سے پہلے اور قطبن کی "مرگاوتی" سے بعد کی تصنیف ہے۔ اس کا ذکر جائسی اور عثمان دونوں نے کیا ہے۔ مدھومالتی کا کوئی مکمل نسخہ دستیاب نہیں ہو سکا ہے۔ یہ دوہے اور چوپاٹیوں کی شکل میں راج کمار منوہر اور راج کماری مدھو مالتی کے عشق کی داستان ہے۔ اس میں پریما اور تارا چند کے ضمنی قصہ کو شامل کر کے پلاٹ کو پیچیدہ بنایا گیا ہے۔ مدھو مالتی کی کہانی کو نصرتی نے "گلشن عشق" ((۱۷۰۰)) میں نظم کیا ہے۔ مدھو مالتی پدماوت کے بعد پریم مارگی صوفیانہ شاعری کی عمدہ مثال ہے۔ واضح رہے کہ پریم مارگی صوفی شعرا عشق مجازی کی عشق حقیقی کا زینہ خیال کرتے ہیں۔

مدھو مالتی کی کہانی اس طرح ہے۔ منوہر پریما کو ایک دیو سے نجات دلاتا ہے۔ اس لیے پریما کے والدین اس کی شادی منوہر سے کرنا چاہتے ہیں مگر پریما یہ کہہ کر انکار کر دیتی ہے کہ منوہر اس کا بھائی ہے۔ دوسری طرف مدھو مالتی کے والدین منوہر سے محبت کرنے کے جرم میں مدھو مالتی کو چڑیا بنا دیتے ہیں۔ وہ چڑیا کی شکل میں معاون کردار تارا چند تک پہنچتی ہے اور منوہر سے اپنے عشق اور اس کے فراق کی تکلیفوں کو سناتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۱۹

تارا چند اس کی داستان سن کر متاثر ہوتا ہے اور اس کو انسان کے روپ میں واپس لے آتا ہے۔ مدھو مالتی کے والدین اس کی شادی تارا چند سے کرنا چاہتے ہیں مگر وہ انکار کر دیتا ہے اور منوہر سے ملانے میں اس کی مدد کرتا ہے۔ منوہر اور مدھو مالتی کی شادی ہو جاتی ہے اور تارا چند پریما کو اپنا دے دے بیٹھتا ہے۔ اس کے آتے کی تصنیف ناتمام ہے لیکن کہانی کے رحجان سے کہا جا سکتا ہے کہ دونوں کی شادی ہو گئی ہو گی۔

مَرائی ملَائی اڈی گل ((۱۹۵۰ – ۱۸۷۶، Marai Malai Adigal)) : اصل نام سوامی ویداچلم ((Swamy Vedachalam))، تمل سے محبت کی وجہ سے سنسکرت نام بدل کر مرائی ملائی اڈی گل اپنا لیا۔ انھیں شیومت سے گہری دلچسپی تھی۔ ادبی تحقیق کی دنیا میں وہ ایک رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی ادبی تحقیقی تصنیفات میں ملائی پاٹو آرائٹچی ((Malai Pattu Araitchi)) اور پٹیتا پالائی آرائٹچی ((Pattetha Palai Araitchi)) بہت مشہور ہوئیں۔ ۱۹۱۶ سے انھوں نے خالص تمل زبان لکھنے کی شعوری کوشش کی اس لیے اپنے ایک رسالے "گیانا ساگرم" کا نام بدل کر اَرِاو کڈل ((Arivo Kadal)) رکھ دیا۔ ان کی یہ کوشش ایک تحریک بن کر ابھری، انھوں نے "شکنتلا" ڈرامہ کا تمل زبان میں ترجمہ کیا۔ شاعروں کی حیات پر مبنی ڈرامے امبیکاوتی ((Ambikavathi)) اور امراوتی ((Amaravathi)) کے نام سے لکھے۔ ان کے لکھے ناول کمودولی ((Kumudavalli))، کوکیلا مبال ((Kokilaambal))، کڈ دن گل (( Kadithangal)) بہت مقبول ہوئے۔ ان کی دیگر مشہور تصنیفات مانک واسگہ والارم کال آراتٹچی یم ((Manikka Vasaga Varalarum Kaala Araithchiyum))، تملر مدم ((Tamilar Madham))، تمل تائی ((Tamil Tahi))
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۲۰

تمل ناٹورم میل ناٹورم ((Tamil Naatturum Mel Naatturum))، ماکال پرکال تمل پلور ((Murkala Pirkala Tamil Pulavar)) ہیں۔

مربع : اردو شاعری کی وہ صنف سخن جس کا ہر بند چار مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے اور پہلے بند کے چاروں مصرعے ایک ہی ردیف و قافیہ کے پابند ہوتے ہیں۔ لیکن دوسرے بندوں میں پہلے تین مصرعوں کا قافیہ ایک ہوتا ہے اور چوتھے مصرعے میں پہلے بند کا ردیف و قافیہ اپنایا جاتا ہے۔

مرتضیٰ : حالات زندگی نہیں ملتے انھوں نے مرتضیٰ گیانی کے نام سے شہرت پائی اور وہ شاہ سلطان ثانی کے خلیفہ تھے۔ انھوں نے اپنا ایک مختصر سا دیوان چھوڑا ہے۔ وہ فن شعر پر پوری طور پر حاوی نہیں تھے۔ ان کے نام سے ایک طویل مثنوی "وصل نامہ" منسوب ہے جو کتب خانہ ادارہ ادبیات اردو میں موجود ہے۔ اس میں ۱۳۱۹ اشعار ہیں۔ بیجاپور میں زندگی گزاری۔ انتقال چینئی ((مدراس)) میں ہوا۔

مرثیہ : عربی لفظ "مرثیہ" کے معنی آہ و بکا کے ہیں۔ مرثیے کے لیے کسی خاص ہیئت کی قید نہیں۔ مثنوی، مربع اور مخمس کے روپ میں بھی مرثیے کہے گئے ہیں۔ مرثیے کے لیے مسدس کی شکل میں اس لیے پسند کی گئی کہ اس کے چھ مصرعوں میں خیال کی ابتدا، اس کی نشو و نما اور اختتام کی بہتر گنجائش نکلتی ہے۔ مرثیہ کسی کی وفات پر رنج و غم کے اظہار کا ایک موثر پیرایہ ہے۔ اردو میں مرثیہ عام طور پر شہدائے کربلا یعنی حضرت امام حسین اور ان کے اعزا و رفقا کی شہادت کا ذکر کرنے اور ان کے اوصاف نظم میں بیان کرنے کو کہتے ہیں۔ شہدائے کربلا کے علاوہ اگر اور کسی کا مرثیہ لکھا جاتا ہے تو اسے شخصی مرثیہ کہتے ہیں اور اس کی وضاحت ضروری ہوتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۲۱

جیسے مرثیہ غالب، مرثیہ حالی وغیرہ۔ مرثیہ کا موضوع کوئی بھی ایسی شخصیت بن سکتی ہے جس کی جدائی مرثیہ کہنے والے پر شاق گزرے۔

مرثیہ میں پہلے چند بند تمہید ((چہرہ)) کے طور پر ہوتے ہیں۔ اس تمہید کے لیے کوئی خاص مضمون مقرر نہیں ہے۔ تمہید میں مناظر قدرت بھی بیان کیے جا سکتے ہیں اور دعائیہ کلمات بھی نظم کیے جا سکتے ہیں۔ تمہید کے بعد، سراپا بیان کیا جاتا ہے اور اس کے بعد واقعاتِ جنگ، جس میں جنگ کی تیاری، تلوار اور گھوڑے کی تعریف رجز خوانی جنگ کی منظر کشی پر اس لیے زور دیا جاتا ہے کہ مرثیہ نگاروں نے اپنے ہیرو زیادہ تر معرکہ کربلا سے ہی منتخب کیے ہیں۔ بیان شہادت کے بعد ماتم و گریہ کے متعلق چند بند ہوتے ہیں اور مرثیہ ختم ہو جاتا ہے۔ اردو شاعری میں مرثیہ ایک ممتاز صنف سخن ہے۔ مرثیہ میں اخلاقیات کی تعلیم بڑے حسن و سلیقہ سے دی جاتی ہے۔ اس میں ایثار و قربانی، صبر و تحمل اور دشمن کے ساتھ بھی بہتر سلوک کا سبق ایسا دیا جاتا ہے کہ وہ براہ راست دل پر اثر کرتا ہے۔ یوں تو مرثیہ گو اردو میں بہت گزرے ہیں لینن میر ضمیر نے سب سے پہلے مسدس کو مرثیہ کے لیے مخصوص کیا اور ترتیب و تفصیل متعین کر کے مرثیہ کو مستقل اور باقاعدہ صنف کی حیثیت عطا کی۔ ان کے بعد میر انیس اور مرزا دبیر نے مرثیہ کو معراج کمال تک پہنچایا۔ یہ دونوں صاحب اسلوب مرثیہ گو ہیں اور ان دونوں نے مرثیے کے ذریعے اردو زبان اور شاعری کی بڑی خدمت کی ہے۔

مرجھ کٹیکا : سنسکرت ناٹک جو عوام میں بہت مقبول ہے۔ اس کے دس باب ہیں۔ بھرت کے کہنے کے مطابق ان دس روپوں میں سے زبان کی ملاوٹ کی یہ مکمل مثال ہے۔ اس کی کہانی کا مواد شاعر کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ اوجنبی کا بادشاہ سارتھربا چارودت اس باب کا ناٹک ہے۔ واکھیتا خاندانی وسنت سینا ناٹک ہے۔ چارودت کی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۲۲

بیوی دھروتا قدیم گھرانہ کی ہے جس کے بطن سے چارودت کا ایک لڑکا روہیت سین ہے۔ چارودت کسی وقت بہت مقتدر تھا لیکن وہ اپنی نیکیوں اور ہمدردیوں کی وجہ سے تنگ دست ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود اپنی شخصیت کی وجہ سے شہر میں اس کی بہت عزت تھی۔ وسنت سینا بڑی مدبر، دلیر اپنے فن اور حسن و ثروت میں یکتا ہونے کے باوجود سادہ مزاج نوجوان حسینہ تھی۔ اس کی کہانی کا مواد اس عہد کے سماج کے ہر پہلو کو پورے طور پر روشن اور واضح کرتا ہے۔ انفرادی کردار کے علاوہ اس عہد کے شاہی اقتدار اور طرزِ حکومت کو عمدگی سے پیش کرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ شہری زندگی کی تصویر بھی نظروں میں پھر جاتی ہے۔ شہر کی سجاوٹ، مجلسوں کے آداب، ثقافتی رسم و رواج، نوکر چاکر، آداب، رقص و سرور، کھیل تماشے، عدالتوں میں انصاف کے طریقے اور ظالم راجہ کے خلاف عوام کی نفرت، عوامی اقتدار کا تصور بڑی عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی سماج کی غربت، ادیبوں کی عزت، رنج و غم سے متعلق مظاہرے، کارکنوں کی غفلت و تکبر، بے گناہوں کا سزایاب ہونا، حاکموں کے مظالم، صبر اور رواج پر قربانی، خاندانی شرافت کا نصب العین کردار جیسے اہم امور پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی وجہ سے یہ ڈرامہ سماجی اصلاح کے موضوع پر سنسکرت ادب میں لاجواب ہے۔ اکثر زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ بھارت، جنوبی امریکا، روس، فرانس، جرمنی، اٹلی اور انگلستان کے کئے اسٹیجوں پر اسے پیش کیا گیا ہے۔

مرڈھیکر، بال سیتا رام ((۱۹۰۹ – ۱۹۵۶)) : یہ جدید مراٹھی شاعری کے بانی اور سب سے زیادہ نزاعی شاعر ہیں۔ انھوں نے لکھا تو کم ہے لیکن ان کی تحریروں نے بحث و مباحثے کا ایک دفتر کھول دیا۔ وہ ممبئی کے ایک انگریزی روزنامہ کے اسٹاف میں شامل تھے۔ بعد میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔ "ششی راکم" ((۱۹۳۴))،
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۲۳

"کاہی کویتا" ((۱۹۴۷)) اور "آنکھی کاہی کویتا" ((۱۹۵۱))، ان کے کلام کے الگ الگ مجموعے ہیں۔ بعد میں ان کا سارا کلام کلیات کی شکل میں بھی شائع ہوا ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعہ "سوندریہ آنی ساہتیہ" ((جمالیات اور ادب)) کو ۱۹۵۷ میں انعام بھی ملا ہے۔ وہ انگریزی میں بھی لکھتے تھے۔ ان کی انگریزی تصنیف"آرٹ اور انسان" جمالیات کے موضوع پر ایک طبع زاد کتاب تصور کی جاتی ہے۔ مرڈھیکر نے مراٹھی صنف شاعری میں جدید تکنیک کا اضافہ کیا۔ مثلاً داخلی خود کلامی، کلاسیکی زبان کے ساتھ عوامی محاوروں کی پیوند کاری، پیروڈی اور ماورائے ھقیقت امیجری وغیرہ۔ ان کی شاعری انسان اور مشین کے تعلق کی اجنبیت کو پیش کرتی ہے۔

مرزا : علی عادل شاہ ثانی شاہی کے دور کے مشہور مرثیہ گو شاعر تھے۔ مرثیے کے علاوہ کچھ نہیں کہا۔ ان کے مرثیے زیادہ تر غزل اور قصیدے کی ہیئت میں ہیں۔ وہ مجلسوں میں اپنے مرثیے ہی پڑھتا تھا اور انھیں سننے کے لیے ہجوم ہو جاتاتھا۔ ان کے مرثیے واقعہ نگاری اور سوز و گداز کے لھاظ سے اعلٰی درجہ کے ہیں۔ انھوں نے شہدائے کربلا کے گھوڑے اور ان کی تلوار کی تعریف کی ہے۔ جنگ کے نقشے کھینچے ہیں۔ ان کا کلام تاثر سے بھرپور ہے۔ انھیں اپنے دور کا سب سے بڑا مرثیہ نگار کہا جا سکتا ہے۔ ان کے مرثیے بالعموم طویل اور مختلف عنوانوں پر ہیں۔ اڈنبرا یونیورسٹی کی لائبریری کے علاوہ مولوی صفی الدین کے ذاتی کتب خانے میں ان کے مرثیے محفوظ ہیں۔

مرزا محمد ہادی رسوا : دیکھیے رسوا، مرزا محمد ہادی۔

مرینو، جیام بتستا ((۱۶۲۵ – ۱۵۶۹، Marino, Giam Battista)) : مرینو اطالیہ کا شاعر ہے۔ سترہویں صدی کے ایک یوروپی مکتب شاعری کا بانی تھا جسے مری نیزم ((Marinism)) کا نام دیا گیا ہے۔ مری نو کے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۲۴

پیروؤں نے مری نیزم کو ایسی انتہا کو پہنچایا کہ یہ طرز ایک شاعرانہ عیب بن گئی اور تصنع اور مبالغے کا دوسرا نام قرار پائی۔

مرینو نے بڑی رنگین اور آوارہ زندگی گزاری اور اپنے زمانے کے کئی امرا اور بعض رؤسائے کلیسا کی سرپرستی اسے حاصل رہی۔ ان میں سوائے ((Savoy)) کے ڈیوک اور لوئی سیزدہم ((Louis XIII)) جیسی ہستیاں شامل ہیں۔

مرینو کی نظمیں اپنی جدت اور عریانی کی وجہ سے بے حد مقبول بھی تھیں اور مردود بھی، سنسر کی وجہ سے اس کو اپنی نظمیں شائع کرنے پر ہمیشہ بڑی مشکل پیش آئی۔ بالاخر مرینو نے اپنے ابتدائی اشعار لے ریمے ((Le Rime)) اور "لی را" ((Lira)) کے نام سے بالترتیب ۱۶۰۲ اور ۱۶۰۸ میں شائع کیے۔ ۱۶۱۵ میں مرینو تورین ((Turin)) سے پیرس گیا اور پیرس چھوڑنے سے پہلے اپنی طویل نظم "ادونی" ((Adone)) شائع کی جو چوبیس سال کی محنت کا نتیجہ اور ۲۲ ہزار سے زیادہ اشعار پر مشتعمل ہے۔ اس تصنیف پر وینس ((Venus)) اور اڈونیس ((Adonis)) کے عشق کی داستان نظم کی گئی ہے اور مرینو کی مخصوص طرز کا کمال اور اس کے نقائژ دونوں اس میں آشکارا ہیں۔ ۱۶۲۳ میں مرینو نیپلز واپس ہوا اور وفات تک اسی شہر میں زندگی گزاری۔ مرینو کا خیال تھا کہ شاعری کی اصلی خصوصیت اور خوبی یہ ہے کہ وہ اچنبھا پیدا کرے۔ اس غرض سے اس نے دو رازکار استعارے اور تشبیہیں اور کئی لفظی صنعتیں اپنے اشعار میں استعمال کیں۔ مرینو کی خیرہ کن جدت نے اس اس طرز کو سارے یوروپ کی مقبول ترین طرز بنا دیا لیکن خود مرینو بعض اوقات اس میں اتنا غلو کر جاتا ہے کہ شاعری شعبدہ بازی بن کے رہ جاتی ہے۔ یہ بات مرینو کے پیروؤں میں جنھیں اس کا ملکہ شعر حاصل نہیں تھا
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۲۵

اتنی نمایاں ہے کہ مری نیزم ((Marinism)) لفظی صنعت گری کا دوسرا نام بن گیا۔ کروچے نے مرینو کی شاعری کا جدید ایڈیشن "متفرق نظمیں" کے نام سے ۱۹۱۳ میں شائع کیا۔

مسبّع : وہ صنف سخن جس کے ہر بند میں سات مصرعے ہوتے ہیں۔ پہلے بند کے ساتوں مصرعے متحد القوافی ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد کے بندوں میں ساتواں مصرعہ پہلے بند کے قافیے سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس صنف کا استعمال کم ہوا ہے۔

مستان، کُننگ گُڈی (( 1835 – 1788 Masthan, Kunanggudi,)) : اصل نام سلطان عبد القادر تھا۔ انھوں نے اسلامی افکار کا نچوڑ اپنی نظموں میں پیش کیا ہے۔ ان کی نظموں میں آفاقی اپیل پائی جاتی ہے۔ ہندو اور مسلم دونوں مذاہب کے لوگوں میں یکساں مقبول تھے۔ آپ کا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے پہلی بار تصوف کے کئی اصطلاحات کو من و عن تمل زبان میں پیش کیا جس کی وجہ سے ان کی نظمیں تصوف سے تھوڑا بہت لگاؤ رکھنے والا نہیں سمجھ سکتا تھا۔ لہذا ان کی نظموں کی شرحین لکھی گئیں۔ تمل کے مشہور شاعر کوی کو عبد الرحمن ((Kaviko Abdul Rahman)) نے ان کی نظموں میں استعمال کردہ تصوف کی اصطلاحات کی شرح پیش کی ہے۔

مستزاد : غزل اور رباعی میں مصرعہ کے بعد اس بحر کے ایک یا دو ارکان کا اضافہ کرنا یعنی آخر میں ایک چھوٹا سا مصرعہ بڑھا دینا مستزاد کہلاتا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ مستزاد عارض اور مستزاد لازم۔ مستزاد عارض میں اضافہ کیے ہوئے زائد مصرعے کے بغیر بھی مصرعہ اپنے پورے معنی ادا کرتا ہے۔ یعنی اس کا مفہوم اضافہ کیے ہوئے چھوٹے مصرعے کے مفہوم پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ اپنی جگہ خود بامعنی ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۲۶

مستزاد لازم میں اضافیہ کیے ہوئے چھوٹے مصرعے کا مطلب اصل بڑے مصرعے کے مطلب کا ایک جزو ہوتا ہے۔ بعض وقت اصل بڑے مصرعے کے بعد دو دو تین تین چھوٹے مصرعوں کا بھی اضافہ کیا جاتا ہے۔

مسدس : شاعری کی وہ صنف جس کا ہر بند چھ مصرعوں پر مشتمل ہو تو اسے مسدس کہتے ہیں۔ اس میں پہلے چار مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں اور آخری دو مصرعوں میں ردیف اور قافیہ جداگانہ ہوتا ہے۔ مسدس کا پانچواں اور چھٹا مصرعہ بند میں بطور ایک مطلع کے واقع ہوتا ہے۔ یہ مسمط سے اس طرح مختلف ہے کہ مسمط میں ہر بند کا آخری مصرعہ پہلے بند کا تابع ہوتا ہے لیکن مسدس میں یہ التزام نہیں رکھا جاتا۔

مسمط : مسمط کے معنی موتی پرونے کے ہیں مگر اصناف سخن میں ایسی نظم کو کہتے ہیں جو بندوں پر مشتمل ہو مگر ان بندوں میں متحد الاوزان اور متحد القوافی مصرعے ہوں اور ہر بند کا مصرعہ آخر پہلے بند کا تابع ہو۔

مصحفی، شیخ غلام ہمدانی ((۱۸۲۴ – ۱۷۵۰)) : امروہہ کے رہنے والے تھے۔ جوانی میں دہلی آئے۔ تعلم کی شروعات امروہہ میں، تکمیل دہلی میں ہوئی۔ ذوق شاعری دہلی میں پروان چڑھا جس کو وہ اپنا وطن جانتے تھے۔ ۲۲ سال کی عمر میں تنگ دستی سے پریشان ہو کر پہلے آنولہ گئے، پھر ٹانڈہ اور پھر لکھنؤ پہنچے۔ ایک سال بعد دہلی واپس آ گئے۔ مشق سخن جاری رہی اور بہت جلد اساتذہ سخن میں شمار ہونے لگے۔ بارہ سال بعد نواب آصف الدولہ کے دور میں مستقلاً لکھنؤ کی سکونت اختیار کر لی۔ یہاں انشاء پہلے ہی سے موجود تھے۔ انھیں کے توسط سے نواب سلیمان شکوہ کی سرکار میں باریابی ہوئی اور ان ہی کے دربار میں انشاء اللہ خاں سے کوب معرکے بھی ہوئے۔ سلیمان شکوہ کی سرکار میں باریابی ہوئی اور ان کے دربار میں انشاء اللہ خاں سے خوب معرکے بھی ہوئے۔ سلیمان شکوہ نے انشاء کا ساتھ دیا۔ نتیجتاً دربار سے تعلق ختم کر کے نواب مرزا محمد تقی سے وابستہ ہو گئے۔ آخری عمر تنگدستی میں گزری۔ مصحفی کی تصنیفوں میں نو دیوان، اردو شاعروں کے دو تذکرے، "تذکرہ ہندی"،
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۲۷

"ریاض الفصحا" اور فارسی شاعروں کا ایک تذکرہ "عقدِ ثریا" دست یاب ہیں۔ فارسی کا ایک دیوان بھی نظیری کے جواب میں مرتب کیا تھا۔ مصحفی نے شاگردوں کی کثیر تعداد چھوڑی اور ان کا اثر دور تک پھیلا۔

مضطر خیر آبادی ((۱۹۲۷ – ۱۸۶۵)) : سید محمد افتخار حسین نام تھا۔ امیر مینائی کے نامور شاگردوں میں تھے۔ دس برس کی عمر میں شعر موزوں کرنے لگے تھے۔ غزلوں کے علاوہ ان کی کئی نعتیہ مسدسوں نے شہرت پائی ہے۔ مضطر حافظ کریم خاں سندیلوی کے مرید تھے اور حاجی وارث علی شاہ صاحب نے روحانی نسبت رکھتے تھے۔ ان کے متصوفانہ کلام کا مجموعہ "الہامات" کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کی بعض ہندی تحریریں بھی مشہور ہیں۔

مظہر علی خاں ولا ((م۔ ۱۸۱۳)) : اصل نام مرزا لطف علی تھا۔ ان کے والد مرزا رفیع سودا کے استاد سلیمان علی خان کے دادا تھے جو مرزا محمد زمان کے نام سے معروف تھے۔ ولا فخر الشعرا میر نظام الدین ممنون کے شاگرد تھے۔ انھوں نے مصحفی اور مرزا جان طیش سے بھی مشورہ سخن کیا ہے۔ جب ۱۷۰۶ میں ان کے والد نے انتقال کیا تو وہ سیف الدولہ بخش الملک بخت قلی خان مظفر جنگ کے دربار میں رہے۔ کچھ دن جہاندار شاہ کے دربار میں پھر آصف الدولہ کی مصاحبت میں اور مہاراجہ ٹکیت رائے کی سرپرستی میں رہے۔ ۱۸۰۰ میں وہ کرنل اسکاٹ کے ملازم ہوئے اور انھیں کے ہمراہ کولکتہ آ کر فورٹ ولیم کالج میں منشی مامور ہوئے۔ ولا شاعر بھی تھے۔ ان کا کلیات موجود ہے۔ ان کی پہلی کتاب "مادھونل اور کام کنڈلا" ہے۔ یہ قصہ سنسکرت سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ دوسری کتاب سعدی کی "کریما" کا منظوم ترجمہ ہے۔ اس کے بعد ولا نے "ہفت گلشن" کا ترجمہ کیا۔ یہ کتاب اصل میں تہذیب اخلاق پر ناصر علی خان واسطی بلگرامی نے لکھی تھی۔ انھوں نے فارسی پڑھنے والوں کے مطالعہ
 
Top