اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۸

لاونی کا بنیادی موضوع عشق ہوتا ہے اور عشقیہ جذبات عورت کی طرف سے ظاہر کیے جاتے ہیں لیکن اس صنف کی دنیا محدود نہیں ہے اور موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے اسے کئی قسموں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ مثلاً رومانی، ناصحانہ، راہبانہ، دیومالائی، حکایاتی، شخصی، مزاحیہ وغیرہ۔ لیکن اس میں زیادہ تر مرد کا روٹھنا اور عورت کا اسے منانا، عاشق و معشوق کی چھیڑ چھاڑ یا تکرار، وصل و ہجر کے جذبات اور کرشن کی لیلاؤں کا بیان ملتا ہے۔ رام جوشی، ہونا جی بال، پرشرام اور پربھاکر کی لاونیاں کلاسیکی درجہ رکھتی ہیں۔

لاونیوں کو پیشواؤں کے دور اور خصوصاً آخری پیشوا باجی راو دوم کے زمانے میں زیادہ مقبولیت اور عروج حاصل ہوا۔ ان میں عیش کوشی، رنگین مزاجی اور جنس زدگی نمایاں ہے۔ شاہی دور اور جاگیردارانہ نظام کی پروردہ ہونے کے سبب ان لاونیوں میں کلی دار انگرکھوں، کامدار جوتیوں، کمان دار ابروؤں اور تاؤ دی ہوئی مونچھوں والے بانکے سجیلے جوانوں کا ذکر ہے جو دستار میں کلغی و موتی اور سرپیچ میں جیغہ لگاتے اور گلے میں موتیوں کی مالا پہنتے ہیں اور سبز ساڑی اور انگیا پہن کر گلے میں سبز موتیوں کا ہار ڈالے، سبز رنگ محل میں سبز مسند پر بیٹھی معشوقائیں ان کا انتظار کرتی ہوئی ہجر میں بے قرار نظر آتی ہیں۔ اکثر لاونیوں میں عورت کے سراپا کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور حسن اور اس کے متعلقات کو عورت کے جسم اور جذبات میں تلاش کیا گیا ہے لیکن ہر اچھے لاونی کار نے ایسے موقعوں پر شاعری کے حسن کو بھی برقرار رکھا ہے۔

مہاراشٹر کا ایک عوامی ناٹک "تماشا" ہے جو نوٹنکی سے ملتی جلتی تمثیلی صنف ہے ((تفصیل کے لیے "تماشا" دیکھیے)) اب لاونی اسی ناٹک کا اٹوٹ حصہ ہے جسے رقاصائیں پورے بو بھاو اور اداکاری کے ساتھ اسٹیج پر پیش کرتی ہیں۔ اکثر مراٹھی فلموں میں تماشا اور لاونی کو شامل رکھا جاتا ہے۔ غزل گائیکی کی طرح لاونی گانے والیوں کے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۹

شو منعقد ہوتے ہیں۔ حکومت مہاراشٹر نے لوک ناٹک اور لوک گیت کی حیثیت سے تماشا اور لاونی کو خصوصی تحفظ بھی دے رکھا ہے اور ان سے جڑے ہوئے فن کاروں کی ہمت افزائی بھی کرتی رہتی ہے۔

لاؤس – زبان و ادب : لاؤں کی زبان ایک حد تک تھائی زبان کی ایک بولی ہے اور اس کا ادب بھی بڑی حد تک تھائی ادب کا ایک حصہ رہا ہے۔ تھائی لینڈ کی طرح لاؤس کے ادب کو بھی یہاں کے راجاؤں کی سرپرستی حاصل تھی۔ پورے ادب پر اس وقت کے راجہ کا نام ہوتا۔ اصل مصنف کم نام ہی رہتا۔ موجودہ دور میں نشاۃ ثانیہ کی کوشش ہو رہی ہے اور لاؤس کے ادب کو قومی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

لائٹنر، جی۔ ڈبلیو ((۱۸۹۹ – ۱۸۴۰))

Leitner, G. W.,

جی۔ ڈبلیو۔ لائٹنر ماہر لسانیات ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کے قابل ذکر دوستوں میں تھے۔ تحصیل علم سے فارغ ہو کر وہ بیس سال کے سن میں لندن یونیورسٹی کے کنگز کالج میں پروفیسر بنے۔ نومبر ۱۸۶۴ میں لائٹنر گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔

اردو ادب کی تاریخ میں انجمن پنجاب لاہور نے جو خدمات انجام دی تھیں، انھیں بھلایا نہیں جا سکتا۔ لائٹنر اس انجمن کے صدر تھے۔ مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی نے انجمن پنجاب لاہور کی شعری نشستوں میں شرکت کر کے جدید نظم نگاروں کی تحریک کو ۱۸۷۴ اور ۱۸۷۵ کے دوران تقویت پہنچائی۔ مولانا محمد حسین آزاد لائٹنر ہی کی تجویز پر انجمن پنجاب لاہور کے سکریٹری بے تھے۔ لائٹنر ۱۸۸۶ میں لندن واپس چلے گئے۔ لندن میں بھی ان کی علمی اور ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا۔

لباب الالباب : محمد عوفی کی تصنیف ہے۔ یہ فارسی شعرا کا سب سے پہلا تذکرہ ہے جو ہندوستان میں مرتب ہوا۔ یہ دو حصوں میں ہے۔ پہلے حصہ میں سلاطین، امرا، علما و حکما کا ذکر ہے اور دوسرے حصہ میں ۱۶۹ شعرا
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۴۰

کے حالات ہیں۔ یہ تذکرہ ۶۱۸ھ ((۱۲۲۱)) میں لکھا گیا۔ عوفی مرو میں پیدا ہوا۔ بخارا میں تعلیم پائی اور سفر کرتے ہوئے ناصر الدین قباچہ کے عہد میں ہندوستان آیا اور اس کے وزیر حسین بن شرف الملک کے نام اپنا تذکرہ معنون کیا۔

لبید بن ربیعہ ((م۔ ۶۶۱)) : ابو عقیل، لبید بن ربیعہ وہ نامور مخضرم شاعر ہے جس نے جاہلیت اور اسلام دونوں میں اپنی عمر کا ایک معتدبہ حصہ گزارا۔ لبید نے اپنی قوم کے وفع کے ساتھ اسلام قبول کیا اور مسلمان ہوتے ہی اس کی ایسی کایا پلٹ ہوئی کہ باقی عمر قرآن اور اسلام ہی کا ہو کر رہ گیا۔ بڑی پاک، صاف ستھری اور باوقار زندگی گزاری۔ اس کی عظمت و عزت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا چرچا جاہلیت کی بزم ہائے طرب اور خوش باش و زندہ دل نوجوانوں کی محفلوں ہی میں نہیں رہتا تھا بلکہ بڑے بوڑھوں کی پُروقار انجمنوں اور بیٹھکوں میں بھی اس کا نام عزت و وقار اور قدر سے لیا جاتا تھا۔ جب وہ اسلام لائے تو شاید حضرت حسان کے بعد وہ پہلے شاعر ہیں جن کا ذکر کوفہ کی مسجد کے ممبر پر ہوا اور خود گورنر نے ان کی مدد کرنے اور ان کی قسم کو نبھانے میں پہل کی اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دی۔ ان کی قسم یہ تھی کہ جب بھی بادِ صبا چلے گی میں لوگوں کو کھانا کھلاؤں گا۔

ماضی قریب تک تذکرہ نگار لبید کو جاہلی زمانے کے شعرا میں شمار کرتے تھے لیکن جدید تحقیقات کی رو سے اس نے اسلام لانے کے بعد بھی مشق سخن جاری رکھی اس لیے اس کو بھی مخضرم شعرا میں شمار کیا جاتا ہے۔

لبید نے باوجود کم عمری ایک موقع پر ملاعب الاسنہ کے حریف الربیع کی ہجو لکھ کر نعمان بن منذر کے دربار میں اسے ذلیل و خوار کیا۔ اس واقعہ اور اس ہجویہ قصیدے کے بعد لبید کی زبان چل پڑی اور اس کے جذبات شاعری
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۴۱

ابل پڑے۔ اس کا شہرہ سارے علاقے میں پھیل گیا۔ اس نے اس کے بعد چھوٹے بڑے کئی قصیدے کہے جن کی وجہ سے اس کی شہرت میں چار چاند لگ گئے۔ جب اسلام ظاہر ہوا اور عرب کے وفود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے لگے تو بنو جعفر بن کلاب کا وفد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس میں لبید بن ربیعہ بھی تاھ۔ وہ وفد کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام لایا۔ وطن جا کر قرآن شریف حفظ کیا اور اس کے بعد پاک اور صاف ستھری اسلامی زندگی گزارنے لگا۔

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ نے کہا ہے کہ لبید نے ایک سو چالیس سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایک سو ستاون سال کی عمر کو پہنچ کر اس کا انتقال ہوا۔ بہرحال اس بات میں تقریباً سب کا اتفاق ہے کہ حضرت معاویہ رحمۃ اللہ کے عہد خلافت میں لبید کا انتقال ہوا۔

لبید نے شعر و شاعری کی ابتدا بہت ہی کم سنی میں کر دی تھی اور اسی زمانہ میں خاص شہرت بھی حاصل کر لی تھی۔ شاعری کے میدان میں وہ اپنے پیش رو آزاد منش عالی نسب اور اولوالعزم شاعروں جیسے عنترہ بن شداد العبسی اور عمرو بن کلثوم کی پیروی کرتا تھا۔ اس نے کبھی شاعری کو ذریعہ معاش نہیں بنایا اور نہ انعام و اکرام حاصل کرنے کے لیے مدحیہ قصیدے کہے۔ اس کا کلام اخلاق حمیدہ، انسانیت کے اقدار، حسن سلوک اور رواداری کی تلقین سے بھرا پڑا ہے۔ اس قسم کی تعلیمات اس کے معلقہ میں خاص طور پر ملتی ہیں جسے اس نے زمانہ جاہلی میں کہا تھا۔

لبید کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے اغراض و مقاصد کو بیان کرنے کے لیے بہت ہی پرشکوہ لیکن خوبصورت الفاظ کا انتخاب کرتا تھا اور ان کو نظم کے قالب میں اسی طرح ڈھال لیتا تھا کہ حسن عبارت، دقیق
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۴۲

معنی اور شریف پاکیزہ مقاصد سے ہم آہنگ ہو کر بلکہ مضامین اور واضح ہو کر دل کی گہرائی میں اتر جاتے ہیں۔ لبید کی دوسری امتیازی خصوصت یہ ہے کہ اس کے کلام میں شاعرانہ مبالغہ آرائی کی کثرت نہیں ہے اور وہ عام طور سے وعظ و نصیحت، حکمت و فلسفہ اور پند و نصیحت کے مضامین بیان کرتا ہے۔ وحشی جانوروں کی وصف نگاری میں لبید بن ربیعہ سب سے ممتاز ہیں۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حق گوئی کی داد دی ہے۔ ان صفات کے علاوہ لبید کو صنف مرثیہ گوئی میں بھی امتیازی حیثیت حاصل رہی ہے۔ مرثیہ میں حکمت اور عقلمندی کی ایسی باتیں کہتا ہے کہ جنھیں سن کر رنج و غم ہلکا ہو جاتا ہے اور جی کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔

لبید بدوی شاعر ہے۔ اسی لیے اس کے معلقہ میں بدوی زندگی کی پوری تصویر ملتی ہے۔ اس کا موضوع شاعر کی اپنی زندگی، سخاوت اور اس کی بہادری اور شجاعت ہے اور آخر میں اپنی قوم اور قبیلہ کی تعریف اور اس پر فخر ہے۔

لسانیات – بولیوں کا جغرافیہ

Linguistics Geography

اس میں کسی زبان سے تعلق رکھنے والی بولیوں کے لسانی اختلافات جو جغرافیائی اثرات کا نتیجہ ہوتے ہیں ان کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر تلفظ کے اختلافات کا مطالعہ کر کے

Isoglosses

بنائی جاتی ہیں اور ان کو جمع کر کے لسانی اٹلس

Linguistic Atlas

بنائے جاتے ہیں۔ اس کے ذریعہ کسی ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والی دو یا دو سے زیادہ زبانوں کا موازنہ کر کے ان کی آپس میں مشابہت اور اختلافات معلوم کیے جاتے ہیں اور ان کی ماخذی زبان

Proto Language

کی باز تعمیر کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طریقہ کار نے یوروپ میں تاریخی لسانیات کو بہت آگے بڑھایا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۴۳

لسانیات – تبادلی تخلیقی قواعد

Transformational Generative Grammar

تبادلی قواعد کا نظریہ سب سے پہلے ۱۹۵۷ میں نوام چومسکی

Noam Chomsky

نے تبادلی قواعد کی شکل میں اپنی کتاب

Syntactic Structures

میں پیش کیا۔ ۱۹۶۵ میں اس پر تنقید کی روشنی میں ترمیم و اضافہ کے بعد چومسکی نے تبادلی تخلیقی قواعد کا نظریہ پیش کیا جو روایتی قواعد اور ساختی قواعد کے ناقص قاعدوں اور خامیوں کا حل بن کر سامنے آیا۔

تبادلی تخلیقی قواعد کے تین بنیادی مقصد ہیں :

((۱)) زبان کے کل جملوں کی تخلق کرنا

To Generate all the Sentences of a Language

((۲)) ہر جملے کے تجزیے

Analysis

کے قواعد یا اصول فراہم کرنا جن کی روشنی میں قواعدی

Grammatical

اور غیر قواعدی

Ungrammatical

جملوں میں تمیز کی جا سکے۔

((۳)) زبان کی اندرونی ساخت

Deep Structure

کا تجزیہ کرنا۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے چند مقررہ قاعدوں

Rules

کی پابندی ضروری ہے۔

چومسکی کے خیال میں نحو اصول و قواعد کا ایک نظام ہے جو زبان کی آوازوں اور معنی میں ربط پیدا کرتا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے اس نے اپنی تبادلی تخلیقی قواعد کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

((۱)) نحوی جز

Syntactic Component

اس میں بنیاد سے متعلق قاعدے

Base Rules

تبادلی قاعدے

Transformational Rules

اور فرہنگ

Lexicon

جس میں منفرد الفاظ کی صوتیاتی، معنیاتی اور نحوی خصوصیات کی تفصیل ہوتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۴۴

((۲)) صوتیاتی جز

Phonological Component

اس میں زبان کی آوازوں اور ان کی نحوی ساختوں میں تغیر و تبادل کے صوتیاتی قاعدے

Phonological Rules

شامل ہیں۔

((۳)) معنیاتی جز

Semantic Component

اس میں لغت زبان کے الگ الگ لفظ اور جملوں میں ان کے دوسرے الفاظ سے مرکب یا مربوط ہونے سے متعلق قاعدے و قوانین ہوتے ہیں۔

ان تینوں حصوں کے جو اصول و قواعد ہیں ان کا یکے بعد دیگرے عمل میں لانا از بس ضروری ہے۔

لسانیات – ترسیلی صوتیات

Acoustic Phonetics

انسان کے منھ سے نکل کر آواز کی لہریں

Sound Waves

فضا میں پھیل کر کانوں کے پردوں سے ٹکراتی ہیں۔ آوازیں فضا میں فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ ان کے زیر و بم اور ان کی طبع خصوصیات کا مطالعہ ترسیلی صوتیات میں کیا جاتا ہے۔ صوتیات کی اس شاغ میں بعض آلات مثلاً اسپکٹو گرام، آسیلو گراف، کانمو گراف وغیرہ کی مدد سے آوازوں کی لہروں کو ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ آواز کی ترسیل کے مطالعے میں طبیعات اور ریاضیات جیسے علوم سے بھی مددملتی ہے۔ یہ ایک طرح کی لیباریٹری صوتیات ہے۔ اس کو تجربی صوتیات بھی کہتے ہیں۔

لسانیات – تقابلی لسانیات

Comparative Linguistics

اس کو تقابلی طریقہ کار بھی کہتے ہیں۔ اس کے ذریعہ کسی ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والی دو یا دو سے زیادہ زبانوں کا موازنہ کر کے ان کی آپس میں مشابہت اور اختلافات معلوم کیے جاتے ہیں اور ان کی ماخذی زبان

Proto Language

کی باز تعمیر کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طریقہ کار نے یوروپ میں تاریخی لسانیات کو بہت آگے بڑھایا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۴۵

لسانیات – تلفظی یا تکلمی صوتیات

Articulatory Phonetics

انسانی زبان کی آوازوں کے سائنٹفک مطالعے کو جس میں آوازوں کی پیدائش، ان کی مخارج، طریقی تلفظ اور آوازوں کی درجہ بندی وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے، تلفظی یا تکلمی صوتیات کہتے ہیں۔ اس مطالعہ کی ابتدا اعضائے صوت

Speech Organs

مثلاً پھیپھڑے، حنجرہ، صوتی لب

Vocal Cords

منھ، زبان، ہونٹ وغیرہ کی آواز کی پیدائش کے عمل

Function

سے ہوتی ہے اور یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ کن کن آوازوں کے لیے کن کن اعضائے صوت سے کام لیا جاتا ہے اس کے بعد مخارج اور طریقہ تلفظ کے اعتبار سے مختلف آوازوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ لب و لہجہ

Intonation

کی خصوصیات کا مطالعہ بھی اس میں ہوتا ہے۔

لسانیات – توضیحی یا ساختی

Descriptive or Structural Linguistics

زبان کے توضیحی و تشہریحی مطالعہ کو توضیحی لسانیات کہتے ہیں۔ اس مطالعہ کا مقصد زبان کی ساخت

Structure

معلوم کرنا ہے۔ اس لیے اس کو ساختی لسانیات بھی کہتے ہیں۔ اس میں ہم کسی ایک معینہ و مقررہ وقت اور جگہ کی زبان کا توضیحی مطالعہ کر کے اس کے صوتیاتی، صرفی اور نحوی نظام یا ساخت کا پتہ لگاتے ہیں۔ ہر زبان اپنی ساخت کے اعتبار سے دنیا کی دوسری زبانوں سے مختلف ہوتی ہے جس کی بنیاد پر ہم اسے الگ زبان یا بولی قرار دیتے ہیں۔ توضیحی لسانیات میں زبان کی ممیز آوازوں یعنی صوتیوں

Phonemes

کے استعمال اور وقوع کی تفصیلات کے علاوہ زبان کے صرفی و نحوی نظام کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ یوروپ اور امریکا میں توضیحی تجزیہ کے طریقہ کار میں کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ امریکی ماہرین نے امریکی انڈین زبانوں کے توضیحی مطالعے کی غرض سے ان زبانوں
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۴۶

کی ساخت کو اہمیت دیتے ہوئے توضیحی لسانیات کا اپنا طریقہ ایجاد کیا۔ جو مطالعہ زبان کے سلسلے میں ایک نیا طریقہ کار تھا۔

لسانیات – داخلی باز تعمیر

Internal Reconstruction

یہ تقابلی طریقہ کار ہی کا ایک حصہ ہے جس میں ایک زبان کی اصوات یا الفاظ کا داخلی شواہد کی روشنی میں مطالعہ کر کے اس زبان کے قدیم ترین لسانیاتی روپ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

لسانیات – دخیل الفاظ

Borrowings

ایک زبان اپنے نزد کی زبان یا زبانوں سے متاثر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ایک زبان کے لفظ دوسری زبان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ زبانوں میں الفاظ کے دخیل ہونے کے اسباب اور ان کی تاریخ معلوم کر کے لسانی تغیرات کی بے قاعدگی کا حل تلاش کرنے میں مدد لی جاتی ہے۔ اردو میں عربی فارسی اور دوسری زبانوں کے دخیل الفاظ کثرت سے ملتے ہیں۔ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں دخیل الفاظ پائے جاتے ہیں۔

لسانیات – سمعی صوتیات

Auditory Phonetics

اس شاغ کا تعلق انسانی آوازوں کے سماعت اور ان کے ادراک سے ہے۔ منھ سے نکل کر آوازیں ((الفاظ کی شکل میں)) خلا میں ہوتی ہوئی کانوں کے پردوں سے ٹکراتی ہیں اور پھر وہاں سے دماغ کے ریشوں

Nerves

کو جا کر متحرک کرتی ہیں تو ہمیں آوازوں کا ادراک یا احساس ہوتا ہے۔ یعنی ہم ان آوازوں کو سنتے ہیں اور سننے کے بعد ہمارا دماغ آوازوں پر مشتمل الفاظ اور ان سے ترتیب پانے والے جملوں کے معنی و مفہوم کو سمجھتا ہے۔ ان تمام باتوں کا علم ہمیں سمعی صوتیات
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۴۷

کے ذریعے ہوتا ہے اس میں بھی بعض آلات اور دوسرے علوم جیسے حیاتیات یا علم التزریح وغیرہ سے مدد لینی پڑتی ہے۔

لسانیات – صرفی تغیرات

Morphological Change

الفاظ کی ہیئت

Form

میں ہونے والی تبدیلیوں کو صرفی تغیرات کہا جاتا ہے۔ مثلاً قدیم اردو "ہماری باتیاں" موجودہ اردو "ہماری باتیں" یا جمع بنانے کا طریقہ "کتاباں" جس کی جگہ اب "کتابیں" استعمال ہوتا ہے۔

لسانیات – صرفیات یا مارفیمیات

Morphology

مطالعہ زبان کے قدیم اور روایتی طریقہ کار میں لفظ کو چھوٹی سے چھوٹی بامعنی اکائی سمجھا جاتا تھا۔ جدید لسانیات میں اب لفظ کے بجائے زبان کے انفرادی لسانیاتی روپ یا اس کی شکلیں

Morphs

ہیں جنھیں اصطلاح میں صرفیے

Morpheme

کہا جاتا ہے۔

لسانیات – صوتی رسم خط

Phonetic Alphabets

دنیا میں جتنے رسم خط رائج ہیں ان میں سے کوئی بھی اپنی جگہ مکمل اور بے عیب نہیں۔ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے ۱۸۸۶ میں یوروپ کے چند ماہرین صوتیات و لسانیات نے ایک انجمن قائم کی جس کا نام بین الاقوامی صوتی انجمن رکھا گیا۔ شروع شروع میں یوروپی زبانوں کو صحیح تلفظ کے ساتھ لکھنے کے لیے ایک صوتی رسم خط بنایا گیا اور جب مختلف سمتوں سے اس کی سراہا گیا تو دنیا بھر کی دوسری زبانوں کی آوازوں کو بھی رسم خط میں نمائندگی دینے کے لیے اس رسم خط میں ترمیم و اضافہ کیا گیا۔ اس وقت سے لے کر ۱۹۵۱ تک اس میں برابر ترمیم و اضافہ ہوتے رہے تاکہ زبانوں پر تحقیقی کام میں سہولت ہو۔ اس رسم خط کو بین الاقوامی صوتی رسم خط

International Phonetic Alphabet

کہتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۴۸

اس میں تقریباً دنیا بھر کی زبانوں کی آوازوں کے لیے صوتی علامات دی گئی ہیں۔ اس رسم خط کا بنیادی اصول ہر ممیز آواز کے لیے ایک علاحدہ علامت کا ہونا ہے۔ بیشتر علامات رومن رسم خط سے لی گئی ہیں اور ان میں ضرورت کے مطابق ترمیم و اضافہ کیے گئے ہیں۔ بیشتر ماہرین صوتیات اس رسم خط کو اپناتے ہیں مگر امریکی ماہرین نے اس میں اپنے یہاں کی زبانوں کے لحاظ سے ترمیم کی ہے۔ اس کے باوجود وہ بھی بین الاقوامی صوتی رسم خط سے بہت زیادہ مختلف نہیں۔ بین الاقوامی صوتی رسم خط کو بھی مکمل اور بے عیب نہیں کہا جا سکتا تاہم جتنے رسم خط ہیں ان میں اس کو بہتر کہا جا سکتا ہے۔

لسانیات – صوتیات

Phonetics

اصطلاح میں صوت آواز کو کہتے ہیں۔ صوتیات لسانیات کی بنیادی اور اہم شاخ کا اصطلاحی نام ہے جس کے ذریعے انسانی زبان میں استعمال ہونے والی آوازوں کی پیدائش، ان کی ترسیل

Transmission

اور استقبال یعنی سماعت

Reception or Hearing

کا سائنٹفک مطالعہ کیا جاتا ہے۔ آوازوں کی ان خصوصیات کا الگ الگ طور پر مطالعہ کرنے کی غرض سے صوتیات کی تین ذیلی شاخیں تلفظی یا تکلمی، ترسیلی اور سمعی صوتیات ہیں۔

لسانیات – طریقہ تلفظ

Manner of Articulation

مختلف آوازوں کو ادا کرتے وقت سانس کو یا تو مکمل طور پر ذرا سے وقفے کے لیے منھ کے کسی نہ کسی حصے پر روک دیا جاتا ہے یا ہوا کے راستے کو تنگ کر دیا جاتا ہے یا بالکل کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کو طریقہ تلفظ کہا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں مصوتوں میں مسموع

Voiced

متحرک

Trill

تھپک والی

Flap

اور پہلوئی

Lateral

آوازیں وجود میں آتی ہیں۔ اور مصوتوں میں زبان اور ہونٹوں کو مختلف حرکات سے مدوّر

Rounded

یا غیر مدوّر
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۴۹

Unrounded
طویل
Long
یا مختصر،
Short
تنگ
Close
کشادہ
Open
اونچے
High
وسطی
Mid
یا نچلے
Low

مصوتے جنم لیتے ہیں۔ پچھلے صفحے پر اور ذیل میں اردو مصمتوں، تم مصوتوں اور مصوتوں کا نقشہ دیا گیا ہے۔

لسانیات – فونیمیات یا عالم الصوتیہ

Phonemics

یہ لسانیات کی دوسری اہم شاغ فونیمیات ہے۔ اس کی بنیاد صوتی اکائی کے تصور پر رکھی گئی ہے جسے صوتیہ یا فونیم

Phoneme

کہتے ہیں۔ ہم جب بولتے ہیں تو ہمارے منھ سے جو الفاظ نکلتے ہیں وہ مختلف آوازوں کے سلسلے ہوتے ہیں جن میں ایک آواز اپنے آگے پیچھے آنے والی آوازوں سے متاثر ہوتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر ذیل کے فقروں کو بول کر دیکھیے۔

((۱)) سات دن، ((۲)) آج شام، ((۳)) ایک گھر، ((۴)) کب تک۔

ان میں پہلے فقرے میں "ت" دوسرے میں "ج" تیسرے میں "ک" اور چوتھے میں "ب" اپنے بعد آنے والی آوازوں سے علی الترتیب متاثر ہو کر "د" "ش" "گ" اور "ت" سنائی دیں گی۔ رسم الخط کے دھوکے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اسی طرح بول رہے ہیں جیسے یہ اوپر لکھے ہوئے ہیں۔ اس طرح ہر ایک زبان میں سیاق و سباق کی آوازوں کے اثر سے آوازوں کی تعداد بے شمار ہو جاتی ہے لیکن ہر زبان ان بے شمار آوازوں میں سے صرف
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۵۰

ایسی آوازوں کو اپنا لیتی ہے جو ممیز

Distinct

ہوتی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں صوتیے یا فونیم کہتے ہیں۔ ان کے مطالعہ و تجزیے کے علم کو علم الصوتیہ یا فونیمیات کہتے ہیں۔

صوتیے ایسی اکائیاں ہہیں جن سے الفاظ کے معنی کے فرق کی وضاحت ہوتی ہے۔ جیسے پال، بال، تال، چال، کال، گال، لال، مال وغیرہ الفاظ میں "ا ل" آوازیں مشترکہ ہیں مگر ہر ایک میں ابتدائی آواز بدلنے سے لفظ کے معنی میں فرق آ گیا۔ چنانچہ پ ب ت چ ج ک گ ل م ممیز آوازیں یعنی صوتیے ہیں۔

ایسی آوازیں جو صوتی اعتبار سے

Phonetically

تو مختلف ہوں مگر فونیمیاتی اعتبار سے

Phonemically

مختلف نہ ہوں یعنی ایک کی جگہ دوسری لانے سے معنی میں کوئی فرق نہ پڑتا ہو تو وہ ذیلی صوتیے یا ذیلی فانیح

Allophone

کہلاتی ہیں۔ اردو میں اس کی مثال گڈھا اور گڑھا الفاظ سے دی جا سکتی ہے۔ ذیلی صوتیوں کے الگ الگ محل وقوع کو اصطلاح میں تکملی بٹوارہ کہتے ہیں جس میں "ڈ" اور "ڑ" صوتی اعتبار سے الگ الگ آوازیں ہیں۔ مگر فونیمیاتی اعتبار سے ہم گڈھا کہیں یا گڑھا معنی ایک ہی ہیں۔

کسی زبان میں کتنے صوتیے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے کتنے ذیلی صوتیے ہیں اور مختلف صوتیے زبان کے صوتیاتی نظام میں کس طرح سے اپنا کام

Function

انجام دیتے ہیں، کن کن صوتیوں میں تقابل

Contrast

ہوتا ہے، کن کن میں آزادانہ تغیر

Free Variation

ہوتا ہے اور کون کون سے صوتیے ایک دوسرے کے تسلسل میں آ سکتے ہیں، ان سب کا مطالعہ و تجزیہ فونیمیات کی حدود میں آتا ہے۔ صوتیات اور فونیمیات دونوں شاخوں کو ملا کر اہم مجموعی اصطلاح فونولوجی

Phonology

بنائی گئی ہے جس کے تحت زبان کے صوتی اور فونیمیاتی دونوں پہلوؤں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ صوتیات میں انسان کے منھ
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۰۱

محسن الملک، نواب ((۱۹۰۷ – ۱۸۳۷)) : مہدی علی نام، اور محسن الملک خطاب تھا۔ اٹاوہ کے رہنے والے تھے۔ عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کلکٹریٹ میں اہلکار ہو گئے۔ رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے تحصیلدار بنے۔ لکھنے پڑھنے کا شوق ابتدا سے تھا۔ دوران ملازمت قانون کی دو کتابیں، ایک قانون مال اور دوسری قانونی فوجداری سے متعلق لکھیں، جو بہت مقبول ہوئیں۔ ۱۸۶۳ میں مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کر مرزا پور کے ڈپٹی کلکٹر بن گئے۔ ان کی قابلیت کی شہرت سن کر سر سالار جنگ نے ان کو حیدر آباد بلوایا۔ وہاں وہ سو روپیہ ماہوار پر انسپکٹر جنرل مالیات مقرر کیے گئے۔ بعد ازاں فینانشیل اور پولیٹکل سکریٹری کے عہدوں پر بھی رہے۔ حکومت سے محسن الملک محسن الدولہ اور میر نواز جنگ کے خطابات پائے۔ اس درمیان انگلستان کا سفر بھی کیا۔ قیام حیدر آباد کے زمانے میں مفید اصلاحیں کرنے کے علاوہ انھوں نے فارسی کے بجائے اردو کو ریاست کی سرکاری زبان بنوایا۔ ۱۸۹۳ میں سیاسی سازشوں سے پریشان ہو کر پنشن لے لی اور علی گڑھ چلے گئے۔ جہاں باقی عمر کالج کی ترقی اور تعلیمی خدمات میں صرف کی۔ وہیں انتقال کیا اور سر سید کے قریب دفن ہوئے۔ محسن الملک سر سید کے رفقائے کار میں تھے۔ شروع میں وہ ان کے خیالات سے متفق نہ تھے لیکن رفتہ رفتہ ان کے مداح اور معاون بن گئے۔ سر سید کے "تہذیب الاخلاق" کے لیے انھوں نے مذہبی اور تاریخی مضامین لکھے۔ محسن الملک ایک اچھے مقرر بھی تھے۔ "آیات بینات" ان کی مشہور تصنیف ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے سر سید تحریک کی تائید میں بھی مضامین لکھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۰۲

محسن کاکوروی ((۱۹۰۵ – ۱۸۲۵)) : محمد حسن نام، مولوی حسن بخش کے بیٹے تھے۔ اودھ کے قصبے کاکوری میں پیدا ہوئے۔ باپ اور دادا کی آغوش میں تربیت پائی۔ مولوی عبد الرحیم سے تحصیل علم کی۔ بادی علی اشک کے شاگرد تھے۔ امیر مینائی سے بھی مشورہ سخن کیا۔

محسن کاکوروی نے ابتدا میں غزلیں قصیدے اور مثنویاں لکھیں۔ اس کے بعد ساری عمر نعت گوئی کی اور نعت کے سوا کچھ نہیں لکھا۔ ان کا کلیان نعت شائع ہو گیا ہے۔ مشہور قصیدہ "سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل" ہے۔ اس کے علاوہ دو نعتیہ مثنویاں "چراغ کعبہ" اور "شفاعت و نجات" بھی محسن کی تصنیف ہیں۔

محمد جان قدسی ((۱۶۴۶)) : محمد جان نام، قدسی تخلص، خاں زماں خطاب ہے۔ مشہد مقدس میں پیدا ہوا۔ اسی مناسبت سے قدسی تخلص اختیار کیا۔ نوجوانی میں حج و زیارت سے فارغ ہوا اور ۱۶۳۱ میں ہندوستان آیا۔

۱۶۳۲ میں شاہجہاں کے دربار میں رسائی حاصل کی اور ملک الشعرا مقرر ہوا۔ قصیدہ کی پیش کشی پر دو ہزار روپے اور خلعت سے سرفراز ہوا۔ ۱۶۳۵ میں جب جشن نوروز کے موقع پر قصیدہ پیش کیا گیا تو اس کو روپیوں میں تول کر روپیہ انعام میں دیا گیا۔ شاہجہاں کی لڑکی جہاں آرا بیگم جلنے کے بعد صحت یاب ہوئی تو قدسی نے قصیدہ پیش کیا اور خلعت اور دو ہزار روپے پائے۔

عبد اللہ خاں فیروز جنگ ہفت ہزاری منصب اور سات ہزار سوار کے اعزاز سے مفتخر تھا۔ ایک سفر میں قدسی نے جو اس کے ساتھ تھا۔ قصیدہ پیش کیا۔ عبد اللہ خاں نے اس کو لے کر اپنی مسند پر بٹھایا اور خود شب خوابی کے لباس میں پالکی میں سوار ہو کر چلا گیا۔ اس طرح خیمہ و خرگاہ اور سارا ساز و سامان اس کو بطور انعام ملا۔ اس واقعہ کے بعد اس نے شاہجہاں کی مدح میں ایک قصیدہ سنایا۔ شاہجہاں نے کہا عبد اللہ خاں نے جو صلہ دیا
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۰۳

ہے وہ کوئی اور نہیں دے سکتا۔ اس نے سات دفعہ شاعر کا منھ ہیرے اور جواہر سے بھرا اور انھیں قصیدہ کے صلہ میں عنایت کیا۔ قدسی نے بادشاہ کے حکم کی بنا پر "شاہجہاں نامہ" تصنیف کیا۔ اس میں فصاحت و بلاغت کے جوہر دکھائے ہیں۔ بعض تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ اس نے لاہور میں انتقال کیا لیکن تاریخ اعظمی ((تاریخ کشمیر)) تصنیف مفتی محمد شاہ سعادت کشمیری نے قدسی کے بارے میں لکھا ہے کہ "در کشمیر رحلت نمود و بالائے بلندی متصل خانقاہ در گجن بہ چبوترہ ای کہ نزد پل است، در مقبرہ شعراء آسود"

یہ چبوترہ "صفہ شعراء" کہلاتا ہے۔ اس کی تائید مولانا طاہر غنی کشمیری کے قطعہ تاریخ سے بھی ہوتی ہے جو انھوں نے کلیم کی وفات پر لکھا ہے۔ یہاں قدسی، سلیم، ابو طالب کلیم اور ملا طغری مشہدی دفن ہیں۔

قدسی نے قصیدہ، غزل، مثنوی اور دیگر اصناف سخن میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ نہایت رنگین مضامین پیش کیے اور اپنی فکر رسا کے جوہر دکھائے ہیں۔

محمد جعفر تھانیسری، مولانا ((1905 – 1838)) تھانیسر ضلع انبالہ ((غیر منقسم پنجاب)) میں پیدا ہوئے۔ مذہبی تعلیم کے ساتھ طب کی تعلیم بھی حاصل کی۔ مروجہ تعلیم کے بعد عدالتوں میں عرضی نویس کا پیشہ اختیار کیا جس کی بدولت قانون سے خاطر خواہ واقفیت ہو گئی۔

سید احمد شہید نے تحریک جہاد شروع کی تو محمد جعفر نے ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے اس میں حصہ لیا۔ بہت سی مشکلات سے گزرے۔ تحریک جہاد میں وہ پیرو خاں کے نام سے مشہور تھے۔ حکومت نے ان کو گرفتار کرنا چاہا تو وہ فرار ہو گئے۔ بالآخر علی گڑھ میں گرفتار ہوئے۔ مقدمہ چلایا گیا۔ پھانسی کی سزا دی گئی۔ بعد میں پھانسی کی سزا، سزائے کالا پانی میں تبدیل ہو گئی۔ انڈیمان بھیجے گئے۔ ۱۷ سال بعد وطن واپس آئے۔ شروع سے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ 104

تصنیف و تالیف کا شوق تھا۔ ان کی تصنیفات میں "نصائح جعفری"، "تواریخ عجیب کالا پانی"، .سوانح احمدی"، "رسالہ رد قادیانیت"، اور "سید احمد شہید" خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

محمد حسن عسکری ((1919 – 1978)) : اصل نام اظہار الحق تھا۔ وہ 5 نومبر 1919 کو سراوہ، ضلع میرٹھ، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسلم پرائمری اسکول، شکار پور ضلع بلند شہر سے حاصل کی۔ ڈی۔ اے۔ انگلش مڈل اسکول سے مڈل پاس کیا۔ 1936 میں مسلم ہائی اسکول بلند شہر سے میٹرک اور 1938 میں میرٹھ کالج میرٹھ سے انٹر پاس کیا۔ الہٰ آباد یونیورسٹی سے 1940 میں بی۔ اے۔ کیا۔ اور 1942 میں وہیں سے انگریزی میں ایم۔ اے۔ کیا۔ پروفیسر ایس۔ سی۔ دیب ان کے زمانے کے مشہور انگریزی استاد تھے۔ ان سے عسکری نے بہت کچھ حاصل کیا۔

محمد حسن عسکری کے والد کا نام محمد معین الحق تھا۔ وہ بلند شہر میں کورٹ آف وارڈز میں ملازم تھے۔ وہاں سے وہ والی شکار پور رگھوراج کے یہاں بطور اکاؤنٹنٹ چلے گئے جہاں انھوں نے 1945 تک ملازمت کی۔

محمد حسن عسکری نے پہلی ملازمت آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں بطور اسکرپٹ رائٹر اختیار کی۔ اسی زمانے میں شاہد احمد دہلوی اور رسالہ "ساقی" سے ان کا تعلق قائم ہوا۔ وہ کچھ دنوں تک اینگلو عربک کالج، دہلی میں انگریزی کے استاد رہے۔ اس کے بعد میرٹھ چلے گئے جہاں وہ میرٹھ کالج میں انگریزی پڑھاتے رہے۔ 1947 میں وہ تقسیم ہند کے بعد لاہور منتقل ہو گئے۔ وہاں انھوں نے سعادت حسن منٹو کے ساتھ مل کر مکتبہ جدید، لاہور سے "اردو ادب" جاری کیا۔ صرف دو شمارے شائع ہو سکے۔ 1950 میں وہ کراچی چلے گئے۔ وہاں ابتدا میں وہ فری لانس ادیب کے طور پر ترجمے اور طبع زاد تحریریں لکھتے رہے۔ جنوری 1950 سے جون 1950 تک "ماہ نو" کراچی کے مدیر بھی رہے۔ پھر
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ 105

اسی سال اسلامیہ کالج لاہور میں بطور استاد منتقل ہو گئے۔ پھر انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے ملحق کالج میں انگریزی کے استاد کے فرائض کے انجام دیے۔ اسی ملازمت کے دوران 18 جنوری 1978 کو کراچی میں ان کا انتقال ہوا۔ محمد حسن عسکری نے بھر پور علمی اور ادبی زندگی گزادی۔ شروع کی تحریروں میں ان کے یہاں انگریزی اور فرانسیسی ادب سے ان کے غیر معمولی لگاؤ، بلکہ وارفتگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابتدائی مضامین میں انھوں نے فرانسیسی ادب سے ان کے غیر معمولی لگاؤ، بلکہ وارفتگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابتدائی مضامین میں انھوں نے فرانسیسی علامت پسندوں کو غیر معمولی عقیدت اور جوش کے ساتھ موضوع بحث بنایا۔ بعد کے زمانے میں ان کے مزاج میں تبدیلی آئی اور انھوں نے مشرق اور مذہب سے حد درجہ دلچسپی لینی شروع کی۔ فرانس کے رینے گینوں ((Rene Guenon)) اور ہندوستان کے بعض علما بالخصوص مولانا اشرف علی تھانوی سے انھوں نے بڑا اثر قبول کیا اور ان مصنفین کے تحریروں کے ترجمے بھی کیے۔

محمد حسن عسکری نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا مگر اس کے ساتھ ہی رسالہ "ساقی" میں انے کے کالم "جھلکیاں" کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کالم نے ان کی ادبی بصیرت، علمیت اور منفرد اسلوب تحریر کے دیرپا اثرات چھوڑے۔

افسانوں میں نفسیاتی موضوعات اور ہیئت کے تجربے کے باعث ان کو ابتدائی تجربہ پسند افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔ افسانے کے اپنے پہلے مجموعے میں انھوں نے اپنی تخلیقی بازیافت کے طور پر جو مضمون شائع کیا۔ اس کے باعث تجربہ پسند افسانوں کے سلسلے میں ان کی نظریہ سازی کو بھی خاص اہمیت حاصل ہوئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ 106

آخری زمانے میں عسکری کا رحجان بیش از بیش تصوف اسلامی، اور ادب کی تہذیبی اور اسراری ((Mystic)) تعبیروں کی طرف ہو گیا تھا۔ عسکری نے مغربی ادب سے استفادہ بھی کیا اور ان کے بتوں کو توڑا بھی۔ انھوں نے اردو ادب میں روایت اور تسلسل اور تہذیبی وحدت کا تصور پیش کیا۔

محمد حسن عسکری کی تصنیفات، تراجم اور تالیفات حسب ذیل ہیں :

((1)) میری بہتری نظم ((اس کتاب میں نظم گو شعرا کے کلام کا انتخاب مع مقدمہ شامل ہے)) ترتیب کتابستان، الہٰ آباد 1942

((2)) میرا بہترین افسانہ ((اس کتاب میں اپنے مقدمے کے ساتھ افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانے شامل ہیں)) ترتیب ساقی بک ڈپو، دہلی 1943

((3)) ریاست اور انقلاب ((لینن کی کتاب کا ترجمہ)) ہند کتاب گھر، دہلی 1943

((4)) میں ادیب کیسے بنا؟ ((گورکی کی خود نوشت کے بعض حصوں کا ترجمہ))، الجدید، لاہور 1943

((5)) جزیرے ((افسانے))، ساقی بک ڈپو، دہلی 1943

((6)) قیامت، ہم رکاب آئے نہ آئی ((افسانے))، ساقی بک ڈپو، دہلی، 1947

((7)) آخری سلام ((کرسٹوفر آشروڈ)) ((Christopher Isherwood)) کی کتاب Goodby to Berlin کا ترجمہ، الجدید، لاہور، 1948

((8)) مادام بواری ((گستو فلائبیر)) ((Gustav Flaubert)) کے فرانسیسی ناول کا براہ راست ترجمہ، مکتبہ جدید، لاہور، 1950
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ 107

((9)) انسان اور آدمی ((تنقیدی مضامین))، مکتبہ جدید، لاہور، 1953

((10)) انتخابِ طلسم ہوش رُبا، مکتبہ جدید، لاہور، 1953

((11)) انتخاب میر، ماہنامہ "ساقی"، دہلی ((میر نمبر)) 1958

((12)) میں کیوں شرماؤں ((شیلا کزنس)) ((Sheila Cousins)) کے ناول ((To Beg I am Ashamed))، کتابستان، الہٰ آباد، 1959

((13)) ستارہ یا بادبان ((تنقیدی مضامین))، مکتبہ سات رنگ، کراچی، 1963

((14)) ((Distribution of Wealth in Islam مفتی محمد شفیع کی اردو کتاب کا انگریزی ترجمہ بہ اشتراک پروفیسر کرار حسین)) مکتبہ دارالعلوم کراچی، 1963

((15)) موبی ڈک ((ہرمن میلول Hermann Melville)) کے مشہور ناول Moby Dick کا ترجمہ ))، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، 1967

((16)) ((Answer to Modernism مولانا اشرف علی تھانوی کی اردو کتاب کا انگریزی ترجمہ بہ اشتراک پروفیسر کرار حسین))، مکتبہ دارالعلوم، کراچی، 1976

((17)) جدیدیت، یا مغربی گمراہیوں کا تاریخی خاکہ، آب حیات، راولپنڈی، 1979

((18)) سرخ و سیاہ ((استے دال )) ((Stendhal کے فرانسیسی ناول Le Rouge et le Noir کا براہِ راست ترجمہ))، مکتبہ جدید، لاہور، 1953

((19)) وقت کی راگنی ((تنقیدی مضامین))، مکتبہ محراب، لاہور، 1979
 
Top