طارق شاہ
محفلین

غزل
ادب کی حد میں ہُوں مَیں بے ادب نہیں ہوتا
تمھارا تذکرہ، اب روز و شب نہیں ہوتا
کبھی کبھی تو چَھلک پڑتی ہیں یونہی آنکھیں!
اُداس ہونے کا ، کوئی سبب نہیں ہوتا
کئی اَمِیروں کی محرُومِیاں نہ پُوچھ کہ بس
غرِیب ہونے کا احساس اب نہیں ہوتا
میں والدین کو، یہ بات کیسے سمجھاؤں !
محبّتوں میں حسب ونسب نہیں ہوتا
وہاں کے لوگ بڑے دِلفریب ہوتے ہیں
مِرا بہکنا بھی کوئی عجب نہیں ہوتا
میں اُس زمین کا دِیدار کرنا چا ہتا ہُوں !
جہاں کبھی بھی، خُدا کا غضب نہیں ہوتا
بشیر بدؔر