ادبی انتہا پسندی اور میری ایک نئی غزل

محمد وارث

لائبریرین
اپنے بلاگ کیلیے یہ تحریر آج لکھی ہے، محفل کے دوستوں کی نذر بھی کر رہا ہوں۔

----------

اعتدال کا راستہ تو ہم جیسے بھول ہی گئے ہیں، انتہا پسندی ہمارے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے، ہماری زندگی کا ہر رُخ اس سحرِ سامری کے طلسم میں آتا جا رہا ہے، سیاست اور مذہب میں انتہا پسندی سے تو ہم ڈسے ہوئے ہیں ہی، علم و ادب میں بھی یہ روش مضبوط ہوتی جا رہی ہے، خدا ہی ہمارا حامی و ناصر ہو۔

یہ قصہ طول طلب ہے لیکن مختصر لکھنے کی کوشش کرتا ہوں، ہوا کچھ یوں کہ عالمی اخبار بلاگ پر قابلِ احترام جناب منظور قاضی صاحب نے ایک مصرعِ طرح پر ایک بلاگ پوسٹ اور اپنی ایک غزل لکھی، وہاں پر خاکسار نے عرض کر دیا کہ قاضی صاحب آپ کی غزل بالکل وزن میں ہے سو اسے مشاعرے میں بھیج دیں، اس موضوع پر ایک آدھ پوسٹ اور لکھی گئی اور بات ختم ہو گئی۔ لیکن اسی دن اسی جگہ پر ایک اور بلاگ پوسٹ پر وہ دھول اڑی کہ الاماں۔

عالمی اخبار کے مالک جناب صفدر ہمَدانی صاحب، جو نہ صرف براڈ کاسٹر رہے ہیں، بلکہ اچھے مرثیہ گو شاعر بھی ہیں، کو نہ جانے کیا بات کھل گئی کہ ہر کسی کے لتے لے ڈالے، علمِ عروض کا سہارا لیکر پہلے انہوں نے اپنا غصہ منظور قاضی صاحب پر اتارا، لکھتے ہیں "اب اسکی تفطیع کیا ہے اور فرقہ عروضیہ کے معیار کے حساب سے کیسی ہے۔میں اس معاملے میں نابلد ہوں۔شاید بھائی منظور قاضی اس کی بحر اور تقطیع پر کوئی روشنی ڈال سکیں۔" انکا یہ فرمانا تھا کہ انکے ہمنوا بھی اس قوالی میں شامل ہو گئے اور پھر دے تالی پر تالی اور گالی پر گالی۔

اسی اثنا میں محترم افضل صاحب (میرا پاکستان) نے حق گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھ دیا کہ عروض کو سمجھے اور جانے بغیر شاعری کرنا وقت کا ضیاع ہے، انتہائی بے ضرر سا تبصرہ ہے، لیکن نہ جانے صفدر ہمَدانی صاحب کی کونسی دکھتی رگ کو یہ تبصرہ چھیڑ گیا یا انہیں نہ جانے اپنی زندگی کا کون سا تلخ واقعہ یاد آ گیا کہ وہ تو متانت اور شائستگی اور برزگی، سبھی کا دامن چھوڑ، ہاتھ میں سنگ و توپ و تفنگ لیکر میدان میں نکل آئے اور وہ مقولہ سچ ثابت کر دکھایا کہ "بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال" یعنی بزرگی عقل سے ہوتی ہے نا کہ عمر سے، یعنی جسطرح ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اسی طرح ہر سفید بالوں والا بزرگ نہیں ہو سکتا۔

صفدر ہمَدانی صاحب کے علم و فضل اور علامہ ابنِ علامہ ابنِ علامہ ہونے سے کس کافر کو انکار ہے اور ہم جیسے مزدور ابنِ مزدور ابنِ مزدور کو تو ہر گز نہیں ہو سکتا لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمَدانی صاحب کی عظمت کے متعلق بنائے ہوئے میرے تمام بت اس واقعے کے بعد پاش پاش ہو گئے ہیں۔ آپ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑتے ہوئے، علم عروض سے آگے نکل کر یاوہ گوئی پر اتر آئے اور فرمانے لگے کہ بلاگنگ فقروں کا کام اور ایک کینسر ہے۔ اللہ نے انہیں دولت سے نوازا ہے لیکن کاش کچھ کشادگیِ دل و وسعتِ نظر سے بھی نوازتا۔

ان کی اس ہرزہ سرائی کا جواب افضل صاحب نے دیا اور پھر اپنے بلاگ پر ایک تحریر لکھی، میں اس قضیے سے بے خبر تھا کہ عالمی بلاگ کے قصیدے، جو کہ ذوق کے قصیدوں کو بھی شرماتے ہیں، کو میں کم ہی پڑھتا ہوں، اور افضل صاحب کی تحریر دیکھنے کے بعد ہی مجھے علم ہوا اور میں نے اپنا تبصرہ بھی لکھ دیا، افسوس کہ افضل صاحب، میرا اور جہانزیب اشرف صاحب کا تبصرہ عالمی اخبار کی "آزادیِ رائے کی اجازت" کی نذر ہو کر تلف کر دیئے گئے لیکن وہ سب افضل صاحب کے بلاگ پر مذکورہ تحریر میں محفوظ ہے اور وہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔

یہ تو تھی اس لایعنی قضیے کی روداد، اور اب اس خاکسار کی کچھ باتیں جو وہ بصد احترام جناب صفدر ہمَدانی سے پوچھتا ہے جو کہ امیدِ واثق ہے کہ ان کی التفات حاصل نہیں کر پائینگی کہ ان میں کچھ دام و درہم کی بات نہیں ہے۔

عالمی اخبار کی سرخی میں یہ آیۂ کریمہ لکھی ہے "اے ایمان والو، تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں" اس حوالے سے صفدر ہمَدانی صاحب جب فرماتے ہیں کہ شاعری کرنے کیلیے عروض جاننے کی کچھ ضرورت نہیں اور عروض کے پیمانوں سے باہر شاعری کی جا سکتی ہے تو پھر وہ خود ایسی شاعری کیوں نہیں کرتے؟

ہمَدانی صاحب نے فرمایا کہ "اب تو آزاد شاعری باقاعدہ طور ایک مستند شاعری ہے جس میں عروض کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا" یہ بات سراسر لاعلمی کی بنا پر ہے اور اسکی توقع ایک مبتدی سے بھی نہیں کی جا سکتی چہ جائیکہ ایک "استاد" سے۔ اسکے جواب میں میں نے عرض کیا تھا کہ آزاد نظم کے امام ن م راشد کے کلیات میں سے کوئی ایک مصرع بھی بے وزن ثابت ہو جائے تو تف ہے علمِ عروض پر اور اسکے ماہرین پر، جواب تو نہیں ملا ہاں شاید ہمَدانی صاحب اس وقت کلیاتِ راشد کھنگال رہے ہوں۔

انتہا پسندی کی بات ذہن میں یوں آئی کہ ایک طرف تو علمِ عروض کے وہ سخت دل ماہرین ہیں جو ایک مصرعہ بھی غلطی سے بے وزن ہو جائے تو اسی شاعری نہیں مانتے تو دوسری طرف صفدر ہمَدانی صاحب ہیں کہ عروض سے ہر طرح کی مادر پدر اجازت چاہتے ہیں حالانکہ انکے بین بین اور اعتدال کا راستہ موجود ہے کہ علم عروض کو آسان کر کے اور مشکل اور ادق اصطلاحات سے پاک کر کے دوسروں کو سکھلایا جائے تا کہ شاعر حضرات اس سے بدکیں نہ، اور نہ ہی اسے ایک "لعنت" سمجھیں۔ یہ خاکسار ہمیشہ اس درمیانی راستے کی حمایت کرتا آیا ہے اور اردو محفل پر میری تحریریں گواہ ہیں کہ میں عروض کی بے جا سختی کا ہمیشہ مخالف رہا ہوں۔

ایک طرف تو ہمدانی صاحب کی یہ انتہا پسندی ہے کہ "نوجوان نسل" جس میں عروض سے نابلد "بوڑھے" بھی شامل ہیں کی حمایت میں عروض کی جڑیں ہی کاٹ دینا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اسی نوجوان نسل کے مقبول ترین میڈیم "بلاگنگ" کو ایک کینسر سے تشبیہ دیتے ہیں یعنی یا تو ایک طرف بچپنہ اور دوسری طرف ایک سخت گیر بزرگ، یہ تضاد بھی دیدنی ہے۔

اس سارے قضیے میں جناب منظور قاضی صاحب بھی بہت مظلوم ثابت ہوئے کہ وہ نہ صرف علمِ عروض کی اہمیت سے واقف ہیں بلکہ اس پر لکھنا اور گفتگو بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمَدانی صاحب کی محبت کے اسیر ہیں سو انکی ہر جائز و ناجائز بات پر آمین کہتے ہی بنتی ہے، انہیں جہانزیب نے بہت اچھا مشورہ دیا تھا کہ اپنا بلاگ شروع کر لیں اور جو چاہے لکھیں، اس خاکسار کا بھی ان کو یہی مشورہ ہے لیکن مجھے امید کم ہے کہ وہ اس کو مانیں گے۔

اور اب آخر میں غزل، میری یہ غزل اس زمین میں ہے جس پر یہ سارا قضیہ شروع ہوا تھا، یہ غزل مبشر سعید صاحب کی تھی، اس پر ہمَدانی صاحب داد تو کیا دیتے، اپنی ہمہ دانی دکھانے کیلیے ایک فی البدیہہ غزل لکھ دی، کل رات اس پر منظور قاضی صاحب کی غزل دیکھی جس کا یہ شعر مجھے بہت پسند آیا۔

گھٹن سی ہونے لگی ہے تمھاری محفل میں
بڑی ہی دکھ بھری یہ بے رخی تمھاری ہے

اس غزل کو دیکھ کر اس خاکسار نے بھی ایک غزل رات کو کہہ ڈالی جو آپ کی بصارتوں کی نذر ہے۔

بلا کشانِ محبّت کی رسم جاری ہے
وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے

نگاہِ شوق نہیں، آہِ صبح و شام نہیں
عجب فسردہ دلی، حیف، مجھ پہ طاری ہے

یہی متاع ہے میری، یہی مرا حاصل
نہالِ غم کی لہو سے کی آبیاری ہے

زبانِ حق گو نہ تجھ سے رکے گی اے زردار
جنونِ عشق پہ سرداری کب تمھاری ہے

اسد نہ چھوڑنا تُو دامنِ وفا داراں
زمیں کی مانگ اسی جہد نے سنواری ہے
 

الف عین

لائبریرین
غزل بھی اچھی ہے اور تحریر اس سے بھی اچھی ہے۔ صفدر ہمدانی کو میں اب تک بی بی سی کا نامہ نگار ہی سمجھتا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ عابد، نوازش!

بہت شکریہ اعجاز صاحب، ذرہ نوازی ہے آپ کی محترم کہ آپ کو غزل اور تحریر دونوں اچھی لگیں، دل باغ باغ ہو گیا آپ کا تبصرہ پڑھ کر!
 

راہب

محفلین
محمد وارث صاحب آپ کی تحریر پڑھ کر نقوش کے ادبی معرکےنمبر کی یاد تازہ ہو گئی۔کسی وقت فرصت ملے تو آپ اپنے بلاگ پر "انٹرنیٹ کے ادبی معرکے "کے عنوان سے کوئی تحریر سپرد قلم کیجیے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خوب کہا راہب، نقوش کے 'ادبی معرکے نمبر' دونوں جلدیں لاجواب ہیں، انٹر نیٹ پر کوئی علمی و ادبی 'معرکے دار' چیز ملی تو ضرور لکھوں وگرنہ مذہب اور سیاست الاماں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
وارث بھائی بہت عمدہ تحریر ہے۔

بلا شبہ انتہا پسندی ہر ہر میدان میں فروغ پا رہی ہے اور وجہ زیادہ تر جھوٹی انا اور خود پسندی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

وہ تمام لوگ جو غزل کی پابندیوں اور محدود زمین میں اپنے خیالات کو مرکوز کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں وہ
آزاد شاعری میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور چار و ناچار اُس کا دفاع بھی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح وہ لوگ جنہیں آہنگ سے ماورا کلام پڑھ کر شدید کوفت ہوتی ہے اور عمدہ سے عمدہ خیالات بھی انہیں متاثر نہیں کر پاتے وہ بھی علمِ عروض کو ہتھیار بناتے ہوئے محاذ آرائی میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے نتیجتاً اعتدال کی راہ ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے اور انجانے میں نہ جانے کتنے نو آموز ذہن کسی ایک صنف سے مایوس ہوجاتے ہیں اور خود کو جانبدار کر کے ایک ایسی جنگ کا حصہ بن جاتے ہیں جو اُن کی ہوتی ہی نہیں‌ہے۔اس کا سب سے بڑا نقصان نو آموز لوگوں کو ہی ہوتا ہے جنہیں علمی اور ادبی ٍفضا میسر ہی نہیں آتی اور وہ اپنے قریبی احباب کی طرف داری کو ہی عین حق سمجھ لیتے ہیں اور خود کو محدود کر لیتے ہیں۔

یہاں یہ بات ضرور لکھوں گا کہ آپ کا اندازَ بیاں علمِ عروض جیسی ثقیل شے کو بھی بہت آسان بنا دیتا ہے اور بات با آسانی سمجھ میں آجاتی جس سے مجھ سمیت بہت لوگ فیضیاب ہوتے ہیں ورنہ کم از کم عروض کی کتابیں میرا تو جی اُچاٹ کر دیتی ہیں اور نتیجہ وہی "ڈھاک کے تین پات"

رہی آپ کی غزل کی بات تو غزل بہت عمدہ ہے اور ہر شعر اپنی مثال آپ ہے۔ ناچیز کی طرف سے نذرانہء تحسین پیشِ خدمت ہے۔

طالبِ دعا

محمد احمد
 

جیہ

لائبریرین
وارث صاحب بہت اچھا لکھا ہے۔ مبارک ہو
وہ تمام لوگ جو غزل کی پابندیوں اور محدود زمین میں اپنے خیالات کو مرکوز کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں وہ
آزاد شاعری میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور چار و ناچار اُس کا دفاع بھی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں

مجھے بھی آزاد نظم زیادہ نہیں پسند مگر احمد بھائی ! یہ بھی تو سوچیں کہ کتنے اچھوتے اور نادر مضامیں صرف مناسب قافیہ نہ ملنے کی وجہ سے قرطاس پر نظر نہ آ سکے ہوں گے۔ آپ کا کیا خیال ہے وارث؟
 

محمداحمد

لائبریرین
وارث صاحب بہت اچھا لکھا ہے۔ مبارک ہو


مجھے بھی آزاد نظم زیادہ نہیں پسند مگر احمد بھائی ! یہ بھی تو سوچیں کہ کتنے اچھوتے اور نادر مضامیں صرف مناسب قافیہ نہ ملنے کی وجہ سے قرطاس پر نظر نہ آ سکے ہوں گے۔ آپ کا کیا خیال ہے وارث؟

آپ کا کہنا بجا ہے جیہ بہن!

کہ

ع ۔ کبھی کبھی غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش

اسی لیے میں نے اس کے متضاد رویّے کو دوسری انتہا لکھا ہے:

بالکل اسی طرح وہ لوگ جنہیں آہنگ سے ماورا کلام پڑھ کر شدید کوفت ہوتی ہے اور عمدہ سے عمدہ خیالات بھی انہیں متاثر نہیں کر پاتے وہ بھی علمِ عروض کو ہتھیار بناتے ہوئے محاذ آرائی میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے نتیجتاً اعتدال کی راہ ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے

دونوں انتہائی ردِ عمل ہمیں معتدل رہنے سے باز رکھتے ہیں اور اس طرح واقعی بہت سے نادر و نایاب افکار قاری تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ عمدہ ترین خیالات بھی اگر اچھی طرح نظم نہ ہوں تو اُن کا اثر آدھا بھی نہیں رہتا ۔ پھر ہمارے پاس دوسری متبادل صنف نثر نگاری بھی تو موجود ہے ۔

گو کہ میں نثری نظم کا بھی مخالف نہیں ہوں پھر بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ "نثر" اور " نظم" دونوں الفاظ ایک دوسرے کی ضد ہیں ایسے میں "نثری نظم" کی اصطلاح سے یوں ہی لگتا ہے کہ نثر کو صرف شاعری کی صنف میں شمار کرنے کے لئے "نظم" کا نام دیا جا رہا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی بہت عمدہ تحریر ہے۔

بلا شبہ انتہا پسندی ہر ہر میدان میں فروغ پا رہی ہے اور وجہ زیادہ تر جھوٹی انا اور خود پسندی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

وہ تمام لوگ جو غزل کی پابندیوں اور محدود زمین میں اپنے خیالات کو مرکوز کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں وہ
آزاد شاعری میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور چار و ناچار اُس کا دفاع بھی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح وہ لوگ جنہیں آہنگ سے ماورا کلام پڑھ کر شدید کوفت ہوتی ہے اور عمدہ سے عمدہ خیالات بھی انہیں متاثر نہیں کر پاتے وہ بھی علمِ عروض کو ہتھیار بناتے ہوئے محاذ آرائی میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے نتیجتاً اعتدال کی راہ ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے اور انجانے میں نہ جانے کتنے نو آموز ذہن کسی ایک صنف سے مایوس ہوجاتے ہیں اور خود کو جانبدار کر کے ایک ایسی جنگ کا حصہ بن جاتے ہیں جو اُن کی ہوتی ہی نہیں‌ہے۔اس کا سب سے بڑا نقصان نو آموز لوگوں کو ہی ہوتا ہے جنہیں علمی اور ادبی ٍفضا میسر ہی نہیں آتی اور وہ اپنے قریبی احباب کی طرف داری کو ہی عین حق سمجھ لیتے ہیں اور خود کو محدود کر لیتے ہیں۔

یہاں یہ بات ضرور لکھوں گا کہ آپ کا اندازَ بیاں علمِ عروض جیسی ثقیل شے کو بھی بہت آسان بنا دیتا ہے اور بات با آسانی سمجھ میں آجاتی جس سے مجھ سمیت بہت لوگ فیضیاب ہوتے ہیں ورنہ کم از کم عروض کی کتابیں میرا تو جی اُچاٹ کر دیتی ہیں اور نتیجہ وہی "ڈھاک کے تین پات"

رہی آپ کی غزل کی بات تو غزل بہت عمدہ ہے اور ہر شعر اپنی مثال آپ ہے۔ ناچیز کی طرف سے نذرانہء تحسین پیشِ خدمت ہے۔

طالبِ دعا

محمد احمد

بالکل بجا کہا آپ نے احمد صاحب اور نوازش قبلہ غزل پسند کرنے کیلیے، ذرہ نوازی آپ کی!
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب بہت اچھا لکھا ہے۔ مبارک ہو


مجھے بھی آزاد نظم زیادہ نہیں پسند مگر احمد بھائی ! یہ بھی تو سوچیں کہ کتنے اچھوتے اور نادر مضامیں صرف مناسب قافیہ نہ ملنے کی وجہ سے قرطاس پر نظر نہ آ سکے ہوں گے۔ آپ کا کیا خیال ہے وارث؟

شکریہ جویریہ، نوازش!

جہاں تک آزاد شاعری کی بات ہے تو کچھ احمد صاحب نے لکھا کچھ یہ کہ اول تو زندگی کے کسی شعبے میں اسکی حدود و قیود و نظم و ضبط میں رہتے ہوئے اوجِ کمال حاصل کرنا بدرجہ اتم بہتر ہے اس سے کہ آپ ان کو پامال کر کے اپنا نام پیدا کریں!

دوسرا یہ کہ 'آزاد نظم' تو اردو شاعری کی بہت خوبصورت صنف ہے اور لازوال شاعری اس میں تخلیق ہو چکی ہے اور ہو رہی ہے، لیکن 'آزاد نظم' بھی شاعری کی کچھ حدود قیود کی پابند ہے، اگر نہیں ہے تو وہ 'نثری نظم' ہے جو نہ شاعری ہے، نہ جسکا کوئی مستقبل ہے!
 

مغزل

محفلین
محترم وارث صاحب۔
آپ کی غزل تو بارہا پڑھی مگر شاید نثر پہلی بار پڑھنا نصیب ہوئی ہے۔
دونوں ہی میدانوں میں آپ سالار نظر آتے ہیں ۔ غزل اور نثر پارے
پر صمیم ِ قلب سے مبارکباد۔
والسلام
 

یاسر شاہ

محفلین
بلا کشانِ محبّت کی رسم جاری ہے
وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے

السلام علیکم وارث صاحب- واہ کیا زبردست شعر کہہ دیا ہے -اب یہ شعر آپ کا تعارف بن گیا ہے اور رہے گا -مجھے بھی پہلے ہی سے یاد تھا -یہیں کہیں پڑھا تھا -
اب سفیر آفریدی کی وساطت سے پوری غزل نظر نواز ہوئی -
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم وارث صاحب- واہ کیا زبردست شعر کہہ دیا ہے -اب یہ شعر آپ کا تعارف بن گیا ہے اور رہے گا -مجھے بھی پہلے ہی سے یاد تھا -یہیں کہیں پڑھا تھا -
اب سفیر آفریدی کی وساطت سے پوری غزل نظر نواز ہوئی -
وعلیکم السلام شاہ صاحب محترم، ذرہ نوازی ہے آپ کی۔ :)
 
Top