ٹائپنگ مکمل اختر ضیائی ۔۔۔ منتخب کلام

شیزان

لائبریرین

کشتِ جاں جس کے ترشح کو ترستی ہے ابھی
اب وہ بادل نہ کبھی لوٹ کے پھر آئے گا


اختر ضیائی
 

شیزان

لائبریرین
چہرے کی دھوپ، زُلف کے سائے سمٹ گئے
پل کی جھپک میں وصل کے ایام کٹ گئے

اور مصلحت شناس تیرا کُھل گیا بھرم!
لے ہم ہی تیرے پیار کے رستے سے ہٹ گئے

پاسِ ادب کہ پاسِ مرّوت کہیں اسے
اکثر لبوں تک آئے گِلے اور پلٹ گئے

پائی نہ پھر بتوں نے وہ یکسانی الست
رنگوں میں بٹ گئے کبھی شکلوں میں بٹ گئے

گلشن میں چل گیا ہے بدلتی رُتوں کا سحر
نغمے ابل پڑے کبھی ملبوس پھٹ گئے

گزری چمن سے موجِ صبا ناچتی ہوئی
کانٹے مچل کے دامنِ گل سے لپٹ گئے

اختر وہ شوقِ دید کی لذت، وہ بےکلی!
آ کر گئے وہاں ، کبھی جا کر پلٹ گئے
 

شیزان

لائبریرین
سرورِ محفلِ مہتاب اب بھی زندہ ہے
خیالِ خاطرِ احباب اب بھی زندہ ہے

یہ اس کی فطرتِ سیماب کا تقاضا ہے
کشا کش دلِ بیتاب اب بھی زندہ ہے

جگر کو داغ کی قندیل بخشنے والے!
یہ تیرا تحفۂ نایاب اب بھی زندہ ہے

عقیدتوں کے صنم کب سے ٹوٹ پھوٹ گئے
طلسمِ سلسلۂ خواب اب بھی زندہ ہے

خزاں نصیب سہی معرضِ تخیل میں
فروغِ موسمِ شاداب اب بھی زندہ ہے

بجا کہ عشق کے ماروں کا اب نہیں چرچا
وفا شعارئ پنجاب اب بھی زندہ ہے

نہ جانے اہلِ نوا و صدا پہ کیا گزرے
کہ موجِ فکر میں گرداب اب بھی زندہ ہے

نوائے ساز کی حسرت مٹی نہیں اختر
شعورِ لذتِ مضراب اب بھی زندہ ہے
 

شیزان

لائبریرین
رنگوں کو، خوشبوؤں کو ترا نام بخش دوں
جی چاہتا ہے زیست کو انعام بخش دوں

ڈسنے لگی ہے تلخ حقائق کی تیز دھوپ
چاہو اگر تو سایۂ اوہام بخش دوں

الجھے تخیلات کی ترسیل کے لئے
اظہار کو سہولتِ ابہام بخش دوں

بہتر ہے ہمرہی میں مصائب کا تجزیہ!
آغاز کو نہ تہمتِ انجام بخش دوں

ایسا نہ ہو کہیں دلِ بےچین ایک دن
ناکامیوں کا تجھ کو ہی الزام بخش دوں

یہ دور دلفریب سرابوں کا دور ہے
اس کو شعورِ ذات کا پیغام بخش دوں

ان کی خبث دلی، کریں چھپ کر مخالفت
میرا یہ حوصلہ کہ سرِ عام بخش دوں

حور و طہور صحبتِ غلماں کی یاد میں
آ شیخ تجھ کو بادہء گلفام بخش دوں

کچھ دیر ذکرِ صبحِ قیامت کو بھول جا
ناداں تجھے مہکتی ہوئی شام بخش دوں

مدت کے بعد کیوں نہ عدم کی زبان میں
اختر غزل کو منصبِ الہام بخش دوں
 

شیزان

لائبریرین
قائد اعظم کے حضور !

یقین تُو نے دیا ، اعتبار تُو نے دیا
نظر کو نور، دلوں کو قرار تُو نے دیا

ترے نثار اے ملت کے قائدِ اعظم !
جو کھو چکے، ہمیں وہ وقار تُو نے دیا

نشانِ منزلِ مقصود کر دیا روشن
نقوشِ رہ گزر کو نکھار تُو نے دیا

ورائے عقل تھیں شیرازہ بندیاں تیری
جفا گروں کو وفا کا شعور تُو نے دیا

شعورِ ذات کو جہدِ بقا کی لذت دی
بھڑک اٹھا جو عمل کا شرار تُو نے دیا

چمن میں یورشِ صر صر سے جو پریشاں تھے
گلوں کو مژدہء عہدِ بہار تُو نے دیا

نمو پذیر تھے گو شاخسار برسوں سے
ہوائے شوق غمِ برگ و بار تُو نے دیا

بھٹک رہے تھے جو مدت سے دشتِ غربت میں
سبک سروں کو مقدس دیار تُو نے دیا

ہزار تلخ جراحت ملے ، نہ بھولیں گے
وہ جیسے خاک نشینوں کو پیار تُو نے دیا

کہاں وہ طرزِ قیادت، طریقِ راہبری
جو ہر قدم پہ بصد افتخار تُو نے دیا !
 

شیزان

لائبریرین
پرچم سبز ہمارا !

ماضی کے حالات
آج بھی سب کو یاد ہیں
جیسے کل کی بات

خلقت شاد ہوئی
غیروں کی سفاک غلامی
سے آزاد ہوئی

گھر گھر جلے چراغ
مل جل کر شاداب کریں گے
یہ خوشیوں کا باغ

اپنا پاکستان
قائد اعظم نے فرمایا
ہے سب کی پہچان

دُھول میں پُھول گئے
قوم کے لیڈر سارے وعدے
جیسے بُھول گئے

نفرت ایک عذاب
جس کے کارن بن گئے اپنے
سارے خواب سراب

مخلص دھوکا کھائیں
لوٹ کھسوٹ کے ماہر ٹولے
مل کر موج اڑائیں

پرچم سبز ہمارا
ہری بھری دھرتی کے اوپر
روشن چاند ستارہ

سدا رہے آباد
اسلامی دستورِ اخوت
ہے جس کی بنیاد !
 

شیزان

لائبریرین
موسم کی پہلی برف باری

فضا سرد ہے
اور ہوائے زمستاں رواں ہے
ہر اک سمت سنسان سی خامشی میں
سرِشام سے ہی کلب اور ڈسکو کے نغمے
گھنی دھند میں اونگھتے ہیں
بس اسٹاپ، زیر زمیں ریل کے مستقر
جیسے بےرونقی کی ردا اوڑھ کر
سو گئے ہیں

منڈیروں پہ، سڑکوں میں اور پارکوں میں
پہاڑوں پہ، دریاؤں میں ، وادیوں میں
خلاؤں ، فضاؤں کی پہنائیوں میں
دُھنی روئی کی تتلیاں سی اترتی
نظر آ رہی ہیں
سبک سار گنگ آبشاروں کے جھرنے تھمے ہیں
درختوں کی شاخوں پہ برفاب گالے جمے ہیں
شفق رنگ پھولوں کے گجرے
نہ سبزے کی جھالر
نہ بور اور خوشے، نہ کونپل نہ پتے
نہ کلیاں نہ بھنورے نہ طائر
عجب بےکسی!
سوگ میں جیسے بیوہ کا جوبن
کفن پوش آنگن!!

نئے موسموں کی تمنا میں بےچین پیغام بر
جنگ بردوش مطرب پرندے
کہیں کھو گئے ہیں
مرے باغ کے کنج میں سرو تنہا
نگوں سار اپنی لگن میں مگن
جانے کیا سوچتا ہے
میں کھڑکی کے شیشے سے باہر کے یخ بستہ منظر
کو یوں دیکھتا ہوں
کہ جیسے ابھی تک اسی خلد زار تمنا
کے دامن میں الجھا کھڑا ہوں
جہاں رُت کا جادو جواں ہے
جہاں گل کدوں، سبزہ زاروں
چناروں، بہاروں کی خوشبو
میری روح کی خلوتوں میں رواں ہے
کہ اس چاند کا عکسِ تاباں
نہاں خانۂ دل میں شعلہ بجاں ہے
میں جس کی خوشی کے لیے
دربدر بےوطن ہو گیا ہوں
اسے کیا خبر زرد پتوں
رواں پانیوں
بےنوا طائروں، شاعروں
غم نصیبوں کی منزل کہاں ہے؟
فضا سرد ہے
اور ہوائے زمستاں رواں ہے
 

شیزان

لائبریرین
خیال پارے

یوں کشت جوانی میں
کانٹے ہی نہ بو لینا
جذبات کی لہروں میں
کشتی نہ ڈبو لینا

کیا روگ لگا بیٹھے
اس چاند کی فرقت میں
یاروں میں سدا ہنسنا
تنہائی میں رو لینا

خط آئے تو خوش ہونا
اور طنز بھری باتیں
پڑھ کر دلِ مضطر میں
نشتر سے چبھو لینا

کیا طرفہ تماشا ہے
پانی میں گرا کر بھی
کس شان سے کہتے ہیں
دامن نہ بھگو لینا

مشرق میں ٹھہرتا ہے
آئین وفا داری
مغرب میں حماقت ہے
بس ایک کا ہو لینا

غفلت میں گنواتے ہو
کیوں نعمتِ ہستی کو
پھر حشر تلک بےشک
آرام سے سو لینا

دنیا کی جفاؤں پر
افسوس سے کیا حاصل
ملتا ہے وہی آخر
قسمت میں ہو جو لینا

کردار و عمل میں ہیں
سو طرح کے اندیشے
گفتار میں آساں ہے
گو نام نکو لینا

الجھے ہو بہت اختر
جاں سوز اندھیروں سے
اے جانِ وفا جاں سے
اب ہاتھ نہ دھو لینا
 

شیزان

لائبریرین


میں سبک نوش ہوں مری گلرُو
مجھ کو کافی ہے انکھڑیوں کا سبُو

ایک بےنام بےکلی سی ہے
اے دلِ زار چل گیا جادُو

صبح ِ تمثیل ہیں تیرے عارض
شام آثار ہیں تیرے گیسُو

ترے دیدارِ یک نظر کے نثار
آنکھ کا نُور اور جگر کا لہُو

آہ عہدِ شباب کے لمحے
وحشت آموز دشت کے آہُو

عشق سے بھی مفر نہیں لیکن
زیست کے اور بھی تو ہیں پہلُو

چشمِ بینا کے واسطے اختر
ان کے جلوے ہیں ہر کہیں ، ہر سُو​
 

شیزان

لائبریرین

کنجِ زنداں فرازِ دار قبول
یعنی ہر ہدیۂ بہار قبول

شوکت دوجہان تج بیٹھے
تھی جنہیں تیری رہگزار قبول

تا بہ کے زیست سے نبھا سکتے
کر لی آخر ہمیں نے ہار قبول

شرط اک جلوہء بےحجابانہ!
حشر تک ہم کو انتظار قبول

ہم اذیت پسند لوگوں نے
پھول دے کر کئے ہیں خار قبول

بعض اوقات زہر بھی ساقی!
ہنس کے کرتے ہیں میگسار قبول

کتنے نادان تھے ہم بھی اے اختر
کر لیا آگہی کا بار قبول​
 

شیزان

لائبریرین


اُس کو منزل ملی نہ گھر ہی رہا
تم سے بچھڑا تو در بدر ہی رہا

آنکھ کچھ منظروں پہ رکتی رہی
دل تو آمادہء سفر ہی رہا

ایک عالم کی فکر تھی جس کو
میری حالت سے بےخبر ہی رہا

خوف سے کانپ کانپ جاتا تھا
زرد پتہ جو شاخ پر ہی رہا

دوسروں کے جو عیب گنتا تھا
حیف تا عمر بےہُنر ہی رہا

زیست صد جشنِ آرزو ٹھہری
یہ فسانہ بھی مختصر ہی رہا

وسعتِ کائنات میں اختر
جلتا بجھتا سا اک شرر ہی رہا​
 

شیزان

لائبریرین

رعنائی دستورِ مشیت کی ادا ہوں
آئینہ صفت پرتوِ آئینہ نما ہوں

ہر چند تیری یاد میں جاں سوز خلش ہے
ہمت ہے کہاں پھر بھی تجھے بھولنا چاہوں

جُز اشک میں کچھ دے نہ سکا ارضِ وطن کو
بادل ہوں مگر دشت کے دامن سے اٹھا ہوں

فرصت ہو تو پل بھر کے لیے غور سے دیکھیں!
بھولے ہوئے لمحوں کا میں پیمانِ وفا ہوں

پیتا ہوں تیری چشمِ بلا خیز کے ساغر
گرادبِ بلا ہوں کبھی ہم دوشِ صبا ہوں

پابندئ آدابِ تمنا سے نکل کر
لو آج میں دیوارِِ خرد پھاند گیا ہوں

ہستی کی کڑی دھوپ نے جُھلسا دیا اختر
اس راہ میں ہر گام پہ مر مر کے جیا ہوں​
 

شیزان

لائبریرین

ریزہ ریزہ بکھر گئے ہم بھی
کشتِ جاں سے گزر گئے ہم بھی

وقت ناساز گار تھا پھر بھی
کچھ نہ کچھ کام کر گئے ہم بھی

ہم کہ صبحِ ازل کے بھولے تھے
شام آئی تو گھر گئے ہم بھی

کچھ تو ظلمت کا تُند تھا ریلا
کچھ مثالِ شرر گئے ہم بھی

بجھ گئی آرزُو کی چنگاری
جس کے بجھتے ہی مر گئے ہم بھی!

باغِ ہستی میں پُھول کی مانند
دو گھڑی شاخ پر گئے ہم بھی

پاسِ عہد وفا رہا اختر
یوں تو ڈرنے کو ڈر گئے ہم بھی​
 

شیزان

لائبریرین

ظلمتوں کے پروردہ روشنی سے ڈرتے ہیں
موت کے یہ سوداگر زندگی سے ڈرتے ہیں

علم ہی وہ طاقت ہے، خوف کی جو دشمن ہے
مصلحت کے خوشہ چیں آگہی سے ڈرتے ہیں

دشمنوں کی نیت تو ہم پہ خوب ظاہر تھی
پر قریب لوگوں کی دوستی سے ڈرتے ہیں

جن کو فرض کی خاطر راستی پہ مرنا ہو
کچھ بھی کر گزرنا ہو، کب کسی سے ڈرتے ہیں !

جانے کس گھڑی کھل کر حرفِ آرزو کہہ دے
ہم کو فکر کانٹوں کی، وہ کلی سے ڈرتے ہیں

پائیں گی توجہ گو جذب و جوش کی باتیں
عقل و ہوش والے تو خامشی سے ڈرتے ہیں

وہ کہ جو سمجھتے ہیں فکر و فن کو بے معنی !
جانے کس لئے اختر شاعری سے ڈرتے ہیں​
 

شیزان

لائبریرین

کیاری کیاری صحن چمن میں گو تھے عام پریشاں پُھول
فصلِ بہاراں آتے ہی پر ہو گئے چاک گریباں پُھول

پریت لگا کر جس کو ساجن بیکل تنہا چھوڑ گیا
کوئل کی فریاد پہ بُلبُل گم سم حیراں حیراں پُھول

جھیل کنارے ساون رُت میں جیسے پریوں کا میلہ
حدِ نظر تک نیلے نیلے اُجلی دُھوپ میں رخشاں پُھول

حسب توقع توڑ کے ہم بھی زلفوں میں اٹکا دیتے
کاش گلستاں میں مل جاتے ان کی شان کے شایاں پُھول

جھلھل کرتے نیل گگن میں چُھپ گئے روشن تارے، اور
ڈالی ڈالی رو کر شبنم کر گئی اور نمایاں پُھول

تیری یاد میں میں ہوں جیسے جنگل جنگل روتی اوس
مجھ کو بھول کے تو ہے جیسے گلشن گلشن خنداں پُھول

لمبی عمروں والے کانٹے سب کو دکھ پہنچاتے ہیں
اختر دل کو موہ لیتے ہیں پل دو پل کے مہماں پُھول​
 

شیزان

لائبریرین
اک نظر سوئے بام کر چلئے
چلتے چلتے سلام کر چلئے

گردشِ وقت سے نکل کے ذرا
شرکتِ دورِ جام کر چلئے

ہوش کی دُھوپ جی جلاتی ہے
خم کے سائے میں شام کر چلئے

کیوں نہ ایامِ عشرتِ فانی
مہ جبینوں کے نام کر چلئے

عشق کے راستے ہیں ناہموار
اب ذرا مجھ کو تھام کر چلئے

کاروبارِ وفا چلانے کو
رسمِ وحشت کو عام کر چلئے

کچھ تو نام و نشاں رہے اختر
کچھ تو دنیا میں کام کر چلئے​
 

شیزان

لائبریرین

پڑے ہیں اک عمر سے قفس میں
نفس نفس ہے کسی کے بس میں

جُنوں کے طور و طریق الگ ہیں
جدا ہیں عقل و خرد کی رسمیں

بساط کونین کے حقائق
میرے تخیّل کی دسترس میں

بنا لیا بجلیوں نے مسکن
میرے نشیمن کے خار و خش میں

محال لاکھوں میں کوئی ہم سا
عبث ہے ڈھونڈو جو پانچ دس میں​
 

شیزان

لائبریرین

ساحل پر کی آوازوں سے کبھی نہ ٹھہرا دریا
اپنی دُھن میں بہتا جائے اندھا بہرا دریا!

اُچھلیں گے کم ظرف چھچھورے چھوٹے ندی نالے
اتنا ہی گھمبیر ہمیشہ جتنا گہرا دریا

بیت گئی یوں پلک جھپک میں چھایا روپ جوانی
ساون میں جس طرح سے اُترے دے کر لہرا دریا

انساں اک دن اس کے من کا سیپ چرا ہی لے گا
بپھرے طوفانوں سے دے گا کب تک پہرا دریا

اس کا پانی پی کر اختر دھرتی سونا اُگلے
کھیتوں کھیتوں دولت بانٹے سیٹھ سنہرا دریا​
 

شیزان

لائبریرین

ہجر میں حوصلے نہیں رہتے
دور کے سلسلے نہیں رہتے

حسن کی کج ادائیوں کے طفیل
عشق میں ولولے نہیں رہتے

جاگ اٹھے جو خواہشِ منزل
پھر کوئی مرحلے نہیں رہتے

تُند خُو ہیں مسائلِ ہستی
مدتوں تک ٹلے نہیں رہتے

چھوڑ جاتے ہیں کچھ نشاں اپنے
دشت میں قافلے نہیں رہتے

بوند ساگر میں جب ملے اختر
جسم کے فاصلے نہیں رہتے​
 

شیزان

لائبریرین

ہر طرف شورِ فغاں ہے یارو
ہر نشیمن میں دُھواں ہے یارو

سہمی سہمی ہوئی ہر ایک نظر
طالب حفظ و اماں ہے یارو

غور فرماؤ تو خاموشی بھی
ایک اندازِ بیاں ہے یارو!

ہم بھی سینے میں جگر رکھتے ہیں
اپنے منہ میں بھی زباں ہے یارو!

چھٹ ہی جائے گی یہ تاریکئ شب
جو کراں تا بہ کراں ہے یارو​
 
Top