ٹائپنگ مکمل اختر ضیائی ۔۔۔ منتخب کلام

شیزان

لائبریرین

ملتے رہے ہیں داغ جو بدلے میں پیار کے
روشن ہیں یہ چراغ ہر اک یادگار کے

دن کے قرار، رات کی نیندوں کو کھا گئے
سوز و گداز عشق کے لیل و نہار کے

ہم جانتے ہیں صبح ِ قیامت کی بےکلی
جھیلے ہم نے دکھ جو شبِ انتظار کے

گرداب نے بپھر کے سفینہ ڈبو دیا
دیکھا ہے ناخدا کو بھی ہم نے پکار کے

ان کو فراق و وصل کی لذت کی کیا خبر
بیٹھے نہ دو گھڑی بھی جو پہلو میں یار کے

رندوں نے میکدوں کو مدرسہ سمجھ لیا
لے آئے شیخ جی کو یہاں گھیر گھار کے

سینے میں یہ جو عشق چراغاں کا سماں ہے
چرکے بھڑک اٹھے ہیں غمِ روزگار کے

صحنِ چمن میں بلبل و گل برگ شاخسار
مدت سے منتظر ہیں نسیمِ بہار کے​
 

شیزان

لائبریرین

خنجر سے سوا کاٹ ہے اب تارِ نفس میں
مرنا مرے بس میں ہے نہ جینا مرے بس میں

پھرتے ہیں جگر چاک، جنوں کیش یگانے
اب بھی ہیں وہی کوچۂ دلدار کی رسمیں

جُز داغِ وفا کچھ نہ ملا کوئے ستم سے
بہتات تھی ہر جنس کی بازارِ ہوس میں

نفرت بہ الفت ہے عداوت بھری قُربت
مقصد کے لئے قول تو اغراض کی قسمیں !

مدت سے نگاہوں میں وہی نقش ہے اختر
غلطاں ہے سماعت اُسی آواز کے رس میں​
 

شیزان

لائبریرین

ابتلائے بشر نہیں لکھتے
جانتے ہیں مگر نہیں لکھتے

جوڑتے ہیں حروف کو باہم
پر ذرا سوچ کر نہیں لکھتے

خواہشوں کے سراب میں گم ہیں
داستانِ سفر نہیں لکھتے

گھومتے ہیں گلی گلی لیکن
اکتسابِ نظر نہیں لکھتے

خود پریشاں ہیں اور دل و جاں کو
ڈستا رہتا ہے ڈر، نہیں لکھتے

شہر ویرانیوں کا چرچا ہے
کیوں اجڑتے ہیں گھر، نہیں لکھتے

جن کو دہشت ہے کنجِ عافیت
کیا ہے اس کا اثر، نہیں لکھتے

ایک مدت سے غم کے سوداگر
کوئی اچھی خبر نہیں لکھتے

راہ گزاروں میں روز مرتے ہیں
کس کے لختِ جگر، نہیں لکھتے

پتھروں کو خدا سمجھتے ہیں
وصفِ لعل و گہر نہیں لکھتے

پھرتے رہتے ہیں بےاماں اختر
لوگ کیوں دربدر نہیں لکھتے​
 

شیزان

لائبریرین

ڈسنے لگی جو گردشِ ایام، پی گیا
بےچارگی میں لے کے تیرا نام پی گیا

سوزِ فراق، دردِ محبت، جفائے دہر
گل مے کے ساتھ میں غم و آلام پی گیا

ساغر بدست کب سے پریشاں خیال تھا
ملتے ہی تیری آنکھ کا پیغام پی گیا

چھٹکی ہوئی تھی صحنِ شبستاں میں چاندنی
کیفِ نظر سے حسن لبِ بام پی گیا

زاہد نے جب طہور کی لذت بیان کی
چھلکا کے میں بھی بادہء گلفام پی گیا

اختر عجیب تھی میرے قاتل کی بےبسی
اس نے دیا تو زہر بھرا جام پی گیا​
 

شیزان

لائبریرین

ساز بجنے دو جام چلنے دو
میکدے کا نظام چلنے دو

سرمگیں گیسوؤں کے سائے میں
جھومتی مست شام چلنے دو

چند روزہ شباب کی عشرت
مہ جبینوں کے نام چلنے دو

بےخودی کی حسین وادی میں
مجھ کو دو چار گام چلنے دو!

بھول کر زیست کے غم و آلام
اک تمنائے خام چلنے دو

گھٹ گئی ہے خلوص کی قیمت
جو بھی لگتا ہے دام، چلنے دو

حادثوں سے مفر نہیں اختر
دن گزرتے ہیں، کام چلنے دو!​
 

شیزان

لائبریرین

قصرِ سبا ،نہ تختِ سلیماں کی بات کر
کوہِ ندا میں چشمۂ حیواں کی بات کر

مایوسیوں کی یورشِ پیہم کو بھول جا!
شامِ فراق کوچۂ جاناں کی بات کر

مجھ سے متاعِ ہوش کی خوبی نہ کر بیاں
مجھ سے طلسم خانۂ وجداں کی بات کر!

خلعت بدوش حلقۂ دانش نہ کر قبول
ساغر بدستِ محفلِ یاراں کی بات کر

یک دو نفس فراغتِ ہستی کی خیر مانگ
سنجیدگی سے عمرِ گریزاں کی بات کر

مانا کہ دلفریب ہے ذکرِ حدیث دوش
پیدا جو آج ہے نئے امکاں کی بات کر!

گرد و غبارِ خارِ مغیلاں کے باوجود
دشتِ زیاں میں کنجِ غزالاں کی بات کر

کب سے سنا رہا ہے تو حوروں کی داستاں
اے شیخ اب ذرا غمِ دوراں کی بات کر!

ڈسنے لگی ہے روح کو اختر شبِ خزاں
عہدِ بہار و صبحِِ درخشاں کی بات کر​
 

شیزان

لائبریرین

مخصوص کہیں اجارہ فن نہیں ہے
خوشبوؤں کا کوئی وطن نہیں ہے

سمجھو تو ظہور ہے نظریہ کار
سوچو تو خیال کا بدن نہیں ہے

درد مندو عمل کا راستہ نکالو!
بحث و تمحیص کی یہ انجمن نہیں ہے

زرد پتوں کے ڈھیر جا بجا ہیں بکھرے
لوٹ ہے یہ نگہدارئ چمن نہیں ہے

ہم ہیں جس طرح ندی کے دو کنارے
دید ہی دید ہے پر ملن نہیں ہے

تم ہی آزماتے پھرو نئے ڈھنگ پر ضیائی
تجربہ ہو تو ہو یہ بانکپن نہیں ہے​
 

شیزان

لائبریرین

تھی جوانی کچھ تو دیوانی بہت
ہم نے لیکن دل کی بھی مانی بہت

محفلِ یاراں مجھے برہم لگی
اور نگاہِ ناز بیگانی بہت

حسن کو جلوہ گری مقصود تھی
عشق نے کی حشر سامانی بہت

شکر ہے بارِ گراں سے بچ گئے
کام آئی تنگ دامانی بہت

بادیہ گردی کی تنہا شام کو
یاد آئی خانہ ویرانی بہت

کاش مل جاتی کوئی راہ نجات
خاک دشتِ ذات کی چھانی بہت

دربدر پھرتے ہیں یوں بےنیل مرام
تھا جنہیں زعم ہمہ دانی بہت

سچ تو جاں جوکھوں کا کاروبار پے
جھوٹ میں رہتی ہے آسانی بہت

چھوڑ بھی اختر گئے وقتوں کا سوگ
ہو چکی اب مرثیہ خوانی بہت​
 

شیزان

لائبریرین
خوشیوں کی آرزو میں غموں سے نڈھال ہیں
عبرت سرائے دہر میں ہم بےمثال ہیں

کچھ تو جواب دے انہیں اے خاطرِ ازل؟
الجھے ہوئے نقوش سراپا سوال ہیں

زندان باصفا کو زر و مال سے نہ جانچ
یہ خوش مزاج لوگ بڑے باکمال ہیں

مجھ کو بھی ہو عطا میرے حالات پر گرفت
بےرنگ و بے نشان میرے ماہ و سال ہیں

اختر ضیائی ظرفِ غزل میں تمہارے شعر
آئینہ جمال و حدیث جلال ہیں​
 

شیزان

لائبریرین
شام سویرے یاد تمہاری ملنے آتی ہے
تم تو جیسے بھول گئے ہو، یہ تڑپاتی ہے

کون ہے جو ان کرب کے لمحوں میں دمساز ہے
دل ہی اپنا یار ہے اب تو درد بھی ذاتی ہے

بالے پن کے دھندلے سپنے زندہ رہتے ہیں
تنہائی سو بار جنہیں اکثر دہراتی ہے

ہر چہرے میں ان کاچہرہ، ان کے نقش نگار
محرومی بھی کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہے

کب آو گے بجھنے کو ہے دو نینوں کی جوت
جیون کے اس دیپ میں اب تو تیل نہ باتی ہے

تن من جو الفت کی مجبوری میں ہار گیا
سچ کہتے ہو تم لوگو، اختر جذباتی ہے​
 

شیزان

لائبریرین

جو ہم اس دور میں مہر و وفا کی بات کرتے ہیں
یقینآ اک نئے ارض و سما کی بات کرتے ہیں

ابھی تک ذات کے جنگل سے جو باہر نہیں آئے
زمانے سے سدا بانگِ درا کی بات کرتے ہیں

تعجب ہے سرِ دشتِ زیاں وحشی بگولوں سے
ہم آہنگ و نوا رقصِ صبا کی بات کرتے ہیں

سفر تو اور بھی ہوتے ہیں لیکن راہ الفت میں
ہمیشہ ابتداء سے انتہا کی بات کرتے ہیں

ہزاروں خوف انساں کو تحفظ دے نہیں پائے
ابھی تک لوگ جو خوفِ خدا کی بات کرتے ہیں

بتوں سے ہم کو بھی نسبت ہے لیکن حضرت واعظ!
جزا کے نام پر حرص و ہوا کی بات کرتے ہیں

کسی سے کیا کہیں اختر کہ کیوں تنہائی میں خود سے
ہم اکثر اس وفا نا آشنا کی بات کرتے ہیں
 

شیزان

لائبریرین

مری نظر کی اساس رہنا
یہیں کہیں آس پاس رہنا

تری وفا کا غرور ہوں میں
تُو بن کے میرا لباس رہنا

خوش آ گیا حسنِ دلربا کو
رہینِ لطف و سپاس رہنا

مری طبعیت کا ہے تقاضا
کبھی کبھی وقفِ یاس رہنا

شعور کا بوجھ بن گیا ہے
اسیرِ ہوش و حواس رہنا

ہوائے موسم پہ منحصر ہے
فضائے گلشن کا راس رہنا

سمجھ میں آتا نہیں صبا کا
بہار میں بھی اداس رہنا

نحیف سبزے کا درد بن کر
نڈھال پھولوں کی باس رہنا

اگر ہے کچھ فکرِ خلق اختر
حیات میں غم شناس رہنا​
 

شیزان

لائبریرین
وہ جس کے ظلم سے ناشاد ہو گیا ہے دل
اسی کی یاد میں برباد ہو گیا ہے دل

نقوشِ حسن تلون شعار کیا کہیے؟
نگار خانۂ اضداد ہو گیا ہے دل

شعورِ ذات کا باعث بنی تھی عقل، مگر
فشارِ عقل کی بنیاد ہو گیا ہے دل

سرابِ وعدہء فردا میں دلکشی نہ رہی
فریبِ لطف سے آزاد ہو گیا ہے دل

سحر سے شام تلک تیرے دھیان میں گم ہے
کچھ اس طرح ترا ہمزاد ہو گیا ہے دل

تری نگاہ کی تصویر بن گئی ہے آنکھ
تری زبان کا ارشاد ہو گیا ہے دل

ستم ظریف غم زندگی کا شیدائی
میرے لئے تو اک افتاد ہو گیا ہے دل

ہوئی ہے عظمتِ آدم کی معرفت جب سے
شریکِ مسلکِ الحاد ہو گیا ہے دل

بصد خلوص لکھے کیوں نہ مرثیہ اختر
شہید خنجر بےداد ہو گیا ہے دل​
 

شیزان

لائبریرین
کسی کی یاد کی قندیل


کبھی کبھی غمِ ہستی کے دشتِ فرقت میں
وہ ماہتاب سرِچرخ جھلملاتا ہے

تو اس کے ساتھ اُبھرتا ہے سوگوار کلس
کنارِ جہلم بےتاب خوشنما منظر

فریب زارِ تمنا کا گوشۂ خلوت
خود اپنے جذب دروں کے ظہور کی صورت

وفا شعار، سبک سار، مہرباں فطرت
کوئی فریق تھا جس کا نہ مونس و ہمدم

طلسم زارِتخیل، عروسِ رعنائی
دھنک کے نور میں لپٹی لطیف پروائی

برنگِ موجِ طرب پیچ و تاب کھاتی ہوئی
فریبِ صبح ِ مسرت میں مسکراتی ہوئی

عجیب رنگ نمایاں سکون و راحت کے
بھلا چکا ہوں جنہیں میں بھی ایک مدت سے

حریمِ ذات نئی چاہتوں کا مسکن ہے
نہ جانے پھر بھی کئی بار ایسا لگتا ہے

کسی کی یاد کی قندیل اب بھی روشن ہے
دمک رہا ہے گھنے گیسوؤں کے سائے میں

کسی کا پیار سے سرشار پُریقیں چہرہ
وہ گل عذار، سمن بار، دل نشیں چہرہ

بسی ہوئی ہے مہک جس کی میرے خوابوں میں
بھٹک گیا ہے غمِ زیست کے سرابوں میں

کبھی خیال میں ظاہر، کبھی حجابوں میں
وہ جس کی دید کی حسرت ہے اضطرابوں میں !
 

شیزان

لائبریرین
وہ ایک لمحہ!

فسوں ہے
جادو ہے، شعبدہ ہے
میں جب بی سوچوں
کچھ ایسا لگتا ہے
آج بھی اس اداس گاؤں
کی ملگجی شام جاگتی ہے
میں دیکھتا ہوں
گلی کے اس موڑ پر نکلتے ہی
جھیل آنکھوں میں کھو گیا ہوں
۔ ۔ ۔ وہ میرے پہلو میں ایستادہ
اور اس کے شانوں پہ بےارادہ
ہیں ہاتھ میرے
وہ ساتھ میرے!!

دھواں دھواں سا تمام منظر،
غروبِ ہستی، طلوع محشر

ہزار جاں سے نثار دل ہے
دمکتے عارض پہ بھوری لٹ اور
حسیں زنخداں کی دائیں جانب
نفیس تل ہے
جھکی نگاہوں میں
ہے جھجک سی
وفورِ جذبات کی جھلک سی
بدن سے اٹھتی مہک سی
مرے تنفس میں گھل گئی ہے
حیات پھولوں میں تل گئی ہے

وہ ایک لمحہ
جو یک بیک زیست کے افق پر
ابھر کے اک انقلاب لایا
دھنک میں ڈوبا شباب لایا!
میں جانتا ہوں
کہ کس طرح سے نوشت ِ تقدیر کے تقاضے
سماج کے آہنی شکنجے
میں وہ ستارہ
بکھر کے نابود ہو گیا تھا
مگر میں جب بھی
گئے دنوں کی بساطِ احساس کو سمیٹوں
تو ایسا لگتا ہے
دور تنہا

گلی کے اس موڑ پر ابھی تک
نمودِ فطرت کا ایک نقشِ جمیل بن کر
حیا کی روشن دلیل بن کر
بہار آثار راستے میں
شعور کا سنگِ میل بن کر
دمک رہا ہے
مرے تنفس میں
اس کے مہکے بدن کی خوشبو
مچل رہی ہے
۔ ۔ ۔ وہ ایک لمحہ!
جو آج بھی عکسِ آرزو ہے
مرے تخیل کی آبرو ہے
 

شیزان

لائبریرین
پہاڑوں کے سائے میں!

سرِ شام بستی کو ہم چھوڑ آئے
فروزاں یہاں روشنی کے علم ہیں
وہ ٹیلوں، درختوں، چھتوں
اور فضاؤں میں
اودھی گھٹائیں
ہواؤں کے کاندھوں پہ
مدہوش خم ہیں
پہاڑوں کے سائے
اندھیرے کے دامن میں ضم
اور ہم
آشتی سے بہم ہیں
نہیں کچھ بھی اب درمیاں
حرزِ جاں

خواہشوں کے فسانے
تمنا کے خفیہ خزانے
جو ہم نے چھپائے
یہاں کھینچ لائے
پہاڑوں کی چوٹی سے ابھرا
وہ مہتاب بھی مسکرائے!

گجردم جو سورج
انہی برف پوش
اونچے ٹیلوں سے جھانکے
فضاؤں میں رنگ اور نکہت کے
سو نقش ٹانکے
چرندوں پرندوں کے انبوہ جاگیں
کھی وادیوں میں اڑیں اور بھاگیں
ہواؤں میں احساس کی گدگدی ہو!
رواں وقت کی خوش نما ہر گھڑی ہو
نئے راستوں پر نظر دور تک
بےمحابانہ اٹھے!
تو ایسے میں پوری دیانت سے ہم
اسی آشتی سے بہم
عمر بھر کے لئے عہد و پیماں کریں
سدا ساتھ دینے کا اعلاں کریں

سکاٹ لینڈ: 16 نومبر۔86ء
 

شیزان

لائبریرین
مہرباں دھوپ کی آغوش میں

خلق و خورشہد کے مابین
جو پردہ تھا ، ہٹا
دھند کا زور گھٹا
اوجِ افلاک سے انوار کے جھرنے پھوٹے
تیز کرنوں کی تمازت میں بجھے تیر
گھٹاؤں کے گنے جنگل کی
تیرہ و تار گھپاؤں کو منور کرتے
سوئے پہنائے زمیں
ارض افرنگ حسیں
منجمد بحر و بر و سبزہ و اشجار
۔ ۔ ۔ چمن زار کئی لاکھ نگر
دشت و دمن میں آباد
نسل آدم کے لئے گرمئ زیست کا سامان
بہم کرتے ہیں

جسم اور روح میں خوابیدہ حرارت کی طلب
کھلے ایوانوں سمندر کے ساحل سے پرے
مست شاداب ہرے
خلد آثار جزیروں کی خنک ریت میں
پوشیدہ تراوت کے سبب
اپنی منزل کی طرف
جوق در جوق رواں ہوتے ہیں
محبتی فکر سے آزاد
جہاں شادمکاں ہوتے ہیں
جشنِ تعطیل منانے کے لیے
پھر سے اک بار جواں ہوتے ہیں

۔ ۔ ۔ اور پھر بنتے ہیں جو نقش و نگار
رامش و رنگ طرب
قوس و محراب، سمن پوش سفیران بہار
سقف و دیوار سے اکتائے ہوئے
پارکوں، کھیل کے میدانوں
ہری گھاس کے تختوں پہ دراز
نہ کوئی راز ہی باقی نہ کوئی پردہ ساز
گلی کوچوں میں، گلساتوں میں
اپنی بگیا کے سجل کنج میں، میدانوں میں
مہرباں دھوپ کی آغوش میں
سستائے ہوئے

سر بہ سر عالم مدہوشی میں
مختصر نام کی محدود ستر پوشی میں
بعض اوقات زخورد رفتہ سے شرمائے ہوئے
کتنے خوش باش نظر آتے ہیں
مثلِ گل کھل کے بکھر جاتے ہیں
اور پھر رات ڈھلے
سرد پروائی چلے
ہاتھ میں ہاتھ دیئے
مضمحل قدموں سے
جیسے مجبور سے، گھر جاتے ہیں
یوں بگڑتے ہیں
کہ کچھ اور سنور جاتے ہیں
 

شیزان

لائبریرین
پھول ذرا سا !

میرے کمرے کے پچھواڑے
پائیں باغ کے نم گوشے میں
جب بھی کھڑکی کا پٹ کھلتا
گھاس کی سوندھی باس اور سبزہ
اور دیوار سے ٹیک لگائے
بیلے کی لچکیلی کونپل
لہرا جاتی
اور اس کا اکلوتا بیٹا
(پھول ذرا سا)
جھومے جاتا !
اپنی چھب سے خوب رجھاتا
۔۔۔۔۔ میرے دھیان کی لہریں، جیسے
گڈ مڈ، گڈ مڈ

اس کا جوبن، ان کا مکھڑا
یادوں کی پریاں آ آ کر
دھوم مچاتیں !

لیکن جب سے بھادوں آیا
مینہ کے چھینٹے۔ ۔ ۔ اندھے جھکڑ
رات گئے پھر بجلی کڑکی
بھور سمے طوفان سا آیا
خوف کے مارے
کھڑکی کا پٹ چیخا، کانپا
میں کچھ سویا اور کچھ جاگا
سپنوں کی وادی میں چونکا
دھوپ کا کندن پھیل چکا تھا
کھڑکی سے باہر جب جھانکا
وحشی طوفان تھم سا گیا تھا
لیکن اندھے پاگل پن میں
ڈالی ڈالی روند گیا تھا
بیلے کا اکلوتا بیٹا
پھول ذرا سا!
بےسدھ کیچڑ میں لت پت تھا
ہردے میں اک ہوک سی اٹھی
آنکھوں میں آنسو بھر آئے
 

شیزان

لائبریرین
بام پہ روشن چاند


شام ہوئی، صیام کا صدقہ، خوشیوں کی تمہید ملے
بام پہ روشن چاند کو دیکھوں، وصل کی کچھ امید ملے

رقصِ صبا، خوشبو پروائی، رنگِ چمن، نکھرے مہکے
جشنِ بہاراں کا ساماں ہو، حسن کی گر تائید ملے

جانے کیسے ضبط کا دامن یاس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا
آنکھوں میں آنسو بھر آئے، آپ سے جب ہم عید ملے

ہم پردیس میں بسنے والے اکثر سوچتے رہتے ہیں
کب اپنوں کو گلے لگائیں، کب یاروں کی دید ملے

بھول گئے اسلاف کی سنت، غیروں کے محتاج ہوئے
فرزندانِ اہل ِ یقیں بھی پابندِ تقلید ملے

اس ناخلف اولاد کی آخر دنیا میں کیا بات بنے
جس کے دلوں میں بت خانے، پر ہونٹوں پر توحید ملے

ظلمتِ شب کی کوکھ سے ابھرے نورِ سحر شرمندہ
جہدِ وفا کی راہ میں اختر ایسے بھی خورشید ملے
 

شیزان

لائبریرین


دلوں میں محبت کی جولانیاں ہیں
وفا کوشیاں ہیں، ستم رانیاں ہیں

زمانہ ہوا اک جھلک اُن کی دیکھے
ابھی تک نگاہوں میں حیرانیاں ہیں

چمن میں مسرت کے غُنچے بہت ہیں
مگر کیا کریں تنگ دامانیاں ہیں

رمیدہ رمیدہ تجاہل سے ظاہر
کشیدہ کشیدہ پشیمانیاں ہیں

تمہیں خانۂ دل کو آباد کر لو!
یہاں ایک مدت سے ویرانیاں ہیں

ابھی حسن و الفت کی باتیں نہ چھیڑو
ابھی اور لاکھوں پریشانیاں ہیں

رفیقوں کی بےمہریوں میں ضیائی
خود اپنی ہی دراصل نادانیاں ہیں​
 
Top