ٹائپنگ مکمل اختر ضیائی ۔۔۔ منتخب کلام

شیزان

لائبریرین

اوروں کا وصف اور ہنر مانتا نہیں
اپنے سوا کسی کو وہ گردانتا نہیں

بیگانگی سے آنکھ چرا کر نکل گیا
جیسے وہ شخص اب مجھے پہچانتا نہیں

جلتا رہوں ہزار مصائب کی دھوپ میں
سر پر میں مصلحت کی رِدا تانتا نہیں

زاہد نہ پا سکے گا تو عرفانِ بندگی
جب تک مقامِ نوع بشر جانتا نہیں

مجھ سے نہ محض حسنِ عقیدت کی بات کر
دل میں اگر خلوصِ عمل ٹھانتا نہیں

اختر میں تجزیئے کا تو قائل ضرور ہوں
وہم و گماں کی خاک مگر چھانتا نہیں​
 

شیزان

لائبریرین

خواب در خواب انتشار میں ہے
زندگی یاس کے غبار میں ہے

پھونک سکتی ہے سطوتِ دوراں
آگ وہ عشق کے شرار میں ہے

بےمحابانہ سر خوشی کا سرُور!
او ستم گار تیرے پیار میں ہے

بےیقینی کی ابتلا میں کہاں؟
غم کی لذت جو اعتبار میں ہے

کشتِ امید ایک مدت سے
موسمِ گل کے انتظار میں ہے

اضطرابِ نمو غنیمت ہے
موت کی بےحسی قرار میں ہے

بن کے ملتا ہے ناصحِ مشفق
جو بھی شامل مزاجِ یار میں ہے

اہلِ کردار خوب جانتے ہیں
فرق جو تخت اور دار میں ہے

اس زمانے میں بھی وفا کا اسیر
دیکھ مجھ سا کوئی ہزار میں ہے؟

دا و تحسین اور تجھے اختر!
شاعری میں تُو کس شمار میں ہے​
 

شیزان

لائبریرین
جیون کا نٹ کھیل

روزِِ ازل سے
گردش میں ہیں
(دھرتی اور آکاش کے اندر)
ہوش ربا خودکار مظاہر
ایک خلا ہے اور سمندر
رنگوں اور شکلوں کے بےانداز مناظر
فطرت کے آئین کی پابندی کا تواتر
اک تکمیل کے مخفی ذوقِ نمو کی خاطر
سدا سے قائم
کن کے ودیعت کردہ
اپنے اپنے خاص مداروں
کی پہچانیں
ربطِ بہم سے
اندھی، بنجر، بانجھ چٹانیں
بے بس، بےرس، خاک کے تودے
بن جائیں پُر ہیئت کدے
اور جگ مگ روشن دنیائیں
سیارے، تارے کہلائیں
کبھی کبھی ٹوٹیں، مٹ جائیں

اور پھر دائم
کن کی ودیعت گردش میں ہے

پھر میں دیکھوں
صبح کو دور افق سے
روشن سورج ابھرے
جس کی جھلمل شیتل کرنیں
جنگل، بن، ساگر، شہروں میں
سایوں، خاکوں اور جسموں میں
حرکت اور حدت پہنچائیں
پانی پر، خشکی میں، فضا میں
شبنم میں، سبزے پہ، ہوا میں
زیست کی ابدی سونی خوشبو
باطن کے اظہار کی خواہش
میں بیکل تعمیر کا جادو
رنگوں اور شکلوں میں کیا کیا روپ دکھائے

گلشن گلشن پھول کھلیں، مہکیں، مسکائیں
پت جھڑ میں سوکھیں، مر جائیں
شام ڈھلے کرنیں چھپ جائیں
اسی طرح ہستی کا مسافر
وقت کے اس پنڈال میں آ کر
دیا گیا نٹ کھیل دکھا کر
قدم قدم آگے بڑھ جائے
 

شیزان

لائبریرین
الجھے رشتے

ہار تھے جو وہ طوقِ گلو ہیں
رشتوں کے بھی سو پہلو ہیں
میں ان سے گھبراتا ہوں
اکثر تنگ آ جاتا ہوں

آج اور کل کے افسانوں سے
لاکھ برس کے سامانوں سے
پہرہ داروں، دربانوں سے
طاقت ور کے تاوانوں سے
بھوکے ننگے انسانوں سے
خستہ تن، خستہ جانوں سے
فرض کے مارے نادانوں سے
جھوٹے وقتی درمانوں سے
مطلب کے تانوں بانوں سے
نام و نسب کی پہچانوں سے
دلکش خالی گلدانوں سے
خون کے پیاسے ایمانوں سے

چھپ کر جان بچاتا ہوں
خود کو تنہا پاتا ہوں
ہردے کے بندھن ہر سو ہیں
رشتوں کے بھی سو پہلو ہیں
 

شیزان

لائبریرین
اے مرے دل!

دُھند سی پھیل گئی
ڈوب گئے سب ساحل
درد کی جوئے رواں
چاہے جہاں لے جائے
داغِ آزار کا غماز ہوا
ایک انجام سے آغاز ہوا
اٹھ گئی شہرِ زیاں کون و مکاں کی محفل
جمع ہیں چارہ گرانِ بسمل(1)
بجھ گئی شمع تب و تاب گماں لاحاصل!!

محبسِ جسم سے نکلا تو نفس کا طائر
سر بسر لذت پرواز ہوا
بیکراں وقت کا ہمراز ہوا
کیا یہی تھی غمِ جاں کی منزل؟
اک نئے دور کا درباز ہوا
کرب میں تُو بھی نہ دمساز ہوا!
تو مرا سرِ نہاں، عزمِ جواں
چل دیا چھوڑ کے یوں
مجھ کو کہاں؟
اے مرے دل، مرے دل!!

(1۔ دل کے آپریشن کا تجربہ)
 
Top