ٹائپنگ مکمل اختر ضیائی ۔۔۔ منتخب کلام

شیزان

لائبریرین

جس کا ہر نقشِ وفا دل سے مٹایا ہم نے
یاد ہے آج بھی گو لاکھ بھلایا ہم نے

ہر نئی سانس نئی آس سے معمور رہی
زندگی ہنس کے ترا بوجھ اٹھایا ہم نے!

کوئی آیا نہ گیا کنجِ ندامت میں کبھی
پیار کا دیپ کچھ اس طرح بجھایا ہم نے!

خلوت افروز رہا لعل و گہر کی صورت
جو ترا زخم سدا سب سے چھپایا ہم نے

کیوں پریشان ہوں رفیقانِ سفر جب اختر
ان سے جو عہد کیا وہ تو نبھایا ہم نے​
 

شیزان

لائبریرین

عدم کی وادیوں میں کھو گئے ہیں
مسافر تھک کے آخر سو گئے ہیں

نہ پایا زخمِ دانش کا مداوا
جنوں کی سرحدوں تک تو گئے ہیں

وفا نا آشنا، یادوں کے کانٹے
ہماری کشتِ جاں میں بو گئے ہیں

رہے ہم دُور بازارِ ہوس سے
ہزاروں اہلِ حاجت گو گئے ہیں

غنیمت ہیں یہی اشکِ ندامت
گناہوں کی سیاہی دھو گئے ہیں

یہی ہیں رخصتِ شب کے ستارے
تلاشِ صبحِ نو میں جو گئے ہیں

نقوشِ پا نہ کوئی گرد اختر
نہ جانے کس طرف رہرو گئے ہیں​
 

شیزان

لائبریرین

پہنچے فرازِ خلد سے یہ اجنبی کہاں
دشتِ فنا میں چھوڑ گئی زندگی کہاں

مٹ کر بھی جس کی خوئے تجسس نہ کم ہوئی
لے جائے گی اسے ہوسِ آگہی کہاں

رہتی ہے جس کو لحظہ بہ لحظہ نئی طلب
اس رہروِ حیات کو آسودگی کہاں

دل تو اسی کے حسن کی آماجگاہ تھا
برقِ نگاہِ یار بھی آ کر گری کہاں

اختر جو دل کو سوزِ تمنا نہ دے سکے
الفاظ کا فریب ہے وہ، شاعری کہاں​
 

شیزان

لائبریرین

جو مخلص ہوں انہیں نزدیک رکھیئے
محبت کا قرینہ، ٹھیک رکھیئے

شرافت ہے نہ عزت خودفروشی
غرض کی منفعت کو بھیک رکھیئے

نوازش ناروا ہے بندہ پرور!
تو اپنے پاس ہی یہ بھیک رکھیئے!

نمودِ ظاہری کے پیچ و خم میں
نگاہِ جستجو باریک رکھیئے!

سخن کا حسن کیا روشن خیالی
اگر دل کا نگر تاریک رکھیئے

وفا کوشوں کے حق میں اپنے لب پر
ہمیشہ ہدیۂ تبریک رکھیئے!

ہوس کی گرم بازاری میں اختر
نجاتِ خلق کی تحریک رکھیئے!​
 

شیزان

لائبریرین
چند اُس طرف، کچھ اِس طرف گرے
ایک دو جام سے کم ظرف گرے

اس کے چہرے کی خفت دیدنی تھی
لب سے اقرار کے جب حرف گرے

ہوں تصور میں مضامیں اتریں
جس طرح بھور سمے برف گرے

سچ بیزار ہے دنیا جیسے
قیمت سکہ بےصرف گرے

کند ہو تیغِ بلاغت اختر
یوں کہ معیار سے اک حرف گرے​
 

شیزان

لائبریرین
شہر والوں کے ڈیرے

پہاڑوں میں چھوٹے سے گاؤں
سے چل کر
بڑے شوق سے میں نگر کوٹ آیا
دھوئیں کے بگولے
بسیں، ٹیکسیاں، ریل گاڑی
۔ ۔ ۔ ۔ ہزاروں مسافر
بہت تیز چلتے
وہ اک دوسرے کے تعاقب میں جیسے
اچکتے، پھسلتے، سنبھلتے
رواں تھے
کہ مغرب میں سورج کے ڈھلنے
کے آثار بھی تو عیاں تھے

عجب ہی سماں
اجنبی سے مناظر کا اک سلسلہ تھا
در و بام، گلیاں
وہ جھلمل ستاروں کے مانند
روشن ہنڈولے
رفیقوں کے ٹولے

کھلی شاہراہیں، وہ آباد سڑکیں
دکانوں میں خوش رنگ سامان
ہوٹل، کلب، سنیما گھر
حسیں میکدے، رقص گاہیں
وہ فلمی ستاروں کے فوٹو
دل مشتری کو لبھانے کی چالیں
ہجوم ہوس میں
کہاں تک طبیعت سنبھالیں
گناہوں سے دامن بچا لیں
فلک بوس
اک دوسرے پر بنائے گئے
شہر والوں کے ڈیرے
مکانات کی اونچی اونچی چھتوں پر
بسائی گئیں
بیکراں بستیاں سی!
کچھاروں میں جیسے
طلسمات کی دھند میں اونگھتی
جادوئی ہستیاں سی
ہرے پارکوں میں
وہ شاداب اونچے گلابوں
کے خلوت کدے
جن میں نازک بدن پھول سی اپسرائیں
حسیں خوبرو نوجوانوں کے پہلو میں
الفت کی شمعیں جلائیں

بصد عشوہ و ناز نگہت فشاں تھیں
۔ ۔ ۔ ۔ ہنسی دل لگی۔ ۔ ۔ قہقہے۔۔ ۔ ۔ ۔ گیت
اور میں یہاں
چوک کے دائرے پہ کھڑا
رات کو لحظہ لحظہ
فلک سے زمین پر اترتے ہوئے دیکھتا تھا!
بسیں، ٹیکسیاں، تیز کاریں
حسیں میکدے، رقص گاہیں
یہاں ہر طرف
اجنبی صورتوں کا تھا ریلا
اداسی کی یلغار اور میں اکیلا!
۔ ۔ ۔ قدم الٹی جانب اٹھے
تیز بھاگا

یکایک جو جاگا
وہی گھر تھا اپنا
یہ سب کچھ تھا سپنا
پسینے میں تر جسم تھا
سانس بھاری
ابھی تک اعصاب پر خوف طاری!
چکا چوند تھی۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے
میں نے سوچا!
مگر شکر ہے خیر سے گاؤں پہنچا
 

شیزان

لائبریرین
ان آنکھوں میں جھانک کے دیکھو!

سچ کہ جیون ایک سفر ہے
ہجرت بھی اک معنئ بقا ہے
ایک تغیر شام و سحر ہے
لیکن لوگو!
پل دو پل خلوت میں بیٹھو
اور کچھ تو سوچو!
کیا کھویا ہے کیا پایا ہے؟
اپنوں سے ہے چاہت کتنی
اور اغیار سے نسبت کیا ہے!
رسم کہن سے آزادی کا
اس دھرتی پر آبادی کا
یہ سودا ہے
پرکھوں کی تہذیب کو تج کر
آئندہ نسلوں کا کیا اندازِ نظر ہے؟
جن کو تم نے
اپنے وقتوں کا جو یہ ماحول دیا ہے
حاضر خوشیوں کے بدلے میں
مستقبل کا ہول دیا ہے
خواہش کے خوش رنگ سبو میں
حسرت کا بس گھول دیا ہے!
تم کو خبر ہے!
یہ دنیا اک رہ گزر ہے!!

او پگلے بےچارے لوگو!
کبھی کبھی ان خود بچھڑے
بالغ ہوتے بچوں کا احوال بھی پوچھو!
ان کو اپنے پاس بٹھا کر
ان کے چہروں پر کندہ تحریر کو سمجھو!
جس میں ابھی الجھاؤ وہی ہے
ان کے لئے تو شہر بھی بن ہے
اسکولوں اور کارگہوں میں
اور باغوں میں
فٹ پاتھوں پر، بازاروں میں
نفرت کا برتاؤ وہی ہے
ہونٹوں پہ سو مسکانیں ہیں
محرومی کا گھاؤ وہی ہے
بس میں جو ہوتا رنگ بدلتے
ہار چکے وہ ڈھنگ بدلتے
اک بےنام سی آگ میں جلتے
بیگانی راہوں پہ چلتے
تابندہ خوابوں کے جزیرے
پا لینے کی وہی لگن ہے
کہنے کو تو اپنا گھر ہے
ہرا بھرا شاداب نگر ہے
ان آنکھوں میں جھانک کے دیکھو
دکھ کا اک گہرا ساگر ہے
 

شیزان

لائبریرین
پرندے

اک مدت سے
ہر موسم میں ، نور کے تڑکے
سرودوان البیلے پنچھی
من موجی بے باک پرندے
میرے پائیں باغ کے اک گوشے میں
گانے آتے ہیں
مجھے جگاتے ہیں

(2)

پچھلے پہر گھنے جنگل میں
فطرت کے معصوم پکھیرو
گرد آلود۔ ۔ ۔ ۔ اوارہ یوگی
نٹ کھٹ با پوشاک پرندے
متوالے پیراک پرندے
ہری بھری نیلم وادی میں
چنچل جھرنوں کی سنگت میں
یوں ہر روز نہاتے ہیں
مل کر دھوم مچاتے ہیں !

(3)

تاڑ اور چیل میں گھات لگا کر
پربت کی چوٹی کے اوپر
تپتے میدانوں میں اڑتے
لوندی، شکرے، باز شکاری
طاقت کے مغرور پجاری
کچھ ظالم سفاک پرندے
وحشی ہیبت ناک پرندے
پنجوں کے خنجر لہراتے
شاخوں میں سہمی چڑیوں کا
ناحق خون بہاتے ہیں
سب پر رعب جماتے ہیں

(4)

کل میں نے کالج میں دیکھا
بڑے ہال میں
طلبا کو اسناد کی بخشش کے موقع پر
جبہ پوش استاد تھے جتنے
پرعظمت دلشاد تھے کتنے؟
میں نے سوچا!
علم و ہنر کے پنکھ سجائے
پڑھے لکھے چالاک پرندے
اپنے اپنے پروں کی رنگت سے
پہچانے جاتے ہیں

۔ ۔ ۔ فہم و ذکا کے،جود و سخا کے
مہر و وفا کے،حسن عطا کے
جگمگ دیپ جلاتے ہیں !
یہ بھی سچ ہے
حرص و ہوا سے پاک پرندے
کچھ روشن ادراک پرندے
ننھی ننھی کنکریوں سے
ہاتھی مار بھگاتے ہیں
جھوٹ کا نام مٹاتے ہیں


بریڈ فورڈ: 2 جولائی 88ء
کالج میں تقسیمِ اسناد کے موقع پر
 

شیزان

لائبریرین
گُنگی بستی کی کہانی

اونگھ رہا تھا پیر کا حجرہ اونچے محل منارے تک
بھاگ بھری کی پریم کہانی گونجی گاؤں کے دارے تک

اونچے گھر کا رانجھا اپنی ہیر سے ملنے آتا تھا
جس کے روپ سروپ کا چرچا پھیلا تخت ہزارے تک

وہ معصوم، حسیں دوشیزہ، بیٹی صوبے نائی کی
پہنچ سکی آواز نہ جس کی اپنے ساجن پیارے تک

پچھلے پہر کی پروائی میں مست ملنگوں نے دیکھا
پگڈنڈی پر دھندلا سایہ چلتا نہر کنارے تک

گھیر لیا اور لے گئے اس کو باندھ کے مرشد خانے پر
جانے پھر کیا بیتی اس پر صبح کے روشن تارے تک

بھور سمے پھر سرکنڈوں میں لاش ملی چرواہے کو
لہروں لہروں تیر کے پہنچی تھی جو سنگم دھارے تک

مل کے مالک ملک ٹوانے مالک گنگی بستی کی
پکڑ جکڑ کر کچھ "غنڈوں" کو لائے سرخ چبارے تک

ان میں تھا اک شوخ سجیلا مل مزدروں کا لیڈر
آ جاتی تھی ہر اک آفت اس قسمت کے مارے تک

شک کی بنا پر موت نہیں، پر دی گئی سولہ سال کی قید
بیوہ ماں کا لائق بیٹا آیا یوں اندھیارے تک

زر والوں کی راہ کا کانٹا ناداروں کے دل کا چین
پیار کی تہمت لے کر آخر آیا جیل دوارے تک

اپنے شباب کا سونا چاندی ایک ہی وار میں ہار گیا
جس کو لوٹ کھسوٹ کے ماہر لائے سخت خسارے تک
 

شیزان

لائبریرین
ناری تیرے روپ کی شوبھا!

برکھا رُت میں پیاسی پگلی
مچلے اور نہائے
گم سم جھیل کے آئینے میں
چندرما شرمائے
ساگر کی چنچل لہروں میں
سیپ کے دیپ سمائے
خوشبو اور دھنک مل جائے
پون جھکولے کھائے
اک سیماب کی مورت ایسی
اک آنسو کی مورت
جنم مرن کی پگڈنڈی پر
جس کو خوف مہورت
جگ کے غم اپنائے
وقت پڑے تو موم کی گڑہا
کبھی کبھی فولاد
کبھی کبھی تو جیسے اس کو
کچھ بھی رہے نہ یاد

ہر سپنا بسرائے!
مدماتی کہلائے

میں اک شاعر
دھرتی اور آکاش کے اندر
کس کو بکھرا پاؤں
کس کا آنچل دھندلا کاجل
جب جب پاس بلائے
اندھی یاس کے اس بن باس میں
آس کی راہ دکھلائے
گلشن گلشن کیاری کیاری
کس کے گیتوں کا رس جاری
کس کے رنگ پریم آہنگ نے
پگ پگ پھول کھلائے
کس کی باس سے بگیا مہکے
کلی کلی مسکائے
کس کے شیتل دھیان میں کھو کر
روم روم لہرائے
کس کے پیار کا قیدی ہو کر
میں نے شعر بنائے
کس کی کوکھ میں ہیرے موتی
کس کی مانگ میں تارے
ناری تیرے روپ کی شوبھا
کیا کیا نقش ابھارے
 

شیزان

لائبریرین

سورج مکھیا!



جنم جنم کی تُو دکھیاری پر مکھیا کہلائے
نگر نگر وہ سونا بانٹے، سورج نام دھرائے

پورب پچھم، اتر دکن، اس کی جگمگ لیلا
دنیا کے تو کام سنوارے اور تجھ کو ترسائے

تجھ کو اپنے سوامی کے درشن ہی لگیں عبادت
جس جانب مُکھ اس کا دیکھے، اس جانب مڑ جائے

پھر بھی کبھی تو سوچا ہوتا وہ کیوں پھرے اداس
نسدن جس کی چاہ میں تُو نے آس کے دیپ جلائے

گھاس کپاس نہ گل بوٹوں کو تیرے سنگ ہمدردی!
تو من مورکھ، پگلی برہن، چُھپ چُھپ نِیر بہائے

جب آکاش پہ پھیلے ہر سُو وہ پرکاش اجالا
تیرے لئے بھگوان پدھاریں، پریتم چَھب دکھلائے

تیرا سپنا ہر دم تپنا ، کب ہو گا سوئیکار
ساگر اندر وہ جل مندر میں جو ڈوب نہائے

تُو دھرتی میں وہ امبر پر، تیرا میل نہ ہوئے
رات گئے ہمراز سہیلی اوس بچاری روئے
 

شیزان

لائبریرین

آخر کار جدائی ہو گی، یہ تو نہ ہم نے سوچا تھا
گلی گلی رسوائی ہو گی، یہ تو نہ ہم نے سوچا تھا

شہروں شہروں آج ہمارے عشق کا چرچا عام ہوا
اپنی بات پرائی ہو گی، یہ تو نہ ہم نے سوچا تھا

وہ چت چور، وہ بھولا بھالا، وہ معصوم سا پردیسی
اس نے نیند چرائی ہو گی، یہ تو نہ ہم نے سوچا تھا

کیاری کیاری صحنِ چمن میں پھرنے والی موجِ صبا
پی کا سندیسہ لائی ہو گی، یہ تو نہ ہم نے سوچا تھا

اہلِ ستم سے مہر و وفا کی ہم کو کوئی امید نہ تھی
یوں بےدرد خدائی ہو گی، یہ تو نہ ہم نے سوچا تھا

بن جانے جو کر بیٹھے تھے، اس وعدے کے بندھن سے
موت کے بعد رہائی ہو گی، یہ تو نہ ہم نے سوچا تھا

صبحِ طرب کی آس لگائے اپنا جیون بیت چلا
اتنی دیر ضیائی ہو گی، یہ تو نہ ہم نے سوچا تھا​
 

شیزان

لائبریرین

بےسبب رُوٹھ گیا چھوڑ کے جانے والا
پھر سے شاید وہ نہیں لوٹ کے آنے والا

وہ جو برسا نہ کُھلا، ابرِ گریزاں کی طرح
چشم مے گوں سے میری پیاس بجھانے والا

وہ دھنک تھا کہ شفق، پیکر خوشبو بن کر
دل کے آنگن میں نئے پھول کھلانے والا

مٹ گیا حرفِ غلط کی طرح وہ دنیا سے
کیا کوئی اور نہ تھا نقش مٹانے والا!

سب کو کچھ روز ٹھہرنا ہے، گزر جانا ہے
ہے یہاں کون بھلا ٹھور ٹھکانے والا ؟

جانے کیوں غیر سا لگتا ہے بھری محفل میں
دل میں رہ کر بھی سدا آنکھ چرانے والا

کیا تعجب اسے احساس ہے یکتائی کا!
کہ میرا عشق نہیں عام زمانے والا

اب نہ دیکھو گے کبھی چاند سا مکھڑا اختر
خُوں رُلا کر بھی نگاہوں میں سمانے والا​
 

شیزان

لائبریرین

قول و قرار، مہر و وفا، دوستی میں ہے
سچ ہے کہ زندگی کا مزا دوستی میں ہے

رنج و ملال، جور و جفا، دشمنی کے رنگ
پراعتماد لطف و عطا دوستی میں ہے

جانِ بہار بادِ صبا کا پیام سن!
بُلبُل کا سوز، گل کی ادا دوستی میں ہے

معصوم لغزشوں پہ میری بدگماں نہ ہو
آنکھوں کا جرم، دل کی سزا دوستی میں ہے

تم کو ہے مال و زر کے تعاقب کی بے کلی
مجھ کو جو یہ سکُون ملا، دوستی میں ہے

میں اپنے آپ میں نہ رہا تجھ کو دیکھ کر
اور بےخودی میں جو بھی کہا دوستی میں ہے

او ناسپاس نامِِ خدا بےرخی کو چھوڑ!
اختر کے دردِ دل کی دوا دوستی میں ہے​
 

شیزان

لائبریرین
نظر نظر کا نصاب چہرے
شباب رُت میں گلاب چہرے

برنگِ قندیلِ نیم شب وہ
دمکتے زیرِ نقاب چہرے

خطاب کرتے مسافروں سے
سوال پر لاجواب چہرے

حروف پلکیں نقوش زلفیں
حدیث باطن کتاب چہرے

بکھرتے آنچل نکھرتے منظر
سحاب گیسو شہاب چہرے

تھی جن سے روشن بساطِ یاراں
کدھر گئے آفتاب چہرے

مرے تخیل کی آبرو ہیں
گئے دنوں کے وہ خواب چہرے

فریب دیتے ہیں دوستی کا
کبھی کبھی انتخاب چہرے

کہاں یہ غربت کی دُھول اختر
کہاں شرافت مآب چہرے​
 

شیزان

لائبریرین
سفر بے منزل و بے انتہا کیا
"نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا"

غرض مندی کے بازارِ ہوس میں
کسی کی بےوفائی کا گلہ کیا

خیالِ یار میں ہر دم پریشاں
مریضِ عشق پائے گا شفا کیا

الجھ کر عقل کے کارِ زیاں میں
دلِ ناداں تجھے آخر ملا کیا؟

توجہ ہے کبھی نہ ربط باہم
تعلق میں ہمارے اب رہا کیا

عمل میں گر نہ ہو اخلاص تو پھر
کہا کیا آپ نے، ہم نے سُنا کیا

سبھی محتاج ہیں اس در کے اختر
تونگر کیا، فقیرِ بےنوا کیا​
 

شیزان

لائبریرین

جلوہء حسن چار سُو کیا ہے
اور نگاہوں میں جستجو کیا ہے

اہلِ حرص و ہوا کو کیا معلوم
لذتِ زخم آرزو کیا ہے

معجزہ ہے صدف نشینی کا
ورنہ قطرے کی آبرو کیا ہے

تجھ کو اجداد کی سند پہ غرور
مجھ کو اتنی غرض کہ تُو کیا ہے

جز محبت ہم اہل دل کے لیے
اور موضوع گفتگو کیا ہے

پتی پتی میں رنگ بھرتی ہوئی
مستقل خواہش نمو کیا ہے

وقت کے بیکنار صحرا میں
میری ہستی کی آبجو کیا ہے

دوستوں کا خلوص دیکھ اختر
تجھ کو اندیشۂ عدو کیا ہے​
 

شیزان

لائبریرین
ساون نے رم جھم برسائی تیری یاد
پھولوں کی خوشبو، پروائی تیری یاد

شام ڈھلے جب سارے ساتھی چھوڑ گئے
ہردے کا پٹ کھول کے آئی تیری یاد

ہر چہرے پر تیرے رخ کی جوت جگی
ہر پیمانے میں لہرائی تیری یاد

اب تو یہ میرے جیون بھر کے ساتھی ہیں
میٹھا میٹھا غم، تنہائی، تیری یاد!

جب جب آس کا پنچھی پت جھڑ میں بھٹکے
جاگ اٹھے میری انگنائی تیری یاد

باقی دنیا کی دم سازی جھوٹی بات
دکھیا جیون کی سچائی تیری یاد

ہر موسم کے ساتھ چلی آتی ہے جو
اختر نے سو بار بھلائی تیری یاد​
 

شیزان

لائبریرین

رہتا ہے سدا حسن جواں دل کے نگر میں
ارزاں ہے بہت جنسِ گراں دل کے نگر میں

اللہ رے ویرانئ جذبات کا عالم!
شعلے نہ شرارے نہ دھواں، دل کے نگر میں

تم ڈھونڈ چکے ہو جسے شائد یہیں مل جائے
دیکھو ذرا صاحبِ نظراں دل کے نگر میں

پھر بسنے لگیں اجڑی تمناؤں کے ایواں
آ جاؤ کبھی راحتِ جاں دل کے نگر میں

تنہائی میں اکثر یوں کھنکتی ہے سماعت
جیسے ہو کوئی رقص کناں دل کے نگر میں

دامن میں چھپائے ہوئے ہے اک نئی دنیا
ہر منظر صد رشک جناں دل کے نگر میں

تا عمر کبھی ہم کو نہ بھولے گا وہ اختر!
دیکھا ہے اک ایسا بھی سماں دل کے نگر میں​
 

شیزان

لائبریرین

غم کے پاتال میں جیتے رہنا
یعنی ہر حال میں جیتے رہنا

جب کوئی آس نہ ہو ، مشکل ہے
بس مہ و سال میں جیتے رہنا

بخت کا ساتھ نبھانے کے لیے
وقت کی چال میں جیتے رہنا

تلخ صہبائے گرانباری کے
رود و سیال میں جیتے رہنا

اپنی کرنی کی سزا ہو جیسے
جی کے جنجال میں جیتے رہنا

خوش مزاجی کا چلن لگتا ہے
خواہشِ مال میں جیتے رہنا

یہ تو مرنا ہے نہ جینا اختر
بھوک اور کال میں جیتے رہنا​
 
Top