ٹائپنگ مکمل اختر ضیائی ۔۔۔ منتخب کلام

شیزان

لائبریرین

اب کے موسم میں عجب شعبدہ پیرائی ہے
جیسے روٹھی ہوئی ہر شاخ سے پروائی ہے

موت کے خوف سے جیتے ہیں نہ مر سکتے ہیں
ان کو اصرار کہ یہ دورِ مسیحائی ہے

جب سے پھیری ہیں زمانے نے نگاہیں ہم سے
ہم نے حالات بدلنے کی قسم کھائی ہے

جن کی بےداد سے رسوائی ہوئی، جی سے گئے
وہ بھی کہتے ہیں کہ نادان ہے، سودائی ہے

خود ہی کر لیجئے اس طرزِ عمل کی تاویل
ہم سے رغبت نہیں، غیروں سے شناسائی ہے

نہ تبسم، نہ تکلم، نہ محبت کی نظر
کتنا دلچسپ یہ اندازِ پذیرائی ہے

سایۂ زلف کی امید کہاں ، دید کہاں؟
کہ مقدر میں سیہ رات ہے، تنہائی ہے

مستقل چیز ہے حوروں کی جوانی واعظ!
سچ ہے کہ آپ کی ہر بات میں گہرائی ہے

اس کی نیت پہ بھلا مجھ کو ہو کیا شک اختر
وہ جو یوسف کا خریدار نہیں بھائی ہے!​
 

شیزان

لائبریرین

منزلِ شوق اب کہاں لینا
نام کو چھوڑنا، نشاں لینا

جس کو عشاق کی خبر بھی نہ تھی
آ گیا اس کو امتحاں لینا!

جب حقائق کی دھوپ ڈسنے لگے
دو گھڑی سایۂ گماں لینا

تیرا جانا بدن کے قالب سے
روح کا جستِ بیکراں لینا

تج دیا ہے زمیں کی چاہت میں
ہم نے احسانِ آسماں لینا

بخت اس کا، جس نے سیکھ لیا
ہاتھ میں وقت کی عناں لینا

اس جفا کش دور میں اختر
ہنس کے دشنامِ دوستاں لینا!​
 

شیزان

لائبریرین

بےکلی میں بھی سدا روپ سلونا چاہے
دل وہ بگڑا ہوا بالک جو کھلونا چاہے

حسن معصوم ہے پر خواب خزانوں کے بنے
کبھی ہیرے، کبھی موتی، کبھی سونا چاہے

تجھ سے بچھڑا ہے تو گھائل کی عجب حالت ہے
بیٹھے بیٹھے کبھی ہنسنا، کبھی رونا چاہے

اس بات ناز کو دیکھوں تو میرا ذوق نظر
ایک اک نقش میں سو رنگ سمونا چاہے

لاکھ بہلاؤ بھلے وقت کے گلدستوں سے
تلخ ماضی تو سدا خار چبھونا چاہے

کھلی آنکھوں کسی کروٹ، نہ ملے چین اکثر
نیند آئے تو نہ پھر سیج بچھونا چاہے

ایسا بپھرا ہے غمِ زیست کا ساگر اختر
اس کی ہر لہر میری ناؤ ڈبونا چاہے​
 

شیزان

لائبریرین

جب سے مہ نوش ہو گیا ہوں میں
غم فراموش ہو گیا ہوں میں

تیرے جلووں میں اس طرح گم ہوں
خود سے روپوش ہو گیا ہوں میں

بن گئی تھی جو جان کا آزار
دشمنِ ہوش ہو گیا ہوں میں

ہاں کبھی میں خرد نواز بھی تھا
اب جُنوں کوش ہو گیا ہوں میں

چھوڑیئے میرے حال پر تشویش!
قصۂ دوش ہو گیا ہوں میں​
 

شیزان

لائبریرین


مہتاب جب آئینۂ سیماب میں آئے
سو رنگ سے پھر جلوہ گہہِ خواب میں آئے

اب تک یونہی آباد ہیں یادوں کے جھروکے
تصویر تری وقت کی محراب میں آئے

اِس آس پہ زندہ ہوں کہ شائد کبھی وہ بھی
خوشبُو کی طرح موسمِ شاداب میں آئے

وہ حُسنِ جہاں تاب بدلتا ہے ٹھکانے
آنکھوں میں سما کر دلِ بےتاب میں آئے

دل نذر کریں، جان بھی مانگے تو فدا ہوں
یہ بات بھی تو عشق کے آداب میں آئے

ممکن ہے کہ بن جائے گھر قطرہء نیساں
قسمت سے اگر دامنِ گرداب میں آئے

ہر بار لئے جان و تمنا کی تب و تاب
اختر کی غزل حلقۂ احباب میں آئے​
 

شیزان

لائبریرین

سرِ شاخِ بخت گلِ اُمید کِھلا نہ تھا
رہے ڈھونڈتے جسے عمر بھر وہ مِلا نہ تھا

ہے لہو لہو تیری بےوفائی کے وار سے
دلِ زار کا ابھی پہلا زخم سِلا نہ تھا

یہ غُرورِ حُسن تھا یا انا کا معاملہ
کہ ستم گری میرے پیار کا تو صِلہ نہ تھا

تُو بچھڑ گیا نئی منزلوں کی تلاش میں
میرے ہمسفر! مجھے تجھ سے کوئی گِلہ نہ تھا

مجھے یاد ہیں وہ شکستِ عہد کی ساعتیں
رہی چشم نم، لبِ غم گسار ہلا نہ تھا​
 

شیزان

لائبریرین

جُنوں پسند ہوں شوریدگی سے مطلب ہے
نہ غم سے کام، نہ مجھ کو خوشی سے مطلب ہے

مشاہدات کی تلخی سے رو بھی دیتا ہوں
میں گل نہیں جسے خندہ بہی سے مطلب ہے

کچھ ایسے لوگ ہیں جن کو ہے سرخوشی کی تلاش
ہمیں علاجِ غمِ زندگی سے مطلب ہے

وہ اور ہوں گے جنہیں تیری ذات سے ہے غرض
مجھے تو دوست تیری دوستی سے مطلب ہے

بہت جُھکے ہو اطاعت میں مصلحت کیشو!
عَلم اٹھاؤ کہ اب سرکشی سے مطلب ہے

یہ اور بات کہ حُوروں کی ہے طلب اختر
وگرنہ شیخ کو بس بندگی سے مطلب ہے​
 

شیزان

لائبریرین

بدلیں گے حالات
بپھرے ہوئے جذبات

آخر ڈھل جائے گی
غم کی بوجھل رات

ساتھی دکھ بندھن میں
چھیڑ ملن کی بات

من پگلا تو جانے
پیار کو ہی سوغات

دھن بیوپار میں سب کی
اپنی اپنی ذات

لمحوں میں بنتی ہے
صدیوں کی اوقات

مر کے یہاں ملتی ہے
سانسوں کی خیرات

سوچ میں گم ہیں اختر
دانشور حضرات!​
 

شیزان

لائبریرین

مرتا ہوں کہ جینے کا سہارا سا لگے ہے
غیروں کے بھرے شہر میں اپنا سا لگے ہے

پہلے تو کبھی اس کو یقیناً نہیں دیکھا
وہ شخص مجھے پھر بھی شناسا سا لگے ہے

احباب کے جھرمٹ میں رہے خود سے مخاطب
محفل میں بھی بیٹھا ہوا تنہا سا لگے ہے

ہر حال میں ہے میرے مقدر کا وہ ساتھی
غربت کی کڑی دھوپ میں سایا سا لگے ہے

کرتا ہے کسی اور کے آنگن میں اجالا
لیکن میری قسمت کا ستارا سا لگے ہے

پتھر بھی ہے آئینہ صفت موم کی صورت
مجھ کو کبھی شبنم، کبھی شعلہ سا لگے ہے

کھل کر بھی اگر بات وہ کرتا ہے ضیائی
کچھ اور پراسرار معمہ سا لگے ہے​
 

شیزان

لائبریرین
یہ صدیوں کا بھید پرانا، یہ جیون کا حاصل ہے
جس کی بات نہ سمجھے کوئی، وہ مورکھ ہے، جاہل ہے

محرومی کے اندھیاروں میں آشاؤں کی جوت نہیں
سُونا دل کا کاشانہ ہے، سُونی دل کی محفل ہے

ٹھیک طرح سے سوچ لو پہلے، پھر جی کا بیوپار کرو!
پریت لگانا تو آساں ہے، پریت نبھانا مشکل ہے

اپنے من میں ڈوب کے پا لے شکتی کا انمول رتن
من ہی تیری راہ مسافر، من ہی تیری منزل ہے

اختر اب بھنڈار دکھوں کا سکھ کی آس میں جیتا ہے
کون کہے گا دانش مند ہے، کون کہے گا عاقل ہے؟​
 

شیزان

لائبریرین

ہار گئے پگ چلتے چلتے، اب آرام کروں میں
جی کرتا ہے جیون پتھ پر ہی بسرام کروں میں

کون کسی کے غم لیتا ہے، موہ کا جال سمیٹوں!
زیست کی یہ بےکیف صبوحی اک دو جام کروں میں

دل کے بدلے دل کی دولت ہاتھ آ سکتی ہے تو
لالچ کی منڈی میں اس کو کیوں نیلام کروں میں

توڑ کے سُندر سپنوں کے گجرے او جانے والے!
پیار کی بےانجام کہانی کس کے نام کروں میں؟

ان کو میری بےلوث محبت کی نہیں خاص ضرورت!
وہ جو ہنس ہنس کر کہتے ہیں سستے دام کروں میں

دو لمحے سو سال کا جینا، دو صدیاں بےحاصل!
دنیا میں جو یاد رہیں، کچھ ایسے کام کروں میں

بچھڑ گیا دلدار، ہوئیں ویران نگر کی گلیاں
تم ہی کہو کس آس پہ اے دل، صبح کو شام کروں میں!​
 

شیزان

لائبریرین

درد و درمان خوبصورت ہے
کل کا پیمان خوبصورت ہے

جس کے ملنے کی اب نہیں اُمید
اس کا ارمان خوبصورت ہے

ساتھ دیتا ہے وحشتِ دل کا
چاکِ دامان خوبصورت ہے

حُسن کردار سے ہے ناواقف
کتنا نادان خوبصورت ہے

جھوٹ گو مصلحت نواز سہی
سچ کی پہچان خوبصورت ہے

کاش گھر بھی اسی طرح ہوتا
جیسا مہمان خوبصورت ہے

اک غزل اُن کے نام کرنے سے
سارا دیوان خوبصورت ہے

عشق کی بارگاہ میں اکثر
دل کا فرمان خوبصورت ہے

کھیت بھی ہیں مگر کچھ ان کے سوا
دستِ دہقان خوبصورت ہے

اس بھری کائنات میں اختر
نقشِ انسان خوبصورت ہے​
 

شیزان

لائبریرین
تھی بےقرار بہت چشمِ منتظر خاموش
چلے گئے وہ میرے غم سے بےخبر خاموش

نہ پوچھ ہائے یہ مجبوریاں محبت کی!
میں اپنے صحن میں ، تُو اپنے بام پر خاموش

وہ میگسار ابھی مطمئن نہیں ساقی!
جو رہ گئے ہیں تیری سمت دیکھ کر خاموش

وہ نرم آنچ کہ پتھر کا دل پگھل جائے
ترے فراق میں جھیلی ہے عمر بھر خاموش

کسی کی یاد میں دل کی عجیب حالت ہے
مثالِ شعلہ، کبھی صورتِ شرر، خاموش

بفیضِ تلخئ حالات ایک مدت سے
برنگِ دشت ہے اختر ہمارا گھر خاموش​
 

شیزان

لائبریرین

لگتے ہیں بیگانے لوگ
اب جانے پہچانے لوگ

دیکھے غرض کے دھاگوں سے
بُنتے تانے بانے لوگ

ہم سے نہ الجھو فرزانو
ہم ٹھہرے دیوانے لوگ

چشمِ کرم رہنے دیجئے!
گھڑ لیں گے افسانے لوگ

حسن کا جادو جب جاگے
بھولیں ٹھور ٹھکانے لوگ

پیار میں جیون کاٹ گئے
تھے خوش بخت پرانے لوگ

وقت پڑا تو پل بھر میں
توڑ گئے یارانے لوگ

اپنے کئے پر جانے کیوں؟
لگتے ہیں پچھتانے لوگ

رنگ برنگی تصویریں
یہ گلیاں، مے خانے لوگ

اپنی کہو تو لے بیٹھیں
اپنے روگ سنانے لوگ

سن تو سہی اختر کیا کیا
آئے ہیں سمجھانے لوگ!​
 

شیزان

لائبریرین

رکھے گئے جو اہلِ نظر کے نصاب میں
مضمون پڑھ رہا ہوں میں دل کی کتاب میں

اک رہزنِ ضمیر ہے، اک رہبرِ عمل!
تفریق بس یہی ہے گناہ و ثواب میں

تسکینِ جاں ہے ربط ہی، گو جانتا ہوں میں
لکھیں گے آپ کیا مرے خط کے جواب میں

مجھ پر کھلے ہیں صدق و صفا کے معاملات
جب بھی گیا ہوں پیرِ مغاں کی جناب میں

نفرت کا کاروبار بجا پر جنابِ شیخ
ارشاد کچھ تو آج محبت کے باب میں!

بہتر ہے درمیاں یہ سرا پردہء مجاز
شائد نہ لا سکوں ترے جلوؤں کی تاب میں!

اختر یہ کائنات بھی ہے کارگاہ کن
دیکھی ہر ایک چیز یہاں انقلاب میں​
 

شیزان

لائبریرین

لٹتی رہے گی سادگئ رنگ و بوئے گل
گل چیں کے ہاتھ میں ہے اگر آبروئے گل

گلشن میں دور تک ہے یوں رنگوں کا سلسلہ
جیسے میان سبزہ جولاں ہو جوئے گل

ہر موسمِ بہار ہے اک محشر خروش
برپا ہے شاخ شاخ پہ پھر ہاؤ ہوئے گل

دیکھی ہے ہم نے سرخئ رخسارِ مہوشاں
کھینچیں گے شعر شعر میں ہم ہو بہوئے گل

دنیائے بےثبات پر اک طنز دل نواز
ناداں ہے جو سمجھ نہ سکے خند روئے گل

عرض طلب پہ یوں متبسم ہے اور خموش
پا لی ہو جیسے اس بتِ کافر نے خوئے گل

ترسدز نوکِ خار نگاہِ غلط نگر
اختر بچشم شوق کنم جستجوئے گل​
 

شیزان

لائبریرین

برق کی زد میں آشیاں ہیں
جب سے صیاد پاسباں ہیں

کچھ عجب ہے یہاں کا دستور
راہزن میرِ کارواں ہیں

ہم ہیں مہر و وفا کے بندے
آپ بےوجہ بدگماں ہیں

ہم ہیں دانائے رازِ ہستی
ہم اسیرِ غمِ جہاں ہیں

پھر نئے عزم سے مسافر
سوئے منزل رواں دواں ہیں

حوصلے بھی ملے ہیں ان کو
جن کے درپیش امتحاں ہیں

دل تو بجھ سا گیا ہے اختر
آرزوئیں مگر جواں ہیں​
 

شیزان

لائبریرین

تھک کے ہونے لگے نڈھال تو پھر؟
بڑھ گیا عشق کا وبال تو پھر!

جسم کیا روح تک ہوئی گھائل
ہو سکا گر نہ اندمال تو پھر؟

جس کو رکھا ہے شوق سے مہماں
کر گیا گھر ہی پائمال تو پھر!

ہجر تو مستقل اذیت ہے
اس نے جینا کیا محال تو پھر!

بھول جانا تو کیا عجب اس کا
روز آنے لگا خیال تو پھر!

رازداں ہی تو ہے بھروسا کیا!
چل گیا یہ بھی کوئی چال تو پھر؟

کر لیا ہے دماغ کو قائل!
دل بھی کرنے لگا سوال تو پھر

عشق دو چار دن کی بات نہیں
یوں ہی بیتے جو مال و سال تو پھر

سخت نازک ہے دل کا آئینہ
تم نہ اس کو سکے سنبھال تو پھر!

مان جائیں گے آپ کو اختر
بچ گئے اب کے بال بال تو پھر!​
 

شیزان

لائبریرین

کم نصیبوں کو ستانے کی سزا پائے گا
ظلم پھر ظلم ہے اک روز ثمر لائے گا

بس گیا جس کے رگ و پے میں وہ سیماب صفت
کیا کوئی اس دلِ مجبور کو سمجھائے گا

کشتِ جاں جس کے ترشح کو ترستی ہے ابھی
اب وہ بادل نہ کبھی لوٹ کے پھر آئے گا

ہم نے کچھ روز کیا آنکھ سے اوجھل جس کو
کیا خبر تھی کہ بہت دور چلا جائے گا!

جو کسی طرزِ وفا کا نہیں قائل اختر
خلقتِ شہر پہ کیا کیا نہ ستم ڈھائے گا؟​
 

شیزان

لائبریرین

یہ دہر سجدہ طلب سومنات ہے مجھ کو
حیات معرضِ تخفیفِ ذات ہے مجھ کو

مچل رہا ہے نگاہوں میں رنگِ موسم ِ گل
فضائے کنج قفس کائنات ہے مجھ کو

کلی کے کان میں یہ کہہ کے اڑ گئی شبنم
نمودِ صبح پہ مٹ کر ثبات ہے مجھ کو!

نبردِ عشق میں کیسا مقام آیا ہے
اگر میں جیت بھی جاؤں تو مات ہے مجھ کو

ترس گیا ہوں سبوئے خلوص کو اختر
رہا میں ساحل جہلم فرات ہے مجھ کو!​
 
Top