الف نظامی

لائبریرین
ایک وقت تھا کہ فراز اگرچہ میرے پسندیدہ ترین شعراء میں شامل تھا مگر میں اس کی شخصیت کے حوالے سے کچھ غلط فہمیوں میں مبتلا تھا۔1980ء کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں پاک ہند مشاعروں میں شرکت کے لئے میں اور فراز بھارت گئے تو وہاں تقریباً دو ہفتے اکٹھے گزرے اور یوں فراز کی شخصیت کی مختلف پرتیں زیادہ واضح ہو کر سامنے آئیں۔ اس شاعر خوش نوا کے ساتھ بہت طویل نشستیں ہوئیں اور یوں مختلف مسائل پر اس کا نقطہ نظر سامنے آیا تو میں نے محسوس کیا کہ اس کی عوام دوستی اور وطن دوستی کا نظریہ مجھ سے مختلف تو ضرور تھا مگر اس میں کوئی کھوٹ نہیں تھا، چنانچہ کئی محفلوں میں اس نے کشمیر کی جدوجہد آزادی کی بھرپور حمایت کی ۔ ایک ٹی وی پروگرام میں تو وہ ایک بھارتی وزیر سے باقاعدہ الجھ پڑا۔ اس کے بعد چند برس پیشتر اس نے شدید بارش کے دوران اسلام آباد میں مقیم شاعروں اور دانشوروں کے ساتھ پیدل مارچ کرتے ہوئے بھارتی سفارت خانے میں آزادی کشمیر کے حوالے سے ایک یادداشت بھی پیش کی۔ فراز بیسیوں دفعہ بھارت گیا مگر اس نے کسی ایک موقع پر بھی انڈین میڈیا کا وہ”اکھنڈ بھارتی دانہ“ نہیں چگا جو وہ اکثر پاکستانی مہمانوں کے سامنے ڈالتے ہیں اور چند بے غیرت قسم کے پاکستانی وہ دانہ چگنے بھی لگتے ہیں۔
از عطاء الحق قاسمی

پاکستان ہماری امیدوں کا مرکز ہے اور اس کی محبت ہماری رگوں میں دوڑ رہی ہے 1947 سے ہم اس کے ساتھ الحاق کے لیے تڑپ رہے ہیں ، قربانیاں دے رہے ہیں۔سید علی گیلانی
 

الف عین

لائبریرین
احمد فراز ؔ مشاہیر کی نظر میں
مرتب:فاروق ارگلی
///
فراقؔ گورکھپوری
احمد فراز کی شاعری اُردو میں ایک نئی اور انفرادی آواز کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان کے وجدان کی اور جمالیاتی شعور کی ایک خاص شخصیت ہے جو نہایت دل کش خدوخال سے مزین ہے ۔ ان کے سوچنے کا انداز نہایت حساس اور پُر خلوص ہے ۔ ان کی شاعری کو صرف کلاسیکی یا صرف رومانی شاعری نہیں کہا جاسکتا ہے بلکہ دور حاضر کو لطیف ذہنی ردعمل کاسچا نمونہ کہا جاسکتا ہے ۔ وہ صداقت کے نئے مقامات سے اپنی باتیں کہتے ہیں اور یہ باتیں دعوتِ فکر دیتی ہوئی حد درجہ دلکش و دل نشیں ہیں۔ ان کا کلام اُردو شاعری کے نئے موڑ کے کئی نازک زاویوں کی لچک اور تھر تھراہٹیں اپنے اندر رکھتا ہے اور خیال کی ترتیب و تہذیب کا سامان بھی ان میں موجود ہے ۔
///l
فیض احمد فیض
فراز ؔکے کلام میں خیال اور جذبے کا قالب اور شعر اور لباس الگ الگ دکھائی نہیں دیتے ۔ آپس میں پیوست ہیں ۔ شاعر کو یہ بات تب نصیب ہوتی ہے جب اس کا جذبہ اور اس کا فن دونوں یکساں پر خلوص اور سچے ہوں ۔ یہ خلوص ، گداز اور سچائی احمد فرازؔ کے کلام کی امیتازی خصوصیات ہیں ۔ اسی خلو ص کی وجہ سے یہ حدیث دل کے علاوہ زندگی کے وسیع تر حقانیت کا بیان بھی ویسی ہی خوبی اور لگن سے کرتے ہیں ۔ بیک وقت غم جاناں اور غم دوراں کی وسیع دنیا سے آگہی اور اس کی موثر تفسیر مشکل کام ہے ۔ احمد فرازؔ اس کام میں بہت حد تک کامیاب ہیں ۔
/////l
مجروح سلطان پوری
فرازؔ اپنے وطن کے مظلوموں کے ساتھ ہیں انہی کی طرح تڑپتے ہیں مگر روتے نہیں بلکہ ان زنجیروں کو توڑتے ، ٹکڑے ہوئے ہیں ۔ ان کا شعر نہ صرف یہ کہ اعلیٰ ادبی معیار کا ہے بلکہ ایک شعلہ ہے جو دل سے زبان تک لپکتا ہوا معلوم ہے ۔ یہ آئے فیض اور ن ۔ م راشد کے بعد مگر اساتذئہ سخن میں شمار ہوتے ہیں ۔ ایک اچھا شاعر اپنے بعد آنے والوں کو راہ دکھاتا اور متاثر کرتا ہے ۔ فرازؔ کا شمار اب ان میں ہے ۔
///l
احمد ندیم قاسمی
احمدفرازؔ پاکستان کے ا ن معدودے چند فن کاروں میں سے ایک ہیں جو اُردو شاعری کے مستقبل کے امین ہیں اور جن کے بارے میں نہایت اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا فن مسلسل ارتقا ء پذیر رہے گا اور وہ اردو شاعری کی فنی روایات کو نہ صرف آگے بڑھایئیں گے بلکہ ان روایات میں خوبصورت اضافے بھی کریں گے ۔ خاص طور سے احمد فرازؔ کے سلسلے میں یہ دعویٰ اس لئے کیا جا سکتا ہے کہ اُنھوں نے قدیم و جدید کے نہایت حسین و دلآویز مرکب پر کامیاب تجربہ کئے ہیں ۔ ان کے کلام کا یہی وہ رخ ہے جس کی وجہ سے اُنھوں نے اُردو شعراء کی صف اول میں جگہ حاصل کر لی ہے ۔
/////l
قیوم نظرؔ
احمد فرازؔ اُردو کے ان جواں فکر شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے غنائیہ شاعروں کی گرتی ہوئی دیوار کو قدیم روایات اور جدید تقاضوں کے دلکش رنگ اور آہنگ سے قابل قدر سہارا دیا ہے ۔ فرازؔ کی عشقیہ شاعری میں قرب محبوب سے زیادہ ہنگام جدائی کے مرقعے ملتے ہیں اور یہ بات فرازؔ تک ہی محدود نہیں اُردو غزل کا بیشتر سرمایہ فراق کی طویل گھڑیاں گننے اور ہجر کی صعو وبتوں کو برداشت کرنے کے مراحل سے بھرا ہوا ہے۔ فرازؔ کو بھی دنیائے محبت کی اس بے آب و گیاہ اور بے رنگ ونوروادی سے حسب معمول گزرنا پڑا ہے ۔ لیکن اس کے ذہن نے جس طرح اس کے اثرات کو قبول کیا اس میں مریضانہ فریاد کی جگہ درد مندانہ درعمل ملتا ہے اور وہ اس تنگ و تاریک گوشے میں بھی زندگی کی جھلک دکھاتا ہے ۔
///l
فارغ بخاری
احمد فرازؔ کا خاکہ لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے دراصل بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے معاملے میں کتنی ہی احتیاط کیوں نہ برتی جائے ،کہیں کچھ گڑ بڑ ضرور ہوجاتی ہے ، کہ اگرگڑ بڑ نہ ہو تو ان کے شایانِ شان خاکہ لکھا ہی نہیں جاسکتا ۔ فرازؔ کی شخصیت بھی کچھ ایسی ہی ہے ۔ اس بھلے آدمی کی زندگی کی ورق گردانی کیجئے تو قدم قدم پر خطرے کا نشان نظر آئے گا ، ہوش مندی سے اس نے کبھی کوئی کام کیا ہی نہیں اور سچ تو یہ ہے کہ اگر وہ دوسروں کی طرح زیادہ ہوش مند ہوتا تو اتنا بڑا شاعر نہ بن سکتا !
////l
کنور مہندرسنگھ بیدی سحر ؔ
فرازؔ کی شاعری غم دوراں اور غم جاناں کا ایک حسین سنگم ہے ۔ ان کی غزلیں اس تمام کر ب و الم کی غمازی کرتی ہیں جس سے ایک حساس اوررومانٹک شاعر کو دو چار ہونا پڑتا ہے ۔ ان کی نظمیں غم دوراں کی بھر پور تر جمانی کرتی ہیں اور ان کی کہی ہوئی بات ’’ جو سنتا ہے اسی کی داستان معلوم ہوتی ہے ‘‘۔
////l
قمر رئیس
احمد فرازؔ کی آگہی اور ذہانت اپنے عہد کے نت نئے تقاضوں سے پوری طرح باخبر رہی ہے ۔ انھوں نے ظلم و جبر اور استحصال کی سفاک طاقتوں کے مقابلے میں اپنے وطن کے اور ساری دنیا کے دبے کچلے انسانوں کی طرف داری کا عہد کیا ہے اور اس ستم کیش کوچہ میں مجاہدانہ بانکپن سے آگے بڑھتے ہوئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔
قلم کی ناموس اور انسان کی حرمت کا تحفظ ہی احمد فرازؔ کی شاعری کا دستور العمل رہا ہے لیکن اپنے شعری لہجہ کے امتیازات کو پانے کے لیے انھیں بڑی ریاضت کرناپڑی ہے۔ غزل ہو یا نظم شعری پیکروں کی نرمی اور سبک روی ان کے یہاں تازگی اور تاثر کی ایک نئی فضاء پیدا کرتی ہے ۔ ٭
////
شکریہ: منصف
http://www.munsifdaily.com/NEWS/adab.html
 

الف نظامی

لائبریرین
پاکستان ہماری امیدوں کا مرکز ہے اور اس کی محبت ہماری رگوں میں دوڑ رہی ہے 1947 سے ہم اس کے ساتھ الحاق کے لیے تڑپ رہے ہیں ، قربانیاں دے رہے ہیں۔سید علی گیلانی
 

الف نظامی

لائبریرین
فراز کے حب الوطنی کے ایک مظاہرے پر مجھے محسوس ہوا کہ وہ تو مجھ سے بھی زیادہ محب الوطن ہے۔ یہ نومبر 1993 کی بات ہے ہم لوگ اسلام آباد کے ایک ادبی اجتماع میں کشمیر کے مسئلہ ہر ایک قرارداد کی حمایت میں اہل قلم کے دستخط حاصل کر رہے تھے۔ قرارداد میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے ہندوستان سے مجلس اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اس مسئلے کے تصفیے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
فراز کے بارے میں بعض دوست متذبذب تھے۔ میں کاغذ لے کر فراز کے پاس گیا تو اس نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔ تقریبا چنگھاڑتے ہوئے بولا۔۔۔
"یہ کیا لکھ لائے ہو بابا ۔ قراردادوں سے کچھ نہیں ‌ہوگا ، میں دستخط نہیں کرتا"
میں سمجھا وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا مگر پھر جب یہ کہتے ہوئے سنا
"یہ قرارداد بڑی بے جان ہے۔ لہجہ معذرت خواہانہ ہے۔ ہمیں‌ کشمیر کے معاملے میں پوری قوت کے ساتھ "اسرٹ" Assert کرنا ہوگا"
تو اس کے جذبات کی شدت کا اندازہ ہوا۔ وہیں ایک صاحب نے بتایا کہ فراز نے اس مسئلے پر بمبئی میں زی ٹی وی پروگرام "سرحد" میں اپنے مدمقابل ہندوستان کے وکیلوں(سنیل دت ، کلدیپ نیئر ، کرتار سنگھ دگل اور عارف محمد خان ) کو کھری کھری سنائیں، یہ "لال پیلا انٹرویو"۔۔ دیکھنے سننے سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔ کہنا یہ ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کی حب الوطنی کے بارے میں سوئے ظن کرنے میں بڑی عجلت سے کام لیتے ہیں اور اس عمل میں لذت بھی محسوس کرتے ہیں۔
از سید ضمیر جعفری مرحوم
 

گرو جی

محفلین
فراز کے حب الوطنی کے ایک مظاہرے پر مجھے محسوس ہوا کہ وہ تو مجھ سے بھی زیادہ محب الوطن ہے۔ یہ نومبر 1993 کی بات ہے ہم لوگ اسلام آباد کے ایک ادبی اجتماع میں کشمیر کے مسئلہ ہر ایک قرارداد کی حمایت میں اہل قلم کے دستخط حاصل کر رہے تھے۔ قرارداد میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے ہندوستان سے مجلس اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اس مسئلے کے تصفیے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
فراز کے بارے میں بعض دوست متذبذب تھے۔ میں کاغذ لے کر فراز کے پاس گیا تو اس نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔ تقریبا چنگھاڑتے ہوئے بولا۔۔۔
"یہ کیا لکھ لائے ہو بابا ۔ قراردادوں سے کچھ نہیں ‌ہوگا ، میں دستخط نہیں کرتا"
میں سمجھا وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا مگر پھر جب یہ کہتے ہوئے سنا
"یہ قرارداد بڑی بے جان ہے۔ لہجہ معذرت خواہانہ ہے۔ ہمیں‌ کشمیر کے معاملے میں پوری قوت کے ساتھ "اسرٹ" Assert کرنا ہوگا"
تو اس کے جذبات کی شدت کا اندازہ ہوا۔ وہیں ایک صاحب نے بتایا کہ فراز نے اس مسئلے پر بمبئی میں زی ٹی وی پروگرام "سرحد" میں اپنے مدمقابل ہندوستان کے وکیلوں(سنیل دت ، کلدیپ نیئر ، کرتار سنگھ دگل اور عارف محمد خان ) کو کھری کھری سنائیں، یہ "لال پیلا انٹرویو"۔۔ دیکھنے سننے سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔ کہنا یہ ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کی حب الوطنی کے بارے میں سوئے ظن کرنے میں بڑی عجلت سے کام لیتے ہیں اور اس عمل میں لذت بھی محسوس کرتے ہیں۔
از سید ضمیر جعفری مرحوم

احمد فراز احمد فراز تھے بھائی
 
فراز کے حب الوطنی کے ایک مظاہرے پر مجھے محسوس ہوا کہ وہ تو مجھ سے بھی زیادہ محب الوطن ہے۔ یہ نومبر 1993 کی بات ہے ہم لوگ اسلام آباد کے ایک ادبی اجتماع میں کشمیر کے مسئلہ ہر ایک قرارداد کی حمایت میں اہل قلم کے دستخط حاصل کر رہے تھے۔ قرارداد میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے ہندوستان سے مجلس اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اس مسئلے کے تصفیے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
فراز کے بارے میں بعض دوست متذبذب تھے۔ میں کاغذ لے کر فراز کے پاس گیا تو اس نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔ تقریبا چنگھاڑتے ہوئے بولا۔۔۔
"یہ کیا لکھ لائے ہو بابا ۔ قراردادوں سے کچھ نہیں ‌ہوگا ، میں دستخط نہیں کرتا"
میں سمجھا وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا مگر پھر جب یہ کہتے ہوئے سنا
"یہ قرارداد بڑی بے جان ہے۔ لہجہ معذرت خواہانہ ہے۔ ہمیں‌ کشمیر کے معاملے میں پوری قوت کے ساتھ "اسرٹ" assert کرنا ہوگا"
تو اس کے جذبات کی شدت کا اندازہ ہوا۔ وہیں ایک صاحب نے بتایا کہ فراز نے اس مسئلے پر بمبئی میں زی ٹی وی پروگرام "سرحد" میں اپنے مدمقابل ہندوستان کے وکیلوں(سنیل دت ، کلدیپ نیئر ، کرتار سنگھ دگل اور عارف محمد خان ) کو کھری کھری سنائیں، یہ "لال پیلا انٹرویو"۔۔ دیکھنے سننے سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔ کہنا یہ ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کی حب الوطنی کے بارے میں سوئے ظن کرنے میں بڑی عجلت سے کام لیتے ہیں اور اس عمل میں لذت بھی محسوس کرتے ہیں۔
از سید ضمیر جعفری مرحوم

وطن کی سرحدوں سے محبت کرنا اور اس کا اظہار بھی درست جگہ پر کرنا اللہ تعالیٰ سب وطن سے محبت کرنے والوں کو نصیب فرمائے۔ امین ثم امین
 
Top