“ گر نگاہِ گرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط 
شعلہ خس میں جیسے خوں رگ میں نہاں ہوجائے گا “
ضبط بھائی ابھی چچا غالب سے آن لائن اس شعر کی تشریح پوچھی ہے جو کہ کچھ یوں ہے :
شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے اگر آپکی نگاہ ہمیں ضبط کرنے کی ہی تعلیم دیتی رہی ، اور اپنے عشق اور جذبات کے اظہار سے اسی طرح روکتی رہی تو عشق کا جذبہ اس شعلے یا انگارے کی طرح ثابت ہو گا کہ جسکو اگر ہلکی ہلکی ہوا نہ دی جائے تو اس پر راکھ چھا جاتی ہے اور اور اسکی حدت کہیں راکھ کے نیچے دب کے غائب ہو جاتی ہے اور شاعر تشبیہ دیتا ہے اسکو رگوں میں چلنے والے خون سے جو کہ نظر نہیں آتا ۔
کیا ٹھیک ہے؟