طارق شاہ

محفلین

جس رات کے خواب آئے وہ خوابوں کی رات آئی
شرما کے جُھکی نظریں ہونٹوں پہ وہ بات آئی

پیغام بہاروں کا، آخر مِرے نام آیا
پُھولوں نے دُعائیں دیں، تاروں کا سلام آیا

آپ آئے تو محفل میں، نغموں کی برات آئی
جس رات کے خواب آئے وہ خوابوں کی رات آئی

یہ مہکی ہُوئی زُلفیں، یہ بہکی ہُوئی سانسیں
نیندوں کو چُرالیں گی یہ نیند بھری آنکھیں

تقدیر مِری جاگی، جنّت مِرے ہاتھ آیا
جس رات کے خواب آئے وہ خوابوں کی رات آئی

چہرے پہ تبسّم نے اِک نُور سا چمکایا
کیا کام چراغوں کا ، جب چاند نکل آیا

جو آج دُلھن بن کے پہلو میں حیات آئی
جس رات کے خواب آئے وہ خوابوں کی رات آئی

علی سردارجعفری
 

طارق شاہ

محفلین

اُس کی مُٹّھی میں بہت روز رہا میرا وجُود
میرے ساحر سے کہو، اب مجھے آزاد کرے

پروین شاکر
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

یہ مِری رُوح میں گونجتا کون ہے
بند گنبد میں مثلِ صدا کون ہے

کون سبزے کی صُورت میں پامال ہے
سروْ بن کر چمن میں کھڑ ا کون ہے

کِس سے چُھپ چُھپ کے مِلنے کو جاتی ہے تُو
جنگلوں میں ، بتا اے صبا! کون ہے

پُھول کِھلنے کی کوشش سے اُکتا گئے
آنکھ بھر کر اِنہیں دیکھتا کون ہے

بے دلی سے کہاں ہاتھ آتے ہیں ہم
دل لگا کر ہمیں ڈھونڈتا کون ہے

خورشید رضوی
 

طارق شاہ

محفلین

تم نے بھی کم نصیب پہ ، کُچھ کم نگِاہ کی
اُس نے تو خیر، زندگی اپنی تباہ کی

ہم دونوں دُنیا دار نہیں ہیں اِسی لئے
صُورت کوئی نظر نہیں آتی نِباہ کی

پتّھر سمجھ کے تم جسے ٹھکرا کے چل دئے
اُس دل پہ تھی نِگاہ بہت مہر و ماہ کی

جن کی نظر میں پیار گناہِ عظیم ہے
توفیق دے خدا اُنھیں ایسے گناہ کی

حالات بے وفائی پہ مجبُور کرگئے
ورنہ اُسے بھی، چاہ بہت تھی نِباہ کی

اپنے کو رشکِ میر سمجھتے ہیں بدر جی !
گُمراہ ، کر گئی ہے، صدا واہ واہ کی

بشیر بدر
 

طارق شاہ

محفلین
کشورناہید

گھاس بھی مجھ جیسی ہے
پاؤں تلے بچھ کر ہی زندگی کی مُراد پاتی ہے

مگر یہ بھیگ کر کس بات کی گواہی بنتی ہے

شرمساری کی آنچ کی
کہ جذبے کی حِدّت کی

گھاس بھی مجھ جیسی ہے

ذرا سر اُٹھانے کے قابل ہو

تو کاٹنے والی مشین
اِسے محمل بنانے کا سودا لیے
ہموار کرتی رہتی ہے

عورت کو بھی ہموار کرنے کے لیے
تم کیسے کیسے جتن کرتے ہو

نہ زمیں کی نمو کی خواہش مرتی ہے
نہ عورت کی

میری مانو تو وہی پگڈنڈی بنانے کا خیال درست تھا
جو حوصلوں کی شِکستوں کی آنچ نہ سہہ سکیں

وہ پیوندِ زمیں ہو کر
یوں ہی زور آوروں کے لیے راستہ بناتے ہیں

مگر وہ پرکاہ ہیں
گھاس نہیں
گھاس تو مجھ جیسی ہے!

کشور ناہید
 

قیصرانی

لائبریرین
ہم جو شاعر ہیں سخن سوچ کے کب کرتے ہیں

سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیرِ غمِ الفت نہ کروں
اس کو رسوا نہ کروں ، وقفِ مصیبت نہ کروں

سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
واقفِ درد نہیں ، خوگرِ آلام نہیں
سحرِ عیش میں اس کی اثرِ شام نہیں
زندگی اس کے لیے زہر بھرا جام نہیں!

سوچتا ہوں کہ محبت ہے جوانی کی خزاں
اس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا
نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا
سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا

سوچتا ہوں کہ غمِ دل نہ سناؤں اس کو
سامنے اس کے کبھی راز کو عریاں نہ کروں
خلش دل سے اسے دست و گریباں نہ کروں
اس کے جذبات کو میں شعلہ بداماں نہ کروں

سوچتا ہوں کہ کہ جلا دے گے محبت اس کو
وہ محبت کی بھلا تاب کہاں لائے گی
خود تو وہ آتشِ جذبات میں جل جائے گی
اور دنیا کو اس انجام پہ تڑپائے گی
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ معصوم ہے وہ
میں اسے واقفِ الفت نہ کروں

ن م راشد
 
ہم جو شاعر ہیں سخن سوچ کے کب کرتے ہیں

سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیرِ غمِ الفت نہ کروں
اس کو رسوا نہ کروں ، وقفِ مصیبت نہ کروں

سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
واقفِ درد نہیں ، خوگرِ آلام نہیں
سحرِ عیش میں اس کی اثرِ شام نہیں
زندگی اس کے لیے زہر بھرا جام نہیں!

سوچتا ہوں کہ محبت ہے جوانی کی خزاں
اس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا
نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا
سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا

سوچتا ہوں کہ غمِ دل نہ سناؤں اس کو
سامنے اس کے کبھی راز کو عریاں نہ کروں
خلش دل سے اسے دست و گریباں نہ کروں
اس کے جذبات کو میں شعلہ بداماں نہ کروں

سوچتا ہوں کہ کہ جلا دے گے محبت اس کو
وہ محبت کی بھلا تاب کہاں لائے گی
خود تو وہ آتشِ جذبات میں جل جائے گی
اور دنیا کو اس انجام پہ تڑپائے گی
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ معصوم ہے وہ
میں اسے واقفِ الفت نہ کروں

ن م راشد
:surprise:
 

طارق شاہ

محفلین

چڑھا ہے تم پر جو ایک نشّہ اُتر ہی جائے تو کیا کروگے
ذرا بتاؤ ، وفا کا احساس مر ہی جائے تو کیا کروگے

ہماری بربادیوں کے خواہاں ،تمہارے حق میں دُعا ہماری
بگڑ بگڑ کر ہماری قسمت، سنور ہی جائے تو کیا کروگے

ہمارے دل کی سب آرزُوئیں، ہماری سب خواہشیں جدھر ہیں
نہ چاہ کر بھی تمہاری مرضی، اُدھر ہی جائے تو کیا کروگے

یہ ہم نے مانا ہمیں خبر ہے، ہو تم گریزاں ہزار ہم سے
نظر مِلی اور تمہارا چہرہ، نِکھر ہی جائے تو کیا کروگے

ابھی تو دل سے یہ کہہ رہے ہو، کہ زندگی بھر رہو گے تنہا
بھروسہ کیا ہے، کہ دل ہے اور دل بپھر ہی جائے تو کیا کروگے

ابھی تمہاری وفا کا راہی وفا کے رستے پہ گامزن ہے
وفا کا راہی، وفا کی حد سے گذر ہی جائے تو کیا کروگے

ابھی تو جی جان سے ہماری، خطا کی تسبیح پڑھ رہے ہو
مگر، یہ تسبیح ٹوٹ جائے، بکھر ہی جائے تو کیا کروگے

ابھی تو فردا پہ ہیں نگاہیں، ابھی ہے فردا کا ذکر لب پر
مگر کوئی نقش گزرے کل کا، اُبھر ہی جائے تو کیا کروگے

تم اپنے نامے بدستِ قاصد گو دوستوں کے گھروں کو بھیجو
بدستِ عادت، ہے اب جو دشمن کے گھر ہی جائے تو کیا کروگے

فرحان دِل
 

صائمہ شاہ

محفلین
یہ مِری رُوح میں گونجتا کون ہے
بند گنبد میں مثلِ صدا کون ہے

کون سبزے کی صُورت میں پامال ہے
سروْ بن کر چمن میں کھڑ ا کون ہے

کِس سے چُھپ چُھپ کے مِلنے کو جاتی ہے تُو
جنگلوں میں ، بتا اے صبا! کون ہے

پُھول کِھلنے کی کوشش سے اُکتا گئے
آنکھ بھر کر اِنہیں دیکھتا کون ہے

بے دلی سے کہاں ہاتھ آتے ہیں ہم
دل لگا کر ہمیں ڈھونڈتا کون ہے

خورشید رضوی
بے دلی سے کہاں ہاتھ آتے ہیں ہم
دل لگا کر ہمیں ڈھونڈتا کون ہے
 

صائمہ شاہ

محفلین
ہم جو شاعر ہیں سخن سوچ کے کب کرتے ہیں

سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیرِ غمِ الفت نہ کروں
اس کو رسوا نہ کروں ، وقفِ مصیبت نہ کروں

سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
واقفِ درد نہیں ، خوگرِ آلام نہیں
سحرِ عیش میں اس کی اثرِ شام نہیں
زندگی اس کے لیے زہر بھرا جام نہیں!

سوچتا ہوں کہ محبت ہے جوانی کی خزاں
اس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا
نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا
سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا

سوچتا ہوں کہ غمِ دل نہ سناؤں اس کو
سامنے اس کے کبھی راز کو عریاں نہ کروں
خلش دل سے اسے دست و گریباں نہ کروں
اس کے جذبات کو میں شعلہ بداماں نہ کروں

سوچتا ہوں کہ کہ جلا دے گے محبت اس کو
وہ محبت کی بھلا تاب کہاں لائے گی
خود تو وہ آتشِ جذبات میں جل جائے گی
اور دنیا کو اس انجام پہ تڑپائے گی
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ معصوم ہے وہ
میں اسے واقفِ الفت نہ کروں

ن م راشد
واہ آپ کب سے شاعر ہو گئے ؟
 
Top