طارق شاہ

محفلین

اُمّیدِ دیدِ دوست کی دُنیا بَسا کے ہم !
بیٹھے ہیں مہر و ماہ کی شمعیں جلا کے ہم

وہ راستے خبر نہیں کِس سمت کھو گئے
نِکلے تھے جن پہ ، رختِ غمِ دِل اُٹھا کے ہم

پلکوں سے جن کو جلتے زمانوں نے چُن لِیا
وہ پُھول اُس روِش پہ ، تِرے نقشِ پا کے ہم

آئے کبھی تو پھر وہی صُبْحِ طرب ، کہ جب !
رُوٹھے ہُوئے غموں سے مِلیں مُسکرا کے ہم


مجید امجد
 

طارق شاہ

محفلین

نہ چرخِ آسیا ہُوں، نے بھنورہُوں، نے بگولا ہُوں
مجھے تو کیوں لیے اے گردشِ تقدِیر پھرتی ہے

بہادر شاہ ظفر
 

طارق شاہ

محفلین

تُو جو کرتا ہے ملامت ، دیکھ کر میرا یہ حال !
کیا کروں میں، تُو نے اُس کو ناصحا دیکھا نہیں

بہادر شاہ ظفر
 

طارق شاہ

محفلین

دِکھادے باغ میں گُل رُو ، رگِ گُل کو کمر اپنی
کہ نازک اِس کو کہتے ہیں، نزاکت ایسی ہوتی ہے

بہادر شاہ ظفر
 

طارق شاہ

محفلین

دم بہ دم اِس ڈھب سے رونا دیر کر آیا ہمیں
کیا لہو اپنا پِیا تب یہ ہنر آیا ہمیں

گرچہ عالم جلوہ گاہِ یار یوں بھی تھا ولے
آنکھیں جو موندیں عجب عالم نظر آیا ہمیں

تجھ تک اِس بے طاقتی میں کیا پُہنچنا سہل تھا
غش تِرے کُوچے میں ہر ہر گام پر آیا ہمیں

کرچلا بیخود غمِ زُلفِ دراز دِلبراں !
دُور کا اے میر! درپیش اب سفر یا ہمیں

میر تقی میر
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

مُدّت ہُوئی کہ بیچ میں پیغام بھی نہیں
نامے کا اُس کے مُہر سے اب نام بھی نہیں

ایّام ہجر کریے بسر کِس اُمید پر !
مِلنا اُنھوں کا صُبْح نہیں، شام بھی نہیں

پَروا اُسے ہو کاہے کو، ناکام گر مَروں
اُس کام جاں کو، مجھ سے تو کُچھ کام بھی نہیں

رویں اِس اِضطرابِ دِلی کو کہاں تلک !
دن رات ہم کو ایک دم آرام بھی نہیں

کیا جانوں دل کو کھینچے ہیں کیوں شعر میر کے
کچھ طرز ایسے بھی نہیں، ایہام بھی نہیں

میر تقی میر
 

طارق شاہ

محفلین

سینکڑوں آزادیاں ، اِس قید پر حسرت نِثار !
جس کے باعث، کہتے ہیں سب اُن کا زِندانی مجھے

حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین

پستیِ حوصلۂ شوق کی اب ہے یہ صلاح !
بیٹھ رہیے غمِ ہجراں پہ قناعت کرکے

دل نے پایا ہے محبّت کا یہ عالی رُتبہ
آپ کے دردِ دوا کار کی خدمت کرکے

حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین

وہ جب یہ کہتے ہیں، تجھ سے خطا ضرُور ہُوئی
میں بے قصُور بھی کہہ دُوں کہ ہاں حضُور ہُوئی

نظر کو تابِ تماشا سے حُسنِ یار کہاں !
یہ اِس غریب کو تنبیہہ بے قصُور ہُوئی

طُفیلِ عِشق ہے حسرت یہ سب مِرے نزدیک
تِرے کمال کی شُہرت جو دُور دُور ہوئی

حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین

ضبط کا عہد بھی ہے، شوق کا پیماں بھی ہے
عہد وپیماں سے گُزر جانے کو جی چاہتا ہے

درد اِتنا ہے کہ ، ہر رگ میں ہے محشر برپا !
اور سُکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

دلِ مجبُور بھی کیا شے ہے کہ ، در سے اپنے
اُس نے سو بار اُٹھایا تو میں سو بار گیا

حسرت موہانی
 
Top