طارق شاہ

محفلین

دِل کی باتیں سرِ بازار لئے پِھرتی ہیں
پڑھ لیا جب سے ہواؤں نے ہے قصہ میرا

اُس کی یادوں سے کہو ہاتھ پکڑ لیں آ کر
گُم ہُوا جاتا ہے تاریکی میں سایہ میرا

شاہین مُفتی
 

طارق شاہ

محفلین

شکوۂ ہجر کریں بھی تو کریں کِس مُنہ سے
ہم تو اپنے کو بھی ، اپنے سے جُدا کہتے ہیں

گوُنْج اُٹھتی ہے ہر اِک شعر میں تیری آواز
یعنی جو کہتے ہیں، تیرا ہی کہا کہتے ہیں

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

زندگی بھر جن کو سُننے کی تڑپ دل میں رہی
اُٹھ گئے جب ہم جہاں سے، تب صدا دینے لگے

مُنتظر جب ہم رہے ، آیا نہ اُن کو کچھ خیال !
بُجھ گئے جب دل کے جذبے، تب ہَوا دینے لگے

اِک اگر ہو، تو کریں شکوہ ہم اُس کی ذات سے
ہم کو سارے ہی خلش مِل کر سزا دینے لگے

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

یاں کے سپید و سِیاہ میں ہم کو دخل جو ہے ، سو اِتنا ہے
رات کو رو رو صُبح کیا ، یا دِن کو جوُں توُں شام کِیا

میر تقی میر
 

طارق شاہ

محفلین

نہ جانے کون صدا آ رہی ہے کانوں میں
سُنا ہے مذہبِ دِل کُفر ہے، نہ ایماں ہے

تِرے خِرام سے یہ رازِ قُرب و بعد کُھلا !
نہ ہاتھ آئے جو ہاتھ آ کے بھی ، وہ داماں ہے

نہ پوُچھ عرصۂ ہستی کی وُسعت و تنگی
جو چل پڑے تو بیاباں ، رُکے تو زِنداں ہے

بہت قریب کہیں مُسکرا رہا ہے کوئی
رَگِ جُنوں ہے، رَگِ گُل ہے یا رَگِ جاں ہے

فراق گورکھپُوری
 

طارق شاہ

محفلین

آگے آگے بھاگتے پھرتے ہیں ہم
اور تعاقب میں ، وہی یلغارِ شب

اُن کے ہاتھوں پر مُنوّر مہر و ماہ
اپنی قسمت میں ، وہی تکرارِ شب

شاہین مفتی
 

طارق شاہ

محفلین

تھا مُستعار حُسن سے اُس کے جو نوُر تھا
خوُرشید میں بھی اُس ہی کا ذرّہ ظہُور تھا

پُہنچا جو آپ کو تو، میں پُہنچا خُدا کے تئیں
معلوم اب ہُوا کہ بہت میں بھی دُور تھا

آتش بُلند دِل کی نہ تھی ، ورنہ اے کلیم !
یک شعلہ برقِ خرمنِ صد کوہِ طُور تھا

مجلِس میں رات ایک تِرے پَرتوے بغیر
کیا شمع، کیا پتنگ، ہر اِک بے حضوُر تھا

ہم خاک میں مِلے تو مِلے لیکن ، اے سپہر!
اُس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرُور تھا

میر تقی میر
 

طارق شاہ

محفلین

پھر آج اَشک سے آنکھوں میں کیوں ہیں آئے ہُوئے
گُزر گیا ہے زمانہ ، تجھے بُھلائے ہُوئے

یہ نرم نرم ہوائیں ہیں کِس کے دامن کی
چراغِ دیروحرم بھی ہیں جِھلمِلائے ہُوئے

اب اِضطراب سا کیوں ہے کہ مُدتیں گُزرِیں
تجھے بُھلائے ہُوئے، تیری یاد آئے ہُوئے

زمانہ بُھول گیا، بس وہی نہیں بُھولے
گذر گئی جنھیں اِک عُمر یاد آئے ہُوئے

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

غبارِ راہ گُزر کارواں سے آگے ہے
سفر کو دیکھ کے اہلِ سفر کو دیکھتے ہیں

خوشا! بیانِ تمنّا کہ اب ہے قُرب بھی بُعد
کدھر کو دیکھ رہے تھے، کدھر کو دیکھتے ہیں

ابھی تو اپنی خبر بھی نہیں اسِیروں کو
ابھی تو سختیِ دیوارودر کو دیکھتے ہیں

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

یہ سب زمین و زماں پھر بنانا چاہتا ہُوں
بگڑ گیا ہے جہاں، پھر بنانا چاہتا ہُوں

مِری نظر میں یہ دیوار و در نہیں ہیں درست
سو میں گِرا کے مکاں پھر بنانا چاہتا ہُوں

زمینِ مُردہ کو دیتا ہُوں خُونِ دِل خورشید
میں اِس میں ذرّۂ جاں پھر بنانا چاہتا ہُوں

خورشید رضوی
 

طارق شاہ

محفلین

دلِ گُم گشتہ کو اب ڈھونڈ کے کیا لینا ہے
گِر گیا ہو گا کہیں کوُچۂ دِلدار کے پاس

دھڑکنیں تیز ہُوئیں ، اور قدم رُکنے لگے
پھر تِرے شہر میں آ کر، تِری دیوار کے پاس

شاہین مفتی
 

طارق شاہ

محفلین

وہ بچپنے کی نیند تو اب خواب ہو گئی !
کیا عُمر تھی ، کہ رات ہُوئی اور سو گئے

کیا دُکھ تھے، کون جان سکے گا ، نگارِ شب
جو میرے اور تیرے دوپٹے بِھگو گئے

پروین شاکر
 

طارق شاہ

محفلین

اُمیدِ وصْل میں ہم جُھولتے ہیں برسوں سے
یہاں رقیبوں میں تیاریاں ہیں ، جُھولوں کی

شیخ امام بخش ناسخ
 

طارق شاہ

محفلین

غم سے لپٹ ہی جائیں گے ، ایسے بھی ہم نہیں
دُنیا سے کٹ ہی جائیں گے ، ایسے بھی ہم نہیں

دن رات بانٹتے ہیں ہمیں ، مُختلِف خیال !
یُوں اِن میں بٹ ہی جائیں گے ، ایسے بھی ہم نہیں

اِتنے سوال دل میں ہیں ، اور وہ خموش در
اُس در سے ہٹ ہی جائیں گے ، ایسے بھی ہم نہیں

ہم ہیں مثالِ ابر ، مگر اِس ہَوا سے ہم
ڈر کر سِمٹ ہی جائیں گے ، ایسے بھی ہم نہیں

ہیں سختیِ سفر سے بہت تنگ ، پر منیر !
گھر کو پلٹ ہی جائیں گے ، ایسے بھی ہم نہیں

منیر نیازی
 
آخری تدوین:
Top