امجد اسلام امجد آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے

سارہ خان

محفلین
آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
کل شب عجیب عکس مِرے آئنے میں تھے

ہر بات جانتے ہُوئے دِل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کِس مرحلے میں تھے

وصل و فراق دونوں ہیں اِک جیسے ناگزیر
کُچھ لطف اُس کے قُرب میں، کُچھ فاصلے میں تھے

سیلِ زماں کی موج کو ہر وار سہہ گئے
وہ دن، جو ایک ٹاٹے ہُوئے رابطے میں تھے!

غارت گری کے بعد بھی روشن تھیں بستیاں
ہارے ہُوئے تھے لوگ مگر حوصلے میں تھے!

ہِر پھر کے آئے نقطئہ آغاز کی طرف
جتنے سفر تھے اپنے کِسی دائرے میں تھے

آندھی اُڑاکے لے گئی جس کو ابھی ابھی
منزل کے سب نشان اُسی راستے میں تھے

چُھولیں اُسے کہ دُور سے بس دیکھتے رہیں!
تارے بھی رات میری طرح، مخمصے میں تھے

جُگنو، ستارے، آنکھ، صبا، تتلیاں، چراغ
سب اپنے اپنے غم کے کِسی سلسلے میں تھے!

جتنے تھے خط تمام کا تھا ایک زاویہ
پھر بھی عجیب پیچ مِرے مئسلے میں تھے

امجد کتابِ جاں کو وہ پڑھتا بھی کِس طرح !
لکھنے تھے جتنے لفظ، ابھی حافظے میں تھے

(امجد اسلام امجد)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
کل شب عجیب عکس مِرے آئنے میں تھے

ہر بات جانتے ہُوئے دِل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کِس مرحلے میں تھے


وصل و فراق دونوں ہیں اِک جیسے ناگزیر
کُچھ لطف اُس کے قُرب میں، کُچھ فاصلے میں تھے

سیلِ زماں کی موج کو ہر وار سہہ گئے
وہ دن، جو ایک ٹوٹے ہُوئے رابطے میں تھے!

غارت گری کے بعد بھی روشن تھیں بستیاں
ہارے ہُوئے تھے لوگ مگر حوصلے میں تھے!

ہِر پھر کے آئے نقطئہ آغاز کی طرف
جتنے سفر تھے اپنے کِسی دائرے میں تھے


آندھی اُڑاکے لے گئی جس کو ابھی ابھی
منزل کے سب نشان اُسی راستے میں تھے

چُھولیں اُسے کہ دُور سے بس دیکھتے رہیں!
تارے بھی رات میری طرح، مخمصے میں تھے

جُگنو، ستارے، آنکھ، صبا، تتلیاں، چراغ
سب اپنے اپنے غم کے کِسی سلسلے میں تھے!


جتنے تھے خط تمام کا تھا ایک زاویہ
پھر بھی عجیب پیچ مِرے مئسلے میں تھے

امجد کتابِ جاں کو وہ پڑھتا بھی کِس طرح !
لکھنے تھے جتنے لفظ، ابھی حافظے میں تھے

(امجد اسلام امجد)

ہمیشہ کی طرح بہت خوب سارہ۔۔:)
 

مون

محفلین
آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
کل شب عجیب عکس مِرے آئنے میں تھے

ہر بات جانتے ہُوئے دِل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کِس مرحلے میں تھے

وصل و فراق دونوں ہیں اِک جیسے ناگزیر
کُچھ لطف اُس کے قُرب میں، کُچھ فاصلے میں تھے

سیلِ زماں کی موج کو ہر وار سہہ گئے
وہ دن، جو ایک ٹاٹے ہُوئے رابطے میں تھے!

غارت گری کے بعد بھی روشن تھیں بستیاں
ہارے ہُوئے تھے لوگ مگر حوصلے میں تھے!

ہِر پھر کے آئے نقطئہ آغاز کی طرف
جتنے سفر تھے اپنے کِسی دائرے میں تھے

آندھی اُڑاکے لے گئی جس کو ابھی ابھی
منزل کے سب نشان اُسی راستے میں تھے

چُھولیں اُسے کہ دُور سے بس دیکھتے رہیں!
تارے بھی رات میری طرح، مخمصے میں تھے

جُگنو، ستارے، آنکھ، صبا، تتلیاں، چراغ
سب اپنے اپنے غم کے کِسی سلسلے میں تھے!

جتنے تھے خط تمام کا تھا ایک زاویہ
پھر بھی عجیب پیچ مِرے مئسلے میں تھے

امجد کتابِ جاں کو وہ پڑھتا بھی کِس طرح !
لکھنے تھے جتنے لفظ، ابھافظی حے میں تھے

(امجد اسلام امجد)

بیت خوب۔۔ بہت اچھا انتخاب ہے۔۔۔
 
آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
کل شب عجیب عکس مِرے آئنے میں تھے

ہر بات جانتے ہُوئے دِل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کِس مرحلے میں تھے

وصل و فراق دونوں ہیں اِک جیسے ناگزیر
کُچھ لطف اُس کے قُرب میں، کُچھ فاصلے میں تھے

سیلِ زماں کی موج کو ہر وار سہہ گئے
وہ دن، جو ایک ٹاٹے ہُوئے رابطے میں تھے!

غارت گری کے بعد بھی روشن تھیں بستیاں
ہارے ہُوئے تھے لوگ مگر حوصلے میں تھے!

ہِر پھر کے آئے نقطئہ آغاز کی طرف
جتنے سفر تھے اپنے کِسی دائرے میں تھے

آندھی اُڑاکے لے گئی جس کو ابھی ابھی
منزل کے سب نشان اُسی راستے میں تھے

چُھولیں اُسے کہ دُور سے بس دیکھتے رہیں!
تارے بھی رات میری طرح، مخمصے میں تھے

جُگنو، ستارے، آنکھ، صبا، تتلیاں، چراغ
سب اپنے اپنے غم کے کِسی سلسلے میں تھے!

جتنے تھے خط تمام کا تھا ایک زاویہ
پھر بھی عجیب پیچ مِرے مئسلے میں تھے

امجد کتابِ جاں کو وہ پڑھتا بھی کِس طرح !
لکھنے تھے جتنے لفظ، ابھافظی حے میں تھے

(امجد اسلام امجد)


بہت اچھا انتخاب ہے-
 

فاروقی

معطل
آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
کل شب عجیب عکس میرے آئینے میں تھے

ہربات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے

وصل و فراق دونوں ہیں اک جیسے ناگزیر
کچھ لُطف اسکے قرب میں، کچھ فاصلے میں تھے

چھو لیں اسے کہ دور سے بس دیکھتے رہیں
تارے بھی رات میری طرح مخمصے میں تھے

جگنو، ستارے، آنکھ، صبا ، تتلیاں، چراغ
سب اپنے اپنے غم کے کسی سلسلے میں تھے

امجد کتابِ جان کو وہ پڑھتا بھی کس طرح
لکھنے تھے جتنے لفظ ابھی حافظے میں تھے

(امجد اسلام امجد)
 

فرخ منظور

لائبریرین
فاروقی صاحب غزل بہت اچھی ہے لیکن اس میں کچھ غلطیاں ہیں جسکی نشاندہی کر رہا ہوں -
آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
کل شب عجیب عکس میرے آئینے میں تھے

اس شعر میں میرے کی بجائے مرے ہونا چاہیے

امجد کتابِ جان کو وہ پڑھتا بھی کس طرح
لکھنے تھے جتنے لفظ ابھی حافظے میں تھے

اور اس شعر میں جان کی بجائے جاں ہونا چاہیے -
بہت شکریہ!
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ سارہ خان توجہ دلانے کیلیئے، میں نے ٹیگ سے اسے چیک کیا تھا لیکن افسوس جلدی میں سارے ٹیگ نہ دیکھ سکا تھا، بہرحال میں نے اسے یکجا کر دیا ہے۔

اور آپ نے مکمل غزل پوسٹ کی ہوئی ہے، یہ اور بھی اچھی بات ہے!
 
Top