آنکھ، چشم، نین، دیدہ، نگاہ، نظر پر اشعار

شیزان

لائبریرین
ایک ہی شخص کو سو طرح سے سوچا نہ کرؤ
اِس قدر خواب تو آنکھوں کو تھکا دیتے ہیں

کرن رباب نقوی
 

شیزان

لائبریرین
بُجھ گئی کیوں آنچ اِن میں پیار کی
ہو گئے آنکھوں میں جذبے سرد کیوں

دھیرے دھیرے دِل کی دھڑکن میں تِری
بے نیازی بھر رہی ہے درد کیوں
 

شیزان

لائبریرین
دھیرے دھیرے آس کی نبضیں ڈُوب گئیں
میں نے ہاتھ سے وقت نکلتے دیکھا تھا

گھر کی دیواروں پہ نظریں چھوڑ گیا
اُس نے مُڑ کر چلتے چلتے دیکھا تھا
 

شیزان

لائبریرین
ہر اُمید کی آنکھیں ساون بھادوں تھیں
ہر خواہش کو ہاتھ ہی مَلتے دیکھا تھا

جانے کیا پیغام ہوائیں لائی تھیں
ہر آہٹ پہ دِل کو ڈرتے دیکھا تھا
 

شیزان

لائبریرین
آنکھ نے اِتنے برسوں جس کو سینچا تھا
دِل نے وہ ہی خواب اُجڑتے دیکھا تھا

ساری عُمر کا رونا کیوں کر چھوڑ گیا
میں نے تو اُس شخص کو ہنستے دیکھا تھا
 

شیزان

لائبریرین
جینے کی خواہش کو مرتے دیکھا تھا
ہر اُمید کو آپ بکھرتے دیکھا تھا۔ ۔ ۔

ایسی حسرت مرنے والی آنکھ میں تھی
میں نے موت کو حسرت کرتے دیکھا تھا
 

شیزان

لائبریرین
خواب آنکھوں میں دفن رہتے ہیں
بد گُمانی بھی مار دیتی ہے

سانس لینا بھی بُھول جاتا ہے
بے دھیانی بھی مار دیتی ہے
 

شیزان

لائبریرین
دِل ہے وہ زُود رَنج جسے اکثر
شادمانی بھی مار دیتی ہے

دِل کو آنکھوں کے بہتے دریا کی
یہ روانی بھی مار دیتی ہے
 

شیزان

لائبریرین
نین کنارے بھیگے بھیگے
رات کو بارش پھر برسی ہے ؟

سوچ میں گُم ہو، خیر تو ہے نا؟
پیشانی پہ سلوٹ سی ہے
 

شیزان

لائبریرین
تُم خالی افسوس کرؤ گے
میں نے دِل پہ چوٹ سہی ہے

پھر آنکھوں نے خواب بُنے ہیں
پھر قسمت لو اُن پہ ہنسی ہے
 

شیزان

لائبریرین
پہلے تو آنکھوں میں حیرت ٹہری تھی
سمجھ میں آئی بات تو پلکیں بھیگ گئیں

بات بچھڑنے پر ہی ختم نہیں ہوتی
چلا جو کوئی ساتھ تو پلکیں بھیگ گئیں
 

شیزان

لائبریرین
آ ٹھہری برسات تو پلکیں بھیگ گئیں
روئے جب بھی رات تو پلکیں بھیگ گئیں

آنکھوں کو جب گہری کالی برکھا کی
سونپ گیا سوغات تو پلکیں بھیگ گئیں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اس سے پہلے کہ یہ جسم فنا ہو جائے
اس سے پہلے کہ خاکسترِ جاں بھی نہ رہے
اس سے پہلے کہ کوئی حشر بپا ہو جائے
خاک ہونے سے بچا لے کوئی میری آنکھیں
اپنے چہرے پہ لگا لے کوئی میری آنکھیں
کون مگر سہہ سکے گا میری آنکھوں کے عذاب
کس میں یہ حوصلہ ہو گا کہ ہمیشہ دیکھے
ان کی پلکوں کی صلیبوں پہ اترتے ہوئے خواب
جن کی کِرچوں کی چبھن روح تلک اُتر جاتی ہے
زندگی زندگی بھر کے لیے کُرلاتی ہے

احمد فراز

ایک عرصہ پہلے کسی کتاب میں یہ نظم پڑھی تھی۔ کچھ پوسٹ کرنے کا موڈ تھا تو بزورِ حافظہ ٹائپ کردی۔ ہو سکتا ہے کہیں کچھ بھول گئی ہوں۔ یاد آیا یا موقع ملاتو مجموعے میں دیکھ کر درست کر سکوں گی۔ ورنہ کیا کیا جا سکتا ہے سوائے پڑھنے کے۔
 

شیزان

لائبریرین
کانٹوں کی دوستی بھی گھاٹا ہے
پھول نے خود بھی ، زخم کھائے بہت

غالباً آنکھ کی خرابی ہے
آدمی خال خال ، سائے بہت

شہزاد قیس
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ واہ ! بہت عمدہ انتخاب پیش کیا ہے محفلین نے۔

خاص طور پر شیزان بھائی نے تو کمال ہی کردیا۔

شیزان بھائی اس لاجواب انتخاب کا بہت شکریہ۔
 
Top