آنکھ، چشم، نین، دیدہ، نگاہ، نظر پر اشعار

شیزان

لائبریرین
نئے انساں کی جو رعنائی ہے
اَدھ کھُلی نیند کی انگڑائی ہے

اُس کو تکتا ہوُں کہ دم توڑتا ہوُں
آنکھ روشن ہے کہ پتھرائی ہے
 

شیزان

لائبریرین
آنکھوں سے نیند، دل سے سکوں ہوگیا جدا
لگتا ہے اپنے ساتھ کوئی ہاتھ کرگیا

اس پر یقیں بحال ہوا تو وہ ایک دم
اقرار کے مقام پہ آ کر مکر گیا
 

شیزان

لائبریرین
نیند کے نیم سبز کھیتوں میں
فصل خوابوں کی بو گئیں آنکھیں

رنج و غم کے سفید دھاگے میں
سرخ موتی پرو گئیں آنکھیں
 

شیزان

لائبریرین
آنکھوں سے دور صبح کے تارے چلے گئے
نیند آ گئی تو غم کے نظارے چلے گئے

دل تھا کسی کی یاد میں مصروف اور ہم
شیشے میں زندگی کو اتارے چلے گئے
 

شیزان

لائبریرین
نیند کا ہے نہ مجھے دھیان سحر کا سائیں
کیا بنے گا میرے اس دیدۂ تر کا سائیں

میں نے اس واسطے اڑنے کا ارادہ چھوڑا
کیا بھروسہ میرے بھیگے ہوئے پر کا سائیں
 

شیزان

لائبریرین
جانے پھر اگلی صدا کِس کی تھی
نیند نے آنکھ پہ دستک دی تھی

بات خوشبو کی طرح پھیل گئی
پیرہن میرا ، شِکن تیری تھی
 

شیزان

لائبریرین
رسم ہی نیند کی آنکھوں سے اٹھا دی گئی کیا؟
یا مرے خواب کی تعبیر بتا دی گئی کیا؟

آسماں آج ستاروں سے بھی خالی کیوں ہے؟
دولتِ گریہِ جاں رات لٹا دی گئی کیا؟
 

شیزان

لائبریرین
تمہارے بعد مرے زخمِ نارسائی کو
نہ ہو نصیب کوئی چارہ گر، دعا کرنا

نشاطِ قرب میں آئی ہے ایسی نیند مجھے
کھلے نہ آنکھ میری عمر بھر، دعا کرنا
 

شیزان

لائبریرین
جب تک وہ باخبر تھا ، سو اپنی خبر رہی
وہ اجنبی ہوا تو نہ اپنا پتہ مِلا

لمحے کی نِیند تھی، سو کہیں خواب ہو گئی
آنکھوں میں ہم کو اپنی فقط رَتجگا مِلا
 

شیزان

لائبریرین
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
ایک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آجائے تو کیا محفلیں برباد لکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
 

شیزان

لائبریرین
امڈے آتے ہیں آنکھ میں آنسو
پھر بھی محفل میں رو نہیں سکتا

جیسے مزدور کو دوپہر کے قریب
نیند آتی ہے، سو نہیں سکتا
 

شیزان

لائبریرین
نیند تو آئی مگر خواب کے تحفے نہ ملے
کھل گئی آنکھ تو پھر نیند کے لمحے نہ ملے
 

شیزان

لائبریرین
آنکھ میں ٹُوٹ بِکھر جاتے ہیں
سپنے ایسا ہی کرتے ہیں

اُڑ جاتے ہیں وصل میں کیسے
لمحے ایسا ہی کرتے ہیں
 

شیزان

لائبریرین
خواب محض تکلیف ہی دیں گے
آنکھوں کو بتلایا سب نے

لیکن درد تھا قسمت اُن کی
سو یہ کھیل بھی دیکھا سب نے
 

شیزان

لائبریرین
بے وضو دیکھا، نگاہیں جل گئیں
بے سبب ساری وفائیں جل گئیں

جل گئے وعدے اَنا کی آگ میں
اور اُن وعدوں کی آہیں جل گئیں

کرن رباب نقوی
 

شیزان

لائبریرین
بنتے کام بگڑتے دیکھے
آنکھ نے خواب بکھرتے دیکھے

تاج کو خاک پہ آتے دیکھا
ہم نے بھاگ اجڑتے دیکھے
 

شیزان

لائبریرین
اور کوئی پل آنکھ میں اُس کو بھر لیتے
آج نہیں وہ کل جاتا، تو اچھا تھا

اب تو ساری عُمر نہیں یہ جائے گا
ہجر کا لمحہ ٹَل جاتا تو اچھا تھا
 

شیزان

لائبریرین
دِل جو لالہ کے کسی پُھول کے جیسا ہے، اُسے
داغ دیتی ہیں تری سرد نگاہیں اکثر
 

شیزان

لائبریرین
سامنے آ کے اچانک یہ سمجھ سکتے ہو
سُونی آنکھوں میں اُترتی ہے شرارت کیسی

تُم نے خود مُجھ سے کہا تھا نا چلے جانے کو ؟
اب یہ سامان بندھا دیکھ کے حیرت کیسی ؟
 
Top